کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: آخری قسط

کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: آخری قسط
کورنٹائن سینٹر کی کہانی، احمد شجاعؔ کی زبانی: آخری قسط


گزشتہ سے پیوستہ
قسطِ سیزدہم (آخری قسط)
آپ بیتی: احمد شجاعؔ

کمرے کے ساتھی


میرے کمرے کے دونوں بھائی خوش اخلاق ہیں اور بہت محبت سے پیش آتے ہیں۔ کھانا پینا بھی سب ساتھ ہے۔ میرا تعلق شمس الدین بھائی کے ساتھ زیادہ ہے۔ اور زیادہ تر وہی مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ اور بہت سی ذاتیات پر بھی مطلع کرتے رہتے ہیں۔ اللہ پاک ان دونوں بھائیوں کو خوب نوازے اور ہمیشہ پوری فیملی کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھے۔ آمین!

آزمائش بھی رحمتِ ربی ہے


کورنٹائن سینٹر میں آنا چاہے کسی ساتھی کی شکایت کی وجہ سے ہو یا مخبر کی خبر کی وجہ سے یا پھر کسی بھی وجہ سے ؛لیکن یہ آزمائشِ خداوندی کے ساتھ ساتھ میرے لیے رحمت و نعمتِ ربی بھی ثابت ہوئی جیسا کہ ما قبل میں تذکرہ آچکا ہے۔ کیوں کہ یہ چیز انسان کے اختیار میں ہے کہ وہ مصائب کا سامنا کس انداز سے کرتا ہے۔ وہ اس کو رحمت اور نعمت بنانا چاہتا ہے تو صبر کرکے آرام سے رحمت بنا سکتا ہے ورنہ ہائے افسوس اور ماتم کرکے اسے عذاب بھی بنا سکتا ہے۔

یہ دن بہت یاد آئیں گے


یہاں سے جانے کے بعد یہ ایام اور یہاں کے رفقا بالخصوص شمس و قمر برادران اور ریاست چاچا۔ نیز کمرہ نمبر اٹھارہ میں پنج وقتہ نماز کی ادائیگی کا خوب صورت منظر۔ فجر سے قبل کا اعلان کہ: " سحری کا وقت ختم ہونے میں اتنا وقت باقی ہے"۔ چائے آنے پر اس آواز کا شور کہ "چائے لے لو"۔ کمرے میں مختلف ساتھیوں کا بیدار کرنے کے لیے آنا۔ عصر کے وقت کا شور و غوغا کہ "افطاری کا سامان لے لو۔ روح افزا لے لو۔ افطاری کا وقت ہوچکا ہے"۔ نیچے کے صحن میں عصر بعد لوگوں کی بیٹھک۔ کمرے میں مختلف اوقات میں مختلف ساتھیوں کا اپنی پریشانیاں، اپنے مسائل اور مختلف دینی موضوعات پر باتیں کرنے کے لیے آنا۔ کمرے کے باہر گیلری میں کرسی ڈال کر قرآن وغیرہ پڑھنے کے لیے بیٹھنا۔ لائٹ بھاگنے پر موم بتی، موٹین اور اگربتی والی موٹین جلانا۔ دیر رات تک ساتھیوں کا بیٹھے رہنا۔ نیچے کمرہ نمبر دس میں ظہر بعد مشورے میں بیٹھ کر کارگزاری سننا اور صفائی و خدمت کے لیے ساتھیوں کا نام پیش کرنا۔ شمس بھائی کے موبائیل پر سامنے ہاسٹل میں موجود دونوں بہنوں کی بار بار کال کا آنا۔ شمس بھائی کے گھر سے ان کی کال آنا اور پریشانیاں سننا۔ بار بارگھر جانے کا تقاضہ کرنا اور پھر اس سب کے بعد شمس بھائی کا تسلی دینا۔ عصر بعد دونوں بہنوں کے لیے افطاری کا سامان لے کر جانا۔ ابتدا و اخیر کے تین دنوں کا حد سے زیادہ طویل ہونے کا احساس ہونا۔ پانی ختم ہونے پر بار بار شکایت کرنا۔بلند آواز سے دربان کو موٹر چلانے کے لیے کہنا۔ کمرے میں بسا اوقات تفریحی باتیں ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ نیز گھر بات کرتے  وقت بہنوں اور دیگر اعزا و اقربا کا کال پر خیر خیریت معلوم کرنے کے بارے میں پتہ چلنا۔ گھر والوں کا یہ کہنا کہ جلدی سے آجاو۔ یہ سب باتیں بہت یاد آئیں گی۔
نیز یہ لمحات اور قید کے یہ ایام آزمائش کے باوجود رحمت کس طرح بنے؟ یہاں کے شب و روز کے معمول کیا تھے؟ راحت و پریشانی سب چیزیں یاد رہیں گی! بس اللہ پاک ہمیں ہر حال میں اپنا بنائے رکھے اور اپنا قرب خاص عطا فرمائے۔ آمین!

سولہواں دن۔۔۔۔اٹھارہواں روزہ۔۔۔۔بہ روز منگل۔۔۔۔12/مئی/2020ء


آج پونے تین بجے محترم جناب حاجی مستقیم صاحب نے آکر بیدار کیا۔ حسب معمول معمولات سے فارغ ہوکر نماز فجر ادا کی۔ 
نماز بعد سبھی احباب اپنی روانگی کا انتظار کرنے لگے۔ آج تو سبھی تیار شیار ہوئے پھر رہے تھے۔ فجر بعد سے ہی نہا کر سب نے بیگ تیار کرلیے تھے ؛لیکن جوں جوں وقت کی سوئی آگے بڑھ رہی تھی سب کی پیشانیوں پر شکن اور سلوٹیں پڑنے لگی تھیں۔ 
اور اس وقت یعنی دوپہر کے تین بجے سبھی احباب بہت غصہ ہو رہے ہیں۔ اور آج کی روانگی اب مشکل نظر آنے لگے ہے۔ اب اللہ جانے کیا بہتری ہے۔
سبھی کے بیگ تیار ہیں۔ جس قدر صبح کے وقت چہروں پر تازگی اور شادابی محسوس ہو رہی تھی، اِس وقت پزمردگی اور مایوسی کے آثار اس سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔ غصے کا یہ عالم ہے کہ خون کے دوران میں کافی تیزی ہوگئی ہے۔ اور ہر ایک من ہی من انتظامیہ کو کوس رہا ہے۔ میرے مولا سبھی کے حال پر رحم فرما اور جلد از جلد روانگی کا فیصلہ فرما اور گھر بہ خیر و عافیت پہنچا۔ آمین!

اسِ وقت شمس بھائی۔ بلال بھائی۔ شاہ ویز بھائی اور بندہ ناچیز گیلری میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ادھر ادھر کال کر رہے ہیں کہ کسی طرح آج جلد از جلد گھر جانے کی کوئی سبیل نکل آئے۔ اللہ کرے کوئی صورت نکل ہی آئے۔ بار بار فرید ماما بھی آرہے ہیں کہ کوئی صورت نکلی یا نہیں۔ اللہم خیر

ابھی یہ چند سطریں لکھ کر ہی بیٹھا تھا کہ معلوم ہوا ہمیں لے جانے کے لیے میجک آگئے ہیں۔ بیگ تو میں نے ظہر بعد ہی تیار کر لیا تھا ؛اس لیے پیٹھ پر بیگ ڈالا اور مستانہ وار خوشی خوشی باہر کی سمت کمرے کے ساتھیوں کے ساتھ بڑھ گیا۔ باہر ہمیں ایک میڈیکل سرٹیفکیٹ دیا گیا پھر ساتھ میں مجموعی 12 افراد کی تصویریں لی گئیں۔ اس کے بعد بارگاہ ایزدی میں ہم سب نے  دعا کے لیے ہاتھ پھیلالیے اور اس حقیر بندے نے بلند آواز سے مختصرا دعا کرائی۔ 

چوں کہ میں صرف اکیلا اپنے قصبے کا تھا ؛اس لیے پٹواری صاحب نے میرے کمرے کے رفقا والے میجک میں آگے کی سیٹ پر بٹھادیا۔ جس میں میرے علاوہ چار بہن بھائی پیچھے بیٹھ گئے۔ گاڑی والے نے پہلے ان کو چھوڑا۔ اس کے بعد عصر کی اذان سے قبل میں اہلِ خانہ کے پاس بہ خیر و عافیت پہنچ گیا۔ اللہم لک الحمد ولک الشکر۔

سبھی کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے اور سبھی میری آمد سے بے انتہا خوش تھے۔ آخر سولہ دن کی قید کے بعد گھر واپسی ہوئی تھی۔
کچھ دیر بعد سبھی اعزا و اقربا کو گھر پہنچنے کی اطلاع دینے لگا۔ ام سارہ تو خوشی کی وجہ سے رونے لگیں۔ ان کو سمجھایا۔ غرضیکہ شام تک کال اور واٹسپ و میسنجر پر پیغامات کا سلسلہ چلتا رہا۔ جس کو بھی کال کی جاتی وہ گھر آمد پر اللہ کا شکر ادا کرتا۔ 

خوشی کے ان جذبات کو الفاظ نہیں دیے جاسکتے۔ بس رب کریم تمام اعزا و اقربا اور تمام احباب کو ان کی دعاؤں کا بدلہ اپنی شایان شان عطا فرمائے۔ آمین!
اسی طرح لکھنؤ میں موجود بہن کی دیر رات کال آئی تو جیسے ہی میں نے کال رسیو کی تو رونے لگیں۔ اور بتانے لگیں کہ میں روز آپ کے نمبر پر کال کرتی ؛لیکن موبائیل ہمیشہ بند ملتا لیکن الحمد للہ آج آپ سے بات ہوگئی۔ اور بتانے لگیں کہ خوب دعائیں کی میں نے رو رو کر۔ فجزاھا اللہ احسن الجزاء

اسی طرح پاکستان سے میری ایک رشتہ دار محترمہ نورین صاحبہ کا پیغام موصول ہوا کہ میں نے اور میری والدہ نے آپ کے لیے خوب دعائیں۔۔اللہ کا شکر کہ آپ خیریت سے آگئے۔ 

اسی طرح میرے اطراف کے علاوہ کان پور۔ دہلی۔ سورت۔ ریاض۔ مدینہ منورہ۔ قطر سے میرے  بہت اچھے دوست اعجاز بھائی۔ کینیڈا اور دیگر مقامات سے پیغامات و کال موصول ہوئیں۔ سبھی کو اللہ پاک اپنی شایان شان بدلہ دے اور خوب نوازے۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء فی الدارین۔ 

 آخر کار کورنٹائن سینٹر میں بیتے ایام  کی غم و الم والی  یہ داستان تیرہ قسطوں میں اپنے اختتام کو پہنچی۔

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

احمد شجاعؔ
بہ روز: بدھ
بہ تاریخ: 19/رمضان/1441ھ مطابق: 13/مئی/2020ء
بہ وقت: تقریبا گیارہ بجے شب

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے