موجودہ چیلنجز کرنے کے چند کام


موجودہ چیلنجز: کرنے کے چند کام

ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی
ڈائریکٹر الفاروق اکیڈمی، عمران گنج،  جونپور ، یوپی
+91 98383 68441

ملت اسلامیہ جن مسائل سے اس وقت دو چار ہےوہ یقینا مایوس کن ہیں۔  ہر باشعورشخص  فکر مند ہے کہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے مگر  یہ سچ ہے کہ ان تمام مسائل کا حل فی الفور ممکن نہیں۔ نیز  یہ امر بھی صداقت پر مبنی  ہے کہ یہ مسائل تقریروں  اور ہوائی منصوبوں کے بجائے زمینی سطح پر  کام کرنے سے حل ہوں گے۔ فی الوقت ہم مندرجہ ذیل آسان سے کاموں کو اپنے اپنے گاؤں اور محلوں کی سطح پر تنظیمی شکلیں بناکر شروع کرسکتے ہیں:

قومی شناخت: 

کسی بھی قوم میں احساس کمتری ختم کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت کو باقی رکھے۔ گوکہ  ملت اسلامیہ کی شناخت اس کے ظاہر سے زیادہ  اس کے اخلاق و اوصاف اور کاموں سے تھی، مگر حالیہ زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملت کو ایک ظاہر قومی شناخت کی سخت ضرورت ہے۔ ہمارے نام سے پہلے ہمارا ظاہر یہ صاف کر دے کہ ہم مسلمان ہیں۔ مسلمان ہونے پر فخر کریں اور اسے اپنی داڑھی، لباس یا کم سے کم ٹوپی سے اسے ظاہر بھی کریں۔ اس سے ہمیں اپنی سماجی طاقت و قوت کا احساس پیدا ہوگا۔

اسلام سے تعلق:

مذہب سے ہمارے تعلق کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کی ہر حال میں کوشش کریں۔ نیز اس کی حرام کردہ چیزوں سے مکمل طور پر اجتناب کریں۔ فی الوقت کم سے کم پنج وقتہ نمازوں کا پورا اہتمام کریں۔ خالق کائنات سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اس کی ڈور کو مضبوطی سے تھام لیں۔

صحت و تندرستی:

اسلام نے صحت وتندرستی کا حد درجہ اہتمام کیا ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں بھی اس ضمن میں بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہر مسلمان کے لیے  ضروری ہے کہ وہ کچھ ایسے کام کرے جس سے اس کے جسم کو قوت وطاقت مل سکے۔  ہمیں روز آنہ صبح آدھے گھنٹے جسمانی ورزش یا کم سے کم ٹہلنا ضرور چاہیے۔  انسان اپنی صحت کا خیال کیے بغیر پیسے کماتا ہے اور پھر جب بیماری لگ جاتی ہے تو علاج کے لیے زندگی بھر کی کمائی لگا دیتا ہے۔ کیا ہی بہتر تھا کہ ہر مسلمان خواہ مرد ہو یا عورت، جوان ہو یا عمردراز اپنی صحت وتندرستی کے لیے کسی نہ کسی درجہ کی جسمانی ورزش کرتا اور وقت کی پابندی کے ساتھ غذائیت سے بھرپور کھانے پینے پر دھیان دیتا۔

عقل وشعور: 

ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی صحت کو بہتر بنانے کے ساتھ، اپنی عقل وشعور کو پروان چڑھانے کی کوشش کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر مسلمان دین و دنیا کی بھلائی کی ہر بات کو بغور سنے۔ انسان کا امتیاز اس کی عقل وشعور ہے۔ اور عقل وشعور کے پروان چڑھانے کے لیے خالق کائنات نے ایک عظیم کتاب ہمیں عطا کی تھی۔ ہم نے اسے سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں کی۔ کس قدر حق تلفی ہوگی اگر اس کتاب الہی کو روز آنہ سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم روز آنہ قرآن کریم کے ایک رکوع کو یا کم سے کم دو تین آیتوں کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام فرمائیں۔ اس سے ہمارے عقل وشعور کے اندر ان شاءاللہ ایک خوشنما تبدیلی نظر آئے گی۔

معاشی خوش حالی:

ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاشی طور پر خود کو بہتر بنانے کے لیے پورے خلوص، لگن اور محنت سے کام کرے۔ کسی مسلمان کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ وہ زندہ لاش کی طرح پڑا ہو اور  کوئی کام نہ کرتا ہو۔  ہم اگر کسان ہیں تو کھیتی میں محنت کے ساتھ، نئی ٹکنالوجی کے استعمال سے آگے جاسکتے ہیں۔ تاجر ہیں تو محنت ، سچائی اور امانت داری کے ساتھ اپنی تجارت کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اگر ملازم ہیں تو پوری ایمانداری اور محنت سے اپنے کام کو انجام دیں۔  یہ یاد رکھیں آپ کی محنت، ایمانداری اور خلوص ضرور رنگ لائیں گے۔ خود کو معاشی طور پر خوش حال بنانے کے لیے ہر جائز اور ممکن کوشش کرنا اسلام میں عین مطلوب ہے۔

اولاد کی تعلیم وتربیت: 

والدین کے لیے خدا کا سب سے بڑا عطیہ ان کی اولاد ہیں۔ ان کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے ہماری ادنیٰ سی لاپرواہی، انہیں برباد کرکے رکھ دے گی۔ گھر کی بربادی کے لیے نالائق اولاد کافی ہیں۔  آپ اپنی عزت، دولت، شہرت اور تعلیم کی بہتری پر جس قدر توجہ دیتے ہیں، ان سے کہیں زیادہ آپ کی توجہ کی مستحق آپ کی اولاد ہیں۔ انہیں ہر قیمت پر لائق بنانے کی  کوشش کریں۔ انہیں روز آنہ ضرور کچھ وقت دیں۔ اگر آپ ان کی تعلیم میں مدد کرسکتے ہیں، تو ان کی مدد کریں۔ ورنہ انہیں زندگی کے جو گر بھی آپ نے سیکھے ہیں، کوشش کریں کہ آپ انہیں اپنی اولاد کو ضرور سکھائیں۔   انہیں محبت دیں، عزت دیں، وقت دیں، اپنے تجربات بتائیں، انہیں محنتی اور ایمان دار بنائیں۔

عورتوں کی تعلیم وتربیت:

ہمارے گھر کی عورتیں دینی اور دنیوی امور میں انتہائی سادہ ہوتی ہیں۔ عورتیں ہماری نصف آبادی ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم وتربیت کے بغیر ہمارے بہت سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں میں پندرہ بیس منٹ کی تعلیم کا اہتمام کریں جس میں انہیں کچھ دینی باتوں کے ساتھ بچوں کےتربیتی پہلو، گھریلو مسائل ، سماجی، سائنسی، قانونی اور سیاسی معلومات بھی دی جائیں۔ انہیں بھی اس دنیا کا علم ہو جس میں وہ رہ رہی ہیں۔  اس سے ان کے عقل وشعور اور معلومات میں اضافہ ہوگا اور ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہوگا۔ وہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کے ساتھ، گھر کے مکمل انتظام کو بھی بہتر طور پردیکھ لیں گی۔ مزید یہ کہ وہ کسی بھی صورت حال سے نبرد آزما ہو سکیں گی ۔ زندگی میں بے شمار مسائل ہیں۔ ہماری عورتوں میں بھی ان مسائل کے حل کی صلاحیتیں ہونی چاہیے۔

علما، بڑوں اور مسلمانوں کا احترام: 

ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علما، بڑوں اور عام مسلمانوں کا دل سے احترام کرے۔ ہر مسلمان کو اپنے سے بہتر جانے۔  ان کے اچھے کاموں کی تعریف کرے۔ ان کا بھلا چاہے۔ ان کی مدد کرے۔ ان سے دلی محبت کرے۔ اپنے مسلک ورائے پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مسلمان کی دل سے عزت کرے۔
لایعنی سے پرہیز: فضول باتوں، لایعنی مجلسوں، غیر ضروری تنقیدوں اور مسلکی بحثوں سے مکمل پرہیز کریں۔ حتی الامکان فضول خرچی سے بھی پرہیز کریں۔  سوشل میڈیا،  چائے خانوں اور چوراہوں پر غیرضروری سوالوں اور مذہبی جذبات برانگیختہ کرنے والوں کے جوابات دینے سے پرہیز کریں۔ حضورﷺ کی سنت رہی ہے کہ کفار مکہ کے بے بنیاد الزامات کی تردید کرنے کے بجائے آپﷺ ہمیشہ اپنے کام اور پروگرام میں مثبت انداز سے لگے رہے۔  اس طرح کی  لایعنی چیزوں سے بہت سے بنتے کام بگڑ جاتے ہیں۔

تھانے اور عدالت سے احتراز:

ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ گھر کے مسائل گھر میں حل کرنے کی کوشش کرے۔ آپسی تنازعے علما ،  دانشوران ملت، تجربہ کار اور سمجھ دار انسانوں کی مدد سے حل کریں۔ ان کے فیصلوں میں اگر نقصان بھی ہو تو بھی اسے دل سے قبول کریں کہ اس میں زندگی کی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔ پولیس تھانہ اور عدالتوں کے زندگی بھر کے چکر سے بچ جائیں گے جہاں آپ کا وقت، پیسہ اور عزت سب کچھ برباد ہوکر رہ جاتا ہے۔

قومی مسائل کا حل: 

روزآنہ کسی نماز کے بعد مشورہ کریں اور تفقد کریں کہ ہمارے گاؤں یا محلہ میں کیا مسائل ہیں۔ ان سے نماز اور دین کے لیے بھی ملاقاتیں ہوں اور ان کے دنیاوی مسائل کے لیے بھی ملاقاتیں کی جائیں۔ اسلام میں صرف مسجد اور دین تک کا ساتھ نہیں ہے بلکہ اپنے گھر سے لے کر پوری دنیا کے ہر مسئلہ کے حل  تک کا ساتھ ہے۔ حضور ﷺ نے جس معاشرہ کی بنیاد رکھی تھی، اس میں ہر شخص ایک دوسرے کے دین سے لے کر دنیا تک کے تمام مسائل میں ان کا بہی خواہ اور معاون تھا۔  بیماروں کی تیمارداری کریں۔ غریبوں کی دیکھ ریکھ کریں۔ غریب بچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں۔   اسی مشورہ میں برادران وطن سے بھی ہر ہفتہ ملاقات پر غور کیا جائے۔ ان سے تعلقات بنانے کی شکلوں کے بارے میں سوچا جائے۔ ان کے دنیوی مسائل پر توجہ دی جائے۔ اگر ہفتہ واری ملاقاتیں پڑوس کے برادران میں انسانی بنیادوں پر گاؤں اور محلوں کے مسائل کو لے کر ہونے لگیں، تو ان شاءاللہ نفرتیں ختم ہوجائیں گی کیونکہ نفرتیں پھیلانے والا دور بیٹھا ہوا ہے۔ اگر ہم نے قریب سے ان کی خیرخواہی اور ہم دردی  چاہی تو نفرتوں کے سارے ہنگامے اپنا اثر کھو دیں گے۔  
      اگر مندرجہ بالا امور یعنی قومی شناخت کے لیے کم سے کم ٹوپی کا اہتمام کیا گیا۔ خدا سے اپنے تعلق کو مضبوط بنانے کے لیے نمازوں کے ساتھ دوسرے فرائض کا اہتمام اور حرام کاموں سے کلی احتراز کیا گیا۔  صحت وتندرستی کو برقرار رکھنے کے لیے جسمانی ورزش کے ساتھ حلال اور صحیح غذا لی گئی۔ عقل وشعور میں ترقی کے لیے قرآن کریم کی کچھ آیات کا ترجمہ روزآنہ پڑھنے کی کوشش کی گئی۔  معاشی خوش حالی کے لیے اپنی دکان، کام اور ملازمت کے فرائض کو پوری محنت اور ہوش مندی کے ساتھ ادا کیا گیا۔ اپنی اولاد کی دین ودنیا کی بہتری کے لیے مناسب تعلیم وتربیت پر توجہ دی گئی۔ عورتوں کو دینی معلومات کے ساتھ، گھریلو اور تربیتی امور میں باشعور بنانے کی کوشش کی گئی۔ ہرمسلمان سے محبت اور خیرخواہی والا مزاج بنایا گیا۔ لایعنی بحثوں کے بجائے بامقصد کاموں میں وقت استعمال کیا گیا۔   ذاتی معاملات  پولیس اور تھانے کے بجائے اپنے لوگوں سے حل کرائے گئے۔ برادران وطن کے دلوں سے نفرتوں کو کم کرنے کے لیے ان سے انسانی ہمدردی اور مساوات کی بنیادوں پر ملاقاتیں کی گئیں۔ تو ان شاءاللہ نہ صرف ہمارے ذاتی حالات بہتر ہوں گے بل کہ سماج میں ہماری حیثیت بہتر ہوگی۔  لیکن کیا ہم بات کے بجائے کام کرنے کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں؟


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے