دل کا روزہ


آٹھواں روزہ آٹھواں 

دل کا روزہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’وَمَنْ یُؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہ‘‘۔ (التغابن:۱۱)
ترجمہ: اور جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے قلب کو راہ دکھادیتاہے۔
دل کی ہدایت ، ہر ہدایت کی بنیاد اور ہر کام کی اصل ہوتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’أَلاَ وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَۃً إِذَا صَلُحَتْ صَلُح الْجَسَدُ کُلُّہُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہ، أَلاَ وَہِيَ الْقَلْبُ‘‘۔
ترجمہ: یاد رکھو! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ ٹکڑا درست رہے گا تو پوراجسم درست رہے گا اور وہ گوشت کا ٹکڑا خراب ہوگیا تو پورا جسم خراب اور تباہ وبرباد ہوجائے گا۔
پس دل کی سلامتی دنیا اور آخرت کی سعادت کا نام ہے اور دل کی بربادی ایک ایسی ہلاکت ہے جس کی انتہاء کا علم صرف اللہ کو ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ‘‘۔ (سورۂ ق: ۳۷)
ترجمہ: اِس میں اُس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جس کے پاس دل ہو یا وہ متوجہ ہوکر کان ہی لگادیتا ہو۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۴۵۰)
ہر مخلوق کے پاس ایک دل ہوتاہے، لیکن یہ دل دو طرح کا رہتا ہے، ایک وہ زندہ دل ہے، جو ایمان ویقین کے نور سے منور اور تقویٰ سے معمور ہو اور دوسرا وہ مردہ دل ہے، جو بے نام ونشان، زنگ آلود اور ہر طرح کی بیماری سے خراب ہوچکا ہو، جو لوگ ذکر اللہ سے غفلت ، لہو ولعب اور بے کار کاموں میں مشغولیت کے عادی ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی دلی حالت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ’’فِي قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا، وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ‘‘۔ (بقرۃ: ۱۰)
ترجمہ: ان کے دلوں میں بڑا مرض ہے سو اور بھی بڑھا دیا اللہ نے اُن کے مرض اور ان کے لیے سزائے درد ناک ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۶)
دوسری جگہ فرمایا: ’’وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ، بَلْ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیْلاً مَا یُؤْمِنُوْنَ‘‘۔ (بقرۃ: ۸۸)
ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارے قلوب محفوظ ہیں بلکہ ان کے کفر کے سبب ان پر خدا کی مار ہے، سو بہت ہی تھوڑا سا ایمان رکھتے ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۵۴)
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: ’’أَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرآنَ أَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ أَقْفَالُہَا‘‘۔ (محمد: ۲۴)
ترجمہ: تو کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا دلوں پر قفل لگ رہے ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۴۱۴)
مزید ارشاد ربانی ہے: ’’وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِي أَکِنَّۃٍ مِمَّا تَدْعُوْنَا إِلَیْہِ وَفِي آذَانِنَا وَقْرٌ‘‘۔ (حم السجدۃ: ۵)
ترجمہ: اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ جس بات کی طرف آپ ہم کو بلاتے ہیں ہمارے دل اُس سے پردوں میں ہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۳۲۳)
ان تمام آیتوں میں جن لوگوں کی دلی حالت بیان کی گئی ہے، ان کے دلوں پر تالا لگ جاتاہے، نتیجتًا وہ زندہ رہتے ہوئے بھی مردہ شمار ہوتے ہیں۔
دشمنانِ اسلام کے دل بھی اُن کے سینوں میں ہی ہوتے ہیں، لیکن اُن کی کیفیت ’’لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَ یَفْقَہُوْنَ بِہَا‘‘ کی مصداق ہوتی ہے، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے: ’’یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ‘‘۔
• مؤمن کے دل کاروزہ رمضان میں بھی ہوتا ہے اور غیر رمضان میں بھی، کیونکہ دل کا روزہ نام ہے، فاسد مادّوں مثلاً شرک اور متعلقاتِ شرک، باطل معتقدات، بُرے وسوسوں، غلط نیتوں اور وحشت آمیز اذیتوں سے دل کو خالی کرلینے کا۔
• مؤمن کا دل اللہ کی محبت اور اس کے اسماء وصفات کی معرفت سے اسی طرح معمور ہوتاہے جس طرح اللہ نے اپنی صفت بیان کی ہے، ایسے ایمان والے کا دل بصیرت کی آنکھوں سے کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ کی کاریگری اور مخلوقات کے رجسٹروں میں مضمر اس کی قدرت کے مناظر کا مطالعہ ومشاہدہ کرتا ہے۔
شاعر کہتا ہے:
میری کتاب تو فضا اور خلا ہے، جس میں میں اُن صورتوں کو پڑھ لیتا ہوں جنھیں کتابوں میں نہیں پڑھ پاتا۔
۔ سچے مؤمن کے دل میں ایک ایسا چمکتا ہوا نور ہوتاہے جس کے ساتھ ظلمت اور تاریکی کا وجود ممکن نہیں اور وہ نور زندہ جاوید رسالت، آسمانی تعلیمات اور ربانی شریعت کا نور ہے، جبکہ اللہ نے انسان کو جس فطرت پر پیدا کیا ہے، وہ نور اِس پر مستزاد ہے، پس ایک سچے مومن کے دل میں دو عظیم نور اکٹھا ہوجاتے ہیں: ’’نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ، یَہْدِيْ اللّٰہُ لِنُوْرِہ مَنْ یَّشَائُ، وَیَضْرِبَ اللّٰہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیْمٌ۔ (النور: ۳۵)
ترجمہ: نور علی نور ہے اللہ تعالیٰ اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے راہ دیدیتا ہے اور اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتاہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۵۷۴)
مؤمن کا دل چراغ اور سورج کی طرح روشن اور صبح صادق کی طرح بارونق رہتا ہے، جبکہ قرآن کریم کی آیتوں کو سُن کر ایمان، تدبر وتفکر کی وجہ سے یقین اور عبرت پذیری کی وجہ سے ہدایت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
۔ مؤمن کے دل کا روزہ کبر سے بھی ہونا چاہئے، کیونکہ تکبر دل کو ہر طرح سے توڑ دیتا ہے، نیز کبر وغرور ایک حرام چیز کا نام ہے، کبر کا خیمہ اور اس کا قیام دل ہی میں ہوتاہے، اور جس دل میں تکبر جگہ بنالیتا ہے وہ دل بیمار، معتوہ اور احمق شمار ہونے لگتا ہے۔ حدیث قدسی میں ہے، اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ’’اَلْکِبْرِیَائُ رِدَائِيْ، وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِيْ فَمَنْ نَازَعَنِيْ فِیْہِمَا عَذَّبْتُہُ‘‘۔
ترجمہ: بڑائی میری چادر اور عظمت میرا ازار ہے، جو شخص مجھ سے اِن دونوں کے بارے میں جھگڑا کرے گا، میں اُس کو عذاب دوں گا۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ! جو شخص تکبر اختیار کرتا ہے، اللہ اس کو ذلیل کردیتے ہیں اور جو شخص تواضع اختیار کرتا ہے اللہ اُس کو بلندی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
۔ مؤمن کے دل کا روزہ خود پسندی سے بھی ہوتا ہے، خود پسندی کہتے ہیں کہ انسان خود اپنے کمالات کا تصور کرے اور یہ خیال کرے کہ وہ دوسروں سے افضل ہے، اور اپنے بارے میں اِس بات کا دعویٰ کرے کہ اُس کو جتنے محاسن حاصل ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہیں اور یہ ہلاکت وبربادی ہی کا دوسرا نام ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:  ’’ثَلاَثٌ مُہْلِکَاتٌ، إِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہ، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَہَوًی مُتَّبَعٌ‘‘۔ خود پسندی کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے عیوب پر نظر رکھے، اپنی کوتاہیوں ، غلطیوں اور گناہوں کو پیشِ نظر رکھے کیونکہ اللہ رب العزت سب کچھ جانتے ہیں، اُس سے نہ تو کوئی چیز مخفی ہے اور نہ ہی وہ کچھ بھولتاہے۔
۔ مؤمن کے دل کا روزہ حسد سے بھی ہوتاہے، کیونکہ حسد اعمالِ صالحہ کو تباہ وبرباد کردیتا ہے، دل کا نور ختم کردیتا ہے، اور رجوع الی اللہ کی کیفیت کو متاثر بھی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’أَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَا آتَاہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ‘‘۔ (نسائ: ۵۴)
ترجمہ: یا دوسرے آدمیوں سے ان چیزوں پر جلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۳۶۲)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لاَ تَحَاسَدُوْا وَلاَ تَبَاغَضُوْا وَلا تَدَابَرُوْا ولاَ تَنَاجَشُوْا‘‘۔
ترجمہ: ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، بغض نہ رکھو، قطع تعلق نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر تین مرتبہ ایک صحابی کے جنتی ہونے کی بشارت دی، پھر جب اُن صحابی سے لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انھوں نے فرمایا، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں سو گیا ہوں اور میرے دل میں کسی کے تئیں حسد یا کینہ رہا ہو یا میں نے کسی مسلمان کو دھوکہ دیا ہو، شاعر کہتا ہے:
عارفین کے روزے رب العالمین کے اشتیاق میں ہوتے ہیں، اُن کے دل ہر وقت روزے سے ہوتے ہیں اور سحر کے وقت وہ اللہ کی مغفرت کے امید وار ہوتے ہیں۔
اللّہم اہد قلوبنا إلی صراطک  المستقیم وثبتنا علی الإیمان یارب العالمین۔ آمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے