مسلمانوں کا اتحاد قرآن کے آئینے میں


مسلمانوں کا اتحاد قرآن کے آئینے میں


سورۃ المؤمنون۔
پارہ ۱۸ کی ابتدا سورۃالمومنون سے ہورہی ہے،یہ مکی سورت ہے،  اس میں۱۱۸ آیات اور چھ رکوع ہیں، اس سورت میں اصول دین سے بحث کی گئی ہے، سورت کی ابتدائی نوآیات میں مومنین کی سات ایسی صفات ذکر کی گئی ہیں، جن کی وجہ سے وہ جنت الفردوس کے مستحق ہوں گے، وہ سات صفات درج ذیل ہیں:
 سچا ایمان جو کہ ریا اور نفاق سے پاک ہو۔
 نماز میں خشوع یعنی اللہ کے سامنے عاجزی اور خوف کے ساتھ کھڑے ہوں۔
لغو سے اعراض، لغو ہر ایسے قول و فعل کو کہا جاتا ہے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو۔ 
 کامل طریقے سے زکوٰۃ کی ادائیگی، گویا وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
وہ زنا اور فحش کاموں سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتے ہیں۔
 وہ امانتوں کی حفاظت کرتے ہیں اور وعدے پورے کرتے ہیں۔
 نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، وقت کا بھی لحاظ رکھتے ہیں، اور ارکان و آداب کی بھی رعایت کرتے ہیں۔
مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد خود انسان کی زندگی اورا س کی تخلیق کے مختلف مراحل میں ایمان کے جو دلائل پائے جاتے ہیں وہ ذکر کیے گئے ہیں، قرآن نے شکم مادرمیں انسانی وجود کے مراحل آج سے کئی سو سال پہلے اس وقت بیان کیے تھے، جب کہ عرب و عجم کے حکماء میں سے کوئی بھی ان مراحل کے بارے میں لب کشائی کی جرأت نہیں پاتا تھا۔  آج کی جدید سائنس اور میڈیکل تحقیقات بھی ان مراحل کی تصدیق کرتی ہیں۔ انسان کے وجود میں دلائل ایمان بیان کرنے کے بعد تین قسم کے تکوینی دلائل بیان کیے گئے ہیں: ۱]  ساتوں آسمانوں اور ان کے اندر جو عجیب مخلوقات ہیں ان کی تخلیق۔
۲]  بارش کا برسانا اور اس کے ذریعے مختلف یہ غلہ جات اور پھلوں کا اگانا۔
۳]  چوپایوں اور ان کے اندر دودھ، گوشت، خون، سواری اور باربرداری جیسے منافع کا پیدا کرنا۔
اللہ تعالی کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل ذکر کرنے کے بعد اب سورت منتقل ہوجاتی ہے بعض انبیاء علیہم السلام کے قصص کی طرف، اس سلسلہ میں حضرت نوح، حضرت صالح، حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہم السلام کے قصے بیان کئے گئے ہیں۔(۳۳، ۵۰)ان تمام انبیاء کی ایک ہی دعوت، ایک ہی پروگرام اور ایک ہی مقصد تھا، یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب ایک ہی زمانہ اور ایک ہی ملک میں مبعوث ہوئے تھے، لیکن ان انبیاء کے جانے کے بعد ان کے امتی مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئے، ہر گروہ اپنی کھال میں مست اور خیالات پر خوش تھا،کیسے کہا جائے کہ آج مسلمان بھی اسی صورت حال سے دوچار ہیں، قرآن بھی ایک، نبی بھی ایک، قبلہ بھی ایک، لیکن مسلمان ایک نہیں، بھانت بھانت کی بولیاں،تفسیر تفسیق کے فتوے، باہم جدل و نزاع۔
ان اختلافات کے حل کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ ہر فرقہ کتاب وسنت کے سامنے گردن تسلیم خم کردے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو باہم جدل و نزاع میں مصروف ہیں، اور ان کے دل غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف اللہ کے وہ نیک بندے ہیں جو آپس میں محبت کرتے ہیں، ان کے دل بیدار اور ہدایت کے نور سے منور ہیں، ان لوگوں کے اندر چار نمایاں صفات پائی جاتی ہیں:
پہلی صفت:یہ ہے کہ وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔
دوسری صفت: یہ ہے کہ وہ اللہ کی تکوینی اور تشریعی آیات پر ایمان رکھتے ہیں۔
تیسری صفت: یہ کہ وہ ریا سے بچتے ہیں اور ہر عمل خالص اللہ کی رضاکےلیے کرتےہیں۔
چوتھی صفت:یہ کہ انہیں احسان کی صفت حاصل ہوتی ہے یعنی نیک اعمال کرنے کے باوجود ڈرتے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں ہمارے اللہ کے ہاں یہ قبول بھی ہو رہے ہیں یا نہیں۔(۵۷، ۶۱)
ان مخلص مومنوں کے مقابلے میں وہ حرماں نصیب بھی ہیں جو قرآن اور صاحب قرآن کا مذاق اڑاتے ہیں،ان کے استہزاء اور سرکشی کے تین بڑے اسباب قرآن نے بیان کیے ہیں:
پہلا: یہ کہ وہ عقل کا استعمال نہیں کرتے بلکہ قرآن میں غور و تدبر کیے بغیر استہزاء اور انکار کرنے لگتے ہیں۔
 دوسرا: یہ کہ وہ محض صدو عنادکی بنا پر اللہ کے رسول کو جھٹلاتے ہیں ،ورنہ ایسا نہیں کہ وہ آپ کو پہچانتے نہ ہوں، وہ آپ کی صداقت و امانت، حسب و نسب اور شخصیت کو خوب اچھی طرح پہچانتے ہیں،انہیں معلوم ہے کہ محمد ﷺ ہرگزنہیں بول سکتے۔
تیسراسبب: سوالیہ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں (معاذ اللہ) کوئی جنون کے آثار دکھائی دیتے ہیں؟ یقیناً ان میں سے بعض آپ کی طرف جنون کی نسبت کرتے تھے لیکن ان کی تکذیب کا اصلی سبب یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو معاذاللہ بھی مجنون سمجھتے ہیں بلکہ حقیقی سبب یہ ہے کہ وہ حق کو ناپسند کرتے ہیں، اور حق کو اپنی خواہشات کے تابع دیکھنا چاہتےہیں حالانکہ اگر حق ان کے خواہشات کے تابع ہوتا تو نظام کائنات میں خلل واقع ہوجاتا۔(۶۸، ۷۱)

توحید کے اثبات اور شرک کی تردید کے بعد سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن انسان دو فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ سعداء (نیک بخت) اور اشقیاء(بدبخت) سعداء کا اعمال نامہ بھاری ہوگا اور اشقیاء کا اعمال نامہ ہلکا ہوگا۔ وہاں تعلقات کام نہیں آئیں گے، کفار دنیا میں لوٹنے کی تمنا کریں گے، ظاہر ہے کہ ان کی تمنا پوری نہیں ہوگی، انہیں یاد کرایا جائے گا کہ وہ اہل ایمان کا دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے آج ان کے لیے خسارہ کے سوا اور کچھ بھی نہیں، پھر ان سے ’’پوچھے گا کہ تم زمین میں کتنے برس رہے، وہ کہیں گے ہم ایک روز یاایک روز سے بھی کم رہے تھے شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے، اللہ فرمائے گا کہ وہاں تم بہت ہی کم رہے کاش! تم جانتے ہوتے‘‘ یعنی اگر تمہارے پاس کچھ عقل و فہم ہوتا تو تم جان لیتے کہ یہ دنیا حقیر اور قلیل ہے، ان سے اس سوال کا مقصدانھیںحسرت میں مبتلا کرنا اور آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کی حقارت کو بیان کرنا ہے، اس دن انہیں خود بھی دنیاوی زندگی کی خسّت اور محدودیت کا احساس ہوگا ،ابن کثیر میں ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جب اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو جہنم میں داخل کرے گا تو سوال کرے گا کہ اے اہل جنت!تم زمین پر کتنے سال رہے ہو، وہ عرض کریں گے ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تمہیں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ جو ملا تو تم نے اس میں بہت اچھی تجارت کی کہ میری رحمت ،میری رضا اور میری جنت کو خرید لیا اب تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس میں رہو ،پھر اہل دوزخ سےسوال کیا جائے گا کہ تم دنیا میں کتنے سال رہے وہ بھی وہی جواب دیں گے جو اہل جنت نے دیا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تمہیں دنیا میں رہنے کا جوموقع ملا تو تم نے اس میں بہت بری تجارت کی کہ میری آگ اور ناراضگی کو خرید لیا اب تم دائمی طور پر اسی میں پڑے رہو‘‘۔
 آخری آیت میں اللہ نے اپنے نبی کے واسطے سے گویا تمام انسانوں کو سکھایا ہے کہ مجھ سے یہ دعا مانگا کرو ’’اے میرے رب مجھے معاف فرما دے اور مجھ پر رحم فرما اور تو سب رحم کرنے والوں میں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘۔
سورۃ النور سورۂ نور مدنی ہے، اس میں۶۴آیات اور۹ر کو ہیں، اسے سورۂ نور ایک تو اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میںنور کا لفظ ہے: ’’اللہ نور السمٰوات والارض‘‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سورت میں ایسے آداب وفضائل اور احکام و قواعدبیان کیے گئے ہیں جو اجتماعی زندگی کی راہ کو منور اور روشن کر دیتےہیں، اس سورت ایسے احکام مذکور ہیں، جو عفت و عصمت سے تعلق رکھتے ہیں، اسی لیے یہ سورت عورتوںکو سکھانے کا طریقہ خاص طور پر حکم دیا گیا ہے، حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے مردوں کو سورۂ مائدہ اور اپنی عورتوں کو سورۃ النساء سکھاؤ۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہ سورت خواتین کو سکھانے کی تاکید فرمائی ہے، اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے عفت و عصمت، گھریلو اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے لئے جواحکام بیان کئے گئےہیں وہ درج ذیل ہیں:
احکام وآداب
پہلا اور دوسرا حکم زنا کی سزا اور زانیوں کا حکم بیان کرنے کے بارے میں ہے، زانی مرد اور عورت اگر غیر شادی شدہ نہ ہوں تو ان کی سزا سو کوڑے ہیں جو کہ قرآن میں مذکور ہے اور اگر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا رجم ہے جو کہ متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہے، زانیوں کے بارے میں ایک عمومی رویہ بتایا گیا ہے کہ انہیں شریک زندگی بنانے کے لئے وہی لوگ آمادہ ہوتے ہیں جو خود بھی زانی اور بدکار ہوتے ہیں، تیسرا حکم حد قذف کا ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی عاقل بالغ نے پاکدامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو اسے اسی(۸۰) کوڑے لگائے جائیں گے۔
چوتھاحکم لعان کا ہے جو کہ میاں بیوی کے ساتھ خاص ہے، اگر شوہر بیوی پر زنا کی تہمت لگائے مگر اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو وہ دونوں ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور پھر ان کے درمیان جدائی کر دی جائے گی۔
پانچویںحکم کے طور پر قصہ افک بیان کیا گیا ہے،افک کا معنیٰ ہے جھوٹ اور بہتان،یہ حکم اس وقت نازل ہوا جب حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بعض منافقین نے بہتان لگایا، یہ بہت بڑا بہتان تھا جو بہت بڑی ہستی یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور مسلمانوں کی روحانی ماں پر لگایا گیا تھا، اللہ تعالیٰ نے دس آیت میں اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے، ان آیات میں منافقوں کی مذمت ہے، مسلمانوں کوتنبیہ ہے کہ آئندہ کبھی اس قسم کی بہتان تراشی میں حصہ دار نہ بنیں اور حرم نبوت کی عفت و عصمت کا اعلان فرمایا گیا، تاریخ انسانی میں ایسا پہلی بار ہوا کہ کسی شخصیت کی پاکدامنی کا اعلان بذریعہ وحی کیا گیا، اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیات میں سے شمار کیا جاتاہے۔(۱۱، ۱۲)

چھٹا حکم گھر میں داخل ہونے کی اجازت اور آداب کے بارے میںہے،فرمایا گیا کہ کسی کے گھر میں بلااجازت داخل نہ ہوا کرو ،مستحب یہ ہے یہ اجازت سے قبل سلام کرلیا جائے۔ (۶۷، ۶۹)
ساتواں حکم ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو یہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں جھکاکر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، عورتوں کو یہ گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، عورتوں کو اپنے شوہروں، اپنے والد،سسر، حقیقی بیٹوں،شوہر کے بیٹوں،بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں،عورتوں،لونڈیوں، ان طفیلی مردوں جو عورتوں کی طرف توجہ نہ رکھتے ہوں، اسی طرح ان بچوں کے سامنے جو خواتین کے پردے کی باتوں سے واقف نہ ہوں، اپنی زینت ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ان کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی زینت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں۔
 اٹھواں حکم یہ دیا گیا ہے کہ ایسے آزاد مرد اور عورتیں یاغلام جو حقوق زوجیت ادا کر سکتے ہوں ان کا نکاح کرو ادو،یوں ہی لونڈیوں کے نکاح کی بھی ترغیب دی گئی ہے، اصل میں اسلام زنا کو کسی طور بھی برداشت نہیں کرتا اور زنا کا اس وقت تک سد باب نہیں ہوسکتا جب تک کہ نکاح کو آسان نہ کیا جائے، اسلام نے نکاح کو آسان بھی کیا ہے اور اس کی ترغیب بھی دی ہے۔(۳۲)
 نواں حکم لونڈیوں اور غلاموں کے بارے میں ہے، اسلام کی روشنی دنیا میں پھیلنے سے پہلے جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانے کا رواج تھا، اور اس لاوارث اور بے سہارا طبقہ پر بے پناہ ظلم کیا جاتا تھا، اسلام نے اس رواج میں انقلابی اصلاحات کیں، ان پر ظلم کا دروازہ قطعی طور پر بند کر دیا، دوسرے انسانوں کی طرح ان کے لئے بھی حقوق مقرر کیے انہیں آزاد کرنا اللہ کی رضا کا سبب بتایا، مختلف گناہوں کے کفارہ کے طور پربھی انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا، ایک اہم ہدایت کی کہ جو غلام یالونڈیاں کچھ روپیہ پیسہ ادا کرکے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہوں اس کے ساتھ یہ معاہدہ کرلیا کرو، اس معاہدے کو اصطلاح میں مکاتبت کہا جاتا ہے۔
دسواں حکم اصل میں زمانہ جاہلیت کے ایک قطعی حرام ذریعہ معاش کی تردید کےلیے ہے نزول قرآن سے قبل بعض ظلم پیشہ اور حریص لوگوں نے لونڈیاں رکھی ہوئی تھیں جنہیں اجرت کے بدلے زنا پر مجبور کرتے تھے عبداللہ ابن ابی جیسا چودھری جسے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت مدینہ سے پہلے مدینہ کا بے تاج بادشاہ بنانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی اس نے بھی لونڈیاں رکھی تھیں، یہاں ایسا کرنے سے منع کیا گیا اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر وہ بخوشی زناپرآمادہ ہو تو پھر جائز ہے، ناجائز اور حرام تو دونوں صورتوں میں ہے، بتانا یہ مقصود ہے کہ جب وہ لونڈیاں ہونے کے باوجود اس فعل سے نفرت کرتی ہیں تو تم جو کہ آزاد ہو تمہیں تو بطریق اولیٰ اس سے نفرت رکھنی چاہیے۔(۳۳)
یہ دس احکام و آداب بیان کرنے کے بعد عقیدہ وایمان اور نور حق کا بیان ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مخلوق کو ہدایت دیتا ہے، بات کو واضح کرنے کے لیے یہاں تین مثالیں ذکر کی گئی ہیں اور یہ قرآن کا ایک خاص انداز ہے کہ وہ معانی کی وضاحت کے لیے حسی مثالیں پیش کرتا ہے، ان میں سے پہلی مثال اہل یقین و ایمان کے لئے ہے دوسری اور تیسری مثال اہل باطل کے لیے ہے، پہلی مثال میں مومن کے دل میں جو نور ہوتا ہے اسے اس چراغ کے نور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جو صاف صفاف شیشے سے بنی ہوئی کسی فندیل میں ہو اور اس قندلیل کو کسی طاقچےمیں رکھ دیا جائے تاکہ اس کا نور معین جہت ہی میں رہے جہاں اس کی ضرورت ہے ،اس چراغ میں جوتیل استعمال ہوا ہے وہ تیل زیتون کے مخصوص درخت سے حاصل شدہ ہے اس تیل میں ایسی چمک ہے کہ بغیر آگ دکھائے ہی چمکتا دکھائی دیتا ہے۔(۳۵) 
یہی حال مومن کے دل کا ہے کہ وہ حصول علم سے قبل ہی ہدایت پر عمل پیرا ہوتا ہے پھر جب علم آ جائے تو نورعلی نور کی صورت ہو جاتی ہے، یحییٰ بن سلام رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’مومن کا دل حق کو بیان کیے جانے سے پہلے ہی حق کو پہچان رہا ہوتا ہے کیونکہ اس کا دل پہلے ہی سے حق کے موافق ہوتا ہے‘‘۔
اہل باطل کے لیے جودو مثالیں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے پہلی مثال ان کے اعمال کی ہے جنہیں وہ اچھا سمجھتے تھے ارشاد ہوتا ہے کہ ان کے اعمال کی مثال سراب جیسی ہے جیسے پیاسا شخص دور سے سراب کو پانی سمجھ بیٹھتا ہے لیکن جب قریب آتا ہے تو وہاں پانی کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا یہی حال قاسم کا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو نافع سمجھتا ہے لیکن جب موت کے بعد اللہ کے سامنے پیش ہوگا تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا، اس کے اعمال غبار بن کر اڑ چکے ہوں گے۔(۳۹)
 دوسری مثال میں ان کے عقائد کو سمندر کی تہ بہ تہ تاریکیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جہاں انسان کواورتو اور اپنا ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا، یہی حال کافرکا ہے جو کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں سرگرداں رہتا ہے۔(۴۰)
اہل حق اور اہل باطل کی مثالیں بیان کرنے کے بعد عالم بالا اور عالم اسفل میں رات اور دن کے ہیر پھیر ،بارش برسانے،ارض و سما کی تخلیق، پرندوں کی اڑان اور مختلف قسم کے چوپایوں کو پیدا کرنے کی صورت میں اللہ کے وجود اور توحید کے جو دلیل ہیں ان کی طرف متوجہ کیا گیا۔(۴۱، ۴۵)
دلائل توحید کے بعد منافقین اور مومنین دو گروہوں کا تقابلی تذکرہ ہے منافق ایمان اور اطاعت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں لیکن جب عملی زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ پیش آتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے میں ان کا ذاتی نقصان ہوتا ہے تو وہ اعراض کرتے ہیں جبکہ مومن ہر حال میں اطاعت پر آمادہ رہتے ہیں، سچے مومنوں کے ساتھ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین پر خلافت عطا کرے گا، اللہ نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دکھایا، مسلمانوں کو جزیرۃ العرب پر غلبہ حاصل ہوا ،مشرق و مغرب کے ممالک ان کے زیر نگیں آ گئے اور انہوں نے فارس اور روم جیسی مضبوط سلطنتوں کے ٹکڑےٹکڑے کردیے۔(۴۷، ۵۵)
توحید کے دلائل، منافقوں اور مومنوں کے تقابل اور وعدہ خلافت کے بعد اجتماعی اور معاشرتی زندگی کے تین مزید احکام بیان کئے گئے ہیں:
پہلا حکم: چھوٹے بچوں اور گھر میں رہنے والے غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں ہے کہ وہ نماز فجر سے پہلے دوپہر کے قیلولہ کے وقت اور نماز عشاءکے بعد اگر تمہارے خلوت والے کمرے میں داخل ہوں تو اجازت لے کر داخل ہوں کیونکہ ان تین اوقات میں عام طور پر عمومی استعمال کا لباس اتار کر نیند کا لباس پہن لیا جاتا ہے۔
دوسرا حکم: یہ ہے کہ بچے جب بالغ ہو جائے تو دوسرے بالغ افراد کی طرح ان پر بھی لازم ہے کہ وہ جب بھی گھر میں آئیں تو اجازت لے کر یا کسی بھی طریقے سے اپنی آمد کی اطلاع دے کر آئیں مثال کے طور پر رکھا سر یا پاؤں کی آہٹ پیدا کر کے۔
 تیسرا:حکم ان عورتوں کے بارے میں ہے جو بہت بوڑھی ہوجائیں اور نکاح کی عمر سے گزر جائیں کہ وہ اگر پردے کے ظاہری کپڑے اتار دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ گزشتہ دس احکام کے ساتھ ملا کر کل تیرہ احکام وآداب مذکور ہوچکےہیں۔
چورہواں ادب یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم گھر میں داخل ہو تو گھر والوں کو سلام کیا کرو۔
پندرہواں ادب یہ ہے کہ جب تم کسی اجتماعی مشورہ وغیرہ کے سلسلے میں مجلس میں بیٹھے ہو تو اجازت کے بغیر مجلس سے نہ اٹھاکرو۔



 سولہواں ادب یہ ہے کہ اللہ کے رسول کو ایسا نہ پکارا کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کو پکارتےہو۔ کہ سورت کا اختتام اس بات پر ہوا ہے کہ یہ ساری کائنات اللہ کی قدرت اور علم کے ماتحت ہے اللہ سب کے حالات اور اعمال جانتا ہے، قیامت کے دن ہر کسی کو اس کے اعمال کے بارے میں بتا دیا جائے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے