چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن!




چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن!




  رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ اختتام پذیر ہونےکو ہے،مسلمان عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اپنے لئے اور اپنے پیاروں کے لئے کپڑے،جوتے،چپل،چوڑیاں،مہندیاں اور دیگر ضروری و غیر ضروری اشیاء کی خریداری میں حسب استطاعت ہر مسلمان جٹا ہوا ہے، عید کے دن مہمانوں کے سامنے کیا پیش کرنا ہے، ابھی سے اس کی بھی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں، خرید وفروخت کی اس گہما گہمی میں خوشی ومسرت اور شادمانی و سرور کا ایک خوش گوار احساس ہر مسلمان کے چہرے سے جھلکتا ہے؛ عید کے تصور سے ہی ذہن میں خوشی ومسرت کا عجیب سماں بندھ جاتا ہے؛ بچوں کے چہرے پر مسکان در آنے کے تصور سے ہی روح خوشی کے جذبات سے سرشار ہوجاتی ہے ،


بقول شاعر:
          مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے۔
          چمن دلوں کا کھلانے عید آرہی ہے۔


لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہیکہ سال بھر میں ایک دفعہ آنے والا یہ خوش گوار و دلآویز لمحہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے حق میں اندوہ گیں اور سوگوار ثابت ہوتا ہے؛ دنیا عید کے انتظار میں ہوتی ہے مگر سماج کا یہ طبقہ عید کے تصور سے ہی خوف کھاتا ہے؛ بچوں کی آرزوئیں اور تمنائیں جب ان کے خیالات کی اسکرین پر رقص کرتی ہیں تو ان کے دلوں پر تیشہ چل جاتا ہے،زندگی کا چین و سکون غائب ہوجاتا ہے؛جوں جوں خوشی کایہ دن قریب آتا ہے ان کی افسردگی و پژمردگی میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ؛کیونکہ سماج کا یہ مجبور طبقہ جانتا ہے کہ جب عید آئے گی تب گلی محلے کے بچوں کے چہروں پر تو مسکان ہوگی؛ جسم پر قیمتی پوشاک ہوں گے؛ ہاتھوں میں ماں باپ اور بڑے بھائیوں کی دی ہوئی عیدی ہونگی لیکن اس کے پاس اپنے بچوں کو خوشی دینے کے لئے اس دن ایک پھٹے پرانے لباس کے سوا کچھ نہیں ہوگا؛ سماج کا یہ مظلوم طبقہ اسی ذہنی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے اور عید کا دن آپہونچتا ہے، بچے باپ سے اپنی خواہش کا مطالبہ کرتے ہیں اور ایک بے بس باپ کے دل سے ہر عید پر بے بسی کی یہی فریاد نکلتی ہے:

جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح۔
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا۔

مجھے یقین ہے کہ مفلسی اور غربت کا سامنا ہم کو اور آپ کو بفضل تعالی نہیں کرنا پڑا ہے؛ لیکن کیا ایک زندہ انسانی سماج کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہم اس کا احساس بھی نہیں  کرسکتے ؟

اگر کرسکتے ہیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے ؛ایک مفلس انسان کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے اور اسے کس طرح سے سماج کی علیحدگی کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے؟

جب  ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کو عید کی شاپنگ کرواتے ہیں،اس وقت ہمیں کیوں یہ احساس نہیں ہوتا ہیکہ اسی سماج میں کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جو ہر عید پر ماما سے پوچھتے ہیں کہ اس بار عید پر نئے کپڑے بنیں گے؟جنہیں غریب ماں بڑے پیار سے یہ سمجھا کر جھوٹی تسلیاں دیتی ہےکپڑے پھر بنالیں گے.

 بقول شاعر:
غریب ماں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یوں مناتی۔
پھر بنالیں گے نئے کپڑے یہ عید تو ہر سال آتی ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا ہے جو لوگ اپنے ارد گرد اور قرب وجوار میں بسے فاقہ سے سسکتے انسانوں؛ بے گھر لوگوں اور بےلباس بچوں کو چھوڑ کر رب کی رضا اور روحانیت کو تلاش کرتے ہیں کیا ان میں انہیں رب نظر نہیں آتا؟کیا ان کی ضروریات کو خاموشی سے پورا کردینے سے رب کی رضامندی نصیب نہیں ہوگی؟کیا رب صرف مسجدوں میں دعوتِ افطار دینے سے ہی ملتا ہے؟یا رب کی تلاش کے لئے حج اور عمرہ جیسی مہنگی ترین عبادتیں ہی ضروری ہیں؟
اگر آپ زندہ سماج سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے پہلو میں ایک عدد حساس دل رکھتے ہیں تو یقینا آپ میرے نظریہ سے اتفاق کرینگے کہ خوشی کے اس موسم میں کسی ایک غریب آدمی کی ضرورت کو پورا کردینا ہزار بار دعوت افطار دینے سے بہتر ہے؛ اس لئے آئیے اس بات کا عہد کریں کہ اس بار انشاء اللہ ہمارے ارد گرد سے کوئی ایسی تصویر سامنے نہیں آئے گی جو یہ درشاتی ہوکہ اس مفلس کے چہرہ سے خوشی اس لئے کافور ہیکہ اس کے پاس عید کی خوشی کا انتظام کرنے کا سامان نہیں ہے؛ اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ دعا بھی کرتے رہیں:
        ہر آنگن میں خوشیوں بھرا سورج اُترے۔
       اور چمکتا رہے ہر آنگن عید کے دن۔
               

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے