کان کا روزہ




کان کا روزہ


ارشاد باری ہے: ’’إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُوْلٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً‘‘۔ (بنی اسرائیل: ۳۶)
ترجمہ: کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے اس سب کی پوچھ ہوگی۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۳۷۳)
اللہ رب العزت کے دربار میں کان سے اُس کی سنی ہوئی باتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا، جو لوگ اچھی باتوں کو سُن کر اس پر عمل کرتے ہیں اُن کا شمار نیک لوگوں میں ہوتا ہے، اور جو لوگ ہدایت اور حق کی باتیں سننے سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے کانوںکو بند کرلیتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے تو محض افسوس اور ندامت ہی ہے۔ ’’کان‘‘ کا روزہ یہ ہے کہ انسان فحش کلامی، گانے بجانے اور بیہودہ باتوں کو سننے سے دور رہے، اور نیک لوگوں کا اِن تمام چیزوں کے سننے سے تو ہر وقت (رمضان میں بھی اور غیر رمضان میں) روزہ رہتا ہے، جن کے سننے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، بہت سے لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے اعضاء کا صحیح استعمال نہیں کرتے،ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَلَقَدْ ذَرَأَنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَ یَفْقَہُوْنَ بِہَا، وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَ یُبْصِرُوْنَ بِہَا، وَلَہُمْ آذَانٌ لاَ یَسْمَعُوْنَ بِہَا، أُوْلٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ، أُوْلٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ‘‘۔ (أعراف: ۱۷۹)
ترجمہ: اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لیے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ یہ لوگ زیادہ بے راہ ہیں یہ لوگ غافل ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۶۶)
جی ہاں! کچھ لوگوں کے کان تو ہوتے ہیں، لیکن وہ عبرت پذیری کے لیے نہیں سنتے اور نہ ہی غور سے سنتے ہیں، بہت سے لوگوں کا سننا چوپایوں کے سننے کی طرح ہوتاہے، کوئی فائدہ اور نفع نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ اَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ، إِنْ ہُمْ إِلاَّ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً‘‘۔ (الفرقان: ۴۴)
ترجمہ: آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، یہ تو محض چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ اُن سے بھی زیادہ بے راہ ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۱۶)
کتنے لوگ تو ایسے ہیں جن کے کانوں میں ہر وقت گانے بجانے اور حرام باتوں کی آوازیں گونجتی رہتی ہیں، لیکن قرآن کریم اور اقوالِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سننے کی جب باری آتی ہے تو اعراض کرنے لگتے ہیں۔
۔ ایک مؤمن کے لیے قرآنِ کریم کا سماع ایمان وہدایت اور کامیابی کی راہیں کھولتا ہے۔
۔ قرآن کریم کی سماعت سے دل حکمت وسکینت اور سکون واطمینان کی کیفیت سے بہرہ ور ہوتاہے۔
۔ اور اِن سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کریم کی سماعت سے انسان بُرے وساوس، غلط اندیشوں اور گمراہ کن باتوں اور عقائد سے محفوظ ہوجاتاہے۔
۔ کان کی غذا ذکر ونصیحت، علم نافع، عبرت پذیری اور معارف و محاسن سے عبارت ہے، شاعر کہتا ہے:
اے کان! ہدایت کے علاوہ کوئی اور بات بھی نہ سنو، کیونکہ باطل باتوں کو سننا بجائے خود ایک باطل کام ہے۔
۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک بڑھیا کے گھر کے پاس سے گزررہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ’’ہل أتاک حدیث الغاشیۃ‘‘ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، وہ بڑھیا بار بار اِس آیت کی تلاوت کرتی اور روتی رہتی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ’’نعم آتانی، نعم أتانی‘‘  کہنے لگے۔
۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم میں اُن لوگوں کی تعریف کی ہے جو غور سے اور اچھی طرح سے سنتے ہیں، چنانچہ ارشادِ ربانی ہے: ’’وَإِذَا سَمِعُوْا مَا أُنْزِلَ إِلَی الرَّسُوْلِ تَرَی أَعْیُنُہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ‘‘۔ (المائدۃ: ۸۳)
ترجمہ: اور جب وہ اس کو سنتے ہیں جو رسول کی طرف بھیجا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھیں آنسو سے بہتی ہوئی دیکھتے ہیں،اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۵۰۵)
روزے داروں کے ’’کان‘‘ ہمیشہ اچھی باتیں سنتے ہیں اور فضول کاموں میں مشغول لوگ اِدھر اُدھر کی باتیں ہی سنتے ہیں، شاعر کہتا ہے:
تم صرف سچی بات سنو! اِس کے ذریعہ تم بے ہودہ گوئی سے محفوظ ہوجاؤ گے، ’’کان‘‘ علوم کا دروازہ ہوتے ہیں، بہتر ’’کان‘‘ وہ ہیں جو تلاوت کرنے والوں کی تلاوت کو غور سے سنیں۔
۔ جب مسلمان کا کان غلط باتوں کو سننے کی اجازت دے دیتا ہے، تو دل ویران ہوجاتاہے، عزائم کا محل منہدم ہوجاتاہے اور بستانِ معرفت فساد کا شکار ہوجاتاہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں دو طرح کے لوگوں کی صفت بیان کی ہے، ارشاد ہے: ’’وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَنْ یَّقُوْلُ أَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہ إِیْمَانًا، فَأَمَّا الَّذِیْنَ آمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ إیْمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ، وَأمَّا الَّذِیْنَ فِي قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کَافِرُوْنَ‘‘۔ (التوبۃ: ۱۳۴، ۱۳۵)
ترجمہ: اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان میں ترقی دی، سو جو لوگ ایمان دار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان میں ترقی دی ہے اور وہ خوش ہورہے ہیں اور جن کے دلوں میں آزار ہے اس سورت نے ان میں ان کی گندگی کے ساتھ اور گندگی بڑھا دی اور وہ حالتِ کفر ہی میں مرگئے۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۱۶۵)
حق بات کو سننے سے حق پر استقامت نصیب ہوتی ہے، اور باطل کو سننے سے دل میں باطل کے آثار پیدا ہوتے ہیں۔
۔ ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سننے کی نعمت پر اللہ کی تعریف وتوصیف کرے، اور اِس نعمت کو اللہ کی مرضیات میں صرف کرے، زیادہ سے زیادہ قرآن کو سنے علمی حلقوں میں حاضری دے اور حکمت کی باتوں سے دلچسپی لے، گناہ کی باتوں، فحش کلامیوں اور اللہ سے پھیر دینے والی ہر بات کو سننے سے اعراض کرے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَإِذَا مَرُّوْا باللَّغْوِ مَرُّوا کِرَامًا‘‘۔ (الفرقان: ۷۲)
ترجمہ: اور اگر بے ہودہ مشغلوں کے پاس ہوکر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزرجاتے ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۲۲)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’وَإِذَا سَمِعُوْا اللَّغْوَ أعَرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ، سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ لاَ نَبْتَغِي الْجَاہِلِیْنَ‘‘۔ (القصص: ۵۵)
ترجمہ: اور جب کوئی لغوبات سنتے ہیں تو اُس کو ٹال جاتے ہیںاور کہہ دیتے ہیںکہ ہمارا کیا ہمارے سامنے آوے گا اور تمہارا کیا تمہارے سامنے آوے گا، ہم تم کو سلام کرتے ہیں، ہم بے سمجھ لوگوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔ (بیان القرآن، ج: ۳/ ۸۸)
جعلنا اللّٰہ ممن یستمع القول فیتبع أحسنہ۔ آمین


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے