رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ

رمضان المبارک تقویٰ کے حصول کا بہترین ذریعہ

 عبيد الله شميم قاسمي، العين 
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہ لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اَللّٰهمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وبَلِّغْنَا رَمَضَانَ، (شعب الایمان ٣٧٥/٣)،
اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچادیجیے، یعنی ہماری عمر اتنی دراز کردیجیے کہ ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب ہوجائے، آپ غور فرمائیں کہ رمضان المبارک آنے سے دو ماہ پہلے ہی رمضان کا انتظار اوراشتیاق ہورہا ہے، اوراس کے حاصل ہونے کی دعا کی جارہی ہے،روزہ رکھنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انسان صرف بھوکا پیاسہ رہے بلكه اس کیلئے ہر گناہ سے بچنا ضروری ہے تاکہ ایک مہینہ میں گناہ چھوڑتے چھوڑتے گناہ سے بچنے کی عادت پڑجائے اسی کو تقوی کہتے ہیں اور تقوی حاصل کرنے کیلئے ہی رمضان کے روزے فرض کئے گئے ہیں کیوں کہ یہ بات یقینی ہے کہ نفس انسان کو گناہ، نافرمانی اور حیوانی تقاضوں میں اسی وقت مبتلاکرتا ہے جب کہ وہ سیرہو، اس کے برخلاف اگر بھوکا ہوتو وہ مضمحل پڑا رہتا ہے اور پھر اس کو معصیت کی نہیں سوجھتی، روزے کا مقصد یہی ہے کہ نفس کو بھوکا رکھ کر مادّی وشہوانی تقاضوں کو بروئے کار لانے سے اس کو روکا جائے تاکہ گناہ پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سُسْت پڑجائے اور یہی “ تقویٰ” ہے ، جبسا كہ  حضرت شاه ولي الله محدث دهلوی رحمہ اللہ  نے اپنی كتاب 《حجة الله البالغة》 ميں روزه كے مقاصد كے تحت يه بات تحرير فرمائي هے۔اللہ تعالیٰ اس بابرکت مہینے کے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
رمضان المبارک کو قرآن میں 《أیام معدودات》 (گنتی کے دن) کہا گیا ہے جن میں سے ايك عشره  گذرچكا ہے۔ روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے جیسے قرآن كريم ميں ذكر ہے ۔ كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم’’جس طرح تم پر روزے فرض ہیں ، پہلی امتوں پر بھی اسی طرح تھے‘‘۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر همارے نبي ﷺ  تک تمام انبیاء کی شریعتوں میں روزہ موجود ہے تاہم ایام اور گنتی مختلف رہی۔ روزہ خلوص و تقویٰ اور للّہیت سمیت بندگی کے تمام اوصاف سے مزین ہے جو رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ روزہ کو ڈھال بھی کہا گیا ہے جیسا حدیث پاک میں ہے‘ آقا کریمؐ نے فرمایا ’’الصوم جُنّۃ‘‘ (روزہ ڈھال ہے) کیونکہ روزہ گناہوں اور دوزخ سے بچاتا ہے اسی لیے ڈھال کہا گیا ہے۔ عبادات میں اس لحاظ سے بھی روزہ انفرادیت کا حامل ہے کہ اس میں ریاکاری اور دکھاوے کے خدشات بھی کم ہی ہوتے ہیں۔ جبکہ روزہ دار ہر وقت اللہ کی رضا و خوشنودی کی جستجو میں رہتاہے اور رب ذوالجلال کی ناراضی سے بچنے کی فکر ہر لمحہ دامن گیر رہتی ہے جبھی تو روزہ دار تنهائي میںبھی چُھپ کر بھی نہیں کھاتا پیتا۔ کیونکہ روزہ کا بنیادی مقصد ہی تقویٰ ہے۔ روزہ دار کے اسی خلوص و تقویٰ پر رب کریم نے اس عظيم انعام سے نوازا ہے  《الصوم لي وأنا أجزي به》’’روزہ میرے لیے اور میں ہی اسکی جزا دوں گا۔‘‘ اتنے بڑے انعام کا مستحق روزہ ، محض بھوک اور پیاس کا نام نہیں بلکہ تمام منکرات سے بچنے اور بعض جائز و مباح امور سے (بحالت روزہ) بھی پرہیز کا تقاضا کرتا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو کسی کے بھوکے ، پیاسے رہنے کی کوئی پروا نہیں۔ اس لیے فحش گوئی ، لغویات، جھوٹ سمیت تمام صغیرہ، کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔ کیونکہ بندگی کا تقاضا ہے کہ ہاتھ کا بھی روزہ ہو، زبان ، آنکھ اور کان بھی روزہ دار کی صف میں ہوں۔ روزہ تقاضا کرتا ہے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھا جائے۔ روزہ رکھ کر غیبت نہ کی جائے، اس سلسلے میں رسول کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زبان مبارک سے بھی تنبیہ کی گئی ہے :  《كَمْ مِنْ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلَّا الظَّمَأُ، وَكَمْ مِنْ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلَّا السَّهَرُ》 مسند الدارمي (2720)’’بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ بھوک اور پیاس کے سوا ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ راتوں کو قیام کرنے والے بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ رت جگے کے سوا جن کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ بندگی کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تاکہ روزے کے حقیقی ثمرات سے فرد اور معاشرہ دونوں مستفید ہوں ۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العبادکا تحفظ بھی یقینی ہو۔ یہی ایمان اور احتساب ہے، روزے کا تقاضا بھی یہی ہے، تزکیہ نفس اور تقویٰ کی یہی معراج ہے۔ انعامات و رضائے الٰہی کی نوید بھی اسی پر ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا : 《مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ》 (صحيح البخاري: 37، ومسلم: 759)’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اسکے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے۔‘‘ کیونکہ روزہ ہی انفرادی اور اجتماعی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔ ایک ماہ کی بھرپور تربیت سے کھانے ، پینے کے اوقات سے لیکر عبادات سمیت تمام امور کو وقت مقررہ پر انجام دینے سے جہاں افراد پر تقویٰ رنگ جمائے گا تو ايک صالح اور مثالی معاشرہ بھی تشکیل پائے گا پھر کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ کوئی لاعلاج نہیں مرے گا یہی تقویٰ ہے، یہی روزے کا تقاضا ہے۔ گنتی كے چند روز ره گئے هيں  اس ليے الله كے حضور اپنے گناهوں كي معافی مانگيں  اور آئنده كے ليے نيک اور تقوى  والی زندگی گذارنے كا عزم كريں، ورنه اگر یہ رمضان بھی ایسے ہی گزر گیا تو پھر سب کچھ رائیگاں ہے۔ الله تعالى هميں اپنی مرضيات پر چلنے كی توفيق مرحمت فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے