رمضا ن :عالم ِاسلام کے لیے چند قا بل تو جہ پہلو


رمضا ن :عالم ِاسلام کے لیے چند قا بل تو جہ پہلو

اللہ عزوجل نے امت ِمحمدیہ کی طا قت اعتراف ِوحدانیت اور اجتماعیت میں رکھی ہے ؛اسی لیے قر آن نے اس امت کوجہاں  امت ِوحدت قرار دیا ہے، وہیں تما م مسلمانوں کو آپس میںایک دوسرے کا بھائی بھی، قرآن نے ایک مو قع پر بڑے نمایاں الفا ظ میں اس امت کی تعریف کی ہے، فر ما یا !’’إِنَّ ہٰذِہٖ أُمَّۃٌ وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنَ ‘‘۔ (المؤمنون: ۵۲)
دوسری جگہ جذبۂ اخو ت ومحبت کو اہل ایما ن کی طا قت بتلا یا ہے، فرمایا! ’’إِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَۃٌ ‘‘ایک اور مقا م پر نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلما نو ں کو جسدِ واحد سے تعبیر کیا ہے: ’’مَثَلُ الْمُسْلِمِیْنَ فِي تَوَادُّہِمْ وَتَرَاحُمِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالْحُمّٰی وَالسَّہْرِ‘‘ یعنی کہ اگر ایک انسا ن بیماری کا شکا ر ہو جاتا ہے، تو بے خو ابی اور بخا ر کی وجہ سے جسم کے دیگر اعضا ء بھی بیما ر پڑجا تے ہیں ، یہی حا ل اہل اسلام کا ہو نا چا ہیے ، ان کی آپسی محبت اور رحمت کا یہی عا لم ہو نا چاہیے ، ایک مسلما ن اگر کسی تکلیف اور مشقت میں مبتلا ہو تو دوسروں کو بھی اس سے تڑپ اٹھنا چا ہیے ، اس کے ازا لہ کے لیے فکر مند بھی ہو نا چا ہیے! 

یہیں رک کرہم سب کو رمضان کے ان مابقیہ چند دنوں میں ایک لا ئحہ عمل طے کر نے کی ضر ورت ہے! یا د رکھیں ! کہ رمضا ن کا یہ با بر کت مہینہ صر ف ایک انسا ن کی ذاتی زندگی میں تبدیلی نہیں پیدا کر تا ہے؛بلکہ ذوات سے آگے بڑھ کر افر اد ، معا شرہ ، بستی ، شہر ، اور ان سے دو قدم آگے بڑھ کر عا لمی معیا ر اور پیمانے پر بھی عا لمِ اسلا م کے مصائب ومشکلا ت کے حل کے لیے کسی نسخۂ کیمیا سے کم نہیں !بس شر ط یہ ہے کہ ہم سوچیں ، سمجھیں ،تدبر وتفکر سے کام لیں ، خدا اور رسول ؐکی ہدایات اور تعلیما ت کو مقتدا ء اور رہنما بنائیں ، سنجید گی ،عزم وارادہ ہما را ہتھیا ر ہو: اگر عمل ِپیہم اور جہد ِمسلسل ہما رے رفیق ہو ں، تو کا میا بی قدم چو منے کے لیے تیا رہو گی ،اس کے یہا ں تخلف نہیں ہو تا ، ذرا ایک لمحے کے لیے غو ر تو کر یں کہ !رمضان کا یہ مہینہ رخصت ہو نے کو ہے، چند محدو د اور گنی چنی سا عتیں رہ گئی ہیں اور ہم نے عا لم اسلا م کی مو جو دہ صو رت ِحا ل کو پیش ِنظر رکھ کر کون سی پیش رفت کی ؟یا کم از کم :سکو ن و اطمینا ن کے ان لمحا ت میں اس بابت ہم نے کو ن سا منصو بہ تیا ر کیا ہے اور کس حد تک اپنی دعا ئوں میں رب العا لمین سے حا لات کی درستگی کی التجا ء کی ہے؟ رمضا ن کے اس مہینہ میں بھی اہل اسلا م طرح طرح کی پریشانیوں،تنگیو ں اور مختلف طر ح کے بحر ان کے شکا رہیں ، ذیل میں کچھ چیزیں نقل کی جارہی ہیں ۔
(۱) کمیو نزم :(یہ ایک فکر ی مذہب ہے جو ملکیت کے عمو م اورفر دکو اس کی صلاحیت کے مطا بق کا م کر نے اور بقدر ضرو رت منفعت حا صل کر نے کی بنیا د پر قا ئم ہے) آج اس مذہب کا عَلم لہرا رہا ہے، جو طاقت ور اور مزدو ر ہر ایک کو نگلنے کے لیے بیتاب ہے اور آگ کے انگا رو ں میںمسلما نوں کو  جھلسانے اور تبا ہ وبر باد کرنے کے در پے ہے، نئی نسل کے دلو ں میں الحاد ولا دینیت کا بیج بو رہا ہے، معا شی واقتصا دی طور پر اپنے افکا ر دنیا پر تھوپ رہاہے ؛نیز علمی نظریا ت کو متا ٔثر کر نے میں بھی کسی سے کم نہیں۔
(۲)سر ما یہ دارانہ نظا م :(جس میں حقِ ملکیت ہر شخص کو بلا قید حا صل ہو تا ہے)جو خو اہشا ت ولذات کا سہا را لے کر ، عو رت ، جام وشراب ، لہو ولعب ، محر ما ت اور بے ہو دگیو ں کو مبا ح قر ار دے کر عا لمِ اسلا م کے خلا ف فکری جنگ کی تیا ر ی کر رہاہے ، بلکہ عملی طور پر میدان ِجنگ میںہے، اور ہمیں احسا س بھی نہیں !
(۳)سیکو لرازم:(مذہبی تقیدا ت سے آزاد رہنے کا نظریہ ، جس میں تعلیم اور نظام ِ حکو مت خا لص دنیو ی اورا خلا قی ہو ، اس میں مذہبی عقا ئد کو دخل نہ ہو) یہ نظام دین اور دنیا کے ما بین تفریق کا قا ئل ہے، اسلا م کو زندگی کے دا ئرہ ٔکا رسے دور رکھنا چاہتا ہے، اور دلیل یہ دیتا ہے کہ دین قو مو ں کے ما بین تفریق اور جد ائیگی کو پسند کر تا ہے، یا در کھیے! کہ علما نیت ( سیکو لرازم جس میں مذکو رہ شر طیں ملحو ظ ہوں) ایک ملحدا نہ نظریہ کا نا م ہے، اس میںمذا ہب وادیا ن کا کو ئی پاس نہیں اور اسلا م پر تو یہ کسی بھی صورت میں راضی نہیں ہو تا ، نہ تو اجمالاً اسلا م قبو ل کر تا ہے اور نہ ہی تفصیلا ً۔
(۴) ما سو نیت :یہ ایک یہو دی پلیٹ فا رم ہے، جس کا مقصد جملہ ادیا ن ؛بطور خا ص اسلا م کا خا تمہ ہے، بظاہر تو یہ اتحاد کا داعی ہے، عا لمی پیمانہ پر اس کے اسبا ب ووسائل ،ذرائع ، مردان کا راور پارٹیا ں پھیلی ہو ئی ہیں ، جو خا لص یہو دی نظریے پر اپنے مقصد کی طرف رواں دواں ہیں ۔
ان مذکورہ امو ر کے پہلو بہ پہلو آج عا لم اسلام کے صاف وشفا ف جسم پر کچھ مہلک زخم لگ چکے ہیں ، جن کااس کے جسم سے ازالہ انتہا ئی ضروری ہے۔
آج فلسطین اہل اسلام کے ہاتھو ں سے نکل چکا ہے، مسجد اقصی نزاع کا شکا ر ہے، صبح وشا م ، بو ڑھے ، بچے اور عو رتیں سر عام قتل کیے جا رہے ہیں ، فلسطین کی بحالی کے لیے آج حضرت عمر بن الخطا بؓکی ہیبت ، صلا ح الدین ایو بیؒ کی جرأت ، اور ابن تیمیہؒ کی صدا قت در کا ر ہے، ابھی ما ضی کی با ت ہے کہ افغا نستا ن کو تبا ہ و بر با د کر نے کی ہرممکن کو شش کی گئی ہے، شہروں اور بستیوں کو اجا ڑا گیا ، مسا جد کو منہدم کر دیا گیا اور اس پوری کا روائی میں دشمن کے ٹینکو ں اور ہتھیا روں کا ہی دخل تھا کسی اور کا نہیں ، ہزاروں پناہ گزیں ایسے ہیں جنہیں رہنے کے لیے مکا ن ،کھا نے پینے کے لیے روٹی اور پا نی اور پہننے کے لیے کپڑے نہیں میسر ہو ئے ، اہل اسلا م اور دشمنا ن اسلا م کے مابین آج بھی اسلا میت اور کمیو نزم کی جنگ جا ری ہے، جا ری ہی نہیں میدا ن ِکا رزار کا فی گرم ہوچکاہے۔
ما ضی ہی کی با ت ہے کہ روس ، آذربا ئیجا ن ، ازبکستا ن اور تر کستا ن ظلم ونا انصا فی ، ہلا کت وبر با دی اور بھک مری کے خلا ف شکایت کر رہے تھے (اور آج شام میں خو ن اور آگ کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے )غربت وحمیت کی صدا ئیں ہو ا میں ٹکرا رہی ہیں،اگر کوئی اپنے کا ن کو استعما ل کر تا ہے، اور ان سے عملی زندگی میں تعا ون حا صل کر تا ہے، تو کر سکتا ہے۔
مسلما ن عو رتیں ، حجا ب و نقا ب ‘ عزت و آبر و ، دین اور پاکدا منی کے تئیں مخا لفین سے جنگ کر رہے ہیں ،مسلم نو جوان شیطا نی دھو کو ں ، لذا ت وخو اہشا ت اور دیگر انہدامانہ کا رروائیوں کے شکا ر ہیں ۔
نصرانیت : مشرق ومغر ب اور شما ل وجنو ب میں عالم اسلا م پرمسلسل حملہ کر رہی ہے، یہ اغیا ر تو ایک طرف ، اس کے علا وہ خو د مسلمان آج اتنے فر قو ں میں تقسیم ہو چکے ہیں کہ ان کی آپسی صفیں انتشا ر کا شکا رہو رہی ہیں ، اتحا د تقریبا ًنا پید ہو چکا ہے،ان حالات کو سامنے رکھ کر مسلما نوں کو اپنے مو قف پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ممکن ہے کہ اسی سے ہما رے مسلم بھائیوں کو مشرق ومغرب میں کچھ نصیحت ملے !ایک مسلما ن کوچاہیے کہ ان مسائل کو اپنا احسا س اور اپنی فکر بنا لے ،انہیں کے سا تھ اس کی زندگی بسر ہو ، اپنی دعا ئوں میں کبھی ان احوال سے اعر اض نہ کر ے ، خطرا ت اور واقعا ت کو بیان کر کے مسلم بھائیو ں کو بید ار کرتا رہے، انہیں اتحا د کی دعو ت ،اختلا ف سے بچنے کی تلقین کر ے ، عا لم اسلام کے ان مصا ئب سے لو گوں کو آگا ہ کرتا رہے ؛ اسی طرح ایک مسلما ن کے دل میں کبھی بھی کس کی تحقیر نہ پیدا ہونی چاہیے !ایک مسلمان کو چاہیے کہ جان و ما ل کو اللہ کے راستے میں لگا دے ، اعذار کو پس ِپشت ڈا ل دے ، دینا رو درہم ، روپیہ ،پیسہ ہر چیز سے مسلما نوں کا تعا ون کر تا رہے، نماز میںاور تہجد میں ،قبو لیت کے دیگر اوقا ت میں مسلمانوںکے لیے مدد اور روئے زمین میں استحکام اور قوت کی دعا ء کرے، تقوی کی دعوت دے اور خو د بھی عمل پیرا ہو ، کیوں کہ آج مسلمان جتنے بھی مصائب ومسائل کے شکار ہیں، ان میںمحض ہمارے ہی گنا ہوں اور کو تاہیوںکادخل ہے۔

امت ِمسلمہ پہلے فتح وکا مرا نی کے سا تھ رمضا ن کا مہینہ گزارتی تھی ، لیکن حا لیہ دنوں میں جب وہ قرآن وحدیث کے پیغام پر عمل اور اس کی تبلیغ میں کو تاہ ثا بت ہوگئی ، دنیا اس کا مقصد بن گئی تو آج رمضا ن کا یہ مہینہ بھی غم وآلا م اور ہلا کت و بر با دی کے ساتھ گزارنے پر مجبو ر ہے، لیکن اللہ کی سنت ہے کہ جب بندہ اس کی طرف لو ٹتا ہے تو وہ اس کی مدد کر تا ہے:  ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ تَنْصُرُوْا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أقْدَامَکُمْ‘‘(محمد: ۷) ’’وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ‘‘ (آل عمران: ۱۲۶) ’’إِنْ یَّنْصُرُکُمُ اللّٰہُ فَلاَ غَالِبَ لَکُمْ ‘‘ (آل عمران: ۱۶۰)خدایا !ہماری مدد فر ما !دین پر ثا بت قدم فرما! ۔۔۔۔۔۔۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے