خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح: پہلا پارہ پہلی تراویح



خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح: پہلا پارہ پہلی تراویح

سورہ فاتحہ

 پارہ نمبرایک 

 سورہ فاتحہ مکمل اور سورہ بقرہ کے کچھ حصے پر مشتمل ہے اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کی سورۃ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی اور اس پر بھی کی یہ بالکل ابتدائی مکی دور میں نازل ہوئی یہ سورت  سات آیتوں  پر مشتمل ہے مختصر ہونے کے باوجود اس کتاب مقدس کے اساسی مقاصد اجمالی طور پر آگئے ہیں اسی لیے اسے ام القرآن اور اساس ا لقرآن بھی کہا جاتا ہے یعنی قرآن کی بنیاد،اس سورت کی حیثیت قرآن کے دیباچہ کی بھی ہےاور خلاصہ کی بھی ہے قرآن کریم کی بنیادی مضامین تین ہیں توحید رسالت اور قیامت اس سورت کی ابتدائی دو آیتیں اور چوتھی آیت میں توحید کا مضمون ہے تیسری آیت میں قیامت کا ذکر ہے پانچویں اور چھٹی آیت میں نبوت اور رسالت کی طرف اشارہ ہے یونہی اس سورہ میں اللہ تعالی کے اسماء و صفات مذکور ہیں اسی کی عبادت اور اسی سے استعانت اور استقامت و ہدایت کی دعا کا حکم ہے ایک طرف انبیاء اور صلحاء کا تذکرہ ہے تو دوسری طرف ان قوموں کی روش سے بچنے کی تلقین ہے جو اپنی علمی اور عملی کجروی کی وجہ سے اللہ کے غضب اور عذاب کے مستحق ہوگئیں  یہ دعوی بلاخوف تردید کیاجاسکتاہے کی سورہ فاتحہ بےمثال دعا معارف کا بیش بہا خزانہ اور قرآنی علوم کا ایسا شفاف آئینہ ہے جس میں 113 سورتوں کی جھلک ہم مختصر وقت میں دیکھ سکتے ہیں  شاید یہ جھلک بار بار دکھانے کے لئے ہی ہر نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ 

سورہ بقرہ:

 سورہ بقرہ قرآن کریم کی سب سے طویل سورت ہے جو کہ 286 آیا ت پر مشتمل  ہے سورہ بقرہ کا اکثر حصہ ہجرت مدینہ کے بعد بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ہاور عربی زبان میں بقرہ گائے کو کہتے ہیں چونکہ کی اس سورہ میں بقرہ کا  لفظ بھی آیا ہے اور گائے ذبح کرنے کا واقعہ بھی مذکور ہے اس لئے اسے سورہ بقرہ کہا جاتا ہے بنی اسرائیل کے ایک مالدار شخص کو اس کے کے بھتیجے نے مال وراثت ہتھیانے کی غرض سے قتل کردیا یا پھر رات کی تاریکی میں نعش اٹھا کر کسی دوسرے کے دروازے پر ڈال دی اور اس پر قتل کا دعوی کر دیا قریب تھا کہ مدعی اور مدعا علیہ کے خاندان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھا لیتے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کے ذریعہ انہیں گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کا کچھ حصہ اس مقتول کے جسم کیساتھ لگانے کا حکم دیا ایسا کرنے سے مقتول زندہ ہو کر اٹھ بیٹھا اور اس نے اپنے قا تل کی نشاندہی کردی. اتفاق سے انہی دنوں بنی اسرائیل کا ایک گروہ مرنے کے بعد کی زندگی کا انکار بھی کر رہا تھا مقتول کے زندہ ہونے سے نا صرف یہ کہ قاتل کی نشاندی ہو گئی بلکہ (بعث بعد الموت) پر ایک حجت بھی قائم ہو گئی علاوہ ازیں مصریوں کے ساتھ طویل عرصے تک رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے دل میں گائے کی جو عقیدت محبت رچ  بس گئی تھی گائے ذبح کرنے کا حکم دے کر اس کی تردید اور توہین بھی کردی گئی اس واقعہ کے علاوہ پہلے پارے میں جو اہم مضامین بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
اس سورت کی ابتداء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی معجزہ قرآن کریم کے ذکر سے ہوئی ہے  یوں تو آپ کو متعدد حسی اور مادی معجزات  بھی عطا کئے گئے لیکن قرآن آپ کا سب سے بڑا معجزہ علمی تھا اس سورت کی ابتداء حروف مقطعات میں سے (ا لم) کے ساتھ ہوئی ہے ابتدا کا یہ انداز عربوں کے لیے غیر مانوس تھا اس انداز نے انکی توجہات اپنی طرف مبذول کرلی اور وہ توجہ سے بات  سننے  پر مجبور ہو گئے .
قرآن کریم کی جن سورتوں کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے وہاں قرآن کریم کی عظمت و صداقت اور اعجاز وحقانیت  کا تذکرہ بھی  ہوا ہے جس کی وجہ سے علماء کی ایک بڑی جماعت کی رائے  یہ ہے کہ یہ حروف لاکر حقیقت میں قرآن کو انسانی  کاوش قرار دینے والوں کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خودساختہ کلام ہے توتم بھی ان حروف سے جنہیں تم شب و روز استعمال کرتے ہو ایسا ہی کلام بنا لو تمہیں اپنی فصاحت و بلاغت اور زبان دانی پر بڑا ناز ہے جس کی وجہ سے تم اپنے مقابلے میں سارے  انسانوں کو عجم ( گونگے کہتے) ہو لیکن تاریخ گواہ ہے کہ  نہ کل کے کافروں نے اس چیلنج کو قبول کیا نہ آج کوئی قبول کرنے والا ہے اور نہ ہی قیامت تک  اسے قبول کر سکے گا 

  انسانوں کی تین قسمیں ہیں مومن کافر اور منافق

 مومنوں کی نمایاں صفات پانچ ہیں 
(1) ایمان بالغیب: یعنی  ان حقائق پر ایمان جن کا حواس سے ادراک نہیں کیا جاسکتا ہے جیسے جنت دوزخ حشرو نشر  اور حساب  وجزاء وغیرہ
(2) اقامت صلوۃ یعنی نماز کو شروط و آداب کا لحاظ کرتے ہوئے مستقل ادا کرتے رہنا
(3)  اداء زکاۃ:  قرآن کریم میں عام طور پر نماز اور زکوۃ کا اکٹھے ہی ذکر آیا ہے نماز اللہ کا حق ہے  اور زکوۃ بندوں کا حق ہے اور انسان کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ دونوں قسم کے حقوق ادا نہ کرے
(4) آسمانی کتابوں پر ایمان :  ان تمام آسمانی کتابوں پر ایمان جومختلف  زمانوں میں انبیاء اور رسل پر نازل کی گئی۔ 
(5) آخرت کی تصدیق : آخرت کی ایسی تصدیق جس میں شک کی کوئی ملاوٹ نہ  ہو یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اللہ نے اہل ایمان کا تذکرہ چار آیات میں کفار کا دو آیات میں اور منافقوں کا تذکرہ  تیرہ آیات میں فرمایا ہے ان تیرہ آیات میں منافقوں کے بارہ  اوصاف بیان کئے گئے ہیں مسلمانوں پر لازم ہے کی وہ ان اوصاف بد سے اپنا دامن بچا کر رکھیں یہ اوصاف اور علامات درج ذیل ہیں:
جھوٹ دھوکا عدم شعور قلبی بیماریاں (حسد تکبر اور حرص وغیرہ) مکروفریب سفاہت احکام الہی کا استہزاء زمین میں فتنہ فساد  جہالت ضلالت تذبذب اور اہل ایمان کا تمسخر 
یہ قصّہ حضرت آدم اور حضرت حواء علیہما السلام کی عظمت شان بتاتا ہے انہیں  ارضی خلافت عطا کی گئی ایسے علم سے نوازا گیا جو فرشتوں کے پاس نہیں تھا ملائکہ کو ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیا منصب خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے بنو آدم اس امر کے پابند ہیں کی وہ زمین پر اللہ کے حکموں کو نافذ  کریں اور دنیا کا
 نظام ویسے چلائیں جیسے اللہ چاہتا ہے 
یوں تو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے لیکن ان کے بارے میں سب سے زیادہ تفصیلی بحث سورہ بقرہ کرتی ہے پہلا پارہ تقریبا پورا ہی ان کے تذکرے پر مشتمل ہے 
اس تذکرے میں سب سے پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ  اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو بےشمار ظاہری اور باطنی دینی اور دنیاوی نعمتیں عطا فرمائی مثلا ان کے اندر کثرت  سے انبیاء پیدا فرماے  انہیں دنیاوی خوشحالی عطا کی عقیدہ توحید اور ایمان کی نعمت سے سرفراز فرمایا  فرعون کے مظالم سے نجات دی انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے ہجرت کی اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا تو سمندر میں ان کے لئے راستے  بنا دیے اور ان پر ظلم و ستم ڈھانے والے کو ان کی نظروں کے سامنے بمع لاؤ لشکر غرق آب کردیا صحراۓ سینا میں وہ بے سروسامانی کے عالم میں تھے ان کے کھانے کے لئے من و سلویٰ کا اور سایہ کے لئے ٹھنڈے بادلوں کا انتظام فرمادیا، پینے کے لئے پانی کی تلاش ہوئی تو پتھر سے بارہ چشمےجاری فرما دیئے اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ انہوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور بتدریج کفران نعمت کے بیماری میں مبتلا ہوگئے  چنانچہ انہوں نے حق کو چھپایا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا یا بچھڑے کو معبود بنا لیا دشت سینا میں بے صبری اور حرص و طمع کا مظاہرہ کیا اریحاء شہر میں متکبرانہ انداز میں داخل ہوئے جبکہ انہیں عاجزی کے ساتھ داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا انہوں نے انبیاء کو ناحق قتل کیا باربار بد عہدی کے مرتکب ہوئے ان کے دل سخت ہوگئے تھے انہوں نے کلام اللہ میں لفظی اور معنوی تحریف کی ، شریعت کے بعض احکام پر وہ ایمان لاۓ اور بعض کا انکار کرتے رہے وہ بغض اور حسد کی بیماری میں مبتلا ہوئے انہیں مادی زندگی سے مبالغے کی حد تک محبت تھی مقرب فرشتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے سحر و کہانت میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے ان کے ہاں ایسے عملیات کو قبول عام حاصل تھا جن کے ذریعہ میاں بیوی کے درمیان جدائی پیدا کرکے عشق پراز فسق کی راہ ہموار کی جائے بدعملی کے باوجود جنت کے واحد ٹھیکے دار ہونے کا دعوی کرتے تھے وہ بڑے وثوق سے کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہی جاسکتا ہے جو یہودی ہو اور یہی دعویٰ نصاری  بھی کرتے تھے اس کے ساتھ دونوں یہ دعوی بھی کرتے تھے کہ صرف ہم ہی حق پر ہیں اور ہمارے مخالف فرقہ کے پاس کوئی دلیل نہیں  (سوچنے اور عبرت و نصیحت کی بات یہ ہے کہ کہیں ان خرابیوں میں سے کوئی خرابی ہم مسلمانوں میں تو نہیں پائی جاتی) یہود پر انعامات اور ان کے کفران نعمت اور جرائم کی تفصیل کے بعد تذکرہ ہے ابراہیم علیہ السلام کا جن کی عظمت شام کو یہود اور نصاری دونوں تسلیم کرتے تھے اور فخریہ  طور پر ان کی طرف اپنی نسبت کرتے تھے حالانکہ کی اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہوتے تو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضرور کرتے  
کیوں کہ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمر تھے، الله نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو مختلف ابتلاؤں اور آزمائشوں میں ڈالا لیکن وہ ہر آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلے  والد کی بت پرستی سے بیزاری کا معاملہ ہو یا قوم سے ٹکراؤ کا، نمرود سے بحث و مباحثہ کا مرحلہ ہو یا آگ میں ڈالے جانے کا  اور وطن سے ہجرت کا،  بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑنے  کا حکم ہو یا لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے کا اللہ کے خلیل ہر مقام پر ثابت قدم رہے اور ان کے قدموں میں زرہ برابر لغزش نہ آیٔ اسی ثابت قدمی کی برکت تھی کی ان کی دعائیں قبول ہوئیں مکہ پر امن شہر بنا وہاں کے رہنے والوں کو پھلوں کا رزق میسر آیا اور سب سے  بڑی دعا جو قبول ہوئی وہ یہ ہے کہ اللہ نے قریش کی نسل  سے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا حضرت خلیل کے مآتر اور مفاخر بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ملت ابراہیمی سے وہی شخص اعراض کرسکتا ہے جو شقی احمق اور خواہشات کا غلام ہویھوود و نصاریٰ  واقعی ایسے تھے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف اپنی نسبت تو کرتے تھے مگر ان کا زعم باطل یہ تھا کی نجات حنفیت کی اتباع میں نہیں ہے بلکہ یہودیت اور نصرانیت کی اتباع میں ہے
اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ آپ انہیں حنفیت یعنی دین اسلام کی طرف دعوت دیں جو کہ تما م ابنیاء کا دین ہے اگر وہ آپ کی دعوت قبول کر لیں تو ہدایت پا جائیں گے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کا انکار اور گمراہی کسی دلیل کی بنا پر نہیں ہو گی بلکہ ضد اور عناد کی بنا پر ہو گی تو آپ انہیں عناد کی گندگی میں پڑا رہنے دیں اللہ ان سے نمٹ لے گا ارشاد ہوتا ہے :  اگر یہ یہود و نصاری اسی طرح  ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو یہ ہدایت پا جائیں گے اور اگر وہ منھ موڑے رہیں تو اس پر تعجب نہ کرو کیونکہ ضد اور مخالفت ان کی عادت ہے اگر انہوں نے شرارت کرنے کی کوشش کی تو اللہ تعالی ان سے عنقریب نمٹ لے گا وہ بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے (137)



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے