خلاصۃالقرآن یعنی آج رات کی تراویح: 23 پارہ 23 تراویح


خلاصۃالقرآن یعنی آج رات کی تراویح: 23 پارہ 23 تراویح

خلاصۃ القرآن 
مصنف: مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمۃاللہ علیہ
پاره23:.....
بائیسویں پارہ کے آخر میں ان انبیاء کا تذکرہ ہو چکا ہے جنہیں اللہ نے ایک بستی والوں کی ہدایت کے لیے بھیجا تھا مگر وہ ہدایت کی راہ پر چلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ جب بستی والوں نے تینوں انبیاء کو جھٹلایا تو بستی والوں میں سے ایک شخص جس کا نام مفسرین نے "حبيب النجار لکھا ہے وہ دوڑتا ہوا آیا تا کہ انبیاء کو ضرر پہنچانے کی صورت میں اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے اور انہیں انبیاء کی اتباع کی تلقین کرے، جب اسنے انہیں سمجھایا اور سب کے سامنے اپنے ایمان کا اعلان کر دیا تو وہ سب اس پر پل پڑے اور انہوں نے اسے شہید کر دیا ، شہادت کے بعد اسے جنت میں داخل ہونے کا شرف ملا جب اس نے اپنی آنکھوں سے اللہ کی ان نعمتوں کا مشاہدہ کر لیا جو اللہ نے اہل ایمان کے لیے تیار کی ہیں تو بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا :اے کاش! میری قوم جان لیتی جو میرے رب نے میری مغفرت کر دی ہے اور مجھے ابل کرامت و سعادت میں سے ٹہرایا (27)
حضرت ابن عباس رضی الله عن فر ماتے ہیں کہ: " و مومن شخص زندگی میں بھی اپنی قوم کا خیر خواہ ر با اور مرنے کے بعد بھی اس کے بعد اللہ تعالی بندوں پر افسوس کا اظہار فرماتے ہیں کہ ان کے پاس جوبھی رسول آتا ہے اس کا مذاق اڑاتے ہیں (30)
)مذکورہ بالا امور کے علا وہ سورہ یسین کے اہم مضا مین درج ذیل ہیں: )
(1) اللہ تعالی کے وجود ، تو حید اور قدرت کے تکوینی دلائل جو قرآن میں بار بار مذکور ہوئے ہیں ان میں سے تین قسم کے دلائل یہاں ذکر کیے گئے ہیں
مردہ زمین جسے بارش سے زندہ کر دیا جا تا ہے۔
 لیل و نہار اورشمس وقمر۔
 کشتیاں اور جہاز جو سمندر میں چلتے ہیں ۔ 
ان دلائل کے ضمن میں سورہ یسین ایک ایسی حقیقت کا اعلان کرتی ہے جس سے نزول قرآن کے زمانے کے بڑے بڑے اہل علم بھی ناواقف تھے ۔ 
آیت 36میں ارشاد ہوتا ہے وہ اللہ پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خودان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے‘‘ (36)
قدیم زمانے کے انسانوں کا خیال اور تحقیق یی تھی جوڑا جوڑ اصرف انسان اور حیوان ہی ہوتے ہیں، جب کہ موجودہ دور کے سائنس دانوں نے طویل تحقیق اور مغز ماری کے بعد ثابت کیاہے کہ زوجیت‘‘ ( جوڑا جوڑا) نہ صرف انسانوں بلکہ نباتات، جمادات اور تمام کائنات میں پائی جاتی ہے یہاں تک کہ ایٹم جو کہ مادہ کے اجزاء میں سے سب سے چھوٹا جز ہے وہ بھی دوختلف اجزاء میں یعنی الیکٹران اور پروٹان سے مرکب ہوتا ہے اور یہ دونوں جزء نر اور مادہ کے مشابہ ہیں ، سوره یسین کے علا وہ سورۂ ذاریات میں بھی اس علمی اور سائنسی تحقیق کی صدیوں پہلے نشاندہی کر دی گئی تھی، وہاں فرمایا گیا اور ہر چیز کو ہم نے جوڑا جوڑا بنایا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو(51/49)
(2).............. اس کے بعد سورۃ یسین قیامت کی ہولنا کیوں اور صور پھونکے جانے کا تذکرہ کرتی ہے، جس وقت پہلی بار صور پھونکا جائے گا، لوگ اپنےمعمولات کی ادائیگی اور خرید وفروخت میں مشغول ہوں گے ، صور اسرافیل کی آواز سن کر ان پر خوف اور گھبراہٹ کی کیفیت طاری ہو جائے گی ، اسے نخفہ فزع‘‘ بھی کہا جاتا ہے، دوسری بار کے صور سے حی و قیوم کے سوا سب کو موت آ جائے گی اور کوئی ذی روح زندہ نہیں رہے گا، تیسری بار جب صور پھونکا جائے گا تو سب قبروں سے جی اٹھیں گے اور حاکم حقیقی کے سامنے پیش ہو جائیں گے ۔ وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوگا ، مومنین متقین کو جنت اور جنت کی نعمتوں سے نوازا جائے گا، جبکہ مجرم جو کہ دنیا میں صلحاء کے ساتھ
ملے جلے رہتے تھے انہیں الگ کر دیا جائے گا، پھر ان کے منہوں پر مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضا ءان کے خلاف گواہی دیں گے ۔ ( 49۔66)
چونکہ اس سورت میں زیادہ تر بحث بعث بعد الموت کے حوالے سے ہے اس لیے اس کا اختتام بھی اس پر ہورہا ہے، فرمایا گیا کیا وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے پیدا کر دے؟ کیوں نہیں وہی ہے جوخوب پیدا کرنے اورعلم رکھنے والا ہے، اس کی شان یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے فرما دیتا ہے کہ ہو جا ! تو وہ ہو جاتی
ہے۔ (81۔82)
سورة الصافات:----------
سوره صافات مکی ہے، اس میں 182آیات اور 5رکوع ہیں، سورت کی ابتداءہوتی ہے ان ملائکہ کے ذکر سے جو عبادت اور تسبیح و تحمید میں مصروف رہتے ہیں ، اس کے بعد جنات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جب وہ چوری چھپے ملا اعلی کی خبریں سننے کی کوشش کرتے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا تعاقب کرتے ہیں اور انہیں مار بھگاتے ہیں ، سوره صافات، بعث اور حساب و جزا کے مسئلہ سے بحث کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ بعث بعد الموت کے بارے میں مشرکین کا موقف بڑا عجیب ہے، وہ اس عقیدے کا مذاق اڑاتے ہیں اور یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ ہڈیوں کے چورا چورا ہونے اور خاک میں مل جانے کے بعد انسان دوبارہ کیسے زندہ ہو سکتا ہے، اللہ فرماتے ہیں، جو کام انہیں مشکل بلکہ نا ممکن محسوس ہوتا ہے وہ اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں، جب حضرت اسرافیل تیسری بار صور پھو کیں گے تو یہ سب اپنی قبروں سے نکل کر کھڑے ہو جائیں گے۔ (19)
پھر وہ بڑی حسرت اور ندامت کے ساتھ کہیں گے کہ یہ ہے اعمال کی جزا کا دن ، جس کا ہم مذاق اڑایا کرتے تھے پھر انہیں دوزخ میں ڈال دیا جائے گا، وہاں آپس میں جھگریں گے اور ایک دوسرے کو اپنی گمراہی کامورد الزام ٹھرائیں گے (20۔35)
دوزخیوں کی باہمی لعن طعن کے علاوہ یہ سورت جنتیوں کا آپس میں مکالمہ  بھی ہم کو سناتی ہے، جب انہیں ہر طرح کی نعمتوں سے نہال کر دیا جائے گا اور وہ عزت و راحت کے تخت پر شاہزادوں سے کروڑوں گنا زیادہ خوش بیٹھے ہوں گے تو اپنے ماضی کو یاد کریں گے، ان میں سے ایک کہے گا کہ میرا ایک ہم نشین ہوا کرتا تھا جو مجھ سے کہا کرتا تھا کہ بڑی عجیب بات ہے کہ تم آخرت کی زندگی پر ایمان رکھتے ہو، بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں تو ہمیں دوبارہ زندہ کر دیا جائے؟ ہم سے زندگی بھر کے اعمال کا حساب لیا جائے اور پھر کسی کو جزا اور کسی کو سزا دی جائے؟ یہ باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں ، نجانے تم کیوں ایسی’’ خلاف عقل باتوں پر یقین رکھتے ہو؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھے گا کہ کیا تم اسے دیکھنا چاہتے ہو؟ اتنے میں وہ خود جھانک کر دیکھے گا تو اپنے اس عقل پرست اور منکر آخرت دوست کو دوزخ کے وسط میں جلتا ہوا دیکھے گا تو اس سے کہے گا اللہ کی قسم !تو تو مجھے بھی  ہلاک کر چکا تھا اور اگر میرے پروردگار کی مہربانی نہ ہوتی تو میں بھی ان میں ہوتا جو عذاب میں حاضر کیے گئے ہیں“ (56۔57)
اس کے بعد یہ سورت بعض انبیاء کرام علیہم السلام کے قصص سے بحث کرتی ہے،
(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان میں سے پہلا قصہ شیخ الانبیاء حضرت نوح علیہ السلام کا ہے جن کی قوم نے انہیں جھٹلایا تو جھٹلانے والوں کو غرق کردیا گیا۔
(2)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا قصہ حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کا ہے جوکہ دو مرحلوں میں بیان ہوا ہے، پہلے مرحلہمیں ان کی دعوت توحید کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد اور اپنی قوم کو کیسے ایمان کی دعوت دی کیسے ان کے سالانہ جشن میں شرکت سے معذوری ظاہر کی، کیسے ان کے بتوں سے دو دو ہاتھ کیے ۔ مشرکوں نے انہیں زندہ جلا ڈالنے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی اور کیسے اللہ تعالی نے انہیں بچالیا (83۔98)
دوسرے مرحلہ میں ’’ذبح وفدا'' والا مشہور واقعہ بیان ہوا ہے، یہ واقعہ صرف سوره صافات ہی میں مذکور ہے، باوجود یکہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر حضرت خلیل علیہ السلام کا ذکر آیا ہے لیکن یہ واقعه صافات‘‘ کے علاوہ کسی دوسری سورت میں مذکور نہیں ہے، یوں تو حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی پوری زندگی اللہ کی رضا کی خاطر ابتلاؤں اور آزمائشوں میں گزری ۔ لیکن یہ ابتلا ان سب ابتلاؤں سے زیادہ زہرہ گداز اور جاں گسل تھی، آپ کو خواب میں بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا، آپ تسلیم ورضا کا پیکر بن کر فورا تیار ہو گئے ، بیٹے کو خواب سنایا تو وہ بھی پیکر تسلیم تھا، آپ بیٹے کو پیشانی کے بل پچھاڑ کر ذبح کرنے لگے فورا اللہ کی طرف سے وحی آئی، اے ابراہیم ! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ،
بے شک یہ بہت سخت اور کٹھن آزمائش تھی، اب لڑکے کو چھوڑو اورتمہارے پاس جو یہ مینڈھا کھڑاہے اس کو بیٹے کے بدلے میں ذبح کر دو، ہم نیکو کاروں کو اسی طرح نوازتے ہیں ۔‘‘ (110)
تیسرا واقعہ حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہ السلام کا ہے۔
چوتھا قصہ حضرت الیاس علیہ السلام کا ہے جنہیں شام میں ایک ایسی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا تھا جو'' بعل‘‘ نامی بت کی عبادت کرتی تھی ، اس بت کے نام پر بعلبک" نامی ایک شہر آبادتھا جس کے آثار آج بھی دمشق کے مغرب میں ملتے ہیں۔
پانچواں قصہ حضرت خلیل علیہ السلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کا ہے جنہیں اردن کے اطراف میں' سدوم والوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا مگر وہ بدترین قسم کی شہوت پرستی اور کفر میں مبتلا ہو کر اندھے، بہرے ہو چکے تھے، پیغام ہدایت سننے کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور بالآخر عبرتناک عذاب کی لپیٹ میں آ کررہے۔
چھٹا قصہ حضرت یونس علیہ السلام کا ہے، جنہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی کچھ عرصہ رہنا پڑا اور جن کی قوم کو عذاب کے آثار دیکھ کر تو بہ کا شرف حاصل ہوا۔ انبیاء کے ان قصص کے اختتام پر ارشاد ہوتا ہے اور اپنے پیغام پہنچانے والے بندوں سے ہمارا وعدہ ہو چکا ہے کہ وہی غالب اور منصور ہیں اور ہمارالشکر غالب آ کر رہے گا (17۔173)
سورت کے آخر میں آپ کو معاندین سے اعراض کرنے کا حکم ہے اور اللہ کی حمد و تسبیح کا بیان ہے۔
سورة ص:۔۔۔۔۔
 سوره ص مکی ہے، اس میں 88 آیات اور5 رکوع ہیں، سورت کی ابتداء میں اللہ تعالی نے قرآن عظیم کی قسم کھائی ہے ، یہ قسم یا تو قرآن کے معجزہ ہونے پر ہے یا رسول اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم کی صداقت پر، اس سورت کے اہم مضامین درج ذیل ہیں:۔
(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی وحدانیت اور اس کی عظمت کے تکوینی آثار کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مشرکین تکبر ، حماقت اور جہالت میں مبتلا ہیں ، انہیں اس پر تعجب ہوتا ہے کہ انہیں سمجھانے اور ڈرانے کے لیے انہی میں سے ایک انسان ، نبی بن کر آیا ہے اور یہ کہ ہم نے تو مختلف شعبوں کےلیے مختلف خدا تجویز کر رکھے تھے جبکہ اس نبی کا خیال ہے کہ تمام انسانوں اور موت و حیات کے پورےنظام کے لیے ایک اللہ ہی کافی ہے۔
(2)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کفار قریش کی احمقانہ اور جاہلانہ سوچ بتانے کے بعد سوره ص امم سابقہ کے متکبرین اور مشرکین کا انجام بتاتی ہے جو تکذیب اور سرکشی کی وجہ سے عذاب الہی کے مستحق ٹہرے ۔ (12۔14)
(3)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گز شتہ قوموں کے متکبرین اور مکذبین کا انجام بتاتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف صبر کرنے کی تلقین ہے ، دوسری طرف حضرت داؤد علیہ السلام کو یاد کرنے کا حکم ہے جنہیں اللہ تعالی نے ظاہری اور باطنی ، دینی اور دنیاوی قوت سے نوازا تھا، وہ ایک دن روزے رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے، نصف شب سوتے اور نصف شب عبادت کرتے تھے، وسیع سلطنت کے بادشاہ بھی تھے اور جلیل القدر نبی بھی تھے۔ انہیں ذکر کرنے والا دل شکر کرنے والی زبان اور سحر طاری کر دینے والی آواز عطا ہوئی تھی ، وہ جب زبور کی تلاوت کرتے تھے تو پرندے فضا میں رک جاتے تھے، جب حمد باری تعالی میں رطب اللسان ہوتے تھے، پہاڑ بھی مصروف حمد ہو جاتے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کا بھی ذکر خیر کیا گیا ہے، ان کی سلطنت وسائل و اسباب کے اعتبار سے اپنے والد کی سلطنت سے بھی زیادہ شان و شوکت کی حامل تھی ، ان کے لیے ہوا اور جنات مسخر کر دیئے گئے تھے۔
(4)۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورہ ص میں تیسرا قصہ حضرت ایوب علیہ السلام کا بیان ہوا ہے، وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے، ان کے پاس ثروت و غنا کی بہتات تھی ، باغات اور حویلیاں تھیں، زرعی زمینیں اور ڈھور ڈنگر تھے، نوکر چاکر اور کئی بیٹے تھے۔ اللہ کی طرف سے آزمائش آئی تو سب کچھ جاتا رہا، اولاد بلاک ہوگئی ، مال مویشی مرگئے، باغات اجڑ گئے حویلیاں زمین بوس ہوگئیں ، عزیز واقارب نے تیور بدل لیے، ثروت و غنا کی جگہ فقروفاقہ نے ڈیرے ڈال لیے، خود تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہو گئے ۔ بعض تفاسیر میں ہے کہ یہ ابتلا ءاٹھارہ سال تک رہا مگر حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی روش نہ بدلی اور صبر وشکر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، بالآخر آزمائش کا دور ختم ہوا اور اللہ نے پہلے سے بھی زیادہ نواز دیا۔
(5)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت ایوب علیہ السلام کے علاوہ سورة ص حضرت ابراہیم ، حضرت اسحق، حضرت یعقوب ، حضرت اسماعیل، حضرت یسع اور حضرت ذاکفل علیہم السلام کا اجمالی ذکر اور اللہ تعالی کی طرف سے ان سب کی تعریف بیان کرتی ہے، آخر میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ ابلیس کے ساتھ قدرے تفصیل سے مذکور ہے۔ سورت کے اختتام پر اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنی دعوت کی حقیقت اور مقصد بیان فرما دیں:اے پیغمبر! کہہ دو کہ میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں ہوں، یہ قرآن تو اہل عالم کے لیے نصیحت ہے اور تم کو اس کا حال ایک وقت کے بعد معلوم ہو جائے گا ۔‘‘ (86۔88) 
سورة الزمر :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوره زمر مکی ہے، اس میں 75آیات اور 8رکوع ہیں، اس سورت کا اصل موضوع اورمحور عقیدہ توحید ہے کیونکہ اللہ کی وحدانیت کا اعتقاد ہی اصل ایمان ہے، اس سورت کی ابتداء خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم معجزہ قرآن کریم کے تذکرہ سے ہوتی ہے۔ بتایا گیا ہے
کہ یہ کتاب اس اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے گویا تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ عبادت کو اللہ کے لیے خالص
رکھیں اس میں ریا وغیرہ کی ملاوٹ ہر گز نہ ہونے دیں، اگلی آیات میں انداز بدل بدل کر رب العالمین کی وحدانیت پر تکوینی دلائل اور براہین قائم کیے گئے ہیں اور شرک کی پرزور تردید کی گئی ہے۔ یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ شکم مادر میں انسان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تمہیں ماں کے پیٹ میں تین تاریکیوں میں پیدا فرماتا ہے (6)
یہ قرآن کا اعجازعلمی ہے کہ وہ ایک ایسی طبی حقیقت کا صدیوں پہلے اعلان کر چکا ہے جس حقیقت کا حکما ء اور ڈاکٹروں کو بیسویں صدی میں علم ہوا ہے، ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ بظاہر دیکھنے میں وہ ایک ہی پردہ معلوم ہوتا ہے جس میں جنین رہ رہا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ تین پردے ہوتے ہیں ۔ قرآن نے ان تین پردوں کو تین تاریکیاں اس لیے قرار دیا ہے کیونکہ وہ پردے بچے کو روشنی سے بچائے رکھتے ہیں توحید کا اثبات اور شرک کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالی نے موحد اور مشرک کی مثال بیان کی ہے ،مشرک کی مثال اس غلام جیسی ہے جس میں کئی شریک ہوں اور مزاج کے اعتبار سے بھی وہ تمام شرکا ء ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوں ، نہ آپس میں اتفاق نہ محبت اور یگانگت، ان میں سے ایک غلام کو دائیں بھیجتا ہے تو دوسرا بائیں جانب جانے کاحکم دیتا ہے ، ایک کھڑا ہونے کا تو دوسرا بیٹھنے کا حکم صادر کرتا ہے، وہ حیران ہے کہ اس کی مانے اورکس کی نہ مانے اور موحد کی مثال اس غلام جیسی ہے جس کا مالک ایک ہو، اس کے اخلاق بھی اچھے ہوں اور وہ اپنے غلام کے جذبات کا بھی لحاظ رکھتا ہو، (29)
یقینا یہ غلام اخلاص کے ساتھ اس کی خدمت کرے گا اور اسے اپنے مالک سے بھلائی اور احسان ہی کی امید رہے گی ۔ پھر جب ما لک ، رب العالمین ہو اور بندہ اسی کا ہو کر رہ جائے تو اس کے قلبی سکون اور رافت پر یقینابادشاہی قربان کی جاسکتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے