خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: 30 پارہ 30 تراویح

خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: 30 پارہ 30 تراویح


خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح: 
پاره 30:
سورة النباء:
 سوره نبامکی ہے، اس میں 40آیات اور 2 رکوع ہیں ، اس سورت کا موضوع
بعث بعد الموت“ ہے، سورت کی ابتداء میں مشرکین کا وہ سوال مذکور ہے جو وہ انکار اور استہزاء کے طور پر قیامت کے بارے میں کرتے تھے فرمایا: یہ لوگ کس چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں، اس بڑی خبر کے متعلق جس کے بارے میں یہ اختلاف کررہے ہیں ۔‘‘ (1 ۔3)
کوئی اس کا اقرار کرتا ہے اور کوئی انکار کوئی تذبذب کا شکار ہے اور کوئی اس کا اثبات کرتا ہے حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے نباء العظیم ( بڑی خبر ) سے مراد قرآن عظیم کیا ہے، اس میں شک ہی کیا ہے کہ واقعی سب سے بڑی خبر اور سب سے بڑا کلام قرآن ہی ہے لیکن سورت کے عمومی مزاج کو دیکھتے ہوئے یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے کہ نباء العظیم“ سے مراد قیامت ہی ہے۔ اگلی آیات میں قدرت الہیہ کے دلائل اور قیامت کے مختلف مناظر اور جنت اور جہنم کا تذکرہ ہے، بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ جو زمین کو بچھونا ، پہاڑوں کو میخیں، انسانوں کو جوڑا جوڑا، نیند کو زریعہ سکون رات کو لباس، دن کو وقت معاش اور آسمان پر ساری دنیا کو روشن کرنے والا چراغ بناسکتا ہے (1۔16)
وہ دوبارہ زندگی بھی عطا کرسکتا ہے اور ایک ایسی عدالت بھی قائم کر سکتا ہے جس میں اولین اور آخرین کو جمع کیا جائے گا اور ان کے درمیان عدل کیا جائے گا (17) عدل اور حساب کے بعد کسی کا ٹھکانہ جنت ہوگا اور کسی کا جہنم ( 21۔37) اس سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ قیامت کا دن برحق ہے اس کے وقوع میں کوئی شک نہیں با و جو اللہ کے بے حد مہربان اور رحمن ہونے کے کسی کو اللہ کے سامنے تاب گویائی نہ ہوگی، اس دن ہرشخص کا اعمال نامہ اس کے سامنے کر دیا جائے گا اور اس کے بارے میں قطعی فیصلہ سنادیا جائے گا، اس فیصلہ کوسن کر کافر یہ تمنا  کرے گا اے کاش! میں مٹی ہوتا (39۔40)
مٹی ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میں پیدا ہی نہ ہوا ہوتا۔دوسرا یہ کہ میں تکبر نہ کرتا اورمٹی کی طرح مسکینی اور عاجزی اختیار کرتا۔ 
تیسرا مطلب یہ کہ میں انسان نہیں حیوان ہوتا اور مجھے بھی حیوانوں کی طرح دوبارہ زندہ کرنے کے بعد مٹی بنادیا جاتا، یوں میں دوزخ کے عذاب سے بچ جاتا۔
یہ تمنا وہ اس وقت کرے گا جب وہ دیکھے گا کہ ویسے تو انسانوں کی طرح حیوانوں کو بھی زنده کیا گیا۔ لیکن انہیں زندہ کرنے کے بعد اور ان کے باہمی معاملات طے کرنے کے بعد انہیں مٹی بن جانے کا حکم دے دیا گیا۔ 
سورة النازعات:-
 سوره نازعات مکی ہے، اس میں 46 آیات اور 2 رکوع ہیں، اس سورت میں بھی قیامت کے مختلف احوال اور اہوال ( ہولناکیوں ) کا بیان ہے، ابتدا میں اللہ نے مختلف کاموں پر مامور پانچ قسم کے فرشتوں کی قسم کھائی ہے لیکن جواب قسم ذکر نہیں فرمایا، سیاق کلام کو دیکھ کر جواب قسم سمجھ میں آتا ہے، وہ ہے ( تمہیں قیامت کے دن ضرور زندہ کیا جائے گا)
سوره نازعات بتاتی ہے کہ قیامت کو جھٹلانے والوں کا قیامت کے دن یہ حال ہوگا کہ ان کے دل دھڑک رہے ہوں گے، دہشت، ذلت اور ندامت کی وجہ سے ان کی نظر یں جھکی ہوں گی ، (8۔9)
لیکن آج دنیا میں وہ فرعون بنے بیٹھے ہیں اور اللہ کے نبی کی بات تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے لیکن شاید انہیں فرعون کا انجام معلوم نہیں( 15۔26)
یہ عقل سے کورے اور احمق یہ نہیں سوچتے کہ جواللہ مضبوط آسان بنا سکتا ہے شب و روز کا نظام مقر ر کر سکتا ہے، زمین کا فرش بچھا سکتا ہے، پہاڑوں کو میخیں گاڑ سکتا ہے کیا وہ انہیں دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا، (27۔33)
سورت کے اختتام پرمشرکین کا سوال مذکور ہے جو وہ وقوع قیامت کو محال سمجھ کر قیامت کے بارے میں کرتے تھے 'اور یہ سوال اس لیے کرتے تھے کہ وہ دنیا کی زندگی پر فریفتہ تھے اور ان کا خیال تھا کہ دنیا ہی کی زندگی ، حقیقی اور دائمی زندگی ہے لیکن جس روز یہ قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی وہ دنیا میں رہے۔ (46) 
سورة عبس:
 سورہ عبس مکی ہے، اس میں 46آیات ہیں ، یہاں سے آخر تک ہر سورت ایک رکوع پر ہی مشتمل ہے اس لیے رکوعات کی تعداد بار بار بتانے کی ضرورت نہیں ۔ اس سورت کی ابتدا میں نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا قصہ مذکور ہے جو طلب علم کے لیے ایسے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے جب کہ آپ چند سرداران قریش کو دعوت اسلام دینے میں مصروف تھے ، ایک اہم مصروفیت کے وقت ان کے آنے سے آپ کو طبعی طور پر ناگواری ہوئی اور آپ نے ان کی بات کا جواب دینے سے اعراض کیا، اس پر سورة عبس کی یہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ نے آپ کو تنبیہ فرمائی ۔ اس کے بعد جب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو ان کا استقبال کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے یہ ہیں وہ جن کی وجہ سے اللہ نے مجھے تنبیہ فرمائی تھی اور ان سے دریافت فرماتے کہ کوئی کام ہے تو بتاو آپ نے نابینا ہونے کے باوجود دو غزوات کے موقع پر انہیں مدینہ پر والی مقرر فرمایا، یہ واقعہ اس جیسے دوسرے واقعات جن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تنبیہ فرمائی گئی ہے، ان کا قرآن کریم میں مذکور ہونا اس کی صداقت و حقانیت کی دلیل ہے۔ اگر معاذاللہ! قرآن آپ کا خودتراشیدہ کلام ہوتا تو آپ ایسی  آیات اس میں ہر گز ذکرہ نہ فرماتے جن میں خود آپ سے باز پرس کی گئی ہے، حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد یہ سورت انسان کے ناشکرا ہونے کو بتاتی ہے جو اپنی اصل کو بھول کر اللہ کے سامنے سرکشی اختیار کرتا ہے (17۔20)
اگلی آیات میں رب تعالی کی قدرت اور وحدانیت کے تکوینی دلائل ہیں ( 24۔32)
اور اختتام پر قیامت کا وہ ہولناک منظر بیان کیا گیا ہے جب انسان خوفزدہ ہو کر قریب ترین رشتوں کو بھی بھول جائے گا ،نفسا نفسی کا عالم ہوگا کسی کو کسی کی فکر نہیں ہوگی ، ہر کسی کو اپنی ذات کا غم کھائے جار ہا ہو گا ، بہت سے چہروں پر کامیابی کی چمک ہوگی اور بے شمار پر ناکامی کی ذلت اور تاریکی چھائی ہوگی ۔ (33۔42)
 سورة التكوير :
سورۂ تکویر مکی ہے،اس میں 29 آیات ہیں ، اس سورت کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں جو کہ 14 آیات پر مشتمل ہے اس ہولناک کا ئناتی انقلاب کا ذکر ہے جس کے اثرات سے کائنات کی کوئی چیز بھی محفوظ نہیں رہے گی ، سب کچھ بدل جائے گا، یہ سورج اور ستارے، پہاڑ اور سمندر ریت کے گھر وندے ثابت ہوں گے اس دن ہرشخص کو پتہ چل جائے گا کہ وہ کتنے پانی میں ہے اور اپنے دامن میں کیا لے کر آیا ہے، گناہ یا نیکیاں یا گناہ ہی گناہ ،اللہ کی پناہ۔
دوسرے حصے میں جو کہ 15آیات پر مشتمل ہے، باری تعالی نے تین قسمیں کھا کر قرآن کی حقانیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و صداقت کو بیان فرمایا ہے اور ان دیوانوں کو بڑی محبت سے سمجھایا ہے جو اللہ کے نبی کو معاذ الله دیوانه قرار دیتے تھے ، فرمایا کیا تمہارے ساتھی دیوانہ نہیں ہے وہ تو بندوں تک اللہ کا کلام پہنچانے والا سچا نبی ہے۔ اعراف (184) اور سورة سبا (46) میں بھی یہی بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ تم غور وفکر کرو گے تمہارے ضمیر کا ہی فیصلہ ہو گا کہ تمہارے سامنے شب وروز گزارنے والا یہ عظیم انسان دیوانہ  نہیں  بلکہ یہ دیوانوں کو فرزانگی سکھانے کے لیے آیا ہے اور قرآن کے بارے میں فرمایا کہ یہ شیطان مردود کا کلام نہیں ہے یہ تو ابل جہاں کے لیے نصیحت ہے مگر اس کے لیے جو سیدھی راہ پر چلنا چا ہے اور تم نہیں چاہ سکتے جب
تک کہ رب العالمین نہ چاہے۔
 سورة الانفطار :
سورة الانفطار مکی ہے، اس میں 19 آیات ہیں، اس سورت میں پہلے تو ان تبدیلیوں کا ذکر ہے جو وقوع قیامت کے وقت نظام کائنات میں رونما ہوں گی (1۔5)
پھر محبت آمیز انداز میں انسان سے شکوہ کیا گیا ہے کہ اے انسان! تجھے آخر کس چیز نے اپنے پروردگار کے بارے میں دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ کہ اس کے احسانات کو بھلا کر تو معصیت اور ناشکرا پن پر اتر آیا ہے، اصل بات یہ ہے کہ تمہیں جزا کے دن کا یقین نہیں ہے۔ حالانکہ وہ تو آ کر رہے گا اور کرام کاتبین تمہاری زندگی کا کچا چٹھا تمہارے
سامنے پیش کر دیں گے پھر تمہیں ابرار اور فجار دو گروہوں میں تقسیم کردیا جائے گا، ابرار نعمتوں کی جگہ یعنی جنت میں جائیں گے اور فجار عذاب کی جگہ یعنی دوزخ ہوں گے۔ (6۔26) | 
سورة المطففين :
مطففین مکی ہے، اس میں 36آیات ہیں ، اس سورت میں بھی بنیادی عقائد سے بحث کی گئی ہے، یوم القیامةکے احوال اور اہوال اس میں خاص طور پر مذکور ہیں لیکن اس کی ابتدائی آیات میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو تطفيف، جیسی اخلاقی کمزوری میں مبتلا ہیں (1۔6)
تطفين‘ کا معنی ہے ناپ تول میں کمی کرنا ، ارشاد ہوتا ہے
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔بعض حضرات نے تطفیف کا دائرہ وسیع کردیا ہے، امام قشیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تطفيف وزن اور کیل میں بھی ہوتی ہے۔ عیب کے ظاہر کرنے اور چھپانے میں بھی ، انصاف کے لینے اور دینے میں بھی ، جو شخص اپنے لیے تو پورا پورا انصاف چاہتا ہے مگر دوسروں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا وہ الله تعالی کی نظر میں ’مطفف‘‘ ہے۔ یونہی جو اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہیں کرتا جو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اسی طرح جو شخص لوگوں کے عیب دیکھتا ہے مگر اپنے عیب نہیں دیکھتا۔ اسی طرح جو لوگوں سے اپنے حقوق مانگتا ہے لیکن ان کے حقوق ادا نہیں کرتا، تویہ سب لوگ اس وعید کے مستحق ہیں جو وعید یہاں مطففین کے لیے بڑی سخت وعید ہے تو تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے کہ تم لوگوں کے اموال بالا ناپ تول کے ہتھیا لیتے ہو مطففین کی مذمت کے بعدان سیاه دلوں اور بد کاروں کا انجام بتایا ہے جو اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے ہیں (7۔17)
پر ان کے مقابلے میں ان صلحاء اور ابرار کا تذکرہ ہے جنہیں آخرت میں دائمی نعمتیں میسر آئیں کی (22۔28)
سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ یہ سیاہ دل، دنیا میں اللہ کے نیک بندوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے لیکن قیامت کے دن معاملہ الٹ ہوجائے گا اور نیک لوگ ان بد کاروں کا مذاق اڑائیں گے (29۔36) 
سورة الانشقاق:
 سوره انشقاق مکی ہے، اس میں 25 آیات ہیں، یہ سورتیں ہیں یعنی مطففین ، انفطار، انشقاق اور تکویر ان چاروں صورتوں میں قیامت کے احوال مختلف انداز میں بیان کیے گئے ہیں ۔ سورۃ انشقاق کی ابتدائی آیات میں ان کا ئناتی تبدیلیوں کا ذکر ہے جو قیام قیامت کے وقت رونما ہوں گے (1۔5)
پھر جب قیامت قائم ہوجائے گی تو حساب کے مرحلے سے گزر کر انسان دو فریقوں میں تقسیم ہو جائیں گے بعض وہ ہوں گے جن کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور بعض کا اعمال نامہ پیٹھ کے پیچھے سے دیا جائے گا۔ (6۔15)
اگلی آیات میں تین قسمیں کھا کر فرمایا گیا یقینا تم ایک حالت سے دوسری حالت پر پہنچو گئے یعنی قیامت کے دن تمہیں مختلف مصائب اور مر حلہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور ہرا گلا مرحلہ پہلے مرحلہ سے شدید تر ہوگا (16۔19)
البتہ وہ لوگ ان مصائب اورمختلف عذابوں سے محفوظ رہیں گے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ۔ (25) سورة البروج:
. سوره بروج مکی ہے، اس مین21 آیات ہیں، اس سورت کی ابتدا میں اللہ نے تین قسمیں کھا کر فرمایا کہ " خندقوں والے ہلاک کیے گئےصحیح مسلم میں ’’ خندقوں والے‘‘ قصہ کی نسبت حمیر کے بادشاہوں میں سے آخری بادشاہ زونو اس یہودی کی طرف کی گئی ہے جومشرک تھا اور اس نے ایسے بیس ہزار افراد کو خندقوں میں ڈال کر زندہ جلا دیا تھا جو عیسائی بن گئے تھے اور انہوں نے خدا پرستی چھوڑ کر بت پرستی کرنے سےانکار کر دیا تھا، اسی طرح صحیح مسلم وغیرہ میں ساحر ، راہب اور غلام کا قصہ بھی منقول ہے، جب ایک نوجوان لڑکے کی استقامت دیکھ کر ہزاروں لوگوں نے ایمان قبول کرلیا اور بادشاہ وقت کی دھمکیوں کے با وجود وہ ایمان سے باز نہ آئے تو ان سب کو خندقوں میں دہکتی ہوئی آگ کے حوالے کر دیا گیا ۔ (1۔9)
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے کئی واقعات کا پتہ چلتا ہے جب مذہبی اور نظریاتی اختلافات کی بناپر مخالفین نے ایک دوسرے کو زندہ جلا دیا، آج کی دنیا جیسےاپنے مہذب ، ماڈرن اور ترقی یافتہ ہونے پر بڑا ناز ہے، ڈیزی کٹر اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بم مسلمانوں پر استعمال کر رہی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پوری پوری بستی اور شہر کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں ۔ ہیروشیما اور ناگا ساکی میں جو کچھ ہوا کیا یہ آگ کی خندوقوں سے کم تھا؟ ہمارے سامنے افغانستان اور عراق میں جو آگ جلائی گئی کیا یہ آگ زونو اس کی آگ سے کم درجہ کی تھی؟ نہیں اس کی آگ سے کئی گناہ زیادہ مہلک اور خطرناک آگ تھی جس کا نشانہ کلمہ پڑھنے والے نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں، مردوں اور عورتوں کو بنایا گیا فلسطین میں کیا ہورہا ہے؟ آگ ہی تو ہے جو مسلمانوں پر برسائی جارہی ہے اور پورے پچاس سال سے مسلسل برسائی جارہی ہے، عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ کیسے بیس ہزرافراد زندہ جلا دیا گیا۔
ایسے لوگوں کو وعید سنائی گئی ہے جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا پھر توبہ نہ کی تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے۔“ (10)
سورت کے اختتام پر اللہ کی عظمت اور انتقام کی قدرت کا بیان ہے، اس کی پکڑ بڑی سخت ہے وہ جب کسی کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے تو اسے کوئی نہیں چھڑا سکتا۔ فرعون کا انجام اس دعوہ کی دلیل اور اس پر گواہ ہے ۔ (12۔22) 
سورة الطارق :
سورة طارق مکی ہے، اس میں سے 17 آیات ہیں ، اس سورت کی ابتدائی آیات میں اللہ نے آسمان کی اور رات کو چمکنے والے ستارے کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ ہر انسان پر اللہ کی طرف سے نگہبان فرشته مقرر ہے۔ حافظ کا معنی نگران بھی ہے اور محافظ بھی، یہاں دونوں معنی کیے جا سکتے ہیں، ہر انسان کے ساتھ ایسے فرشتے لگے ہوئے ہیں جو اس کے اعمال کی نگرانی کرتے ہیں اور جب تک اللہ تعالی چاہے اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں ۔ (1۔4)
اگلی آیات میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب انسان عدالت الہیہ کے رو برو کھڑا ہوگا تو اس کے پوشیدہ راز ظاہر کر دیئے جائیں گے (1۔9) سورت کے اختتام پرقرآن کی صداقت اور اس کے قول فیصل ہونے پر قسم کھائی گئی ہے اور کفار کو وعید سنائی گئی ہے۔ (11۔17) سورة الاعلی:
سوره اعلی مکی ہے، اس میں 19آیات ہیں، اس سورت میں تین اہم مضامین بیان ہوئے ہیں۔
(1)ابتدائی آیات میں اللہ کی ذات و صفات کے اعتبار سے اس کی تسبیح و تقدیس میں بیان کرنے کا حکم دیا گیا ، اس نے انسان کو پیدا کیا، اسے پرکشش صورت سے نوازا اور سعادت و ایمان کا راستہ دکھایا (1۔3)
(1)سورت قرآن کریم کا ذکر کرتی ہے اور اس کے حفظ کے آسان ہونے کی بشارت سناتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیتی ہے کہ آپ نفوس کی اصلاح اور اخلاق کی درستگی کے لیے قرآن کے زریعہ نصیحت کیجئے، جس کے دل میں خوف خدا ہوگا وہ ضرور نصیحت قبول کر لیں ۔ گے۔ (6۔1)
 (3)سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے نفس کو گناہوں کی آلائش سے پاک کر لے گا ، اسے اچھے جذبات و خیالات سے سنوار لے گا، اپنے دل میں اللہ کی عظمت اور جلال | پیدا کر لے گا اور دنیا کو آخرت پر تر جیح نہیں دے گا وہ کامیاب ہو گا ، یہ وہ اصول ہے جو تمام صحیفوں اور شریعتوں میں بیان ہو چکا ہے۔ (14۔19) 
سورة الغاشیه:
 سوره غاشیہ مکی ہے، اس میں 26 آیات ہیں، قیامت کے ناموں میں سے ایک نام غاشیہ بھی ہے یعنی چھپا لینے والی ، قیامت کو غاشیہ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی ہولناکیاں ساری مخلوق کو ڈھانپ لیں گی ، یہ سورت بتاتی ہے کہ قیامت کے دن کچھ چہرے ذلیل ہوں گے ، انہوں نے بڑی محنت کی ہوگی جس کی وجہ سے تھکے تھکے محسوس ہوں گے۔ علماء کہتے ہیں اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں بڑی عبادت وریاضت کی ہوگی لیکن چونکہ ان کے عقائد صحیح نہیں تھے اس لیے یہ عبادت ان کے کسی کام نہیں آئے گی ، یہ چہرے دہکتی ہوئی آگ کا ایندھن بنیں گے اور بعض چہرے تروتازہ اور پر رونق ہوں گے ، یہ وہ چہرے ہوں گے جنہوں نے دنیا میں صحیح رخ پر محنت کی ہوگی اور ان کے عقائد میں بھی باطل کی آمیزش نہیں ہوگی ، ان کا مسکن بلند و بالا جنتیں ہوں گی۔
دوسرا اہم مضمون جو اس سورت میں بیان ہوا ہے وہ رب العالمین کی وحدانیت کے تکوینی دلائل ہیں ، ان میں سے اونٹ ہے جسے صحرائی جہاز بھی کہا جا تا ہے ،طویل قد و قامت کے باوجودایک بچہ بھی اس کی نکیل پکڑ کر جہاں چاہے لے جاتا ہے۔ اس کا صبر کا یہ حال ہے کہ دس دس دن تک پیاس برداشت کر لیتا ہے، اس کی غذا بہت سادہ ہوتی ہے ایسی جھاڑیوں سے پیٹ بھر لیتا ہے جنہیں کوئی بھی چو پایہ کھانا گوارا نہیں کرتا۔ ان دلائل میں بلند و بالا آسمان بھی ہے جو کی ستون کے بغیر کھڑا ہے، زمین ہے جسے یوں بچھایا گیا ہے کہ اس پر چلنا بھی آسان اور کھیتی باڑی بھی آسان ۔ پہاڑ ہیں جو زمین کو زلزلوں کی زد میں آنے سے بچاتے ہیں ۔ منکر ین تو حید کو ان دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے بعد اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ آپ کے زمہ صرف نصیحت کر دینا ہے، آپ اپنی ذمہ داری ادا کر دیجیے پھر ان کا معاملہ اور حساب ہم پر چھوڑ دیجیے۔
سورة الفجر :
سوره فجر مکی ہے، اس میں 30آیات ہیں، اس سورت کی ابتدا میں اس پر چار
قسمیں کھائی گئیں ہیں کہ کفار پر الله کا عذاب واقع ہوکر رہے گا ، اس کے بعد سوره فجر میں تین مضامین نمایاں طور پر مذکور ہوتے ہیں۔
(1)قوم عاد ثمود اور فرعون جیسے متکبروں اور فسادیوں کے قصے اجمالی طور پر ذکر کیے گئے ہیں جو اپنی سرکشی ار جرائم کی وجہ سے اللہ کے عذاب کے مستحق ٹہرے (6۔-14)
اللہ کی سنت اور دستور یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی میں انسان کو خیر وشر فقروغنی اور صحت و بیماری جیسی آزمائشوں میں مبتلا کرتا ہے۔ انسان کی طبیعت ایسی ہے کہ وہ اپنے رب کے فضل و احسان کا شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتا وہ مال کی محبت میں بڑا حریص ہے، اس کا پیٹ بھرتا ہی نہیں ۔ (15۔20)
(3)قیامت کے دن جوزلزلے اور ہولناک حالات پیش آئیں گے ان کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انسان دوقسموں میں تقسیم ہو جا ئیں گے شقی لوگ اللہ کے غضب کے حقدار ہوں گے اورنفس مومن، جسے نفس مطمئنہ کہا گیا ہے اسے اپنے رب کی طرف لوٹنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے کہا جائے گا۔ (21۔30)
 سورة البلد:
سوره بلد مکی ہے، اس میں 20 آیات ہیں، اس سورت کا موضوع انسان کی سعادت اور شقاوت ہے ، سورت کی ابتدا میں اللہ نے تین قسمیں کھا کر فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو بڑی مشقت میں پیدا کیا ہے یعنی اس کی زندگی محنت و مشقت اور جفا کشی سے عبارت ہے، کبھی فقر و فاقہ کبھی بیماری اور دکھ کبھی حوادث اور آلام، پھر برھاپا اور موت ، قبر کی تاریکی اور منکر نکیر کے سوالات، قیامت اور اس کی ہولناکیاں غرضیکہ ابتدا سے انتہا تک مشقت ہی مشقت!(1۔4)
اس کے بعد ان کفار کا تذکرہ ہے جنہیں اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا ، و ہ فخر ریا کی نیت سےاموال خرچ کرتے تھے، ایسے لوگوں کو آنکھوں ، ہونٹوں ، زبان اور ہدایت جیسی نعمتیں یاد دلا کی گئی ہیں (5۔10)
پھر قیامت کے شدائد و مصائب کا تذکرہ ہے جن سے ایمان اورعمل صالح کے علاوہ کوئی چیزچھٹکارہ نہیں دے سکتی ، سورت کے اختتام پر انسانوں کو اونچی گھاٹی‘‘ پر چڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اونچی گھاٹی سے مراد وہ اعمال ہیں جونفس پرشاق گزرتے ہیں یعنی انسانوں کی گردنیں چھڑانا غلامی سے ، قید و بند سے اور جہنم کی آگ سے یونہی یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانا، اس
کے ساتھ چند اور صفات کا ہونا بھی ضروری ہے ۔ یعنی ایمان بالله ، ایک دوسرے کو صبر کی اور آپس میں رحم کرنے کی وصیت ۔
 سورة الشمس:
. سوره شمس  مکی ہے، اس میں 15 آیات ہیں ، اس سورت کا اصل مقصود نیکیوں
کی ترغیب اور معاصی سے بچاؤ اور تحذیر ہے۔ اس سورت کی ابتدا میں تکوینی مخلوقات میں سے سات ایسی چیزوں کی قسم کھائی ہے جو سب کی سب اللہ کی قدرت اور وحدانیت کے آثار ہیں ، یعنی سورج، چاند، دن، رات، آسمان، زمین اور نفس انسانی، ان چیزوں کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ اگر انسان اپنے رب سے ڈرے اور اپنے نفس کا تزکیہ کر لے تو وہ کامیاب ہوا جاتا ہے اور اگر اس کی | ترغیب سے غفلت اختیار کرے اور اس کو گندگی میں پڑا رہنے دے تو نا کام ہو جاتا ہے۔ (1۔10)
اللہ نے انسان کے اندر نیکی اور بدی دونوں کی صلاحیت رکھی ہے، اب یہ انسان پرمنحصر ہے کہ وہ کون سی صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے، اس تفصیل کے بعد یہ سورت ہمارے سامنے مثال اور نمونہ کے طور پر قوم ثمود کا قصہ بیان کرتی ہے جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہ کیا بلکہ اسے معاصی کا عادی بنادیا جس کی وجہ سے وہ ہلاکت کی مستحق ہو گئے۔
 سورة الیل:
سورہ لیل مکی ہے، اس میں 21 آیات ہیں ، اس سورت کا موضوع انسانوں کے مختلف قسم کے اعمال اور جد و جہد ہے جب اعمال اور جہد وسعی کارخ مختلف ہو تو اس کے نتائج  بھی مختلف بر آمد ہوتے ہیں، اس کی ابتدائی آیات میں تین قسمیں کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اے انسانو! تمہاری سعی مختلف ہے کوئی متقی ہے اور کوئی شقی ہے، کوئی مومن ہے اور کوئی کافر کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور کوئی بخل کرتا ہے، کوئی اللہ سے ڈرنے والا ہے اور کسی نے بے نیازی اختیار کررکھی ہے، کوئی بھلائی کی بات کی تصدیق کرتا ہے اور کوئی تکذیب کرتا ہے، انسانوں میں سے جو کوئی اپنے لیے جس قسم کی راہ کا انتخاب کرتا ہے، ہم اس راہ پر چلنا اس کے لیے آسان کر دیتے ہیں ۔(1۔10)سورت کے اختتام پر بتایا گیا کہ اہل ایمان کو رب تعالی دوزخ کے عذاب سے بچالے گا اور اس کے لیے ایک مومن صالح کا قصہ بیان کیا ہے جو اپنامال صرف رضاء الہی کی خاطر خرچ کرتا تھا۔ تمام تفاسیر میں ہے کہ یہ آیات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی
تھیں جن کا مال جہاد کی تیاری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور ایسے غلاموں کو خرید کر آزاد کرنے میں خرچ ہوتا تھا جو قبول اسلام کی وجہ سے ظلم و ستم کا نشانہ بنے ہوئے تھے

۔ سورة الضحی:---------------
 سوره ضحی مکی ہے، اس میں 11آیات ہیں، اس سورت کا موضوع نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے اور اس میں چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔
(1)-----------حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ نے قسم کھا کر فرمایا کہ اللہ نے نہ تو آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے ناراض ہوا ہے۔ (1۔3)
آپ کے مخالفین اگر حسد اور دشمنی کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں تو قطعا جھوٹ بولتے
(2)-----------آپ کو دو عظیم بشارتیں سنائی گئی ہیں پہلی یہ کہ آپ کا مستقبل ، حال موجود سے بہتر ہو گا یا یہ کہ آپ کی آخرت ، دنیا سے بہتر ہوگی اور یہ کہ اللہ آپ کو دنیا اور آخرت میں اتنا عطا کرے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔
(3)----------پھر اللہ نے اپنے تین احسانات یاد دلائے ہیں ، آپ یتیم تھے ہم نے آپ کو ٹھکانہ دیا، آپ دین سے بے خبر تھے ہم نے آپ کو اس کا راستہ دکھایا ، آپ تنگدست تھے ہم نے آپ کو غنی دیا۔ (6۔8)
(4)-------؛----ان تین نعمتوں کے مقابلے میں آپ کو تین وصیتوں کی صورت میں ، گو یا شکر کی تلقین کی گئی ہے یعنی یتیم پرسختی نہ کیجئے ، سائل کو جھڑ کے نہیں اور رب کی نعمتوں کا تذکرہ کیا کریں ۔ (9۔11)
 سورة الانشراح :-------------
سوره انشراح مکی ہے، اس میں 8آیات ہیں، اس سورت میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت، آپ کی عظمت اور مقام کا بیان ہے۔ اس سورت میں چار مضمون بیان ہوئے ہیں ۔
(1)----------- حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کے تین احسانات:
.. شرح صدر یعنی اللہ نے آپ کے دل کو حکمت ونور سے بھر دیا اور ہر قسم کے گناہوں او گندگی سے پاک کر دیا۔ . آپ سے اس بوجھ کو ہٹا دیا جس نے آپ کی کمر کو بوجھل کر رکھا تھا یعنی نبوت اور رسالت کابوجھ اور اس کے واجبات اور ذمہ داریوں کی ادائیگی ۔ •
 آپ کے ذکر کو بلند کر دیا کہ جہاں جہاں اللہ کا ذکر وہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر، چاہے اذان ہو یا اقامت تشہد ہو یا خطبہ (4۔1)
(2)----------اللہ نے مشکلات کو آسان کرنے اور پریشانیوں کو دور کرنے کا وعدہ فرمایا۔ (6۔5)
(3)---------------آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا تبلیغ و دعوت کی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد الله کا شکر ادا کرنے کے لیے اس کی عبادت میں لگ جائیں اور اس میں اپنے آپ کو تھکا دیں۔
(4)............ سب کچھ کرنے کے بعد اللہ پر توکل کریں اور تمام معاملات میں اسی کی طرف رغبت
سورة طین :-----------
 سوره طین مکی ہے، اس میں8 آیات ہیں، اس میں تین امور بیان ہوئے ہیں جن کا انسان سے اور اس کے عقیدے سے تعلق ہے۔
(1)نوع انسانی کی تکریم، اس کی تکریم کے مختلف پہلو ہیں، یہاں ان میں سے ایک پہلو کا بیان ہے، وہ یہ کہ انسان کو بہت خوبصورت پیدا کیا گیا ہے، یہ خوبصورتی جسمانی اور ظاہری شکل کے اعتبار سے بھی ہے اورعقلی و روحانی کمالات کے اعتبار سے بھی۔
(2)-----------جب انسان انسانیت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور ناشکرا پن کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسے نیچوں سے بھی نیچے گرا دیا جاتا ہے، حیوانی اور شہوانی زندگی کو اپنا مقصد بنا کر وہ حیوانوں سے بھی زیادہ پستی میں جا گرتا ہے ۔ البتہ ایمان وعمل صالح والے اس پستی سے بچے رہتے ہیں۔
(3)....... وہ اللہ جو پانی کے ایک قطرے سے ایسا خوبصورت انسان پیدا کر سکتا ہے وہ انسان کو دو بار بھی پیدا کر سکتا ہے، ویسے بھی دوبارہ پیدا کرنا اور حساب و جز اس کے حاکم اور عادل ہونے کا تقاضا ہے۔
 سورة العلق:----------
 سورہ علق مکی ہے، اس میں 19آیات ہیں، اہل علم کہتے ہیں کہ سورہ علق سے لے کر آخر تک جو چھوٹی چھوٹی سورتیں آتی ہیں ان میں قرآنی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سورت کی پہلی آیات سے پہلے نازل ہوئی تھیں، اس سورت میں تین اہم مضامین بیان ہوئے ہیں
(1)----------انسان کی تخلیق میں اللہ کی حکمت، اس نے قرأت اور کتابت کے ذریعے سے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔ (5۔1)
 (2) مال و دولت کی وجہ سے اللہ کے حکموں کے سامنے سرکشی ، اس کی نعمتوں کا انکار اورغفلت - (8۔6)
انسان کے غرور اور سرکشی کی ایک اہم وجہ مال و دولت بھی ہے، جب پیٹ اور خزانہ بھرا ہوا ہو تو وہ نہ انسان کو انسان سمجھتا ہے اور نہ خدا کو معبود اور مسجود!
(3)------------------اس امت کے فرعون ابوجہل کا قصہ جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرا تا دھمکاتا تھا اور اللہ کی عبادت سے روکتا تھا۔ (19۔9)
 سورة القدر:-----------------
 سوره قدر مکی ہے، اس میں 5 آیات ہیں ، اس سورت کی ابتدا میں انسانوں پر اللہ کے عظیم احسان کا ذکر ہے جو کہ کتاب مبین کو نازل کرنے کی صورت میں ہوا، اسی طرح اس سورت میں لیله القدر کی فضیلت بیان ہوئی ہے، اس میں پہلی فضیلت یہ ہے کہ اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر ہے۔ دوسری فضیلت یہ ہے کہ اس رات میں غروب آفتاب سے لیکر طلوع فجر تک فرشتے امن و سلامتی اور رحمت و برکت کا پیغام لے کر نازل ہوتے ہیں
واضح رہے کہ لیله القدر میں نزول قرآن کا معنی یہ ہے کہ اس رات میں اس کے نزول کی ابتدا ہوئی۔
سورة البينہ :---------------سوره بینہ مدنی ہے، اس میں8 آیات ہیں، اس سورت میں تین امور سے بحث کی گئی ۔
(1))۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. اہل کتاب کا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بارے میں موقف ، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا انتظار کررہے تھے لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ آخری نبی بنی اسرائیل میں سے ہوگا۔ لیکن جب ایسا نہ ہوا تو انہوں نے آپ کی نبوت کو جھٹلا دیا، اس سورت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بینہ اور واضح حجت اور دلیل قرار دیا گیا ہے ۔ اس میں شک ہی کیا ہے کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی خود ایک بہت بڑا معجزہ اور حق و صداقت کی واضح دلیل تھی ۔ زنا، شراب نوشی قتل و غارت گری ، بت پرستی اور ڈاکہ زنی کے ماحول میں چالیس سال گزارے، کسی جنگل اور خلوت خانہ میں نہیں گلی کوچوں اور سوسائٹی میں فعال کردار ادا کرتے ہوئے گزارے۔ لیکن سیرت کے دامن پر  نجاست کا کوئی خفیف ترین دھبہ بھی نہ تھا، کسی بدترین دشمن کو بھی جرات نہ ہوئی کہ آپ کے کردار پر انگلی اٹھا سکتا۔
(2)------------ یہ سورت دین و ایمان کی بنیادی نشاندہی کرتی ہے اور وہ ہے اخلاص ، کوئی عمل بغیر ایمان کے اور ایمان لغیر اخلاص کے معتبر نہیں ہر نبی نے اپنی امت کو اس بنیاد کی دعوت دی ۔ (5)
(3)----------یہ سورت اشقیاء اور سعداء یعنی کافروں اور مومنوں دونوں کا انجام بیان کرتی ہے ۔(8۔6)
سورة الزلزال:--------------
سوره زلزال مدنی ہے، اس میں 8آیات ہیں ، مدنی ہونے کے با و جوداس کا موضوع اور مضامین مکی سورتوں جیسے ہیں، یہ سورت دو مقاصد پر مشتمل ہے۔
(1)-------اس میں اس زلزلے کی خبر دی گئی ہے جو قیامت سے پہلے واقع ہو گا اور سارے انسان اپنی قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے اور زمین انسان کے اعمال پر گواہی دے گی۔
(2)لوگ حساب و کتاب کے لیے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے پھر ان کے اعمال کے مطابق انہیں دوقسموں میں تقسیم کیا جائے گا بعض شقی ہوں گے اور بعض سعید اور ان میں سے ہر ایک اپنے چھوٹے بڑے اعمال بڑے اعمال کی جزا دیکھ لے گا۔
سورة العاديات :------------------
سوره عادیات مکی ہے، اس میں 11آیات ہیں ، اس سورت میں تین اہم مضامین بیان ہوئے ہیں:
(1)--------------------مجاہدین کے گھوڑوں کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ انسان بڑا ناشکرا ہے اور اس کے ناشکرا ہونے پر خود اس کے اعمال گواہ ہیں ۔ (7۔1)
گھوڑا اپنے مالک کا وفادار ثابت ہوتا ہے، اسے خوش کرنے کے لیے تیروں کی بارش اور کوندتی تلواروں میں گھس جاتا ہے۔ مگر ہائے رے انسان کہ یہ اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود اپنے مالک حقیقی سے بے وفائی کرتا ہے۔
(2)---------------انسان کی فطرت اور طبیعت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ مال کی محبت میں بڑا سخت ہے، اس کے پاس سونے کی ایک وادی ہوتو دوسری تلاش کرتا ہے اور دوسری ہو تو تیسری تلاش کرتا ہے اور اس کے منہ کومٹی  کے سوا کوئی چیز نہیں بھرسکتی۔
(3)---------------انسان کو ان اعمال صالحہ پر برانگیختہ کیا گیا ہے جو اسے اس وقت فائدہ دیں گے جب اسے حساب و جزا کے لیے پیش کیا جائے گا اور بندوں کے سینوں میں جو راز ہیں، آشکارا کر دیئے جائیں گے۔
سورة القارعة :----------------
سورة قارعہ مکی ہے، اس میں 11آیات ہیں، اس سورت میں قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرایا گیا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو نظام کائنات میں بڑی بڑی تبدیلیاں واقع ہوں گی جو انسان کو حیران اور ششدر کردیں گی (5۔1)
سورت کے اختتام پر بتلایا گیا کہ قیامت کے دن انسان کے اعمال کا وزن ہوگا کسی کیحسنات زیادہ ہوں گی اور کسی کی سیئات اور انہی کے اعتبار سے انسان کے انجام کا تعلق ہوگا۔
سورة التكاثر:..............
 سورۂ تکاثر مکی ہے، اس میں 8 آیات ہیں ، اس سورت میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو صرف دنیا کی زندگی کو اپنا مقصد بنا لیتے ہیں اور دنیا کا ایندھن جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں، ان کے انہماک کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ انہیں دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے لیکن پھر اچانک موت کے آ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انہیں قصر سے قبر کی طرف منتقل ہونا پڑتا ہے، ان لوگوں کو ڈرایا گیا کہ قیامت کے دن تمام اعمال کے بارے میں سوال ہو گا ۔ (4۔3)
پھر تم جہنم کو ضرور دیکھو گے اور تم سے اللہ کی نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ امن صحت فراغت، اکل وشرب ،مسکن ،علم اور دولت جیسی نعمتوں کو کہاں استعمال کیا؟
سورة العصر:..۔۔۔۔۔۔۔۔
 سور عصر مکی ہے، اس میں 3 آیات ہیں، یہ مختصر سی سورت اسلام کے عظیم اصولوں اور انسانی زندگی کے دستور کی وضاحت کرتی ہے۔ اس سورت کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر لوگ صرف اس سورت میں تدبر کر لیں تو یہ سورت ان کی نجات کے لیے کافی ہوسکتی ہے، اس سورت کی ابتدا میں اللہ نے زمانے کی قسم کھا کر فرمایا کہ سارے کے سارے انسان خسارے
میں ہیں چاہے وہ مادی اور ظاہری اسباب سے مالا مال کیوں نہ ہوں ۔ البتہ جو چار صفات سے متصف ہوں گے وہ خسارے سے بچ جائیں گے یعنی ایمان عمل صالح ، ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین۔
سورة الھمزہ:----------------
سورة ھمزہ مکی ہے، اس میں 9 آیات ہیں، اس سورت میں انسان کی تین بیماریوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
پہلی بیماری ہے پس پشت کسی کے عیب بیان کرنا، اسے غیبت کہتے ہیں اور غیبت بدترین گناہ ہے۔
دوسری بیماری ہے کسی کو اس کے سامنے اس کے حسب ونسب، دین و مذہب اور شکل وصورت کا طعنہ دینا، اس کا مذاق اڑانا، یہ منافقین کی عادت تھی ، وہ غریب مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، یوں ہی یہود و نصاری دین کا مذاق اڑاتے ہیں۔
تیسری بیماری ہے جب دنیا جس میں مبتلا ہو کر انسان حقوق اللہ بھی بھول جاتا ہے اور حقوق العبادبھی بھول جاتا ہے اور اس کے دل میں اللہ کی محبت کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی ، بقول حضرت میاں نور محمد صاحب رحمہ اللہ تعالی کے

"بھر رہا ہے دل میں حب جاه و مال
کب سماوے اس میں حب ذوالجلال"

 سورت کے اختتام پر ان اشقیاء کا انجام بتلایا گیا ہے جو ان بیماریوں میں مبتلا ہوں گئے ۔ (8۔5)
سورة الفيل:-------------
 سوره فیل مکی ہے، اس میں 5آیات ہیں، اس سورت میں وہ مشہور قصہ بیان ہوا ہے جو اصحاب فیل کے قصہ کے نام سے مشہور ہے، جب صنعاء کے گورنر ابرہہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر کعبہ پر چڑھائی کی تھی ، اس کے ساتھ کم و بیش ساٹھ ہزار جنگجو تھے قریش اس کا مقابلہ کرنے سے عاجز آگئے ، اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندے کنکریاں دے کر بھیج دیئے، ان کنکریوں نے جدید بموں کی طرح تباہی مچا دی، یہ واقعہ اسی سال پیش آیا جس سال حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اور یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ عنقریب کعبہ کا حقیقی محافظ پیدا ہونے والا ہے۔
سورة القریش:--------------
 سورۂ قریش مکی ہے، اس میں4 آیات ہیں، اس سورت میں اللہ نے قریش پر اپنے دو بڑے احسانات بیان فرمائے ہیں ۔
پہلا یہ کہ وہ بلا خوف و خطر قریش گرمیوں میں شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف تجارتی سفر کیا کرتے تھے اور یہ تجارتی سفر ان کا بہت بڑا ذریعہ معاش تھے۔ دوسرا احسان یہ کہ انہیں بلد حرام میں امن، اطمینان اور تحفظ کی نعمت حاصل تھی ۔ یہ دو نعمتیں ذکر فرما کر انہیں سمجھایا گیا ہے کہ خودفر یبی  ، خود پسندی اور قوم پرستی سے باز آ جاؤ اور بیت اللہ کے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔
 سورة الماعون:--------------
 سوره ماعون مکی ہے، اس میں سے 7آیات ہیں، اس سورت میں اختصار کے ساتھ انسانوں کے دو گروہوں کا ذکر ہے۔
(1).......... وہ کافر جو قیامت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے ، یتیموں کے حقوق دبا لیتے ہیں اور ان کے ساتھ سختی کا معاملہ کرتے ہیں، غرباء اور مساکین کو نہ خود کھلاتے ہیں اور نہ دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں۔ گویا کہ نہ تو اللہ کے ساتھ ان کا معاملہ صحیح  ہے اور نہ اللہ کے بندوں کے ساتھ۔
(1) ....... دوسرا گروہ منافقین کا ہے ان کی تین صفات قبیحہ یہاں بیان کی گئی ہیں:
پہلی یہ کہ وہ نماز سے غافل ہیں، یہ غفلت دو اعتبار سے ہوسکتی ہے، ایک یہ کہ نماز ادا ہی نہ جائے۔

دوسری یہ کہ نماز تو پڑھی جائے مگر نہ وقت کی پابندی کا لحاظ ہو اور نہ خشوع وخضوع ہو۔ دوسری صفت یہ کہ وہ دکھاوے کے لیے اعمال کرتے ہیں۔
تیسری صفت یہ کہ وہ ایسے بخیل ہیں کہ عام ضرورت کی چیز دینے سے انکار کر دیتے ہیں ۔
سورة الكوثر:---------------
 سورة کوثر مکی ہے، اس میں 3آیات ہیں ، اس سورت میں تین مقاصد بیان ہوئے ہیں:
(1)----------------نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کا فضل و احسان کہ اس نے آپ کو کوثر عطا کی ، کوثر جنت کی وہ نہر ہے جہاں قیامت کے دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتیوں کو جام بھر کر پلائیں گے۔ چونکہ کوثر کا معنی خیر کثیر ہے اس لیے نبوت، کتاب حکمت علم ،حق ، شفاعت، مقام محمود معجزات اور قرآن کریم کو بھی کوثر قرار دیا گیا ہے۔
(2)نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کوحکم دیا گیا کہ کوثر جیسی عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے آپ نماز کی پابندی فرمائیں اور اللہ کے لیے قربانی دیں۔
(3)-----------آپ کو یہ بشارت سنائی گئی کہ آپ کے دشمن ذلیل و خوار ہوں گے اور ان کا نام ونشان مٹ جائے گا چنانچہ ایسے ہی ہوا۔
سورة الكافرون :----------
سوره کافرون مکی ہے، اس میں 6آیات ہیں، یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب مشرکوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی کہ آؤ! "کچھ لو اور دو "کی بنیاد پر ہم آپس میں مصالحت کر لیں ، ایک سال آپ ہمارے خداؤں کی عبادت کرلیا کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کرلیا کریں گے، اس سورت نے ایمان و کفر ، موحدین اور مشرکین |
کے درمیان حد فاصل قائم کر دی اور بتادیا کہ توحید اور شرک دو متصادم نظام ہیں، دونوں میں مصالحت کی کوئی صورت نہیں، کیوں کفار کی امیدوں کا خاتمہ کردیا اور ہمیشہ کے لیے واضح کردیا کہ ایمان میں کفر کی ملاوٹ نہیں ہوسکتی۔
سورة النصر :--------------
سورۂ نصر مدنی ہے، اس میں3 آیات ہیں ۔ یہ سورت فتح مکہ کی طرف اشارہ
کرتی ہے، یہ سورت 10ھ میں نازل ہوئی، اس کے نزول کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے میری موت کی اطلاع دی گئی ہے
اس لیے حضور کی بعثت کا مقصد پورا ہو چکا تھا، جب آپ نے دعوت کا آغاز کیا تھا تو اسے قبول کرنے والے اکا دکا تھے ۔ لیکن اب لوگ جماعت در جماعت اورقبیلہ در قبیلہ دین اسلام میں داخل ہورہے تھے، اس لیے آپ کو حکم دیا گیا کہ ان فتوحات اور نعمتوں پر الله کا شکر اور اس کی تسبیح اور عظمت بیان کریں۔ سورة اللھب:------------
 سورہ لہب مکی ہے، اس میں 5آیات ہیں ، یہ سورت حضور اکرم صلی اللہ علیہ | وسلم کے چچا مگر بدترین دشمن ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل کا انجام بتلاتی ہے، اس شخص کو اپنے مال اور اولاد پر بڑاغرور تھا لیکن مال و اولاداسے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے ۔ یہ دونوں میاں بیوی ذلت آمیز اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔
سورة الاخلاص :----------------
سوره اخلاص مکی ہے، اس میں 4آیات ہیں ، یہ سورت اسلام کے بنیادی عقیده یعنی توحید سے بحث کرتی ہے۔ توحید کی تین قسمیں ہیں:
(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توحید ربوبیت یعنی ہر چیز کا خالق، مالک اور رازق اللہ ہے، اس کا اقرار کافر بھی کرتے
(2)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔توحید الوہیت یعنی بندہ جو بھی عبادت کرے خواہ دعا ہو یا نذر قربانی تو وہ صرف اللہ کے لیے کرے۔ مشرکین غیر اللہ کی عبادت بھی کرتے تھے اگر چہ اس سے ان کا مقصد ، اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا تھا مگر ظاہر ہے یہ شرک ہی تھا۔
(3)توحید ذات اور اسماء و صفات توحید کی یہ تیسری قسم ایسی ہے کہ انسان نے اکثر اس میں ٹھوکر کھائی ہے، وہ غیر اللہ کے لیے بھی وہی علم ، وہی قدرت، وہی تصرف اور وہی سمع والبصر ثابت
کر دیتا ہے جو حقیقت میں صرف اللہ تعالی کے لیے ثابت ہے ۔ غور کیا جائے تو سورت اخلاص میں زیادہ زور توحید کی اسی قسم پر ہے۔
سورة الفلق :-------------
سوره فلق مدنی ہے، اس میں5آیات ہیں، اس سورت میں اللہ نے اپنی | ایک صفت بیان فرما کر چار چیزوں کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔
(1) مخلوق کے شر سے۔
(2)اندھیرے کے شر سے۔ ( عام طور پر چور ، شیاطین، جنات، حشرات اور ساحر اندھیرے ہی میں اپنا کام دکھاتے ہیں)۔
(3) پھونکے مارنے والیوں کے شر سے جو کہ جادو اور ٹونے کرتی ہیں ۔ یہ کام اگر چہ مردبھی کرتے ہیں لیکن عورتیں تعویز گنڈےمیں ہمیشہ پیش دکھائی دیتی ہیں اس لیے قرآن نے عورتوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔
(4)........ حاسد کے شر ہے۔
 سورة الناس:-------------
سوره ناس مدنی ہے، اس میں 6آیات ہیں ، یہ معوذتین میں سے دوسری
سورت ہے اور ان دونوں سورتوں کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں ۔ مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سورتوں
کے بارے میں فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آج ایسی دو سورتیں نازل ہوئی ہیں کہ ان کی کوئی مثال نہیں
یعنی اللہ کی پناہ ما نگنے میں یہ دونوں سورتیں بے مثال ہیں ۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دو سورتوں سے کوئی شخص بھی مستغنی نہیں، یہ جسمانی اور روحانی آفات دور کرنے میں بے حد موثر ہیں۔
قرآن کے آخر میں ان دو سورتوں کے لانے اور سورۂ فاتحہ سے شروع کرنے میں بڑی گہری مناسبت ہے ، سورة فاتحہ میں بھی اللہ کی مدد مانگی گئی تھی اور ان دونوں سورتوں میں یہی مضمون ہے۔ گویا کہ اس طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ بندےکو ابتدا سے انتہا تک اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور اس سے مدد مانگتے رہنا چاہیے ۔ سورۂ ناس میں اللہ کی تین صفات مذکور ہیں:
(1) ربوبیت (2)مالکیت(3) الہیت
یہ تین صفات ذکر فرما کر ایک چیز کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ہے وسوسہ ڈالنے والے کا شر ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وسوسہ کتنی خطرناک اور مہلک بیماری ہے، وسوسہ شیطان بھی ڈالتا ہے اور انسان بھی۔ آج کا سارا مغربی میڈیا مسلمانوں کے دلوں میں ایمان کے حوالے سے وسوسہ اندازی میں مصروف ہے اور وسوسے کی بیماری بہت عام ہو چکی ہے، اس لیے کثرت کے ساتھ ان دو سورتوں کو ورد زبان بنانے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ نکتہ بھی سمجھ لیا جائے کہ سورۂ خلق میں ایک صفت ذکر فرما کر چار آیات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہاں چارصفات ذکر فرما کر ایک آفت کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے کہ پہلی سورت میں نفس اور بدن کی سلامتی مطلوب ہے جبکہ دوسری سورت میں دین کے ضرر سے بچنا اور اس کی سلامتی مطلوب ہے اور دین کا چھوٹے سے چھوٹا نقصان دنیا کے بڑے سے بڑے نقصان سے زیادہ خطرناک ہے۔
اگر ہم نے قرآن سے سچا تعلق قائم کیے رکھا اور اسے پڑھنے ، سمجھنے  ، اس پر عمل کرنے اور اسکے سارے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرتے رہے تو ان شاء اللہ! ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا دین و ایمان محفوظ رہے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے