کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: آپ بیتی


کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: آپ بیتی

گزشتہ سے پیوستہ
قسط چہارم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتواں روزہ  بہ روز جمعہ۔۔۔1/مئی/2020ء

رات کے سوا تین بج رہے ہوں گے کہ اچانک محسوس ہوا کوئی آہستہ آہستہ میرے پاؤں دباتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ "مفتی صاحب اٹھ جاؤ سحری کا وقت ہوچکا ہے"۔ میں چوں کہ گہری نیند میں تھا اس لیے فورا اس حرکت کا احساس نہیں ہوا ؛لیکن جیسے ہی نیند کی غفلت ختم ہوئی اور دیکھا کوئی پاؤں دبا رہا ہے استغفر اللہ کہتے ہوئے پاؤں تیزی سے سمیٹے اور اٹھ بیٹھا۔ آنکھیں ملتے ہوئے کنارے رکھا ہوا چشمہ اٹھایا اور آنکھوں پر لگایا تو دیکھا کہ  "شاہ جہاں" پور کے ایک خوش اخلاق ساتھی شاکر بھائی (یہ اور ان کے تین ساتھی طارق بھائ ہردوئی، اِسْران بھائ ہردوئی اور رضوان بھائ شاہ جہاں پوری، کل چار ساتھی ضلع بجنور کے ایک موضع "سلاح پور" جماعت میں آئے ہوئے تھے، لاک ڈاؤن کے بعد ایک مہینے تک وہاں گھر میں روپوش رہے ؛لیکن کسی طرح پولیس کو ان کی اطلاع مل گئی اور وہ ان کو لے کر یہاں آگئی۔ آتے ہوئے ان کو پولیس نے اپنی زد و کوب کا نشانہ بھی بنایا اور ڈنڈے کے استعمال کے ساتھ ساتھ گالم گلوچ بھی کی۔ یہ تمام ساتھی بھی اسی دن پہنچے جس دن میں آیا تھا۔) مجھے جگا رہے ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر کافی شرمندگی ہوئی اور ان سے کہا بھائی اس طرح آیندہ کبھی مت اٹھانا آپ ہمارے بڑے ہیں۔ خیر وہ ایک معنی خیز مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے چلے گئے۔

آج کی سحری

وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر سحری میں گزشتہ روز کے آئے ہوئے بسکٹ، نمکین اور چائے سے شکم سیری حاصل کرکے نَویتُ أنْ اصُومَ غداً للہ تعالیٰ پڑھی۔ اور من ہی من کہا الحمد للہ علی کل حال۔
سحری سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ لائٹ نے ہمیں اللہ حافظ کہہ کر ماحول کو تاریک بنادیا۔ خیر موم بتی جلائی اور اس کی روشنی میں تلاوت قرآن پاک کی۔ پھر دوگانہ فجر کی ادا کی، نماز بعد ذکر و اذکار سے فراغت کے بعد پھر سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی اور یومیہ کا معمول جو ابتداے رمضان میں بنا یا تھا اس کو مکمل کرکے بہ غرض آرام لیٹ گیا

تاریکی سے روشنی تک کا سفر

جب سورج اپنے شباب پر پہنچ گیا اور چاروں طرف سورج کی حرارت سب کو اپنی تلخی سے جھلسانے لگی اس وقت رفیق حجرہ میرے پاس آئے اور انھوں نے اپنی داستان سنائی کہ کیسے میں گناہوں کی دلدل سے نکل کر آیا ہوں۔ اور کس طرح گناہوں کی پرفریب دنیا کو خیر آباد کہا ہے۔
بتانے لگے میں نماز سے کافی دور تھا۔ اور فلم بینی کے ساتھ ساتھ بیشتر گناہوں میں بھی ملوث تھا ؛لیکن پھر ایک مرتبہ جماعت میں جانا ہوا۔ اللہ کے شکر سے تمام چیزوں سے توبہ کرکے لوٹا ؛کیوں کہ میں نے سوچ رکھا تھا کہ اگر جماعت میں جاؤں گا تو پورا سدھرکر آؤں گا ورنہ ایسے وقت گزاری کے لیے یا گھر والوں کے اصرار پر جماعت میں نہیں جانا۔ بحمد اللہ اب بڑے بڑے گناہوں سے تائب ہوگیا ہوں اور ان شاءاللہ آپ کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھ جاؤں گا۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ ہمارے اصرار پر ہمارے کمرے میں آگئے۔ اللہ کا شکر ہے۔ 
ان کو تہہ دل سے مبارک باد دی اور اُس رنگین دنیا کو چھوڑنے پر آفریں صد آفریں کہا۔
اللہ پاک ان کے حسن ظن اور میرے تئیں ان جذبات کا بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین

جمعے کا دن اور غسل کی سنت

آج تو جمعے کا دن ہے ؛اس لیے غسل کی سنت پر بھی عمل کرنا تھا۔ نہانے کے لیے بالٹی وغیرہ کسی چیز کا نظم تو تھا نہیں ؛بس پورے ہاسٹل میں ایک بالٹی تھی جو دونوں منزلوں میں ادھر سے ادھر نہانے یا کپڑے دھونے کی غرض سے طواف کرتی رہتی تھی۔ اس لیے میں نے چاشت کے وقت تلاوت سے فارغ ہو کر غسل مناسب سمجھا ؛کیوں کہ اس وقت اکثر لوگ صبح کی نیند کے مزے لے رہے تھے اور حمام میں بھی ازدحام نہیں تھا۔
غسل خانے گیا تو لائٹ غائب ہونے کی وجہ سے پانی کا ٹینک خالی ہوچکا تھا ؛اس لیے چار و ناچار صحن کے کنارے پر لگے نَل سے بالٹی بھری اور غسل سے فارغ ہوا۔

اللہ اکبر۔۔۔۔زمانے کیسے کروٹیں بدلتا ہے۔ کیسے کیسے حالات دکھاتا ہے۔ مادر علمی دار العلوم دیوبند اور گھر جہاں اس طرح کی صورت حال کبھی پیش نہیں آتی تھی آج یہ سب بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
یقینا ہر آزمائش میں کوئ نوید ضرور مخفی ہوتی ہے جس کا بندے کو فی الفور احساس نہیں ہوپاتا ؛لیکن سیلِ رواں کی مانند بڑھتا ہوا وقت اسے سب بتادیتا ہے۔ رب کا فرمان ہے "اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ أَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ"۔

تایا زاد بھائ آپ کا شکریہ

غسل سے فارغ ہوکر کمرے میں آیا ہی تھا کہ نیچے سے ایک صاحب نے آواز لگائی احمد منڈاور سے کوئ ملنے آیا ہے۔ میں جلدی جلدی کُرتے کے بٹن لگاتے اور ٹوپی ٹھیک کرتا ہوا  نیچے آیا دیکھا تو  تائے ابو مرحوم کے بیٹے صلاح الدین بھائی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بندہ اور ہے۔ 
علیک سلیک کے بعد انہوں نے معلوم کیا کسی چیز کی ضرورت تو نہیں اور یہاں کوئ پریشانی تو نہیں۔ میں نے کہا الحمد للہ یہاں کوئی دقت نہیں اور کسی چیز کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ان سے بتایا کہ گزشتہ کل صدیق محترم احمد بھائی بھی ملنے آئے تھے اور ساتھ میں کچھ فروٹس لے کر آئے تھے۔ پھر وہ آنے کا مقصد بتانے لگے کہ میں تو ابھی دیکھنے آیا ہوں کہ یہاں کا ماحول کیسا ہے کوئی ملنے آسکتا ہے یا نہیں پھر دوبارہ آؤں گا ملنے، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دو۔ میں نے منع کردیا اور کہا آپ کچھ مت لانا۔

ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر آپ کا کوئی اپنا کہیں کسی پریشانی میں مبتلا ہے یا اسے رنج و غم لاحق ہے تو اگر وہ قریب ہے تو آپ اپنی وسعت کی بہ قدر اس کی تکلیف اور درد دور کرنے کی کوشش کریں ؛لیکن اگر وہ دور ہے اور آپ بہ آسانی جاسکتے ہیں تو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ آپ ان سے ملیں ان کو حوصلہ دیں اور ان کے غم کا مداوا کریں ؛کیوں کہ سیرت طیبہ سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ حضورؐ ایک یہودی تک کی عیادت کے لیے  کافی دور گئے ہیں۔ 
ایسا کرنے سے اپنے کو خوشی ملتی ہے اور کم از کم آپ کی آمد اور آپ کے حوصلہ افزا کلمات اس کے چہرے پر تبسم بکھیردیتے ہیں اور جس طرح کسی کو تکلیف دے کر مسکراہٹ چھیننے پر گناہ ہے اس سے کہیں زیادہ کسی کو راحت و آرام پہنچانے کی تگ و دو میں لگے رہنا ثواب کا باعث ہے۔ حدیث میں ہے: "جب تک انسان کسی کو آرام پہنچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے تب تک رب اس کے کام بنانے میں لگا رہتا ہے" ؛اس لیے ہم سب کو ہر لمحے کی قدر کرتے ہوئے اسے دین بنانے اور دین کے کام میں استعمال کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ عمل کی توفیق دے۔ آمین

والد محترم کی آواز سے کانوں میں سرور

بھائ نے کہا کسی سے بات تو نہیں کرنی۔ پھر کہنے لگے چاچا (یعنی میرے ابو جان حفظہ اللہ) سے بات کرا دیتا ہوں۔ اور کال لگا دی۔ بات کرنے کے لیے انہوں نے چینر(Channer) کی اُس طرف سے موبائیل میرے ہاتھ میں تھمادیا۔ ابھی چند سیکنڈ ہی ہوئے تھے اور ابو سے خیر خیریت ہی لے پایا تھا کہ دور بیٹھے ہوئے پولیس والے نے زور سے آواز لگائی کہ "تمہارے پاس سینیٹائزر ہے جو تم نے ایسے موبائیل دے دیا" اور یہ کہہ کر ہماری سمت آنے لگا۔ بس پھر کیا تھا آگے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی بس دعا کے لیے کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔ آہ۔۔۔کہ تم سے صحیح سے بات بھی نہیں کرسکا ابو جان۔۔۔!(یہ الفاظ لکھتے ہوئے آنکھیں نم ہیں)
اور بھائی نے یہ بھی بتایا کہ شفیع بھائی جو میرے تئیں بہت مخلص ہیں اور بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں ملنے آنا چاہ رہے تھے۔ آتے وقت میں نے ان کو کال بھی کی لیکن وہ سو رہے تھے اس لیے آ نہیں پائے۔
ان کو الوداعی سلام کیا اور گھر پر سلام بولنے اور دعا کرنے کے لیے کہا۔ 

آنکھیں پھر سے اشک بار

ان کو رخصت کرکے کمرے پر آیا تو دل بھر آیا اور خموش تماشائی بنے ادھر ادھر تک کر آنکھوں میں آئے  آنسوؤں کو دہلیز پار کرنے سے روکنے کی ناممکن کوشش کرنے لگا۔ اس وقت خیالات کا ایک طوفاں ذہن میں موجود سکون کو غارت کرنے کی سعی کرنے لگا۔ ذہن کی اسکرین پر یہ تصویر چلنے لگی کہ یہاں تو بالکل حقیقی جیل والی صورت ہے۔ بس نام بدل گیا ہے۔ اِسے "کورنٹائن سینٹر" کہتے ہیں اور اُسے "قید خانہ" ؛بل کہ ایک حساب سے جیل سے بھی بد تر کہیں تو شاید زیادہ مناسب رہے گا ؛اس لیے کہ سنا ہے وہاں پر تو آپ اپنے ملنے والے سے مل بھی سکتے ہیں۔ معانقہ کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھا سکتے ہیں ؛مگر یہاں تو آپ اندر سے کافی فاصلے کے ساتھ علیک سلیک کرلیں اور زبانی گفتگو کرلیں فقط۔
ان تفکرات کے ساتھ آنکھیں ڈبڈباگئیں اور پورا جسم سراپا آہ و بکا ہوگیا۔ دل کو سمجھایا اور تھوڑا  بے وقوف بنا کر اسے قرار بخشا۔  جب تھوڑا سکون ملا تو ان کی آمد پر جزاکم اللہ کہا۔ اللہ پاک سب کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھے اور یہاں پر موجود سبھی افراد کو جلد از جلد رہائی نصیب فرمائے۔ آمین!

مجھے بھائ نے یہ بھی بتایا کہ کافی اعزا ملنا آنا چاہتے ہیں ؛لیکن مجبوری۔۔۔فجزاھم اللہ۔۔۔

احمد! اس وبا کی حقیقت کیا ہے

ایک صاحب نے موجودہ وبا کووِڈ19 یعنی "کورونا" کے متعلق دریافت کیا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔ اس وقت ذہن میں فی الفور یہ جواب آیا کہ "یہ عذاب خداوندی ہے ؛لیکن اللہ پاک کے نیک بندوں کے لیے یہ وبا اور آزمائش ایک طرح سے نعمت بن گئی ہے"۔ انہوں نے پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا: "اللہ کے نیک بندے ان ایام میں زیادہ وقت یادِ الہی میں گزارنے کی وجہ سے اللہ کے اور قریب ہوگئے ہیں اور زیادہ تر لوگ اللہ کی طرف رجوع کرنے لگے ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ فلاں شخص جو کبھی نماز نہیں پڑھتا تھا وہ یہاں "کورنٹائن سینٹر" آکر با جماعت نماز پڑھنے لگا ہے۔ باقی جو نافرمان بندے ہیں ان کے لیے تو زیادہ آزمائش کا وقت ہے ؛کیوں کہ ان کو اب بھی رجوع الی اللہ کی توفیق نہیں مل رہی اور وہ اسی طرح غفلت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور آپ نے دیکھا ہوگا ایسے ہی لوگ زیادہ پریشان ہیں اور ان کی زبان پر ہر وقت اس وبا کا رونا ہے ۔ اس لیے ہمیں بھی ان ایام میں اللہ کے مزید قریب آجانا چاہیے اور جتنا ہوسکے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے۔ ویسے بھی موت کا سیزن چل رہا ہے۔ معلوم نہیں کب کس کا بلاوا آجائے۔۔دو دن  کا یہ سفر ہے۔ جو کرنا ہے کرلیں پھر تو موت آنی ہی ہے۔۔۔ اللہ پاک ہمیں حسن خاتمہ کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین"۔
الحمد للہ وہ مطمئن ہوگئے۔

حصولِ دیں کے لیے عمر شرط نہیں

قدرت بھی کیا کرشمے دکھاتی ہے۔ ہر روز نئے نئے لوگوں سے ملاکر مجھے بہت کچھ سکھانا اور بتلانا چاہتی ہے۔ اسے میں اپنے کریم رب کی اپنے اوپر بڑی مہربانی سمجھتا ہوں۔ آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
عصر بعد بیٹھا ہوا کتب بینی میں مصروف تھا کہ ایک حافظ صاحب میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ میں نے کتاب بند کرکے ان سے بات چیت شروع کردی۔ درمیانِ گفتگو انھوں نے اپنے حالات کا تذکرہ کردیا اور جب مجھے ان کے احوال کا علم ہوا تو حیرت و استعجاب کی انتہا نہیں رہی کہ یہ سیدھا سادھا بندہ ہے اور اس کو حصول دین کا اتنا شوق ہے۔ واقعتا "طلب" انسان کے اندر ایسی ہی ہونی چاہیے کہ حالات کو مات دے کر منزل کو پانے کی جستجو ہو۔ چاہے درمیان میں کتنی ہی گنجلک راہیں آئیں۔ کیسی ہی پرخار وادی سے ہوکر گزرنا پڑے۔ لیکن بس دُھن سوار ہو مقصد کو پانے کی ان شاءاللہ پھر منزل مل ہی جاتی ہے 
کیوں کہ

طلب نہ ہو تو کہیں کچھ نظر نہیں آتا
اگر طلب ہو وسائل ہزار ہوتے ہیں

حافظ صاحب بتانے لگے کہ میں گھر کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ بہن بھی کوئی نہیں ہے۔ والد صاحب کا گیارہ سال پہلے انتقال ہوگیا تھا۔ گھر میں صرف والدہ رہتی ہیں۔ والد صاحب کے بعد میں کام کرنے لگا اور راج مستری یعنی مکانات بنانے کا کام مجھے آگیا۔ میں تو وہی کام کر رہا تھا۔ بس اللہ پاک کو زندگی بدلنی تھی۔ ایک مرتبہ حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ کے بچپن کا ایک واقعہ سنا کہ وہ سات سال کی عمر میں اپنا قرآن کا سبق سنا کر چھت پر چلے جاتے اور فارسی اپنے شوق سے پڑھنے لگتے۔ بس اس وقت سے دل میں یہ بات گھر کَر گئی کہ قرآن پاک حفظ کرنا ہے۔ میں نے اپنی مسجد کے امام صاحب سے معلوم کیا کہ کیا میں قرآن حفظ کرسکتا ہوں۔ انھوں نے کہا کیوں نہیں۔ اس کے لیے کسی عمر کی ضرورت تھوڑی ہے بس محنت اور شوق ہونا چاہیے۔ خیر میں نے قاعدہ پڑھا پھر رفتہ رفتہ قرآن شروع کیا اس طرح الحمد للہ کافی محنت کے بعد تین سال میں مکمل حفظ کرلیا اس دوران میں  کام بھی کرتا تھا۔ اللہ کے کرم سے گذشتہ سال تراویح میں قرآن بھی سنا چکا ہوں۔

آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ایک منٹ ٹھہریں اور اپنا جائزہ لیں کہ ہم فورا یہ بات بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب کوئی عمر ہے کیا دین سیکھنے کی؟ اب جوانی میں یا بڑھاپے میں کیا قاعدہ سیکھا جائے گا؟ ارے مجھے تو اپنی ڈیوٹی سے فرصت نہیں ملتی؟ مجھے تو بڑی تکان ہوجاتی ہے کام سے آکر؟ اچھا اب دن بھر کام بھی کرو اور شام میں آکر مسجد میں قاعدہ پڑھنے بھی جاؤ؟ ارے مولی صاحب! بچے بڑے ہوگئے وہ کیا کہیں گے کہ پاپا اب قرآن سیکھ رہے ہیں؟ ارے جناب کیسی باتیں کرتے ہو آپ؟ ہیں ہیں ہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ہیں ہیں ہیں ہیں(عجیب سی ہنسی)۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی باتیں ہم بول جاتے ہیں۔ 
ذرا اس بندے کی زندگی کو دیکھیں جو گھر کا اکلوتا، سر پر باپ کا سایہ نہیں، کرایے کا گھر، ماں کی حفاظت اور اس کا و اپنا پیٹ بھرنے کی فکر ؛مگر پھر بھی قرآن حفظ کرلیا۔۔۔سوچیں ذرا سوچیں۔۔۔!

کہنے لگے راج مستری کا کام تھوڑا عجیب ہے۔ اس حلیے میں اچھا نہیں لگتا ایسا کام کرنا ؛اس لیے وہ کام چھوڑ کر ایک مسجد میں مؤذن بن گیا۔ مجھے یہاں کورنٹائن سینٹر میں وہیں سے لایا گیا ہے۔ 
لیکن اب مجھے عالم بننا ہے۔ جب کہ الحمد للہ ایک عالمہ لڑکی سے میرا نکاح بھی ہوچکا ہے بس رخصتی ہونی تھی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مؤخر ہوگئی۔
میں نے کہا بھائ عالم کا کورس آٹھ سال کا ہے اور آپ کے ساتھ تو اخراجات بھی اب بڑھ جائیں گے۔ بتانے لگے کہ میں نے اس سال کچھ نحو و صرف کی کتابیں پڑھ لی ہیں اور ان شاءاللہ کوئی بات نہیں ہوگی۔ جب اللہ نے اتنا کردیا تو عالم بھی بنائے گا۔ 
ہاں خرچے کا اس طرح کروں گا کہ میری امی سے دودھ دوہنا آتا ہے۔ ایک بھینس خرید کر دے دوں گا اس سے ان شاءاللہ خرچ چلتا رہے گا۔

میں اس بندے کی یہ باتیں سن کر کچھ نہ کہہ سکا ؛البتہ جب اس قدر شوق اور جذبہ دیکھا تو ایک مخلصانہ مشورہ دیا کہ ابتدائی دو سال گھر پر رہتے ہوئے کسی اچھے عالم سے اول تا چہارم پڑھ لو۔ آپ مؤذن بھی رہوگے اور اخراجات بھی ان شاءاللہ پورے ہوتے رہیں گے۔ لیکن آپ کو خوب محنت کرنی پڑے گی کیوں کہ ابتدا ہی اصل ہے اور اس میں کافی محنت درکار ہے اس کے بعد برائے پنجم دار العلوم دیوبند میں داخلہ امتحان دینا ان شاءاللہ نمبر آجائے گا۔  آپ کا ہدف ابھی سے دار العلوم ہونا چاہیے۔ اس طرح 6 سال میں آپ مکمل عالم دین بن جاوگے۔ اور محنت کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہنا کہ اللہ پاک خدمت دین کے لیے قبول فرمالے۔
ان کو مشورہ کافی پسند آیا اور کہنے لگے ان شاءاللہ ایسا ہی کروں گا۔ آخر میں یہ اور کہا اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بندے سے رابطہ کرلینا ان شاءاللہ ہر ممکن آپ کا تعاون کروں گا۔
اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔
افطاری سے تھوڑی دیر پہلے وہ چلے گئے اورمغرب بعد پھر آئے اور ایک پارہ مجھے حفظ سنا کر گئے۔۔
جزاہ اللہ احسن الجزاء۔۔۔

میں واقعتا جب سے اس بندے سے ملا ہوں بہت عجیب سی کیفیت ہو رہی ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر یہ خیال آرہا ہے کہ کتنا شوق اور کیسی طلب ہے اس بندے کو۔۔۔واقعتا کمال ہے اور اس بندے کو ہزار سلامی۔۔ان کی زندگی اس شعر کی مصداق ہے

دنیا میں کچھ انسان ایسے بھی نظر آئے
جو شب کے اندھیروں میں سورج کی خبر لائے

جاری۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے