خلاصة القرآن یعنی آج رات کی تراویح :دسواں پارہ دسواں تراویح


خلاصة  القرآن یعنی آج رات کی تراویح :دسواں پارہ دسواں  تراویح

پارہ :١٠

سورہ انفال کا کچھ حصہ دسویں پارہ میں بھی آیا ہے انفال نفل کی جمع ہےاور نفل مال غنیمت کو کہتے ہیں اس سورت کی پہلی آیت میں ایک ایسے ہی سوال کا جواب دیا گیا تھا جو مال غنیمت کے بارے میں کیا گیا تھا- دسویں پارہ کے شروع میں اس کی مزید تفصیل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے قرابت داروں- یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دیا جائے گا جبکہ چار حصے مجاہدین کے درمیان تقسیم کۓ جائیں گے
مال غنیمت کی تقسیم کا حکم  بتانے کے بعد دوبارہ غزوۂ بدر کی تفصیل ہے جس میں قرآن مجید نے اپنے خاص اسلوب میں اس کی یوں منظر کشی کی ہے کہ گویا سامعین اپنی آنکھوں سے اس غزوہ کا حال دیکھ رہے ہوں فرمایا:"اس وقت کو یاد کرو جب تم قریب کے ناکے پر تھےاور وہ دور کے ناکے پر تھےاور قافلہ تم سے نیچے اتر گیا تھا"-(٤٢)
غزوۂ بدر کے حوالے سے جو باتیں یہاں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے خاص خاص باتیں درج ذیل ہیں

(١)جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوۓ تو کفار نے مسلمانوں کی تعداد بہت کم سمجھی اور یوں ہی مسلمانوں کو کفاربہت کم دکھائی دیۓ اور ایسا اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کا ہونا طے فرمادیا تھااور اللہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی فریق بھی دوسرے کی کثرت سے مرعوب ہو کر راہ فرار اختیار کر جائے-(٤٣-٤٤)
(٢) اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں مسلمانوں کی نصرت کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ کی نصرت کےحصول کے چار عناصر ذکر فرماۓ ہیں:
میدان جنگ میں ثابت قدم_
 اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا_
آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑے سے بچ کر رہنا_
دشمن سے مقابلہ کے وقت ناموافق امور پر صبر کرنا_(46)
(۳)کامیابی کے چار عناصر بتانے کے ساتھ ساتھ مشرکین کی طرف فخر وغرور اور دکھاوا کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔
(۴) غزوۂ بدر میں شیطان مشرکین کے سامنے ان کے اعمال کو مزین کر کے پیش کرتا رہا- دوسری جانب مسلمانوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوۓ جو کافروں کے چہروں اور پیٹھوں پر سخت ضربیں لگاتے تھے-(٤٨-٥١)
مفسرین فرماتے ہیں کہ اگر چہ یہ آیات غزوۂ بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہیں لیکن مفہوم کے اعتبار سے عام ہیں- چنانچہ موت کے وقت ہر کافر کی پٹائی لگتی ہے
(۵) قریش پر غزوۂ بدر میں جو آفت آئی اور وہ ذلیل وخوار ہوئے تو اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دستور یہ ہے کہ جب کوئی قوم شکر کی بجائے کفر اور اطاعت کے بجائے معصیت شروع کر دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا معاملہ بدل دیتا ہےاور اسے نعمت کے بجائے نکبت اورراحت کی جگہ مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے-
(۶) غزوۂ بدر کے پس منظر میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ دشمنوں سے مقابلہ کے لئے مادی- عسکری اور روحانی تینوں اعتبار سے تیاری مکمل رکھیں-ظاہر ہے غزوۂ بدر میں مادی تیاری مکمل نہ تھی یہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کا نتیجہ تھا کہ مادی اور عسکری اعتبار سے کمزوری اور دونوں لشکروں میں بے پناہ تفاوت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی-لیکن آئندہ کے لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیاہے کہ وہ حالات اور ضروریات کے مطابق بھر پور تیاری کریں تاکہ ان کے اسلحہ اور سازوسامان کو دیکھ کر دشمن پر رعب طاری ہو جائےاور وہ اسلامی لشکر کے سامنے آنے کی جرأت ہی نہ کریں-
ارشاد باری تعالیٰ ہے"جہاں تک ہوسکےتم ان سے مقابلہ کے لئے تیار رکھو قوت بھی اور گھوڑوں کا پالنا بھی اس کے ذریعے تمہاری دھاک بیٹھی رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اوران کے سوا دوسرے لوگوں پر جنہیں تم نہیں جانتے اور اللہ انہیں جانتا ہے-(٨:٦٠)
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مادی قوت و طاقت کی اہمیت کے باوجود روحانی قوت کا انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن سے دو بدو ہونے کے لئے روحانی اور ایمانی قوت تمام دوسری قوتوں اور وسائل کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتی ہے یہی وہ قوت ہے جو کمزور کو طاقتور بناتی ہے جو چھوٹے کو بڑے لشکر کے ساتھ ٹکرانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے جو شہادت کی راہ پر چلنا آسان کرتی ہے ایمانی قوت رکھنے والوں کو ایسا رعب عطا کیا جاتا ہے جو بڑے بڑے سور ماؤں کو لرزہ براندام کردیتا ہے اپنی اس اجتماعی کمزوری کا کیسے اعتراف کیا جائے کہ آج کے مسلمان فکری،علمی،مادی اور روحانی ہر اعتبار سے کمزوری اور ضعف کا شکار ہیں-
(۷) جہاں مسلمانوں کوجنگ کے لئے ہمہ وقت مستعد رہنے کا حکم دیا گیا ہے وہیں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ" اگر یہ (کافر)صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی ان کی طرف مائل ہو جاؤ"
(8:٦١)
اس آیت سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اگر صلح میں مسلمانوں کی مصلحت ہو تو صلح کر لینی چاہیے جنگ کی تیاری اور جذبہ جہاد کا مطلب ہرگز نہیں کہ بہر صورت جنگ ہی کرنا ضروری ہے اور مصالحت سے دور رہنا ہی اللہ کا حکم ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صلح کا راستہ اختیار فرمایا ہے_
(۸) جنگ بدر میں ستر مشرکین گرفتار ہوئے تھے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عادت کے موافق ان کی قسمت کا فیصلہ کر نے کے لئے صحابہ کرام سے مشورہ کیاحضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کر دیا جائے _ جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مشورہ دیا کہ انہیں فدیہ لے کر آزاد کر دیا جائے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی راۓ کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں کو رہا کر دیا اس پر اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوا فرمایا گیا"اگر اللہ کا حکم پہلےنہ آچکا ہوتا تو جو فدیہ تم نے لیا ہے اس کے بدلے تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا"(٨:٦٨)

اس قسم کی آیات جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عتاب فرمایا گیا ہے قرآن کی صداقت اور حقانیت کی دلیل ہیں اگر بالفرض قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا تو ایسی آیات کو قرآن میں ہرگز جگہ نہ ملتی-  یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ عتاب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس فدیہ کے کھانے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ اسے حلال اور پاکیزہ قرار دیا جو مشرک قیدیوں سے لیا گیا تھا- سورت کے اختتام میں ان لوگوں کو ایک دوسرے کا رفیق قرار دیا گیا ہے- جو اللہ کی رضا کے لئے ہجرت اور جہاد کر تے ہیں ایک دوسرے کو ٹھکانہ فراہم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتےہیں- سورت کی ابتدا جہاد اور غنیمت کے ذکر سے ہوئی تھی اور اختتام نصرت اور ہجرت کے ذکر پر ہو رہا ہے گویا کہ یہ سورت ابتداء سے اختتام تک جہاد ہی کے بیان پر مشتمل ہے-
سورۃ التوبہ  سورۂ توبہ مدنی ہے اور اس میں١٢٩ آیات اور ١٦ رکوع ہیں- اس سورت کا دوسرا نام سورہ برأت ہےاور برات کا معنی(بیزاری)کے ہیں - چونکہ اس سوت میں عہد پیمان سے بیزاری اور توڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے اس سورت کو سورہ برات اور سورہ توبہ کہا جاتا ہے دیکھیے آیت نمبر (1)
اس سورت کا پہلا لفظ ہی" برأۃ" ہے یہ سورت ٩ ہجری میں اس وقت نازل ہوئی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رومیوں کی سر کوبی کے لئے نکلے تھے-  اس غزوہ کو غزوۂ تبوک کےنام سے یاد کیا جاتا ہے- یہ غزوہ سخت گرمی کے زمانے میں پیش آیا تھا سفر بھی بہت طویل تھا- پھل پکے ہوئے تھے جو کہ انکا اہم ذریعہ معاش تھے اور مقابلہ ایک ایسی سلطنت سے تھا جسے اپنے وقت کی سپر پاور ہونے کا دعویٰ تھا- مختصر یہ کہ یہ غزوہ اہل ایمان کے لئے بڑی ابتلاء اور ان کے صدق و اخلاص کا امتحان تھا اس کے ذریعے مومنوں اور منافقوں کے درمیان امتیاز بھی ہو گیا- حقیقت میں سورۂ توبہ کے بنیادی ہدف دو ہی ہیں:
 ایک مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ جہاد کے احکام بیان کرنا _
دوسراغزوۂ تبوک کے پس منظر میں اہل ایمان اور اہل نفاق کے درمیان واضح فرق کر دینا-
جہاں تک احکام جہاد کا تعلق ہے تو تمہید کے طور پر ان معاہدات سے برأت کا اعلان کیا گیا جو مسلمانوں نے مشرکین کے ساتھ کۓ تھے ان کے لئے انتہائی مدت چار ماہ مقررکر دی گئی- یوں ہی مشرکوں کو بیت اللہ کا حج کرنے سے بھی منع کر دیا گیا- کیوں کہ یہ لوگ کئی بار عہد شکنی کے مرتکب ہو چکے تھے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے یہود کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے چلے آرہے تھے- مشرکوں سے برأت کا اعلان کر نے کے بعد اہل کتاب کے ساتھ بھی قتال کی اجازت دی گئی ہے کہ مکر و فریب'عہد شکنی' منافقت اور جھوٹ ان کی فطرت میں رچ بس چکا تھا یہود کا قبیلہ بنو قریظہ ہو یا بنو نضیر اور بنو قینقاع انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا تقریباً بیس آیات میں ان کے باطنی خباثت اور دسیسہ کاریوں کو طشت ازبام کیا گیا ہے اور مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ"اہل کتاب میں سے جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور نہ ہی روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کی ہیں اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہو کر جزیہ دیں"-(٦٩)
جہاں تک اس سورت کے ہدف کا تعلق ہے تو منافقوں کی علامات اور بد باطنیوں کواس انداز میں بیان کیا گیا ہےکہ وہ سب کے سامنے ذلیل اور رسوا ہو کر رہ گئے_اسی لئے اس سورت کاایک نام"سورۃ فاضحہ"بھی ہے
یعنی رسوا کرنے والی سورت اس سورت کے نزول سےقبل  انہوں نےاپنے آپ کو اسلام کے زبانی دعوے کےپردےمیں چھپا رکھا تھا لیکن اس سورت نے ان کے باطن کو یوں ظاہر کیا کہ ہر کسی نے جان لیا کہ کون منافق ہے اور کون مخلص مومن ہے-
منافقوں کی کمزوریوں اور عیوب کو نمایاں کرنے کا ظاہری سبب غزوۂ تبوک بنا-  جہاد تو ویسے بھی جان کو جوکھوں میں ڈالنے والی عبادت ہے-  جبکہ غزوۂ تبوک میں مادی اعتبار سے اپنے وقت کی سب سے بڑی فوج کے ساتھ مقابلہ تھااور وہ بھی شدید گرمی اور فقر و فاقہ کے دنوں میں_
اس غزوہ کے پس منظر میں منافقوں سے جو حرکتیں سرزد ہوئیں ان کاانداز ذیل کی چند جھلکیوں سے لگایا جا سکتا ہے، یہ جھلکیاں سورۂ توبہ کی بعض آیات ہی سے ماخوذ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے پیشن گوئی فرمائی تھی کہ"منافق قسمیں کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم طاقت رکھتے تو آپ کے ساتھ ضرور (تبوک کی طرف) نکل پڑتے،"(٩:٤٢) چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آۓ تو منافقوں نے جھوٹے اعزار پیش کۓ_
سواۓ چند کے باقی تمام مخلص مسلمان فوراً غزوۂ تبوک میں شرکت کے لئے تیار ہو گۓ جب کہ منافقوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے مدینہ میں رہنے کی اجازت حاصل کر لی_
 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان منافقوں کا جہاد میں نہ نکلنا ہی بہتر تھا،اگر بالفرض وہ شرکت کرتے تو مسلمانوں کے درمیان فتنہ فساد پھیلانے کے سوا کچھ بھی نہ کرتے،(٩:٤٧)
ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے مضحکہ خیز عذر پیش کر کے اپنے لۓ استثناء حاصل  کر نے کی کوشش کی، مثال کے طور پر جد بن قیس کے نام کے ایک صاحب کہنے لگے" یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں دل کا بڑا کمزور ہوں جبکہ رومیوں کی عورتیں گورے رنگ کی ہوتی ہیں،مجھے ڈر ہے کہ اگر میں جہاد میں گیا تو انہیں دیکھ کر فتنہ میں مبتلا ہو جاؤں گا_"(٩:٤٩)
ان کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے بغض اور حسد کے سوا کچھ نہیں_(٩:٥٠) اگر مسلمانوں کو فتح حاصل ہو یا مال غنیمت ہاتھ آۓ تو پریشان ہو جاتے ہیں اور اس کے برعکس کسی حادثے یا مصیبت کا سامنا کرنا پڑجاۓ  تو انہیں بے پناہ خوشی ہوتی ہے
وہ قسمیں کھا کر یقین دلاتے ہیں کہ اے مسلمانو! ہم تم میں سے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے، (٩:٥٦)
 ان کی نظریں صرف مال پر ہوتی ہیں اگر مل جائے تو خوش ہو تے ہیں،اگر محروم رہیں تو اللہ تعالیٰ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی طعنہ زنی سے باز نہیں آتے_
چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر کسی کی بات سن لیا کرتے تھے اس لئے وہ آپ کے بارے میں کہتے تھے کہ آپ تو"‌نرےکان" ہیں_(٩:٦١)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں انہیں مستقل یہ اندیشہ لگا رہتا تھا کہ کہیں ایسی سورت نازل نہ ہو جائے جو انکا پول کھول دے اور انکے قلبی راز فاش کر دے(٩:٦٤)

ایک دوسرے کو برائی کا حکم دینا،نیکی سے روکنا اور بخل کرنا ان کی نمایاں صفات میں سے ہیں_(٩:٦٧)
ان منافقین کی صفات اور اعمال،
ماضی کے کفار جیسے ہیں_(٩:٦٩)
ان کے دل اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کے ذکر و شکر اور اس کی عظمت سے یکسر خالی ہیں،ظاہر ہے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت نہیں ہو گی اس کے لئے معصیت اور نافرمانی بہت آسان ہو جائے گی_
منافقوں کو کفار کے ساتھ تشبیہ دینے کے بعد قوم نوح،عاد،ثمود، قوم ابراہیم اصحاب مدین اور قوم لوط کا ذکر کیا گیا ہے_
دسویں پارہ کے آخر تک منافقوں ہی کا تذکرہ ہوا ہے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہاں تک فرمادیا ہے کہ اے میرے پیغمبر!"اگر آپ ان کے لئے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ ان کی ہرگز مغفرت نہیں کریں گا،اور یہ بھی فرمادیا کہ اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو آپ اس کی کی نماز جنازہ ادا نہ فرمائیں_(٩:٨٤)
منافقوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان مخلص مسلمانوں کا تذکرہ فرمایا ہے جن میں سے کوئ بڑھاپے،
کوئی شدید بیماری اور کوئی سامان جہاد نہ ہونے کی وجہ سے جہاد میں شرکت نہ کرسکا،ان لوگوں کے جذبات کا یہ عالم تھا کہ جہاد میں شرکت نہ کرسکنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسو
امڈ امڈ آتے تھے اس لیے فرمایا گیا کہ مخلصین کی اس جماعت پر کوئی گناہ نہیں ہے_

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے