پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ کے پاس ہے !


پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ کے پاس ہے !

خلاصۃ القرآن یعنی آج رات کی تراویح:  اکیسواں پارہ اکیسویںویں تراویح

پاره 21
(سوره عنکبوت کا جو حصہ اکیسویں پارہ میں ہے، اس کے اہم مضامین درج ذیل ہیں)
(1)اکیسویں پارہ کی پہلی آیت جو کہ حقیقت میں عنکبوت کی آیت 45 ہے اس میں کتاب اللہ | کی تلاوت اور نماز کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے ، نماز کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ بے حیائی اور بری | باتوں سے روکتی ہے۔ (45)
حقیقت وہی ہے جو حکیم وخبیر ذات نے بیان فرمائی ہے، جب شرائط و آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے نماز ادا کی جاتی ہے تو اس کے ثمرات و نتائج ضرور حاصل ہوتے ہیں، پھر وہ نمازی اور معاصی کے درمیان رکاوٹ بن جاتی ہے۔ امام ابو العالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نماز میں تین | صفات پائی جاتی ہیں
اخلاص:-
اخلاص نمازی کو نیکی پر آمادہ کرتا ہے
 خشیت:-
خشیت اسے برائی سے روکتی ہے-
ذکر اللہ :
اور ذکراللہ جو کہ قرآن ہے وہ اسے نیکی کا حکم بھی دیتا ہے اور منکرات سے | روکتا بھی ہے، جس نماز کے اندر ان تینوں میں سے کوئی صفت بھی نہ پائی جائے وہ حقیقت میں نماز ہی نہیں ۔ کوئی حرج نہیں اگر ہم کچھ دیر کے لیے رک کر اپنی نمازوں کا جائزہ لے لیں ۔ اس جائزہ سے ہمارے لیے یہ سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ ہماری نماز یں بےجان کیوں ہیں اور مسجدیں نمازیوں سے بھری ہونے کے با وجود گھروں اور بازاروں میں گناہوں کا سیلاب کیوں ٹھاٹھیں مار رہا ہے؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں ، جھوٹ بھی بولتے ہیں، وعدہ خلافی بھی کرتے ہیں ظلم اور لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم رکھتے ہیں، بے پردگی، بد نظری اور فحاشی میں بھی ملوث ہیں ، ان کی گھر ، بازار اور دکان کی زندگی دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ نمازی ہیں ۔ اصل میں وہ نماز اور اس کے اثرات کو مسجد تک محدود رکھتے ہیں اور اپنی انفرادی، معاشرتی ، اجتماعی ، تجارتی ، سیاسی اور اخلاقی زندگی کو نماز سے بالکل الگ تھلگ رکھتے ہیں۔
(2)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی علامات میں سے ایک واضح علامت یہ ذکر کی گئی ہے کہ آپ امی ہیں نہ پڑھنا جانتے ہیں اور نہ لکھنا جانتے ہیں ، اگر لکھنا پڑھنا جا نتے ہوتے تو باطل پرست شک کرتے کہ شاید آپ نے پہلی کتابوں سے یہ علوم حاصل کر لیے ہیں ۔ صداقت کی اس واضح اور زندہ دلیل کے با و جو د منکرین اعتراض کرتے تھے کہ ہم جن معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں وہ آپ کے ہاتھوں کیوں نہیں ظاہر ہوتے ، اللہ فرماتے ہیں کہ کیا قرآن کا معجزہ ان کے لیے کافی نہیں؟
جس کی نظیر پیش کرنے سے ان کے فصحاء اور بلغاء عاجز آ گئے ہیں قرآن تو معجزوں کا معجزه ہے اس کی موجودگی میں کسی دوسرے معجزہ کا مطالبہ عناد اور جہالت کے سوا کچھ نہیں ، ان کی جہالت کا تو یہ حال ہے کہ بسا اوقات وہ خودعذاب کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں ۔ (53۔54)
قرآن کل بھی معجزہ تھا، آج بھی معجزہ ہے لیکن قرآن نے جوعلمی اور سائنسی انکشافات کیے تھے، عرب کے بدو اور شام کے دانشوران کے سمجھنے سے قاصر تھے مگر آج کا انسان انہیں آسانی سے سمجھ سکتا ہے اس لیے نا چیز کی رائے یہ ہے کہ انسانی معلومات اور تحقیقات میں جوں جوں اضافہ ہوتا جائے گا، قرآن کریم کی اعجازی شان اتنی ہی نمایاں ہوتی جائے گی ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کا معجزہ ہونا کل کے مقابلے میں آج زیادہ واضح ہے اور آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے ہوسکتا ہے کل کے عربوں کوتو قرآن کا معجزہ ہونا آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہو مگر عجمیوں کو  کچھ مشکل پیش آتی ہو مگر اشاعت علم کے اس دور میں کیا عرب اور کیا عجم ، کیا ہندی اور کیا یورپی ، ہرشخص اس
کے اعجاز کا اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ وہ اسے پڑھے اور اس میں غور وتد بر کرے۔
(3).. معاندین کا حال بیان کرنے کے بعد متقین کا تذکرہ کیا گیا ہے اور انہیں رب العزت نے ہجرت اور دین کی راہ میں آنے والے مصائب پر صبر کی تلقین کی ہے۔ (56۔59)
جولوگ ترک وطن کرتے ہیں انہیں معاشی ضروریات کی فکر يقينا لاحق ہوتی ہے کہ پردیس میں گھر کا چولہا کیسے جلے گا ، اس لیے تسلی دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ جو الله کمزور جانوروں کو رزق دیتا ہے وہی تمہیں بھی دے گا اس لیے ہجرت کی صورت میں تمہیں فقر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ اس سورت کی آخری آیت میں پوری سورت کا خلاصہ اللہ تعالی نے بیان کر دیا ہے جو لوگ ہمارے لیے مجاہدہ کرتے ہیں ہم انہیں ضرور اپنے راستے دکھا دیتے ہیں اور بے شک الله نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔
جو لوگ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے نفس و شیطان اور دشمنان دین کے ساتھ جہادکرتے ہیں، اللہ تعالی انہیں دنیا اور آخرت میں سعادت کی راہ تک پہنچنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔
 سورة الروم:-
 سوره روم مکی ہے اس میں 60 آیات اور 6رکوع ہیں ، قرآن کریم کے وجوه اعجاز میں سے ایک اہم وجہ اس کی پیشین گوئیاں بھی ہیں اور اس سورت کے شروع میں ایک پیشین
گوئی ہی مذکور ہے جو بعد میں حرف بہ حرف سچی ثابت ہوئی، یہ پیشین گوئی رومیوں کے غالب آنے کے بارے میں تھی، اس پیشین گوئی کا پورا ہو جانا انتہائی غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ تھا،
کیونکہ جس وقت قرآن نے یہ خبر دی تھی اس وقت ایرانی ، رومیوں پر پوری طرح چھائے ہوئے تھے رومی مقبوضات اور نو آبادیان یکے بعد دیگرے ایرانیوں کے ہاتھ آتے جارہے تھے اور اس وقت رومی سلطنت زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی ، سرحدی حالات کے علاوه  اندرونی حالات بھی انتہائی ابتر تھے، پورے یورپ میں غدر مچا ہوا تھا، رومیوں کا بادشاہ ہرقل  زوال کی تیز آندھیوں کے سامنے بے بس ہو کر ہر ذلت اور پسپائی سے سمجھوتہ کر چکا تھا۔ چونکہ ایرانی مشرک اور آتش پرست جبکہ رومی خدا پرست تھے، اس لیے مشرکین مکہ اپنے ہم مذہبوں
کے غلبہ کی خبریں سن کر خوشی سے بغلیں بجاتے تھے، ان مخدوش حالات میں قرآن نے پیشین گوئی کی کہ نو سال کے اندر رومی ایرانیوں پر غالب آجائیں گے، یقینا مشرکین نے قرآن کے اس اعلان اور اطلاع کا خوب مذاق اڑایا ہو گا لیکن ٹھیک نو سال کے اندر قرآن مجید کی یہ عظیم الشان پیش گوئی پوری ہو کر رہی ، رومیوں نے ایرانیوں کے جاہ و جلال کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا اور سلطنت ایران کے قلب میں رومی جھنڈا نصب کر دیا ، مذکورہ پیش گوئی کے علاوہ جو اہم مضامین سوره روم میں بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں: ۔
(1).......... سوره روم اس معرکہ کی حقیقت بتاتی ہے جو حزب الرحمن ( رحمن کی جماعت ) اور حزب الشيطان ( شیطان کی جماعت) کے در میان قدیم زمانہ سے جاری ہے، کفر و ایمان اور حق و باطل
کے درمیان یہ معر کہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ فیصلہ کا دن نہیں آجاتا، اس دن نہ صرف یہ کہ یہ معرکہ ختم ہوجائے گا بلکہ دونوں جماعتوں کو بھی الگ الگ ٹھکانوں پر پہنچا دیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے جس دن قیامت برپا ہوگی وہ الگ الگ فرقے ہو جا ئیں گے ۔ اہل ایمان کو جنت میں جگہ دی جائے گی اور کافروں کو عذاب میں ڈال دیا جائے گا۔
(2).......اللہ تعالی نے اس سورہ میں اپنے وجود اور عظمت و جلال کے ساتھ دلائل ذکر فرماتے ہیں:
 (1).......... اللہ تعالی ایک چیز کو اس کی ضد سے پیدا کرتا ہے، زندہ اور مردہ ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن وہ اپنی قدرت کاملہ سے نطفہ سے زندہ انسان ، انڈے سے بچے ، بیج سے درخت اور اس کےبر عکس بھی پیدا کرتا ہے۔ (19)
(2)...... اس نے انسان کو بے جان مٹی سے پیدا کیا، انسان سے مراد یا تو حضرت آدم علیہ السلام ہیں جو مٹی  سے پیدا کیے گئے تھے یا ہر انسان کیونکہ اس کی غذائی اور جسمانی ضروریات مٹی ہی
سے پیدا ہوتی ہیں ۔ (20)
(3) ............ میاں بیوی کے درمیان ایسی محبت پیدا کر دیتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے
کے جسم کا حصہ ہیں حالانکہ بعض اوقات ، شادی سے پہلے ان کا آپس میں کوئی تعارف ہی نہیں ہوتا۔
(4) ...........اس نے ارض وسماکو اور جوکچھ  ان کے اندر ہے پیدا کیا اور انسانوں کی زبانیں اور رنگ مختلف بنائے کسی کی زبان عربی ہے کسی کی فارسی اور انگریز ی کوئی فرانسی بولتا ہے اور کوئی اردو اور جاپانی ، کسی کا رنگ کالا ہے اور کسی کا سرخ ہے۔ (22)
(5) ............ وہ رات اور دن میں نیند کے ذریعے انسان کو سکون عطا کرتا ہے، انسان کا جسم ایک ایسی مشین ہے جسے اگر مشاغل کے ہجوم میں وقفہ سکون نہ ملے تو یہ مشین خراب ہو جاتی ہے۔ (23)
(6) . آسان پر بجلی چمکتی ہے جس سے دل میں خوف بھی پیدا ہوتا ہے اور امید بھی ، پھر بارش برستی ہے تو مردہ زمین زندہ ہو جاتی ہے۔ (24)
   (7)۔۔۔۔۔۔۔ارض و سماءکا مستحکم نظام وجود باری تعالی کی زندہ دلیل ہے آسمان کی چھت کسی ستون کے بغیر کھڑی ہے اور اس کے مدار میں ستارے دوڑ رہے ہیں مگر نہ اضطراب ہے نہ شور، یوں ہی زمین مسلسل حرکت کر رہی ہے مگر اس کے سینے پر بسنے والوں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔
(3) ............. یہ سورت بتاتی ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ حق کو باطل پر غلبہ عطا کرتا ہے (47) اگر کہیں اہل حق مغلوب ہوں تو انہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انہوں نے باطل کے طور طریقے اپنا لیے ہوں یا باطل پرستوں نے حق کے بعض اصول اختیار کر لیے ہوں ۔
(4)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ . اس سورت میں متعدد ایسے تکوینی دلائل او مشابد مذکور ہیں جو اللہ کی عظمت و قدرت کی
گواہی دیتے ہیں (19۔27اور46۔50) سورت کے اختتام پر ان کفار مکہ کا ذکر ہے جو مردوں کی طرح تھے نہ تو آیات الہیہ کو سنتے تھے، نہ دیکھتے تھے، نہ ہی ان میں غور وفکر کرتے اور نہ ہی اثر قبول کرتے تھے ، ارشاد ہوتا ہے اور ہم نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے اس قرآن میں ہر طرح کی مثال بیان کر دی ہے اور اگر تم ان کے سامنے کوئی نشانی پیش کرو تو یہ کافر کہہ دیں گے کہ تم تو جھوٹے ہو‘‘ (58)
سورہ لقمان:-
 سورة لقمان مکی ہے ، اس میں 34 آیات اور 4رکوع ہیں ، اس سورت کی ابتداء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائمی معجزہ یعنی قرآن کی عظمت کے بیان سے ہوئی ہے جو کہ ہدایت کا ر بانی دستور ہے، اس کے بارے میں انسان دو فریقوں میں تقسیم ہو گئے ایک فریق مومنین کا ہے جو اس صحیفہ ہدایت کی ہر بات کی تصدیق کرتے ہیں ، دوسرا فریق کافروں کا ہے جو اس کی آیت سن کر بر بنا تکبر منہ موڑ لیتے ہیں گویا کہ انہوں نے کچھ  سنا ہی نہیں- (2۔7)
اس کے بعد باری تعالی نے اپنی قدرت اور وحدانیت کے چار دلائل ذکر فرمائے ہیں۔
(1)پہلی دلیل یہ کہ اس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے پیدا کیا ہے حالانکہ ان میں روشن ستارے بھی ہیں ، شمس وقمر بھی ہیں ، سیارے اور کہکشائیں بھی ہیں ۔ فلکیات کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ یہ زمین جس پر ہم زندگی بسر کررہے ہیں اس کی حیثیت اس کے مقابلے میں وہی ہے جو ایک ذرے کی پوری کائنات کے مقابلے میں حیثیت ہے۔
(2)دوسری دلیل وہ پہاڑ ہیں جنہیں زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے اللہ نے گاڑ رکھا ہے۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو یہ ز مین ، ہوا اور پانی کی وجہ سے ادھر ادھر حرکت کرتی رہتی۔
(3)تیسری دلیل ہے شمار قسم کے حیوانات ، مویشی، چو پائے اور حشرات ہیں، ان کے علاوہ فضاؤں اور سمندر میں رہنے والے ہزاروں قسم کے جاندار ہیں جن کی شکلیں، رنگتیں اور خصوصیات
تک اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، انسان کے عجز کا تو یہ حال ہے کہ وہ مکھی اور چیونٹی تک کی مثال نہیں بنا سکتا چہ جائیکہ صاحب فہم و ذ کا، بولتا چلتا انسان بنا سکے۔
(4)چوتھی دلیل یہ کہ وہ آسمان سے بارش برساتا ہے جس کے ذریعے ہرقسم کی نفیس چیز اگاتا ہے۔ (۱۰)
آسمان سے بارش کا برسنا تکوینی عجائب میں سے ایک بڑا عجوبہ اور دلائل قدرت میں سے ایک بڑی دلیل ہے مگر انسان اس پرغور ہی نہیں کرتا -
وہ پانی جس سے سمندر، دریا اور نہریں  بھری ہوئی ہیں یہ سب آسمان ہی سے برستا ہے،
پھر اس پانی سے جو پھل، پھول ، غلہ جات، جڑی بوٹیاں اور درخت اگتے ہیں ان کی تفصیل بیان کرنے کے لیے ہزاروں صفحات یقینا کم ہوں گے۔
(اس کے علاوہ سورہ لقمان میں جو اہم مضامین مذکور ہیں وہ درج ذیل ہیں)
حضرت لقمان جو کہ نبی تو نہ تھے لیکن اللہ تعالی نے انہیں حکمت و دانائی سے نوازا تھا، ان کے اقوال ، عبرت و نصیحت کا خزانہ ہوتے تھے، ان کا کلام در افشانی ، ان کی خاموشی تفکر اور ان کے ارشادات موعظت ہوتے تھے۔ اللہ تعالی نے ان کی وہ پا نچ وصیتیں ذکر فرمائی ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں، یہ بڑی قیمتی اور جامع نصیحتیں ہیں جو کہ عقیدہ ، عبادت، سلوک اور اخلاق سےتعلق رکھتی ہیں
(1)پہلی وصیت :یہ ہے کہ اے بیٹا اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا کیونکہ شرک بہت بڑا ظلم ہے اور اس کا انجام تباہ کن ہے۔ اس کے بعد خوداللہ تبارک و تعالی والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتےہیں۔
(2)........... دوسری وصیت: آخرت کے بارے میں ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے علم سے کوئی چیز مخفی نہیں، گناہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اور کسی پوشیدہ جگہ پر کیوں نہ کیا گیا ہو اللہ اسے قیامت کے دن لے آئے گا۔
(3).. تیسری وصیت: اللہ کی طرف توجہ کے بارے میں ہے، الله کی طرف توجہ کی کئی صورتیں بیان فرمائیں یعنی نماز کو کامل طریقے سے ادا کرو، لوگوں کو ہر خیر کی دعوت دو اور ہر شر سے منع کرواور مصائب و ابتلا پر صبر کرو۔
(4)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. چوتھی وصیت: میں اپنے بیٹے کو تکبر اور فخر سے منع فرمایا۔ • (5)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پانچویں وصیت: میں بیٹے کو اخلاق کریمہ کی طرف متوجہ کیا یعنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور بولتے وقت اپنی آواز دھیمی رکھو۔ (12۔19)
مشرکین کی تردید ہے کہ وہ تو حید کے دلائل کا مشاہدہ کرنے کے با وجود شرک پر اصرار کرتے ہیں حالانکہ اگر خود ان سے سوال کیا جائے کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ بھی اللہ کے خالق ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔
سورت کے اختتام پر بتایا گیا ہے کہ پانچ چیزوں کا علم صرف اللہ کے پاس ہے قیامت کب آئے گی؟ بارش کہاں اورکتنی برسے گی ؟ شکم مادر میں بچہ کن اوصاف کا حامل ہے؟ انسان کل کیا
کرے گا؟ اور موت کب اور کس جگہ آئے کی؟ آن پانچ چیزوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ۔ ان پانچ مغیبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی چابیاں قرار دیا ہے۔
 سورة السجدة :۔۔۔۔۔۔۔
سورہ سجدہ مکی ہے، اس میں 30 آیات اور3 رکوع ہیں ۔ (اس سورت میں جو اہم مضامین بیان ہوئے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔)
(1) سورت کی ابتداء میں قرآن کی حقانیت کا بیان ہے جس کا اعجاز واضح ہے، اس کی صداقت کے دلائل روشن ہیں، اس کا انداز بیان انسانی کلام سے بالکل الگ ہے لیکن اس کے با و جو د کفار مکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے تھے کہ آپ نے یہ کلام خود گھڑ لیا ہے۔(1۔3)
(2)یہ سورت اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کے دلائل بیان کرتی ہے یعنی اسمان اور زمین کو اسی نے پیدا کیا، ہر کام کی تدبیر وہی کرتا ہے، پانی کے ایک حقیر قطرے سے انسان کو اسی نے تخلیق کیا(5۔9)
 شاید انسان اپنی تخلیق کے مراحل کے بارے میں غور و فکر ہی نہیں کرتااس نے کیسے مٹی سے پانی ، نطفہ سے لوتھڑا، لوتھڑے سے بوٹی اور بوٹی سے ہڈی تک کے مراحل طے کیے پھر کیسے انتہائی پرکشش صورت اور متناسب قد و قامت والا انسان بن گیا۔
(3)یہ سورت مجرموں اور مومنوں دونوں کا حال بتلاتی ہے کہ مجرم قیامت کے دن سر جھائے کھڑےہوں گے ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی ، وہ آرزو کریں گے کہ کاش! ہمیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم نیک اعمال کریں ۔
دوسری طرف مومنین کے بارے میں بتلایا گیا کہ وہ دنیا میں اللہ کے سامنے جھکے رہتے ہیں، راتوں کو ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں، وہ اللہ کے عذاب سے ڈرتے بھی ہیں اور اس کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں ۔ علا وہ ازیں اللہ کے دیے ہوئے اموال کو اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں فرمایا گیا کوئی متنفس نہیں جانتا کہ ان کے لیے آخرت میں ) آنکھوں کی کیسی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ ان اعمال کا صلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔“ (12۔17)
انہوں نے ریا اور دکھاوے کے بغیر چھپ چھپ کر اعمال کیے تھے، اللہ تعالی نے ان کے لیے ایک نعمتیں چھپا رکھی ہیں جو کسی کے حاشیہ خیال میں بھی کبھی نہیں آئیں ، ویسے بھی جنت کی نعمتوں کی صحیح حقیقت کسی کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتی ۔ دنیا کی نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے ساتھ صرف لفظوں میں مشترک ہیں ۔ حقیقت کے اعتبار سے ان کے درمیان زمین آسمان سے بھی کہیں زیادہ فرق ہے۔
سورت کے اختتام پر حضرت موسی علیہ السلام کو تو رات دیئے جانے کا ذکر ہے جو کہ اس | بات پر تنبیہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسی علیہ السلام کی رسالت میں مشابہت پائی جاتی ہے۔
سورة الاحزاب:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 سوره احزاب مدنی ہے، اس میں 73 آیات اور 9رکوع ہیں ۔ اس سورت میں تین موضوعات سے بحث کی گئی ہے یعنی اجتماعی آداب ، تشریعی احکام اور بعض غزوات کا بیان مثلا غزوہ احزاب ، غزوہ بنی قریظہ اور ان دونوں غزوات میں منافقین کا کردار اور ان کی حالت۔

(اس سورت کے اہم مضامین درج ذیل ہیں:۔)
(1)پہلی دوآیتوں میں اپنے نبی کے واسطہ سے نبی کی امت کو ایسے چار امور کا حکم دیا گیا ہے جو کہ حقیقت میں فلاح اور سعادت کے عناصر ہیں ۔ پہلا یہ کہ اللہ سے ڈرتے رہیں ۔ دوسرا یہ کہ کافروں اور منافقوں کی آراء کا اتباع نہ کریں ۔ تیسرا یہ کہ وحی الہی کی اتباع کرتے رہیں ۔ چوتھا یہ کہ اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کر یں ۔ یہاں یہ نکتہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالی نے پورے قرآن میں کہیں بھی ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو یا"محمد'' کہہ کر نہیں پکارا، یہاں بھی یا ایها النبی کہہ کر خطاب کیا گیا ہے جب کہ دوسرے انبیاء کو یا آدم ، یا نوح، یا موسی ، یا عیسی اور یا زکر یا کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔
(2)زمانہ جاہلیت کے بعض معتقدات اور عادات کی تردید کی گئی ہے جن میں سے بعض عقلی اعتبار سے باطل تھیں اور بعض شرعی اعتبار سے قبیح تھیں ۔
 یہاں آیت نمبر4 میں تین جاہلانہ خیالات اور تصورات کی تردید کی گئی ہے۔
ان کا یہ خیال تھا کہ بعض لوگوں کے سینے میں دو دل ہوتے ہیں ، اس خیال کے رد میں فرمایا گیا کہ اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے‘ دل تو بس ایک ہی ہوتا ہے یا اس میں ایمان ہو گا یا کفر ہوگا، ایک ہی دل میں کفر اور ایمان دونوں جمع نہیں ہو سکتے ، اس سے ان منافقین کی بھی تردید ہوگئی جنہوں نے کفر اور ایمان کے درمیان ایک تیسرا درجہ نفاق کا بھی تجویز کر رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔... جا ہلی ظہار یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو انت على كظهرامی ( تم میرے اوپر ایسے ہو جیسے میری ماں کی پشت ) کہہ دیتا تو ان الفاظ کے کہنے سے اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہو جاتی تھی لیکن قرآن نے بتایا کہ کفارہ دینے سے بیوی حلال ہوجائے گی۔
........ اسلام سے قبل منہ بولے بیٹے کا نام حقیقی بیٹے جیسا ہوتا تھا، قرآن نے اس غلط تصور کی تردید کی(4)
۔۔۔۔۔...جب متبنی ( منہ بولا بیٹا ) کے تصور کی تردید ہوئی اور بتادیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے حقیقی والد کا حکم نہیں رکھتے تو پھر یہ اعلان کیا گیا کہ آپ کی ابوت ( باپ ہونا ) ساری امت کے لیے عام ہے اور آپ کی ازواج مطہرات ساری امت کی روحانی ما ئیں ہیں ، ان کا ادب واحترام واجب ہے اور ان کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔
............ اس کے بعد انیس آیات میں غزوۂ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کی تفصیل ہے۔ غزوہ احزاب شوال ۵ ھجری میں ہوا جب مشرکین کے دس یا پندرہ ہزار جنگجوؤں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا، یہ جنگجو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے، یہود بنی نضیر اور یہود بنی قریظہ جن کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کا اور ایک دوسرے کے دشمن کے ساتھ تعاون نہ کرنے کا معاہدہ تھا۔ انہوں نے اس معاہدہ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی اور ابوسفیان کے ساتھ تعاون کیا مسلمان صرف تین ہزار تھے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی رائے پرعمل کرتے ہوئے مدینہ کے شمال مغرب میں جہاں سے دشمن کے حملہ آور ہونے کا خطرہ تھا ، خندق کھودی گئی ، اسی لیے اسے غزوہ خندق بھی کہا جاتا ہے اورغزوہ احزاب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ جس لشکر نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی اس میں مختلف جماعتیں اورقبائل شریک تھے، ان جنگجوؤں نے تقریبا ایک ماہ تک مد ینہ کا محاصرہ کیے رکھا پھر نعیم بن مسعود غطفانی کی کوششوں سے یہود اور قریشی اور غطفانی لشکر کے درمیان پھوٹ پڑ گئی ۔ اللہ کی طرف
سے انہی دنوں طوفانی آندھی آ گئی ، جس کی زد میں ان کے خیمے اکھڑ گئے جانور بدک گئے اور ان کے عزائم پست ہو گئے، پھر قریش اور غطفان اور دوسرے قبائل اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے بغیر راہ فرار اختیار کر گئے ۔ ابوسفیان اور اس کے حمایتیوں کے چلے جانے کے بعد مسلمانوں نے بنی قریظہ کا محاصرہ کر لیا اور انہیں ان کی عہد شکنی کی عبرتناک سزا دی ۔ اللہ تعالی نے مذکورہ آیات میں ان دونوں غزوات کا حال اور منظر بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو بشارت سنائی ہے کہ عنقریب انہیں مزید فتوحات حاصل ہوں گی۔ چنانچہ مسلمانوں نے نہ صرف فارس اور روم بلکہ بیسیوں ملک اور سینکڑوں شہر فتح کیے اور ان شاء اللہ قرآن کے ساتھ تعلق مضبوط اور دل میں ایمان راسخ ہو جانے کے بعد پورے عالم کو فتح کریں گے )۔
یوں رب تعالی کی یہ پیشین گوئی پوری ہو کر رہے گی کہ میں نے اپنے آخری رسول کو اس لیے بھیجا ہے کہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دوں ۔ یہ غلبہ یقینی ہے اور کسی صاحب ایمان کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے، بظاہر حالات مخالف ہیں لیکن جب اس پیشین گوئی کے پورا ہونے کا وقت آئے گا ، حالات بھی موافق ہو جائیں گے اور وہ افراد بھی مہیا ہوجائیں گے جو اپنے اخلاق واعمال کے اعتبار سے پہلی صدی کے مسلمانوں کی یاد تازہ کر دیں گے ۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ دور کے مسلمان ، ایمان ، اعمال، اخلاق، معاملات اور کردار کے اعتبار سے فاتح عالم بننےکی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لیکن کیا اسلام اور قرآن بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتے ، رب کعبہ کی قسم! ان کے اندر عالم کو اور فاتحین عالم کو فتح کرنے کی پوری پوری صلاحیت ہے اور کون و مکان کے مالک کی قسم دنیا یی نظارہ بہت جلد دیکھے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے