ورنہ نا معلوم: ہم کس کھائی میں دھکیل دیے جائیں۔


ورنہ نا معلوم: ہم کس کھائی میں دھکیل دیے جائیں۔

ورنہ نا معلوم: ہم کس کھائی میں دھکیل دیے جائیں۔
از : وقار احمد

علم سے محض: "علم دین" ہی مطلوب نہیں؛ بلکہ جن علوم کی دنیا میں ضرورت پیش آتی ہے، وہ تمام علوم مطلوب ہیں اور ان کو حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں ہمیں ضرورت: اپنے اکابرین کو پڑھنے کی ہے، بالخصوص جنہوں نے ہمارے ملک "ہندوستان" کو آزاد کرانے میں اپنی جان ومال کی بازی لگا دی۔ ہمیں ان کے افکار ونظریات سے قیمتی علمی و فکری ذخائر مل سکتے ہیں، جن کے ذریعہ ہم سماجی، معاشی، علمی اور جسمانی؛ ہر میدان میں وہ عظیم نمایاں خدمات انجام دے سکتے ہیں: جن کی آج عوام کو ضرورت ہے۔

آج ہم اگر صرف اکابرین دیوبند کو مکمل طور پر پڑھ لیں، جو ہمارے سر کے تاج ہیں، تو یقینا ایسا روڈ میپ ملے گا کہ بقیہ تحریک آزادی ہند کے افراد کو پڑھنے کی ایک خاص رغبت پیدا ہوگی، جن کے سیاسی وسماجی اور معاشرتی واصلاحی علوم کو بنیاد بنا کر ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں؛ مگر ہم اس امر میں حد سے زیادہ کوتاہ ہیں۔ 

غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہونچا کہ خود سرزمین دیوبند سے اگر "قسم البحث والتحقیق (حجة الاسلام اکیڈمی)" اور "مدنی دارالمطالعہ" کو علاحدہ کردیا جائے، تو شاید کوئی اور شعبہ اس سرزمین پر ہو، جہاں علمائے دیوبند کے افکار ونظریات کے مطالعہ اور ان پر کام کرنے کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہو؛ الا یہ کہ چند، جو صرف سوانح نگاری تک ہی محدود رہتے ہیں۔

بہر کیف! ہندوستان کی تمام بڑی شخصیات کا مطالعہ ہر ایک کو کرنا چاہیے اور ان کی فکروں کو عوام کے سامنے لانا چاہیے؛ ورنہ بعید نہیں کہ ان اکابرین کا نام تعجب سے لیا جانے لگے اور جنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں اپنی جان تک کی قربانیاں پیش کر دیں، ان کا نام ونشان تاریخ کے صفحات سے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا جائے؛ چوں کہ کچھ کرایے کے مصنفین بڑی تیزی سے یہ کام کررہے ہیں؛ ان کا مقصد ہی ہے: مسلم تاریخ کو جھوٹ اور تبدیلی کے ساتھ لکھنا۔ 

کاش ہمارے لوگ بھی اپنے ان عظیم راہنماؤں پر قلم اٹھاتے اور حق بیانی کرتے، تو ان کی ہستی کا وجود ہماری آنے والی نسلوں تک اور اس کے بعد بھی جیتا جاگتا رہتا؛ لیکن ہم میں ایسے بڑے بڑے قلم کار ہونے کے باوجود ان عناوین پر قلم نہیں اٹھا رہے، غور کرنے اور سوچنے کا موضوع ہے۔ اگر ہم! اپنے اکابرین کی شخصیات کو عوام کے سامنے نہیں لائیں گے، تو ظاہر ہے کہ دوسرے ہم پر سبقت کر جائیں گے۔ 

بڑے افسوس کی بات ہے: جن کا علوم اور جن کے ذریعہ اسلامی علوم ہم تک پہونچے، ہم انہیں کے افکار ونظریات اور خدمات سے نابلد ہیں؛ یہ ہم میں ایک بہت بڑی کمی ہے؛ ایسا نہیں ہونا چاہیے؛ بلکہ اس کمی کو جلد از جلد دور کرنا چاہیے۔

اگر آج کسی کلاس میں اچانک جاکر سو طلبہ کے سامنے یہ سوال کیا جائے کہ حضرت محمد قاسم نانوتوی، شیخ الہند محمود حسن دیوبندی، مولانا ابوالکلام آزاد، گاندھی، محمد علی جوہر اور جواہر لعل نہرو وغیرہ کے بارے میں کچھ بتائیے؟ یا کم از ان کی تاریخ پیدائش ووفات بتایے، تو نوے طلبہ خاموش رہیں گے اور دس میں متیقن نہیں کہ وہ بھی صحیح جواب دیں گے یا نہیں۔ جب کہ یہ حضرات خود میں ایک انجمن اور تحریک تھے؛ انہیں کی وجہ ہے کہ آج ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہے؛ ورنہ نہ جانے کسی کھنڈر میں یہاں کی عوام گری پڑی ہوتی۔

اس لیے اہل کالج اور اہل مدارس کے تمام طلبہ وطالبات سے ادبا واحتراما درخواست ہے کہ اپنے اکابرین کو زیادہ سے زیادہ پڑھیے، ان کے افکار ونظریات کے تحت عوام کو شاہراہ دکھایے اور ان پر کام کریے؛ اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ مفکرانہ سوچ پیدا ہوگی، ذہنی انقلاب آئے گا، جس کے تحت آپ ملک کی ترقی کا باعث بنیں گے۔ موجودہ حالات میں انہیں پڑھنے اور سمجھنے کی کافی ضرورت ہے؛ ورنہ نہ معلوم ہواؤوں کے تھپیڑے ہمیں کس کھائی میں دھکیل دیں۔ پھر ہم بے سروسامانی کے عالم میں مجبور ولاچار ظالموں کے ظلم سہتے رہ جائیں گے اور ہم میں ان کے خلاف آواز اٹھانے تک کی ہمت نہ ہوگی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے