اسلامی مکاتب: موجودہ صورت حال, چیلینجز اور مستقبل کے خاکے قسط۱

اسلامی مکاتب: موجودہ صورت حال, چیلینجز اور مستقبل کے خاکے قسط۱
اسلامی مکاتب: موجودہ صورت حال, چیلنجز اور مستقبل کے خاکے
ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی
ڈائریکٹر الفاروق اکیڈمی, عمران گنج, جونپور

+91 9838368441
ہندوستان کے طول وعرض میں پھیلے اسلامی مکاتب ملت اسلامیہ کا بیش بہا سرمایہ تھے. یہی ہماری نسل نو کی تعلیم وتربیت گاہ بھی تھے اور ترقی کا پہلا زینہ بھی. یہیں ہماری نسلوں کے انفرادی اور قومی مزاج ومذاق پروان چڑھتے تھے اور ان کی بنیادی مہارتیں اور مختلف ذہانتیں ترقی کرتی تھیں. تعلیم وترقی کی یہی خشت اول تھیں. بلاشبہ آج بھی ان کی ضرورت ہے. ان کی بہتری پر نہ صرف نسل نو کی بل کہ پوری مسلم قوم کی بہتری منحصر ہے. مسلمانوں کی بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے. ان کے بچوں کا مستقبل زیادہ تر انہی مکاتب کی مرہون منت ہے.

یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ان مکاتب میں ایک لمبے عرصے سے کسی منظم پلاننگ کا فقدان رہا ہے. نظام تعلیم ہو یا نصابی کتب, طریقہ تعلیم ہو یا نگرانی, عملی مشقیں ہوں یا تربیتی ہدایات, امتحانات ہوں یا حوصلہ افزائی کے انعامات, غیر نصابی سرگرمیاں ہوں یا مستقبل کے عزائم؛ ہر زاویے سے مکاتب میں مقصدیت مفقود نظر آتی ہے. بچوں کی متعدد ذہانتوں اور مہارتوں کی کما حقہ سیرابی نہیں ہوپاتی. مطلوبہ مزاج پیدا کرنے میں ہم ناکام رہ جاتے ہیں. مکاتب کی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ان کی روشن کرنیں اب ماند پڑگئی ہیں اور جلد ہی یہ چراغ سحری بجھا چاہتا ہے.

مگر ابھی ملت میں اس متاع بیش بہا کے زیاں کا احساس کم نظر آتا ہے. بام ودر کی موجودگی سے ہم مطمئن ہیں کہ ابھی ہمارے مکاتب زندہ وسلامت ہیں مگر سچ یہی ہے کہ ان کی روح نکل چکی ہے. نظام تعلیم مکمل طور پر بکھر چکا ہے اور اب وہ وینٹی لیٹر پر ہیں. ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ایک غیر معیاری مکتب کا مطلب ایک غیر معیاری گاؤں اور غیر معیاری نسل وقوم کے بڑھاوا دینے کا ذریعہ. ہم میں سے کون چاہتا ہے کہ ہم اپنی اولاد کے مستقبل پر ناکامی کے قلم چلادیں, انہیں بے دست وپا کردیں, انہیں بے شعور بنادیں, یقینا ہم میں سے کوئی ایسا نہیں چاہتا ہے.

گذشتہ دو دہائیوں سے انگلش میڈیم اسکولوں کی ہوڑ میں اسلامی مکاتب تیزی سے اپنا اثر کھوتے جارہے ہیں. کچھ تو زمانے کے تقاضوں سے ہم نے ان مکاتب کو ہم آہنگ نہیں کیا اور کچھ غیر ضروری احساس کمتری کی وجہ سے انگریزی زبان وتہذیب کی چمک دمک نے ہمیں مسحور کردیا. یہی وجہ ہے کہ ہم نے سائنسی علوم سے استفادہ کے بجائے زیادہ تر ان کی تہذیب وتمدن کو اپنانے میں فخر محسوس کیا. شہری علاقوں کی چند کامیاب مثالوں کے علاوہ عمومی طور پر اپنے نظام تعلیم سے منہ موڑنے میں ہم نے صرف خسارے کا سودا کیا. آج صورت حال اس قدر گنجلک ہوگئی ہے کہ ہماری نصف آبادی اسلامی اقدار واوصاف, قرآنی تجوید, ضروری مسائل, یہاں تک کہ اردو زبان سےبھی پوری طرح کٹ کر رہ گئی ہے اور باقی نصف زمانے اور اس کے چیلنجز, نیز زندگی کے مختلف میدانوں میں رہنمائی کرنے والے علوم سے تقریبا ناواقف ہے. کسی قوم کے لیے اس سے بڑا المیہ کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی آبادی کا بڑا حصہ اپنے ورثے سے پوری طرح محروم ہوگیا ہو یا پھر تیز رفتار زمانے اور اس کے تقاضوں سے بچھڑ کر رہ گیا ہو. بقول شاعر:

اندھیرے جھوٹ تو کہتے نہیں ہیں
دیا محفل میں کوئی بجھ گیا ہے

(جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے