روزہ کی مشروعیت:حکمتیں اورمصلحتیں



روزہ کی مشروعیت:حکمتیں اورمصلحتیں
   
     اللہ نے اپنی شریعت میں اسرار، احکام میں حکمتیں اور خلقت میں کچھ نہ کچھ مقاصد ودیعت کررکھے ہیں، کچھ اسرار وحِکم اور مقاصد تو ایسے ہوتے ہیں، کہ انسانی ذہن اور عقل اُن کا ادراک کرلیتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جہاں انسانی ذہن عاجز ودر ماندہ ہوجاتے ہیں، اللہ رب العزت نے روزہ کی کچھ حکمتیں بیان کی ہیں، چنانچہ ارشاد ہے: ’’یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن‘‘۔ (سورۂ بقرہ: ۱۸۳)
ترجمہ: اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، اس توقع پر کہ تم متقی بن جاؤ۔
معلوم ہوا کہ روزہ تقوی کا ایک ذریعہ ہے، اور روزہ دار اپنے پرور دگار سے بہت قریب ہوتا ہے، روزہ دار کا پیٹ چونکہ خالی ہوتا ہے، اس لیے اُس کا دل پاکیزہ ہوجاتا ہے، اس کا جگر چونکہ پیاسا ہوتاہے اس لیے اس کی آنکھ میں آنسو ہوتے ہیں، حدیث صحیح میں ہے، ارشاد نبوی ہے:
ترجمہ: اے نوجوانوکی جماعت! تم میں سے جو شخص نکاح کی طاقت رکھے وہ نکاح کرلے کیونکہ نکاح، نگاہ کو پست کرتی ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتی ہے اور جو شخص نکاح کی طاقت نہ رکھے اس کو روزہ رکھنا چاہئے، کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے۔
روزہ، کھانے اور خون کی جگہوں کو تنگ کردیتا ہے، چونکہ ان جگہوں میں شیطان رہتا ہے، چنانچہ روزہ کی وجہ سے وسوسہ کم ہوجاتاہے۔
روزہ شہوت اور برائی کے اندیشوں پر کاری ضرب لگاکر روح کو منور کرتا ہے۔
روزہ، ایک روزہ دار کو بھوکے، محتاج اور غریب روزہ داروں کی یاد دہانی کراتاہے، چنانچہ وہ ان پر رحم وکرم کرتا ہے اور ان کے ساتھ دستِ تعاون دراز کرتا ہے،شاعر کہتا ہے:
ترجمہ: اے روزہ دار، تو نے محض اللہ کے خوف میں کھانا چھوڑ کر بھوک اور پیاس کی رفاقت اختیار کی، روزِ قیامت میں تیرے لیے رحمت کی خوشخبری ہے، تو نیکیوں اور نعمتوں میں کھڑا ہوگا۔
روزہ، نفس کی تربیت، دل کے تزکیہ، نگاہوں اور اعضاء کی حفاظت کے لیے ایک بہترین مدرسہ کے مانند ہے۔
روزہ، بندے اور معبود کے درمیان ایک راز ہے، چنانچہ حدیثِ قدسی ہے، اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ’’انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے، سوائے روزہ کے، کیونکہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
اور ایسا اس لیے کہ روزہ ایک ایسا عمل ہے جس پر صرف اللہ تعالیٰ ہی مطلع ہوتے ہیں، جبکہ نماز، زکوٰۃ اور حج کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
سلف صالحین، روزے کو اللہ تعالیٰ سے قربت، ہر خیر کی طرف آگے بڑھنے کا میدان اور تمام بھلائیوں کا موسم سمجھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ روزے کے استقبال میں خوشی کی وجہ سے اور روزے کے فراق میں غم کی وجہ سے روپڑتے تھے۔
سلفِ صالحین کو روزے سے حد درجہ لگاؤ تھا، اسی لیے وہ رمضان میں خوب مجاہدہ کرتے، اپنے پورے جی جان سے اس میں لگ جاتے، پوری پوری رات بیداری کی حالت میں، قیام ورکوع، سجدہ وآہ وزاری اور خشوع وخضوع میں گزاردیتے اور دن کے اوقات میں ذکر وتلاوت، تعلیم ودعوت اور وعظ ونصیحت میں مشغول رہتے۔
سلف صالحین روزے کو آنکھوں کی ٹھنڈک، دل کا سکون اور فطری اطمینان کا ذریعہ سمجھتے، چنانچہ وہ روزے کے مقاصد کو سامنے رکھ کر اپنی ارواح کی تربیت کرتے، اس کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے دلوں کا تزکیہ کرتے اور اس کی حکمتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تہذیبِ نفوس کا فریضہ انجام دیتے، سلف صالحین کے صحیح حالات میں منقول ہے کہ وہ مسجدوںمیں اپنے اپنے قرآنی نسخے لے کر بیٹھ جاتے، تلاوت کرتے جاتے اور روتے رہتے، اس طرح اُن کی زبانیں اور نگاہیں حرام سے محفوظ بھی ہوجاتیں۔
تمام روزے دار، مسلمانوں کے لیے اتحاد کا مظہر ہوتے ہیں، ایک ہی زمانہ میں روزہ رکھتے ہیں، ایک ہی وقت میں افطار کرتے ہیں، ایک ہی ساتھ بھوکے ہوتے ہیں اور ایک ہی ساتھ کھاتے بھی ہیں، یہ سب الفت ومحبت، بھائی چارگی اور وفاداری ہی تو ہے۔
روزہ خطاؤں کو مٹانے والا اور برائیوں کو ختم کرنے والا ہے، حدیث شریف میں ہے، ارشاد نبوی ہے:
ترجمہ: ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک ، ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک اور ایک رمضان  دوسرے رمضان تک کے تمام گناہوں کو مٹادیتاہے، بشرطیکہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کیا جائے۔
روزہ جسم کو صحت بخشتا ہے، فاسد مادوں کو نکال دیتاہے، معدے کو سکون پہنچاتا ہے، خون کو صاف کرتا ہے، دل کی حرکت معتدل کرتا ہے، روح کو اطمینان فراہم کرتا ہے، نفس کو پاکیزہ بناتا ہے، اور اخلاق کو سنوارتا بھی ہے۔
روزہ دار جب روزہ رکھتا ہے تو اُس کے نفس میںعاجزی پیدا ہوتی ہے،دل میں تواضع آتی ہے، خواہشات کم ہوجاتی ہیں، اسی وجہ اُس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، کیونکہ روزہ دار کو اللہ سے قرب نصیب ہوجاتاہے۔
روزے کی ایک اور بہت بڑی حکمت ہے، اور وہ اللہ کی عبودیت کا اعتراف، اس کے احکام کی بجا آوری، اور اس کی شریعت کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہے، نیز محض رضائِ الٰہی کی خاطر کھانے پینے کی لذت کو چھوڑ دیناہے۔
روزے کے ذریعے ایک مسلمان اپنی خواہشات کو شکست دیتا ہے اور خود اپنے نفس پر برتری حاصل کرتا ہے، گویا روزہ آدھے صبر کا نام ہے، اور اگر کوئی شخص  بلا عذر شرعی روزہ رکھنے سے عاجز ہے تو وہ کبھی بھی اپنے نفس اور خواہشات پر قابو نہیں پاسکتاہے۔ روزے کے ذریعے نفس ایک زبردست تجربہ سے گزرتا ہے، چنانچہ جہاد، قربانی اور اقدامی کارروائیوں جیسے عظیم کاموںکو انجام دینے اور مشقتوں کو برداشت کرنے کے لیے مکمل طورپر تیار ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ جب طالوت نے اپنے دشمنوں سے قتال کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے طالوت کی قوم کو ایک نہر کے ذریعے آزمائش میں ڈال دیا اور طالوت نے ان سے کہہ دیا، جیسا کہ قرآن میں ہے: ’’فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ یَطْعَمْہُ فَإِنَّہُ مِنِّی إِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃً بِیَدِہ‘‘۔ (البقرۃ: ۲۴۹)
ترجمہ: جو شخص اس سے پانی پیوے گا وہ تو میرے ساتھیوں میں نہیں، اور جو اس کو زبان پر بھی نہ رکھے وہ میرے ساتھیوں میں سے ہے؛ لیکن جو شخص اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھرلے۔ (بیان القرآن، ج: ۱/ ۱۶۹)
بس کیا تھا! صبر کرنے والے اور اپنی خواہشات پر غالب آنے والے کامیاب ہوگئے اور اپنی فطرتوں اور طبیعتوں کے زور کے نیچے دب جانے والے، خواہشات کی غلامی کرنے والے جہاد سے پیچھے ہٹ گئے۔
روزے کی مشروعیت کی حکمتیں بطور خلاصہ درج ذیل ہیں:
          روزے سے اللہ کا تقوی نصیب ہوتاہے۔
          خواہشات پر غلبہ نصیب ہوتا ہے اور نفس قابو میں آجاتاہے۔
          ایک مسلمان بہ حیثیت مسلمان، قربانی دینے کے موقعوں پر تیار رہتا ہے۔
          اعضاء وجوارح کنٹرول میں آجاتے ہیں۔
          خواہشات پر کاری ضرب لگتی ہے۔
          جسم کو صحت نصیب ہوتی ہے۔
          گناہ ختم ہوتے ہیں۔
          الفت ومحبت، بھائی چارگی، بھوکوں کی بھوک اور ضرورت مندوں کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ واللّٰہ أعلم


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے