خلاصة القرآن یعنی آج رات کی تراویح :بارہواں پارہ بارہویں تراویح

خلاصة  القرآن یعنی آج رات کی تراویح :بارہواں پارہ بارہویں تراویح

پارہ ١٢

 بارہواں پارہ دو سورتوں پر مشتمل ہے سورۂ ہود اور سورۂ یوسف ۔ سورۂ ہود کی صرف پانچ آیات گیارہویں پارہ میں ہیں بقیہ پوری سورت بارہویں پارہ میں ہے، یہ مکی سورت ہے، اس میں ۱۲۳ آیات اور ۱۰ رکوع ہیں ، اس سورت کی ابتدا میں قرآن کریم کی عظمت شان کو بیان کیا گیا ہے کہ یہ اپنی آیات ، معانی اور مضامین کے اعتبار سے محکم کتاب ہے، اور اس میں کسی بھی اعتبار سے فساد اور خلل نہیں آ سکتا اور نہ اس میں کوئی تعارض با تناقض پایا جاتا ہے۔ اس کے محکم ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ اس کی تفصیل اورتشریح اس ذات نے کی ہے جو حکیم بھی ہے اور خبیر بھی
ہے، اس کا ہر حکم کسی نہ کسی حکمت پر مبنی ہے اور اسے انسان کے ماضی، حال، مستقبل، اس کی نفسیات ، کمزوریوں اور ضروریات کا بخوبی علم ہے۔
کتاب اللہ کی عظمت بیان کرنے کے بعد توحید کی دعوت ہے جو عقیدہ اور یقین کی بنیاد ہے ، دعوت توحید کے بعد دلائل توحید کا بیان ہے جو کہ پوری کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں ، بتایا گیا ہے کہ ساری مخلوق کو رزق دینے والا اللہ ہی ہے، خواہ وہ مخلوق انسان ہو یا جنات ، چوپائے ہوں یا پرندے، پانی میں رہنے والی مچھلیاں ہوں یا کہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے۔ آسمان اور زمین کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے لیکن جو لوگ ان دلائل میں غور وفکر نہیں کرتے اور جنہوں نے اپنی آنکھوں پرضد اور عناد کی پٹی باندھ رکھی ہے وہ تو حید کا بھی انکار کرتے ہیں اور قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے سے بھی انکار کرتے ہیں ، ان منکرین کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر واقعی قرآن انسانی کاوش ہے تو تم بھی اس جیسی دس سورتیں بنا کر لے آو۔ (13: 11)
 منکر ین کو تین بار چیلنج دیا گیا تھا، پہلی بار پورے قرآن کی مثال لانے ، دوسری بار قرآن جیسی دس سورتیں اور تیسری بار سورۂ بقرہ میں قرآن کریم جیسی صرف ایک سورت بنا کر لانے کا  چیلنج بھی دیا گیا تھا لیکن تینوں بار وہ اس چیلنج کو قبول کرنے سےعاجز رہے۔
اس کے علاوہ جو اہم مضامین سورہ ہود میں بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
(1) انسانوں کے دو گروہ ہیں ۔ پہلا گروہ وہ ہے جن کی زندگی اور جہد و عمل کا ہدف صرف دنیا ہے، وہ ہر وقت اسی زندگی کو زیادہ سے زیادہ آرام دہ بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور کبھی بھولے سے بھی انہیں آخرت یاد نہیں آتی ۔ دوسرا توفیق یافتہ گروہ وہ ہے جو دنیا کے لیے بھی تگ و دو کرتا ہے مگر اس کی کوششوں کا محور آخرت ہے، وہ اخروی زندگی ہی کو سامنے رکھ کر دنیا کی زندگی گزارتا ہے۔ (17۔ 15:11) 
پہلے گروہ کی مثال اندھوں اور بہروں جیسی ہے اور دوسرے گروہ کی مثال بینائی اور شنوائی کی نعمت سے سرفراز لو گوں جیسی ہے۔  
(2) قرآن کریم کی ایک عادت یہ بھی ہےکہ دلائل کےذریعہ کفاراور مشرکین کے نظریات کی تردید کے بعد گزشتہ اقوام اور انبیاء کے واقعات اور قصص بیان کرتا ہے، ایسا کرنے سے دلائل کی تاکید بھی ہوجاتی ہے، اور کلام میں تفنن اور تنوع بھی پیدا ہو جاتا ہے،انسان کی طبیعت تنوع پسند ہے، اللہ تعالیٰ نے جیسے تکوینی آیات یعنی اس حسی اور مادی جہان میں تنوع کا لحاظ رکھا ہے۔ یوں ہی تشریعی آیات یعنی قرآن میں بھی اس کا لحاظ رکھا ہے، آپ حسی جہاں میں دیکھیں تو لمحہ لمحہ مناظر ، موسم اور اوقات بدلتے جاتے ہیں، کہیں پھول، کہیں کا نئے کہیں بلند و بالا پہاڑ کہیں ہموار میدان کہیں دریاؤں کی سرکش موجیں کہیں اڑتی ہوئی خاک ، پھر کبھی سردی کبھی گرمی ، کبھی بہار کبھی خزاں، کبھی صبح کبھی دو پہر اور کبھی شام، یوں ہی اس تشریعی جہاں میں مضامین بدلتے رہتے ہیں، احکام کے ساتھ اخبار، دلائل کے ساتھ قصص و واقعات ، مواعظ کے ساتھ جنت اور جہنم کے مناظر ، بشارت کے ساتھ انذار اور وعدوں کے ساتھ وعیدوں کا بیان ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے، اور کلام ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کی طرف ، ایک منظر سے دوسرے منظر کی طرف ایک قصہ سے دوسرے قصہ کی طرف اور ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف منتقل ہوتا جاتا ہے اور پڑھنے سننے والا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا۔
سورہ ہود میں بھی قرآن کے اس خاص انداز کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ پہلے قرآن کی صداقت اور توحید و رسالت کی حقانیت کے دلائل ذکر کیے گئے ، اس کے بعد حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح ، حضرت لوط ، حضرت شعیب ، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کے قصے بیان کیے گئے ہیں ۔ یہ تمام قصے وحی کے اثبات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی اور قرآن کے معجزہ ہونے کو بیان کرنے کے لیے لائے گئے ہیں ۔ مشرکین مکہ بخوبی جانتے تھے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امی ہیں، آپ نہ قراءت جانتے ہیں نہ ہی کتابت سے آشنا ہیں اور نہ ہی آپ نے کسی کی شاگردی اختیار کی ۔لیکن اس کے با وجود اتنی صحت ، باریکی اور کمال درجہ
کی درستگی کے ساتھ ان واقعات کو بیان کرنا، وحی کے بغیر کیسے ممکن تھا ،خود قرآن نے اس نکتے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے انبیاء اور مرسلین کے واقعات بیان کرنے کے بعد عام طور پر وحی اور نبوت کا تذکرہ کیا ہے، زیر نظر سورت میں حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد آخر میں فرمایا:" یہ ( حالات و واقعات) غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تمہاری طرف بھیجتے ہیں ، اس سے پہلے نہ تو تم ان کو جانتے تھے اور نہ ہی تمہاری قوم جانتی تھی ، پس صبر کرو کہ پرہیز گاروں ہی کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (49: 11)
یوں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کا قصہ بیان کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے: یہ (پرانی) بستیوں کے تھوڑے سے حالات ہیں جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں، ان میں بعض بستیاں تو باقی ہیں اور بعض تہس نہس ہوگئیں ۔‘
(110: 11) 
ان واقعات میں ایک طرف تو عقل فہم اور سمع و بصر والوں کے لیے بے پناہ عبرتیں اور نصیحتیں ہیں، اور دوسری طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہل ایمان کے لیے تسلی اور ثابت قدمی کا سامان اور سبق ہے۔ اسی لیے یہ واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں پوری امت کو حکم ہے، استقامت ایک ایسا حکم ہے، جس کا تعلق عقائد ، اقوال، اعمال اور اخلاق سب ہی کے ساتھ ہے۔ استقامت کوئی آسان چیز نہیں ہے بلکہ انتہائی مشکل صفت ہے جو اللہ کے مخصوص بندوں ہی کو حاصل ہوتی ہے، استقامت کا مطلب یہ ہے کہ پوری زندگی ان تعلیمات کے مطابق گزاری جائے جن کے مطابق گزارنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس آیت سے زیادہ سخت آیت کوئی نازل نہیں ہوئی ، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک موقع پر ریش مبارک میں چند سفید بال دیکھتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بڑھا پا تیزی سے آرہا ہے تو آپ نے فرمایا: مجھے ہود اور اس جیسی دوسری سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے۔
علماء کہتے ہیں کہ آپ کا ارشاد سورہ ہود کی اسی آیت کی طرف تھا جس میں آپ کو استقامت کا حکم دیا گیا ہے۔ علماء ربانیین نے استقامت کو عین کرامت قرار دیا ہے اور صحیح بات تو یہ ہے کہ استقامت سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ یہاں استقامت کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور اس کی اللہ سے دعا کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں بھی تدبر ضروری ہے جس میں فرعون کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا گیا اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے، بے شک دکھ دینے والی اور سخت ، ان ( قصوں) میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو عذاب آخرت سے ڈرتا ہے۔“ (103۔ 1:102)
گویا یہ بتایا گیا کہ جس اللہ نے کل کی نافرمان بستیوں پر عذاب نازل کیا تھا وہ آج بھی سرکش قوموں کو اپنی گرفت میں لے سکتا ہے، اسی طرح آیت 116 کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عام طور پر کسی قوم پر اللہ کا عذاب اس وقت نازل ہوتا ہے جب اس کے اندر دو خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ ایسے دردمند اور ہوشمند لوگ نہیں رہتے جو انہیں فتنہ و فساد سے منع کریں اور دوسری خرابی یہ کہ وہ قوم حد سے زیادہ عیش پرستی اور گناہوں میں مست ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور صبر و استقامت کے پہلو کو مذکورہ واقعات کے بعد اس سورت کی اختتامی آیات میں بیان کیا گیا ہے، آیت۱۲۰ میں ہے: (اے محمد صلی الله علیہ وسلم ) انبیاء کے وہ سب حالات جو ہم تم سے بیان کرتے ہیں، ان کے ذریعے ہم تمہارے دل کو مضبوط رکھتے ہیں اور ان قصوں میں تمہارے



 پاس حق آ گیا ہے اور مومنوں کے لیے نصیحت اور عبرت ہے"۔ 
سورہ يوسف۔ سورہ یوسف مکی ہے، اس میں ۱۱۱ آیات اور ۱۲ رکوع ہیں، چونکہ اس سورت میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس لیے اسے سورۂ یوسف کا نام دے دیا گیا، قرآن کریم میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات میں تکرار پایا جاتا ہے ، لیکن یہ تکرار کھٹکتا نہیں ہے، ہر جگہ نئے الفاظ نئی تعمیر ، کوئی نہ کوئی نیا سبق ، نئی عبرت اور نئی نصیحت پائی جاتی ہے۔ یہ واقعات چھوٹے چھوٹے خوبصورت ٹکڑوں کی صورت میں پورے قرآن میں بکھرے ہوئے ہیں ، ان ٹکڑوں کو جوڑنے سے پورا واقعہ سمجھ میں آتا ہے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے میں تکرار نہیں، یہ واقعہ اول سے آخر تک پورے کا پورا سورۂ یوسف ہی میں مذکور ہے، دوسری سورتوں میں حضرت یوسف علیہ السلام کا نام تو آیا ہے۔ لیکن ان کے واقعہ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی کسی دوسری سورت میں مذکور نہیں ہے، اہل علم نے کہا ہے کہ مخالفین نہ تو قرآن کے "مکرر" قصوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی "غیر مکرر" قصوں کا، حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے کو خود قرآن نے احسن القصص، قرار دیا ہے کیونکہ اس قصے میں جتنی عبرتیں اور نصیحتیں پائی جاتی ہیں وہ شاید ہی کسی دوسرے قصے میں پائی جاتی ہوں، جامعیت کے اعتبار سے دیکھیں تو اس میں دین بھی ہے دنیا بھی ہے، تو حید وفقہ بھی ہے اور سیرت وسوانح بھی، خوابوں کی تعبیر بھی ہے اور سیاست و حکومت کے رموز بھی ، انسانی نفسیات بھی ہیں اور معاشی خوشحالی کی تدبیر میں بھی، حسن و عشق کی حشر سامانی بھی ہے اور زہد وتقوی کی دستگیری بھی، اس میں انبیاء اور صالحین کا تذکرہ بھی ہے اور ملائکہ اور شیاطین کا بھی ، جنوں اور انسانوں کا بھی تو چو پاؤں اور پرندوں کا بھی ، با دشا ہوں ، تاجروں، عالموں اور جاہلوں کے حالات بھی ہیں تو راہ راست سے ہٹ جانے والی عورتوں کی حیلہ سازی ، مکاری اور حیا باختگی بھی ، پھر اس قصہ میں مد بھی ہے، جزر بھی ، گمنامی بھی ہے اور شہرت بھی غربت بھی ہے اور ثروت بھی ، عزت بھی ہے اور ذلت بھی، صبر و ثبات بھی ہے اور بندگی شہوت بھی۔
ایک بڑی خوبی جواس قصہ میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس قصے کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مخالفین کے حال اور مستقبل کا پورا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ، یوسف علیہ السلام کی طرف ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی قریشی بھائیوں نے حسد کیا قتل کے مشورے کیے، آپ کو مکہ چھوڑنا پڑا، تین دن تک غار ثور میں روپوش ہونا پڑا، وہاں سے مدینہ ہجرت فرما گئے ، وہاں بتدریج آپ کو عروج حاصل ہوا۔ یہاں تک کہ آپ پہلی اسلامی مملکت کے سربراہ بن گئے ، مکہ فتح ہوا تو قر یشی بھائی نادم و شرمندہ ہوئے انہیں آپ کے سامنے سرافگندہ ہونا پڑا، اسے حسن اتفاق کہئے یا عمد اور قصد کہ اس موقع پر آپ نے فرمایا: میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی ، جاؤ تم آزاد ہو تم پر کوئی الزام نہیں ۔
سیدنا یوسف علیہ السلام کا قصہ اس قدر مشہور ہے کہ حقیقی مسلمان گھرانوں کے بچوں تک کو از بر ہے اس لیے اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ اجمالی طور پر ہم اسے بیان کر کے ان بصائر و عبر کو بیان کرنے پر خصوصی توجہ دیں گے جو اس قصہ سے ہم کو حاصل ہوتی ہیں، چونکہ سورۂ یوسف بارہویں اور تیرہویں دونوں پاروں میں آئی ہے اور یہ قصہ تسلسل کے ساتھ بیان ہوا ہے، اس لیے ہم اس تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پہلے پورے قصے کا خلاصہ بیان کرتے ہیں اور پھر عبرتوں اور نعمتوں کو بیان کریں گے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام ان میں سے غیر معمولی طور پر حسین تھے ، ان کی سیرت اور صورت دونوں کے حسن کی وجہ سے، والد گرامی بے پناہ محبت کرتے تھے ، محبت کی ایک وجہ آپ کا اور آپ کے بھائی بنیامین کا سب سے چھوٹا ہونا بھی تھا جبکہ دونوں کی والدہ بھی انتقال کر چکی تھیں، چھوٹے بچے سے محبت انسان کی فطرت ہے، حسن رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے سوال کیا گیا کہ آپ کو اپنے بچوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت ہے انہوں نے جواب دیا ''چھوٹے سے جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو جائے ، غائب سے جب تک کہ وہ واپس نہ آ جائے اور بیمار سے جب تک کہ وہ تندرست نہ ہو جائے۔
اس محبت کی وجہ سے بھائی حسد میں مبتلا ہو گئے، وہ اپنے والد کو تفریح کا کہہ کر حضرت یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا، وہاں سے ایک قافلہ گزرا، یوسف علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے اور آپ کو کنویں میں گرادیا ، وہاں سے ایک قافلہ گزرا انہوں نے پانی نکالنے کے لیے کنویں میں ڈول ڈالا تو اندر سے آپ نکل آئے ۔ قا فلہ والوں نی مصر جا کر بیچ دیا ، عزیز مصر نے خرید کر اپنے گھر میں رکھ لیا ، جوان ہوئے تو اس کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوئی ، اس نے برائی کی دعوت دی، آپ نے اس کی دعوت ٹھکرادی ، عزیز مصر نے بدنامی سے دیکھنے کے لیے آپ کو جیل میں ڈلوادیا ، قید خانے میں بھی آپ نے دعوت توحید کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے قیدی آپ کی عزت کرتے تھے، بادشاہ وقت کے خواب کی صحیح تدبیر بتانے کی وجہ سے آپ اس کی نظروں میں جچ گئے ، اس نے آپ کو خزانے تجارت اورمملکت کا خودمختار وزیر بنادیا ۔ مصر اور گردوپیش میں قحط کی وجہ سے آپ کے بھائی غلبہ حاصل کرنے کے لیے مضر آئے، ایک دو ملاقاتوں کے بعد آپ نے انہیں بتایا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں ، پھر آپ کے والدین بھی مصر آ گئے اور سب یہیں آکر آباد ہو گئے ۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے