امہاتُ المؤمنین: پوری امت کے لیے نمونہ ہیں


امہاتُ المؤمنین: پوری امت کے لیے نمونہ ہیں


اکیسویں پارہ کی آخری چند آیات میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے خطاب تھا، کیونکہ اس کتاب کا کچھ حصہبائیسویں پارہ کے شروع میں بھی آیا ہے ان آیات کا پس منظر احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب فتوحات کا دور شروع ہوا توازواج مطہرات نے حضور اکرم ﷺسے درخواست کی کہ ہمارے وظیفہ اور نفقہ میں کچھ اضافہ کر دیا جائے، اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں انہی دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیا گیا یا وہ خوشحالی کی زندگی گزارنے کے لیے جدائی اختیار کرلیں اور یا پھر تنگی ترشی کے ساتھ گزر بسر کریں اور اپنی نظر آخرت کی خوش عیشی پر رکھیں، جب آپ نے انھیں اختیار دیا تو ان سب نے آخرت ہی کو ترجیح دی، اس موقع پر ازواج مطہرات کی فضیلت بیان کرتے ہوئے انہیں سات احکام دیے گئے:
پہلا یہ کہ مردوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے لوچ دار لہجہ اختیار نہ کریں۔
دوسرا یہ کہ بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلو کیونکہ مسلمان عورت کا اصل اور محفوظ ٹھکانہ گھرہے۔
 تیسرا یہ کہ زمانہ جاہلیت کی خواتین کی طرح اپنی زینت اور ستر کا اظہار کرتے ہوئے باہر نہ نکلیں۔
چوتھایہ نماز کی پابندی کریں۔
 پانچواںیہ کی زکوٰۃ دیا کریں۔
چھٹا یہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔
ساتواں یہ کہ قرآنی آیات کی تلاوت اور احادیث کا مذاکرہ کیا کریں۔
اس کے علاوہ جو اہم مضامین سورۂ احزاب کے اس حصہ میں بیان ہوئے ہیں جوبائیسویںپارہ میں آئے ہیں درج ذیل ہیں:
۱]  مسلمان کی شخصیت کو معاشرہ میں نمایاں اور امتیازی حیثیت دینے اور اس کا تشخص اور پہچان پیدا کرنے والی دس صفات ہیں،یہ صفات مرد میں ہو یا عورت میں ،اسے مغفرت اور اجر عظیم کا مستحق بنا دیتی ہیں، یعنی
اسلام  ایمان  قنوت(دائمی طاعت)  صدق،صبر،خشوع  صدقہ   روزے  شرمگاہ کی حفاظت اور کثرت سے اللہ کا ذکر  کرنا۔(۳۵)
۲]  سورۂ احزاب اس مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخالفین نے سخت تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا تھا۔ ہوا یوں کہ جب آپ کے متبنیٰ (منہ بولا بیٹا) حضرت زید بن حارثہؓ اور آپ کی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے درمیان نباہ نہ ہوسکا اور ان کے درمیان جدائی واقع ہوگئی تو اللہ کے حکم سے خود آپ نے حضرت زینب سے نکاح کرلیا، اس پر بڑا شور تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی، جبکہ جاہلی تصور میں یہ نکاح حرام تھا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: یہ نکاح خود ہم نے کروایا تاکہ آئندہ متبنیٰ کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح کرنے میں مسلمانوں کے لیے کوئی حرج نہ رہے۔ (۳۷)
یہاں ضمنی طور پر یہ بات بھی جان لی جائے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے مخالفین نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازدواج میں معاذاللہ شہوت پرستی کے عنصر کو بنیادی وجہ قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے، یہاں اگر دو بنیادی نکتوں کو ملحوظ رکھا جائے تو اعتراضات لغویت ظاہر ہوجاتی ہے،
پہلا نکتہ یہ کہ آپ نے اپنی بھر پور جوانی ایک ایسی خاتون کے ساتھ گذار دی جو عمر میں آپ سے تقریباً دوگنی تھی،جب تک وہ زندہ رہیں آپ نے کسی دوسری خاتون کو اپنے عہد میں قبول نہیں کیا،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ جتنی خواتین سے بھی آپ نے شادیاں کی ہیں وہ بڑھاپے کی حدود میں قدم رکھنے یعنی پچاس سال کی عمر کے بعد کی ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ کہ سوائے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آپ کی کوئی بیوی بھی کنواری نہ تھی، اگر معاذاللہ کثرت ازدواج سے آپ کا مقصد شہوت پرستی ہوتا تو آپ یہ شادی جوانی میں اور باکرہ لڑکیوں سے کرتے، حقیقت یہ ہے کہ تعدد ازواج میں تعلیمی ،تشریعی، اجتماعی، اور سیاسی حکمتیں پوشیدہ تھی مگر یہ ’’خلاصہ‘‘ ہمیں ان کی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔
۳]  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمت عظمیٰ عطا فرمائی ہے اس کی یاد دہانی بھی کرائی ہے اور آپ کے پانچ امتیازی اوصاف ذکر کیے ہیں:
آپ اپنی امت پر اور دوسری امتوں پر بھی قیامت کے دن گواہی دیں گے کیونکہ پوری دنیا کے انسان آپ کی امت میں شامل ہیں، جنھوں نے ایمان قبول کر لیا وہ ’’امت اجابت‘‘ میں شامل ہیں، اورجنھوں نے ایمان قبول نہیںکیا وہ ’’امت دعوت‘‘ میں داخل ہیں۔
اہل ایمان کو آپ سعادت اور جنت کی بشارت دینے والے ہیں۔
کفار اور فجار کو اللہ کے عذاب اور ہلاکت سے ڈرانا آپ کی ذمہ داری ہے۔
آپ نیکی، اصلاح، اخلاق حسنہ اور استقامت کی دعوت دینے والے ہیں۔ آپ کی دعوت نہ دنیا کی دعوت تھی نہ اقتدار کی نہ مال غنیمت جمع کرنے کی نہ ہی قومیت اور عصبیت کی بلکہ آپ کی دعوت خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے تھی جس کا مقصد صلاح اور اصلاح کے سوا کچھ نہ تھا اور اس میں کیا شک ہے کہ انبیاء کے اعمال میں سب سے افضل عمل دعوت ہی ہے، خود رب تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اور اس سے زیادہ اچھی بات والا کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں یقیناً مسلمانوں میں سے ہوں‘‘۔(فصلت)
آپ نے سراج منیرہیں، اور آپ کے نور و وجود سے ظلمت دور ہوئیں اور شبہات کا ازالہ ہوا۔(۴۵، ۴۷) اللہ نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو چمکتے ہوئے سورج کے ساتھ تشبیہ دی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ شرک و ضلال کی گمراہیوں کو دور کیا اور گمراہوں کو ہدایت دی، بالکل ایسے ہی جیسے سورج روشن ہو جاتا ہے تو رات کی تاریکی کافور ہوجاتی ہے اور منزل تک پہنچنا آسان ہوجاتا ہے۔
سورۂ احزاب وہ آداب بھی بیان کرتی ہے جن آداب سے زمانہ جاہلیت میں لوگ نا آشنا تھے، یہاں ان میں سے تین آداب مذکور ہیں:
پہلایہ کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔
دوسرا یہ کہ اگر کھانے کی دعوت میں تمہیں بلایا گیا ہو تو کھانے سے فارغ ہو کر اٹھ جایا کرو، باتوں میں مشغول ہوکر صاحب خانہ کا وقت مت ضائع کیا کرو۔
تیسرا یہ کہ غیر محرم خواتین سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت پیش آئے تو پس پردہ مانگا کرو، بلاحجاب ان کے سامنے نہ آیا کرو،البتہ اپنے محارم کے سامنے عورت کو بے پردہ آنے کی بھی اجازت ہے۔(۵۳، ۵۵)
۵]  ازواج مطہرات کی حرمت بیان کرنے کے بعد اللہ عزوجل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت وتکریم بیان فرمائی ہے اور اہل ایمان کو آپ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے، آپ پر درود و سلام حقیقت میں خود ہمارے لیے عزت و تکریم، ذریعہ رفع درجات اور کفارۂ سیئات ہے۔(۵۶)
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے توآپ کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار تھے،صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آج ہم چہرۂ انور پر خوشی کے (غیر معمولی) آثار دیکھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج میرے پاس فرشتہ آیا تھا اس نے کہا: اے محمد! کیا آپ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ اللہ عزوجل کہتا ہے: آپ کی امت میں سے جو کوئی آپ پر ایک بار درود بھیجے گا مین اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا اور جو کوئی ایک بار سلام بھیجے گا میں اس پر دس بار سلامتی نازل کروں گا، میںنے فرشتے کو جواب دیا کہ ہاں میں خوش ہوں۔ (مسند احمد، نسائی)
۶]  پہلے امہات  المومنین پر حجاب کی فرضیت کا حکم نازل ہوام پھر عمومی طور پر ہر مسلمان خاتون کو پردہ کا حکم دیا گیاخواہ وہ بیوی ہو یا بیٹی ہو یاماں، حجاب عورت کی عظمت و عزت و عصمت کا محافظ ہے اور باعث کریم و تعریف ہے، حجاب شرعی میں چند شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
حجاب ایسا ہو کہ پورا بدن کو چھپا لے۔
وہ حجاب فی نفسہٖ پرکشش اور نگاہوں کو متوجہ کرنے والا نہ ہو۔
حجاب ایسا باریک نہ ہو جس جسم کی رنگت جھلکے اور نظر آئے۔
کشادہ ہو، ایسا تنگ نہ ہو جو فتنہ کا باعث بننے والے اعضاء کو ظاہر کرے۔
ایسا معطر نہ ہو جس کی خوشبو دوسروں تک پہنچے۔
بناوٹ میں مردوں کے لباس سے مشابہت نہ رکھتا ہو۔
ایسا لباس نہ ہو جو کافر اور مشرک عورتوں کی پہچان بن چکا ۔
شہرت کا لباس نہ ہو کہ جسےمحض شہرت کے لئے پہنا جائے، حدیث میں اس پر سخت وعید آئی ہیں۔
۷]  سورت کے اختتام پر فرائض واجبات اور شرعی احکام کی اہمیت بیان کی گئی ہے یہ احکام اس امانت کا حصہ ہیں جو اللہ نے بندوں کو سونپی ہے۔ آسمان، زمین اور پہاڑوں میں اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ ان کے اندر یہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت ہی نہ تھی لیکن چونکہ انسان کو اللہ نے اخلاقی اور خیر و شر کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے تو اس نے اس بوجھ کو اٹھا لیا مگر اس کا حق ادا نہ کرسکا۔
سورہ سبا:
سورہ سبا مکی ہے، اس میں۵۴آیات اور۶رکوع ہیں، اس سورت کی ابتداء اللہ عزوجل کہ حمدوثنا سے ہوتی ہے جس نے ساری مخلوق کو پیدا کیا، کائنات کے لیے مستحکم نظام قائم کیا، نظام عالم کی تدبیر کی اسے ہر چیز کی خبر ہے اور اس کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں، اس کے بعد مشرکین کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ حساب اور جزا اور مرنے کے بعد کی زندگی کا انکارکرتے ہیں، اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنے رب کی قسم کھا کر کہیں کہ قیامت آکر ہی رہے گی، نیکوکاروں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ضرور ملے گی، اس کے علاوہ جو اہم مضامین سورۂ سبا میں مذکور ہیں وہ درج ذیل ہیں:
حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام اور اہل سبا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرما کر گویا شاکر اور کافر کا تقابل اور موازنہ کیا ہے، اول الذکر دونوں اللہ کے نبی اور ذاکر وشا کر بندے تھے ،حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حد اعجاز تک پہنچا ہوا صوتی جمال عطا فرمایا تھا، وہ جب اللہ کی تسبیح کرتے تھے تو پہاڑ اور پرندے بھی ان کے ہمنوا بن جاتے تھے، وہ جب زبور پڑھتے تو جو جانور ان کی قرأت سنتا تھا اس پر گریہ طاری ہوجاتا تھا، اللہ نے ان کے لیے لوہے نرم کوکر دیا تھا، وہ اسے جس طرح چاہتے موڑ لیتے اور جو کچھ چاہتے تھے اس سے بنا لیتے انہوں نے کار خانہ بنا رکھا تھا جس میں لوہے کی مضبوط زرہیں بنتی تھیں، اور اسے دنیا کی پہلی ’’اسٹیل مل‘‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ الصلاۃ والسلام پر خصوصی انعامات کیے تھے یوں ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی خوب نوازا تھا، اللہ نے پرندوں کی بولی سکھائی تھی،ان کے لیے تانبابہتے ہوئے چشمے کی شکل اختیار کر جاتا، اس سے جو چاہتے بسہولت بنالیتے، جنات ان کے تابع تھے، ان سے آپ تعمیرات اور حمل و نقل کے مشکل ترین کام لیتے تھے، ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا گیا تھا، آج کل جیسے ہوائی جہاز ہوتے ہیں ایسا ہی آپ کا ہوائی تخت تھا جو دو ماہ کی مسافت دن کے تھوڑے سے حصے میں طے کرلیا کرتا تھا اللہ تعالیٰ کی ان محیر العقول نعمتوں کے باوجود دونوں باپ بیٹا فخر و غرور کا شکار نہ ہوئے اور ذکر وشکرسے ایک لحظہ بھی غافل نہ ہوئے جبکہ عمومی صورت انسان کی یہ رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے شکرکرنے والے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔
دوسرا قصہ جو یہاں بیان ہوا ہے وہ اہل سبا کا ہے، پہلا قصہ اگر اہل شکر و ایمان کے لیے روشن مینار تھاتو دوسرا قصہ اہل کفر و عصیان کی تاریک جھلک ، اہل سباکو رزق کی فراوانی، صحت افزا آب وہو، زرخیز زمین اور پھل دار باغات جیسی نعمتیں عطا کی گئی تھیں،طویل مسافت تک دورویہ باغات چلے جاتے تھے ،نہ گرمی اور دھوپ و ستاتی اورنہ ہی بھوک پریشان کرتی تھی، پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک ڈیم بھی تھا جسے ’’سدمآرب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،لیکن انہوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا بلکہ ناشکری پر اتر آئے پھر وہی ہوا جو ہرناشکری قوم کے ساتھ ہوتا ہے، بند ٹوٹ کر عذاب کی صورت اختیار کر گیا اور اس کے پانی نے تباہی مچادی باغات اور بستیاں خس و خاشاک بن کر بہہ گئیں جہاں پھل اور پھول تھےوہاں جا کر جھاڑ جھنکار کے سوا کچھ بھی نہ بچا اور اہل سبا کا ذکر صرف داستانوں میں رہ گیا۔(۱۵،۲۱)
۲]   اس سورت میں مسلسل مشرکین کے عقائد و نظریات کی عقلی اور نقلی دلائل سے تردید اور توہین ہے کبھی ان سے کہا گیا کہ بلاؤ ان کو جنہیں تم اللہ کے سوا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے ہو، دیکھتے ہیں کہ وہ تمہیں کیا فائدہ پہنچاتے ہیں، کبھی تلقین کے اسلوب میں ان سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا کہ بتاؤ تمہیں آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے، کبھی یہ سوال کیا گیا کہ جنہیں تم اللہ کے ساتھ عبادت میں شریک سمجھتے ہو ذراانھیںمیرے سامنے تو لاؤ تاکہ میں دیکھو کہ ان کے اندر کون سی ایسی صفات پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ عبادت کے مستحق بن گئے۔(۲۲، ۲۷)
 آگے چل کر سورۂ سبا میں کفار اور مشرکین کی سر کشی اور کفار کی بنیادی وجہ ،ثروت وغنا کو بتایا ہے، انہیں اس پر اتنا ناز تھا کہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے جیسے اصحاب مال و اولاد کونہ دنیا میں عذاب ہو سکتا ہے نہ آخرت میں عذاب ہوسکتا ہے، قرآن کے الفاظ میں: ’’وہ کہتے تھے ہم اموال اور اولاد کے اعتبار سے تم سے زیادہ ہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا‘‘ وہ آخرت کے معاملے کو بھی دنیا پر قیاس کرتے تھے ان کا خیال تھا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کی وسعت اور خوشحالی عطا فرمائی ہے یہی معاملہ ان کے ساتھ آخرت میں بھی کیا جائے گا، انہیں جواب دیا گیا کہ ’’فرمادیجئے کہ میرا رب جس کے لیے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے‘‘۔(سبا۳۶)
ثروت و غنا پر فخر و غرور ہی انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے استہزاء اور تحقیر پر آمادہ کرتا تھا اور وہ آپ کو مجنون اور دیوانہ کہنے سے باز نہیں آتے تھے اس لئے اللہ نے فرمایا: ’’آپ ان سے فرما دیجئے میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں تم اللہ کے لیے دو دو اور اکیلے اکیلے مستعد ہو جاؤ پھر غور و فکر کرو (تم یقیناً اس نتیجے پر پہنچو گے کہ تمہارے ساتھی یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی جنون نہیں وہ تم کو سخت عذاب کے آنے سے پہلے صرف ڈرانے والے ہیں‘‘۔(۴۷)
 آخری آیت میں بتلایا گیا کہ وہ آخرت میں ایمان قبول کرنا چاہیں گے لیکن ان کی چاہت اور ان کے درمیان پردہ حائل کر دیا جائے گا چنانچہ وہ ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔(۵۴)
 سورہ فاطر:سورہ فاطر مکی ہے،اس میں ۴۵آیات اور۵ رکوع ہیں،اس سورہ میں توحید باری کی دعوت اس کے وجود پر دلائل شرک کی بنیادوں کا انہدام اور دین حق پر قائم رہنے کی تاکید ہے، سورت کی ابتدا میں اس خالق اور مبدع ہستی کا ذکر خیر ہے جس نے عالم کون و مکان کو انسانوں، فرشتوں اور جنات کو پیدا کیا، انسانی نظروں کو ان تکوینی آیات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اس کتاب جہان کے ہر ورق پر پھیلی ہوئی ہیں، مرنے کے بعد کی زندگی پر ایسےحسی اور بدیہی دلائل ذکر کیے ہیں جو ہر شہری اور دیہاتی کی سمجھ میں آ سکتے ہیں بتایا گیا کہ وہ اللہ بارش سےمردہ زمین کو زندہ کرتا ہے شب و روز کو یکے بعد دیگرے لاتا ہے اور جو انسان کو تخلیق کے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا زندہ کرتا ہے وہ مردہ انسانوں کو بھی دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔(۹)
یوں ہی یہ سورت ایمان اور ہدایت، کفر اور ضلالت کے درمیان بھی بہت سی مثالوں کے ذریعے فرق کرتی ہے یہ سورت بتاتی ہے کہ جیسے بینا اور نابینا، زندہ اور مردہ، ظلمت اور نور، دھوپ اور چھاؤں، مساوی نہیں ہو سکتے یوں ہی مومن اور کافر بھی برابر نہیں ہوسکتے۔(۱۹، ۲۲)
اس کے بعد دوبارہ وحدانیت اور قدرت کے دلائل سے یہ سورت بحث کرتی ہے، رنگارنگ اور متنوع پھولوں، سفید ،سرخ اور سیاہ پہاڑوں، مختلف رنگتوں، زبانوں اور مزاج والے انسانوں اور ہزاروں قسم کے پرندوں، مچھلیوں،حشرات اور چوپایوں میں اس کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں لیکن ان نشانیوں کو دیکھ کر صرف انہی کے دل میں خشیت پیدا ہوتی ہے جو علم رکھتے ہیں،جو گہرائی میں جاکر سوچ سکتے ہیں اور جو حقائق پر پڑے ہوئے پردے اٹھا سکتے ہیں کیونکہ جس کے دل میں جتنی معرفت ہوگی اتنی خشیت اور عظمت ہوگی اسی لیے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں سارے انسانوں سے زیادہ خشیت تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم میں تم سے زیادہ دل میں اللہ کی خشیت اور خوف رکھنے والاہوں۔
اہل علم کہتے ہیں کہ اس آیت میں علماء سے مراد صرف دین اور شریعت کے علماء نہیں ہیں بلکہ کائناتی علم رکھنے والے علماء بھی شامل ہیں یعنی طب ،فلکیات، نباتات، فضا اور ارضیات کاعلم رکھنے والے بھی اس میں آجاتے ہیں کیونکہ وہ بھی جب صحیح نہج پر کائنات کے اسرار پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ نظرانہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے اعتراف پر مجبور کر دیتی ہیں اور یہی اعتراف آخر میں اللہ تعالیٰ کے خشیت اور عظمت پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
پھر صورت کا رخ کتاب منظور (دکھائی دینے والی کتاب) کائنات سے کتاب مسطور(لکھی ہوئی کتاب یعنی) قرآن کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں۔(۲۹، ۳۰)
 ان کی تعریف کے بعد عمومی طور پر امت محمدیہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے جس پر اللہ نے یہ کتاب مجید نازل فرمائی لیکن نزول قرآن کے بعد یہ امت تین گروہوں میں تقسیم ہو گئی:
۱]۔۔۔ ظالم۔۔۔ یہ وہ گناہگار مسلمان ہیں جن کے گناہ ان کے نیکیوں سے زیادہ ہیں۔
۲]۔۔۔مقصد۔۔۔یعنی میانہ رو،جن کے حسنات سیئات مساوی ہیں۔
۳]۔۔۔ سابق۔۔۔ یعنی وہ سچے مومن جو طاعت وعبادت میں دوسروں سے سبقت لے گئے۔
لیکن ان تینوں کا آخری اور دائمی ٹھکانہ بہرحال جنت ہی ہے۔ کوئی براہ راست جنت میں جائے گا اور کوئی اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنے کے بعد جائے گا۔ سورت کے اختتام پر اللہ کے حلم اور بردباری کا ذکر ہے کہ وہ گناہوں پر نقد اور فوری سزا نہیں دیتا اگر ایسا ہو تو زمین پر انسان تو انسان کوئی حیوان اور چرند پرند بھی زندہ نہ رہ سکتا، اس نے جزا سزا کے لیے ایک وقت معین کر رکھا ہے وہ وقت جب آجائے گا توپھر کامل عدل کا نظام حرکت میں آجائے گا۔
 سورہ یاسین:
سورہ یٰسین مکی ہے ،اس میں۳۳ آیات اور۵ رکوع ہیں، ہمارے مسلمان بھائی اس سورت کو جانکنی کے آسانی کے لئے تو پڑھتے ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے کم ہیں جبکہ اصل وہ ثواب اور اللہ کا قرب اور اس کے مشمولات پر عمل کرنے ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، اس سورت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی سچائی پر قرآن کی قسم کھائی ہے۔(۲،۴)
پھر ان کفارقریش کا تذکرہ ہے جو کفر و ضلال میں بہت آگے نکل گئے تھے جس کی وجہ سے وہ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو گئے اس کے بعد اس بستی والوں کا ذکر ہے جنہوں نے یکے بعد دیگرے اللہ کے تین انبیاء کو جھٹلایا اور جب انہیں میں سے ایک حق پرست اور نا صح انہیں سمجھانے لگا تو انہوں نے اسے شہید کردیا۔(۱۳، ۲۱) اس ناصح کی گفتگو کا کچھ حصہ پارہ۲۳ کی ابتدا میں ہے جس کا خلاصہ ان شاءاللہ وہیں پیش کیا جائے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے