رمضا ن اور روزہ دا رکی دعا



رمضا ن اور روزہ دا رکی دعا


رسو ل اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں روزہ دا رکی دعا کے متعلق یہ ارشا د فر ما یا ہے کہ ’’لِلصَّائِمَ دَعْوَۃٌ لاَ تُرَدُّ ‘‘ یعنی روزہ دا رکی دعا رد نہیں کی جا تی ہے، جب ہم اس کے اسبا ب جا ننے کی کو شش کرتے ہیں ، تو پتہ چلتا ہے کہ روزہ کی وجہ سے انسا ن کی طبیعت میں انکسا ری پیدا ہو تی ہے، خو اہشا ت سے دوری ہوتی ہے، تکبر ٹو ٹ جا تا ہے، خو د سر ی ختم ہو تی ہے، رب سے قر بت اور اس کی اطا عت کا جذبہ پیدا ہو تا ہے، پر ور دگا ر کے خو ف کی وجہ سے کھا نا پینا تر ک کر دیتا ہے، لذات سے اجتنا ب کر تا ہے، اوریہ اوصا ف اللہ کوپسندہیں ، ایک دوسری حدیث میں آپ ؐ نے دعا کو عبا دت قرار دیا ہے، فرما یا: ’’الدُّعَائُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ‘‘؛ لہٰذا اگر کو ئی انسا ن دعا میں اللہ رب العزت کے سا منے آہ وزا ری کرتا ہے تو اس کامطلب ہے کہ وہ اللہ سے قر یب ہے، ایک مر تبہ صحا بہ ٔکر امؓ نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ ’’کیا پروردگا ر ہم سے قریب ہیں کہ ہم اس سے مناجات کریں ، یا دور ہیں کہ ہم اس کو پکا ریں؟ توقرآن کی یہ آیت نا زل ہوئی: ’’وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإِنِّي قَرِیْبٌ، أُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ  فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِيْ وَالْیُؤْمِنُوْبِيْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْن‘‘ (البقرہ: ۱۸۶) یعنی اللہ فر ماتے ہیں کہ میں اپنے بندوں سے قر یب ہوں ، اگر وہ دعا کریں گے تومیں قبول کر وں گا؛ اسی لیے دعا کو مضبو ط رسی ، قا بل اعتما د حلقہ اور ایک خداوندی رابطہ سے تعبیر کیا گیاہے، جس کو پکڑلینے کی صو رت میں ہلا کت و بر با دی کا کو ئی تصو ر نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’’لَنْ یَہْلِکَ مَعَ الدُّعَائِ أَحَدٌ ‘‘۔
اللہ کو یہ با ت پسند آتی ہے کہ ہم اس سے مانگیں ، : بلکہ وہ دعا ء کے لیے ہمیں ندا دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کے سامنے ہم دست ِسوا ل دراز کریں ، قر آن کہتا ہے: ’’أُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ‘‘ (الأعراف: ۵۵) دوسر ی جگہ فرمایا: ’’وَقَالَ رَبُّکُمْ أُدْعُوْنِيْ أَسْتَجِبْ لَکُمْ، إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ‘‘ (غافر: ۶) ایک حدیث میں ہے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فر ما تے ہیں: ’’یَنْزِلُ رَبُّنَا إِلَی سَمَائِ الدُّنْیَا، حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرِ فَیَقُوْلُ ہَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأُعْطِیْہِ وَہَلْ مِنْ دَاعٍ فَأُجِیْبُہُ، وَہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرِ فَأَغْفِرُ لَہُ‘‘یعنی جب رات کا آخر ی تہا ئی حصہ با قی رہ جا تا ہے، تو اللہ رب العز ت سما ء دنیاکی طر ف متو جہ ہو تے ہیں اور فرما تے ہیں کہ ،کیا ہے کوئی طلب گار !جس کو میں عطا ء کر وں؟ہے کو ئی دعاء کرنے والا کہ میں اس کی دعا ء قبو ل کروں ؟ہے کو ئی گنا ہو ں سے بخشش طلب کرنے والا جس کی میں بخشش کروں؟ رمضا ن دعا کا مہینہ ہے، تو بہ اور قبو لیت کا مہینہ ہے، روزہ دا رو!روزہ کی وجہ سے تمہا رے تو ہو نٹ سوکھ گئے ، پیا س کی وجہ سے جگر بھی پیا سا پڑ گیا ، پیٹ بھی بھو ک کی شکا یت کر رہا ہے، تو ایسی حا لت میں رب سے خو ب دعا ء کر و !الحا ح وزاری سے کام لو ! کیوں کہ اللہ کو ایسے بندے پسند آتے ہیں، وہ ان کی تعریفیں کر تا ہے، کہتا ہے: ’’اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَہْبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ‘‘۔ (الأنبیائ: ۹۰)

دعا ء کے چند آدا ب ہیں 

 اگر دعا ء میں ان کی رعا یت کرلی جائے ، تو پھر تو چار چاند لگ سکتے ہیں ، ایک روزہ دا ر (جس کی دعا ء رد نہیں کی جا تی )کے لیے ان کا جا ننا ضروری ہے، اس لیے ذیل میں انہیں اجما لا نقل کیا جا رہا ہے۔
(۱)دلی اعتماد : اللہ کے فضل واحسا ن اور اس کے عطیا ت پر اعتماد ہو نا چا ہیے ، اسی لیے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : ’’لاَ یَقُلْ أَحَدُکُمْ اللّٰہُمَّ إِغْفِرْلِيْ إِنْ شِئْتَ، وَلٰکِنْ لِیَعْزِمَ الْمَسْأَلَۃَ فَإِنَّ اللّٰہَ لاَ مُکْرِہَ لَہُ‘‘ یعنی کوئی بندہ دعا ء میں ’’اَللّٰہُمَّ إِغْفِرْلِيْ إِنْ شِئْتَ ‘‘(خدایا !مجھے بخش دے اگر تو چاہے، ’’شئت‘‘ کی شرط کے ساتھ) نہ کہے ، بلکہ پختہ عزم واردہ کے ساتھ دست سوال دراز کرے ، کیوںکہ اللہ کو قبو لیت ِدعا ء کے لیے کوئی مجبو ر کرنے والا نہیں ہے ۔
(۲) دعا ء کے شر و ع ، بیچ ، اور اخیر میں اللہ کی حمدوثنا کر نااور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ۔
(۳) قبو لیت دعا ء کے اوقا ت کا لحا ظ کرنا ، جیسے تہجد ، سجدے ، اذان و اقا مت کے درمیا ن ، نمازوں کے بعد ، جمعہ کے دن کی آخر ی گھڑی ، عصر کے بعد ، یو م عر فہ کے اوقا ت میں ، ان اوقا ت میں دعا ئیں ضرورقبو ل ہوتی ہیں۔
(۴) دعا ء میں سجع اور وزن کی رعا یت کر نے سے بچنا۔
(۵) کسی گنا ہ کے کا م یا قطع رحمی کے متعلق دعاء نہ کرنا !روزہ دا روں کو تو چا ہیے کہ غروب آفتا ب سے پہلے کے اوقا ت میں دعا ء کاالتزا م کریں ! اسی طرح افطار کے دسترخوا ن پرافطار سے پہلے دعا ء کریں ! بطور خا ص جس دن بھو ک ، پیا س زیا دہ لگ گئی ہو اس دن دعا ء میں خو ب رو ئیں،گڑگڑائیں ، تہجد میں بھی ضرور دعا کیا کریں ، ہم اس حی قیو م سے مانگ کر تو دیکھیں ! ہم فقیر ہیں وہ ما لدا رہے، ہم کمزو ر ہیں ، وہ طاقتو ر ہے ، ہم فناہو نے والے ہیں ، وہ ہمیشہ رہنے والا ہے، ، خدا یا! ہم تیر ے عفو کے طالب ہیں ، تیرے علا وہ کسی اور کا قصد نہیں کرتے ، یہ پو ری کا ئنا ت تو تیر ی ہی طر ف متو جہ ہو تی ہے،اس دنیا میں معمولی اختیار کے ما لک لوگ اپنا دروازہ بند کر یتے ہیں ، اور ہم نے تیر ا کشا دہ دروازہ دیکھا ہے، یہ تو کبھی بند ہی نہیں ہو تا ۔
ہمیں انبیا ء کرا م علیہم السلا م کا طریقہ ٔ دعا ء دیکھنا چا ہیے ، اور ان کے اندا ز کو اپنانے کی کو شش کر نی چا ہیے ، : چنا ں چہ حضرت ابر اہیم علیہ السلام کی دعا ء دیکھئے ! ’’رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِیْمُ الصَّلاَۃِ وَمِنْ ذُرِّیَتِيْ، رَبَّنَا تَقَبَّلْ دُعَائِ رَبَّنَا إِغْفِرْلِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ ‘‘ (إبراہیم: ۴۰، ۴۱) حضرت مو سی علیہ السلا م کا اندا ز دعا ء بھی ملحو ظ رہے! ’’رَبِّ اشْرَحَ لِيْ صَدْرِيْ، وَیَسِّرْلِيْ أَمْرِيْ‘‘ (طٰہ: ۲۵، ۲۶) حضرت سلیما ن علیہ السلام کی دعا ء دیکھئے ! ’’رَبِّ إغْفِرْلِيْ وَہَبْ لِيْ مُلْکًا لاَ یَنْبَغِيْ لِأَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ‘‘ (ص: ۳۵) اسی طرح ہم سب کے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی پیش نظر رہے: ’’اَللّٰہُمَّ رَبِّ جِبْرَئِیْلَ وَمِیْکَائِیْلَ وَإِسْرَافِیْلَ، فَاطِرِ السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضِ، أَتْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ، إِہْدِنِيْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِکَ، إِنَّکَ تَہْدِيْ مَنْ تَشَائُ إِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ‘‘۔

دعا ء کے فا ئدے

(۱) اللہ کی عبو دیت : اس کی اطا عت و فر ما ں بر داری ، او راس پر اعتما د کا حاصل ہونا ، یہی چیز عبا دت کا مقصد او راس کا نتیجہ ہے۔
(۲) درخواست کی قبو لیت: دفع مضر ت یا جلب منفعت کے پیش نظر بوقت ضرورت درخواست مقبو ل ہو تی ہے۔
(۳) آخر ت میں اجرو ثواب :اگر دنیا میں دعا ء مقبو ل نہیں ہو تی تو آخر ت میں اس کا اجرو ثو اب بندے کو ملتاہے، اس سے عمدہ اور نفع بخش با ت اور کیا ہو سکتی ہے۔
(۴) اخلاص:دعا ء کے نتیجہ میں اللہ کی وحدا نیت اور ربو بیت کے حوالے سے اخلا ص پیدا ہوتاہے، دنیا ء وما فیہا سے انسا ن قطع تعلق کر لیتا ہے۔
ہما ری دعا ئوں کے لیے رمضان سے بہتر اور کو ن سا وقت ہو سکتا ہے، خدا یا !ہمیں عمل کی تو فیق مر حمت فر ما ! ’’’’رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِي الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ‘‘۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے