روزہ: اسلام کا چوتھا اہم ترین رکن

روزہ: اسلام کا چوتھا اہم ترین رکن


محمد اللہ خلیلی قاسمی

حدیث شریف کے مطابق اسلام کی پانچ بنیادی تعلیمات میں توحید، نماز اور زکاة کے بعد روزوں کا درجہ ہے ۔اسلام میں ہر مسلمان عاقل بالغ پر پورے ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں جو ہجری کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے۔ جو شخص بلاکسی عذر اورمجبوری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑدے تو وہ بہت ہی سخت گناہگار ہے، ایک حدیث میں ہے کہ:”جو شخص بلاکسی معذوری اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑدے، وہ اگر اس کے بدلہ ساری عمر بھی روزے رکھے، تو اس کا پورا حق ادا نہ ہوسکے گا۔ 
روزہ دن کے اوقات میں کھانے، پینے اور نفسانی شہوت کو پورا کرنے سے رکنے کا نام ہے۔روزہ میں نفس کو عبادت کی نیت سے روکا جاتا ہے اور اللہ کے واسطے اپنی خواہشوں اور لذتوں کو قربان کیا جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کا ثواب بھی سب سے نرالاہے کہ :”بندوں کے سارے نیک اعمال کی جزا کا ایک قانون مقرر ہے اور ہرعمل کا ثواب اسی مقررہ حساب سے دیا جائے گا۔ لیکن روزہ اس عام قانون سے مستثنیٰ ہے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بندہ روزے میں میرے لیے اپنا کھانا پینا اور اپنے نفس کی شہوت کو قربان کرتا ہے، اس لیے روزے کی جزا بندہ کو میں خود براہِ راست دوں گا“۔
روزوں کے خاص فوائد: روزہ کا خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے آدمی میں تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت پیدا ہوتی ہے اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی طاقت آتی ہے اور اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کی خواہش اور جی کی چاہت کو دبادنے کی عادت پڑتی ہے اور روح کی ترقی اور تربیت ہوتی ہے۔لیکن یہ سب باتیں جب حاصل ہوسکتی ہیں کہ روزہ رکھنے والا خود بھی ان کے حاصل کرنے کا ارادہ رکھے اور روزے میں ان تمام باتوں کا لحاظ رہے جن کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے، یعنی کھانے پینے کے علاوہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیز کرے، نہ جھوٹ بولے نہ غیبت کرے، نہ کسی سے لڑے جھگڑے۔ الغرض روزہ کے زمانہ میں تمام ظاہری اور باطنی گناہوں سے پوری طرح بچے، جیسا کہ حدیثوں میں اس کی تاکید کی گئی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو چاہیے کہ کوئی گندی اور بری بات اس کی زبان سے نہ نکلے اور وہ شور و شغف بھی نہ کرے اور اگر کوئی آدمی اس سے جھگڑا کرے اور اس کو گالیاں دے، تو اس سے بس یہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، (اس لیے تمہاری گالیوں کے جواب میں بھی گالی نہیں دے سکتا)“۔(بخاری)ایک اور حدیث میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو شخص روزے میں بھی غلط گوئی اور غلط کاری نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کے کھانا پانی چھوڑنے کی کوئی ضرورت اور کوئی پرواہ نہیں“۔ (بخاری)ایک اور حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کتنے ہی ایسے روزے دار ہوتے ہیں (جو روزے میں بری باتوں اور برے کاموں سے پرہیز نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے ان کے روزوں کاحاصل بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں)
غرض روزہ کے اثر سے روح میں پاکیزگی اور تقویٰ اور پرہیزگاری کی صفت اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی طاقت جب ہی پیدا ہوگی جب کہ کھانے پینے کی طرح دوسرے تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بھی پرہیز کیا جائے اور خاص کر جھوٹ، غیبت اور گالی گلوج وغیرہ سے زبان کی حفاظت کی جائے۔بہرحال اگر اس طرح کے مکمل روزے رکھے جائیں تو انشاء اللہ وہ سب فائدے حاصل ہوسکتے ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا اور ایسے روزے آدمی کو فرشتہ صفت بناسکتے ہیں۔
روزہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں کو دوسرے حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ جب جی چاہا کھالیا، جب جی میں آیا پی لیا اور جب نفسانی خواہش ہوئی اپنے جوڑے سے لذت حاصل کرلی، یہ صفت حیوانوں کی ہے اور کبھی نہ کھانا، کبھی نہ پینا اور جوڑے سے کبھی لذت حاصل نہ کرنا، یہ شان فرشتوں کی ہے۔ پس روزہ رکھ کر انسان دوسرے حیوانوں سے ممتاز ہوتا ہے اور فرشتوں سے ایک طرح کی مناسبت اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔
نیز روزہ رکھنے سے انسان بھوک کی شدت اور اور پیاسا رہنے کی کلفت کا احساس کرتا ہے ، گویا روزوں کے ذریعہ سے اس کو غریبوں اور پریشان حال لوگوں کی کیفیت کا اندازہ کرایا جاتا ہے تاکہ ان کے دل میں ان غریبوں کے تئیں احساس ہمدردی و اعانت پیدا ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے