خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح: پانچواں پارہ پانچویں تراویح


خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح: پانچواں پارہ پانچویں تراویح

پارہ 5
 محرمات : چوتھے پارے کے آخری میں ان عورتوں کا ذکر تھا جن سے نکاح کرنا حرام ہے پانچویں پاره  کے شروع میں اسی بحث کو مکمل کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان محرمات کے سوا دوسری عورتیں تمہارے لیے حلال ہیں اس طرح سے یہ مال خرچ کرکے ان سے نکاح کر لو بشرطیہ کہ نگاہ سے مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت رانی ، تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا  مقرر کیا ہوامہر ادا کر دو 
ایک غلط فہمی:یہ جو آخری الفاظ ہیں
 کہ جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو 
ان الفاظ سے بعض حضرات متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال باطل ہے اس  آیات میں نکاح شرعی  کا ذکر ہے متعہ کا ذکر نہیں ہے

 متعہ کی اجازت :اس میں شک نہیں کہ زمانہ جاہلیت میں متعہ  کا رواج  تھا چو نکہ اسلام کے احکام بتدریج نازل ہوئے ہیں اس لئے ابتداء اسلام میں یہ رواج باقی رہا لیکن بعد میں واضح طور پر اس کی حرمت کا اعلان کردیا گیا
متعہ حرام : ابن ماجہ میں ہے کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو!  میں نے تمہیں متعہ کی اجازت دی تھی لیکن اب اللہ نے اسے قیامت تک کے لئے حرام کردیا ہے

گھر کا نظام:تیسرے رکوع میں گھر کے نظام کو درست کرنے کے لیے چند بنیادی ہدایات دی گئیں ہیں
(١) پہلی ہدایت  تو یہ دی گئی ہے گھر میں قوامیت حاکمیت اور ذمہ دار ہونے کا درجہ مرد کو حاصل ہوگا کیونکہ جس جماعت اور جس گھر کا کوئی سربراہ نہ ہو اسے انتشار اور افتراق سے  کوئی نہیں بچا سکتا اس سربراہی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد کو آقا اور عورت کو لونڈی کا  درجہ دے دیا جائے بلکہ ان کا باہمی تعلق ایسے ہوگا جیسے راعی  اور رعیت کا ہوتا ہے

(٢)دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر عورت اکھڑ مزاج  نافرمان اور سرکش ہو تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے تین تدبیریں اختیار کی جاسکتی ہیں
پہلی دبیر یہ ہے کہ اسے سمجھایا جائے اور سرکشی کے برے نتائج سے خبر دار کیا جائے
اگر وعظ و نصیحت اس پر اثر نہ کرے تو دوسری تدبیر یہ ہے کہ اس کا بستر الگ کر دیا جائے اور اس سے کنارہ کشی  اختیار کر لیا جائے
 اگر پھر بھی وہ نہ سمجھے تو انتہائی اقدام کے طور پر اور واقعی سرکشی اور بے راہروی کی صورت میں حد کے اندر رہتے ہوئے اس کی پٹائی بھی لگائی جاسکتی ہے  
ایک قیمتی نقطہ :یہاں یہ بات ذہن نشیں کر لینا مناسب ہوگا کہ قرآن کے مخا تب ہر قسم کے لوگ ہیں شہری بھی دیہاتی بھی جنگلی بھی صحرائی بھی شریف الطبع بھی اور اکھڑ مزاج بھی باکردار بھی بدکردار بھی ،
اسلام نے ہرعورت کی پٹائی کی اجازت نہیں دی بلکہ صرف اسی عورت کی پٹائی کی اجازت دی ہے جو اس کے علاوہ دوسری کوئی زبان نہ سمجھتی ہوں اور ظاہر ہے پسماندہ معاشرے میں ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو پٹائی کے بغیر راہ راست پر نہیں آتی لیکن وہ ظالم مرد جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر وحشیانہ انداز میں عورتوں کی پٹائی لگاتے ہیں ان کے اس ظلم اور زیادتی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔
اجتماعی زندگی: (خاندانی نظام ) گھر اور خاندان کے نظام کو درست رکھنے کی تدابیر بتانے کے بعد پانچویں رکوع میں اجتماعی زندگی کی درستگی کے لیے ہر چیز اور ہر کام میں احسان کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ احسان کی بنیاد باہمی خیر خواہی امانت عدل اور رحم دلی پر ہے 
حق، عدل اور مساوات کا دین:حقیقت یہ ہے کہ اسلام حق،عدل اور مساوات کا دین ہے اور وہ ساری مخلوق کے درمیان عدل کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ کافر کے حقوق بھی غصب کرنے کی اجازت نہیں دیتا 
عثمان بن طلحہ کا مشہور واقعہ: جو کعبہ کے کلید بردار تھے ان سے فتح مکہ کے موقع پر چابی لی گئی تو بعض مسلمانوں نے کلید بردار ہونے کا شرف حاصل کرنے کی تمنا ظاہر کی مگر اللہ تعالی نے انہیں کلید کعبہ واپس کرنے کا حکم دیا چنانچہ یہی واقعہ ان کے ایمان لانے کا سبب بن گیا 
منافق اور یہودی کا مقدمہ : پھر وہ واقعہ بھی  قابل ذکر ہے جسے مفسرین نے  چھٹے رکوع کی بعض آیات کے شان نزول کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ایک نام نہاد مسلمان (منافق) اور یہودی کا مقدمہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں  پیش ہوا تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودی کے حق میں فیصلہ کیا منافق نے اپنے حق میں فیصلہ کروانے کے لیے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس کی گردن اڑا دی اس پر منافقین نے بڑا شور و غوغا کیا۔
ایمان کامل: اللہ تعالی نے مسلمانوں کے سامنے اس حقیقت کو خوب اچھی طرح واضح کردیا کہ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں جب تک کہ وہ  الله  اور اس کے رسول کے  فیصلوں پر راضی نہ ہو
رسول کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے: اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ رسول صلی الله علیہ و سلّم کی بعثت  کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے، رسول صلی الله علیہ و سلّم کی اطاعت حقیقت میں اللہ ہی  کی اطاعتت ہے لیکن ظاہر ہے منافقوں کو رسول رسول صلی الله علیہ و سلّم کی اطاعت بڑی گراں محسوس ہوتی ہے( 60۔65)

جہاد و قتال: اس کے بعد ساتویں رکوع میں پہلے تو مسلمانوں کو جہاد اور قتال کی تیاری کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ اپنی نیت خالص رکھیں اور صرف اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی کے لئے جنگ کریں پھر بڑے جذباتی انداز میں انہیں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے کہ آخر تم جہاد کیوں نہیں کرتے جبکہ صورت  یہ ہے کہ ظلم و ستم کی چکّی میں پسنے والے کمزور مرد خواتین اور بچے اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر دعائیں کرتے ہیں  کہ اے  ہمارے رب تو ہمیں اس بستی سے نکال دے جہاں کے لوگ بڑے ظالم ہیں اور اے اللہ تو کسی کو ہمارا مددگار بناکر بھیج دے 75
موت کا خوف: چونکہعام طور پر موت کا خوف جہاد کے میدان میں نکلنے سے ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے اس لئے فرمایا گیا کہ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے گھر میں بھی اور مضبوط قلعوں میں بھی نہ جہاد میں نکلنا موت کو یقینی بناتا ہے اور نہ ہی گھر میں رہنا زندگی کے تحفظ کی ضمانت ہے 78
منافقین کی سازشیں: جہاد و قتال کی ترغیب کے بعد مسلمانوں کو منافقین کی تدبیروں اور سازشوں سے چوکنا رہنے کا حکم دیا گیا ہے یہ وہ سنگدل گروہ ہے جس نے اسلام کا جامہ زیب تن کرکے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا مدینہ منورہ میں جو پہلی اسلامی ریاست قائم ہوئی اس کے خلاف سازشوں کا تانابانا بننے میں بھی یہی گروہ پیش پیش تھا 

خفیہ منصوبہ بندی :مسلمان ان حرماں نصیبوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں متردد تھے کی سورہ نساء کا وہ حصہ نازل ہو گیا جس میں ان کی ذلت آمیز حرکتوں، خفیہ منصوبہ بندیوں اوربغض وحسد پر مبنی کاروائیوں کا پول کھو ل دیا گیا اور ان کے بارے میں واضح فیصلہ سنا دیا گیا کہ  ان کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں تاکہ  اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان ان حد فاصل قائم ہوجائے اور مسلمان منافقوں کے بارے میں ایک آواز ہو جائیں اور ان کے درمیان کوئی اختلاف باقی نہ رہے 

اللہ کے حاکمانہ بیان کا اندازہ: باری تعالیٰ کے حاکمانہ بیان کا ندازہ ملاحظہ فرمائیے ارشاد ہوتا ہے تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ  تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو اور اللہ نے ان کو ان کی حرکتوں کی وجہ سے الٹ دیا ہے 88 
یعنی اے مسلمانوں تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ میں کیوں تقسیم ہوگئے ہو ایک گروہ کہتا ہے کہ انہیں قتل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے دشمن ہیں دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ان کے بارے میں نرم پہلو اختیار کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہمارے دینی بھائی ہیں جبکہ اللہ تعالی نے انہیں ان کے نفاق اور معصیت کے وجہ سے کفر کی طرف واپس لوٹا دیا ہے  

حقیقت سے پردہ چاک :اس کے بعد ان کی حقیقت سے پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا گیا وہ منافق یہ چاہتے ہیں کی جیسے وہ خود کافر ہیں تم بھی کافر بن جاؤ پھر تم دونوں برابر ہو جاؤ پس ان میں سے کسی کو دوست نہ بناؤ جب تک کی وہ اللہ کی راہ میں ہجرت نہ کرے پس اگر وہ اعراض کریں تو انہیں پکڑو اور جہاں بھی پاؤ انہیں قتل کرو اور کسی کو مددگار نہ ٹھہراؤ 89

قتل عمد کی سزا : دسویں رکوع میں مومن کے قتل عمد کی سزا بتائی گئی ہے اور اس کے لیے انتہائی سخت لہجہ اختیار کیا گیا ہے فرمایا گیا ہے
 جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی  سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہےگا  اس پر الله کا غضب ہوا اور اس پر لعنت کی اور اسکے لئے الله نے بڑا عذاب تیّار کر رکھا ہے 93

ظاہری معنی مراد نہیں:اس آیات سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ مومن کو قتل کرنے والا اگرچہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو وہ دائمی عذاب کا مستحق ہے لیکن بالاتفاق یہ ظاہری معنٰی مراد نہیں ہے دائمی عذاب کا مستحق  صرف وہ شخص ہوگا جو مسلمان کے قتل کو حلال سمجھے گا کیونکہ ایسا سمجھنے والا کافر ہوجاتا ہے اور کافر کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے 
جہاد کی اہمیت مجاہدین کی فضیلت:قتل عمد کی سزا بیان کرنے کے بعد دوبارہ جہاد کی اہمیت اور مجاہدین کی فضیلت بتائی گئی ہے اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے  اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے والے برابر نہیں ہو سکتے  یہ جو بار بار جہاد کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے اگر امت جہاد  سے کنارہ کشی کر لے گی تو اسے ذلت اور رسوائی سے کوئی نہیں بچا سکتا
ہجرت بھی جہاد کے قسم ہے : جہاد کے ساتھ ساتھ ہجرت کا بھی ذکر ہے کیونکہ ہجرت بھی جہاد کی مختلف قسموں میں سے ایک قسم ہے چنانچہ گیارہویں  رکوع میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص قدرت کے باوجود دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت نہیں کرے گا اور اس حالت میں اسے موت آجائے گی تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے  97
حمزہ بن قیس: بعض روایات میں ہے کہ جب آیات ہجرت نازل ہوئیں  تو حضرت حمزہ بن قیس رضی اللہ عنہ جو کی سخت علیل تھے وہ پریشان ہوگئے چلنے پھرنے کے قابل  تو تھے نہیں ۔اپنے بیٹوں سے کہا کہ مجھے چارپائی پر ڈال کر مدینہ منورہ لے چلو میں مکے میں ایک رات بھی نہیں گزاروں  گا انہیں چارپائی پر ڈال کر مدینہ لے جانے لگے  لیکن مکّہ سے نکلتے ہی انکا انتقال ہو گیا  اس پرالله تعالیٰنے فرمایا:
 اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے پھر اس کو موت آپکڑے تو اس کا ثواب اللہ کے ذمے ہو چکا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے 100
صلوٰۃ خوف صلوٰۃ مسافر: کیونکہ ہجرت وجہاد میں خوف و خطر کا سامنا بھی ہوتا ہے اس لیے بارہویں  رکوع میں صلاۃ خوف اور صلاۃ مسافر کا ذکر ہے۔
تیرا ہوئں رکوع میں اس مشہور واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق ایک شخص نے چوری کرنے کے بعد ایک یہودی پر بہتان لگا دیا اس نے اور اس کے اقرباء نے اپنی  چکنی چپڑی باتوں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو متاثر کرلیا قریب تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی کے خلاف فیصلہ فرما دیتے کہ اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے لوگوں کے ساتھ دینے اور انکی وکالت کرنے سے منع فرمایا ارشاد باری ہے:
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم دغا بازوں کی طرف سے جھگڑا کرنے والے نہ بنيں اور اللہ تعالی سے معافی مانگیں  بے شک اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے 105  106
عدل انصاف کی تاریخ میں:یہ آیات اور یہ واقعہ عدل و انصاف کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ایک یہودی اور مسلمان (منافق) کے تنازع میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا میلان مسلمان کی طرف ہوا تو اس پر اللہ تعالی کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناصرف تنبیہ کی گئی بلکہ اس تنبیہ کا قیامت تک کے لئے قرآن میں ذکر کر دیا گیا 
ان آیات کے نزول کے بعد یہ شخص جس نے چوری کی تھی مکہ بھاگ گیا اور مرتد ہوگیا اس لیے پندرہویں رکوع  میں  یہ بتایا گیا ہے :
کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم کفروشرک ہے اور جس کا کفر و شرک پر انتقال ہوگیا اس کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں 116
انسان کی سرکشی :اس کے بعد متعدد آیات میں انسان کی سرکشی  کا سبب بتلایا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ کے مقابلے میں شیطان کی اطاعت کرتا ہے اور وہ اس کو ہدایت کہ راستے سے بہت دور لے جاتا ہے
ابراہیم علیہ السلام کی اتباع: پھر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ ہے اور یہ کہ ہدایت اسی کو ملے گی جو ان کے راستے کی اتباع کرے گا 
میاں بیوی کا اختلاف: سولہویں رکوع میں دوبارہ عورتوں کا تذکرہ ہے جس میں ان پر ظلم کرنے اور ان کے حقوق غصب  کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ کہ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہو جائے تو انھیں آپس میں صلح کر لینی چاہیے کہ صلح  ہی  سب سے اچھا راستہ ہے 
منافقین کو عذاب کی وعید: پانچویں پارہ کے آخری رکوع میں دوبارہ منافقین کی مذمت ہے اور انہیں سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے