بندہ ہوں نہ رب ہوں نہ رب کا بیٹا | حضرت عیسیٰ علیہ السلام | لجنۃ المؤلفین


بندہ ہوں نہ رب ہوں نہ رب کا بیٹا | حضرت عیسیٰ علیہ السلام | لجنۃ المؤلفین


پارہ 16
سولہویں پارہ کی ابتدائی آیات میں حضرت موسی اور حضرت خضر علیہما السلام کے قصہ کا بقیہ ذکر کیا گیا ہے، اس کے بعد ذوالقرنین کا قصہ مذکور ہے، ذوالقرنین کی شخصیت میں مفسرین کا اختلاف ہے، بہت سے حضرات سکندر مقدونی کو ذوالفقر نین قرار دیتے ہیں ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ سکندر کو ذوالقرنین قرار دینا مشکل ہے کیونکہ یہ شخص ایمان اور خوف خدا سے خالی تھا جبکہ قرآن نے جس شخص کا ذکر کیا ہے وہ صرف وسائل و اسباب رکھنے والا بادشاہ ہی نہیں تھا بلکہ اس کے اندر ایمانی صفات بھی پائی جاتی تھیں اور اس نے ظالم و جابر بادشاہوں کے برخلاف اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو صرف انسانیت کی خدمت اور قیام عدل کے لیے استعمال کیا ۔ بعض حضرات نے سکندر کے علاوہ دوسرے کئی بادشاہوں کو قرآن کا ذوالقر نین قرار دینے کی کوشش کی ہے لیکن اگر کسی شخصیت کا تعین نہ بھی ہو سکے تو بھی اس مقام کے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ، کیونکہ قرآن کا مقصود تاریخی تفصیلات، جزئیات اور شخصیات کا ذکر کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصودقصہ سے پیدا ہونے والی عبرت اور نصیحت کو اپنے قارئین کی طرف منتقل کرنا ہے۔ قرآن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ تعالی نے مادی قوت بھی عطا کی تھی اور روحانی اور ایمانی طاقت بھی اسے حاصل تھی اس کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع تھا وہ ایک طرف مشرق کے آخری کنارےاور دوسری طرف مغرب کے انتہائی سرے تک پہنچ گیا تھا ، اپنی فتوحات کے زمانے میں اس کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو پہاڑوں کے درمیان آ با دی تھی اور ہمیشہ ایک وحشی قوم کے حملوں کا نشانہ بنتی تھی جسے قرآن نے یاجوج ماجوج کا نام دیا ہے، اس مظلوم قوم کی درخواست پر ذوالقرنین نے ایک ایسی مضبوط دیوار تعمیر کر دی جس کی وجہ سے وہ یاجوج ماجوج کی یورش اور حملوں سے محفوظ ہو گئے ۔ یہ دیوار قرب قیامت میں ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور یاجوج ماجوج پوری دنیا میں پھیل جائیں گے، ذوالقرنین مادی وسائل کی بہتات کے با وجود اللہ پر ایمان رکھتا تھا جبکہ مادیت پرست افراد اور بادشاہ ظاہری اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ، اس وقت مادیت کی  بندگی میں پیش پیش ہونے کا سہرا مغربی تہذیب کے سر بندھتا ہے اور اس تہذیب کا جوسب سے بڑا نمائندہ ظاہر ہوگا اسے زبان نبوت میں دجال کہا گیا ہے اور لگتایہ ہے کہ اس  کےظہور میں اب زیادہ دیر نہیں ہوگی ۔ کیونکہ ایمان اور مادیت کے درمیان آخری معرکہ برپا ہونے میں اب تھوڑا وقت ہی باقی رہ گیا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو دجالی تہذیب اور دجال کے ظہور کے وقت اپنے ایمان بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ سورۂ کہف کے اختتام پر گویا ان لوگوں کو حکم دیا گیا ہے جو صرف مادیت اور ظاہری وسائل ہی کوسب کچھ نہیں سمجھتے " پس جو کوئی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے، چاہیے کہ اچھے کام انجام دے اور اپنے پروردگار کی بندگی میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کرے“۔ (آیت:18/110)
 سورة مريم:
 سورة مریم مکی ہے اس میں 98 آیات اور6 رکوع ہیں ، دوسری مکی سورتوں کی طرح سوره مریم میں بھی اللہ کے وجودتو حید اور بحث و جزاء سے بحث کی گئی ہے، اس سورت میں الله تعالی نے مختلف انبیا کرام علیہم السلام کے قصص ذکر فرمائے ہیں، سب سے پہلے حضرت زکریا علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے جو بوڑھے ہو چکے تھے، ہڈیاں کمزور پڑ گئی تھیں، بال سفید ہو گئےتھے ، اہلیہ بوڑھی بھی تھیں اور بانجھ بھی ۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ سال اور اہلیہ کی عمر ۹۸ سال ہوگئی تھی ۔ بظاہر اب اولا د ہو ناممکن نظر نہیں آتا تھا لیکن پھر بھی اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھا دیئے اور بیٹا مانگنے سے پہلے بارگاہ رب العالمین میں تین امور عرض کیے، پہلا یہ کہ میں بہت کمزور ہوں، دوسرا یہ کہ میں مایوس نہیں ہوں کیونکہ آپ نے کبھی بھی میری دعا رد نہیں فرمائی  تیسرا یہ کہ اس دعا سے میرا مقصد دین کی منفعت ہے، اس کے بعد صراحتا اپنی دینی خلافت کے
لیے اللہ سے بیٹا مانگا۔ لیکن ساتھ ہی یہ درخواست بھی کہ ایسا بیٹا عطا فرمانا جس سے تو بھی خوش ہو اور تیرے بندے بھی خوش ہوں، اللہ تعالی نے یہ دعا قبول فرمائی اور انہیں حضرت یحیی علیہ السلام کی صورت میں انتہائی صالح اور عابد وزاہد بیٹا عطا فرمایا جسے نبوت سے بھی سرفراز فرما دیا۔ (19/15/1) حضرت یحیی علیہ السلام کی ولادت کا قصہ بیان کرنے کے بعد اس سے بھی زیادہ عجیب قصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ سیدنا مسیح علیہ السلام کی ولادت کا قصہ ہے، بے شک حضرت یحیی علیہ السلام کی ولادت عجیب طریقے سے ہوئی تھی کیونکہ ان کے والدین توالد و تناسل کی عمر سے گزر چکے تھے لیکن حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی اور ان کی والدہ باکرہ تھیں ۔ یہاں سوره مریم میں اللہ تعالی نے تفصیل سے بتایا ہے کہ یہ عجیب غریب واقعہ کیسے پیش آیا۔کیسے حضرت مریم اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر عبادت کے لیے بیت المقدس کے مشرقی گوشے میں چلی گئیں، کیسے جبریل علیہ السلام ان کے پاس آ ئےانہوں نے گر بیان میں پھونکا اور انہیں حمل ٹھہر گیا، کیسے ان پر حزن و ملال کی شدید کیفیت طاری ہوئی، ولادت کے بعد بچے کو اٹھائے ہوئے جب قوم کے پاس آئیں تو یہودیوں کی زبان کھل
گئیں اور وہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے لگے حضرت مریم نے اللہ کے حکم سے بیٹے کی طرف اشارہ کیا تو ماں کی گود میں لیٹا ہوابیٹابولنے لگا اور اس کی زبان سے سب سے پہلے کلمہ جو نکلا وہ یہ تھا اني عبدالله یقینامیں اللہ کا بندہ ہوں ، دنیائے رنگ و بو میں قدم رکھنے کے بعد زندگی کے اس موڑ پر جب کہ ابھی آپ بولنے کی عمر تک نہیں پہنچے تھے ، معجزانہ انداز میں اپنی والدہ کی پاکدامنی بتانے کے لیے بولے بھی تو آپ کی زبان سے پہلا کلمہ ہی ایسا نکلا جو آپ کے بارے میں غالی قسم
کے عیسائیوں کی کھڑی کی گئی شرکیہ عمارت کو دھڑام سے گرانے کے لیے کافی ہے۔ آپ نے اپنے ان اعجازی خطاب میں فرمایا کہ مجھے رب تعالی نے چھ اعزازات سے سرفراز فرمایا ہے۔ پہلا یہ کہ میں بندہ ہوں ، نہ رب ہوں نہ رب کا بیٹا ہوں ، دوسرا یہ کہ مجھے وحی و نبوت عطا کی گئی ہے۔ تیسرا یہ کہ اللہ
نے مجھے مبارک بنایا ہے ، میرا وجود لوگوں کے لیے برکت اور رحمت کا باعث ہے، میں خیر کا معلم اور امت کے لیے نافع ہوں ، چوتھا یہ کہ مجھے دوسرے انبیاء کی طرح شرعی امور اور عبادات کا مکلف بنایا گیا ہے، ان میں سے نماز اور زکوۃ کا آپ نے خاص طور پر ذکر فرمایا جو کہ ان دونوں
عبادات کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے، پانچویں یہ کہ میں اپنی والدہ کا فرمانبردار اور عزیز واقارب کا خدمت گار ہوں ، میری طبیعت میں تواضع ہے، کبر وغرور نہیں ہے، چھٹا یہ کہ مجھے دنیا اور آخرت میں امن اور سلامتی کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ (آیت :19/36/16)
حضرت عیسی علیہ السلام کی اعجازی شان لی ہوئی ولادت یہود و نصاری کے درمیان اختلاف کا باعث بن گئی ، عیسائیوں نے انہیں ابن الله ( اللہ کا بیٹا ) قرار دیا تو یہودیوں نے (معاذ اللہ ) ابن زنا کہنے میں کوئی شرم محسوس نہ کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت اور ان کے بارے میں اہل کتاب کا اختلاف بیان کرنے کے بعد سورۂ مریم منتقل ہو جاتی ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کی طرف جو کہ مشرک باپ کے ساتھ پیش آیا تا کہ عقیدہ شرک میں جو جھوٹ،
کبر و غرور ، جاہل و عناد اور ضلالت و حماقت پائی جاتی ہے اس کی ایک جھلک دکھائی جائے ۔ یونہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاق و اوصاف خاص طور پر ان کا حلم اور بردباری ، حکمت اور  دردمندی بھی نمایاں کرنا مقصود ہے تا کہ داعیان حق کے سامنے ایک حقیقی داعی کا سراپا آ جائے
جسے وہ اپنے لیے نمونہ بناسکیں، اسی طرح اس قصہ سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ حق کی دعوت اورحق پر استقامت کی وجہ سے حضرت خلیل پر کیسے باران رحمت نازل ہوئی، ان کی نسل میں ایک بڑی امت پیدا ہوئی ، ان کی اولاد میں انبیا صلحاء اور بالخصوص حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور یہ بات بڑی عجیب ہے کہ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملت ان کی طرف اپنی نسبت کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے، سورہ مریم بتاتی ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شعور کی آنکھیں
کھولیں تو اپنے والد کو بت پرستی میں مبتلا پایا جب آپ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آپ نے دعوت توحید و اصلاح کا آغاز اپنے گھر ہی سے کیا اور اپنے والد کو نرمی اور محبت سے سمجھانے کی کوشش کی ، با وجود باپ کے مشرک ہونے کے آپ نے اپنی گفتگو میں ادب کا پہلوملحوظ رکھا لیکن آپ کا والد آزردھمکیوں پر اتر آیا اور کہنے لگا اگر تم ( بتوں کو برا بھلا کہنے سے باز نہ آئے تمہیں سنگسار کروں گا اور تم مجھے ایک طویل زمانے تک چھوڑ دو“ (آیت :19/46) 
جب مسلسل دعوت کے باوجود نہ آ زر راہ راست پر آیا اور نہ ہی قوم کی سمجھ میں آپ کی دعوت آئی تو آپ محض اللہ کی رضا کی خاطر عراق سے شام ہجرت فرما گئے ، اللہ کے لیے قوم اور خاندان کو چھوڑنے کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کی صورت میں ان سے کہیں بہتر بیٹےاور مونس و غم خوار عطا فرما دیئے۔ (آیت 19/50/41)
اس کے بعد سورة مریم حضرت موسی ، حضرت ہارون، حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس علیہم السلام کا تذکرہ کرتی ہے (آیت ا۵۔۵۸) اور بتاتی ہے کہ ان انبیاء کے جانشین ایسے لوگ ہوئے جنہوں نے نمازیں ضائع کیں اور خواہشات اور شہوت کی بندگی کا راستہ اختیار کر لیا، اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ مشرکین بعث و جزا کا انکار کرتے ہیں ، انہیں جہنم کے اردگردضرور جمع کیا جائے گا، سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ مومنوں کے لیے اللہ تعالی دلوں میں محبت پیدا کر دے گا اور موجودہ مجرموں کو بھی پہلے مجرموں کی طرح ہلاک کر دیا جائے گا جو لوگ اللہ تعالی کی مرضیات کے سامنے اپنی خواہشات کو فنا کر دیتے ہیں اور خالص اس کے ہو کر رہ جاتے ہیں ، ان کی محبت انسانوں کے قلوب میں پیدا کر دی جاتی ہے جو کہ حقیقت میں نتیجہ خیز ہوتی ہے خود باری تعالی کی محبت کا جیسا کہ صحیحین اور مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی جب اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلا کر اطلاع دیتا ہے کہ میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو، جبرئیل اس سے محبت کرنے لگتا ہیں، پھر آسمانوں میں اعلان کر دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔چنانچہ آسمانوں والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں پھر زمین والوں کے دلوں میں بھی اس کی قبولیت اور محبت رکھ دی جاتی ہے اس کے برعکس جب اللہ تعالی کسی بندے سے ناراض ہوتے ہیں تو اس کی اطلاع جبر ئیل کو دیتے ہیں ۔ جبرئیل اس سے نفرت کرنے لگتےہیں  پھر سارے آسمان والوں کو اس کی اطلاع دیتا ہے، چنانچہ وہ سب اس نفرت کرنے لگتے ہیں پھر اس نفرت کا اثر زمین پر بھی ظاہر ہوتا ہے اور زمین والے بھی اس سے نفرت شروع کر دیتے ہیں ۔
 سورة طه :
سورہ طہ مکی ہے، اس میں ۱۳۵ آیات اور ۸ رکوع ہیں ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورة طه سوره مریم کے بعد نازل ہوئی ، دونوں سورتوں کے درمیان مضمون کے اعتبار سے بھی واضح مناسبت پائی جاتی ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ جو کہ سوره مریم میں اجمالی طور پر مذکور تھا وہ سورۃ طہ میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے، اسی طرح سوره مریم میں حضرت آدم علیہ السلام کا صرف نام آیا تھا، جب کہ یہاں ان کا واقعہ قدرے وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے، اس سورت میں بھی اصول دین سے بحث کی گئی ہے۔
''طہ''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہاں اس کے ذریعے آپ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں ۔“
(آیت ۲)
 اصل بات یہ تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تلاوت اور دعوت دونوں میں بے پناہ مشقت اٹھاتے تھے، راتوں کو نماز میں اتنی طویل قرات فرماتے کہ پاؤں مبارک پر ورم آ جاتا اور پھر انسانوں تک قرآن کے ابلاغ اور دعوت میں بھی اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے تھے اور جب کوئی اس دعوت پر کان نہ دھرتا تو آپ کو بے پناہ غم ہوتا ، اسی لیے رب کریم نے کئی مقامات پر آپ کو تسلی دی ہے، یہاں بھی یہی سمجھایا گیا کہ آپ اپنے آپ کو زیادہ مشقت میں نہ ڈالیں، اس قرآن سے ہر کسی کا دل متاثر نہیں ہوسکتا یہ تو صرف اس شخص کے لیے نصیحت ہے جو دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہو یہ سمجھانے کے بعد اللہ نے اپنی بعض صفات ذکر فرمائی ہیں تا کہ آپ کو قلبی اطمینان ہو کہ اللہ میرے ساتھ ہے وہ میری حفاظت کرے
گا اور مجھے کسی حال میں بھی تنہا نہیں چھوڑے گا ، اس وضاحت کے بعد گویانمونہ کے طور پر حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے مخصوص بندوں کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظام کرتا ہے۔ 
سیدنا موسی علیہ السلام کا قصہ:
حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ قرآن کریم میں دوسرے انبیاء کے مقابلے میں زیادتفصیل اور تکرار کے ساتھ آیا ہے، کیونکہ اس میں عجیب و غریب واقعات اور اشارات ہیں وہ انسان کو اللہ کی نعمتوں اور قدرت کے بارے میں غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں شاید اس تکرار میں ایک حکمت یہ بھی ہو کہ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی فرعون ہوتا ہے، جس کے مقابلے کے لیے اہل ایمان کو متحد رکھنا ضروری ہے، یہاں سورۃ طہ میں آیت ۶ سے ۹۸ تک تقریباً مسلسل حضرت موسی علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے اور اس میں آپ کی زندگی کے بیشتر واقعات آگئے ہیں لیکن ان میں تقدیم و تاخیر ہے، مثال کے طور پر آپ کے تذکرہ کی ابتداء مدین
سے واپسی، آگ دیکھنے ، باری تعالی سے شرف ہم کلامی اور نبوت ملنے کے واقعہ سے ہورہی ہے اور ولادت کے بعد صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈالنے کا واقعہ بعد میں ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ زمانی ترتیب کے اعتبار سے پہلا واقعہ بعد میں اور دوسرا پہلے پیش آیا تھا ایسا کرنے کی ایک بڑی وجہ تفنن ہے، یعنی ایک ہی واقعہ کوقر آن انداز بدل بدل کر بار بار بیان کرتا ہے تا کہ پڑھنے والے ا کتا بھی نہ جائیں اور ان کی نظریں واقعے کی جزئیات تلاش کرنے کی بجائے عبرت اور نصیحت
کے حصول پر مرکوز رہیں ۔ سورۃ طہ میں آپ کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان حالات کو ذہن نشین کرنے کے لیے چند عنوانات قائم کیے جا سکتے ہیں یعنی باری تعالی کے ساتھ شرف ہم کلامی، دریا میں ڈالا جانا ، اللہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہما السلام کو فرعون کےپاس جانے کا حکم،فرعون کے ساتھ موعظہ حسنہ کے اصول کے تحت مباحثہ، اس کا مقابلہ کے لیے جادوگروں کو جمع کرنا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح، ساحروں کا قبول ایمان ، راتوں رات بنی اسرائیل کا اللہ کے نبی کی قیادت میں مصر سے خروج ،فرعون کا بمع لاؤلشکر تعاقب اور ہلاکت،
کریم و رحیم مولی کی نعمتوں کے مقا بلے میں بنی اسرائیل کا کفران اور ناشکرا پن ، سامری کا بچھڑا بنانا اور اسرائیلیوں کی ضلالت ، تورات لے کر حضرت موی علیہ السلام کی طور سے واپسی اور اپنے بھائی پر غصے کا اظہار۔ ان آیات کے مطالعہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رب کریم کے ساتھ خصوصی انعامات سامنےآئے ہیں۔

  •  فرعون کے ظلم اور پکڑ سے حفاظت جبکہ وہ اور اس کے کارندے نومولود اسرائیلی بچوں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔
  • لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت کا ڈالا جانا ، یہاں تک کہ جو بھی آپ کو دیکھتا تھا وہ آپ سے محبت کرنے لگتا تھا۔



  • آپ کی تربیت اور پرورش کا خصوصی اہتمام اور نگرانی۔



  •  پوری عزت اور احترام کے ساتھ رضاعت کے لیے حقیقی والدہ کی آپ کو لوٹا دینا۔
  • آپ سے ایک قبطی قتل ہو گیا لیکن آپ کو قصاص میں قتل ہونے سے بچا لیا گیا۔
  • مدین سے واپسی پر آپ کو نبوت عطا کر دی گئی۔
  •   اللہ نے آپ کو شرف ہم کلامی بخشا اور اپنے قرب اور محبت کے لیے آپ کو منتخب فرمالیا۔


اس قصے کے آخر میں قرآنی شخص کے نزول کی حکمت اور قرآن سے اعراض کرنے والوں کو قیامت کے دن جس سزا کا سامنا کرنا پڑے گا اس کا ذکر ہے، پھر اسی کی مناسبت سے آیت106 سے 112 تک قیامت کے ہولناک احوال کا بیان ہے۔ یہ بتلانے کے لیے کہ بھول چوک انسان کی فطرت میں داخل ہے، پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے نسیان کا ذکر کیا گیا ہے پھر ابلیس کے ساتھ ان کا معاملہ ہوا تھا اسے بیان کیا گیا ہے۔ (115-122)

جولوگ قرآن سے اعراض کرتے ہیں ان کے لیے وعید ہے کہ ان کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور انہیں قیامت کے دن اندھا کر کے اٹھایا جائے گا، ایسے معاندین کے حال پر اظہار تعجب کیا گیا ہے جو قرآن کریم جیسا عظیم معجزہ دیکھ لینے کے با وجود عصا اور ناقہ جیسے معجزات دیکھنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ (۱۳۲) آخری آیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم دیا گیا ہے کہ آپ ان معاندین سے کہہ دیجئےکہ سب ( اعمال کے نتائج کے ) منتظر ہیں پس تم بھی منتظر رہو،
عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ سیدھی راہ پر چلنے والے کون اور جنت کی طرف ) راہ پانے والے کون ہیں ۔ (۱۳۵)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے