کیا جیو اور ماس میں کوئی تضاد ہے

کیا جیو اور ماس میں کوئی تضاد ہے

 نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اما بعد 
عید الاضحی کے قریب آتے ہی عمومی میڈیا کے پلیٹ فارم سے بھت سے معلوماتی مضامین  عید الاضحی کے عنوان پر موصو ل ہوتے ہیں چنانچہ سال رواں بھی اس پلیٹ فارم نے مذکورہ عنوان پر اب تک خوب خوب استفادہ کا موقع میسر کیا قربانی کی تاریخ پس منظر فضیلت شرعی حیثیت اس کا فلسفہ اور بھی نہ جانے اس کے کن کن گوشوں کو اجا گر کیا گیا اور خوب کیا گیا تاہم اس وقت جس پہلو کو موضوع سخن بنا کر  بھت کچھ لکھنے کی ضرورت تھی اس پر بھت کم لکھا گیا اور وھ ھے خیالی بکرے کے وہ فریاد کہ میں جیو ہوں ماس نھیں ہو سکتا ہے کہ آیندہ چند دنوں میں میری شکایت دور ہو جائے بعض اھل قلم نے اس عنوان پر قلم کو  جنبش ضرور دی لیکن انھوں نے جو کچھ لکھا وہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی میلہ خدا شناسی میں کی گئی تقریر کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھا اس لیے ھر کس وناکس کے لیے اس سے استفادہ دشوار تھا لھذا آیندہ اگر مذکورہ عنوان پر کوئی تحریر مرتب ھو تو عوام کا خیال رکھ کر مرتب ھو نزول فرما کر اگر گفتگو ھوگی تو انشاء اللہ با فیض اور دندان شکن ھوگی بہر کیف جس بکرے کی تصویر جگہ جگہ آویزاں کرکے منفی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے میں اس بکرے سے پورے احترام کے ساتھ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے جو یہ فرمایا کہ میں جیو ھوں ماس نھیں یہ بات ھمیں تسلیم نہیں کیوں کہ جب آپ کی کھال اتاری جاتی ہے تو غذائیت سے بھرپور ماس اندر سے دستیاب ہو تا ہے تو کوئی آپ کی بات کیسے تسلیم کر سکتا ہے اس لیے ھم یہ کہہ۔ سکتے ہیں کہ آپ جیو کے ساتھ ماس بھی ھیں ھاں البتہ آپ ہم سے ضرور یہ پوچھ سکتے ہیں کہ لوگ آپ کو کھاتے کیوں ھیں اس کا جواب یہ ہے کہ آپ چونکہ  حلال ھیں اس لئے  لوگ آپ سے شوق فرماکر شکم کی آگ بجھاتے ہیں لھذا یہ سوال ھم سے نا کرکے اس سے کریں' جس نے آپ کو ھمارے لئے حلال کیا  دراصل آپ کو کسی نے ورغلا کر گندی سیاست کے بھینٹ چڑھا نے کا عزم مصمم کرلیا ھے ورنہ انھیں آپ سے کوئی ہمدردی نہیں اگر ہمدردی کا کوئی گوشہ ہوتا تو اس وقت بھی انھیں تکلیف ہوتی جب آں محترم کو بوچڑ خانوں میں کاٹ کر فروخت کر دیا جاتا ہے اس وقت بھی وہ آنسو بھاتے جب مذہبی تہواروں میں بڑی بے رحمی سے اک لخت آپ کا سر تن سے جدا کردیا جاتا ہے آپ ھی کیا آپ کی طرح مظلوم مرغوں کو ھر گلی کوچے میں کاٹ کر فروخت کیا جاتا ھے مرغ مسلّم کے بغیر آپ پر مگر مچھوں کی طرح آنسو بھانے والوں کی پارٹیوں اور فنکشنوں کا رنگ پھیکا پھیکا سا رھتا ھے نہ جانے کتنے کٹرو اور بھینسوں کو بلی دے کر دیوتاؤں کی خوش نودی حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا جا تاہے مگر مجال ہے کہ کوئی ان کا ماتم کرے آج تک ان کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کرنے کی تجویز کسی ھمدرد کے ذھن میں کیوں نہیں آئی جو مچھروں مکھیوں اور چوہوں کی جان لینے والی دوا بنا تی ھیں کیا ان میں جان نھیں ھے کیوں چھڑکتے ھیں یہ ھمدرد اپنے کھیتوں میں کیڑے مکوڑے کی جان لینے والی دوائیاں اور کیوں ڈالتے ہیں باغات میں جراثیم کش کیمیکلز کیا یہ اس کے نتیجے میں مرنے والے ذی روح نھیں ھیں اگر کسی کی جان لینا مطلقاً حرام ھے تو پانی اور دودھ میں بھی تو جراثیم ھوتے ہیں جو پیٹ میں جاکر ھلاک ھو جاتے ھیں کیا ھمدرد وں میں اتنی اخلاقی جرات ھے کہ اسے پینے سے گریز کریں گے پھر اگر روح کی بات ہے تو کیا سبزیوں میں جان نھیں ھے کیا ان میں روح ھونا سائنس سے ثابت نھیں ہے  ھے اور یقیناً ھے مگر ھمدردوں کی رگ ھمدردی نھیں پھڑکے گی کیونکہ اس میں ان کا کچھ بھلا ہو نے والا نھیں    محترم بکرے میاں اپنے رفیقوں سے۔ کبھی ان رقیبوں کا نام بھی دریافت کرنا جو ھندوستان کے نامور گوشت کے کاروباری ہیں ان سے معلوم کرنا کہ کیا کمپنی کا نام الکبیر رکھ لینے سے  ھتیا کا جرم ھلکا ہوجا تا ہےیقین جانیے ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا ان سے کہیے کہ اگر جیو ھتیا پاپ ہے تو پاپ پر مشتمل مذہبی کتابوں کے اشلوک آخر نکال کر باہر کیوں نہیں کر دیے جاتے بکرے میاں احساس کمتری میں مبتلا ہرگز ہرگز نہ ہوں رضاء الٰہی کے لیے اپنے آپ کو قربان کر دینے کا نام ہی عبدیت ہے یہی بندگی کی معراج ہے جب حضرتِ انسان کو حکم ملا  قربان ہو جا تو اس نے آگے بڑھ کر وہ مثال قائم کی کہ عقل انسانی آج تک حیران وششدر ھے اب باری آپ کی ھے۔ 

حلقوم کو آگے بڑھائیں کہ وہ چھری کا بوسہ لےاور جویہ کہتے ہیں کہ اس طرح تو بکروں کی نسل معدوم ہو جائے گی ان سے کہیے کہ افزائش نسل کی ذمہ داری اس قادروقیوم کی ھے جسے یہ پتہ ہے کہ کھاں کس چیز کی کس مقدار میں ضرورت ہے اگر بکروں کی ضرورت ہے تو قربانی کے با وجود ان کی تعداد میں کمی نھیں آنے دے گا آگر یقین نہ آئے تو بکروں اور شیر چیتوں کا موازنہ کر کے دیکھ لیاجائے اول الذکرھرسال قربانی کے باوجود بہی ھر جگہ کثرت سے پایا جاتا ہے اور شیر وچیتے وغیرہ افزایش کے اھتمام کے باوجود بہی معدوم ہوتے چلے جا رہے ہیں بکرے میاں آپ کے ھمدرد یہ بھی کھتے ہیں کہ چونکہ ھم گؤشت نھیں کھا تے ہیں اور آپ گوشت خور ھیں اس لیئے آپ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتےان سے کہیے کہ غذاؤں میں تفاوت کے باوجود بہی ایک ساتھ رھنےمیں کوئی مسلہ نہیں ھمدردوں میں بسا اوقات دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ خاوند گوشت نھیں کھاتا مگر اپنی شریکِ حیات کیلیے بڑے اھتمام سے گوشت مچھلی خرید کر لاتا ہے نیز شریکِ حیات شاکہ ھاری ھے مگر اپنےماسا ھاری شوھر کیلئےماس مچھلی بناتی ہے تو جس طرح اکل و شرب میں اس قدر بعد کے باوجود دونوں کی زندگی کا پہیہ رواں دواں ہے اسی طرح ھم بھی آپ کے ساتھ رہ لیں گے ھمیں کوئی پریشانی نھیں اور آپ کو بھی نھیں ھونی چاہیئے خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ فرقہ پرستوں کو نہ کسی جیو سے کوئی پیار ہے نہ ماس سے کوئی سروکار بس ملت اسلامیہ کو ہدفِ ملامت بنا کر اپنا الو سیدھا کر نا ہے اس کیلئے چاھے سروں کی فصلیں کاٹنا پڑے یا لاشوں کا انبار اگر جیو سے پیار ھوتا تو یہ نھتے انسانوں کو مختلف بہانوں سے موت کی نیند کیوں سلا دیتے آخر ھجومی تشدد انکا پسندیدہ مشغلہ کیوں ھوتا  اس لیے۔  بکرے میاں ان کی باتوں میں مت آیئے اللہ راہ میں قربان ہونے اور کرنے کا مزہ ھی کچھ اور ھے اس لذت کے حصول کا اس کے علاؤہ کوئی راستہ نہیں آپ کو ھمارے لیے مغفرت کا ذریعہ بننا ھے پل صراط سے گزرنے کے لیے بھترین وسیلہ آپ ھیں آپ کے لھو کی قیمت کا کوئی اسی سے اندازہ لگا لے کہ زمین پر گر نے سے پہلے بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت پا جاتا ہے۔   

از محمد ساجد سدھارتھ نگر ی
 جامعہ فیض ھدایت رام پور 
سابق رکن مدنی دارالمطالعہ دارالعلوم دیوبند

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے