خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : ساتواں پارہ ساتویں تراویح


خلاصة القرآن يعني آج رات كي تراويح : ساتواں پارہ ساتویں تراویح

 حضرت مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمة الله عليه
پارہ 7
حقیقی نصاری:
چھٹے پارے کی آخری آیت میں بتایا گیا تھا کہ جو حقیقی نصاری ہیں وہ اپنے دلوں میں مسلمانوں کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھتے تھے
حبشہ کے نصاری: اب ساتویں پارے کے شروع میں بھی بعض  نصاریٰ ہی کا ذکر ہے جو قرآن سن کر اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بے اختیار ان کے آنکھیں چھلکنے لگتی ہیں 83 85
یہ آیات حبشہ کے ان نصاری کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن کے ملک میں مسلمان ہجرت کر کے گئے تھے انہوں نے جب مسلمان کی زبان سے قرآن سنا تو روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں اور ان کی ڈاڑھیاں آنسووں کی رم جھم سے تر ہو گئی
اللہ کے کلام کی تاثیر: اصل میں اللہ کے کلام میں تاثیر ہی ایسی ہے کہ اگر ایسے دل اسےسنیں  جو بغض اور کینہ سے خالی اور خوف وحشت سے معمور ہو تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسو چھلک ہی پڑتے ہیں
شرعی مسائل : حقیقی نصاری کے کلام اللہ سے متاثرھونے اور رونے دھونے کا حال بتانے کے بعد شرعی مسائل ذکر کئے گئے ہیں کیونکہ سورہ مائدہ مدنی سورت ہے 
(1)عقائد سے بحث : جیسے مکی سورتوں میں عام طور پر عقائد سے بحث ہوتی ہے
(2)شرعی امور سے بحث : یونہی مدنی سورتوں میں کہیں تفصیل کے ساتھ اور کہیں اختصار کے ساتھ تشریعی امور سے بحث ہوتی ہے (یہاں جو مسائل واحکام ذکر کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں)
(1)حلال و حرام کا اختیار : کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے اس لئے مسلمان کو حکم دیا گیا ہے کہ جن پاکیزہ چیزوں کو اللہ تعالی نے حلال قرار دیا ہے تم نہ تو انہیں حرام سمجھو اور نہ ہی ان کے استعمال سے احتراز کرو 87 88
اعتدال کا دین : اصل میں اسلام اعتدال کا دین ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط نہ غلو اور نہ ہی کمی کوتاہی اس لئے اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ پاکیزہ چیزوں کے استعمال سے اجتناب کو تقوی اور کمال کا سبب سمجھا جائے اور نہ ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حرام اور حلال کے فرق ہی کو اٹھا دیا جائے اور بے دریغ ایسی چیزوں کا استعمال شروع کر دیا جائے جنہیں اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے
(2)لغو قسم : لغو قسم پر کوئی دنیاوی مواخذہ نہیں 89
لغو قسم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اپنے خیال کے مطابق سچی قسم کھائے کہ کلام اس کے گمان کے خلاف تھا
قسم پر کفارہ اور مواخذہ: البتہ ایسی قسموں پر کفارہ کی صورت میں مواخذہ ہوگا جو مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کھائی جائیں اور پھر انہیں پورا نہ کیا جائے
(3)شیطانی عمل : شراب جوا بت اور پانسے قطعی حرام اور شیطانی عمل ہیں ان کے زریعے شیطان مومنوں کے دلوں میں بغض و عداوت کے بیج بوتا ہے اور انہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دیتا ہے 90 92
(4)احرام کی حالت میں شکار: احرام کی حالت میں خشکی کا شکار جائز نہیں البتہ سمندر اور دریا میں رہنے والے جانور کا شکار حالت احرام  میں بھی جائز ہے 94 96
(5)بیت الحرام شہرحرام  : احرام کی مناسبت سے اللہ تعالی نے بیت الحرام یعنی کعبہ اور شہر حرام کا بھی تذکرہ کیا ہے یہ کعبہ کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اور اس کے گردو پیش کے علاقے کو حرام قرار دیا ہے
حرمت اور امن  : اس کی حرمت اور امن کا اندازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم میں دیکھ لو تو اس وقت تک اس پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا جب تک کہ وہ حرم کی حدود سے باہر نہ نکل جائے
(6)مشرکین کے حرام کردہ جانور : زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے بہت سارے جانور بزعم خویش حرام قرار دے رکھے تھے اور ان کے لیے مخصوص نام بھی تجویز کر رکھے تھے مثال کے طور پر سائبہ بحیرہ  وصیلہ اور حام  (آیت نمبر 103 میں واضح طور پر بتایا گیا کہ یہ مشرکین کا جھوٹ اور افتراء ہے ورنہ اللہ تعالی نے ان میں سے کسی بھی جانور کو حرام قرار نہیں دیا)
(7)وصیت اور گواہ : جب کسی انسان کو موت کی آہٹ محسوس ہونے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ قابل وصیت امور کے بارے میں وصیت کر جائے اس وصیت پر دو قابل اعتماد شخص کو گواہ بنا لیا جائے تا کہ کل کلاں اگر اختلاف ہو جائے تو ان کی گواہی کی روشنی میں فیصلہ کیا جاسکے 106۔108
(8)قیامت کے دن کا منظر : حلال وحرام کے ان مسائل کے بعد قیامت کے دن کی منظر کشی کی گئی ہے جب تمام رسولوں کو جمع کرکے ان سے سوال کیا جائے گا جب تم نے میرا پیغام میرے بندوں تک پہنچایا تو تمہیں کیا جواب دیا گیا
حضرت مسیح پر اللہ کے احسانات : انبیاء علیہ السلام کے ساتھ سوال وجواب کے تناظر میں حضرت مسیح علیہ السلام کا خاص طور پر تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کی اللہ تعالی قیامت کے دن سیدنا مسیح علیہ السلام کو اپنے احسانات یاد دلائے گا
مائدہ والاقصہ : ان احسانات میں مائدہ والاقصہ بھی مذکور ہے جب حواریوں نے حضرت عیسی علیہ السلام سے درخواست کی تھی کہ آپ اللہ سے درخواست کریں کہ وہ ہمارے لئے آسمان مائدہ نازل فرمائے یعنی ایسا دسترخوان جس میں کھانے پینے کے مختلف اسمانی نعمتیں سجی ہوئی ہو ں
سورت کا نام : اسی قصے کے حوالے سے اس سورت کا نام مائدہ رکھا گیا ہے
اللہ کا سوال : اپنے چند احسانات گنوانے کے بعد اللہ تعالی سوال کرے گا اے عیسیٰ مریم کے بیٹے کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میرے والده کو اللہ کے سوا معبود ٹھہراؤ
حضرت عیسی علیہ السلام کا جواب : حضرت عیسی علیہ السلام بارگاہ جلال میں عرض کریں گے تو پاک ہے میرے لیے یہ مناسب نہیں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق ہی نہیں تھا ، پھر عرض کریں گے: میں نے تو انہیں ایک اللہ کی عبادت کا حکم دیا تھا اگر انہوں نے میرے حکم کی نافرمانی کی ہے تو آپ کو اختیار ہے چاہیں تو انہیں سزا دیں  اور چاہے تو معاف کر دیں 116 118
قیامت کے دن کی منظر کشی اور اللہ کے ہمہ گیر سلطنت کے تذکرہ پر سورہ مائدہ اختتام پذیر ہو جاتی ہے ۔
           سورہ انعام :
سورہ مائدہ کے بعد ساتویں پارے کے دوسرے پاؤ سے سورہ انعام کا آغاز ہوتا ہے
 آیات : اس سورت میں ایک سوپینسٹھ  آیات اور بیس رکوع ہیں
مکی سورت : یہ مکی سورت ہے مکی سورت میں عام طور پر تین بنیادی عقائد سے بحث کی جاتی ہے ۔یعنی :توحید رسالت اور آخرت
وجہ تسمیہ : چونکه اس میں چو پاؤں کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے اس سورت کو سورہ انعام کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں مندرجہ ذیل آیات : آیات 136 138 139 142
مشرکین کے غلط عقائد کی تردید : اس سورت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مشرکین کے غلط عقائد کی تردید کے لئے تقریر اور تلقین دونوں اسلوب اختیار کیے گئے ہیں
اسلوب تقریر : اسلوب تقریر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی توحید اور قدرت و عظمت کے دلائل کو ایسا مسلم اصول کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا انکار ایسا انسان کر ہی نہیں سکتا جسے اللہ تعالی نے قلب سلیم اور عقل صحیح  سے نوازا ہو
توحید اور قدرت کے دعوے : آپ اس صورت کا مطالعہ فرمائیں تو آپ کو وقفے وقفے سے ایسی آیات ملیں گی جس میں ارض و سما  میں اللہ کے موجود ہونے بندوں پر اس کے غلبے اور ظاہر و باطن کا عالم ہونے کا یوں ذکر کیا گیا ہے ،گویا ان دعاوی کو مشرکین بھی تسلیم کرتے ہیں اور یہ دعوے ایسے ہرگز نہیں کہ ان کے ثبوت کے دلائل دیے جائیں یا زیادہ مغزماری کی جائے بلکہ صاحب  نظر انسان کائنات پر ایک نظر ڈالتا ہے ہے تو وہ اللہ کے بوجود اس کی عظمت و کبریائی اور غلبے  اور قدرت کا اعتراف  کیے بغیر نہیں رہتا درج ذیل آیات میں اسی اسلوب کی  جھلک دکھائی  دیتی  ہےآیت نمبر 1 ::آسمان اور زمین میں وہی ایک اللہ ہے تمہارے پوشیدہ اور ظاہری باتیں سب جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے 3
آیت نمبر 2 : اور وہی تو ہے جو رات کو نیند کی حالت میں تمہاری روح قبض کر لیتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کی خبر رکھتا ہے 60
آیت نمبر 3 : اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان مقرر کیے رکھتا ہے 61
اسلوب تلقین یقین : اسلوب یقین کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسول امی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے دلائل سکھاتا ہے جن کا منکرین کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا اور وہ شرمندگی اور  سرافگندگی پر مجبور ہوجاتے ہیں یہ اسلوب عام طور پر سوال جواب کی شکل میں ہوتا ہے
آی
مشرکین سے سوال : مثال کے طور پر آیت نمبر 12 میں ہے

پہلا سوال: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے سوال کیجئے کی آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے یہ کس  کا ہے ؟
ظاہر ہے کہ دل سے تو مشرکین بھی تسلیم کرتے تھے کہ سب کچھ اللہ ہی کا ہے لیکن زبان سے اعتراف کرنے میں انہیں حجاب ہوتا تھا اس لئے فرمایا گیا کہ آپ خود ہی جواب دیجئے کہ
جواب : سب کچھ اللہ ہی کا ہے  12
دوسرا سوال : اور آیت نمبر 19 میں ہے، ان سے پوچھو کی سب سے بڑھ کر کس کی شہادت ہے ؟ 
جواب:  اللہ ہی میرے درمیان اور تمہارے درمیان گواہ ہے 19
تقریر اور تلقین کے یہ دونوں اسلوب سورہ انعام میں پہلو  بہ پہلو چلتے ہیں
توحید و رسالت : اس سورت کی ابتداء اللہ کے حمدوثناء اور عظمت اور توحیدسے ہوتی ہے توحید کے ساتھ رسالت کا ذکر بھی ضروری ہے
منکرین کی عادت : منکرین کی عادت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی دلائل و براہین  ان کے سامنے پیش کرتے ہیں یہ ان سے اعراض کرتے ہیں اور جواب میں کٹ حجتی  کے طور پر کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ 
بعث و جزا : توحید و رسالت کے بعد بعث و جزا کا تذکرہ ہے فرمایا گیا کہ تمہیں اللہ قیامت کے دن ضرور جمع کرے گا اس میں کوئی شک نہیں16
یہ تینوں مضامین سورہ انعام میں ادل بدل کر تلقین اور تقریر کے اسلوب سے چلتے جاتےہیں یہاں تک کہ  بات ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پہنچتی ہے ،
شرک میں ڈوبی ہوئی دنیا میں روشن مینار : اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت خلیل علیہ السلام شرک میں ڈوبی ہوئی دنیا میں روشن مینار  تھے انہوں نے جب سورج ،چاند ،ستارے  اور ہاتھوں سے بنائے گئے اصنام کو معبود تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور رب واحد کی کبریائی پر ایمان کا اعلان کیا تو انہیں سب سے پہلے اپنے والد ہی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے اس مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کی اور دعوت توحید کا سلسلہ جاری رکھا 74 تا 81 
اٹھارہ انبیاء : یہی دعوت دوسرے انبیاء علیہ السلام نے بھی اپنے اپنے زمانے میں دی سورہ انعام  میں انبیاء میں سے اٹھارہ کے نام مذکور ہیں 84 87
ان سب کو وحی سے مشرف کیا گیا ، ان کے علاوہ بھی بے شمار انبیاء علیہ السلام دنیا میں آئے لیکن ان کے نام قرآن میں مذکور نہیں
 اللہ کی ذات و صفات اور افعال کی معرفت : وحی اور نبوت کے بعد دوبارہ ایسے دلائل ذکر کیے گئے ہیں جو خالق کے وجود اس کے علم قدرت اور حکمت کے کمال پر دلالت کرتے ہیں ان دلالت سے اس طرح متوجہ کیا گیا ہے کہ مقصود اصلی اللہ کی ذات و صفات اور اس کے افعال کے معرفت ہے لیکن مکہ کے کفار ان دلائل میں تو غور و فکر نہیں کرتے تھے البتہ مختلف قسم کے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے کہ اگر ہمیں فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو ہم ایمان قبول کر لیں گے  حلانکہ ان کی یہ باتیں زبانی جمع  خرچ  اور دفع الوقتی کے سوا کچھ نہ تھیں
کافر اور مومن کی نظر میں فرق: حقیقت یہ ہے کی صاحب طلب معجزہ کا مطالبہ نہیں کرتا  وہ جدھر نظر اٹھاتا ہے اللہ کے وجود اور قدرت کی نشانیاں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے اس کائنات پر کافر بھی نظر ڈالتا ہے اور مومن بھی نظر ڈالتا ہے لیکن دونوں کے نظر ڈالنے میں زمین آسمان کا فرق ہے
کافر: کافی دیکھتا ہے تو اسے پوری کائنات مادی اسباب میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے 
مومن:  لیکن جب ایک مسلمان دیکھتا ہے تو اسے ہر چیز اور ہر مرحلے میں قدرت کی کار فرمائی نظر آتی ہے
مثال : مثال کے طور پر جب وہ پھل کو دیکھتا ہے کہ
( رنگ اور خوشبو, چھوٹا اور بڑا ،کھٹا اور میٹھا ہونے کے اعتبار۔ کیسے ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہوتا ہے
ابتداء میں:  ابتداء میں کوئی کڑوا اور نمکین ہوتا ہے اور کوئی کھٹا یا پھیکا
آخر میں : لیکن جوں جوں وہ پکتا جاتا ہے اس میں مٹھاس اور لذت آتی جاتی ہے
مومن کی ایمانی نظر : جب ایک مومن ایمانی نظر سے دیکھتا ہے اور غور و تدبر کرتا ہے تو بے ساختہ پکار اٹھتا ہے سبحان اللہ
نباتات کا خاص طور پر ذکر : اسی لیے یہاں زمین سے اگنے والی مختلف چیزوں اور پھلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: یہ چیزیں جب پھلتی ہیں تو ان کے پھلوں پر اور جب پکتی ہیں تو ان کے پکنے  پر نظر کرو ،ان میں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں اللہ کی قدرت کی ساری نشانیاں ہیں 99

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے