اس پیاری عید کے موقع پر (جیل کی چہار دیواریوں سے) صفورا زرگر کا خط

اس پیاری عید کے موقع پر (جیل کی چہار دیواریوں سے) صفورا زرگر کا خط

اس پیاری عید کے موقع پر (جیل کی چہار دیواریوں سے) صفورا زرگر کا خط

(ہندی سے اردو ترجمانی :
ذاکر انور ، بی اے آنرز اردو 
جامعہ ملیہ اسلامیہ
8960449658
26/05/2020)

میرا خط میرے پریوار اور جامعہ کے نام

🖊️ صفورا زرگر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی 

(زندگی! صبر کی دہلیز دکھا دے آ کر
اک ننھے سے سپاہی کو لیے جیل میں ہوں)( ذاکر انور) 

ہمیشہ کی طرح دھوم دھام اور خوشیوں سے منائی جانے والی عید شاید کہ اس بار ویسی نہیں ہوگی جیسے کہ ہر سال ہم سوئیوں کی مہک میں اپنے جذبات پروتے محسوس کرتے آئے ہیں -
ہاں......! کرونا یعنی اس مہلک وبا نے حالات کو ضرور پست کردیا ہے، سامان بھی شاید پچھلے سالوں کی طرح نہیں آ پایا ہوگا اور مہمان نوازی میں بھی تھوڑی کمی واقع ہوجائے گی مگر پھر بھی کل آپ کے گھر (عید کے روز) سوئیاں بنیں گی - مزید یہ کہ اس بار عید پر اطمینان و سکون سے گھر بیٹھے آپ سوئیوں کی مٹھاس کا لطف اٹھا رہے ہوں گے -
"پر معاف کیجئے گا کہ میرے لیے ایسا کچھ بھی نہیں ہے....!" 

*( کیسے بانٹو گی خوشی "عید مبارک" کہہ کر*
*تم تو ہو جیل میں مدت سے "صفورا زرگر" )*(ذاکر انور) 

 کیوں کہ سوئیاں تو دور کی بات ہے مجھے تو میری کوکھ میں پل رہے اس بچے کی فکر ہے جس کے بارے میں مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ اس کے پاس کچھ میلی میٹر دودھ بھی پہنچ پائے گا یا نہیں -

سوچتی ہوں کہ میرے شوہر کیسا محسوس کر رہے ہوں گے - ایک ایسا شخص جس نے بیوی کے چہرے پر پسینے کی بوند آنے سے پہلے ہمیشہ ہی اسے پونچھ دیا ہو اور آنسو آنے سے پہلے گلے لگا لیا ہو وہ اس عید پر کتنے آنسوؤں کو چپ چاپ یونہی بہہ جانے دے گا - جس آنے والے بچے کے خیال سے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ریکھائیں پھیل جایا کرتی تھیں کیا وہ اس عید پر کچھ مسکرا پائے گا....؟

سوچتی ہوں کہ اپنی جان سے زیادہ پیار کرنے والے وہ والد جنہوں نے شہزادی کی طرح خوشیوں کا تاج میرے سر پر رکھا ہے، جنہوں نے میرے کھانے سے پہلے خود کبھی کھانا نہ کھایا ہو، کیا وہ سوئیوں کا ایک چمَّچ بھی بنا آنسوؤں کو پونچھے کھا پائیں گے...؟

ماں.. !! آج آپ کی بہت یاد آ رہی ہے کیوں کہ میں گھر پر ہوتی تو نہ جانے کتنی خوشیوں سے کیا کیا پکوان بناتی اور آپ باورچی خانے سے حکم دیتیں کہ :
*خبر دار جو زیادہ ادھر ادھر کیا، چپ چاپ بیڈ پر پڑی رہو، میں ماں ہوں اس لیے سمجھا رہی ہوں کہ تمہاری کوکھ میں ننھی سی جان پل رہی ہے "*
ماں! کل (عید کے روز) کس کو آپ حکم دیں گی، کس کو ڈانٹیں گی اور کس کو اپنی کہانیاں سناکر سمجھائیں گی ( کیوں کہ آپ کی بیٹی صفورا تو ننھی سی جان کو کوکھ میں لیے جیل کی تاریک چہار دیواریوں میں ڈال دی گئی ہے جہاں عید تو دور کی بات خوشی کے لمحات کا تصور بھی نہیں ) - 

سامیہ !! میری بہن، یار سچ میں تیری لڑائی بہت مس کر رہی ہوں - کہیں پڑھا تھا کہ بہن نہ ہو تو زندگی میں کوئی جذباتیت، کوئی احساس، کوئی رونق اور کوئی چہل پہل (Thrill) نہیں ہوتی ہے اور تُو دیکھ کہ آج  یہاں سب کچھ کتنا سونا سونا ہے -
خدا بھی نا....!!! کتنا کمال کرتا ہے کہ کل تک تجھ سے لڑے جگھڑے بغیر نیند نہیں آیا کرتی تھی اور آج تیری آواز سنے ہوئے دو مہینے ہونے کو ہیں -

جامعہ تُو سب سے زیادہ آ رہا ہے، اب اتنی جلدی بھی کیا روٹھنا کہ برسوں تمہاری سینٹرل کینٹین  پر چائے پی اور ہائی جینک (hygienic) پر کتنی میگی کھائی ہے -
وہ ہاسٹل کے در و دیواد بھی بہت یاد آ رہے ہیں کہ جن کو دیکھ کر کبھی برا لگتا تھا مگر آج جیل کی چہار دیواریوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دیواریں تو اِن جیل کی دیواروں سے بہت سندر تھیں -
میں شعبہ کے اساتذہ سے معافی کی طلبگار ہوں کہ مجھے تھیسس جمع کرنا تھا پر کیا پتہ تھا کہ سچ کے لیے آواز اٹھانا اس قدر مہنگا پڑ جائے گا -

اسٹوڈنٹس! آپ سبھی تو چھٹی پر ہوں گے نا.....!! آپ کے پاس تو پنکھا اور کولر ہوگا نا...!!
پتہ نہیں آپ لوگ کتنی لڑائی لڑ پاؤگے مگر میں نے تو گاندھی جی کے لہو کے ہر قطرے کا، اجمل خان کے پسینے کی ہر بوند کا، سچ کا، ہمت کا، جذبے کا اور اس ملک کی سوندھی سوندھی خوشبوؤں کا ہر ہر فرض ادا کردیا ہے -
کیا آپ اس عید پر اس وطن عزیر کی مٹی کا فرض اتارنے کا وعدہ کر پاؤگے... ؟؟
پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں ہمیشہ کی طرح "پتہ نہیں " کا جواب ہوگا -

سچ میں یہ نہیں پتہ کہ کل آنے والے دنوں میں مہنگی گاڑیوں میں بیٹھے، اے - سی بنگلوں میں آرام فرماتے، کروڑوں کا بزنس کرتے یا اونچے مناصب پر بیٹھے کتنے جامعہ کے بچوں کو خون سے لتھڑی لائبریری (اور ریڈنگ ہال) یاد رہیں گے، کتنوں کو منہاج کی پھوٹی آنکھ یاد رہے گی، پتہ نہیں کتنوں کو یاد رہے گا کہ جامعہ کے خون سے اس دیس میں انقلاب آیا تھا -
سوچتی ہوں کہ کتنوں کو جیل کی چہار دیواریوں میں قید یہ ماں یاد رہے گی یا کسی کال کوٹھری میں درد سے کراہتے اور آنسو بہاتے میران، آصف اور شفاء بھائی (شفاء الرحمن) یاد رہیں گے -

خیر....! ہوسکے تو اس ملک کی سلامتی کے لیے دعا کرنا اور دیوانوں کے خون سے لتھڑی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی اس مٹی کے لیے بھی دعا کرنا جو کل آنے والے دنوں میں تمہارے روشن و تابندہ مستقبل کا اہم حصہ ہوگا -
اس تیس سالہ راشن بانٹتے میران حیدر کے لیے دعا کرنا جو کرونا جیسی مہلک وبا میں بھی اپنی جان کی پروا کیے بغیر لوگوں کی مدد کر رہا تھا -
اس تینتالیس کے بھائی شفاء الرحمن کے لیے بھی دعا کرنا جنہوں نے سچ کی لڑائی میں سب سے آگے کھڑے ہو کر حالات کا سامنے کرنے کا جذبہ رکھا -
اور ہاں! اس چوبیس سال کے آصف اقبال تنہا کے لیے بھی دعا کرنا جس نے جامعہ کی آواز کو ملک بھر میں بلند کیا -

کہتے ہیں کہ امید پر ہی دنیا قائم ہے تو ایک امید کر لیتے ہیں کہ واپس جلدی سے آپ سبھی سے دوبارہ مل پاؤں اور پیٹ میں پلنے والی اس پیاری سی ننھی جان کو جنم دے پاؤں -

(پیکرِ امن صفورا تمہیں دینا ہے جنم
اک سپاہی کہ جو آزاد کرے ملک عزیز)
(ذاکر انور) 

انقلاب زندہ آباد

آپ کی بیٹی وَ بہن :

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے