پیٹ کا روزہ

پیٹ کا روزہ

کھانا چاہے حلال ہو یا حرام، انسان کی زندگی اور اس کے اخلاق وکردار پر اس کھانے کا اثر پڑتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’یَا أَیُّہَا الرَّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا‘‘۔ (المؤمنون: ۵۱)
ترجمہ: اے پیغمبرو! تم نفیس چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو۔ (بیان القرآن، ج: ۲/ ۵۴۲)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ‘‘۔ (البقرۃ: ۱۷۲)
ترجمہ: اے ایمان والو! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو مرحمت فرمائی ہیں ان میں سے کھاؤ، اور حق تعالیٰ کی شکر گزاری کرو اگر تم خاص اس کے ساتھ غلامی کا تعلق رکھتے ہو۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۱۰۷)
’’طیبات‘‘ ان کھانوں کو کہتے ہیں جنھیں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی حلال قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ‘‘۔ (الأعراف: ۱۵۷)
ترجمہ: اور پاکیزہ چیزوں کو ان کے لیے حلال بتلاتے ہیں اور گندی چیزوں کو اُن پر حرام فرماتے ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۲/۵۶)
پیٹ کا روزہ یہی ہے کہ انسان اس کو حرام کھانے سے محفوظ رکھے اور ماہِ رمضان میں پیٹ کا روزہ یہ بھی ہے کہ انسان روزہ توڑنے والے کوئی بھی چیز نہ کھائے، نہ پیے، اسی طرح افطار کے وقت جب یہ روزہ مکمل ہو تو سود وغیرہ سے بچے، کوئی سودی چیزنہ کھائے، نہ پیے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَأْکُلُوْا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَۃً‘‘۔ (آل عمران: ۱۳۰)
ترجمہ: اے ایمان والو! سود مت کھاؤ، کئی حصے زائد۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۲۷۳)
دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’وَأَحَلَّ اللّٰہُ البَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا‘‘۔ (البقرۃ: ۲۷۵)
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۱۸۸)
اسی طرح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: ’’لَعَنَ رَسُوْل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاہِدَیْہِ وَقَالَ ہُمْ سَوَائٌ‘‘۔
ترجمہ: یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود (کے معاملات) لکھنے والے اور سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت بھیجی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: کہ یہ سب گناہ میں یکساں ہیں۔
•  سود کھانے والا خود اپنے اوپر ہنستا ہے، اپنا پیٹ حرام چیزوں سے بھرتا ہے، اسی طرح وہ اپنے لیے دعا کی مقبولیت کے تمام دروازے بند کرلیتا ہے، اور پھر دعا بھی کرتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر پراگندہ حال، غبار آلود اور طویل سفر کرنے والے شخص کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یَمُدُّ یَدَیْہ إِلَی السَّمَائِ وَمَطْعَمُہُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُہُ حَرَامٌ وَغُذِّيَ بالْحَرَامِ فَأَنَّی یُسْتَجَابُ لَہُ‘‘۔
یعنی بسا اوقات انسان دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا پینا، بلکہ اُس کی مکمل غذا حرام کی ہوتی ہے تو بھلا ایسے شخص کی دعا کیونکر قبول ہوگی۔
یہ اُس شخص کا حال ہے جو عبادت تو بکثرت کرتا ہے، لیکن کھانے پینے کے معاملے میں تقویٰ اختیار نہیں کرتا۔
۔ اُس شخص کا روزہ کیونکر قبول ہوسکتا ہے جو سود کھاتاہو، حرام کمائی اس کی غذا ہو، دھوکہ دہی اس کا شیوہ ہو، یتیم کا مال اور نا حق ذرائع سے حاصل شدہ مال کھانے میں اُس کو لطف ملتا ہو۔
•  جب کھاناپینا حلال نہ ہو تو انسان کا ذوق کیونکر صالح ہوسکتا ہے؟ دل کیونکر سخت نہ ہو؟ حرام لقمہ تو ایمان کا نور ضائع کردیتا ہے۔
• حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کھانا کھایا، پھر اپنے خادم سے پوچھا کہ یہ کھانا کہاں سے آیا؟ تو اُس نے کہا کہ یہ کھانا اُس ’’کہانت‘‘ کی کمائی سے آیا ہے، جو زمانۂ جاہلیت میں میرا پیشہ تھا، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے زبر دستی قے کی اور سارا کھانا باہر نکال دیا۔
•  پیٹ میں موجود ایک لقمہ بھی گوشت اور کھانے کے ساتھ اثرانداز ہوتاہے اور جو جسم حرام غذا سے پرورش پائے اُس کو جہنم کی سزا ہی زیادہ زیب دیتی ہے۔
سلفِ صالحین کو معلوم تھا کہ اُن کا کھانا کہاں سے آتاہے، حرام سے وہ بچتے تھے، اسی لیے ان کی روحیں پاکیزہ ہوتی تھیں،اُن کے جسم صحت مند ہوتے تھے اور دل منور رہتے تھے، لیکن جب آج کے لوگوں کے کھانے فاسد ہوگئے تو اُن کے دلوں سے ہدایت اور صالحیت کے تمام انوار مٹ گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ مَا أَکَلَ عَبْدٌ طَعَامًا خَیْرًا مِنْ أَنْ یَأْکُلُ مِنْ کَسْبِ یَدِہ وَإِنَّ نَبِيَّ اللّٰہ دَاؤدَ علیہ السلام، کَانَ یَأْکُلُ مِنْ طَعَامِ یَدِہ‘‘۔
ترجمہ: سب سے اچھا کھانا انسان کی اپنی کمائی کا کھانا ہوتاہے، حضرت داؤد علیہ السلام ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، چنانچہ انبیاء کرام علیہ السلام میں حضرت زکریا علیہ السلام نجّار (بڑھئی) تھے، حضرت داؤد علیہ السلام حدّاد (لوہار) تھے جبکہ  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام بکریاں چراتے تھے، اسی لیے اسلام کسبِ حلال اور طلبِ رزق کی دعوت دیتا ہے، لیکن شرعی دائروں میں رہ کر، ارشاد باری ہے: ’’وَلاَ تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ إِلاَّ بالَّتِي ہِیَ أَحْسَنُ‘‘۔ (الأنعام: ۱۵۲)
ترجمہ: اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۶۰۱)
اسی طرح فرمایا: ’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ أمْوَالَ الْیَتَامٰی ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُوْنَ فِي بُطُوْنِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا‘‘۔ (نسائ: ۱۰)
ترجمہ: بلا شبہ جو لوگ یتیموں کا مال بلا استحقاق کھاتے ہیں اور کچھ نہیں اپنے شکم میں آگ بھررہے ہیں، اور عنقریب جلتی آگ میں داخل ہوںگے۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۳۲۳)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’وَلاَ تَأْکُلُوْاا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِل وَتُدْلُوْا بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوْا فَرِیْقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘‘۔ (البقرۃ: ۱۸۸)
ترجمہ: اور آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ اور اُن کو حکام کے یہاں اس غرض سے رجوع مت کرو کہ لوگوں کے حالوں کا ایک حصہ بطریق گناہ کے کھاجاؤ اور تم کو علم بھی ہو۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۱۲۲)
’’الَّذِیْنَ یَأْکُلُوْنَ الرِّبَا لاَ یَقُوْمُوْنَ إِلاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِي یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ‘‘۔ (البقرۃ: ۲۷۵)
ترجمہ: جو لوگ سود کھاتے ہیں نہیں کھڑے ہوںگے مگر جس طرح کھڑا ہوتا ہے ایسا شخص جس کو شیطان خبطی بنادے لپٹ کر۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۱۸۸)
۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لَعَنَ اللّٰہُ الرَّاشِيْ وَالْمُرْتَشِيْ‘‘ رشوت لینے والے اوردینے والے دونوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
۔ غلط روش پر چلنے والے یہود ونصاریٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَتَرٰی کَثِیْرًا مِنْہُمْ یُسَارِعُوْنَ فِي الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَکْلِہِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ‘‘۔ (المائدہ: ۶۲)
ترجمہ: اور آپ اُن میں بہت آدمی ایسے دیکھتے ہیں جو دوڑدوڑ کر گناہ اور ظلم اور حرام کھانے پر گرتے ہیں، واقعی ان کے یہ کام بُرے ہیں۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۴۹۲)
علامہ ابن الجوزی ؒ، صید الخاطر میں اپنا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ:انھوں نے ایک مرتبہ کوئی مشتبہ کھانا کھالیا، جس کی وجہ سے اُن کی دلی کیفیت تبدیل ہوگئی اور ایک لمبے زمانے تک انھیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا پوری زندگی تاریکی کا شکار ہوگئی ہو، یہ ہمارے وہ اسلاف تھے جن کے دل یقینا پاکیزہ تھے تبھی تو دل کی تبدیلی کو بجا طورپر محسوس کیا، لیکن آج تو حرام کھانے کی عادت عام ہوچکی ہے، اس لیے کسی کو کچھ احساس ہی نہیں ہوتا۔
۔ کچھ لوگ شراب اور مسکر چیزوں کے عادی ہوتے ہيںچنانچہ عبادت وطاعت کی لذت سے محروم ہوجاتے ہیں اور سعادت ومقبولیت سے محروم ہوکر بے چینی اور اضطراب کی زندگی گزارتے ہیں۔
پس روزہ داروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ روزہ پیٹ کا بھی ہوتاہے، اس لیے حرام اور مشتبہ امور سے بچتے ہوئے کھانے پینے میں بھی ورع وتقویٰ کا مظاہرہ ضروری ہے۔
خدایا! تو ہمیں حرام کو حرام سمجھنے اور حلال کو حلال سمجھنے کی توفیق مرحمت فرما۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے