عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل


عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل

عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل


            🖋️   زین العابدین قاسمی
           ناظم جامعہ قاسمیہ اشرف العلوم
             نواب گنج علی آباد ضلع بہرائچ
                    9670660363📱

عشرۂ ذی الحجہ

  اسلامی/ہجری کیلنڈرکے آخری مہینہ ذُوالحجّہ کے شروع والے دس دنوں کو’’عشرۂ ذِی الحجہ‘‘ کہاجاتا ہے ، حدیث شریف میں ان دس دنوں کی خاص فضیلت آئی ہے، دوسرے دنوں کے مقابلے میں ان دس دنوں میں بندے کا ہر نیک عمل اللہ کو زیادہ پسند ہوتا ہے۔حضرت مولانا منظور نعمانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:۔ ”جس طرح اللہ تعالی نے ہفتہ کے سات دنوں میں سے جمعہ کو ، اور سال کے بارہ مہینوں میں سے رمضان مبارک کو اور رمضان کے تین عشروں میں سے عشرۂ اخیر ( یعنی رمضان کے آخری دس دنوں ) کو خاص فضیلت بخشی ہے اسی طرح ذوالحجہ  کے پہلے عشرہ ( یعنی شروع کے دس دنوں) کو بھی فضل و رحمت کا خاص عشرہ قرار دیا ہے،بہر حال یہ رحمتِ خداوندی کا خاص عشرہ ہے، ان دنوں میں بندے کا ہر نیک عمل اللہ تعالی کو بہت محبوب (پسند) ہے، اور اس کی بڑی قیمت ہے۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالی کو عمل صالح ( نیک عمل ) جتنا ان دس دنوں میں محبوب ہے اُتنا کسی دوسرے دن میں نہیں۔ (بخاری شریف۔ماخوذ از : مَعَارِفُ الحدیث جلد ۳، صفحہ ۴۱۷، ۴۱۸) ایک دوسری حدیث میں آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے عشرۂ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں، اِس عشرہ میں(سوائے دسویں تاریخ کے یعنی پہلی تاریخ سے نویں تاریخ تک )ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اوراِس عشرہ کی ہر رات میں عبادت کرنا شب قدر میں عبادت کرنے کے برابر ہے۔ (ترمذی شریف و ابن ماجہ شریف)قرآن مجید کے سورۂ والفجر میں اللہ تعالیٰ نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَلَیَالٍ عَشْرٍ) وہ دس راتیں جمہور کے قول میں یہی عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں، خصوصاً نویں تاریخ یعنی عرفہ کا دن اور عرفہ اور عید الاضحی کی درمیانی رات،یہ تمام اَیّام خاص فضیلت واہمیت رکھتے ہیں۔

یومِ عَرَفَہ کے روزے کی فضیلت

 ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو ”یَومِ عَرَفَہ “ کہا جاتا ہے، اس دن روزہ رکھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس دن روزہ رکھنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ عرفہ کے دن روزہ رکھنے سے ایک سال پچھلے اور ایک سال اگلے کے گناہ (صغیرہ) مُعاف فرما دیں گے۔ (مسلم شریف)

اَیّامِ تشریق

 ذوالحجہ کے پانچ دنوں (نویں، دسویں، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ ) کو ”اَیّامِ تشریق“ کہا جاتا ہے،اِن دنوں میں یعنی نویں ذوالحجہ کی فجر سے تیرہویں ذوالحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد ایک مرتبہ تکبیر تشریق یعنی اَللّٰہُ اَکْبَرْ اَللّٰہُ اَکْبَرْ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرْ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدْبآواز بلند پڑھنا ہرنمازی خواہ جماعت سے پڑھنے والاہو یا تنہا، مسافر ہو یا مقیم، مرد ہو یا عورت سب پرواجب ہے،البتہ عورت آہستہ کہے۔

یومُ النحّر/یومُ الاَضحٰی

 ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو ”یومُ النّحر،یومُ الاَضحٰی‘‘ یعنی قربانی کا دن اور ”عیدُ الاضحی،عید قُرباں اوربقرعید“ کہا جاتا ہے،اِس دن اللہ تعالی کے نزدیک بندے کاسب سے پیارا عمل ”قربانی“ ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یعنی قربانی والے دن میں آدمی کا کوئی عمل اللہ تعالی کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں،اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگوں، بالوں اورکھروں کے ساتھ آئے گا(یعنی ان سب چیزوں کے بدلے ثواب ملے گا)اور (قربانی کے جانور کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی (کی رضا اور مقبولیت) کے مقام پر پہونچ جاتا ہے، تو (اے خدا کے بندو!)  تم لوگ جی خوش کر کے قربانی کرو (زیادہ داموں کے خرچ ہوجانے پردل برا مت کیا کرو)۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

نماز عید الاضحٰی

 عیدالاضحی کی نماز واجب ہے، اور یہ دورکعت ہے عام نمازوں کی طرح ، فرق صرف اتنا ہے کہ اِس میں ہر رکعت میں تین تین تکبیریں زائد ہیں۔پہلی رکعت میں سبحانک اللّٰھم الخ پڑھنے کے بعد قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے، ان زائد تکبیروں میں اللّٰہ اکبر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھ اُٹھانا چاہئے، پہلی رکعت میں دوتکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھا کر چھوڑدیں، تیسری تکبیر میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر باندھ لیں، اوردوسری رکعت میں تینوں تکبیروں میں دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر چھوڑدیں، چوتھی تکبیر میں ہاتھ اٹھائے بغیر رکوع میں چلے جائیں۔ نماز عید کے بعد خطبہ سنت ہے، اور شروع ہوجانے کے بعد خطبہ سننا واجب ہے، اپنی اپنی جگہ بیٹھے ہوئے خاموشی کے ساتھ خطبہ سن کر واپس آئیں،خطبہ سنے بغیر نماز عید کاثواب نامکمل اور ادھورا رہتا ہے۔

قربانی تاریخی حیثیت سے


قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ”اور ہم نے (پچھلی) ہر امّت کے لیے (بھی) قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوںپر اللہ کا نام لیںجو اللہ نے اُن کو عطا فرما یا تھا،سو تمہارا معبود ایک ہی اللہ ہے، لہٰذا تم ہمہ تن اسی کے ہو کر رہو،اور(اے نبی ﷺ)آپ(ایسے احکامِ الہیہ کے سامنے) گردن جھکا دینے والوں کو (جنت وغیرہ کی ) خوشخبری سنا دیجئے۔ (پارہ ۱۷، سورۂ حج آیت ۳۴) یہ آیت کریمہ بتلاتی ہے کہ قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ہے،بلکہ قربانی ایک قدیم عبادت ہے جو پچھلی سب امتوں کے ذمہ مقرر کی گئی تھی۔

قربانی اور اس کا ثواب

  قربانی ایک اہم عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے ،نیز حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی یاد گار ہے اور اس کابڑا اجر وثواب ہے ،حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کیا چیز ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے (نسبی یا روحانی) باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے،صحابۂ کرام نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہم کو اس میں کیا ملتا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی،صحابۂ کرام نے عرض کیا اگر اون (والا جانور) ہوتو؟آپ ﷺ نے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی۔ (ابن ماجہ) اللہ اکبر!!! کیا کوئی جانور کے بال کا اندازہ کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں،اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے ثواب کا بھی کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔رسول اللہ ﷺ نے ہجرت کے بعد دس سال تک مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے (ترمذی شریف) جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں ہے؛ بلکہ ہر بستی میں ہر شخص پر شرائط پائے جانے کے بعد واجب ہے۔

قربانی کِس پر واجب ہے؟

 قربانی ہر اُس مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو عاقل، بالغ اور مقیم ہو یعنی مسافر نہ ہو، اور صاحبِ نصاب ہو۔صاحبِ نصاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ضرورتِ اَصلِیّہ سے زائد یا تو ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اس کی قیمت کا کوئی اور مال ہو، صاحبِ نصاب ہونے کے لیے ہر اس چیز کی قیمت لگائی جاتی ہے جو ضرورتِ اصلیہ سے زائد ہو، چاہے وہ زیورات ہوں ،یا مالِ تجارت ہو، یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہوں ، یا رِہائِشی مکان سے زائد مکانات اور جائدادیں وغیرہ ہوں،قربانی واجب ہونے کے لیےمالِ نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی کسی طرح قربانی کے آخری والے دن بھی نصاب کا مالک بن گیا تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔ضرورتِ اصلیہ سے مُراد وہ ضرورت ہے جو جان یا آبرو (عزت) سے مُتعلق ہویعنی جس کے پورا نہ ہونے سے جان یاعزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو جیسے کھانے پینے کے ضروری سامان، پہننے کے کپڑے، رہنے کے مکان، پیشہ وروں کے لیے اس کے پیشہ کے اوزار۔اِن چیزوں کے ہونے کے بعد جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی جو موجودہ قیمت بنتی ہو اس کے برابر کوئی بھی مال ہو جیسا اوپر گذرا تو وہ صاحبِ نِصاب ہے ، اس کے اوپر قربانی واجب ہے۔

اَیّامِ قربانی

 قربانی کی عبادت صرف تین دن (دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذوالحجہ) کے اندر مخصوص ہے،ان کے علاوہ دوسرے دنوں میں قربانی جائز نہیں،لہٰذاگر قربانی کے دن گذر گئے اور قربانی اُس پر واجب تھی مگر ناواقفیت، غفلت یا کسی عذر کی وجہ سے قربانی نہیں کر سکا تو قربانی کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرناواجب ہے۔ان تین دنوںمیں جس دن چاہے قربانی کر سکتا ہے، البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے، اورقربانی رات میں کرنابھی جائز ہے مگر بہتر نہیں۔

قربانی کا مسنون طریقہ

  جب جانور کو ذبح کرنے لیے قبلہ رو لٹائے تو یہ آیت پڑھے: اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ۔ پھر بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ  کہہ کر ذبح کرے ، اورو ذبح کے بعدیہ دعا پڑھے: اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْہٗ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَّ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھِمَا السَّلَام۔ اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے،اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کراسکتا ہے،مگر ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے۔دوسرے کے جانب سے ذبح کرنے والا مِنِّیْ کے بجائے مِنْ کہہ کر اس کا اور اس کے باپ کا نام لے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے