آئیے ہم سب قرآن پاک میں اپنا تذکرہ تلاش کرتے ہیں


آئیے ہم سب قرآن پاک میں اپنا تذکرہ تلاش کرتے ہیں

خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح : سترہواں پارہ سترہویں تراویح

پاره 17 :
سورة الانبياء :۔
سترہویں پارہ کا آغاز سورة الانبیاء سے ہورہا ہے، یی مکی سورت ہے،اس میں 122/ آیات اور 7 رکوع ہیں، اس سورت  میں تقریبا17انبیائے کرام علیھم السلام کا ذکر آیا ہے،اس لیے اسے انبیاء کی مناسبت سے سورةالانبیاء کہا جاتا ہے
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سورة بنی اسرائیل ، کہف، مریم، طہ اور انبیاء نزول کے اعتبار سے پہلی اور میری قدیم دولت اور کمائی ہیں سورۃ الانبیاء کے اہم مضامین درج ذیل ہیں ۔
(1). سورة الانبیاء کی ابتداءمیں دنیا کی زندگی کے زوال کی تصور کشی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کا وقوع اور حساب کا وقت بہت قریب آ گیا ہے لیکن اس ہولناک دن سے انسان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔
 نہ تواس کے لیے تیاری کرتے ہیں، نہ ہی ایسے اعمال کرتے ہیں جو وہاں کام آئیں گے، ان کے سامنے جب بھی کوئی نئی آیت آتی ہے اس کا مذاق اڑاتے اور اسے جھٹلا دیتے ہیں، وہ جانتے ہی نہیں کہ اس عظمت والے کلام کوکسی سنجیدگی ، وقار اور عاجزی کے ساتھ سننا چاہیے۔
(2)مشرکین آپس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے تھے کہ یہ شخص جو رسالت کا دعوے دار ہے یہ رسول نہیں ہے بلکہ تمہارے جیسا ایک انسان ہے اور یہ دوسرے انبیاء جیسے مادی معجزات کے پیش کرنے سے عاجز ہے، قرآن نے جواب دیا ہے کہ جتنے بھی انبیاء پہلے آئے ہیں وہ سب کے سب انسان تھے، کھاتے پیتے تھے اور دوسرے انسانی تقاضے بھی پورے کرتے تھے ، کوئی ایک نبی ایسا نہیں تھا جو بشری تقاضوں سے پاک ہو، جہاں تک معجزات کا تعلق ہے  تو قرآن سے بڑا معجزہ کون سا ہوسکتا ہے، اس کے وجوه اعجاز میں سے ایک اہم وجہ بھی ہے کہ قرآن کے آئینہ میں مختلف عقائد وخیالات اور اخلاق و اعمال کے لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں، اس میں ہر قوم اور ہر شخص کا تذکرہ موجود ہے، ہمیں صراحتہ اور کہیں اشارة - ارشاد باری تعالی ہے ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے، جس میں تمہارا تذکرہ ہے کیا تم نہیں سمجھتے؟ (آیت:۱۰)
مشہور تابعی اور عرب سردار حضرت احنف بن قیس رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے یہ آیت پڑھ دی، وہ چونک پڑے اور کہا ذراقرآن مجید تو لانا میں اس میں اپنا تذکرہ تلاش کروں اور دیکھوں میں کن لوگوں کے ساتھ ہوں اور کن لوگوں سے مجھے مشابہت ہے، وہ قرآن کے اوراق الٹتے رہے اور مختلف لوگوں کے احوال پڑھتے رہے پہلے انہوں نے وہ آیات پڑھیں جن کے اندر ان سعادت مندوں کا تذکرہ ہے جن میں کسی نے جان اللہ تعالی کی راہ میں قربان کر دی ، کسی نے سارا مال خرچ کر دیا، کوئی رات بھر بستر سے جدا رہتا ہے اور کوئی برائی کے قریب بھی نہیں چلتا، پھر وہ آیات پڑھیں جن میں مشرکوں ، کافروں، منافقوں اور فاسقوں کا ذکر ہے دونوں قسم کی آیات پڑھنے کے بعد وہ کہہ اٹھے کہ اے اللہ! میں ان دونوں گروہوں میں سے نہیں ہوں، پھر انہوں نے سورۂ توبہ کی وہ آیت پڑھی جس میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جن سے گناہ بھی ہوئے اور انہوں نے نیک اعمال بھی کیے ، یہ آیت کریمہ پڑھ
کر وہ پکار اٹھے کہ ہان یہ میرا تذکرہ ہے اور بالآخر انہوں نے قرآن میں اپنا تذکرہ  تلاش کرہی لیا۔ مشرکین کی مضحکہ خیز اور حماقت آمیز حرکتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ قرآن کے بارے میں کسی ایک رائے پر متفق نہ تھے کبھی کہتے کہ یہ سحرہے کبھی کہتے یہ شعر ہے کبھی کہتے یہ خواب پریشاں ہے کبھی اسے  محمدصلی الله علیہ وسلم کا افتراء بتاتے اور کبھی کسی سے سیکھا ہوا کلام قرار دیتے۔ ان کے اضطراب اور اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن خواب پریشان ہے، بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے، بلکہ یہ شاعر اور قرآن شعر) ہے تو جیسے مادی) معجرات پہلے انبیاء لے کرآئے تھے اسی طرح یہ بھیلائے ‘ - (۵)
اس کے بعد قرآن نے مشرکین کو ان ظالم قوموں کے انجام کی طرف متوجہ کیا ہے جنہیں اللہ نے بصارت اور بصیرت رکھنے والوں کے لیے عبرت کا سامان بنادیا، ان تباہ شدہ قوموں نے جب عذاب الہی
کے آثار دیکھے تو بھاگ نکلنے کی کوشش کی لیکن اللہ نے انہیں مہلت نہ دی اور انہیں راکھ کا ڈھیر بنادیا ۔ (15-11)
ان سے کہا گیا اب بھاگنے کی کوشش نہ کرو، بلکہ واپس لوٹو اسی عیش و عشرت کی طرف جس نے تمہیں مدہوش کر رکھا تھا، انہیں بلند و بالا مکانات کی طرف جن پر تمہیں بڑا ناز تھا ، انہیں قصبوں اورمحلوں کی طرف جہاں تم اکڑ اکڑ کر چلا کرتے تھے، وہاں جاؤ تا کہ جب سوال کرنے والے تم
سے نزول عذاب  کے بارے میں سوال کریں تو تم انہیں جواب دے سکو، حضرت قتادہ رحمہ الله عنہ فرماتے ہیں کہ یہ بات انہیں استہزاء اور تذلیل کے طور پر کہی گئی تھی۔
(3). کائنات کی اس کھلی ہوئی کتاب میں رب العالمین کی وحدانیت کے بے شمار دلائل بکھرے ہوئے ہیں، اس کا ئنات میں ارض وسماء و شمس وقمراور لیل و نہار وغیرہ کی صورت میں جو کچھ بھی ہے اسے اللہ نے لہو و لعب کے لیے پیدا نہیں کیا بلکہ حکمت کے تحت اور اس مقصد کے لیے پیدا کیا ہےکہ انسان اس میں غور وفکر کرے اور عبرت حاصل کرے، اس عالم رنگ و بو کی ہر چیز اللہ کی اطاعت اور تسبیح میں لگی ہوئی ہے، سوائے کا فر انسان کے جس نے اپناوتیرہ غفلت اور سرکشی کو بنالیا ہے۔ (20-16)
(4)مشرکین جو کہ اللہ کو چھوڑ کر جمادات کے سامنے جھکتے تھے، انہیں زجر وتوبیخ کی گئی ہے اور ان سے اس پر دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ واقعی یہ بت عبادت کے مستحق ہیں (۲۱ -۲۴) ظاہر ہے ان کے پاس اپنے شرک اور بت پرستی کے جواز پر نہ کوئی عقلی دلیل تھی اور نہ ہی نقلی دلیل تھی۔
(5)چھ دلائل ............ ... مشرکین کے باطل نظریات کی تردید کے بعد ایک خالق اور قادر کے وجود پر چھ دلائل ذکر
کیے گئے ہیں ، یہ سب کے سب تکوینی دلائل ہیں جن کا نظروں سے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور جن کی حقیقت کی بحث اورتحقیق کے بعد اہل علم نے تسلیم کیا ہے۔
پہلی دلیل یہ دی کہ آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، ہم نے دونوں کو جداجدا کر دیا، آسمان کو فرشتوں کا مسکن بنادیا اور زمین کو انسانوں کا ، قرآن نے جو آسمان اور زمین کے جڑے ہونے کا نظریہ پیش کیا اسے نہ عرب جانتے تھے اور نہ ہی اس وقت کی دوسری معاصر ) اقوام میں سے کوئی قوم اس نظریہ سے باخبر تھی، ابھی تقریبا دو سو سال ہونے کہ ارضیات اور فلکیات کے ماہرین طویل تجربات اور مشاہدات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سارے سیارے خواہ وہ سورج اور ستارے ہوں یا زمین اور چاند، یہ سب آپس میں ملے ہوئے تھے، پھر یہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے جبکہ قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ حقیقت بلاخوف تردید بیان کر دی تھی ، اسے قرآن کے معجزہ کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
دوسری دلیل یہ دی کہ ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا ہے، یہ ایک عظیم انکشاف تھا جو کہ ایک امی کی زبان سے کروایا گیا اور آج دنیا بھر کے اہل علم تسلیم کرتے ہیں کہ تمام زندہ اشیاء کے وجود میں پانی کو بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے، پانی کے بغیر زندگی محال ہے، خواہ حیوان ہوں یا درخت اور پودے سب پانی کے محتاج ہیں آپ چاند کو دیکھ لیجئے وہ اپنی بناوٹ میں زمین کے مشابہ ہے لیکن چونکہ وہاں پانی نہیں ہے اس لیے اس کی سطح پر زندگی ناممکن ہے۔تیسری دلیل یہ دی کہ ہم نے زمین پر پہاڑ بنائے تاکہ لوگوں کے بوجھ سے زمین ہلنے نہ لگے، اگر یہ پہاڑ نہ ہوتے تو زمین مسلسل زلزلوں اور اضطرابات کی زد میں رہتی اور زمین کی تہہ میں جو آگ بھڑک رہی ہے اس سے حفاظت نہیں ہوسکتی تھی ، اب بھی دنیا میں کہیں کہیں ایسے آتش فشاں پہاڑ پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے گویا کہ زمین کبھی کبھی سانس لیتی ہے اور اس میں بھڑ کنے والی آگ باہر دکھائی دیتی ہے۔اگر زمین کی جلد سخت نہ ہوتی اور اس پر پہاڑ کا بوجھ نہ ہوتا تو یہ آگ زندگی محال کردیتی۔
چوتھی دلیل یہ دی کہ ہم نے زمین میں کشادہ راستے بنائے ہیں تا کہ لوگ ان پر چلیں ، آپ ہموار میدانوں کو چھوڑیں، پہاڑی سلسلوں ہی کو دیکھ لیجئے جو ملک در ملک چلے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے ان کے درمیان کشادہ وادیاں اور راستے رکھے ہیں جن کی وجہ سے انسانوں کو اپنے اسفار میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
پانچویں دلیل یہ دی ہے کہ ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنایا ہے، اس چھت میں لاکھوں ستارے، سورج اور چاند  جو اپنے اپنے مدار میں انتہائی تیز رفتاری سے گھوم رہے ہیں، نہ ان میں ٹکراو ہوتا ہے اور نہ ہی وہ خلط ملط ہوتے ہیں، اگر ایک ستارہ بھی اپنے مدار سے ہٹ جائے تو نظام عالم میں خلل واقع ہو جائے تو وہ کون ہے جو اس سارے نظام کو سنبھالے ہوئے ہے اورکسی
کو بھی ایک مخصوص رفتار اور راستے سے ادھر ادھر نہیں ہونے دیتا کیا لات و ہبل؟ کیا عزی اور منات؟ نہیں ، رب العالمین کے سوا کوئی نہیں ۔
چھٹی دلیل تکوینی دلائل میں سے یہ دی ہے کہ رات اور دن ، سورج اور چاند کواللہ نے بنایا ہے، یہ سب آسان میں تیر رہے ہیں جیسے مچھلی پانی میں تیرتی ہے، انہیں یکے بعد دیگرے آنے جانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ، اور یہ کبھی رکتے بھی نہیں ، مسلسل چلتے رہتے ہیں ، حرکت ہی میں ان کی زندگی ہے۔ (۳۰۔۳۳) رات اور دن ، سورج اور چاند ، نجوم اور افلاک کی حرکت کا نظریہ قرآن نے اس وقت پیش کیا تھا، جب اس حوالے سے بڑے بڑے باخبر بھی بے خبر تھے، اس قرآنی نظریہ کی علم جدید تائید کر رہا ہے، سائنسدانوں نے تو صدرگاہوں اور جدید ترین مشینوں سے لیس لیبارٹریوں میں برسہا برس کی تحقیق کے بعد اس علمی حقیقت کو دریافت کیا تھامگر سوال یہ ہے کہ وہ نبی امی جسے لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا تھا اس کے پاس وحی کے سوا کون سا راستہ تھا جس
کے ذریع خبریں پا کر وہ پوری دنیا کو باخبر کر رہا تھا، کیا نبی امی کی مبارک زبان سے ان حقائق کا بیان ہونا اس کی صداقت کی دلیل نہیں؟ یقینا ہے مگر اس دلیل کو تسلیم کرنے کے لیے آنکھوں سے تعصب اور عناد کی پٹی اتارنا ضروری ہے۔

(6) .............توحید، نبوت، معاد اور حساب و جزاء پر دلائل دینے کے بعد 17 انبیا علیہم السلام کے قصے ذکر کیے گئے ہیں  حضرت موسی، حضرت ہارون ، حضرت ابراہیم ، حضرت لوط ، حضرت اسحاق حضرت یعقوب ، حضرت نوح، حضرت داود ، حضرت سلیمان ، حضرت ایوب ، حضرت اسماعیل، حضرت ادریس، حضرت زوالکفل، حضرت یونس، حضرت زکریا حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہم السلام (آیت: 19-48)
ان تمام انبیا کی دعوت ایک ہی تھی وہ یہ کہ جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہوگا تو اس کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی ۔‘ (۹۴) ان سترہ انبیاء میں سے چھے کے قصے قدرے تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
(1)حضرت ابراہیم علیہ السلام جنہیں دعوت توحید اور تردید شرک کی کی وجہ سے دہکتی ہوئی آگ میں گرادیا گیا مگر اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔
(2)آپ کے بھتیجےحضرت لوط علیہ السلام جنہیں ایک بدترین قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔ .
(3).. حضرت نوح علیہ السلام جنہیں ان کی طویل عمر اور اللہ تعالی کی راہ میں صبر وتحمل کر نے کی وجہ سے شیخ الانبیا بھی کہا جاتا ہے انہوں نے ۹۵۰ سال تک فریضہ دعوت سرانجام دیا۔
(4)........ حضرت داؤد اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہما السلام کا قصہ جو دونوں نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی ، انہیں روحانی اور مادی دونوں طرح کی نعمتوں سے خوب نوازا گیا تھا۔
(5).. حضرت ایوب علیہ السلام جنہیں مصائب و آلام کے زریعہ آزمایا گیا ، انہوں نے ایسے صبر کا مظاہرہ فرمایا کہ ان کا صبر ضرب المثل بن گیا، ان مصائب و آلام میں وہ مسلسل اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے، ان کی توجہ نے رحمت باری تعالی کو متوجہ کر ہی لیا، ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور دور ابتلا ختم ہو گیا۔
(6)حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ جنہیں مچھلی نے نگل لیا تھا اس کے پیٹ میں انہوں نے اللہ تعالی کو پکارا ، ان کی پکار سنی گئی اور انہیں غم سے نجات مل گئی ، بے شک اللہ تعالی کو پکارنے والوں کو سے نجات مل ہی جاتی ہے۔
(7)........ یاجوج ماجوج جن کا ذکر سورہ کہف میں ہو چکا ہے، یہاں ان کا دوبارہ ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کو کھول دیا جائے گا اور وہ ہر بلندی سے اتر رہے ہوں گے۔
(8)مشرکین اور ان کے اصنام قیامت کے دن دوزخ کا ایندھن بنیں گے اور کوئی بھی کسی کے کام نہیں آ سکے گا۔

(9)......... انبیاء متقدمین کے قصص بیان کرنے کے بعد بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دین اور دنیا میں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہیں، آپ نے اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچادیا
مگر جب ہر قسم کے دلائل پیش کرنے کے بعد بھی لوگ نہ سمجھے تو آپ نے اللہ سے دعا کی ۔ اے میرے پروردگار! حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور ہمارا پروردگار بڑا مہربان ہے، اسی سے ان باتوں میں جوتم بیان کرتے ہو ، مدد مانگی جاتی ہے۔
اللہ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور غزوہ بدر کے مواقع پر مشرکین پرالله تعالی کا تعالی کا عذاب نازل ہو کر رہا۔ سورة الحج :۔
سور حج مدنی ہے، اس میں 78آیات اور10رکوع ہیں، چونکہ اس سورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے لوگوں پر حج کی فرضیت کا اعلان کروایا گیا ہے اس لیے اسے سورہ حج کہا جا تا ہے۔( آیت :26تا 29)
قارئین کرام یہ بات تو بار بار پڑھ چکے ہیں کہ مکی سورتوں میں عام طور پر عقائد سے بحث ہوتی ہے جبکہ مدنی سورتوں میں مسائل و احکام زیر بحث آتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مدنی سورتوں میں عقائد ذکرنہیں کیے جاتے ، مزکورہ بالا اصول محض غالب مضمون کے اعتبار سے ہے، عمومی اورکلی قاعدہ ہرگز نہیں، اور  سورہ حج ہی کو لے  لیجئے یہ اگر چہ مدنی ہے اور اس میں ہجرت و جہاد، حج اور قربانی جیسے شرعی احکام بھی ہیں لیکن اس میں مکی سورتوں والے موضوعات زیادہ ہیں یعنی عقیدہ توحید، وعید وانذار بعث و جزاء، جنت اور دوزخ ، قیامت کے مناظر اور ہولناکیاں ، سورت کی ابتداء اس انداز سے ہوتی ہے کہ دل دہل جائیں اور جسم پر کپکپی طاری ہو جائے ۔ ارشاد ہوتا ہے۔
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو! بے شک قیامت کا زلزلہ بڑاحادشہ ہے تم اس دن دیکھو گے کہ دودھ پلانے والی ہر عورت اپنے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی کا حمل گر جائے گا اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے حالانکہ وہ مد ہوش نہیں ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے اسے دیکھ کر لوگوں کے ہوش و حواس اڑ جائیں گے )“
(اس کے بعد جو اہم مضامین مذکور ہیں درجہ ذیل ہیں )
(1)قیامت کا ذکر کرنے کے بعد بعث ونشور یعنی دوبارہ زندہ ہونے پر دو وجہ سے استدلال کیا گیا ہے۔
پہلا استدلال انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل سے ہے، انسان اپنی پیدائش اور تکوین میں سات مراحل سے گزرتا ہے۔
......... انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کو بلا واسطہ مٹی سے پیدا کیا گیا ، بالواسطے ہرانسان کا مٹی سے تعلق ہے۔........... ہر انسان منی اور نطفہ سے پیدا ہوتا ہے منی خون سے خون غذا سے اور گزا مٹی سے پیدا ہوتی ہے مٹی اور نطفہ کے درمیان زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔
تیسرے مرحلے میں خون لوتھڑا بنتا ہے۔ .. چوتھے مرحلے میں بوٹی بنتی ہے، جس کی بناوٹ کامل بھی ہوتی ہے اور ناقص بھی ہوتی ہے۔
 ........ پانچویں مرحلے میں بچہ پیدا ہوتا ہے جو کہ حواس کے اعتبار سے کمزور ہوتا ہے۔
چھٹے مرحلے میں وہ جوان ہو جا تا ہے اور قوت و عقل کے کمال کو پہنچ جاتا ہے۔
ساتویں مرحلے میں یا تو وہ جوانی ہی میں انتقال کر جاتا ہے یا اتنا بوڑھا ہو جاتا ہے کہ اس پر بچپنےکا گمان ہوتا ہے۔
وہ انسان جوخودان مراحل سے گزرتا ہے وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اللہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں بالخصوص آج کا انسان جو کہ جانتا ہے کہ ایک نطفہ اور جرثومہ میں باری تعالی نے تمام انسانی خواص چھپارکھے ہیں ۔ یہ معلومات رکھنے والا انسان کیسے فناء کے بعد دوسری زندگی کا انکار کر سکتا ہے۔ ..
دوسری دلیل بعث کے امکان پر یہ دی گئی ہے کہ مردہ زمین پر اللہ بارش برساتا ہے تو اس میں زندگی جاگ اٹھتی ہے اور طرح طرح کی چیزیں اگنے لگتی ہیں جو رب مردہ زمین کو زندہ کر سکتا ہے وہ مردہ انسان کو بھی زندہ کرسکتا ہے
(2) کچھ لوگ تو واضح طور پر گمراہ ہیں ۔ (8۔10)
 اور کچھ ایسے ہیں جومذبذب ہیں ، اگر انہیں کچھ دنیوی فائدہ حاصل ہو تو عبادت میں لگے رہتے ہیں اور دین پر جمے رہتے ہیں اور اگر فائدہ کے بجائے کسی آزمائش کا سامنا کر نا پڑ جائے پیٹھ پھیر جاتے ہیں ۔ (11)
ان احمقوں نے گویا ایمان اور دین کو کرنسی سمجھ رکھا ہے جس کے کھرا یا کھوٹا ہونے کا فیصلہ وہ دنیوی نفع اور نقصان کے اعتبار سے کرتے ہیں۔ ...

(3)ملل اور مذاہب کا جائزہ لیا جائے تو انہیں چھ گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
...... مسلمان، جو کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اور قرآن پر ایمان رکھتے ہیں۔اوراصحاب قران ہیں
 .............. یہودی، حضرت موسی علیہ السلام کے امتی ، اصحاب تورات۔
 ......... عیسائی ، حضرت عیسی علیہ السلام کے امتی ،اور اصحاب انجیل ہیں۔
........ صابی کہ یہ فرقہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھا، ستاروں کی عبادت کرتے تھے۔
 ... مجوس کسی آسانی مذہب کے پیروکار نہیں تھے ، سورج، چاند اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔
... مشرک ، بتوں کی پو جا پاٹ کرنے والے ۔
ان میں سے پانچ فرقے شیطان کے ہیں اور صرف پہلا فرقہ رحمن کا ہے، ان فرقوں کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کیا جائے گا۔ (۱۷)
(4) .......... حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے بیت اللہ کی تعمیر کی ، اس کے بعد جبل ابی قیس
پر کھڑے ہوکر حج کا اعلان کیا ، اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا مل سے یہ اعلان ارض وسما میں رہنے والوں تک پہنچا دیا اور ہر کسی نے اسے سن لیا۔ حج اور شعائرحج کی مناسبت سے بھی بتادیا
کہ اللہ کے محارم کی تعظیم ، ایمان کی علامات میں سے ہے، جیسے نیکیوں کے کرنے میں اجرعظیم ہے اسی طرح اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں اور اعمال سے بچنے میں بڑا ثواب ہے۔ (۳۰)
(5) ... حقیقی مومنوں کی چار علامات ہیں: اللہ کا خوف اور مصائب پر صبر۔ نماز کی پابندی، نیک مصارف میں خرچ کرنا۔ (۳۵)
(6)......... جانوروں کی قربانی کا حکم دینے کے بعد بتایا گیا ہے کہ ان کا خون اور گوشت اللہ تک نہیں پہنچتا بلکہ اللہ تک تو بندوں کا تقوی پہنچتا ہے (۳۷)
 جس کے دل میں تقوی ہو گا وہ گناہوں سےبچے گا اور نیک اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے کرے گا۔
(7) ............ مناسک حج کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو جہاد و قتال کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ کفار مسلمانوں کو اللہ کے دین سے اور مکہ میں داخل ہونے سے روکتے تھے، ابتداءمیں اگر چہ صبر اور عفو و درگزر کی تلقین کی جاتی رہی لیکن جب مدینہ میں مسلمانوں کے قدم جم گئے اور ان کی طرف سے تحمل و برداشت کے رویے کے باوجود مشرکین کی شرارتوں اور زیادتیوں کا سلسلہ جاری رہا تو اب انہیں سورہ حج کی اس آیت (۳۹) کے ذر یعے قتال کی اجازت دے دی گئی ، متعدد صحابہ اور تابعین کی رائے یہ ہے کہ تقریبا ستر آیات میں ہاتھ روک کر رکھنے کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس میں قتال کی اجازت دی گئی، (39)
ساتھ ہی جہاد کی حکمت بھی بیان کر دی گئی وہ یہ کہ اگر اللہ جہاد کی اجازت نہ دیتا تو پھر دشمن خودسر ہوجاتے اور اہل کفر مومنوں پر چھاجاتے ، جس کی وجہ سے عبادت خانے ویران ہو جاتے لیکن جب انہیں اینٹ کا جواب پتھر سے ملنے کا ڈر ہوگا تو وہ اس اقدام سے پہلے سو بار سوچیں گے (افسوس کہ آج کفار کو مسلمانوں کی طرف سے نہ اقدام کا ڈر ہے نہ دفاع کا یقین ہے اس لیے وہ جنگلی درندوں کی طرح اسلامی ممالک میں دندناتے پھر رہے ہیں)۔ .
(8)............ دوسرے انبیاء کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد بھی دعوت کا پہنچادینا تھا، (49)
آپ اپنے مقصد بعثت کی تکمیل میں لگے رہے اور مشرکین تمسخر، انکار اور آپ کی دعوت میں شبہات پیدا کرنے کا کام کرتے رہے، ہر نبی کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا آیا ہے، دوسری طرف اللہ کا بھی دستور رہا ہے کہ وہ شیاطین کے پیدا کردہ وساوس اور شبہات کا ازالہ کرتا رہا ہے ۔(۵۲-۵۳)
آج بھی اہل مغرب ، زمانہ قدیم کے شیاطین کے طریقے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اسلامی عقائد اور تعلیمات میں وسوسہ انگیزی کرتے رہتے ہیں)
(9).. قدرت الہیہ کے دلائل بیان کرنے اور کفار کے معبودان باطلہ کی تردید کے بعد دو بارہ تشریعی احکام کی طرف کلام کا رخ مڑجاتا ہے اور اہل ایمان کو جہاد فی سبیل الله ، اقامت صلوۃ اور ادائیگی زکوۃ کا حکم دیا گیا ہے، انہی احکام پر سوره حج کا اختتام ہو جا تا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے