رمضا ن تو بہ کا دروازہ ہے


رمضا ن تو بہ کا دروازہ ہے


رمضان المبا رک کے اس مہینہ میں اہل ایمان پررحمت کے دروا زے کھول دیے جا تے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہر مسلما ن اپنی ذاتی دلچسپی اور مشغو لیت کے اعتبار سے اس مبا رک ما ہ میں مختلف ایمانی منا فع کے حصو ل کی کو شش کر تا ہے، ان منا فع میں سے ایک بہت بڑا ایما نی نفع ’’تو بہ ‘‘ہے، اس مہینہ میں رب کی طرف مو من کی انا بت وتو جہ میں اضافہ ہو تا ہے ، وہ بکثر ت اپنی ذات کا محاسبہ کر تاہے اور اپنے اعمال وافعال کا مجمو عی جائزہ بھی لیتا ہے، کہ آیا ان کی کیفیت وکمیت میں اضا فہ ہوا ہے ، یا کمی ؟
تو بہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ، رب العالمین کی عطیا ت ہر انسا ن کو عام ہیں ، اس کے احسا نا ت کا کو ئی خا ص وقت نہیں ، صبح وشا م ، ہر وقت اس کی نعمتیں برستی رہتی ہیں ، ان سب کے با وجو د رب العزت خو د اپنے گنہگا راور مغفرت کے طلب گا ر تو بہ کر نے والے بندو ں کی تو جہ اپنی طرف مبذو ل کرا تاہے، اور یہ اعلان بھی کر تا ہے، ’’قُلْ یَا عِبَادِيَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰی أَنْفُسِہِمْ لاََتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘ (الزمر: ۵۳)اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی ذات پر ظلم کیا ، اللہ کی رحمت سے مایو س نہ ہو ، اللہ سا رے گناہوں کو بخش دے گا ، وہ بخشنے والا ، رحم کر نے والا ہے، پس رمضان المبا رک کا یہ مہینہ تو بہ ومغفر ت کا مو سم ہے، عفوو معا فی کا مہینہ ہے، اس کی سا عتیں ہر سا عت سے قیمتی ہیں ، اس کی گھڑیاں ہر عمدہ چیزسے بلندتر ہیں ، نبی اکر م ﷺکا ارشا د ہے، ’’إِنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ یَدَہُ بِاللَّیْلِ لِیَتُوْبُ مُسِیْئُ النَّہَارِ، وَیَبْسُطُ یَدَہُ بِالنَّہَارِ لِیَتُوْبَ مُسِیْئُ اللَّیْلِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِہَا ‘‘یعنی اللہ تبا رک وتعالی را ت میں اپنا ہا تھ پھیلا تے ہیں تا کہ دن کا گنہگا رتو بہ کرے ، اور دن میں اپنا ہا تھ پھیلا تے ہیں تا کہ رات کا گنہگار تو بہ کرے ، ہما ری غلطیاںاور گنا ہ بہت ہیں ، لیکن اللہ کی شانِ عفو اس سے کہیں بڑھ کرہے، ہما رے گنا ہ بہت بڑے بڑے ہیں ؛لیکن رب کی مغفرت کا کوئی کنا رہ نہیں ، وہ بے حد وبے انتہا ء ہے، ارشا دہے! ’’وَالَّذِیْنَ إِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً أَوْ ظَلَمُوْا أَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوْا اللّٰہَ، فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ، وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ اللّٰہَ، وَلَمْ یُصِرُّوا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ‘‘ (آل عمران: ۱۳۵)یعنی وہ لو گ جو کوئی گناہ کا کام کرتے ہیں یا اپنی ذا ت پر ظلم کرتے ہیں ، انہیں بھلا اللہ کے علا وہ بخشش کا پروا نہ اور کون دے سکتا ہے ؟نیز ان کا طریقہ ٔکا ریہ نہیں ہو تاکہ وہ اپنے گنا ہو ں پر اصر ار کرنے لگیں ۔  
گنا ہوں پر اصرار نہ کرنے والو ں کا عا لم یہ ہو تا ہے کہ خطا ء کے بعد اعتراف کرتے ہیں ، گنا ہ کے بعد تو بہ کرتے ہیں ، برا ئی کے بعدندامت کر تے ہیں ، انہیں گنہگار بندوں کو خطاب کرتے ہوئے ، اللہ رب العزت ارشا د فر ما تے ہیں ، ’’یَا عِبَادِيْ إِنَّکُمْ تُذْنِبُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ، وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، فَاسْتَغْفِرُوْنِيْ أَغْفِرْلَکُمْ ‘‘یعنی اے میرے بندو!تم دن رات گنا ہ کرتے  ہواور میںبھی سا رے گنا ہ بخشتا ہوں ، لہٰذا مجھ سے مغفر ت طلب کرو!میں تمہاری مغفرت کروں گا ، گناہ تو ہر انسان کی فطر ت میں دا خل ہے، ہرانسا ن گناہ کرتاہے، لیکن رب کی طر ف انابت وتو جہ کرنے والے اور معا فی کے طلب گا رکم ہوتے ہیں ، ہم میں سے کچھ لو گو ں کا حال تو یہ ہو تا ہے، کہ گنا ہ پر جمے رہتے ہیں ، گناہ چھو ڑنے کا خیا ل کبھی حا شیۂ خیال میں بھی نہیں آتا ، ایسے لو گ یقینا راہ ہدا یت سے دور اور خسا رے میں ہیں ، لیکن رمضا ن ان کے لیے نو یدِ مسر ت کی حیثیت رکھتا ہے ، وہ اس کی قدر کر کے اپنے آپ کو پاک و صا ف اور مجلی ومصفی کر سکتے ہیں ، حدیث قدسی میںوارد ہے، رب العز ت ارشاد فرما تے ہیں : ’’یَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِيْ وَرَجَوْتَنِيْ إِلاَّ غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ مِنْکَ وَلاَ أُبَالِيْ ‘‘یعنی اے انسان! اگر تو مجھے پکا رے گا، مجھ سے کوئی امید رکھے گا، تو میں تیری مغفرت کروں گا، مجھے تیر ے گنا ہوںکی کوئی پر واہ نہیں ، روزہ داروں کو اس حدیث کی طرف تو جہ کرنی چا ہیے، پا ک پر وردگا ر کے اس رحیما نہ اور مشفقانہ خطاب کو کا ن لگا کر سننے کی ضرورت ہے ، یہ ہے اس رحیم وغفور ذات کی رحمت ومغفر ت کی وسعت کا حا ل ، رحمۃ للعا لمین پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی ذات گرا می ایسی عظیم ہے کہ محشر کے میدان میں جب کوئی نبی اپنی امت کا پر سا ن حا ل نہ ہو گا ،آپ اپنی امت کی فکر میں ڈوبے ہو ں گے زبان مبا رک سے ’’یا رب امتی ، یا رب امتی ‘‘کے کلما ت جاری ہو ں گے ، بھلا جس نبی کا میدا ن محشر میں یہ عا لم ہو، وہ دنیا میں کیو ں نہ اپنی امت کے سا منے راہ راست کی وضا حت کرے؟کیو ںنہ اپنی امت کے گنہ گا رو ں کے گناہوں کی معافی کا طریقہ بتا ئے ؟ اسی لیے تو ارشا د فرما یا !’’ رَغِمَ أَنْفُ مَنْ أَدْرَکَ رَمَضَانَ فَلَمْ یُغْفَرْلَہُ ‘‘ کہ بدبخت ہے وہ شخص جو رمضا ن جیسا مہینہ پائے اور اپنی مغفر ت کا پر وا نہ حا صل نہ کر سکے ، عبا دت پر تو جہ نہ دے سکے ، تلا وت کی طرف منہ نہ موڑے ، منا جا ت سے دور ی اختیا ر کرے ، گنا ہوں سے تو بہ نہ کرے ، رمضان تو ایسامو قع ہے جوبا ر با رہاتھ نہیں آتا ، ہر انسان کی تمنا ہو تی ہے کہ وہ اگلا رمضان حا صل کر ے ؛لیکن ایسے خو ش نصیبو ں کی تعداد کم ہی ہو تی ہے ، گنا ہ تو انسا ن پورے سا ل کرتا ہے، بعضے تو تو بہ بھی نہیں کر تے ، کبا ئر کا ارتکا ب بھی کرتے ہیں ،ایسے میں تو بۂ نصو ح کے لیے رمضان سے اچھا مو قع او رکب میسر آسکتا ہے؟ یہ ایام غنیمت ہیں ، عمر کے یہ لمحے خدا بہتر جا نے آئندہ میسر ہوں یا نہ ہو ں، قا بل رشک ہیں وہ لو گ جو ان لمحا ت کی قدر کرلیں ، تو بۂ نصو ح میں ہر انسا ن کو مسا بقت کرنی چا ہیے!اس سے پہلے کہ ہم اپنی زندگی کی آخری سا نس لیں اور ہما ری روح قفس ِعنصری سے پروا ز کرجائے۔
 چھوٹے سے چھو ٹے گنا ہو ں کو بھی معمو لی نہ سمجھنا چا ہیے ، کیو ں کہ اعما ل میں اعتبا ر تو خو اتم کا ہی ہو تا ہے، ہر انسا ن کو اپنا محا سبہ کر نا چا ہیے ،گر دو پیش کا جا ئزہ لینا چاہیے؛ تھو ڑی دیر کے لیے ہم سو چیں کہ سا ل گذشتہ جب یہ مبا رک ما ہ آیا تھا ، تو ہما ری ہی بستی او رشہر کے کچھ لو گ ایسے تھے جن کے سا تھ ہم نے روزہ رکھا ، نما ز پڑھی ، عبا دت کی ؛لیکن آج اور اس سا ل وہ یہ مبا رک ماہ نہ پاسکے ،سال رواں کا یہ با برکت مہینہ ان کے مقدرمیں نہ تھا ،وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ، اپنے سا تھ اپنے اعما ل لے گئے ، ان کے ساتھ کچھ او رنہ جا سکا ، کا ش ہم یہ با ت سمجھ سکتے ، صحیح معنو ں میں اس حقیقت کا ادرا ک کر سکتے ؛ مو ت کا منا دی تو ہمیں ہر روز ندا ء دیتا ہے،کون ہے جس کو اس سے رستگاری ہے اور کس کو اس کے آنے کی خبر ہے، ، مو ت کبھی بھی اعلان کر کے نہیں آتی ؛ اگر ہم نے سچے دل ، پختہ عزم وارادے ، دوبا رہ گنا ہ نہ کرنے کے عہد اور اپنی کو تا ہیو ں پر ندا مت و شر مندگی کے سا تھ اس رمضا ن میں تو بہ کر لی،تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہما را روزہ ، ہما ری تر اویح ،ہما ری تلا وت اور ہما ری عبا دت رب کو پسند آگئیں ، ہما ری یہ جد و جہد رب کے یہا ں شرف ِقبول سے سر فراز ہو گئی ، ورنہ وہ ہمیں تو بہ کی تو فیق بھی نہ دیتا ،تو بھلا کیو ںنہ ان بابر کت ایا م کو بہتر جا ن کر توبہ کے لیے رب کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں، اس کی شا ن تو قرآ ن ان الفا ظ میں بیا ن کر تا ہے، ’’ وَہُوَ الَّذِيْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہِ، وَیَعْفُوْا عَنِ السَّیِّآتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ ‘‘ (الشوری: ۲۱)یعنی اللہ اپنے بندوں کی تو بہ قبول کر تا ہے، گنا ہوںکو معا ف کر تا ہے، اس کو انسا ن کی ہر حرکت کا بخو بی علم ہے، اسی چیز کی طر ف حضو ر اکر م ﷺبھی اپنی امت کی تو جہ مبذول کر اتے ہیں ؛فر ماتے ہیں ! ’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہ! لَوْلَمْ تُذْنِبُوْا لَذَہَبَ اللّٰہُ بِکُمْ وَلَجَائَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَسْتَغْفِرُوْنَ اللّٰہَ فَیَغْفِرُ لَہُمْ ‘‘یعنی قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میر ی جا ن ہے، اگر تم گنا ہ نہ کر و، تو اللہ تمہیں ختم کر دیں اور پھر ایک ایسی قوم لائیں جو گنا ہ کر ے او رپھر مغفر ت طلب کرے ، توبہ کرے ، تو اللہ ان کی مغفر ت کرے ، ان کی تو بہ قبو ل کرے ،سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ بھلا جس شخص نے رمضا ن میں تو بہ نہ کیا وہ کب توبہ کرے گا ؟ جس نے رمضا ن میں اللہ کی طر ف رجو ع نہ کیا وہ کب ہو ش میںآئے گا ،سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ایسے لو گ او رکس مو قع کی تلا ش میں ہیں ؛ بعض روزہ داروں کا تو یہ حال ہو تا ہے کہ رمضا ن میں وہ با لکل درست ہو تے ہیں ؛ ان کی زندگی کا رخ رمضان میں تبدیل ہو جا تا ہے ان کی حا لت پہلے کے مقابلہ میںبہت بہتر ہو جا تی ہے، لیکن رمضا ن کے ختم ہو تے وہی پہلے والا حا ل ہو تا ہے ، گناہوں کی ایک نئی دنیا دو بارہ آباد کر تے ہیں ؛رمضا ن میں پڑھا لکھاسا را سبق بھول جا تے ہیں ، اللہ سے کئے ہو ئے سا رے عہد وپیما ن فراموش کر بیٹھتے ہیں، ایسے لو گو ں کو قرآ ن کی آیت: ’’وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ أَنْکَاثًا‘‘ (النحل: ۹۲)پیش نظر رکھنی چا ہیے! ہمیں اپنے ان اسلا ف کو اپنا مقتدا ء بنانا جاہیے جو رمضا ن کے رخصت ہو نے پر بے اختیا ر روپڑتے تھے ، حسرت و افسو س اور ندا مت کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے ،ان کے دل پاکیزہ تھے ، نفو س روشن اور وہ خو د نیک وصالح تھے۔
اے پاک رحمن ذات ! ہما رے گناہ بہت زیا دہ ہیں ، ہم اپنے گناہو ں سے تو بہ کر تے ہیں ، رب العالمین ! ہم اپنے گناہو ں کا شکو ہ تجھ ہی سے کر تے ہیں ، ان گنا ہو ں نے ہماری ہستی کو عیب دا ر بنا دیا ہے ، خدا یا ! ہمیں بخش دے ، ہم تو بہ کرتے ہیں ، ہمیں اپنے نیک صا لح بندو ں کا طرز عمل اپنانے کی تو فیق دے ، ہمیں صر اط مستقیم پر گا مز ن فرما۔ آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے