صدقۃ الفطر اور اس كے مقاصد



صدقۃ الفطر اور اس كے مقاصد


اللہ تعالی نے انسانوں کو دنیا میں بھیجا اور انہیں اپنی حیات عزیز کے گزران کے لیے جہاں پر بہت ساری چیزوں کے جمع کرنے کا حکم دیا ہے، وہیں پر مال ودولت کے کمانے کی طرف بھی خصوصی توجہ دینے کا حکم فرمایا ہے- چنان چہ ارشاد ربانی ہے : فاذا قضيت الصلواة فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله واذكروا الله كثيرا لعلكم تفلحون  .( سوره جمعه آیت نمبر 10 ) ترجمہ : جب نماز پڑھ لی جائے تو زمین کے اندر پھیل کر اللہ کے روزی کو تلاش کرو اور اللہ کا خوب ذکر کرو تاکہ تم کامیاب رہو!

انفاق کی اہمیت

لیکن اللہ تعالی نے کمانے سے زیادہ قرآن کریم میں انفاق فی سبیل اللہ کی طرف متوجہ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے -
کہیں فرمایا :يا ايها الذين آمنوا انفقوا مما رزقناكم من قبل ان ياتي يوم لا بيع فيه ولا خله ولا شفاعه ۔(سورہ بقرہ آیت نمبر 254 ) ترجمہ: اے ایمان والو!  اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے تخرچ کرو قبل اس کے کہ ایسا دن آئے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہو سکے نہ کوئی دوستی کام آئے نہ کسی کی سفارش۔

کہیں پر خرچ کرنے والوں کے اجر و ثواب کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :الذين ينفقون اموالهم في سبيل الله ثم لا يتبعون ما انفقوا منا ولا اذى لهم اجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 262)
ترجمہ :جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں  پھر اپنے خرچ کرنے کے بعد کسی طرح کے احسان اور تکلیف و اذیت نہیں پہنچاتے تو ان کے گروپ کے پاس ان کا اجر متعین ہے ان کے اوپر نہ تو کسی کا کوئی خوف ہوگا اور نہ کسی طرح کا کوئی رنج و غم  ۔
تو کہیں پر اپنے حلال و پاکیزہ مال سے خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : يا ايها الذين امنوا انفقوا من طيبات ما كسبتم .( سورہ بقرہ آیت نمبر 267 ) ترجمہ : اے ایمان والو تم اپنی کمائی کے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو   
تو کہیں پر خرچ کرنے والوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو، وہ سب کا سب تمہارے لئے ہی ہے: وما تنفقوا من خير فلانفسكم (سورہ بقرہ آیت نمبر 272  )۔ ترجمہ : جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو سب تمہارے لیے ہے اور فرمایا : ما عندكم ينفذ وما عند الله باق .(سورہ نحل آیت نمبر ۹۶ ) ترجمہ : تمہارے پاس جو ہے وہ ختم ہو جائے گا اور اللہ کے پاس جو ہے وہ  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی رہے گی۔
لیکن تمام انفاق میں اللہ کی رضا جوئی بطور خاص ملحوظ رکھنے کی تاکید فرماتے ہوئے فرمایا : وما تنفقون الا ابتغاء وجه الله .(سورہ بقرہ آیت نمبر 272 ) ترجمہ: تمہارے خرچ کا مقصد بھی اللہ کی رضا کو تلاش کرنا ۔
اور آگے بڑھ کر یہاں تک فرمادیا کہ: وما انفقتم من نفقه او نذرتم من نذر فان الله يعلمه وما للظالمين من انصار.( سورہ بقرہ آیت نمبر 270  ) ترجمہ: جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو یا نظر مان رہے ہو سب اللہ تبارک وتعالی دیکھ رہا ہے-
خفیہ طور پر خرچ کرنے کو سب سے بہتر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ان تبدوا الصدقات فنعما هي وان تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم .(سورہ بقرہ آیت نمبر 271  ) ترجمہ: اگر تم صدقات کو کھلم کھلا دو تو یہ بہتر ہے اور اگر خفیہ طور پر دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے
 اور آگے بڑھ کر صدقات کو کفارہ سییات قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : ويكفر عنكم سيئاتكم والله بما تعملون خبير.( سورہ بقرہ آیت نمبر 271 ) ترجمہ: خرچ کے بدلے میں اللہ تم سے تمہارے گناہوں کو معاف کردیں گے۔

الغرض: قرآن کریم میں کسب معاش سے زیادہ انفاق کی طرف توجہ فرمائی گی ہے، جو شریعت مطہرہ کا عین مزاج اور ضرورت ہے-
اسی طرح سے بیشتر احادیث اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کسب سے زیادہ خرچ کی طرف توجہ کی ضرورت ہے -
دوستو ! اللہ تبارک وتعالی نے جہاں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ، وہیں خرچ کے مصارف ومواقع کو بھی بیان کیا ہے - چناں چہ جہاں زکوۃ دینے اور اس کے مقصد کو بیان کیا ہے، وہیں صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔

صدقۃ الفطر کا مقصد:

اللہ تعالی نے بدنی عبادات کے ساتھ ساتھ مالی عبادات کا بھی خصوصی امتزاج رکھا ہے ، مثلا: نماز ہے ، اس کا فد یہ مال کے ذریعہ سے ہے اسی طرح سے روزے میں پائی جانے والی کمیوں کی تلافی کے لیے اللہ تبارک تعالی نے صدقہ الفطر رکھا ہے ؛ لیکن صدقۃ الفطر کے اندر  دوہری خصوصیت و ودیعت فرمائی ہے : ایک تو روزے کے حالت میں ہونے والے لغویات و خرافات سے صفائی، دوسرے غرباء ومساکین کی حاجت روائی۔
یہ دوسرا مقصد وقت اور حالات کے اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ؛ اس لئے کہ شریعت میں خوشیوں کے منانے کا حکم صرف اور صرف امراء اور اثریاء کو نہیں دیا گیا ہے؛ بلکہ ہر مومن و مسلم کو اپنی بساط کے مطابق خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے-
تو کیوں نہ ہمارے وہ بھائی جو اپنی کمائی اور اپنے مال سے خوشیوں کی سوغات نہیں لے سکتے۔ ان کو بھی ہم اپنے مال سے عید جیسے عظیم تہوار کی خوشیوں میں شریک کر لیں ! جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم : زكاه الفطر طهر الصيام من اللغو والرفث وطعمه للمساكين (رواہ ابو داود )

صدقۃ الفطر کن لوگوں پر واجب ہے:

ہر ایسے شخص پر صدقۃ الفطر واجب ہے، جو بروقت صاحب نصاب ہو یعنی : ان کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی خریدنے کا مال یا ساڑھے باون تولہ چاندی کی شکل میں مال کا عید کے دن مالک ہو ، اس پر حولان حول کا ہونا ضروری نہیں ہے (عالمگیری )
باپ اپنی بالغ و نابالغ اولاد اور اپنے گھر کے خادم کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرے گا( عالمگیری )بیوی اگر صاحب نصاب ہے، تو اپناصدقۃالفطر خود ادا کرے گی، جیسے کی وہ اپنی زکاة خو د ادا کرتی ہے -
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما انه قال : فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير من المسلمين. ( مشکاۃ باب فضائل صدقۃ الفطر )

صدقۃ الفطر کے مصارف :

اس کے مصارف بھی وہی لوگ ہیں جو زکات کے مصارف ہیں -


صدقۃ الفطر کب نکالا جائے:


عید کے دن عید گاہ جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردینا چاہیے، تاکہ اس کا جو حقیقی مقصد ہے: غرباء و مساکین کی دل جوئی و حاجت روائی اور عید کی خوشی میں انہیں شریک کرنا، وہ حاصل ہوجائے- نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ان تؤدي قبل خروج الناس الى الصلاه. (مشکاۃ صفحہ 160)
صدقۃ الفطر خواہ پیسوں کی شکل میں ادا کرے یا کسی اور شکل میں سب جائز ہے؛ البتہ کپڑا پہنانے کے سلسلے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فضیلت ارشاد فرمائی ہے : عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما انه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول :ما من مسلم كسا مسلما ثوبا الا كان في حفظ من الله ما دام عليه منه خرقة. (رواہ ترمذی)۔ یعنی: "جب کوئی مسلمان کسی مسلمان بندے کو کپڑا پہناتا ہے، تو جب تک وہ کپڑا اس بندے کے جسم پر رہتا ہے، پہنانے والا شخص اللہ کی حفاظت میں رہتا ہے-
اسی طرح سے جہاں دوسرے لوگوں کو دینے کا حکم ہے ، وہیں مسکین اقرباء  کو دینے میں دوگنا ثواب رکھا گیا ہے: ایک تو صدقہ کا، دوسرا صلہ رحمی اور قرابت داری کا  جیسا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لهما اجران: اجر الصدقة واجر القرابة.( رواہ مسلم )

دوستو! آئیے ہم سب مل کر عہد کرتے ہیں کہ صدقۃ الفطر ضروربالضرور ادا کریں گے اور اس کا جو حقیقی مقصد ہے: غرباء مساکین کو عید کی خوشی میں شریک کرنا ، اس کو بھی حاصل کریں گے انشاءاللہ۔
اللہ تبارک و تعالی ہمیں اس کی توفیق نصیب فرمائے ...آمین......ثم آمین۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے