وہ جانثارِ علمِ شریعت نہیں رہا


وہ جانثارِ علمِ شریعت نہیں رہا

 حضرت مفتی سعید صاحب پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

الفاظ کی دنیا میں لکھنے، پڑھنے اور کہنے کے لیے تو یہ چند حروف سے مرکب ایک نام ہے؛ لیکن معانی کی دنیا میں "بحرِ علوم کا  ماہر شناور،  بیش قیمت ہیرہ ،نکات ومفاہیم سے پُر خزینہ صدف، تحقیق وتفہیم کا آفتابِ ضوفشاں" سے تشریح کیجیے تو شاید شخصیت کا ایک گونہ صحیح تعارف ہوسکے. 
لیکن اب یہ روشن آفتاب، غروب ہوگیا ، وہ دنیا سے اس طرح رخصت ہوا کہ متعلقین ومعتقدین کے اوسان گُم ہوگئے، کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس ناگہانی اور ناقابلِ یقین حادثے کی گزند اس طرح سہنی پڑے گی، زندگی بھر علومِ شریعت کا درس دینے والا انسان جاتے جاتے بھی درس دینا نہ بھولا، پر اس مرتبہ کسی کتاب کا بیانی درس نہ تھا، کوئی علمی اشکال بھی نہیں، اور نہ ہی کوئی فقہی مسئلہ  ، اس دفعہ درس تھا آخرت کا، دنیا کی حقیقت کا، وہ بھی عملی طور پر، کہ : 

یہ دنیا کھیل ہے اور کھیل بھی ہے چند لمحوں کا 
نظر جوکچھ بھی آتا ہے اسے خوابِ گراں سمجھو 

درس بھی عبرت سے بھرپور، نصیحتوں کا ایک جہان لیے ہوئے، زندگی بھر جس ذخیرہ حدیث کی زبان سے تشریح کی، آج اُسی ذخیرہ سے چُن کر ایک حدیث کی بے زبانی تشریح کی، حدیث کچھ یوں ہے : "إن الله لا يقبض العلم انتزاعًا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء" 
یقیناً آپ نے سمجھادیا کہ دنیا سے علم کیسے رخصت ہوتا ہے ؟ اور بہت خوب سمجھایا کہ عالِم کی موت صرف عالَم کی موت نہیں؛ بلکہ عِلم کی بھی موت ہے، اور علم کی موت تیرگی ہی ساتھ لاتی ہے، چنانچہ :
تابہ امکانِ نظر ہے تیرگی چھائی ہوئی 
تیرگی اور تیرگی بھی موت کی چھائی 
آپ اپنی ساری خصوصیات سمیٹے عالمِ ایں سے عالمِ آں کی سمت کوچ کرگئے، عالمِ فنا کو چھوڑ عالمِ دوام کو اپنا مسکن بنالیا، مسکراتے ہوئے ہنستی مسکراتی دنیا کے باسی بن گئے، کیونکہ دعائے نبوی "نضر الله إمرأ سمع مني مقالتي فحفظها ووعاها وأداها كما سمع" کے آپ بجا طور پر مستحق ہیں؛ پر یہاں  نہ جانے کتنے ایسے ہیں جو ماہئ بے آب کے مانند تڑپ رہے ہیں، رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں، یہاں فرزانوں کی ایک دنیا ہے جن کے ہاتھوں میں اب نہ شمع ہے، نہ اس کے ملنے کے آثار، ان کی زبانوں پر بار بار یہ سوال آتا ہے : 
کیا ہوا اے وقت! سناٹا ہے کیوں چھایا ہوا؟ 
زمزمہ کیوں رک گیا ہے، تابہ لب آیا ہوا؟ 
جبکہ آنکھوں کا حال اور سوال یہ ہے کہ :
حسرتِ نظارہ بن کرآنکھ وقفِ جوش ہے 
کس کی رخصت ہے یہ ہم سے،کون یوں روپوش ہے؟ 

اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ دنیا بھر میں پھیلے معتقدین ومستفیدین کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں تو صرف وہ طلبہ ہیں جنہوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اور اب وہ آپ سے سیکھے ہوئے نقوش کو رہنما بنائے ہوئے عملی میدان میں ہیں، انہوں نے زندگی کی نہ جانے کتنی الجھی ہوئی گتھیاں لمحوں میں اس طرح سلجھتے ہوئے دیکھا اور سنا جس کی کوئی نظیر نہیں،نہ جانے کتنے علمی اعتراضات واشکالات کا حل آپ کی زبان سے اس انداز میں سنا جیسے یہ ابتدائی درجات کے معمولی مسائل ہوں، آپ اُنہیں سادہ، سہل اور انتہائی پروقار زبان میں تفہیم کے وہ گُر سکھاگئے جو کسی اور در پہ نہیں ملتے..........اور آج یہ ساری چیزیں خواب بن گئیں نتیجتاً وہ بزبانِ حال وقال یوں شکوہ کناں ہیں :
رہنما بن کر حدِ منزل پہ لے جائے گا کون؟ 
بےکسانِ راہ بتلاؤ کہ کام آئے گا کون؟ 
اور 
ہم گمرہانِ شوق کسے دیکھنے چلیں؟ 
کس راستے میں نقشِ قدم دیکھنے چلیں؟ 

یہ سب ایک طرف اور دارالعلوم دیوبند کا درد وغم ایک طرف جہاں قدرت نے علم وفن کی وہ فضا میسر کی جس نے آپ کو زندہ جاوید بنادیا، دنیا کے کونے کونے میں آپ کا نام گونجا، دلنشیں آواز پہنچی،  دارالعلوم کے مسندِ حدیث کی حالتِ زار اس پر مستزاد، جس مسند پر بیٹھ کر "اصح الکتب بعد کتاب اللہ" کی وہ تشریح کی کہ آج وہ 12/ ضخیم جلدوں میں قارئین کے لیے ایک تحفہ کی شکل میں منظر عام پر ہے، اسی مسند پر بیٹھ کر ترمذی شریف کا وہ محدثانہ درس بھی دیا کہ 8/ جلدوں میں اس کی تقریر زیرکوں کی زیرکی میں اضافہ کررہی ہے، یہ تو خاص مسندِ حدیث کی بات تھی، اس کے علاہ تقریباً نصف صدی تک پورا دارالعلوم آپ کے علمی زمزموں سے ایسا گونجا ہے کہ سننے والوں کے کان حیرت میں ہیں، ان کا سوال ہے کہ :
زمزموں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے 
کیا وہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہے؟ 
یہ الگ بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں آپ اپنی اس طویل بے لوث خدمت کے متعلق برملا یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں : 
رنگیں ہے ہم سے قصہ مہرووفا کہ ہم 
اپنی وفا کا رنگ ترے رخ پہ مَل گئے 
آپ کی قلمی وتصنیفی خدمات ہوں یا تقریری وبیانی، ایسا نہیں کہ صرف دارالعلوم دیوبند یا ہندوستان تک ہی اس کے فیوض محدود ہوں؛ بلکہ قدرت نے سات سمندر پار تک کے افراد کو ان سے محظوظ کیا، احادیث کا درس  دیا، بیانات اور تقریریں  کیں، ملحدین کے جوابات دیے، انہیں قرآن وسنت کے حقیقی مقام سے آشنا کیا، ان کے سامنے اسلام کا صحیح اور سچا تعارف پیش کیا، فریضہ دعوت وتبلیغ سے  بھی کنارہ کش نہ ہوئے، 

تیرے لیے تھے مشرق ومغرب بچھے ہوئے 
اے نافہ بہار، دل وجاں لیے ہوئے 

قدرت نے علوم کا وافر حصہ، علوم کو پیش کرنے کا سلیقہ وانداز، اور استحضار وفطانت اتنی فیاضی کے ساتھ آپ کو عطا کئے تھے کہ جہاں تشریف لے گئے وہیں علم کے جلوے بکھیردیے، طبیعت کی ناسازی کے عالم میں دیا گیا آپ کی زندگی کا آخری بیان سوشل میڈیا پر خواب وائرل ہوا اور ہورہا ہے، آپ فرماتے ہیں " میرے ایک عزیز ہیں ایران میں مولانا حکمت اللہ سلمہ انہوں نے فون کیا کہ آج بیان نہ کیجیے گا، میں نے کہا :نہیں، بیان ہوگا، میرے ایک دوست ہیں کراچی میں، مولانا عبدالرؤوف صاحب، انہوں نے فون کیا کہ آج مختصر بیان کیجیے گا، میں نے کہا : ہاں! یہ ٹھیک ہے، بیان مختصر ہوگا" ذرا غور کیجیے کہ طبیعت سخت ناساز ہے، پھر بھی دوسروں کو فائدہ پہنچانے کا جذبہ صادق نہ صرف یہ کہ برقرار ہے؛ بلکہ پُر جوش بھی، یعنی : 
میں جہاں بیٹھا، وہیں میخانہ بنے 

لیکن ہائے افسوس کہ آج : 
وہ جانثارِ علم شریعت نہیں رہا 
وہ آشنائے جادہ حکمت نہیں رہا 

آپ نے اپنی زندگی میں لکھا اور بہت لکھا، پڑھا اور بہت پڑھا، محنت کی اور خوب کی، بھلا بتائیے! دارالعلوم کے زمانہ تعلیم میں عربی درجات کے ساتھ حفظِ قرآن مکمل کیا، وہ بھی صدر گیٹ کے چبوترے پر بیٹھ کر، اب اِسے قرآن پاک کے تئیں سچی محنت اور محبت نہیں تو اور کیا کہاجائے، اتنا ہی نہیں درسیات میں لگن، مطالعہ ومذاکرہ میں دلچسپی کا یہ عالم کہ دارالعلوم میں مسجد قدیم کے پاس رہائش ہے، اور دار جدید کی شکل دیکھے ہوئے کئی مہینہ کا عرصہ بیت جاتا ہے، جبکہ مسجد قدیم اور دار جدید کے مابین صرف نودرہ کی عمارت حائل ہے. 
لکھا اتنا کہ تعداد میں تو تقریباً 💯 کتابیں آپ کے قلمِ گہربار سے شائع ہوچکی ہیں، جن میں تفسیر قرآن، شرح بخاری، شرحِ ترمذی، شرح حجۃ اللہ البالغہ وہ کتابیں ہیں جو بلامبالغہ تنہا کمّاً وکیفاً سیکڑوں کتب کے قائم مقام ہیں، لکھنے پڑھنے کا یہ سلسلہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہا، آپ کا ایک جملہ جہاں اس حوالے سے آپ کی زندگی کا آئینہ دار ہے، وہیں طالبانِ علوم نبوت کے لیے نصیحت آمیز بھی، چنانچہ موقع بموقع آپ فرمایا کرتے تھے : 

*پڑھو... راتوں کو جاگ کر پڑھو....... نیند قربان کرو..... دیکھو میں رات کو نہیں سوتا اور طے کرلیا ہے کہ اب قبر میں ہی ٹانگ پھیلا کر سوؤں گا.* 

اللہ اکبر کبیرا. 
اگر آپ نے طلبہ کو یہ نصیحت کی، تو سب سے پہلےخود اس پر عمل کیا، واقعتاً آپ نے دنیا میں آرام نہ کیا، راتوں کی نیند قربان کردیا؛ لیکن اللہ کی ذات سے امید؛ بلکہ یقین کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلاشبہ آج آپ قبر ہی میں سکون کی نیند سورہے ہوں گے، (اللھم اجعل قبرہ روضۃ من ریاض الجنہ. آمین) 
گویا آپ کی پوری ذات تحریک وعمل سے عبارت تھی؛ لیکن آج نہ سراپا عمل شخصیت ہے، نہ تحریکی ذات : 
آئے گا کون راہ دکھانے کے واسطے 
سینے میں آرزو کو جگانے کے واسطے
اٹھے گا کون سوز بڑھانے کے واسطے 
اک شمعِ جاں گداز جلانے کے واسطے 

اللہ رب العزت ہم سب کو حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اس نصیحت پر کرنے والا اور آپ کے فیوض کو عام کرنے والا بنائے!  آمین یارب العالمین. 
Aabuaffan18@gmail.com
وصی اللہ قاسمی سدھارتھ نگری 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے