اس طرح کر گیا دل کو مرے ویراں کوئی

اس طرح کر گیا دل کو مرے ویران کوئی: مفتی سعید احمد صاحب

 محمد شاہد اخترکھرساوی

شعر!

آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

موت ایک ابدی اور لازوال حقیقت ہے، جس سے کسی بھی فرد بشر کو انکار نہیں، فرمان خدا وندی:
 "کل من علیھا فان"
 "کل نفس ذائقة الموت".
انسان کی فنائیت کی مستحکم ومضبوط دلیل ہے، آیت کریمہ کے بیان کردہ اصول کے تحت ایک نہ ایک دن ہر کسی کو یہاں سے جانا ہے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلَّم اس دنیا سے تشریف لے گئے، تو ہماری اور آپ کی کیا حیثیت ہے. 
اسی سلسلہ کی ایک کڑی، علماء دیوبند اور عالم اسلام کی ممتاز ومایہ ناز شخصیت، ہم سب کے مخدوم و مکرم، عظیم محدث، بے مثال فقیہ، بلند پایہ مفسر، مشفق و مربی استاد محترم، حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی وفات حسرت آیات ہے،

بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ 

واقعہ یوں ہے کہ سال کے آخر میں حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کو ایک عارضہ لاحق ہوا کہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتے، لیکن زبان نہیں چلتی، چناں چہ رجب المرجب کے مہینہ میں جب حضرت مفتی صاحب دارالحدیث میں بخاری شریف مکمل کرانے کے لئے تشریف لائے، اور کتاب کی تکمیل پر حضرت مفتی صاحب نے کوشش کی کہ طلبہ کو کچھ نصیحت کروں تو زبان نہ چل سکی، جب کہ حضرت والا کا یہ معمول تھا کہ آخری درس میں طلبہ سے ہم خطاب ہوتے، پرمغز نصیحت فرماتے، اور طلبہ کو مستقبل میں کام کرنے کا گر اور ہنر بتلاتے، جسے سن کر طالبان علوم نبوت جس قدر بھی ہو، اپنے اندر دینی خدمت کا جذبہ پیدا کرتے، بخاری شریف کے آخری درس میں طلبہ صرف اور صرف آپ کی قیمتی نصیحتیں اور تجربات کی باتیں سننے کے لئے تشریف لاتے، دارالحدیث کھچا کھچ بھر جاتا. 
خیر! آخری درس میں سبق کی تکمیل پر حضرت مفتی صاحب نے طلبہ سے ہم کلامی کی ہمت کی، بالآخر زبان چلی ہی نہیں،  حضرت والا نے کتاب بند کی، طلبہ زارو قطار رونے لگے، اس دوران حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ نے فرمایا کہ "اب اللہ جو چاہے گا وہ ہوگا"، اور مسند سے اٹھنے کے بعد اشارہ سے سلام کرتے ہوئے گھر تشریف لے گئے، دوسرے ہی دن بغرض علاج ممبئی کا سفر کیا،اس کے بعد ہی کرونا جیسی مہلک بیماری کی وجہ سے ملک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہو گیا،
نیز! علاج ومعالجہ کا سلسلہ شروع ہوا، (اس دوران جب بھی استاد گرامی قدر حضرت مفتی ریاست علی صاحب رامپوری  مدظلہ العالی،استاد حدیث مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد امروہہ ،سے احاطہ جامع مسجد یا ان کے مکان پر ملاقات ہوئی تو دریافت فرماتے کہ حضرت مفتی صاحب کی طبیعت کیسی ہے، تو میں جواب دیتا کہ جی پہلے سے بہتر ہے، پھر حضرت الاستاذ دامت برکاتہم العالیہ فرماتے کہ دعا کرو اللہ حضرت مفتی صاحب کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور دارالعلوم دیوبند کی حفاظت فرمائے) علاج ہوا مرض پکڑ میں آگیا، بے شمار تلامذہ نے آپ کی صحت یابی کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت رہی کہ طبیعت اس حد تک بحال ہو گئ کہ رمضان المبارک میں بعد تراویح لوگوں کے اصرار پر درس قرآن اور سوال وجواب کا بھی سلسلہ شروع فرمایا، اور وہ بھی اسی انداز اور بشاشت کے ساتھ جس طرح آپ درس میں کلام فرماتے، ہم نے جب یہ سنا کہ حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رمضان المبارک میں تراویح کے بعد بیان فرمائیں گے تو یہ سن کر طبیعت میں جان آگئ کہ اب حضرت مفتی صاحب صحت یاب ہو گیے ہیں، اور خرابی صحت سے ذہن میں جو ایک خلجان اور تشویش تھی وہ دور ہوگئ ، لیکن خدا کی قدرت بھی عجیب ہے کہ پندرہ رمضان تک حضرت والا علم وعرفاں کی موتی بکھیرتے رہے، پھر اس کے بعد طبیعت بگڑ گئی، اور ایسی بگڑی کہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیا، اور ذہن میں جو ایک ڈر اور خوف تھا، اس کا ظہور ہو ہی گیا، بالآخر  حضرت الاستاذ ٢٥/ رمضان المبارک ١٤٤١ ھجری مطابق ١٩/مئ ٢٠٢٠ عیسوی بروز منگل بوقت اشراق جوار رحمت ہو گیے. 
     
   انا للہ وانا الیہ راجعون


 اس طرح کر گیا دل کو مرے ویران کوئی

خدا وند قدوس نے نیک بخت، سعید کو ماہ مبارک میں اٹھایا،جو کہ مومنین کے لیے اعلی درجہ کی سعادت اور خوش قسمتی کی بات ہے، اور وہ بھی رمضان کا آخر عشرہ جہنم سے خلاصی کا ذریعہ ہے، سونے پر سہاگہ. حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کی طبیعت کئ دفعہ خراب ہوئ لیکن علاج ومعالجہ کے بعد صحت یاب ہوگئے اور اس دفعہ بھی ہمیں یہی امید تھی کہ حضرت مفتی صاحب صحت یاب ہو کر دیوبند تشریف لائیں گے اور علم و عرفاں کی موتی دوبارہ بکھیریں گے، لیکن اس دفعہ اللہ کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا اور تقدیرخداوندی مخلوق کی تدبیر پر غالب آ کر ہی رہی، اور یہ حادثہ فاجعہ ایسے ناخوش گوار حالات میں رونما ہوا کہ ہم جیسے کمزور طالب حضرت کی آخری زیارت سے بھی محروم ہو گئے، حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کی وفات کو آج کئ روز ہوگئے ،لیکن رہ رہ کر ذہن ودماغ میں حضرت کا انداز تکلم گردش کر رہا، گفتگو کا جو طریقہ اپناتے تھے وہ اب بھی ذہن میں مچل رہا ہے، اور یقین بھی نہیں ہوتا کہ آپ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، ان پر کہے گیے منظوم کلام کو سن کر سکون حاصل کرتا ہوں، لیکن ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے، جانے والے چلے گئے اب دوبارہ لوٹ کر آنے والے نہیں.

حضرت مفتی صاحب کی وفات سے آج پورا عالم سوگوار ہے، ہم نے ایک ایسی ہستی کو سپرد خاک کیا ہے جو اب دوبارہ کسی قیمت پر لوٹ کر آنے والی نہیں، ہم نے ایک ایسی ہستی کو کھو دیا ہے جس کا ظہور اب بظاہر مشکل ہے ،علم و عمل کا ایک آفتاب عالمتاب ہم سے جدا ہوگیا، جس کے فیضان علم سے سارا عالم سیراب تھا، ہمارا طبقہ ایک ایسی شخصیت کی وجود سے خالی ہو گیا جس کی نظیر اب ممکن نہیں، ہمارا حلقہ ایک ایسے ماہر علم وفن کے مجموعے سے خالی ہو گیا جس کا ثانی اس قحط الرجال کے دور میں شاید وباید ہو، آج مختلف علوم وفنون کے جامع شخصیت ہماری نگاہ سے اوجھل ہے، آج علم کے نیر تاباں نے ہم سے منہ موڑ لیا، آج ہمارے قافلے کا سپہ سالار قبر میں آرام کی نیند سو رہا ہے، آج ہمارا رہبر ورہنما فانی زندگی سے رخ موڑ کر ابدی وازلی آرام گاہ کی طرف منتقل ہو گیا، بے شمار علماء وفضلا کو قافلہ سالار نے یتیم کر کے جوار رحمت میں جگہ لی. 
شعر!
موت اس کی کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئےمرنے کے لیے

آج منبع علم وعرفاں ہمارے چہروں کو غمگین اور قلوب کو رنجیدہ کر کے آسودہ خواب ہیں، آج صدر المدرسين ہمارے آنکھوں کو پرنم کر کے آغوشِ رحمت میں آرام فرما ہیں، آج ہم شیخ الحدیث کی رحلت سے مغموم ہیں، آج ہم منصب حدیث کی زینت سے محروم ہو گئے، آج ہم سب کے بڑے اپنے چھوٹوں اور خردوں کو علمی دنیا میں بے یار و مددگار چھوڑ گیے،آپ کی جدائی سے ہرفرد کھویا ہوا ہے، آپ کی فراق جاودانی سے ہر شخص اپنے آپ کو اکیلا محسوس کر رہا ہے، آپ کی جدائیگی سے آنکھیں پرنم اور اشکبار ہیں، آنکھوں میں سفیدی کے بجائے سرخی غالب ہے،جس سے حزن وملال کی علامت کا بخوبی پتہ چلتا ہے، رنج و الم کی کیفیت تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے، اداسی و مایوسی کے آثار اب تک لوگوں کے چہروں پر عیاں ہیں، علمی طبقہ حیران و پریشان اور ششدر وشش وپنج میں مبتلا ہے، نہ جانے کتنے لوگ اب تک آپ کے فراق میں آنسو بہا رہے ہوں گے.
آپ کی شخصیت علمی وعملی خوبیوں اور گونا گوں خصوصیات سے منور تھی، آپ علم کے ایک دیا تھے جو جلا کر چلے گئے، آپ لوگوں کو عملی زندگی کی راہ بتلا کر اور سمت دکھا کر رخصت ہو گئے، آپ کی علمی ضیا پاشی سے پورا عالم سرشار تھا، آپ کی علمی روشنی سے سارا عالم سر سبز و شاداب تھا، آپ کی شخصیت ایک باغیچہ، باغباں، پھول اور عمدہ و خوبصورت مہک کی سی تھی،

 اب ایسی شخصیت ہمیں کہاں نصیب؟


شعر!

اب نہیں لوٹ کر آنے والا
گھر کھلا چھوڑ کر جانے والا

آپ کی ذات پورے عالم اسلام کا ایک ایسا متاعِ گراں مایہ، سرمایہ بلند پایہ تھا، کہ جس کے اٹھ جانے سے جتنا بھی ماتم اور افسوس کیا جائے کم ہے، افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جنازہ میں شرکت بھی نصیب نہ ہوئی،
حیف صد حیف! علم وعمل کی جیتی جاگتی شکل وصورت، اسلامی رواداری کی حامل شخصیت، اپنے خردوں کے علمی کام پر دادو تحسین سے نوازنے والی ہستی نے بارگاہ ایزدی میں جگہ لے لی، اور روز بروز ایسی شخصیتیں عنقا ہوتی جا رہی ہیں، آج لوگ حضرت مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں، مادر گیتی کی کوکھ آج ان کے وجود سے خالی ہو گئی، آئندہ نسلیں حضرت کے تذکرے کتاب کے صفحات میں پڑھیں گے تو ان کے کمالات علمی کو پڑھ کر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے، اور اس وقت ان کی پاکیزہ صفات کے مانند، بطن ارضی پر ان کی سی ایک صورت وسیرت بھی نہیں ملے گی. 
اللهم إغفر له وارحمه رحمة واسعة وامطر عليه شآبيب لطفك السني وكرمك الهمني تامة وكاملة. 

شعر! 

لوگ خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا
ہم نے سونا __سپرد خاک کیا 

میں تو حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کا انتہائی نالائق و ناکارہ شاگرد ہوں میں کیا لکھوں؟ اصل تو حضرت کے مخصوص، ملک وبیرون ملک اور عالم اسلام میں پھیلے ہوئے ممتاز و نمایاں تلامذہ کے علاوہ دیگر حضرات بھی حضرت الاستاذ کی تدریسی زندگی، تصنیفی وتالیفی پہلو، خدمات و خصوصیات اور دیگر گوشوں کو اجاکر کریں گے، اور لکھنے والے حضرت کی شخصیت پر مستقل لکھیں گے، جس سے ہم سب خوب مستفیض ہوں گے، ان شاءاللہ،
 میرے ذہن ودماغ میں کچھ نقوش ہیں بس اسی کو قلمبند کر رہا ہوں. 
حضرت الاستاذ قدس سرہ دارالعلوم دیوبند کے عظیم منصب حدیث کے چشم صافی تھے، صدرالمدرسین تھے، علم وفن کے بحر بیکراں تھے، یادگار اسلاف تھے، اپنے اساتذہ واکابر کے پیشوا تھے، دارالعلوم دیوبند کے نمک خوار اور سپوت تھے، آپ کی ذات مرجع الخلائق تھی، ہر فن میں نمایاں مقام رکھتے تھے، عالم اسلام کے عظیم محدث، مفسر اور فقیہ تھے، کثیر التصانیف شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے، علمی شخصیت بلند وبالا اور نمایاں تھی، اس دور میں شاذ ونادر ہی وہ تمام خوبیاں جو آپ میں تھیں کسی اور کے اندر مجتمع ہوں، آپ کی شخصیت علمی شان وشوکت اور رفعت وعظمت سے لبریز تھی، آپ ایک باکمال، بہترین، منجھے ہوئے، تجربہ کار مدرس تھے، حضرت نے اپنی زندگی تدریس ہی کے لیے وقف کی، پوری زندگی قال اللہ وقال الرسول میں گزاری، زمانہ طالب علمی سے جو یہ سلسلہ شروع ہوا تو آخر دم تک جاری رہا، یقیناً وہ لوگ سعادت محسوس کر رہے ہوں گے جو آپ سے فیض یاب ہو کر اپنی علمی وعملی زندگی کو کامیاب بنانے، سنوارنے اور نکھارنے میں مصروف ہیں، کیوں کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب کہ آئندہ نسلیں حسرت کے ساتھ یہ کہیں گی کہ اب اس دنیا میں حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کے تلامذہ میں سے کون کون حیات ہیں، اور ان سے استفادہ کو حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے توسط سے اپنے لیے باعث فخر محسوس کریں گے، یقیناً آپ کی وفات ملت اسلامیہ، تلامذہ، طالبان علوم نبوت اور دارالعلوم دیوبند کے لیے ایک عظیم سانحہ ہے،

  شعر! 
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئ آسماں کیسے کیسے

آپ ایک بارعب مدرس تھے، آپ کے سامنے جلدی کسی کی ہمت نہیں اور نہ ہی مجال کہ کچھ کہ سکے، لیکن طلبہ عصر کے بعد کی مجلس میں اپنی بات رکھتے تھے، آپ کے چہرہ انور سے رعب کے آثار نمایاں تھے، 
حضرت مفتی صاحب دارالعلوم دیوبند کے عظیم منصب کے حامل قدیم بزرگوں کی علمی یادگار تھے اور منصب حدیث جیسے عظیم بار گراں کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے، آپ کے علم کا اعتراف ہر شخص کے زبان پر تھا، معاصرین بھی آپ کی علمی خدمات، علمی لیاقت اور ذہانت کے معترف ہیں، چناں چہ ایک واقعہ کو سپرد قرطاس کرنا مناسب سمجھتا ہوں، 
ایک دفعہ میں نے حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کا انداز تفہیم کو اپنے قابل قدر استاد حضرت اقدس مولانا بلال اصغر صاحب دیوبندی دامت برکاتہم العالیہ استاذ دارالعلوم دیوبند (جو حضرت مولانا عبد الاحد صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سابق استاد حدیث دارالعلوم دیوبند کے صاحبزادے اور حضرت مولانا عبد السمیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سابق استاد حدیث دارالعلوم دیوبند کے پوتے ہیں، دونوں حضرات دارالعلوم دیوبند کے ممتاز اور جلیل القدر اساتذہ میں سے تھے، حضرت مولانا عبد السمیع صاحب قدس سرہ کے مضامین "رسالہ القاسم" دارالعلوم دیوبند میں برابر شائع ہوتے تھے، بعض شماروں میں تو پورے کے پورے آپ ہی کے مضامین ہیں، حضرت الاستاذ دامت برکاتہم العالیہ کے خاندان کا علمی خدمات کا سلسلہ تین پشتوں سے دارالعلوم دیوبند میں جاری ہے، اس اعتبار سے دیوبند کا یہ پہلا علمی خاندان ہے) سے بیان فرمایا، اور ان کی شخصیت کے بارے میں کہا تو حضرت استاد محترم مدظلہ العالی نے فرمایا کہ بیٹے ہر کوئی اپنے شیخ کے بارے میں یہی کہتا ہے، علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ حضرت کے بارے میں کہتے تھے کہ ہمارے شیخ کی طرح کوئی نہیں ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ میں علوم وفنون کی جو جامعیت تھی وہ شاید ہی کسی میں ہو، حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ اپنے شیخ کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے شیخ کی مثال نہیں دی جا سکتی، میں بھی بخاری شریف حضرت ہی سے پڑھی ہے، حضرت مولانا فخرالدین صاحب مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ حضرت کے بارے میں بہت کچھ بیان فرماتے ہیں، اسی طرح بعد کے حضرات بھی اپنے شیخ کے بارے میں فرماتے ہیں، پھر فرمایا کہ تم بھی اپنے شیخ کے بارے میں یہی کہ رہے ہو، ہمیشہ اس منصب پر علمی لوگ جلوہ گر ہوتے رہے، اللہ بہت بڑا ہے، ان کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کسی کو جلوہ افروز فرما دیں گے. 
اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ دامت برکاتہم العالیہ کی بات قبول فرما کر حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا دارالعلوم دیوبند کو نعم البدل عطا فرمائے، آمین. 
اور کیوں کر اپنے شیخ کا تذکرہ نہ کروں، چونکہ ان کی زندگی ہمارے آنکھوں کے سامنے تھی، ہم نے انہیں بہت قریب سے دیکھا، ان سے استفادہ کیا، نیز! ہم حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے علمی کمال اور جاہ و جلال سے بخوبی واقف تھے، 
حضرت مفتی صاحب کے تعلق سے حضرت مولانا بلال اصغر صاحب کی ایک بات اور نقل کرتا ہوں. 
میں حضرت مولانا بلال اصغر صاحب دیوبندی دامت برکاتہم العالیہ سے بہت مانوس تھا، اور حضرت بھی اس ناچیز کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ فرماتے تھے،  اور اب بھی یہی حال ہے، فون پر بھی گفتگو ہوتی تو انتہائی بشاشت کے ساتھ حال دریافت فرماتے اور دعاؤں سے نوازتے،"مدنی دارالمطالعہ" کا اختتامی پروگرام سے تقریباً ٢٥/ دن قبل حضرت الاستاذ مفتی محمد عفان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وصدرالمدرسین مدرسہ اسلامیہ جامع مسجد کے ہمراہ دیوبند جانا ہوا تو میں حضرت مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دوران بھی ماضی کی طرح پیش آئے، اور ایک ایک بات معلوم کرتے رہے، 
اللہ آپ کو سلامت رکھے. 
بسا اوقات میں اور رفیق مکرم مولوی محمد احمد بجنوری فاضل دارالعلوم دیوبند دونوں ساتھ میں حضرت کے یہاں جاتے، اور کبھی کبھی میں اکیلا ہی چلا جاتا، میں حضرت سے بے تکلف بھی تھا، ماضی کے بہت سارے واقعات حضرت سے مجھے سننے کو ملے، دارالعلوم دیوبند میں عربی چہارم میں جغرافیہ کی کتابیں نصاب میں داخل ہیں، ایک دفعہ اس سے متعلق بحث چھڑ گئی، حضرت مولانا جغرافیائی اعتبار سے مصر وحجاز کی باتیں بتانے لگے، میں نے دبے الفاظ میں کہا کہ حضرت اس زمانہ میں اس کا کیا فائدہ، پڑھ کر کیا ہوگا، اپنے مخصوص انداز میں فرمانے لگے کہ بیٹے جا اپنے صدر المدرسين "سعيد" سے جا کر معلوم کر اسی نے تو داخل کر رکھا ہے، معلوم کرو کیوں داخل کیا ہے، مزید فرمانے لگے کہ "سعید" نے تو پڑھ رکھا ہے، اس وقت دارالعلوم میں علم جغرافیہ میں مہارت بھی اسی کو ہے. 
یہ تھا حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا اپنے معاصرین میں علمی مقام، اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے تمام فنون کی کتابیں پڑھیں اور پڑھائیں، ہر میدان میں ان کا ایک ممتاز مقام تھا، کوئی بھی فن ہو اس کی باریکیوں سے خوب واقف تھے،پہلے دارالعلوم میں علم جغرافیہ، علم ہئیت کے علاوہ دیگر فنون کی بعض اہم کتابیں بھی نصاب میں داخل تھیں، اس زمانہ میں حضرت مفتی صاحب قدس سرہ ہمارے لیے حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحب مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا کم تھے، ہمارے لیے آپ کی شخصیت نعمت عظمیٰ کی حیثیت رکھتی تھی.

 شعر! 
کہانی ختم ہوئ اور ایسی  ختم ہوئ 
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے 

محنت و مشقت اور جد و جہد میں حضرت مفتی صاحب کی مثال دی جاتی تھی، شروع ہی سے آپ محنت کے عادی تھے، اور آخر تک محنت کرتے رہے، آپ نے وقت کو خوب نچوڑا، ضائع ہونے نہیں دیا، معمول کے مطابق کام کرتے تھے، ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے تھے، بیماری کے باوجود بھی حضرت مفتی صاحب اپنے معمولات میں کمی نہیں آنے دیتے تھے، وقت کی خوب خوب قدر کی اور اوقات کی قدر ہی کے بدولت حضرت مفتی صاحب نے علمی دنیا میں اپنے آپ کو روشناس کرایا، محنت وجفاکشی اور جہد مسلسل ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے علمی میدان میں اپنا سکہ جمایا اور لوہا منوایا، لوگ مثال دیتے ہیں کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ وقت کے بڑے قدرداں تھے اور صحیح معنوں میں انہوں نے وقت کو نچوڑا اور اس کا صحیح استعمال کیا، لیکن اس دور میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ بھی وقت کے بے انتہا قدر داں تھے، اور اس کا صحیح استعمال کیا، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا محنت کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت کتابیں ان کے سامنے رہتی تھیں، آپ نےایک باکمال مدرس بننے کے لئے اپنے آپ کو کھپا دیا، دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد  دارالعلوم اشرفیہ راندیر کے زمانہ تدریس میں روزانہ کا سبق مطالعہ کرتے، پھر مرتب انداز میں اسے کاغذ پر نوٹ کرتے، اس کے بعد لکھی ہوئی تحریر کا مطالعہ فرماتے، پھر کوئی خامی نظر آتی تو اسے دور کرنے کے بعد خلاصہ کا خلاصہ اور نچوڑ کو سبق میں مرتب انداز میں بیان فرماتے، اس طرح کے محنت کے بعد تدریسی میدان میں آپ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہوا، 
دارالعلوم اشرفیہ راندیر میں  تفسیر وحدیث کی اعلی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں، جن میں " ترمذی شریف، ابو داؤد شریف، شمائل ترمذی، طحاوی شریف، نسائ شریف، ابن ماجہ شریف، مؤطین، مشکوۃ شریف، جلالین شریف" وغیرہ شامل ہیں، 
حضرت مفتی صاحب طلبہ کا حق مکمل طور پر ادا کرتے، جس طرح آپ ایک کامل مدرس تھے، اسی طرح آپ مدرسین اور اپنے تلامذہ کو نصیحت فرماتے تھے کہ کامل مدرس بنو، حقیقت میں آپ استاد گر تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ ہدایہ ثانی کے سبق میں حضرت الاستاذ مفتی خورشید انور صاحب گیاوی دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند نے دوران درس فرمایا کہ ہدایہ ثانی کا سبق مجھ سے متعلق ہوا تو ایک روز تین یا ساڑھے تین صفحات میں نے پڑھایے یہ ابتدائی دور تھا، حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا، فرمانے لگے کہ آج کتنا پڑھایا؟  حضرت مفتی خورشید انور صاحب نے جوابا عرض کیا کہ اتنا پڑھایا، تو حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ پڑھاتے ہو یا خانہ پوری کرتے ہو، 
حضرت مفتی خورشید انور صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی عبارت میرے قول سے جدا تو ہو سکتا ہے، لیکن مفہوم تقریباً یہی ہے. 
حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کا کہنے کا منشاء یہ تھا کہ کامل استاد بنو، محنت ولگن سے پڑھاؤ، طلبہ کا حق ادا کرو.
حضرت مفتی صاحب کا جو مزاج تھا اسی مزاج کے مطابق اپنے تلامذہ کو بھی ڈھالنے کی کوشش کرتے تھے، اور تلامذہ کو اس میدان میں محنت کرنے کی ترغیب بھی دیتے تھے، اس سلسلہ میں آپ کی جتنی بھی تعریف اور ثناء خوانی کی جائے کم ہے، اس اعتبار سے آپ ایک بے مثال مربی تھے، نہ جانے کتنے لوگ آپ کے درسی انداز، انداز تکلم اور انداز تفہیم کو اختیار کیا ہوگا اور اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہوں گے، خلاصہ یہ ہے کہ اس دور میں آپ کی شخصیت ہیرے، موتی اور جواہرات سے کچھ کم نہیں تھی، 
ہم جیسے کمزور، ناتواں اور ناقص طالب علم کے لیے حضرت کی زندگی سے سیکھنے کا بہترین موقع ہے، 
اللہ ہم سب کو وقت کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین. 
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے علمی مقام سے ہر شخص آشنا اور واقف ہے، آپ ایک کہنہ مشق عالم دین اور مدرس تھے، شریعت مطہرہ کے اسرار وغموض سے واقف تھے، دین اسلام کی خاطر ہر اعتبار سے آپ جان نچھاور کرتے تھے، حدیث کی پیچیدگیاں، تفسیر قرآن کے ماقبل ومابعد سے ربط وتعلق کا انداز اور سلیقہ، فقہ و فتاویٰ کی باریکیاں، موجودہ حالات کے اعتبار سے فقہی کلیات و جزئیات کی تصریحات و تشریحات، منطق، علم کلام، فلسفہ اور علم عقائد کے پیچیدہ مسائل، باریکیاں، اور موشگافیوں سے بخوبی آشنا، فن حدیث پر عمیق نظر، احادیث کے سیاق و سباق اور نزاکت سے باخبر، اسماءالرجال پر گہری نظر اور اس کے نشیب وفراز کا آپ کو کامل علم تھا. یہ تھے حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کے کمالات علمی، جس کا معترف ہر شخص ہے،، 
فرماتے تھے کہ اس وقت دیوبندیوں میں جس درجہ بھی علم ہے اس کی قدر کرو اور حفاظت کرو، 
اللہ ہمیں علم کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے. 
دارالعلوم دیوبند نے ڈیڑھ سو سال میں ہر میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، اس حوالہ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، دارالعلوم کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، ہر موضوع پر ہمارے اکابر کی ایسی اور بے مثال تصنیف ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی، ہمیں فخر ہے کہ علماء دیوبند نے مذہب اسلام کو بدعات و خرافات سے بچا کر امت مسلمہ کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی ہے، 
فرقہ باطلہ کے تعاقب اور بدعات و خرافات کے خاتمہ  میں دارالعلوم دیوبند کی زریں اور نمایاں خدمات ہیں،علماء دیوبند اور فضلاء دارالعلوم دیوبند کی خدمات کے سلسلے میں طویل فہرست ہے،، جن میں نمایاں نام قطب العالم، محدث دوراں، فقیہ النفس حضرت اقدس مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نوراللہ مرقدہ کا ہے، اس میدان میں ان دونوں حضرات کی خدمات بے مثال اور لازوال ہے، اس حوالے سے اس دور میں ہم نے جنہیں دیکھا ان میں نمایاں نام حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ رحمہ اللہ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند کی شخصیت بہت نمایاں، ممتاز اور موزوں تھیں، 
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے فرقہ باطلہ کے تعاقب میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، آپ اس میدان کے بھی سپہ سالار اور شہسوار تھے، اس میدان میں بھی آپ نے اپنے خوب جوہر دکھائے، اور بغیر کسی پرواہ کے دین اسلام کی حفاظت میں بھرپور حصہ لیا، حق بات کہنے کے عادی تھے، اور جہاں خامی نظر آتی حضرت والا فوراً نکیر فرماتے اور ٹوکتے تھے، اصلاح ان کا مشن تھا، اسلام کی حقانیت اور ترویج واشاعت میں آپ نے اپنا قیمتی وقت صرف کیا، کسی کی تعریف اور توثیق کے بغیر آپ بدعات وخرافات کی اصلاح کو اپنی ذمہ داری اور دینی فریضہ سمجھتے تھے، حق گوئی وبے باکی میں ضرب المثل تھے، دلائل وشواہد اور کتاب وسنت کی روشنی میں گفتگو فرماتے، بغیر حوالہ اور دلیل کے کوئی بات نہیں کرتے، لاکھ مخالفت کی جائے، برا بھلا کہا جایے، بلکہ مخالفت کا طوفان سامنے کھڑا ہو تب بھی ڈر اور خوف محسوس نہیں کرتے، یہ آپ کی ہمت وجرات، بہادری اور بلند حوصلگی کی کامل اور بین دلیل ہے، احقاق حق اور ابطال باطل آپ کی زندگی کا ایک نمایاں، روشن اور تاریخی باب ہے، برملا تردید فرماتے، مسلک حق کی اشاعت اور اس کے صحیح رخ کو پیش کرنا حضرت نوراللہ مرقدہ نے اپنا فرض سمجھا، مسلک دیوبند کے حقیقی معنوں میں آپ ترجمان تھے، معاشرے سے خرافات کو دور کرنے کے لیے آپ ہمیشہ فکر مند رہے، دیوبندیت کے منہج ومزاج اور طریقہ کار کو امت مسلمہ کے سامنے کھل کر بیان کیا، اور تحریری وتقریری شکل میں اسے عام کیا، جو رائے قائم کرلیتے تو اس پر تصلب کے ساتھ قائم رہتے، ان کی رایے میں ایک قسم کا جماؤ تھا اور اس مسئلہ پر دلائل اور شواہد پیش کرتے چلے جاتے، بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ ایک رایے قائم کرنے کے بعد جب مخالفت کی جائے تو اپنی رایے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں لیکن آپ میں یہ چیزیں نہیں تھیں، آپ علماء دیوبند کے شان بان اور آن تھے،گروہ دیوبندیت کے آپ سالار قافلہ تھے، فرقہ باطلہ میں بھی آپ کی وسعت علمی، گہرائی و گیرائی، نظر عمیق، دقیق نگاہ اور باریک بینی نے یہ باور کرایا کہ اس دور میں حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ شریعت اسلامی کے علمبردار ہیں، 
حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ کی ایک خوبی یہ تھی کہ آپ استقامت کے ساتھ اپنے کام میں پوری زندگی مصروف رہے، زندگی میں دشوار گزار راہوں کو عبور کیا، کٹھن راہ سے گزرے، حالات نے گھیرا، آلام و مصائب کے پہاڑ راہ میں حائل ہویے، لیکن ہر ایک پریشان کن مرحلہ کو عبور کیا، اپنی ذات سے دوسروں کو یہ پیغام دیا کہ ہر مشکل اور کٹھن مسئلے پر انسان کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے، چہرہ پر ذرہ برابر بھی شکن کا نام ونشان نہیں رہتا، فرحت و شادما اور خوش وخرم نظر آتے، ہر حال میں خوش رہتے، خوشی کا اظہار فرماتے، حالات آئے لیکن صبر سے کام لیا، صبر کا بندھن ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں پریشانی کو ضبط کرنے کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا، حالات کا مقابلہ کیا، اللہ کے فیصلے پر راضی رہتے، بس یوں فرماتے کہ جو ہونا تھا ہوگیا، حالات کو کبھی اپنے اوپر غالب آنے نہیں دیا، صبر و ضبط، توکل علی اللہ، تقویٰ وطہارت، تواضع و انکساری، سادگی، منکسر المزاجی یہ صفات آپ کی زندگی کی نمایاں صفات میں سے ہیں، مزاج میں نظافت کا رنگ غالب تھا، معمولی کپڑا استعمال کرتے، لیکن سادہ لباس میں بھی آپ کی علمی رفعت وعظمت اور عالمانہ شان وشوکت کی وجہ سے آپ کی شخصیت نمایاں نظر آتی. 

حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ ایک خود دار انسان تھے، آپ نے دنیا میں بے اعتنائی اور بے رغبتی کی زندگی بسر کی، طمع وحرص کا تو نام ونشان تک نہیں، قناعت پسندی، صبر، اللہ کے فیصلے پر رضامندی، ان صفات کو اپنی زندگی میں حرز جان بنائے رکھا، تدریس کے ابتدائی دور میں مالی ضرورت اور بغرض حاجت، مدرسے سے تنخواہیں تو لیں اور استعمال بھی کیا، لیکن جب اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو مالی وسعت اور فراوانی سے نوازا تو حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ نے زندگی بھر کی ساری تنخواہیں" مدرسہ اشرفیہ راندیر" اور" دارالعلوم دیوبند" کو بیک وقت واپس کردیں، اور پھر زندگی کے آخری ایام تک بلا تنخواہ، فی سبیل اللہ دین کی خدمات انجام دیتے رہے، جو آپ کی زندگی کا ایک روشن وتابناک کارنامہ ہے. 

حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کی شخصیت جاذب نظر، پرنورچہرہ، پرکشش اور دیکھنے میں نمایاں ودلکش معلوم ہوتی تھی ، عالمانہ شان اور جاہ و جلال ایک خاص قسم کا آپ کی شخصیت میں موجود تھا. 
شعر! 
اٹھ گئیں ہیں سامنے سےکیسی کیسی صورتیں 
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے



حضرت الاستاذ قدس سرہ کا انداز درس وطرز تفہیم بھی بہت نرالا تھا، آپ کی درسی مقبولیت کی دھوم تو ملک وبیرون ملک میں مچی ہوئی تھی، اس میدان میں ہر فرد آپ کو اپنا رہنما و سرپرست سمجھتا تھا، دینی درسگاہوں کا ہر طالب علم آپ کے درس سے متاثر تھا، احقر کا بیرون ملک کے کئ احباب سے رابطہ ہوا دوران گفتگو ہر ایک نے فرمایا کہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا انداز درس و انداز تفہیم لاجواب ہے ان سے بہت متاثر ہوں، بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک فاضل نے تو حضرت مفتی رحمۃ اللہ علیہ کا انداز درس کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیا ، ( خود حضرت مولانا منظور مینگل صاحب کا حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت کے بارے میں تعریفی کلمات موجود ہیں،) اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں حضرت مولانا عبد الرؤوف صاحب غزنوی دامت برکاتہم العالیہ ( جو کہ ایک جید الاستعداد، عمدہ صلاحیت، قابلیت اور اچھے عالم دین ہیں، دارالعلوم دیوبند کے خوشہ چیں ہیں، اور دارالعلوم دیوبند میں تدریسی فرائض بھی انجام دے چکے ہیں، حضرت مفتی رحمۃ اللہ علیہ مخصوص تلامذہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے. )
 حضرت الاستاذ نوراللہ کے  خاص تربیت یافتہ ہیں، اور ترمذی شریف کے اسباق ان سے متعلق ہیں ، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا مولانا غزنوی صاحب  مدظلہ العالیہ برابر تذکرہ فرماتے رہتے ہیں. 
حضرت مفتی سعید احمد صاحب رحمہ اللہ کا انداز درس کا کیا کہنا، وہ تو اس فن میں ضرب المثل تھے، ان کے اسباق میں تو مائک والا بھی بالکل چاک و چوبند رہتا، ایک  مرتبہ سبق میں مائک کی آواز ٹکرانے لگی، کچھ خراب سا ہونے لگا، حضرت الاستاذ نے فرمایا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، کہاں ہے مائک والا، تمہیں یہاں کیوں بٹھا رکھا ہے، آئندہ مائک خراب نہیں ہونا چاہیے، وہ صاحب پھر وہیں بیٹھے رہتے تھے جب تک سبق ختم نہیں ہو جاتا،
بخاری شریف کے سبق میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ عبارت خود ہی پڑھتے تھے، ان کے عبارت کے سلسلہ میں بڑی سختی تھی، سال کے آخر میں دو چار طلبہ کو یہ سعادت نصیب ہو جاتی کہ وہ حضرت مفتی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے سبق میں عبارت پڑھتے، آپ کے یہاں شروع سال میں جس طرح مقدار خواندگی ہوتی، اسی طرح سال کے آخر تک درس کا سلسلہ جاری رہتا، جس سے طلبہ لطف اندوز ہوتے، طلبہ اور کتاب کا حق مکمل طور پر ادا کرتے، عام طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ آغازِ سال میں اساتذہ ومدرسين لمبی چوڑی تقریریں کرتے اور آخر سال میں کتاب دوڑاتے، حل عبارت بھی غائب، اور بعض جگہ کے بارے میں سننے کو یہاں تک ملا کہ نصاب بھی مکمل نہیں کرتے، لیکن حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کا معاملہ پورے سال یکساں رہتا تھا، آپ اخیر سال تک انتہائی شفقت و محبت، محنت ولگن اور دلچسپی کے ساتھ درس دیتے تھے،
حضرت الاستاذ نے بخاری شریف فخر المحدثین حضرت مولانا فخرالدین احمد صاحب مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھی، حضرت فخرالمحدثین قدس سرہ کا علمی رنگ آپ پر غالب تھا،حضرت مفتی صاحب بخاری شریف کا درس چوتھے گھنٹے میں دیتے تھے، حضرت والا آدھا گھنٹہ تاخیر سے تشریف لاتے، شروع سال ہی میں اصول بیان فرمادیتے تھے کہ آدھا گھنٹہ تاخیر سے میں آؤں گا، اور یہ وقت اس لیے دے رہا ہوں تاکہ تم لوگ تمام ضروریات سے فارغ ہو کر آؤ، اور چھٹی کے بعد تک پڑھاوں گا،،،
حضرت مفتی صاحب کے درسگاہ میں آنے کے بعد اگر کوئی طالب علم آتا تو سخت ناراض ہوتے، اور پھر فرماتے کہ ہمارے آنے کے بعد کوئی نہ آئے، 
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ درسگاہ میں جب حاضر ہوتے تو مسند پر جلوہ افروز ہونے سے پہلے اپنے مخصوص انداز اور لب و لہجے میں طلبہ کو سلام کرنا آپ کی عادت مستمرہ تھی،پھر درسگاہ میں سناٹا چھا جاتا، طلبہ اپنی اپنی نشست میں بیٹھ جاتے، سبق میں آپ کے ارد گرد کھانسنے والوں کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی،
درس کا عجیب منظر تھا، تمام طلبہ پر آپ کا رعب تھا، باریک باریک باتوں کی طرف خاص توجہ دینا، رہنمائی اور اصلاح فرماتے تھے، بخاری شریف کی عبارت خود ہی پڑھتے تھے، عبارت سے قبل عبارت حل فرماتے، مفہوم سمجھاتے، سیر حاصل بحث فرماتے، اقوال ائمہ بیان کرنے کے بعد مسلک حق کو واضح فرماتے، شواہد اور دلائل کی بنیاد پر راجح قول کی نشاندہی فرماتے، بعدہ عبارت سے ملاتے، اور خاص خاص مقام کا ترجمہ بھی کرتے،
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا انداز بالکل انوکھا،  اچھوتا، انبیلا اور نرالا تھا، ہر طالب علم کو آپ کی بات پوری طرح سمجھ میں آتی تھی،
"حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں درس میں جو سب سے ادنی ذہن کے طلبہ ہوتے ہیں ان کی رعایت کرتے ہوئے سبق پڑھاتا ہوں تاکہ سب کو بآسانی سمجھ میں آجائے" 
تفہیم میں تو حضرت مفتی صاحب اپنی مثال آپ تھے، رک، رک کر، ٹہر، ٹہر کر کلام کرتے، کوئی حرف کٹنے نہیں پاتا، مرتب انداز میں کلام فرماتے، اپنے مخصوص اور جداگانہ لب و لہجے میں درس دیتے تھے، خوبصورت انداز اور جملوں کو دل نشین پیرایہ میں پرونے کا آپ کو سلیقہ اور ہنر تھا، عمدہ اسلوب اور انوکھا انداز بیاں سے ہر طالب آپ کا گرویدہ وہمنوا تھا، یقیناً آپ ایک قابل فخر اور لائق تقلید استاد تھے، جس انداز اور رفتار سے آپ درس حدیث دیتے تھے کہ بہت سارے طلبہ آپ کے کلام کو بآسانی نوٹ کر لیتے تھے، جس جگہ حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ سیر حاصل بحث کرتے، اور پوری بشاشت، توجہ اور انہماک کے ساتھ درس دیتے تو ہم طلبہ کے ذہن میں یہ بات آجاتی کہ شاید یہ محل امتحان ہے، چونکہ حضرت الاستاذ مفتی خورشید انور صاحب گیاوی دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث وناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند بھی دوران درس کبھی کبھی اہم مقامات پر یوں فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبھی اس سے بات واضح ہو جاتی تھی کہ یہ محل امتحان ہے،
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نبض شناس عالم دین تھے، طلبہ کے مزاج سے بخوبی واقف تھے، ایک بڑی تعداد نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے میدان عمل میں سرگرم عمل ہیں، بہت سے مدرسین اور اساتذہ نے آپ کے انداز درس، اسلوب اور طریقہ کار کو اپنے نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش مزید اس میں پختگی کے لیےجدوجہد کی ہو گی اور کر رہے ہوں گے، آپ کے درس میں نظائر و امثلہ کی بھرمار رہتی، طلبہ مطمئن رہتے، کتاب کی ابتدا سے پہلے امام بخاری رحمہ اللہ کے حالات زندگی بیان فرماتے، اور ہر طالب علم سے اسمائے حسنی یاد کرواتے،، آپ کی گفتگو میں جو مٹھاس، شیرینی، ملاحت اور چاشنی تھی، اس سے ہر فرد کا دل آپ کی طرف مائل ہو جاتا، بار بار رہ رہ کر آپ کا انداز تکلم کانوں میں گونج رہا ہے،
افہام و تفہیم کا تو آپ بے تاج بادشاہ تھے، جس میں کوئی معاصر آپ کے مثل نہیں، ہر مسئلہ کو انتہائی اطمینان، اہمیت، خوش اسلوبی، اہتمام کے ساتھ بیان فرماتے، عام فہم اور سہل انداز میں کلام کرتے، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے کلام کو سمجھنے میں کوئی دقت اور پریشانی محسوس نہیں ہوتی، ہرطالب علم آپ کی بات کو پوری طرح سمجھ سکتا تھا، آیت قرآنیہ اور احادیث نبویہ کی دلنشیں تشریح کو نہیں بھلایا جاسکتا، پورا درس گل گلزار رہتا، محققانہ بحث کرتے، مسائل کو دلائل سے مضبوط کرتے، آپ کے درس میں مسائل کا استحضار ہوتا تھا، کتاب کی تکمیل پر ہر طالب علم آپ کے پرمغز خطاب کا منتظر رہتا، آپ کا مزاج تھا کہ بخاری شریف اچانک ختم فرماتے، ہمارے سال سن ١٤٣٩ ھجری میں حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے اختتام درس کے موقع پر نصیحت فرمائ تھی کہ ابھی اپنے آپ کو عالم، فاضل مت سمجھو، ابھی ہم نے تمہیں پڑھنا سکھایا ہے کہ کس طرح پڑھا جاتا ہے، اب میدان میں جا کر خوب پڑھو اور سمجھو، آپ کی طبیعت میں محنت اور جفا کشی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا درس طلبہ کے درمیان بے انتہا مقبول تھا، بڑے بڑے فاضل بھی آپ کے درس حدیث میں شرکت کے لئے تشریف لاتے، اور لطف اندوز ہوتے،  آپ کے درس سے بیش بہا قیمتی موتی لے کر رخصت ہوتے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے سال میں بنگلہ دیش کے ایک بڑے عالم جن کی داڑھی کے بال بھی بالکل سفید ہو چکے تھے، وہ چند دنوں کے لیے دیوبند تشریف لائے تھے، وہ آپ کے درس میں قلم اور ڈائری لے کر بیٹھتے تھے، اور حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی تقاریر نوٹ فرماتے تھے، یہ تھا آپ کا طبقہ علماء میں تدریس کی مقبولیت اور شہرت، یقیناً ہم اور وہ لوگ خوش نصیب ہیں جنہوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے. 

 *شعر! *

محفلیں لٹ گئیں جزبات نے دم ٹوڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا



میں تو حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کا انتہائی ناکارہ شاگرد ہوں یقیناً وہ احباب جنہوں نے حضرت کے درس سے مکمل طور پر فائدہ اٹھایا، پابندی کی اور حاضر باش تھے، وہ اس موضوع (یعنی آپ کا انداز درس اور انداز تفہیم) پر مکمل روشنی ڈالیں گے، اور صفحات کے صفحات لکھیں گے، 
اللہ حضرت والا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے، 

حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ جہاں ایک طرف کامیاب مدرس تھے، وہیں دوسری طرف کامیاب، تجربہ کار، لاجواب اور بلند پایہ مصنف بھی تھے، آپ نے اپنی حیات مستعار میں تصنیفی اعتبار سے لاجواب خدمات انجام دیں، آپ ایک منجھے ہوئے مصنف تھے، کم وقت میں آپ اتنا علمی کام کر گئے، جتنا ایک اکیڈمی کام کرتی ہے، اور اس میدان میں بھی آپ کو نمایاں کامیابی اور شہرت حاصل ہوئی، حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے، حجۃ اللہ فی الارض حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی معروف وممتاز کتاب"حجۃ اللہ البالغہ" کی بے مثال شرح "رحمۃ اللہ الواسعہ" کے نام سے تحریر فرمائ، جو آپ کی زندگی کا ایک زندہ جاوید کارنامہ ہے، "حجۃ اللہ البالغہ" ایک مشکل کتاب مانی جاتی ہے، لیکن حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے "رحمۃ اللہ الواسعہ" لکھ کر علماء دیوبند کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے، جو کہ علماء دیوبند کے ذمہ ایک قرض تھا، شرح کی تکمیل پر دارالعلوم دیوبند نے آپ کو خراج تحسین بھی پیش کیا، 
" رحمۃ اللہ الواسعہ" کے ذریعے "حجۃ اللہ البالغہ" کا پڑھنا پڑھانا آسان ہو گیا، قیامت تک لوگ حضرت مفتی صاحب کو دعائیں دیں گے. 
حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کا تصنیفی انداز بھی تدریسی تھا، مابعد سے ماقبل کا ربط بیان کرنا، باب سے پہلے باب کی مکمل وضاحت، ترجمۃ الباب سے مناسبت بیان کرنا، بعدہ حل عبارت، ترجمہ اور ضروری اہم مسائل کا بیان کرنا، 
آپ کی "ترمذی شریف" کی شرح "تحفۃ الالمعی" "بخاری شریف" کی شرح "تحفۃ القاری" کے نام سے منصہ شہود پر آئ، اور خوب مقبول و پذیرائی ہوئی، ایک بڑا طبقہ آپ کی تصنیفات سے فائدہ اٹھا رہا ہے، عام فہم اور سہل انداز ہے، قابل تعریف شرح، یہ آپ کی زندگی کا ایک پائندہ وتابندہ کارنامہ اور علمی شاہکار ہے، قرآن کریم کی تفسیر" تفسیر ہدایت القرآن " کے نام سے تالیف فرمائ جو انتہائی مقبول، معروف اور مشہور ترین تفسیر ہے، اس کے علاوہ بھی حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے کئ کتابیں تصنیف فرمائ جو علمی حلقوں میں بے حد مقبول ہے، اور نمایاں حیثیت رکھتی ہے، 
حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ کے مصنفات درج ذیل ہیں، 
(١) تفسیر ہدایت القرآن (٢) تحفۃ الالمعی شرح ترمذی شریف (٣) تحفۃ القاری شرح بخاری شریف (٤) رحمۃ اللہ الواسعہ شرح حجۃ اللہ البالغہ( ٥) الفو زالکبیر(٦) العون الکبیر (٧) فیض المنعم( ٨) تحفۃ الدرر (٩) مبادی الفلسفہ (١٠) معین الفلسفہ (١١) مفتاح التہذیب (١٢) آسان منطق (١٣) آسان نحو (دو حصے) (١٤) آسان صرف (تین حصے)( ١٥) محفوظات (تین حصے) (١٦) آپ فتویٰ کیسے دیں( ١٧) کیا مقتدی پر فاتحہ واجب ہے( ١٨ حیات امام ابوداؤد (١٩) مشاہیر محدثین وفقہائے کرام اور تذکرہ راویان کتب حدیث (٢٠) حیات امام طحاوی (٢١) اسلام تغیر پذیر دنیا میں (٢٢) نبوت نے انسان کو کیا دیا (٢٣) داڑھی اور انبیاء کی سنتیں (٢٤) حرمت مصاہرت (٢٥) تسہیل ادلہ کاملہ( ٢٦) حواشی امداد الفتاوی (٢٧) حواشی وعناوین ایضاح الادلہ (٢٨) افادات رشیدیہ (٢٩) افادات نانوتوی (٣٠) تہذیب المغنی( ٣١) زبدۃ الطحاوی (٣٢) کامل برہان الہی( ٣٣) حجۃ اللہ البالغہ (عربی دو حصے)( ٣٤) علمی خطبات (٣٥) دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت (٣٦) فقہ حنفی اقرب الی النصوص (٣٧) مبادی الاصول (٣٨) معین الاصول (٣٩) آسان فارسی قواعد (٤٠) شرح علل الترمذی( ٤١) مسلم پرسنل لاء اور نفقہ مطلقہ (٤٢) ہادیہ شرح کافیہ (٤٣) وافیہ شرح کافیہ (٤٤) مفتاح العوامل شرح شرماۃ عامل( ٤٥) ارشاد المفہوم شرح سلم العلوم (٤٦) گنجینہ صرف شرح پنج گنج، 
اس کے علاوہ بھی حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کے بے شمار علمی وتحقیقی مضامین و مقالات اخبارات ورسائل اور جرائد میں شائع ہوئے ہیں جو قابل استفادہ ہیں. 
نماز جنازہ :
وفات ہی کے روز حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، دو دفعہ نماز جنازہ ہوئ، پہلی دفعہ نماز جنازہ حضرت الاستاذ نوراللہ مرقدہ کے صاحبزادہ مولانا عبد الوحید صاحب نے سنجیونی نرسنگ ہوم سے متصل مسجد کے قریب ادا کرائی، اور دوسری دفعہ نماز جنازہ حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ کے صاحبزادہ مولانا عبد اللہ صاحب نے اوشیوارہ مسلم قبرستان سے متصل ادا کرائی، پانج بجے شام اوشیوارہ مسلم قبرستان جو گیشوری (ویسٹ) ممبئی میں آپ کی تدفین عمل میں آئ، 

شعر!
غموں میں جلتا ہوں مثل صحرا میں 
بچھڑ گیا مرا سایہ کھڑا ہوں تنہا میں 

رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے
صبح بہ صبح رنج ہے شام بہ شام رنج ہے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے. 


اللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کی قبر کو نور سے منور فرمائے، اللہ غریق رحمت کرے، اللہ درجات بلند فرمائے، اللہ مغفرت فرمائے ،اللہ تبارک وتعالی حضرت کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے، پسماندگان، متعلقین، متوسلین، اعزا وأقارب، تلامذہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، اور دارالعلوم دیوبند کو حضرت کا نعم البدل عطا فرمائے، 
آمین ثم آمین، 

٢٩ /رمضان المبارک ١٤٤١ ھجری مطابق ٢٣/ مئ ٢٠٢٠ عیسوی بروز ہفتہ بوقت دوپہر ١:٢٠ منٹ.

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے