قرآن کریم کی حقانیت توحید اور حشر کے دلائل


قرآن کریم کی حقانیت توحید اور حشر کے دلائل


حضرت مولانا مفتی اسلم صاحب شیخوپوری شہید رحمۃاللہ علیہ
پارہ 26
سورۃ الا ٔحقاف:
سورۂ احقاف مکی ہے، اس میں ۳۵ آیات اور۴ رکوع ہیں ، اس سورت کا موضوع بھی دوسری مکی سورتوں کی طرح تینوں اسلامی عقائد کا اثبات ہے ، سورت کی ابتدا ہوتی ہے قرآن کریم کی حقانیت، توحید اور حشر کے دلائل اور ان بتوں کی مذمت سے جنہیں مشرکوںنے معبود بنا رکھا تھا، حالانکہ وہ نہ سنتے تھے، نہ دیکھتے تھے،نہ نفع اور نقصان ان کے اختیار میں تھا اور نہ ہی وہ پرستش کرنے والوں کی دعائیں قبول کر سکتے تھے۔(۱،۲)
مذکورہ بالا کے علا و ہ سورۂ احقاف کے اہم مضامین درج ذیل ہیں:
۱]  مشرکین کے سامنے جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو وہ اس پرمختلف شبہات اور اعتراضات وارد کرتے تھے، وہ کبھی تو اسے سحر کہتے تھے اور کبھی آپ کا خودتراشیدہ کلام قرار دیتے تھے، اور کبھی ایمان والوں کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر ایمان کوئی اچھی چیز ہوتا تو یہ فقیر، غریب اور مزدور لوگ ایمان قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ لے جاتے ۔ مشرکین کے اعتراضات ذکر کرنے کے بعد ان کے مسکت جوابات دیئے گئے ہیں ۔(۷،۱۲)
۲]  سورۂ احقاف ہمارے سامنے دو متضاد نمونے پیش کرتی ہے، پہلا نمونہ نیک بیٹے کا ہے جس کا دل نورا ایمان سے منور ہے اور اس کے قدم جادۂ شریعت پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں ، جب اس کے والدین اسے پال پوس کر جوان کر دیتے ہیں، وہ جسمانی اور عقلی اعتبار سے حد کمال کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اللہ سے تین دعائیں کرتا ہے:
پہلی یہ کہ اے اللہ! تو مجھے نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
 دوسری یہ کہ ایسے اعمال کا کرنا میرے لیے آسان کر دے جن سے تو راضی ہوجائے۔
 تیسری یہ کہ میری اولاد کو نیک بنادے۔
ایسی اولاد کے لیے اللہ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے۔ (۱۵، ۱۶ )۔ دوسرا نمونہ شقی اور نافرمان بیٹے کا ہے، جس کے والدین اسے ایمان قبول کرنے کی دعوت دیتے ہیں تو وہ جواب میںبڑے تکبر سے کہتا ہے: ”اُف اُف !تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ مجھے (زمین سے زندہ کر کے ) نکالا جائے گا، حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں‘‘ ان میں سے تو کسی کو میرے سامنے زندہ نہیں کیا گیا )۔ (۱۷)
پہلا نمونہ ایمان اور ہدایت والوں کا ہے، دوسرا نمونہ اہل کفر وطغیان کا ہے، دونوں کو اپنے اپنے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا۔ 
۳]  دو متضادنمونے بیان کرنے کے بعد سورۂ احقاف اس قوم کا قصہ بیان کرتی ہے جنہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا ، جس کے نتیجہ میں انہیں تباہ و برباد کر دیا گیا، انہیں عذاب دینےکے لیے بادل بھیجا گیا، چونکہ کئی دنوں سے شدید گرمی پڑ رہی تھی اس لیے وہ بادل دیکھ کر خوش ہو گئے اور انہیں یقین آ گیا کہ آج تو موسلا دھار بارش ہوگی ، وہ خوشی کے مارے گھروں سے باہر نکل آئے، اس بادل کے نمودار ہوتے ہی تیز اور طوفانی ہوا چلنےلگی ۔ قوم عاد کے لوگ بڑے قد آور اور جسیم تھے ، ہوا نے انہیں اپنے دوش پر اٹھایا اور فضا میں لے گئی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ کیڑے مکوڑے اڑ رہے ہیں پھر انہیں زمین پر پٹخ دیا، وہ زمین پر مردار پڑے یوں محسوس ہوتے تھے گویا هکھجور کے کھوکھلے تنے پڑے ہوئے ہیں، قوم عاد کا واقعہ سنا کر اہل مکہ کو ڈرایا گیا ہے
کہ تم ان سے زیادہ طاقتور نہیں ہو، اگر سرکشی اختیار کرو گے تو تم بھی عذاب الٰہی کی لپیٹ میں آ کر رہوگے ۔ (۲۱، ۲۶) 
۴]  سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ جو اللہ ارض و سما کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہ مردوں کو بھی دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ (۳۳) 
اور آخری آیت میں حضور اکرم ﷺ کو حکم دیا گیاہے کہ آپ اولوالعزم انبیاء کی طرح صبر کریں، صبر کا انجام ہمیشہ اچھا ہی ہوتا ہے۔
 سورہ محمد:
 سورۂ محمد مدنی ہے، اس میں ۳۸ آیات اور ۴رکوع ہیں ، ہمارے آقا ﷺ کا اسم گرامی قرآن کریم کی صرف چار سورتوں میں مذکور ہے۔ آل عمران ، احزاب، محمد اور سورہ فتح ،ان چار مواقع کے علاوہ باقی تمام مقامات پر آپ کی کوئی نہ کوئی صفت بیان ہوئی ہے، اس سورت کو ’’سورۃ القتال‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں کفار کے ساتھ قتال کے احکام کا بیان ہے، اس سورت کا موضوع حقیقت میں جہاد و قتال ہے۔ سورت کی ابتدا میں کفار اور مومنین کے در میان فرق بیان کیا گیا ہے، کفار باطل کی اتباع کرتے ہیں اور اہل ایمان حق کی اتباع کرتے ہیں ۔(۱،۳)
جب انسانوں میں ان دو گروہوں کو وجود ہو گا تو ان کے درمیان کشمش بھی ہوگی کراؤ بھی ہو گا، معرکہ کارزاربھی گرم ہو گا، اس لیے فرمایا گیا کہ:’’جب تم کافروں سے ٹکراؤ تو ان کی گردنیں اڑ ادویہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کر چکو تو (جو باقی بچیں انہیں) مضبوطی سے قید کرلو‘‘۔
ان قیدیوں کو بطور احسان بھی آزاد کیا جا سکتا ہے اور فدیہ لے کر بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اپنے قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرلیا جائے اور چوتھی امکانی صورت یہ بھی ہے کہ انہیں غلام اور لونڈی بنالیا جائے لیکن لونڈی اور غلام بنانا فرض یا واجب کا درجہ نہیں رکھتا ، جس وقت جنگی قیدیوں کو لونڈی اور غلام بنانے کی اجازت دی گئی اس وقت پوری دنیا میں نہ صرف یہ کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنا لینے کا رواج تھا۔ بلکہ ظالم لوگ ایسے آزاد انسانوں کو بھی غلام بنا لیتے تھے جن کا کوئی وارث یا طاقتور خاندان نہیں ہوتا تھا، یہ مظلوم طبقہ کسی بھی قسم کے انسانی حقوق سے محروم تھا ، اسلام نے ان کے حقوق متعین کیے ۔ انہیں آزاد کرنے کے فضائل بتائے اور ان کے خون کو حرمت بخشی، یہ اسلام کے حقوق دینے ہی کا نتیجہ تھا کہ تاریخ اسلام ایسے بے شمار غلاموں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں سے کوئی مفسر تھا اور کوئی محدث ، کوئی فاتح اور کوئی وزیر اور فرمانروا مسلمانوں نے کبھی بھی ان کی سابقہ غلامی کی وجہ سے انہیں حقارت کی نظر سے نہیں دیکھا۔ صدقہ خیرات کے دوسرے مصارف کی طرح مسلمانوں نے ایک اہم مصرف غلاموں کے ساتھ تعاون اور انہیں خرید کر آزاد کرنے کا بھی طے کر رکھا تھا، قرون اولیٰ کے مسلمان ، گر دونوں کو آزادکرنے اور کرانے میں کتنی دلچسپی رکھتے تھے اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے جس کے مطابق حضور اکرم ﷺ کے صرف ایک صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار غلام خرید کر آزاد کیے۔ سورۃ القتال بتاتی ہے کہ اگر مسلمان اللہ کے دین پر استقامت دکھائیں گے اور اس کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے تو اللہ ان کی مدد کرے گا اور انہیں ثابت قدم رکھے گا۔(۷)
اللہ نے اس جنت کی ایک جھلک بھی اس سورت میں بیان کی ہے جس کا ایمان والوں سے وعدہ کیا گیا ہے (۱۲-۱۵)
ایمان والوں کے مقابلہ میں منافقوں کا حال بھی بتایا گیا ہے، آیات قتال سن کر ایمان والوں کی قوت ایمانی میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ منافقوں پر موت کی سی بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔(۲۰،۲۱)
جہاد و قتال اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دیتے ہوئے آخر میں گویا وعید کے انداز میں کہا | گیا ہے: ’’اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کےنہیں ہوں گے‘‘۔ (۳۸)
سورۃ الفتح:
سورۂ فتح مدنی ہے، اس میں ۲۹ آیات اور ۴رکوع ہیں، یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب رسول اکرم ﷺ حدیبیہ سے واپس تشریف لا رہے تھے، بخاری اور ترمذی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا: '’’آج شام مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا و مافیہا سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘۔
پھر آپ نے سورت کی ابتدائی آیات کا کچھ حصہ تلاوت کیا، اس سورت کے مضامین بسہولت سمجھنے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حدیبیہ اور بیعت رضوان کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کر دیا جائے ۔ ہوا یوں کہ رسول اکرم ﷺ نے مد ینہ منورہ میں خواب دیکھا کہ ہم مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف کیا، جب آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو انہیں بے حد خوشی ہوئی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کا خواب برحق ہوتا ہے۔ حضور اکرمﷺ ذوالقعداد میں ۱۴۰۰ یا ۵۰۰ اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ، جب آپ مکہ اور مدینہ کے درمیان پہنچے تو آپ کو بشر بن سفیان نے اطلاع دی کہ مکہ والے آپ کی روانگی کی اطلاع پا کر باقاعدہ جنگ کی تیاری کررہے ہیں، چنانچہ آپ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو قاصد بنا کر بھیجا تا کہ وہ مکہ والوں کو سمجھائیں کہ ہم جنگ کی نیت سے نہیں آئے ۔ ہمارا مقصد عمرہ اور زیارت کے سوا کچھ نہیں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں شہید کر دیا گیا ہے، آپ نے درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے اصحاب سے عدم فرار پر بیعت کی ، اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے کیونکہ تمام شرکا ء ِ بیعت کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ میں ان سے راضی ہو گیا ہوں ۔ (۱۸)

یہ افواہ بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی ، پھر مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو آئے ، بات چیت ہوتی رہتی ، بالآ خر معاہدہ صلح ہو گیا جس کے مطابق دونوں فریق دس سال تک آپس میں امن وامان سے رہنے اور جنگ نہ کرنے پرمتفق ہو گئے ۔ اس معاہدہ کی بعض شقوں سے بظاہر مسلمانوں کی کمزوری ثابت ہوتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مبین قرار دیا، اس صلح کا فتح مبین ہونا اس وقت بعض مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا لیکن بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ واقعی میں فتح مبین تھی اور ابتدا اسلام سے اب تک مسلمانوں کو اس سے بڑی فتح حاصل نہیں ہوئی ۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیبیہ میں مسلمانوں کی تعدادکم وبیش ۱۴۰۰ تھی جبکہ صرف دو سال بعد جب ۸ھ میں مکہ فتح ہوا تو حضور اکرم ﷺ کے زیر قیادت لشکر مجاہدین کی تعداد دس ہزارتھی، یہ انقلاب معا ہدۂ ا من کی وجہ سے برپا ہوا، جب مصالحت کے بعد مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ میل جول اور معاملات شروع کیے تو مسلمانوںکے کردار کی پختگی ، زبان کی سچائی ، دامن کی عفت و عصمت اور معاملات کی صفائی نے مشرکوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر وہ کون سی مخفی قوت ہے جس نے کل کے شرابیوں اور راہزنوں کوزاہد و پارسا بنا دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ قوت صرف ایمان کی تھی ، اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ان کی گردنیں خود بخود ایمان کے سامنے جھک گئیں، سورہ فتح  اسی صلح حدیبیہ کے پس منظر میں نازل ہوئی اس لیے اس میں ان واقعات کی طرف اشارے ملتے ہیں جن کا اس کے ساتھ تعلق اور مناسبت ہے۔ ابتدائی آیات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عظیم ترین فتح کی بشارت سنائی گئی ہے، ایمان والوں کے ساتھ جنت کا وعدہ ہے اور کافروں اور منافقوں کے لیے وعیدہے۔(۱،۶)
پھر یہ سورت دو متضاد گروہوں کا تذکرہ کرتی ہے۔ پہلا گروہ ان مخلص اہل ایمان کا ہے جنہوں نے وطن سے دور اور غیرمسلح سے ہونے کے باوجود ہر چہ بادآ باد کہتے ہوئے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ پر بیعت جہاد کی اور یہ عہد کیا کہ آپ کی قیادت میں فتح یا شہادت تک قتال کر یں گے اور میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کریں گے ، رب کریم کو ان کا یہ جذبہ پسند آیا اور فرمایا: جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے‘‘۔ (۱۰)
اگلی آیات میں ہے: (اے پیغمبر!) جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ہو گیا اور ان کے دلوں میں ( جو ایمانی جذبہ ) تھا اس نے اسے جان لیا تو ان پرتسلی نازل فرمائی اور انہیں جلد فتح عنایت کی‘‘ (۱۸)
دوسرا گروہ ان منافقوں کا تھا جو حدیبیہ میں آپ کے ساتھ نہیں گئے تھے اور ان کا باطل گمان یہ تھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ جانے والے مسلمان مکہ سے زندہ سلامت و اپس نہیں آ سکیں گے۔ اللہ نے ان منافقین کے بارے میں اپنے نبی کو پیشگی اطلاع دے دی کہ جب آپ واپس جا ئیں گے تو یہ اپنے پیچھے رہ جانے کے بارے میں جھوٹے اعذار پیش کریں گے۔ (۱۱۔۱۲)
سورۂ فتح وہ خواب بھی بیان کرتی ہے جوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں داخل ہونے کے بارے میں دیکھا تھا۔ (۲۷)
اس سورت کے اختتام پر تین امور بیان کیے گئے ہیں:
پہلا یہ کہ اللہ نے محمد صلی الله علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر اس لیے بھیجا ہے تا کہ آپ اسے سارے ادیان پر غالب کر دیں ( ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے ایسا ہوکر رہے گا، جہاں تک علمی اور برہانی غلبہ کا تعلق ہے وہ آج بھی دین اسلام کو ادیان عالم پر حاصل ہے ) (۲۸)
دوسرے نمبر پر آپ کے صحابہ کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ کفار کے مقابلے میں بڑے سخت اور آپس میں بڑے مہربان ہیں، اور وہ سب رضاء الٰہی کے طالب ہیں اور آخر میں ان لوگوں کے ساتھ مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ ہے، جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ (اے اللہ! تو ہمیں بھی ان میں سے بنادے۔ آمین) 
سورۃ الحجرات:
 سورۂ حجرات مدنی ہے، اس میں ۱۸ آیات اور ۲ رکوع ہیں ، حجرات حجرۃ کی جمع ہے گھر اور کمرے کو کہتے ہیں ۔ چونکہ اس میں ان بدوؤں اور دیہاتیوں کا ذکر ہے جو ادب سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عوامی انداز میں کمرے کے باہر سے آوازیں دیا کرتے تھے اس لیے اسے سورۂ حجرات کہا جاتا ہے، چونکہ اس سورت میں مکارم اخلاق بھی بیان ہوئے ہیں اس لیے اسے سورۃ الاخلاق والآداب بھی کہا جاتا ہے، اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پانچ مرتبہ ’’یا ایها الذين آمنوا‘‘ کہہ کر خطاب کیا ہے، اس سورت کے اہم مضامین کو بالترتیب یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱]  اس کی ابتدا میں الله اور اس کے رسول کا ادب بیان کیا گیا ہے، وہ یہ کہ مومن کو چاہیے کہ جب تک اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو نہ جان لے، اپنی رائے اور فیصلے کا ہرگز اظہار نہ کرے، یونہی عملی زندگی میں کتاب وسنت سے اعراض کرتے ہوئے اپنے فیصلے خود نہ کرے، اس سے اگلی آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے نبی سے خطاب کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھا کریں، یونہی آپ کا نام کنیت ذکر کیا۔ ایسے نہ پکارا کریں جیسے آپس میں ایک دوسرے کوپکارتے ہیں۔(۱،۲)
۲]  اجتماعی اور معاشرتی آداب بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ افواہوں پر کان مت دھرا کرو اور اگر کوئی ایسا ویسا آدمی کوئی خبر تم تک پہنچائے تو اس کے بارے میں تحقیق کر لیا کرو ، خبروں کے بارے میں تحقیق میں حقیقت کا علم دینے کے ساتھ ساتھ اصحاب رسول کو خطاب کرتے ہوئے ان کی تعریف بھی کی گئی ہے کہ اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کر دیا ہے ‘‘۔(۷)
۳]  اڑتی ہوئی افواہوں پر اعتماد بسا اوقات باہمی قتل و قتال تک پہنچا دیتا ہے، اس لیے سمجھایا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں برسر پیکار ہو جا ئیں تو ان کے درمیان صلح کرادیاکرو،کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان خواہ گورے ہوں یا کالے، امیر ہوں یا غریب ، عربی ہوں یا عجمی سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
۴]  اس کے بعد چھ ایسی معاشرتی خرابیوں اور برائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی وجہ سے باہمی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں اور ان میں مبتلا انسان اللہ کی نظر میں بھی اچھا شمار نہیں ہوتا۔
پہلی برائی جس سے منع کیا گیا ہے وہ ہے ایک دوسرے کا مذاق اڑانا، عام طور پر ایک شخص دوسرے کا مذاق اس وقت اڑاتا ہے جب وہ اسے حقیر اور اپنے آپ کو اس سے بہتر سمجھتا ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ جن کے ساتھ تم تمسخر کر رہے ہو، ہوسکتا ہے وہ اللہ کی نظر میں تم سے بہتر ہو۔
دوسری برائی یہ ہے کہ ایک دوسرے پرعیب لگا نا، طعنہ دینا ، ذلیل اور رسوا کر نا۔ 
تیسری برائی یہ ہے کہ کسی کو برےلقب سے پکارنا یا اس کا نام بگاڑنا۔ 
چوتھی برائی یہ ہے کہ کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا، اللہ کے نبی نے بدگمانی کو بدترین جھوٹ قرار دیا ہے۔
پانچویں برائی یہ ہے کہ مسلمانوں کے عیوب اور کمزوریوں کو تلاش کرنا اور ان کی ٹوہ میں لگے رہنا۔
حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فر مایا:اے وہ لوگو! کہ اپنی زبان سے تو ایمان لائے ہومگر تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تم مسلمانوں کے عیوب کی ٹوہ میں مت لگو ، جو ایسا کرے گااسے اللہ تعالیٰ گھر کے اندر رسوا فرما دے گا۔
چھٹی معاشرتی برائی جس سے ان آیات میں منع فرمایا گیا ہے، وہ ہے ایک دوسرے کی غیبت کرنا ، غیبت کرنے کو اللہ تعالیٰ نے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے۔ (۱۱۔۱۲)
غیبت کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ایسی مثال بیان فرمائی ہے جس سے ہر سلیم الطبع انسان نفرت کرتا ہے:
غیبت کرنے والا کسی جانور کا نہیں بلکہ انسان کا گوشت کھاتا ہے۔
جس انسان کا گوشت کھارہا ہے وہ کوئی غیر  نہیں ہے بلکہ اس کا بھائی ہے۔
وہ گوشت کسی زندہ کا نہیں بلکہ مردہ کا ہے۔
۵]  باہمی تعلقات کی خرابی کا ایک بڑا سبب حسب نسب اور مال و دولت پر فخر وغرور بھی ہوتا ہے اس لیے سورۂ حجرات میں اس کی بھی جڑ کاٹ دی گئی ہے اور واضح کردیا گیا ہے کہ قوم، قبیلہ، ذات پات اور رنگ ونسل جیسی غیر اختیاری چیزوں میں سے کوئی چیز بھی انسان کو اللہ کے ہاں مکرم اورمحبوب نہیں بناتی ہے، اللہ کے ہاں عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے یعنی ہرقسم کے شرک اور حرام سے بچنا اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے زمانہ جاہلیت کی عار اور آبا ء پر تفاخر کوختم کردیا ہے ، لوگ بس دو ہی قسم کے ہیں ، کچھ لوگ وہ ہیں جو نیک متقی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں معزز ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کی نظر میں شقی اور ذلیل ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے ‘‘۔
۶]  آخری آیات میں بتایا گیا ہے کہ صرف لفظی اور ظاہری ایمان کا اعتبار نہیں بلکہ الله کے ہاں اس ایمان کا اعتبار ہے جو دلوں میں پیوست ہو جائے اور مومن کو الله کی راہ میں مال و جان کی قربانی پر آمادہ کر دے۔
سورہ قٓ:
سورہ ق مکی ہے، اس میں ۴۵ آیات اور ۴رکوع ہیں، یہ سورت اسلام کے بنیادی عقا د پرمشتمل ہے، اسے عام طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ اور عید جیسے بڑے اجتماعات میں پڑھا کرتے تھے۔ اس سورت کی ابتدا میں قرآن مجید کی قسم کھائی گئی ہے اور قسم کا جواب محذوف ہے لیکن کلام میں مذکور نہیں اور وہ ہے لیبعثن (انہیں مرنے کے بعد دو بار ضرور زندہ کیا جائے گا ) یہ سورت بتاتی ہے کہ مشرکین کو دوسری زندگی اور انہیں میں سے ایک انسان کے نبی بننے پر بڑا تعجب ہوتا تھا۔ (۲،۳)
حالانکہ محسوسات کی اس دنیا میں ایسے عجائبات اور مخلوقات کی کوئی کمی نہیں جن میں غور وفکر کر کے انسان اللہ کی بے پناہ قدرت کا ادراک کر سکتا ہے (۱۱،۶)
ان سے پہلے قوم نوح، قوم ثمود، قوم عاد، قوم لوط ، فرعون اور قوم شعیب بھی انہیں کی طرح تکذیب کا راستہ اختیار کر کے ہلاکت سے دو چار ہو چکے ہیں ۔ (۱۲۔۱۴)
یہ سورت انسان کو اس کی مسئولیت کا احساس دلاتی ہے کہ انسان کے دل میں جو وساوس اور خیالات گزرتے ہیں ان تک کا الله کوعلم ہے اور اس کے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اعمال و اقوال کی نگرانی کرتے ہیں، جب موت آئے گی تو وہ انسان کے اعمال نا مہ کو لپیٹ دیں گے اور پھر اسے میدان حشر میں اپنے اعمال کا حساب اور جواب دینا ہوگا ۔ (۱۶۔۳۷)
سورت کے اختتام پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کومشرکین کی بے ہودہ گوئی پر صبر کی تلقین اورصبح وشام کی تسبیح اور عبادت کی تلقین کی گئی ہے (۴۰،۳۹)
آخری آیت میں فرمایا گیا یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے اور تم ان پرزبردستی کرنے والے نہیں ہو، جو ہمارے عذاب کی وعید سے ڈرے اسے قرآن سے نصیحت کرتے رہو ۔‘‘ (۴۵)
 سورۃ الذاريات:
سورہ ذاریات مکی ہے، اس میں ۶۰ آیات اور ۳ رکوع ہیں، اس سورت کے آغاز میں چار قسم کی ہواؤں کی قسم کھا کر الله فرماتے ہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ سچ ہے اور انصاف کا دن ضرور واقع ہوگا۔(۱،۶)
پھر آسمان کی قسم کھا کر فرمایا کہ تم ایک متناقض بات میں پڑے ہوئے ہو۔
کل کے کافر ہوں یا آج کے کافر ہوں ، یہ سب کسی ایک بات پرمتفق نہیں ، قیامت کے بارے میں قرآن اور صاحب قرآن کے بارے میں ان کے اقوال بالکل مختلف ہیں ۔ پھر یہ سورت متقین کا اچھا انجام اور ان کی اعلیٰ صفات بھی بتاتی ہے کہ وہ نیک اعمال کرتے ہیں ، رات کوکم سوتے ہیں ، سحر کے وقت تو بہ اور استغفار کرتے ہیں ، ان کے اموال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں دونوں کا حق ہوتا ہے متقین کی صفات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عظمت وقدرت کے تین دلائل ذکر کیے گئے ہیں:
پہلی نشانی زمین ہے، ارشاد ہوتا ہے اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘ (۲۰)
زمین گول ہونے کے باوجود ایسے بجھا دی گئی ہے جیسے کوئی بچھونا بچھایا جاتا ہے، اس میں آنے جانے والوں کے لیے راستے ہیں، اس میں میدان بھی ہیں، پہاڑ بھی ،سمندر بھی ، دریابھی ، گنگناتے چشمے بھی ہیں اور لوہے، تا بنے ، سونا، چاندی ، کوئلہ اور پٹرول جیسی خاموش معدنیات بھی ،اس میں رب تعالیٰ نے وہ سب کچھ رکھ دیا ہے جس کی انسانوں کو زندگی گزارنے کے لیے ضرورت پیش آسکتی ہے۔
دوسری نشانی خود انسان ہے جو کہ حقیقت میں عجائب میں سے سب سے بڑا عجو بہ ہے، کروڑوں اور اربوں انسانوں میں سے ہر ایک کی صورت رنگ، چلنے کا انداز، لہجہ ، آ واز، طبیعت اور عقلی سطح مختلف ہے، اسے سننے، د یکھنے، بولنے ، سوچنے ،محسوس کرنے ، سانس لینے، ختم کرنے ، خون کی گردش ، رگوں کے پھیلاؤ اور اعصاب کا ایک بار یک اور محکم نظام دیا گیا ہے جس کے مقابلے جدید سے جدید ترین آٹو میٹک آلات کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے اس لیے فرمایا گیا ہے: اور خود تمہارے نفوس میں (بھی نشانیاں ہیں ) کیا تم دیکھتے نہیں‘‘ (۲۱)
حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص اپنی تخلیق کے بارے میں غور وفکر کرے گا وہ جان لے گا کہ اسے پیدا کیا گیا ہے اور اس کے جوڑ  اعضاء عبادت کے لیے نرم ہوجائیں گے۔
تیسری نشانی یوں بیان کی گئی ہے: اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے۔(۲۲)
انسان کی زندگی اور اسباب زندگی کی فراہمی کا بہت زیادہ انحصار آسمان پر ہے، بارش برستی ہے جس سے زمین پر بسنے اور اُگنے والی ہر چیز کو بشمول انسان زندگی حاصل ہوتی ہے۔ اگر سورج طلوع نہ ہو تو نہ کوئی کھیتی اُگے، نہ کوئی جانور دودھ دے، ثابت ہوا کہ انسانی زندگی بارش کے برسنے اور شمس و قمر کے ظہور پر موقوف ہے، موسموں کا ادل بدل بھی انہی سے تعلق رکھتا ہے جو کہ غلہ جات کا اگانے اور پکارنے میں خاص تاثیر رکھتا ہے۔
پارہ ۲۶ کی آکری آیات میں ان فرشتوں کا ذکر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس مہمانوں کی شکل میں آئے تھے اور آپ نے انھیں انسان سمجھتے ہوئے اپنی کریمانہ عادت کے مطابق بچھڑا ذبح کرکے کھانا تیار کرلیا تھا۔(۲۴،۲۷)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے