حفاظت قرآن Hifazat-e Qur-an

حفاظت قرآن Hifazate Quran 





حفاظت قرآن Hifazat-e Qur-an




تحریر : شفیع اللہ محمد پوری۔۔۔۔۔۔۔

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ 
انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحافظون۔ (سورة الحجر: 9)
عَنْ ابِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ ( طه ) وَ ( يس ) قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ قَالَتْ : طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا ".
( سنن دارمی ، الجزء رقم :4، الصفحة رقم:2147 الرقم الحدیث 3457.)
"اللہ تبارک وتعالی نے آسمان وزمین کی تخلیق سے ایک ہزار سال قبل سورہ طہ اور سورہ یسین کو پڑھا۔ جب فرشتوں نے اس پڑھے ہوئے کو سنا، تو اس کی (قرآن کریم) حلاوت اورشیرینی سے متاثر ہوکر کہا: کتنی بانصیب ہوگی وہ امت، جس کے لیے یہ نازل کیا جائے گا ،کتنے با قسمت ہوں گے وہ سینے، جن میں یہ کلام محفوظ ہوگا، کتنی مبارک ہوں گی وہ زبانیں،جن پر یہ کلام جاری ہوں گے"۔
خدائے ذو الجلال والاکرام نے جس طرح انسانوں کی جسمانی غذا کا انتظام فرمایا ہے ، اسی طرح روحانی غذا کا بھی بے نظیر انتظام اسی مذکورہ بالا کلام کے ذریعہ کیا۔ قیامت کی صبح تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری خودباری تعالی نے لی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :"انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون، "کہ ہم نے قرآن کریم اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
بحمد اللہ کلام خدا وند دشمنوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود اپنی اصلی شکل صورت میں محفوظ تھا ، محفوظ ہے اور محفوظ رہے گا ۔ اور ان دشمنان اسلام کی اسلام اور قرآن کے خلاف ناجائز کوششیں کبھی کارگر ثابت نہ ہوں گی ان شاء اللہ۔ 
یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے گوشہ گوشہ میں ایک حافظ قرآن ملتا ہے جو قرآن کی حفاظت کرتا رہتا ہے۔ پھر بھی اگر اللہ تبارک و تعالی چاہتے، تو تن تنہا اپنے کلام کی حفاظت فرماتے ؛لیکن اللہ رب العزت نے اپنے فضل سے اس حفاظتی نظم میں انسانوں کو شامل فرما کر انہیں یہ شرف اور اعزاز بخشا۔ آج بحمد اللہ ہمارے نونہال اس کلام خداوندی کو اپنے مبارک سینوں میں شب وروز رٹ رٹ کر اپنے سینوں میں محفوظ کرر ہے ہیں۔
کل کومیدان حشر میں جب خدا ان حفاظ اور ان کے سرپرستوں واولیاء کی کامیابی کی خوش خبری سنائے گا ، تو وہاں موجود حضرات خواہش کریں گے کہ ہمارا بھی شمار کسی حافظ قرآن کے والد ، یا کسی سرپرست کے طور پر ہوتا کہ کاش حفاظت قرآن کریم کی اس کڑی میں ہم نے بھی کسی بچے کے حفظ قرآن کریم میں تعاون کیا ہوتا، مدد کی ہوتی، تو آج ہم بھی اس کامیابی سے سرفراز ہوتے ۔
الغرض: وقت موعود آنے سے پہلے پہلے ضرور حفظ قرآن کریں یا کم از کم ایک بچے کو حفظ کرانے کا تہیہ کریں اور اس کی سرپرستی ورہنمائی کریں۔ انشاءاللہ کامیابی وکامرانی مقدر بنے گی اور ایسے لوگوں کا شمار بھی قرآن کریم کے محافظین میں ہوگا۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے