خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : تیسرا پارہ تیسری تراویح


خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : تیسرا پارہ تیسری  تراویح

خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : تیسرا پارہ تیسری  تراویح 


پارہ نمبر ٣ 
خود رب کریم کی رسالت کی گواہی

سورۃ البقرہ میں تشریعی احکام کے ساتھ نبوت و رسالت کا موضوع بھی بیان ہوا ہے دوسرے پارے کے آخر میں آپ پڑھ چکے ہیں کی خود رب کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی

 یہاں تیسرے یاره کے آغاز میں ان خصائص کا ذکر ہے جو بعض انبیا علیہم السلام کو عطا کیے گئے کسی کو سیادت و قیادت عطا ہوا، کسی کو بلا واسطہ ہم کلامی کا شرف عطا کیا گیا کسی کی تائید  واضح معجزات  سے کی گئی، 
یہ  تمام انبیا علو مرتبہ کے با و جود  فضل و شرف میں ایک جیسے نہ تھے بلکہ بعض کو بعض پر فضیلت حاصل تھی، جیسے بعض انبیاء کو دوسرے بعض پر فضیلت حاصل ہے اسی طرح ان کی امتوں کو ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے۔ چونکہ بہت ساری خصوصیات اور امتیازات کی بناء پر ہمارے آقا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے لہذا آپ کی امت کو بھی دوسری تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔
انبیاء کے فضائل اور فرق مراتب کو بیان کرتے ہوئے یہ سورت ہمارے سامنے اس آیت کو پیش کرتی ہے جو کتاب اللہ کی افضل ترین آیت ہے، میری مراد آیت الکرسی ہے جو پچاس کلمات اور دس جملوں پرمشتمل ہے، اس میں سترہ بار الله تعالی کا ذکر آیا ہے  کہیں صراحۃ اور کہیں  اشارة
 - تیسرے پارے میں حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر علیہ السلام کے قصے بھی بیان کئے گئے ہیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وہ قصہ بھی جب انہوں نے نمرود بن کنعان جیسے سر کش اور متکبر بادشاہ کے ساتھ مباحثہ کیا تھا اور وہ قصہ بھی جب انہوں نے اللہ تعالی سے درخواست کی تھی کہ مجھے مردوں کو زندہ کرنے کا منظر دکھایا جائے یونہی حضرت عزیر علیہ السلام کے دل میں ایک تباہ شدہ بستی  کو دیکھ کر خیال پیدا ہوا تھا کہ نہ معلوم اس بستی کو دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا چنانچہ خودان پر سو سال کے لیے موت مسلط کر دی گئی پھر انہیں زندہ کیا گیا۔
سورۂ بقرہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس سورہ میں پانچ جگہ احياء موتی‘ ( مردوں کو زندہ کرنے ) کا موضوع ذکر کیا گیا ہے۔ اس مقتول کے واقعہ میں جو گائے کا گوشت جسم کے ساتھ لگنے کے بعد زندہ ہوا تھا۔بنی اسرائیل کے ان معاندین کے قصہ میں جنہوں نے رویت باری کا مطالبہ کیا تھا۔
اس قوم کے قصّہ میں جو طاعون سے بچنے کے لیے گھروں سے بھاگ کھڑی ہوئی تھا۔
 حضرت عزیر علیہ السلام کے قصہ میں
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصہ میں  ۔
مذکورہ بالا کے علاوہ سورة البقرہ میں جواہم  مضامین بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
دین اسلام ، انسانیت، انفاق فی سبیل اللہ ، اخوت و محبت اور فضل و احسان کا دین ہے
انسانی فلاح کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کی قرآن نے دعوت نہ دی ہو اور نیکی کا کوئی ایسا کام نہیں جس کی اسلام نے ترغیب نہ دی ہو، سورۃ البقرہ میں انداز بدل بدل کر انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اس کے آداب بھی بتائے گئے ہیں۔
سب سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں اور اخلاص کی بناء پر انہیں حاصل ہونے والے ثواب کو اس کا شت کار کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو زمین میں ایک دانہ بوتا ہے اور اس سے سات بالیاں اگ آتی ہیں ، ایک ایک بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں ۔ یوں کاشت کار زمین کو ایک دانہ دے کر اس سے سینکڑوں دانے واپس لے لیتا ہے ۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ایک روپیہ خرچ کر کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ، لاکھوں نیکیاں حاصل کر لیتا ہے۔ (۲۹۱) 

دوسری طرف وہ شخص ہے جو محض دکھاوے کے لیے صدقہ کرتا ہے اسے اس کسان کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو اپنی فصل ایسی چٹان پر بوتا ہے جس پر مٹی کی ہلکی سی تہہ بچھی ہوتی ہے اگر تیز بارش ہو جائے تو مٹی اور بیج دونوں بہہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی ساری محنت ضائع چلی جاتی ہے۔ (۲۶۳)
صدقہ خیرات کے شراط اور آداب بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ مناسب بات کہہ دینا اور درگزر کرنا ایسے صدقہ خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد دل آزاری کی جائے ۔‘‘ (۲۹۳) ||
دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے اور جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے بھی عمدہ چیز ہی خرچ کرو اور ا یسی ردی چیز اللہ کی راہ میں دینے کا ارادہ بھی نہ کرنا جو اگر تمہیں دی جائے تو تم کبھی نہ لو سوائے اس کے کہ تم چشم پوشی کر جاؤ۔ (۲۶۷)
تیسرا حکم یہ دیا گیا ہے کہ اگر تم صدقات  اعلانیہ دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر تم چھپا کر ضرورت مندوں کو دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے۔ (۲۷۱)
 سوره بقرہ میں جو شرعی مسائل بیان کیے گئے ہیں، ان میں ہمارے دور کا ایک اہم  مسئلہ  حرمت ربا بھی ہے  سودخور کو اس شخص کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو جنات اور شیاطین کے اثرات کی وجہ سے خبطی اور دیوانہ ہو جاتا ہے، دنیا میں بھی سودخور کا حال خبطیوں اور پاگلوں جیسا ہوتا ہے، قیامت کے دن وہ قبر سے بھی یونہی کھڑا ہو گا ، اس کے بعد سود پر ایسی وعید سنائی گئی ہے کہ اس جیسی وعید کسی بڑے سے بڑے گناہ پربھی قرآن میں نہیں آئی۔ ارشاد ہوتا ہے اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور لوگوں پر تمہارا جو سود باقی رہ گیا ہے، اگر تم واقتی مومن ہو تو اسے چھوڑدو لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر تمہارے لیے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ
ہے۔“ (۲۸۔۲۹)
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن نے صدقہ کے فضائل و آداب بیان کرنے کے بعد ربا  کے نقصانات اور تباہ کاریاں بیان کی ہیں ، اصل میں صدقہ اور ربا دو متضاد نظام ہیں ،
صدقہ میں احسان، پاکیزگی اور تعاون کا جذ بہ ہوتا ہے۔ جبکہ ربا میں بخل، گندگی اور خود غرضی پوشیدہ ہوتی ہے، صدقہ میں دیا ہوا مال واپس لینے کی نیت نہیں ہوتی جبکہ ربا میں اصل زر سے بھی زیادہ لینے کی شرط ہوتی ہے ، صدقہ سے آپس کی محبت بڑھتی ہے جبکہ ربا سے با ہمی نفرت میں اضافہ ہوتا ہے،
صدقہ کرنے والے کے لیے اللہ کی محبت کا اعلان اور مغفرت کا وعدہ ہے جبکہ سود خور پر لعنت کی وعید اور اعلان جنگ ہے ، سود کے نفسیاتی ، اخلاقی ، معاشی اور معاشرتی نقصانات اتنے واضح ہیں کہ اب سود کے حامی  دبی دبی زبان سے ان کا اعتراف کرنے لگے  ہیں۔ ربا کی حرمت کا حکم بیان کرنے کے بعد دین تجارت، باہمی لین دین اور رہن کے احکام بیان کیے گئے ہیں ، یہ احکام جس آیت کریمہ میں بیان کیے گئے ہیں وہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ، مالی معاملات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے
اور یہ کہ اسلام دین اور دنیا ، عبادت اور تجارت ، جسم اور روح سب کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
اس آیت کریمہ میں جو احکام دیئے گئے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
ادھار کے تمام معاملات میں تحریری دستاویز تیار کر لینی چاہیے۔
جب ادھار کا معاملہ کیا جائے تو اس کی میعادضرور مقرر کر لی جائے اور میعاد بھی ایسی مقر کی جائے جس میں کوئی ابہام نہ ہو۔ دوران سفر اگر دستاویز کی تیاری ممکن نہ ہوتو رہن رکھ کر بھی قرض لیا جا سکتا ہے۔
دست بدست تجارت کی صورت میں تحریر ضروری نہیں  ۔
چونکہ سورۂ بقرہ میں نماز ، زکوہ ، حج ، روزہ، جہاد ، صدقہ ، ربا ، نکاح، طلاق اور عدت جیسے متعدد شرعی احکام بیان ہوئے ہیں اس لیے اس صورت کے اختتام پر یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اللہ تعالی کبھی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔“ (۲۸۵)
یونہی سورت کا اختتام جامع ترین دعا پر کیا گیا ہے جس میں مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے کہ وہ بارگاہ الہی میں یوں درخواست کیا کریں کہ اے اللہ! اگر احکام کی تعمیل میں ہم سے کوئی غلطی ہوجائے تو معاف کردینا جب تک مسلمان ، احکام الہیہ پر اپنی استطاعت کے مطابق عمل کرنے کے ساتھ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر استغفار کرتے رہیں گے،  نیز وہ اللہ تعالی سے دعا اور التجا کرتے رہیں گے تو ان شاء اللہ یہود جیسے انجام بد سے بچے رہیں گے۔


سورة آل عمران
 تیسرے پارہ کے آٹھ رکوع تو سورۂ بقرہ پرمشتمل تھے، اب نویں رکوع سے سورة آل عمران کا آغاز ہوتا ہے، یہ سورت بالاتفاق مدنی ہے، اس میں بیس رکوع اور دوسو آیات ہیں، چونکہ اس سورت میں حضرت عمران علیہ السلام کے خاندان کا قصہ بیان کیا گیا ہے، 
اس لیے اس کا نام آل عمران“ رکھ دیا گیا ، اس سورت کی فضیات کے بارے میں صحیح مسلم میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ دو روشن سورتیں یعنی بقرہ اور آل عمران پڑھا کرو“ ان دونوں سورتوں کے مضامین میں حد درجہ مناسبت پائی جاتی ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دو سورتوں کو زہراوین ( دو روشن چیزیں یا تمس وقمر ) قرار دینا بھی ان کے درمیان مناسبت کو ظاہر کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ان دونوں سورتوں میں اہل کتاب سے خطاب ہے
مگر سورۃ البقرہ میں زیادہ تر روئے سخن یہود کی طرف تھا جبکہ آل عمران میں اصل خطاب نصاری سے ہے، پھر یہ کہ دونوں سورتوں کا آغاز حروف مقطعات میں سے الم  کے ساتھ ہوا ہے اور
دونوں ہی سورتوں کی ابتدا میں قرآن کی حقانیت کو بیان کیا گیا ہے۔اور دونوں سورتوں کے اختتام پر جامع قسم کی دعائیں منقول ہیں اس سورہ کی تقریبا اسی  آیات اس وقت نازل ہوئیں جب نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس وفد میں نصاری کے ساٹھ افراد شامل تھے ، وفد کے شرکاء نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مباحثہ کیا اور انہیں معاذ اللہ! اللہ کا بیٹا ثابت کرنے کی کوشش کی اس سلسلہ میں ان آیات سے استدلال کیا جن میں حضرت عیسی علیہ السلام کو کلمتہ اللہ یا روح اللہ قرار دیا گیا ہے 

 ان کے اس غلط استدلال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اللہ کے کلام میں دو قسم کی آیات ہیں، بعض آیات وہ ہیں جو اپنی مراد پر دلالت کرنے میں بالکل واضح ہیں ، ایسی آیات کو محکمات کہا جاتا ہے، اور قرآن  کریم کا غالب حصہ محکمات پر ہی مشتمل ہے، اور دوسری قسم کی آیات وہ ہیں جن کی حقیقی اوریقینی
مراد اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں یا جن میں کسی بھی وجہ سے اشتباہ   پایا جاتا ہے، ایسی آیات کو متشابہات کہا جاتا ہے، 

جو حق کے متلاشی ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ محکمات کی پیروی کرتے ہیں اور جن کے دل میں کجی اور دماغ میں فتور ہوتا ہے وہ متشابہات کی غلط سلط تاویل کرنے اور ان کی مراد تک پہنچنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ...... کلمة  الله اور روح الله جیسے الفاظ ، متشابہات کی قسم میں سے ہیں، ان متشابہات کی بنیاد پر شرکیہ عقائد کی عمارت کھڑی کرنا، پانی پر نقش بنانے کے سوا کچھ  نہیں ، تو حید اور ایمان کے دلائل بالکل واضح ہیں ان کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو بصیرت سے بالکل کورا ہو، اس کائنات کی ہر چیز یہاں تک کہ خود باری تعالی ، اس کے پا ک فرشتے اور نیک  علماء توحید کی گواہی دیتے ہیں ۔ (۱۸)
جیسے اللہ توحید کی گواہی دیتا ہے، اسی طرح وہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ اس کے نزدیک پسندیدہ دین صرف اسلام ہے ، یہود و نصاری کا اس کی حقانیت کے بارے میں جھگڑا کرنا سوائے کفر وعناد کے اور کچھ نہیں۔
اگلی آیات میں مسلسل اہل کتاب کی مذمت کی گئی ہے اور ان کے جرائم بیان کیے گئے ہیں،
یہی ہیں جنہوں نے انبیا کوقتل کیا ، خون ریزی کی ، اللہ کے نیک بندوں پر مظالم ڈھائے (۲۱)
مسلمانوں کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائیں ۔ (۳۸)
کیونکہ اسلام اور کفر کے درمیان کوئی رشتہ ناتا نہیں ہے اور کافر کبھی بھی مسلمان کے ساتھ مخلص نہیں ہوسکتا۔
اگلی آیات میں سورة آل عمران تین عبرت آموز قصّے بیان کرتی ہے، یہ تینوں قصے خوارق عادت کے قبیل سے ہیں اور تینوں اللہ کی عظیم قدرت پر دلالت کرتے ہیں، پہلا قصہ حضرت مریم علیہا  السلام کی ولادت کا ہے، جنہیں  عیسائیوں نے اللہ تعالی کی زوجہ اور ان کے بیٹے کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دیا اور یوں بدترین گمراہی کا شکار ہو گئے ۔
حضرت مریم علیہا  السلام کے والد حضرت عمران  اللہ کے نیک بندے تھے اور آپ کی
والدة  حنہ بنت فاقوذ صاحب کردار اور پاک خاتون تھیں ، عرصہ تک ان کے ہاں بچہ پیدا نہ ہوا
ایک دن پرندے کو دیکھا کہ وہ اپنے بچے کو دانہ کھلا رہا تھا، دیکھ کر دل مچل گیا ، اولا د کی آرزو پیدا
ہو گئی اللہ کے حضور دامن پھیلا کر درخواست کی اور نذر مانی کہ اگر تو مجھے اولا د عطا فرما دے تو میں
اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کر دوں گی ، اللہ  جل شانہ نے دعا قبول فرما لی ، ان کے ہاں بیٹی
پیدا ہوئی ، دستور یہ تھا کہ بیت المقدس کی خدمت کے لیے لڑکوں کو قبول کیا جاتا تھا لڑکیوں کو قبول
نہیں کیا جاتا تھا، ایک سانحہ یہ بھی پیش آ گیا کہ نومولود بچی کے والد انتقال فرما گئے، اللہ تعالی نے
سابق دستور کے خلاف زوجہ عمران کی نذر قبول فرمائی اور اپنے زمانے کے بہترین انسان حضرت زکریا علیہ السلام کو بچی کی کفالت اور تربیت کے لئے منتخب فرمایا
حضرت زکریا علیہ السلام نے بچی کی کرامتیں اور بے موسم کا پھل دیکھا تو ایک دن پوچھا اے مریم یہ رزق تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے جواب دیا کہ اللہ کے ہاں سے آتا ہے بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے 

معصوم بچی کا ایمانی جواب سن کر حضرت زکریا علیہ السلام کے دل میں بھی اولاد کی آرزو جاگ اٹھی  حالاںکہ ان کی عمر سو سال سے تجاوز کر چکی تھی اور بیوی بھی بوڑھی ہو چکی تھی بانجھ تو تھی ہی  لیکن ظاہری اسباب کی مخالفت کے باوجود انتہائی عجزوانکسارکےساتھ اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب مجھے اپنی خصوصی عنایت سے نیک اولاد عطا فرما بےشک تو ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے 

اللہ تعالی نے شکستہ دلی سے کی گئی دعا کو قبول فرمالی اور ایسے بیٹے کی بشارت سنائی جو چار صفات کا حامل ہوگا وہ کلمۃ اللہ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام کی تصدیق کر ے گا اور آپ  پر ایمان لائے گا وہ علم و تقوی اور زہدوعبادت میں سیادت کے مقام پر فائز ہوگا وہ انتہائی عفیف  ہو گا قدرت اور قوت کے باوجود عورتوں کے قریب نہیں جائے گا اور وہ انبیاء و صلحاء کی جماعت کا ایک فرد ہوگا ،
قدرت  الہیہ کا نمونہ : تیسرا عبرت آموز قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا ہے حضرت مریم اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ اس اعتبار سے عجیب اور قدرت الہی کا نمونہ تھا کہ ان کے والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے 

عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا عجیب ترین قصہ 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا واقعہ عجیب ترین ہے کیونکہ آپ کی ولادت والد کے بغیر سراسر معجزانہ طریقہ پر ہوئی 

جب فرشتوں نے حضرت مریم کو بیٹے کی ولادت کی خبر دی تو انہوں نے بڑے تعجب سے کہا 
میرے ہاں بچہ کیسے  پیدا ہوگا حالانکہ  مجھے کسی انسان نے ہاتھ تک نہیں لگایا 
اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا کی اسی طرح ہوجائے گا کیونکہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے پیدا کر دیتا ہے جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ہوجا پس وہ ہو جاتا ہے 

سیدنا مسیح علیہ السلام کو باری تعالی نے مختلف معجزات  عطا فرمائے لیکن ان معجزات کو دیکھ لینے کے باوجود یہود کو ایمان قبول کرنے کی سعادت حاصل نہ ہوئی
اور انہوں نے آپ کو قتل کرنے کا عزم کرلیا 
دوسری طرف اللہ تعالی نے آپ کو بچانے کی تدبیر کر لیں پھر سب نے دیکھ لیا کی اللہ ہی کی تدبیر غالب رہی ارشاد باری تعالیٰ ہے
انہوں نے بھی تدبیر کی اور اللہ نے بھی تدبیر کی اور اللہ سب  تدبیر کرنے والوں سے اچھا ہے 
یہودیوں کا دعوی ہے کہ ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو معاذاللہ سولی دے کر قتل کر دیا
عیسائی کہتے ہیں کہ انہیں سولی دے کر قبر میں دفن کردیا گیا تھا تین دن تک وہیں رہے پھر قبر پھٹی اور آسمانوں   پر چلے گئے اور وہاں رب کے عرش پر تشریف فرما گئے
متحدہ ہندوستان میں ایک مدعی نبوت کے اقتدا کرنے والے فرقے کا دعوی ہے کہ آپ سولی  پر زخمی ہوگئے تھے آپ کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفن کر دیا گیا شاگردوں نے آپ کا علاج کیا جس سے آپ تندرست ہوگئے پھر آپ ہجرت کرکے کشمیر چلے گئے وہیں آپ کا انتقال ہوا
ان تمام دعوؤں کے برعکس قرآن کا دعوی اور اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ آپ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا آپ قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے اور پھر اپنی زندگی پوری فرما کر طبعی موت  مریں گے سورہ آل عمران میں جس وقت اللہ تعالی نے فرمایا میں تجھے اس وقت موت دوں گا جو وقت موت کے لیے مقرر ہے اور فی الحال میں آپ کو اپنی طرف  اٹھا لیتا ہوں اور میں تجھے کافروں کے الزامات سے پاک کیے دیتا ہوں اور تیرے اتباع کرنے والوں کو قیامت کے دن تک غالب کردوں گا 

نجران کے وہ عیسائی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بحث و مناظرہ کے لیے مدینہ منورہ آئے تھے جب وہ تمام دلائل سننے کے باوجود حق کا اعتراف کرنے پر تیار نہ ہوئے تو اللہ تعالی کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی ،
یعنی یہ کہ تم اپنے اہل وعیال کو لے کر آؤ میں اپنے اہل و عیال کو لے کر آتا ہوں پھر ہم مل کر خشوع خضوع کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو عیسائیوں کا یہ وفد  جو ساٹھ افراد پر مشتمل تھا اور اس میں ان کے چودہ انتہائی سربر آوردہ مذہبی رہنما بھی  شامل تھے ان میں سے کوئی بھی مباہلہ کے لئے تیار نہ ہوا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیہ دینے پرراضی ہوگئے 
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد سورہ ال عمران تمام اہل کتاب کو خواہ وہ یہود ہو یا نصاریٰ  ایک ایسے کلمہ پر متفق ہو جانے کی دعوت دیتی ہے جس کی تلقین تمام انبیاء علیہ السلام نے کی ہے اور جس کی تعلیم چاروں کتابوں سمیت تمام آسمانی صحیفوں  میں دی گئی ہے اور وہ ہے
 کلمہ توحید۔ لا الہ الا اللہ یعنی ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں 
یہودو نصاریٰ کی بدعملیوں  و بددیانتیوں اور ان کے جھوٹ اور افتراء کو بیان کرنے کے بعد سورۃ ال عمران بتاتی ہے کہ اللہ تعالی نے تمام انبیاء علیہ السلام سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر ان کی موجودگی میں خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو تم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ گے اور اگر تمہاری موجودگی میں وہ نہ آئے تو پھر تمہاری امتی اور  متبعین ان پر ایمان لانے کے پابند ہوں گے  

انبیاء سے عہد حقیقت میں ان کی امتوں سے عہد تھا مگر افسوس کہ ان انبیاءکی امتوں نے اس عہد کی پاس داری نہ کی اور تصدیق اور مدد کے بجائے وہ تکذیب اور مخالفت پر تل گئے

یہ آیت  کریمہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدالانبیاء ثابت کرتی ہے 
تیسرے پارہ کےاختتام پر اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کی ایمان اور کفر دو ایسی ضد یں  ہیں جو جمع نہیں ہوسکتں اسی لئے ان لوگوں کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے جو ایمان سے مرتد ہوجاتے ہیں ظلالت کو ہدایت پر ترجیح دیتے ہیں اور جن کا حالت کفر میں انتقال ہو جاتا ہے ،

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے