گنگا جمنی تہذیب آج خطرے کے دہانے پر

گنگا جمنی تہذیب آج خطرے کے دہانے پر

گنگا جمنی تہذیب آج خطرے کے دہانے پر.

📝ازقلم: محمد مدثر شیروانی

پورا عالم اسلام خاص طور پر ہمارا ملک ہندوستان جو صدیوں تک اسلامی اقتدار عزت و شرف اور اسلامی علوم و فنون کا مرکز رہا ہے، جہاں سے ایسی پراثر اصلاحی تحریکیں چلیں جو صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پورے عالم میں انقلاب برپا کردیا اور یہی وہ سرزمین ہے، جہاں پر ایسےجید علمائے ربانیین نے جنم لیا، جنہوں نے حق کا برملا اعلان کیا، باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی اور ظلم وزیادتی کے خلاف پوری جد وجہد کےساتھ ڈٹے رہے، لیکن آج ہندوستان میں مسلمان ایک ایسے آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں جس کی نظیر گزشتہ تاریخ کے اوراق میں دوردورتک نظر نہیں آتی بلکہ تاریخ کے صفحات مسلمانوں کی خداری ووفاداری سے بھرےپڑےہیں.

لیکن افسوس صدافسوس! دور حاضر میں مسلمانوں کو پوری دنیا بالخصوص ہندوستان میں ان کی زندگی کا تسلسل، جسمانی عزت و آبرو، مساجد ومدارس اور صدیوں کا دینی و علمی اثاثہ خطرے میں پڑ گیا ہے، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں ممتاز صلاحیتوں، ذہنی امتیازات اور مہارتوں کے مالک تھے، آج وہ کچھ عرصے سے خوف کی زندگی گزار نےپرمجبورہیں اور آیت قرآنیہ،:وضاقت علیہم الارض بما رحبت وضاقت علیہم انفسہم، :ان پر صادق آرہی ہیں ،(یعنی زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی اور ان کی جانیں بھی ان پر دوبھر ہوگئیں) 
مسلمانوں کی جان ومال آج اتنی زیادہ سستے ہوگئں ہہیں کہ کہیں انہیں گئو کشی کے نام پر قتل کیا دیا جاتا ہے، تو کہیں ٹرین اور ریلوے اسٹیشن پر ماب لنچنگ بےدردی سے کر دی جاتی ہے اور طرفئے تماشہ یہ ہے کہ چلتی راہوں میں ان کے ساتھ توفانے بلا کی  بدتمیزی کی جاتی ہیں ۔

صرف یہی نہیں؛ بلکہ فرقہ پرست تنظیمیں اور فاشزم طاقتیں اپنی پوری توانائی صرف کر رہی ہیں کہ مسلمانوں کو کس طرح سے بدنام کیا جائے: کبھی ان کےجان ومال کونشانہ بنایا جاتا ہے، توکبھی ان کے مذہب اور معبد خانہ کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کروا کر مسلمانوں کی عزت و آبرو جان و مال کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوش کی جاتی ہے؛ بلکہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کی زندگی ہر لمحہ موت سے لڑ رہی ہے؛ کبھی ان کے پوشاک پر سوال اٹھایا جاتا ہےتو کبھی انہیں سرےراہ پکڑ کر جے شری رام کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی انتہا پسند جماعتوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اسلامی تشخص و عقائد اور ملی خصوصیات سے دست بردار ہو جائیں۔
الغرض ہندوستان کا کوئی بھی انسان ان مذموم حرکتوں سے محفوظ نہیں ہے، اب تو عالم اسلام کی خواتین بھی آج کےاحوال سے زیادہ خوفزدہ ہو رہی ہیں۔ جب سےجموں کشمیر کے آٹھ سالہ آصفہ نامی بچی کو مندر میں لے جاکر ریپ کے بعد ہلاک کردیا، حیدر آباد میں 27سالہ ڈاکٹر کوچار نوجوانوں نے بےرحمی سےگینگ ریپ کر کے مار‌ کرجلا دیا،اور 2012 میں تیئس برس کی جیوتی نام کی لڑکی کے ساتھ دہلی کےمسافر بس میں کئی افراد نے اپنی نفسانی خواہشات و ہوس کو پورا کیا تھا، اس زیادتی کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی؛ گویا تحفظ کا خاتمہ ہوگیا، شاید لوگ ملک کی سالمیت اور جمہوریت کو پس پشت ڈال کر ہوس کے پجاری بن گئے ہیں۔

آج امیریکہ اور یوروپ کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں کی حکومتیں پردے کوترک کرنےپرپابندیاں لگا رہی ہیں: کوئی لڑکی اسکول، کالج، یونیورسٹی اور آفس وغیرہ میں حجاب لگا کر نہیں آسکتی۔ اگر ان بگڑتے حالات میں بھی مسلمان ملکی اوربین الا قوامی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگ سے، انکی قلبی خباثت اور بیمار ذہنیت کی سازشوں سے کوئی سبق حاصل نہ کیا تو انہیں مستقبل میں اور برے حالات و مشکلات سے گزرنا پڑ سکتا ہے؛ یہ خطرات اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ اگر آج ہم خواب غفلت سے بیدارنہ ہوئےاور دین اسلام کے غلبے اور اس کو نظام حیات کے طور پر نافذ کرانے کے لئے ایک بیدار ملت کی حیثیت سے اپنے اندر ایک بہترین سوچ پیدانہ کی، اپنی صفوں سے نکل کر فرقہ اور علاقائی حد بندی کو توڑ کر، متحد ہو کر قوم کی حیثیت سے دنیاکےسامنےنہ آئے، توہماری آنے والی نسلوں کا حالات مستقبل میں اس سے بھی زیادہ شرم ناک ہوں گے اور انہیں اپنے آپ کو مسلمان کہنے میں بھی دکت وپریشانی کاسامنا ہوسکتا ہے؛ لیکن ملت اسلامیہ کے پاسبانوں! تم ان سب کے باوجود مایوس مت ہونا؛ کیونکہ اللہ کا پاک ارشاد ہے: وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ․(آل عمران:139) ”نہ آئندہ کے لیے ہمت ہارو اور نہ غم کرو ، تم ہی سر بلند رہو گے ؛ شرط یہ ہے کہ تم ایمان پر قائم رہو۔“ (آل عمران:139)

ان شاء اللہ کامیابی و کامرانی ہمارے ہی قدموں میں ہوگی اور زمین کی سربراہی اور دیگر اقوام کی قیادت و سیادت ہم ہی کو حاصل ہوگی، ہمارے درمیان ہی سے کوئی نہ کوئی ایک قائد امت بن کر دوبارہ ابھرے گا اور پوری دنیا اسکو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے گی،لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں اپنوں کے  درد کو اپنا درد سمجھنا پڑے گا، ایک دوسرے سے مل کر ترقی کی راہ دیکھنی ہوگی، آپﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا ہوگا، المسلم اخ المسلم:(مسلمان مسلمان کا بھائ ہے)اس حدیث پر عمل کرنا ہوگا؛ احادیث کو صرف پڑھنے یا کتابوں میں بند رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان احادیث کو اپنی عملی زندگی میں لانا ہوگااور اس کوعملی جامہ بھی پہنانا ہوگا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے