خلاصة القرآن یعنی آج رات کی تراویح | چودہواں پارہ چودہویں تراویح

خلاصة  القرآن یعنی آج رات کی تراویح | چودہواں پارہ چودہویں تراویح | Lajnatulmuallifeen

پاره ١٤

سورة الحجر:
 سوره حجر مکی ہے اس میں ۹۹ آیات اور 6رکوع ہیں ، چونکہ وادی حجر کے رہنے والوں یعنی قوم ثمودکا ذکر ہے اس لیے اس کا نام سورة االحجر ہے،(80تا 84)
 وادی حجر مد ینہ اور شام کے درمیان واقع ہے، اس سورت کی صرف پہلی آیت تیرہویں پارہ میں ہے، باقی پوری سورت چودھویں پارہ میں ہے۔ اس سورت کا آغاز بھی حروف مقطعات سے ہوتا ہے اور اس کی پہلی آیت میں قرآن کریم کی تعریف اور توصیف ہے، اس سورت میں بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات ہے۔( اس سورت کے اہم مضامین درج ذیل ہیں)۔ 
(1) قیامت کے دن کفار جب عذاب کی شدت اور ہولناکی کا مشاہدہ کر یں گے تو وہ آرزو کریں گے کہ اے کاش! ہم مسلمان ہوتے لیکن ظاہر ہے کہ اس دن کا ایمان اور ایمان کی تمنا کسی کام نہیں آئے گی ۔ جبکہ آج ان کا حال یہ ہے کہ جب اللہ کا رسول ا نہیں ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ اسے مجنوں اور دیوانہ کہتے ہیں اور وہ ایمانی دعوت کے مقابلے میں انکار اور استہزاء کا وہی رویہ اختیار رکھے ہوئے ہیں جو گزشتہ نا فرمان قوموں نے اختیار کیا تھا۔
(2)قرآن کریم کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ خود باری تعالی نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے رکھا ہے۔ جبکہ دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے حاملین کو سونپی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ دوسری آسمانی کتابیں انسانی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکیں جب کہ قرآن کئی صدیاں گزرنے کے باوجود ہر طرح کے تغیر و تبدل اور کمی بیشی سے پاک اور محفوظ ہے۔ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے پہلوؤں میں سے ایک اہم پہلو اس کا محفوظ ہونا بھی ہے  اسے محفوظ رکھنے کے لیے اللہ تعالی نے اس کو حفظ کرنا آسان فرمادیا ہے، دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں قرآن کے حافظ نہ پائے جاتے ہوں ، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جو اپنی مادری زبان میں چند صفحے کا رسالہ یاد نہیں کر سکتے وہ اتنی بڑی کتاب اپنے سینے میں محفوظ کر لیتے ہیں ۔
(3) اس سورت کی متعدد آیات میں اللہ تعالی کی قدرت اور وحدانیت کے دلائل ذکر کیے گئےہیں   جو چیخ چیخ کر اپنے خالق کے وجود اور اس کی عظمت کی گواہی دے رہے ہیں ۔ یہ دلائل آسمانوں، زمینوں، چاند ستاروں، پہاڑوں اور میدانوں، سمندروں اور نہروں، درختوں اور پرندوں کی صورت میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں ، کہیں فرمایا گیا: ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اس کو سجا دیا ۔‘‘ (آیت 15/61)
دو ایتوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے اور زمین کو بھی ہم ہی نے پھیلا دیا اور اس پر پہاڑ رکھ دیئے اور اس میں ہر مناسب چیز اگائی ۔‘‘ (آیت 15/19)
کہیں فرمایا گیا:" ہم ہی پانی سے بھری ہوئی ہوائیں چلاتے ہیں اور ہم ہی آسمان سےبارش برساتے ہیں اور ہم ہی تم کو اس کا پانی پلاتے ہیں اور تم اس کا خزانہ نہیں رکھتے ۔ (آیت:15/22)
یہ ہوا ئیں ہزاروں ٹن پانی اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتی ہیں، پھر جہاں اللہ تعالی کا حکم ہوتا ہے اسے برسادیتی ہیں، یہ ہوائیں ہی ہیں جو درختوں کو بار آور کرتی ہیں یہ وہی کام سر انجام دیتی ہیں جو نر حیوان، مادہ کے لیے سرانجام دیتا ہے ان ہواوں میں نر اور مادہ کے اعضاء اور اثرات ہوتے ہیں جو کہ وہ ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف منتقل کرتی چلی جاتی ہیں۔
(4)توحید اور قدرت کے تکوینی دلائل ذکر کرنے کے بعد انسان کی تخلیق کی ابتداء کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو کہ اس دنیا کے پہلے انسان ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کی صورت میں سامنے آیا، آپ کی پیدائش یقینا ر بانی قدرت کے مظاہر میں سے ایک مظہر تھی، کیونکہ بے جان مٹی سے ایک شخصیت پیدا کر دینا جسے حرکت کرنے، اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، سوچنے سمجنے، عناصر کو مسخر کر نے اور امکانات کی دنیا میں آگے بڑھنے کی قدرت حاصل ہے۔ یقینا اللہ کے قادر اور حکیم ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ ایک فرد کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قصہ ہے، جس وقت اللہ تعالی نے آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، اس میں اپنی روح پھوکی ، فرشتوں کو ان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اپنی قدرت کے اسرار اور حکمت کے عجائبات ان پر کھولے تو ان تمام امور میں جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی تکریم تھی اسی طرح ان کی اولاد کی بھی تکر یم تھی ۔ فرشتوں کو جب سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو ابلیس کے سوا سب نے سجده کر دیا ۔ اہل علم کے نزدیک راجح اور صحیح قول یہ ہے کہ ابلیس فرشتہ نہیں بلکہ جن تھا۔ البتہ فرشتوں کے درمیان رہتا تھا، سجدہ سے انکار کی وجہ سے  آسمانوں سے نکال دیا گیا اور وہ ابدی لعنت کا مستحق ٹھرا - اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے انتقام لینے کے لیے قیامت کے دن تک زندگی کی مہلت مانگی اور یہ مہلت اسے دے دی گئی۔ یہ مہلت اس نے اولاد آدم کو گمراہ کرنے کے لیے مانگی تھی۔
اور اپنے اس مقصد کا  اظہاراس نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کر دیا تھا، اس نے کہا تھا: پروردگار! جیسے تو مجھے گمراہ کیا ہے میں لوگوں کے لیے گمراہی کو آراستہ کر دوں گا اور سب کو بتا دوں گا ۔ (آیت:15/39)
اسے کہہ دیا گیا تم سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لو، جو میرے بندے ہیں ان پر تمہارا کوئی داو نہیں چلے گا۔ البتہ جوابدی شقی اور فطرت کے خبیث ہیں وہ تمہاری اتباع کریں گے اور ان کے لیے میں نے جہنم تیار کر رکھی ہے جس کے سات دروازے ہیں اور ہر ایک دروازے کے لیے ان میں سے جماعتیں تقسیم کر دی گئی ہیں ۔‘(آیت 15/44)
چونکہ قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور دوزخ کے ساتھ جنت کا بھی تذکرہ کرتا ہے اس لیے شیطان کی اتباع کرنے والوں کے تذکرہ کے بعد ان سعادت مندوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو امن اور سلامتی کی جگہ یعنی جنت میں ہوں گے ، وہاں انہیں نہ تھکا وٹ ہوگی نہ کوئی تکلیف اور پریشانی، ان کے سینے ایک دوسرے کے بارے میں صاف ہوں گے۔
(5)جنت جیسی امن و سلامتی اور راحت و اطمینان کی جگہ کا ذکر کرنے کے بعد سورة حجر ، بندوں پر اللہ تعالی کے فضل و احسان اور رحمت کا ذکر کرتی ہے، بندہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو اسے  اللہ تعالی کی رحمت سے مایویں نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالی سارے گناہوں کو معاف کر سکتاہے اور اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے، ارشاد ہوتا ہے: اے پیغمبر!) میرے بندوں کو بتادیجئے کہ میں بڑا بخشنے والا اور مہربان ہوں اور یہ کہ میرا عذاب درد ناک ہے۔‘‘ (15/50،49)
یہ آیات خوف اور امید دونوں مقامات کی جامع ہیں، مومن کے دل میں اللہ تعالی کا خوف بھی ہونا چاہیے اور اس کی رحمت کی امید بھی ہونی چاہیے۔
(6)اللہ کی رحمت اور فضل و احسان کے بعد حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے مہمانوں کا تذکرہ ہے جو انسانی شکل میں نورانی فرشتے تھے اور آپ کو بیٹے کی خوشخبری سنانے کے لیے آئےتھے، کہا جاتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر کم و بیش ۱۲۰ سال تھی ، اہلیہ بھی بہت بوڑھی تھیں، بظاہر یہ ولادت کی عمر نہ تھی اس لیے آپ کو بیٹے کی خوشخبری سن کر خوشی بھی  ہوئی اور تعجب بھی ہوا۔ آپ نے فرشتوں کے سامنے تعجب کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا: ہم آپ کو سچی خوشخبری سنارہے ہیں پس آپ مایوس نہ ہوں ۔“ (آیت:15/55)
میرے سوال کرنے کا مقصد تو یہ معلوم کرنا ہے کہ یو نہی بڑھاپے میں ہمیں بیٹا دیا جائےگایا جوانی لوٹا کر یا کسی دوسری عورت سے شادی کرنے کے بعد
(7)فرشتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خوشخبری سنا کر حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ اپنے گھر والوں کو ساتھ لے کر رات ہی کو اس بستی
سے نکل جائیے کیونکہ آپ کی بستی والے گناہوں کی سرکشی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے ناپاک وجود سے زمین کو پاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ارشاد باری تعالی ہے: سوان کو سورج نکلتے نکلتے چنگھاڑ نے آ پکڑا اور ہم نے اس شہرکو الٹ کر نیچے کا اوپر کر دیا اور ان پر کنکر کی پتھریاں برسائیں ۔“ (آیت:15/75) 
(8)وادی حجر کے رہنے والے یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی قوم بھی ظلم اور زیادتی کی راہ پر چل نکلی تھی اور بار بار سمجھانے کے باوجود بت پرستی کو چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہورہی تھی، 
(9)انہیں مختلف معجزات بھی دکھائے گئے بالخصوص پہاڑی چٹان سے اونٹنی کی ولادت کا معجزہ ، جو کہ حقیقت میں کئی معجزوں کا مجموعہ تھا۔اونٹنی کا چٹان سے برآمد ہونا، نکلتے ہی اس کی ولادت کا قریب ہونا، اس کی جسامت کا غیر معمولی بڑا ہونا، اس سے بہت زیادہ دودھ کا حاصل ہونا۔ لیکن ان بد بختوں نے اس معجزہ کی کوئی قدر نہ کی، بجائے اس کے کہ وہ اسے دیکھ کر ایمان قبول کر لیتے انہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کر دیا چنانچہ وادی حجر والے بھی عذاب کی لپیٹ میں آ کرر ہے ۔ سورة حجر کے آخر میں نعمت قرآن کا ذکر ہے کہ جسے یہ نعمت حاصل ہو جائے اسے مال داروں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا چاہیے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ کی طرف جو حق نازل کیا گیا ہے اسے کھول کر بیان فرما دیجیئے گویا گزشتہ سورت کی طرح اس سورت کی ابتداء اور اختتام بھی قرآن پر ہوا ہے۔ 
سورة النحل:
 سورہ نحل مکی ہے، اس میں 128 آیات اور 16 رکوع ہیں نحل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ اس سورت میں شہد کی مکھی کا ذکر آیا ہے اس لیے اس کا نام سورہ نحل ہے۔(آیت :69/68)
 شہد کی مکھی بھی عام مکھیوں جیسی  جیسی ایک مکھی ہے لیکن وہ حکم الہی سے ایسے حیرت انگیز کام کرتی ہے جن کے کرنےسے انسانی عقل عاجز ہے۔ خواہ چھتہ بنانے کا عمل ہو یا آپس میں مختلف ذمہ داریوں کی تقسیم ، یا دور دراز واقع درختوں، باغات اور فصلوں سے قطرہ قطرہ شہد کا حصول ........... ان کا ہر عمل بڑا ہی عجیب ہوتا ہے، ان کے بنائے ہوئے چھتے میں بیس سے تیس  ہزارتک خانے ہوتے ہیں، یہ خانے مسدس ہوتے ہیں اور آج کے کسی جدید ترین آلہ سے اگر ان کی پیمائش کی جائے تو ان میں بال برابربھی فرق نہیں ہوگا ، پھر اس چھتے میں شہد جمع کرنے کا گودام، بچے جننے کے لیے میٹرنٹی ہوم  اور فضلہ کے لیے اسٹور سب الگ الگ ہوتے ہیں ، ہزاروں مکھیوں پرایک ملکہ حکمرانی کرتی ہے۔ اس چھوٹی سی مملکت میں اسی کا سکہ چلتا ہے اسی کے حکم سے ڈیوٹیوں کی تقسیم ہوتی ہے۔ چھتے پر کام کرنے والی مکھیوں میں سے بعض در بانی کے فرائض انجام دیتی ہیں، بعض انڈوں کی حفاظت کرتی ہیں ۔ بعض نابالغ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، بعض انجینرنگ اور چھتے کی تراش خراش اور تعمیرمیں لگی رہتی ہیں، جب کسی مکھی کو تلاش وجستجوکے دوران کسی جگہ پر شہد کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے تو وہ واپس آ کر ایک خاص قسم کے رقص کے ذریعے دوسری ساتھیوں کو منزل تک پہنچنے کے لیے راستے کی نشاندہی کرتی ہے ، یہ احتیاط ضرور کرتی ہے کہ جس پھول کو وہ نچوڑ چکی ہوتی ہے اس پر ایک خاص قسم کی نشانی چھوڑ آتی ہے تا کہ بعد میں آنے والی کارکن کا وقت ضائع نہ ہو اور اسے ``خجل خراب`` نہ ہونا پڑے، اگر کوئی مکھی غلطی سے گندگی پر بیٹھ جائے یا کوئی زہریلا موادلے آئے تو چینگ پر مامور عملہ اسے باہر ہی روک لیتا ہے اور اسے جرم کی سزا کے طور پر قتل کر دیا جاتا ہے،
کاش انسان مکھی ہی سے عبرت حاصل کرےاور خوراک یا دوا کے نام پر زہر کھلانے والوں کو عبرت کا نمونہ بنادے ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:”مکھی یہ سارے کام ہمارے حکم سے کرتی ہے ۔ اور فرمایا "  کہ بے شک سو چنے والوں کے لیے اس میں نشانی ہے ۔“ (آیت:16/69 )
اگر کوئی غیر متعصب انسان شہد کی مکھی کی زندگی پر ہی غور وفکر کر لے تو وہ اللہ کے وجود اور اس کی قدرت و حکمت کو تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
سورہ نحل  کو سورہ نعم، بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں کثرت کے ساتھ اللہ کی نعمتیں مذکور ہیں ۔ سورت کی ابتداء سے مطالعہ کیا جائے تو پہلے قرب قیامت کا ذکر ہے( آیت:16/1)
پھروحی کو ثابت کیا گیا ہے جس کا مشرک انکار کرتے ہیں (آیت:16/2)
پھر اللہ کی نعمتوں کے بیان کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ اس نے زمین کو فرش اور آسمان کی چھت بنایا، انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ، چوپائے پیدا کیے جن میں مختلف منافع بھی ہیں اور وہ اپنے مالک کے لیے فخر و جمال کا باعث بھی ہوتے ہیں، گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے جو بار برداری کے کام بھی آتے ہیں اور ان میں رونق اور زینت بھی ہوتی ہے۔ بارش و ہی برساتا ہے، پھر اس بارش سے زیتون ،کھجور ، انگور اور دوسرے بہت سارےمیوہ جات اور غلے وہی پیدا کرتا ہے، رات اور دن ، سورج اور چاند کو اسی نے انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے، دریاؤں سے تازہ گوشت  اور زیور وہی مہیا کرتا ہے، سمندر میں جہاز اور کشتیاں اسی کے حکم  سے رواں دواں ہیں ، یہ اور ان جیسی دوسری نعمتیں ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی بجا طور پر فرماتے ہیں:''اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے ہو، بے شک اللہ بخشنے والا انتہائی مہربان ہے ۔‘‘ (آیت:16/18)
جب انسان اللہ کی نعمتوں کو شمارنہیں کر سکتا تو ان کا شکر کیسے ادا کر سکتا ہے، انسانی جسم اور اسکے مختلف اجزاء بی کو لے لیجئے ،اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو زندگی کا مزہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے، انسان تمنا کرتا ہے کہ اگر دنیا کا سارا مال و متاع بھی خرچ کر کے یی خرابی دور ہو جائے تو سودا سستا ہے، اگر معدہ میں زخم ہو جائے یا پیشاب رک جائے یا سو ءہضم کا عارضہ مستقل طور پر لاحق ہو جائے تو نہ کھانے میں مزہ آتا ہے نہ پینے میں ، اگر گردہ یا جگر خراب ہو جائے یا شریانیں تنگ ہو جائیں ، یاخون کی پیدوار میں رکاوٹ ہو جائے تو ایسی تکلیف ہوتی ہے کہ انسان موت کی آرزو
کرنے لگتا ہے، غافل انسان کو کیا خبر کہ اس کے جسم کا نظام کیسے چلایا جارہا ہے، یہ اگر صرف داخلی او بدنی نعمتوں پر ہی ایک سرسری نظر ڈال لے تو  دنگ رہ جاتا ہے اور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ واقعی اس کی نعمتوں کو شمار نہیں کیا جا سکتا ، خارجی نعمتوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ جامع ترین آیت........... اس سورت میں وہ جامع ترین آیت ہے جس کے بارے میں حضرت عبد الله ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت خیر و شر کی سب سے زیادہ جامع ہے۔ یہ وہ آیت ہے جسے سن کر ولید بن مغیرہ دشمن اسلام بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو گیا تھا، اس کی جامعیت ہی کی وجہ سے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانے سے اسےہر خطیب خطبہ جمعہ میں پڑھتا ہے، یہ سورۂ نحل کی آیت نمبر۹۰ ہے۔ اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے ۔ عدل، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیا گیا ہے 
اس آیت میں تین باتوں سے منع کیا گیا ہے ،فحشاء،(یعنی ہر قبیح قول و عمل) منکر،( ہر وہ عمل جس سے شریعت نے منع کیا ہے ) اوربغی ( حد سے تجاوز کرناجیسے تکبر ظلم اور حسد وغیرہ) سے منع کیا گیا ہے۔ 
(1).......عدل کا حکم عام ہے، احکام اور معاملات میں بھی عدل ضروری ہے، فرائض اور واجبات میں بھی ، اولاد کے ساتھ بھی، دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ بھی ، اپنے پرائے کے ساتھ بھی اور بیویوں ، خادموں اور ملازموں کے ساتھ بھی۔
.(2)ہراچھاعمل احسان ہے احسان کا تعلق اللہ کے ساتھ بھی ہے، جماعت اور خاندان کے ساتھ یہاں تک کہ حیوانوں کے ساتھ بھی احسان کا حکم ہے۔ 
(3).. یوں تو ہر مستحق کی مدد کرنی چاہیے لیکن قرابت کے ساتھ تعاون کرنے کا دوہرا اجر ملتا ہے۔
(4)ہر ایسا عمل جس کی قباحت بالکل واضح ہو وہ فحشاء ہے جیسے زنا، لواطت ، شراب ، اورجوا وغیرہ
(5)منکر ، ایسے اعمال جو شریعت کی نظر میں قبیح  ہیں اور جن سے طبع سلیم نفرت کرتی ہے۔
(6)بغی یہ ہے کہ انسانوں کی عزت و حرمت اور ان کے اموال اور جانوں پر زیادتی کی جائے۔
سورت کے اختتام پر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ زندگی بھر توحید خالص پر جمےرہے، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ان کی ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف بلائیں ۔
  اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر کر یں ۔ سورت کی ابتدائی آیت ان لوگوں کے جواب میں نازل ہوئی تھی، جو آپ سے جلد عذاب کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایسے فضول مطالبوں سے آپ کی طبیعت کا مکدر ہونا یقینی تھا، جبکہ آخری آیت میں آپ کو صبر کرنے اور تنگدل نہ ہونے کی تلقین کی گئی ہے، لہذا ابتداء اور انتہاء میں مناسبت بالکل واضح ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے