تنقید نگاری کیا ہے؟

تنقید نگاری کیا ہے؟

از:محمد عمران کورٹلوی

(ایک عزیز کی محرکانہ باتوں کے سبب معرض وجود میں آئی تحریر)
      
    تنقیدنگاری اصناف ادب میں سے ایک اہم صنف ہے،بل کہ کہنا چاہیے کہ بہت ہی نازک اور مشکل صنف ہے۔
اس کو ایک ایسے  آبگینہ سے بھی تشبیہ دی جاسکتی ہے، جس کی حفاظت اور سلامتی  کے لئے انسان کو اپنی تمام تر ذہنی قوت اور دماغی یکسوئی کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی ایک ہی حالت پر رکھنا ہوتا ہے۔اور جو ذرا سی بھی غلط جنبش سے پاش پاش ہوجاتا ہے۔

تنقید نگار کو بھی اپنی تحریر میں اس کا مکمل پاس و لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔
اس کے ایک حرف غلط سے کسی کے نازک جذبات کو ٹھیس پہونچ سکتی ہے۔اور کسی کے احساسات دل زخمی ہوسکتے ہیں۔

۔۔یہ ایک امتحان بھی ہے۔کہ تنقید نگار اپنی ذاتیات اور شخصی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر قلم عدل وانصاف سے لکھے کہ اس "مہذب باعزت اور شرافت و کرامت والے فن" کے لئے یہی زیبا ہے..

۔۔۔۔۔تنقیدنگاری اگر صحت مند اور تعمیری پہلو پر مشتمل ہو تو بہت کام دیتی ہے بلکہ بہت سوں کو کام کے "رہنمایانہ خطوط" دے جاتی ہے۔۔جن سے "قوموں کی بیداری"اور "تاریخ کے انقلابی کارنامے"وجود میں آتے ہیں۔۔۔


....تنقید نگار کے لئے مطلوبہ فن میں مہارت کے ساتھ یہ بھی  ضروری ہے کہ وہ صحیح الفکر، سلیم الطبع،باذوق،بیدار مغز،گرد و پیش سے باخبر،ستھرا مذاق رکھنے والا،مختلف اسالیب تحریر کا رازداں،سخن داں و سخن فہم،انصاف پسند،حقیقت بیں،انسانی معاشرے کی نفسیات سے آگاہ، نظام کائنات میں الفاظ و معانی کی تاثیر سے بخوبی واقف ہو،اور اس کی دور اندیش نگاہیں مستقبل کے پردوں میں جھانک کر دیکھتی ہوں۔۔۔۔

۔۔۔تنقید نگاری کوئی پیشہ نہیں ہے،نہ ہی کوئی وقتی تسکین اور دل لگی کا سامان ہے۔۔اور نہ تفریح کا ذریعہ ہے۔جس کا اثر وقت کے گذرجانے کے ساتھ زائل ہوجاتا ہو۔


بل کہ تنقید نگار کی چند سطریں اپنے اندر زود اثری اور دوام کو لیۓ ہوتی ہیں۔ اور  (بیشتر دفعہ) زندگیوں کے لئے فیصلہ کن موڑ بھی ثابت ہوتی ہیں۔چنانچہ کسی بھی تنقید سے یا تو حوصلہ افزائی ہوتی ہے یا دل شکنی۔۔


۔۔۔یہ ایک "رجال سازی" اور "مردم گری" کی صنعت ہے۔
جس سے افراد تیار ہوتے ہیں۔۔ہاں ایسے افراد جو قوموں کو زندگی بخشتے ہیں۔۔زمانے کو ایک نئ کروٹ دیتے ہیں۔۔اور ایک صالح معاشرے کے لئے نظام حیات مرتب کرتے ہیں۔۔

مختصر یہ کہ اس سے صحیح سالم گذرجانا اور اس دشوار گذار وادی کی منزلیں کامیابی کے ساتھ طۓ کرنا یقینا ایک سعادت کی بات ہے۔
اور تنقید نگار کے باتوفیق اور صاحب کرامت ہونے کی علامت۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے