خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : چھٹا پارہ چھٹی تراویح

خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : چٹھا پارہ چھٹی تراویح

 پارہ ٦

پانچویں  پارہ کے اخیر میں منافقوں  کی مذمت  تھی اور انہیں سخت ترین عذاب کی وعید سنائی گئی تھی،اس لئے چھٹے پارہ کے شروع میں یہ بتایا گیا کہ اللہ بری باتوں کے اظہار کو پسند نہیں کرتا مگر ضرر کا خطرہ ہو یا جو ظالم ہو اس کی مذمت کی جا سکتی ہے،لہذا اس پر کوئی تعجب نہیں ہو نا چاہئے کہ اللہ نے منافقوں کی پردہ دری کیوں کی ہے،اس کے علاوہ جو اہم مضامین اس پارہ میں مذکور ہیں،درج ذیل ہیں۔
(١) منافقین کی مذمت کے بعد یہود کے جرائم کا تذکرہ ہے،اس لئے کہ کفر و ضلال میں وہ بہی منافقین کے بھائی تھے،ان کے جرم میں سے ایک جرم یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کا ارادہ کیا،لیکن اللہ پاک نے ان کی حفاظت فرمائی، اور انہیں با عزت طریقے سے آسمانوں پر اٹھا لیا۔(١٥٨)
(٢) یہود کے بعد اہل کتاب کے دوسرے گروہ یعنی  نصاریٰ کا تذکرہ ہے،جن کا ایک انتہائی غلط عقیدہ یہ تھا کہ خدا ایک نہیں بلکہ تین اقنوم سے مرکب ہے یعنی باپ بیٹا اور روح القدس۔
نصاریٰ کو سمجھایا گیا کہ تم اپنے دین میں غلو نہ کرواور حضرت عیسٰی کو ان کے اصل مقام سے نہ بڑھاؤ اور  یہ مت کہو کہ خدا تین ہیں۔(١٧١)
پھر جبکہ خود حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ پاک کے سامنے عاجزی اور عبودیت میں کوئی ہتک محسوس نہیں کرتے  بلکہ عزت محسوس کرتے ہیں، تو تم کون ہو حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خدا ٹھرانے والے۔(١٧٢)
(٣)سورہ نساء کے اختتام پر دوبارہ اس مضمون کا اعادہ ہے جو اس سورت کے شروع میں بیان ہوا تھا،یعنی عورتوں کے معاملے کی رعایت اور قریبی ورثہ کے حقوق کا خیال۔(١٧٦)
سورہ مائدہ: سورہ مائدہ مدنی سورت ہے اور اس میں ایک سو بیس آیات ہیں اور سولہ رکوع ہیں۔چوںکہ اس میں مائدہ (دسترخوان)کا قصہ مذکور ہے،اس لئے اس کا نام مائدہ رکھ دیا گیا ہے (١١٢تا ١١٥)
یہ سورت ہجرت مدینہ کے بعد نازل ہوئی،بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نزول کے اعتبار سے سورہ مائدہ آخری سورت ہے،اس سورت میں حلال و حرام کے متعدد احکام اور تین قصے بیان کئے گئے ہیں،اس سورت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں وہ آیت کریمہ بھی ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی،اس آیت کریمہ میں تکمیل دین کا اعلان کیا گیا ہے، یہ وہ آیت ہے جس  کے بارے میں ایک یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا تھا  اے امیر المؤمنین!اگر یہ آیت کریمہ ہمارے اوپر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو "یوم  عید"قرار دیتے۔آپ نے جواب میں فرمایا میں اس دن کو بھی جانتا ہوں، اور اس گھڑی کو بھی جانتا ہوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی وہ عرفہ کی شام اور جمعے کا دن تھا،گویا اس دن ہماری دو عیدیں تھیں، اس سورت کا جو حصہ چھٹے پارے میں آیا ہے،اس میں جو اہم مضامین بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
(١) اس سورت کی ابتداء میں اہل ایمان کو ہر جائز عہد اور عقد کے پورا  کرنے حکم دیا گیا ہے،خواہ وہ عہد وعقد انسان اور رب کے درمیان ہو یا انسان اور دوسرے انسان  کے درمیان ہو،گویا یہ آیت ان احکام کو بھی شامل ہے جو اللہ نے بندوں پر فرض کۓ ہیں،اور بیع و شراء،شرکت،اجارہ،نکاح اور قسم جیسے تمام عقود کو بھی شامل ہے،اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے عقد اور عہد کو کتنی اہمیت دی ہے۔
(٢) کھانے پینے  کی بہت ساری ایسی چیزوں کی حرمت کا اعلان کیا گیا ہے،جنہیں زمانہ جاہلیت میں حلال سمجھا جاتا تھا،کیوںکہ ان چیزوں کے کھانے میں صحت و جسم کا بھی نقصان ہے،اور فکر و نظر اور  دین و اخلاق کا بھی نقصان ہے،مثلا مردار،بہنے والا خون،خنزیر کا گوشت اور وہ جانور جسے غیر اللہ ک ے نام پر ذبح کیا جائے،البتہ اضطرار کی صورت میں جبکہ جان کو خطرہ لاحق ہو ان کا کھانا جائز ہے،ا‌ن نجس چیزوں کے علاوہ باقی طیبات  اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا گیا ہے۔(٣،٤)
(٣) حلال اور حرام کے بیان کے بعد اللہ پاک نے مسلمانوں پر اپنے اس فضل و انعام کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے انہیں وضو اور غسل کے ذریعے ظاہر و باطن کے اعتبار سے پاک کیا ہے تاکہ وہ روحانی طور پر اللہ کے ساتھ مناجات کے لئے تیار ہو سکیں۔بندوں پراللہ کے فضل و احسان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پانی کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے. (٦)
کیوںکہ اسلامی شریعت آسان شریعت ہے،اس میں قدم قدم پر بندوں کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا گیا ہے،چناںچہ اس پارہ کے چھٹے رکوع میں فرمایا گیا"اللہ تم پر تنگی نہیں کرنا چاہتا،بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے،اور تمہارے اوپر اپنا احسان پورا کردے تاکہ تم شکر کرنے والے بن جاؤ۔(٦)
(٤) اس پارہ کے ساتویں رکوع میں یہود کی بزدلی ،ان کے فتنہ و فساد،سر کشی اور تکبر کا بیان ہے،اور ان اوصاف کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے آپ کو ان خرابیوں میں مبتلا ہونے سے بچا کر رکھیں۔یہود کے ساتھ ساتھ نصاریٰ کے احوال بھی بتاۓ گۓ ہیں،ان سے بھی اللہ کے حکموں پر قائم رہنے کا وعدہ لیا گیا تھا،لیگن انہوں نے اللہ کے عہد کو توڑ دیا،جس کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں میں بغض و عداوت ڈال دی،باوجودیکہ یہ دونوں گروہ بہت ساری اعتقای،عملی اور اخلاقی خرابیوں میں مبتلا تھے،پھر بھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں،اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر واقعی تم اللہ کے محبوب ہو تو وہ تمہیں تمہارے  گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے،(١٨)
اس مذمت اور تردید کے بعد  انہیں دین حق اور خاتم الانبیاء علیہ السلام پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔

(٥) آٹھویں رکوع میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے یہود کو اللہ کے احسانات یاد کرنے کا حکم دیا،پھر انہیں ارض مقدس (فلسطین) میں داخل ہونے کی ترغیب دی،لیکن ان بد بختوں نے اس ترغیب کے جواب میں موسی علیہ السلام کا مذاق اڑانا شروع کر دیا،اور کہا:اے موسی!ہم تو اس ملک میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے،جب تک کہ وہاں سے "عمالقہ"(ایک قوم)نکل نہیں جاتے،لہذا تم اور تمہارا رب جا کر لڑو!ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔(٢٤)
(٦) بنی اسرائیل کی سرکشی اور نا فرمانی کے تذکرے کے بعد نویں رکوع میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل و قابیل کا قصہ ذکر کیا گیا ہے،جس کے مطابق قابیل نے حسد کی بنا پر اپنے بھائی قتل کو کر دیا،یہی۔ حسد یہودیوں کے اندر بھی پایا جاتا ہے،جس کی وجہ سے انہوں نے خاتم الانبیاء کی رسالت کا انکار کیا۔
(٧) اسی قصہ کی مناسبت سے ڈاکوؤں،باغیوں اور زمین میں فساد مچانے والوں کی سزاذکرکی گئی ہے،یعنی کسی کو سولی دی جائے،کسی کو کو قتل کیا جائے اور کسی کے ہاتھ پاؤں الٹی جانب سے کاٹ دۓ جائیں۔(٣٣)
پھر دسویں رکوع میں چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ یہ ملک کے امن و تحفظ کے لئے خطرہ بنتے ہیں،لہذا ان کو ایسی سزا دینا ضروری ہے جس سے دوسرے عبرت حاصل کریں،یہاں یہ حقیقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے، کی اسلام انسان کی جان ، عزت اور مال کی حفاظت کوبڑی اہمیت دیتا ہے اوران کے لئے خطرہ بننے والوں کے لیے ایسی عبرتناک سزائیں تجویز کرتا ہے کہ  ان کا تصور ہی انسان کو جرم کے ارتکاب سے روک دے اور ایسے لوگوں کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے،جو اجتماعی امن کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔چند ہاتھ کٹنے سے لاکھوں انسانوں کو اگر امن و سکون میسر آجاتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے،آج کی دنیا جو جرائم کی کثرت کی وجہ سے جہنم کا کا نمونہ بن چکی ہے،چیںخ چیںخ کر اسلامی قوانین اور حدود کے نفاذ کی دعوت دے رہی ہے۔
(٨)  ڈاکہ ڑنی،چوری اور فساد کے احکام بیان کرنے کے بعد فسادیوں کے دو بڑے گروہوں کا تذکرہ ہے،یعنی منافقین اور یہود،پہلے گروہ کا ذکر اختصار کے ساتھ ہے اور دوسرے کا تفصیلی تذکرہ ہے،فرمایا گیا اے رسول! آپ کو لوگ غم میں نہ ڈالیں جو کفر میں جلدی کرتے ہیں،وہ جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں جبکہ ان کے دل مسلمان نہیں ہیں،اور وہ جو یہودی ہیں یہ جھوٹ بولنے کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور ایک دوسری  جماعت کے جاسوس ہیں،جو آپ کے پاس نہیں آئی (٤١)
۔یہود کے ساتھ ساتھ نصاریٰ کی گمراہی کا بھی ذکر ہے اور بتلایا گیا ہے کہ ان کو تورات و انجیل دی گئی تھی لیکن انہوں نے اپنی کتابوں کے مطابق فیصلے نہ کۓ۔
(9) تورات اور انجیل کے ذکر کے بعد قرآن کا تذکرہ ہے جو کہ ہدایت اور گمراہی میں فرق کرنے والا ہے اور یہی کتابوں کا محافظ ہے۔ عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق سے تعلق رکھنے والی کوئی ایسی نصیحت اور کوئی ایسا کام نہیں جو انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری ہو اور کتب سابقہ میں تو ہومگر قرآن میں نہ ہو۔
(10) اس کے بعد مسلمانوں کو یہود و نصاری کے ساتھ قلبی دوستی لگانے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ وہ امت اسلامیہ کے سخت ترین دشمن ہیں ۔ فرمایا گیا: اے ایمان والو! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اورتم میں سے جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے ہوگا، بیشک اللہ تعالی ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔“ (۵۱)
 (11) قرآن کریم کی صداقت کا زندہ معجزہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آپس کے شدید مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود یہود و نصاری مسلمانوں کے مقابلے میں متحد ہیں ۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ عالم اسلام کے حکمران قرآن حکیم کی واضح ہدایات کے باوجود یہود ونصری سے پینگیں بڑھاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر بنیاد پرست مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے ہیں.
(12) کفار کے ساتھ جب قلبی دوستی لگائی جائے گی تو ارتداد کا بھی خطرہ رہے گا۔
اس لیے اگلی آیات میں مسلمانوں کوارتداد سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ ارتداد سے سارے اعمال باطل اور ضائع ہو جاتے ہیں اور انسان پر ہمیشہ کے لیے دوزخ واجب ہو جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ اللہ کا دین تمہارا محتاج نہیں اگر تم مرتد ہو جاؤ گے تو اللہ تعالی تم سے بہتر لوگوں کو دین کی خدمت کے لیے کھڑا کر دے گا فرمایا: اے ایمان والو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈر ہیں ۔ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ کشایش والا اور جانے والا ہے ۔‘‘ (۵۴)
(13) یہود و نصاری کی دوستی سے منع کرنے کے ساتھ ساتھ سچچے اہل ایمان سے دوستی لگانے کا حکم دیا گیا ہے، کفار کی دوستی کی قباحت کو واضح کرنے کے لیے مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ اسلام کے شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں اس لیے ان کے ساتھ دوستی کسی طور پر بھی جائز نہیں ، یہود و نصاری کی گمراہیوں میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسلام اور قرآن کو جھٹلایا اور نصاری نے حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا ٹھہرایا جیسا کہ چھٹے پارے کے چودھویں رکوع میں فرمایا: بے شک وہ الوگ کافر ہوئے جنہوں نے کہا کہ اللہ وہی مسیح ابن مریم ہے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ تین میں سے تیسرا تھا۔ قرآن نے ان کے غلط نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: مسیح ابن مریم اور ان کی والدہ دونوں کھانا کھاتے ہیں  ۔‘‘ (۷۵ )
 ظاہر ہے کہ جو کھائے گا وہ فضلہ نکالنے کا بھی محتاج ہو گا اور ج محتاج  ہے وہ خدا نہیں ہوسکتا۔
(14) یہود و نصاری دونوں کو دین میں ناحق غلو کرنے اور خواہشات کی اتباع کرنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ یہ غلو اکثر گمراہی کا سبب بنتا ہے۔
(15) چھٹے پارے کے آخری رکوع میں یہود پر اللہ کی لعنت کا سبب بتلایا ہے وہ یہ کہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کر جاتے تھے اور ایک دوسرے کو برے کاموں سے منع نہیں کرتے تھے۔
یہ سبب ذکر کر کے اصل میں امت اسلامیہ کو سمجھایا گیا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہیں وگرنہ ان پر بھی ویسے ہی اللہ کی لعنت ہوسکتی ہے جیسا کہ بنی اسرائیل پر لعنت ہوئی ۔ اور یہ بات خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں ارشاد فرمائی ہے ، ترمذی میں ہے کہ آپ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل معاصی  میں مبتلا ہوئے تو ان کے علماء نے انہیں منع کیا مگر وہ باز نہ آئے ، ان کی مجلسوں میں بیٹھتے رہے اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے بھی رہے۔ چنانچہ  اللہ نے ان سب کے دلوں کو ایک جیسا کر دیا اور داؤد اور عیسی بن مریم (علیهما  السلام) کی زبان
سے ان پر لعنت فرمائی یہ اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے اور حد سے تجاوز کر جاتے تھے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پہلے ٹیک لگائے ہوئے تھے مگر  یہ فرماتے ہوئے سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے نہ تمہارا ایمان کامل ہوسکتاہے اور نہ ہی تم اللہ کے عذاب سے نجات پا سکتے ہو جب تک کہ تم لوگوں کو ( حق کی دعوت نہ دو اور ) حق قبول کرنے پر آمادہ نہ کرو اور انہیں ظلم اور معاصی سے منع نہ کرو ) (ترمذی)
(16) آخری آیت میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے سب سے سخت دشمن یہود اور مشرکین ہیں اور قرآن کے اس دعوی پر یہود کی پوری تاریخ گواہ ہے، البتہ جو واقعی اور حقیقی نصاری ہیں وہ مسلمانوں کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ آج ہمیں جن نصاری کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے، وہ حقیقت میں وہ نصاری نہیں ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیمات پرعمل کرنے والے ہیں، ان کی اکثریت تو فکرو عمل کے اعتبار سے یہود کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے، بے شمار ایسے ہیں جو ملحد اور  بے دین ہیں ۔ صرف نام کے عیسائی ہیں باقی جو بچتے ہیں وہ مسخ شدہ عیسائیت پر عمل  پیرا ہیں’’نصرانیت کہیں بھی نہیں ہے۔





ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے