عشرہ ذي الحج کیسے گزاریں؟

          عشرہ  ذي الحج کیسے گزاریں؟




اللہ تعالیٰ نے فضیلت وثواب کے ایام کا جو سلسلہ رمضان سے شروع فرمایا ہے  وہ ذی الحجہ کے مہینے تک پہنچتا ہے.
 کیونکہ اس میں خاص عبادت اور ارکان اسلام کا ایک اہم رکن حج بھی ادا کیا جاتا ہے اس مہینے کو کئی اعتبار سے دیگر مہینوں پر فوقیت و  افضلیت حاصل ہے۔۔ ایک حج کی ادائیگی دوسرے مہینے میں نہیں دوسرے قربانی دیگر ایام میں نہیں وغیرہ  وغیرہ 
 جہاں پر اس مہینے کو اشہر حرم  میں شمار کیا گیا ہے وہیں پر  اس کے پہلے عشرے کو کافی فضیلت کا مقام بھی حاصل ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس کی قسم کھائی 
جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: والفجر وليال عشر (سورۃ الفجر آیت نمبر 1 ) a
ترجمہ: قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.
مفسرین کے ایک بڑی جماعت  ولیال عشر سے عشرہ ذی الحجہ کی دس راتوں کو مراد لیا ہے۔
اللہ تعالی کو اپنی مخلوقات میں سے کسی کی قسم کھانے کی چندا حاجت نہیں، لیکن  اس کے باوجود اگر اللہ تعالی کسی کی قسم کھاتے ہیں تو اس کی اہمیت اور اس کی شان کے عظمت کا پتہ معلوم ہوتا ہے . 
نیز ایک حدیث کے اندر نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم نے نے بھی اس کی عظمت کو بیان فرمایا ہے :
 عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ما العمل في ايام افضل منها في هذه. قالوا: ولا الجهاد؟ قال: ولا الجهاد الا رجل خرج  يخاطر بنفسه وماله  فلم يرجع بشيء . (بخاری شریف جلد 1 صفحہ 132 )
( ترجمہ)  حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ  ان ایام میں کیے جانے والے اعمال سے افضل  دوسرے ایام کے اعمال نہیں ہوسکتے۔ صحابہ نے پوچھا کہ  جہاد کے بارے میں  آپ  کی کیا رائے ہے ؟ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:  جہاد بھی برابر نہیں ہوسکتا ہے۔ مگر ایسا جس میں جان و مال سب کچھ چلا جائے تو اس کے برابر ہو سکتا ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ ایسا جہاد جس میں جان و مال سب قربان ہو جائے تو وہ  ان ایام کے اعمال کے برابر ہو سکتے ہیں  ورنہ کوئی عمل اس کے اس کی برابری نہیں کر سکتا۔

      قربانی کرنے کا ارادہ رکھنے والے ناخن  و بال نہ كاٹیں

جب عیدالاضحی کا چاند نظر آجائے تو جن حضرات کو اپنی قربانی کرانے کا ارادہ ہو  وہ حجاج کرام کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے بال اور ناخن نہ کٹوائیں !
تاکہ حجاج کرام کی وجہ سے اللہ ہمیں بھی حج کا ثواب عطا فرمائے.
  کیونکہ بیشتر واقعات ہیں جن میں صلحا اوراہل اللہ کی مشابہت اختیار کر کے لوگ دنیا میں متقی و پرہیزگار بنیں ہیں. 
  پھر آخرت میں اللہ اپنے محبوب بندوں کےلاج ضرور رکھے گا ۔
 چناچہ اس کے تعلق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :عن ام سلمه رضي الله عنها قالت :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :اذا دخل العشر واراد بعضكم ان يضحي فلا ياخذن شعره ولا يقلمن ظفرا  (مسلم شریف جلد 2 صفحہ 160 ) 

        پہلے عشرے کے روزے کی فضیلت 


اس عشرے کے روزے کی فضیلت حدیث کے اندر بہت ثواب کی حامل بتائی گئی ؛
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :عن ابي هريره رضي الله تعالى عنه انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مامن ايام احب الى الله ان يتعبد فيه من عشر ذي الحجه ؛يعدل صيام كل يوم بصيام سنه وقيام كل ليله منها بقيام ليله القدر . (ترمذی شریف جلد 1 صفحہ 158 )

 ترجمہ: عشرہ ذی الحجہ کے عبادت  اللہ کو  سب سے زیادہ محبوب ہے  اس  عشرے کے ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزے کے برابراور ایک رات کے عبادت کا ثواب لیلۃ القدر میں عبادت کے ثواب کے برابر رکھا گیا ہے. 

معلوم ہوا کہ  ان ایام میں اللہ کو سب سے زیادہ عبادت محبوب ہے جبکہ دن کے روزے کا ثواب سال کے روزے کے برابر اور رات میں عبادت کا ثواب  لیلۃ القدر کے کے برابر رکھا گیا ہے  اسی لیے ان ایام میں  زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام  رکھنا چاہیے  دن میں روزے سے اور رات میں تمام نماز کی پابندی کے ساتھ تہجد وغیرہ  کے ذریعے کرنا چاہیے۔ 


تنبیہ:  عشرہ ذی الحجہ کے روزے سے مراد  ابتدائی دس  روزے ہیں.  عید الاضحی کے دن کا روزہ جائز نہیں ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عن ابي سعيد الخدري رضي الله تعالى عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الفطر والنحر.(  بخاري شريف جلد 1 صفحہ 267 )

                   عرفہ کے دن کا روزہ

ان دس دنوں کے اندر روزہ رکھنے کی جو فضیلت ہے۔ وہ بیان  کی گئی لیکن یوم  عرفہ کا روزہ (یعنی جس دن سارے حاجی میدان عرفات میں اکٹھا ہوتے ہیں) کے ثواب کے بارے میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :عن ابي قتاده رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :صيام يوم عرفه اني احتسب على الله ان يكفر السنه التي بعده والسنه التي قبله۔(ترمذی شریف  جلد 1 صفحہ 157 )
ترجمہ:عرفہ کے روزے کے تعلق سے میں اللہ سے اس بات کی امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلےکے اور ایک سال بعد کے  سیئات کو حسنات میں مبدل فرما دے گا۔

            تکبیر تشریق کب سے کب تک

   تکبیر تشریق  نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ ذي الحجه کی عصر تک پڑھی جاتی ہے۔                                     

   
    تکبیر تشریق کن لوگوں پر واجب ہے؟

ہر مرد و عورت مسبوق  ولاحق  امام و مقتدی ومنفرد مسافر اور مقیم پر اس کا پڑھنا واجب ہے حتی کہ عیدین کی نماز کے  بعد پڑھی بھی جائے گی۔
 البتہ عورتیں آہستہ پڑھیں گی ؛لیکن مرد حضرات بلند آواز سے  پڑھیں گے .ووجوبه على امام مقيم بمصر وعلى مقتد مسافر او قروي  وقال بوجوبه فور كل فرض مطلقا ولو منفردا او مسافرا.  ( در مختار مع شامی میں جلد 3 صفحہ 64  )
         

    تکبیر تشریق کی اصلیت

اس کے بارے میں علامہ شامی نے  شامی جلد 3 صفحہ 62 پر ذکر کیا ہے کہ  جب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا . اللہ تعالی نے حضرت جبریل سے حکمِ فرمایا کہ  فدیہ لے کر جائیں .جیساکہ اللہ تعالی نے  وفديناه بذبح عظيم  میں ارشاد فرمایا.  جب حضرت جبرئيل فدیہ لے کر آئے.   تو ڈر کے مارے کہیں ایسا نہ ہو کہ حضرت ابراہیم اسماعیل پر جلدی سے چھری پھیر دیں . اللہ اکبر  اللہ اکبر  کہہ کر پکارنے لگے.  ابراہیم علیہ السلام نے بھی اس آواز کو بشارت سمجھ کر زور زور سے پکار اٹھے.  لا اله الا الله والله اكبر . 
اور حضرت اسماعیل کو جب فدیہ کے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے  اللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کہتے ہوئے  اللہ کے حمداور اس کا شکر ادا کیا ۔(طحطاوی علی المراقی صفحہ 296 )    

  عیدین کی رات میں عبادت کا ثواب


یہ دونوں راتیں عموما تیاری لہو لعب اور بہت سارے خرافاتی مشاغل میں گزر جاتی ہے۔
 اس کو خوب خوب بہتر بنانے کے ہمیں کوشش کرنی چاہئے
 اس کے تعلق سے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عن ابي امامه رضي الله تعالى عنه انه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم :من قام ليلتى العيدين محتسبا لم يمت قلبه يوم تموت القلوب. (رواه ابن ماجه صفحہ 127 ) 
 ترجمہ: جو شخص عیدین کی راتوں میں اللہ کے عبادت کرے گا ثواب کا امیدوار بن کر  تعالیٰ اس کے دل کو اس دن زندہ رکھیں گے جس دن سارے دل مردہ ہو چکے ہوں گے ۔  
کتنے ثواب کی رات ہے  ہم لوگ اس کو ضائع و برباد کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی ہمیں اس رات کو خاص طور سے  اس پورے عشرے کو عبادت میں گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے .
آمین یارب العالمین

  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے