مدنی دارالمطالعہ سے وابستہ کچھ یا دیں

مدنی دارالمطالعہ سے وابستہ کچھ یا دیں

مدنی دارالمطالعہ سے وابستہ کچھ یا دیں


  از :  محمد ساجد سدھارتھ نگر ی 
  جامعہ فیض ہدایت رام پور یو پی
   رہروان کارواں کو یاد ہوگا کہ نا چیز نے وعدہ کیا تھا کہ "مدنی دارالمطالعہ سے وابستہ کچھ یا دیں" کے عنوان سے عنقریب ان شاء اللہ کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا ، لیکن تسلسل کے ساتھ اکابر علماء کی رحلت نے طبیعت پر ایسا اثر ڈالاکہ خامہ فرسائی تو کجا کھانا پینا بھی دوبھر ہوگیا، اس بحر غم سے ساحل آشنائی کی کوششوں نے اور مجسم غم بنادیا، تا ہم یہ سوچ کر قدرے تسلی ہوئی کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
اور پھر حسب وعدہ رہروان کارواں کی خدمت میں اپنے بیتے ہوئے لمحوں کی روداد لے کر اس ننھے پرندے کی طرح جو بال وپر نکلنے سے پہلے ہی پرواز کی کوششوں میں مصروف ہو، حاضر ہوں، صانع حقیقی مرے قلم کو وہ طاقت دے کہ سرِ دار بھی حق بیانی کی جرأت وہمت اور عزم وحوصلہ ہو ۔
 بہر کیف! بات کوئی۲۰۰۳ کی ہے ، شوال المکرم کی۲ تاریخ ہے، مختصر سی تیاری کے بعدسہارن پور کی ٹرین پکڑنے کے لیے وطن مالوف ’’بھر وٹھیا مستحکم‘‘ سے اپنے قریبی قصبہ ’’ڈومریا گنج‘‘ ہوتے ہوئے بستی اسٹیشن کی طرف تن تنہا بغیر کسی ہمدرد وغم گسار اور مونس و غم خوار کے روانہ ہوا ، روانگی کے وقت میرے پلے بس میرے ناخواندہ مشفق ومہربان والدین کی دعا نیم شبی تھی ،جسے لعل وجواہر اور یاقوت وگوہر سے بھی گراں مایہ جان کر دامن میں سمیٹے اپنی منزل کی طرف میں گامزن تھا، ٹرین آئی، لڑکھڑاتے قدموں سے متاع قلیل کے ساتھ اس میں سوار ہو گیا، سپیدہ سحر کے نمودار ہونے سے قبل ہی گاڑی سہارن پور اسٹیشن پر پہونچ چکی تھی، تقریباً۱۵ گھنٹے کا سفر تھا، لیکن زندگی کا پہلا سفر تھا، اس لیے طبیعت بہت بوجھل تھی، افتاں وخیزاں احاطہ دارالعلوم تک رسائی ہوئی اور پھر دل بے قرار کو ایسا قرار آیا جیسے کسی گم شدہ بچےکو مدت مدیدہ کے بعد مادر مشفقہ کا آغوش میسر آگیا ہو، پھر تو مادرعلمی کی پر رونق ’’قال اللہ وقال الرسول‘‘ کے زمزموں اور ذکراللہ سے معطر فضاؤں میں ایسا گم ہوا کہ اپنے اردگرد سے بھی بے خبر اور بے پرواہوگیا، جب کھانے پینے کا ہوش نہ ہو تو لب سوزولب ریز چائے کے دور کا سوال ہی بے معنی ہے، کتب بینی ،مطالعہ وتکرار سے کچھ اگر فرصت ملتی تو مسجد رشید کے اک گوشہ کو معتکف بناکر اس طرح بیٹھ جاتے کہ آنے جانے والوں کو ہم پر ترس آجاتا، وہ یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے کہ انھیں داخلہ مطلوب ہے، شدہ شدہ یہ قیامت خیز امید و بیم کے ایام بھی، ایام رفتگاں ہو گئے۔
 زندگی کی سب سے زیادہ مسرت آگیں وہ شام دل نواز تھی، جب سیکڑوں میل کی مسافت طے کرنے والے آبلہ پا مسافر کی سماعتوں سے یہ خوش خبری ہم آہنگ ہوئی کہ اخلاص وللہیت کے تاج محل کے دامن میں جگہ پانے والے خوش نصیبوں میں تمھارا بھی نام ہے،ہجوم عاشقان میں نام کیا آیا کہ غموں کے سارے گھنے بادل چھٹ گئے، دکھو ں کے داغ دھل گئے، سفر کے زخم مندمل ہو گئے، مسافر کو منزل کا پتہ اور بھٹکے ہوئے آہو کو حرم کا راستہ مل گیا،بہت آرام سے داخلہ کی کار روائی مکمل ہوئی، زندگی معمول پر آ چکی تھی ،اتنے ایام گزر چکے تھے کہ اگر تعلیم سے نہیں تو تعلیم گاہوں سے مناسبت ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ اچانک احاطہ مولسری میں ایک جگہ طلبہ کا ہجوم دیکھا، طلبہ کا ایک جگہ جمع ہونا کوئی خلاف معمول واقعہ نہ تھا، یہ مخلوق ہی ایسی ہے کبھی تو رک کرپیروں سےبزاق مل رہی شخصیت کے ارد گرد جمع ہوکر ایسا تأثر دیتی ہے جیسے خدا نخواستہ کچھ اَن ہونی ہو گئی ہو، خیر میں بھی انھیں میں سے تھا، قریب گیا تو دیکھا کہ ایک اعلان چسپاں ہے، بزرگوار طلباء اس کے مطالعہ میں ہمہ تن مصروف ہیں، جو پڑھ چکے ہیں وہ ہٹنے کے بجائے ڈٹے ہوئے ہیں، گویا کہ وہ کوئی اعلان نہ ہو؛ بلکہ کیمیا بنانے کا نسخہ آویزاں ہو۔
وہ مدنی دارالمطالعہ کی ممبر سازی کا اعلان تھا جو سچ مچ میرے لیے نسخہ کیمیا ثابت ہوا، آج جو کچھ بھی بولنے اور لکھنے کا سلیقہ ہے وہ سب فیاض ازل نے اسی چشمہ فیض سے عطا کیا ہے،ویسے ضلعی انجمنوں سے بھی بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے تا ہم مدارس اسلامیہ میں جو مقام دارالعلوم کا ہے کہ اس مےخانہ کا محروم بھی محروم نہیں ہے بالکل یہی مقام تمام انجمنوں میں مدنی دارالمطالعہ کاہے ۔اللہ کرے کہ یہ چمن کبھی خزاں آشنا نہ ہو۔
  یوں تو چار سالہ دور وابستگی میں اس کی یادوں کے ہزاروں نقوش دل کے نہاں خانے میں اس طرح ثبت ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے؛مگر ان تمام اَنمٹ نقوش کو احاطہ تحریر میں لانے کے لیے اگر عمر خضر نہیں تو بھی ایک مستحکم سفینہ چاہیے، اس بحرِ بے کراں کے لیے؛ تا ہم’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر کچھ پیش قارئین ہے۔
 انجمن کا ہفتہ واری پہلا پروگرام تھا، مساہمین سےہفتم اولیٰ کی درسگاہ میں جمع ہونے کی درخواست کی گئی، حسب الحکم سب وابستگان جمع ہو گئے، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ایک صاحب کھڑے ہوئے اور نصیحت فرمانے لگے،اک لخت تو ایسا لگا جیسے کہ ہم دارالعلوم کی درسگاہ میں نہیں؛ بلکہ تھانہ بھون کی خانقاہ میں حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کے لیے آگئے ہوں، باتیں ان کی بڑی تلخ تھیں؛ مگر عملی زندگی میں اس ناکارہ کے بڑے کام آ ئیں، یہ شخصیت تھی مخدوم گرامی قدر حضرت مولانا شمشیرؔ صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی ۔
حضرت کی جو باتیں میرے بے حد کام آئیں ان میں سے چند یہ ہیں:
۱]    جب حاسدین کا انبوہ جمع ہو کر آمادۂ مخالفت ہو توسمجھ لو کہ تم کچھ کر رہے ہو۔
۲]   دوسروں تک رسائی کا ذریعہ تحریر ہے یا تقریر ،جو عالم ان دونوں سے نا آشنا ہو وہ دھرتی کا بوجھ ہے۔
۳]  زمانہ طالب علمی میں اگر خوشامدیوں کا ٹولہ اور تعریف کا پل باندھنے والے تمھارے قریب ہو نے کی کوشش کریں تو انھیں گھاس مت ڈالنا، یہ تمھارےسب سے بڑے دشمن ہیں۔
۴]   میں اسی لیے تمھیں بور کرتا ہوں تاکہ عملی زندگی میں تم بور ہو نے سے بچ جاؤ، وغیرہ وغیرہ۔ 
سب سے اہم چیز جو آپ سے ہمیں سیکھنے کو ملی وہ ہے امانت ودیانت، تندہی اور پورے خلوصِ دل سے امور مفوضہ کو انجام دینا، اور نام ونمود سے تنفر و بیزاری۔ اللہ تعالیٰ اپنے شایان شان آپ کو بدلہ عنایت فرمائیں۔
 ابھی چند دنوں قبل کسی صاحب نے کہا تھا اور کیا ہی خوب کہا تھا کہ’’ اسلام تو بزورِ شمشیر نہیں پھیلا؛ مگر مدنی دارالمطالعہ بزور شمشیر چل رہا ہے‘‘۔
(یاد رہے یہ تاریخی جملہ (اہل دارالمطالعہ کے لیے ) مدنی دارالمطالعہ کے پروگرام میں حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم استاد دارالعلوم دیوبند نے ارشاد فرمایا تھا)۔
 تھا تو برجستہ کہا ہوا ایک جملہ؛ مگر صد فیصد درست، آں جناب کی ساری زندگی کا محور دارالمطالعہ ہی تھا، معمول کے خلاف کوئی واقعہ رونما ہو یا کسی بڑی شخصیت کا سانحہ ارتحال جب تک البلاغ کا خصوصی شمار منصہ شہود پر نہ آجاتا تب تک نہ خود چین سے بیٹھتے اور نہ کارکنان کو بیٹھنے دیتے، کبھی کبھی تو خصوصی شمارہ اس قدر جلدی منظر عام پر آجاتا کہ لوگوں کو یہ شبہ ہونے لگتا کہ شاید وصال سے قبل ہی شمارہ تیار کرلیاگیا تھا، مولانا شمشیرؔ صاحب کو اللہ رب العزت نے للہیت کے ساتھ ساتھ دور اندیشی بھی عطا کی ہے، آپ تمام رفقاء کے نہ صرف مزاج سے واقف ہوتے ہیں؛ بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے اور نبھانے کا ہنر بھی خوب رکھتےہیں، غالباً میرا ہفتم کا سال تھا، اللہ جانے میری خستہ حالی کو دیکھ کر یا میری خدمات سے متأثر ہوکر ایک بیش قیمت جوڑا بنا کر آپ نے مجھے دیا ، کچھ دنوں بعدکسی بات سے میں موصوف سے ناراض ہو گیا، چناں چہ میں نے اس کا اظہار، کپڑے کی قیمت کو واپس کر کے کیا، آپ نے بہت خاموشی کے ساتھ رقم کو دراز میں رکھ دیا ،کچھ دنوں بعد حالات معمول پر آگئےراہ و رسم کا سلسلہ پھر چل پڑا ؛ مگر کبھی اشارۃً کنایۃً بھی آپ نے رقم کی واپسی کا کوئی تذکرہ نہ کیا؛ مگر امتحان سالانہ کا جس دن آخری پرچہ تھا ،مجھے بلایا حال احوال دریافت کی، پھر وہ رقم واپس کرتے ہوئے بولے کہ لے! رکھ لے!! تیری امانت میرے پاس رکھی ہوئی تھی ،چاروناچار لینا ہی پڑا؛ کیوںکہ اس وقت سب کے پاس نقدی کی سخت قلت ہوتی ہے۔
 دارالمطالعہ کے کارکنان جانتے ہیں کہ اس پلیٹ فارم سے ہونے والے تمام پروگراموں کی نگرانی سرپرست ِ محترم جناب حضرت مولانا قاری سید محمد عثمانؔ صاحب منصور پوری ادام ظلالہ خود فرماتے ہیں، اس لیے احقر کو آپ سے بار بار واسطہ پڑا ،اوربہت کچھ سیکھنے کو ملا ،اللہ رب العزت نے رجال سازی کا بے مثال ملکہ آپ کو عطا کیا ہے، پروگرام کا سارا مواد پہلے خود ملاحظہ فرماتے، پھر اجازت مرحمت فرماتے، معمولی غلطیوں پر بھی سخت باز پرس اور داروگیر ہوتی، عظمت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لکھا گیا ایک مفصل مقالہ محض اس لئے مسترد فرمادیا؛ کیوں کہ اس میں صحابہ کرام کے اسماء مبارکہ لکھنے کے بعد رضی اللہ عنہ قلم بند نہ کرکے اس کی علامت [ ؓ] پر اکتفا کیا گیا تھا؛ تا کہ لکھنے کے سلیقہ کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت بھی دلوں میں جا گزیں ہو جائے، جو کہ اہل سنت کا امتیاز ہے، ہمارے دور میں دارالمطالعہ کا یہ دستور تھا کہ اس کے مرکزی پروگراموں کی نظامت بزمِ شیخ الاسلام کے ناظم کے ذمہ ہوا کرتی تھی، اور عام طور پر نظما ء پہلے سے تیار کردہ مواد کو دیکھ کر نظامت کیا کرتے تھے، چوںکہ مولانا محمد سہیل صاحب کبیرنگری ناظم تھے، اس لیےاختتامی پروگرام کی نظامت آپ ہی کر رہے تھے،سامعین سے دارالحدیث کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ،مسند صدارت پر حضرت سر پرست محترم جلوہ افروز تھے ،آپ نے دیکھا کہ نظامت دیکھ کر کی جا رہی، پھر کیا تھا ؟ مولانا سہیل صاحب سے نظامت کی کا پی لے لی، اور فرمایا کہ بغیر دیکھے کرو، حالاںکہ مولانا سہیل صاحب ایک بے باک خطیب تھے ؛مگر پھر بھی اس کی ہمت نہ جٹا پائے ، مجمع پر سناٹا طاری ہو گیا، اراکین کی حالت قابل دید تھی ،سب کو دیکھ کر ترس آرہا تھا، حضرت مولانا شمشیر صاحب نے ہمت کر کے حضرت قاری صاحب سے کہا کہ حضرت اس بار اجازت دے دیں، اب ایسی غلطی نہیں ہوگی، آ پ نے فرمایا: ہرگز نہیں! تیاری کرکے پروگرام پھر کر لینا! مولانا شمشیر صاحب مدظلہ نے کہا کہ: حضرت یہ احاطہ دارالعلوم میں پروگراموں کا آخری ہفتہ ہے، پلٹ کر فرمایا: شوال میں کر لینا، بالآخر احقر نے ڈائز سنبھالا، اور یوں خدا خدا کرکے پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچا، چوںکہ تیاری تو تھی نہیں، اس لئے جب حضرات اساتذہ کو پند و نصائح کے لیے مدعو کرنے کی باری آئی تو حضرت مولانا شوکت علی صاحب مدظلہ العالی کو میں نے ان الفاظ میں مدعو کیا کہ مولوی شوکت آئیں اور نصیحت کریں، احباب پیش آمدہ حادثہ کی وجہ سے سراپا ماتم تھے، اس لیے کسی نے توجہ نہ کی البتہ حضرت الاستاذ سمیت بعض طلبہ کو بھی اس کا احساس ہوگیا تھا، مولانا کا مزاج آشنا ایک طالب علم مجھ سے کہنے لگا کہ آج تیری خیر نہیں، مگر قربان جاؤں علمائے دیوبند کی تواضع اور تحمل پر آپ نے میری گستاخی کو میری کم مائیگی کا نتیجہ سمجھ کر نہ صرف درگزر سے کام لیا ؛بلکہ اس کو اس طرح نظر انداز کردیا؛ جیسے سنا ہی نہ ہو، اور اس طرح چشم پوشی، تواضع اور عفو و درگزر کا ایسا زریں اور اچھوتا سبق دیا کہ زندگی بھر یاد رہے گا۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء۔
 جب ذکر چھڑ ہی گیا حضرت سرپرست ِ محترم کے انداز تربیت کا، تو ایک اور واقعہ ذکر کرتا چلوں، ہر چند کہ دارالمطالعہ سے اس کا تعلق نہیں تا ہم ہمارے لیے سامان عبرت ہے، ہوا یوں کہ ایک دن ہم چند احباب جو موسم گرما میں تعلیمات کی چھت پر سویا کرتے تھے، اس دربان سے جو رات کے آخری پہر گھنٹہ بجا کر وقت سحر گاہی کے اختتام کا اعلان کر تا تھا، کہا: کہ محترم آپ کے گھنٹے کی آواز ہمارے لیے صور اسرافیل سے کم نہیں ہے، لہٰذا تعداد کچھ کم کرلیا کرو، اس نے برجستہ کہا: کہ نو کری سے دست بردار ی کا پروانہ تمھا رے ہاتھ میں ہو، مجھے پھر اس کی وضاحت یوں کی کہ حضرت قاری صاحب جو اس وقت نائب مہتمم تھے، مصلے پر بیٹھ کر گھنٹی کی تعداد گنتے ہیں، دفتر میں صبح آتے ہی طلب فرما لیں گے، بات اس نے خلاف واقعہ کہی تھی مگر اس سے ہر ذی شعور اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ منتظمین جب اپنے ذمہ داریوں کے تئیں حساس ہوں تو ماتحتوں پر اس کا کیسا کچھ اثر پڑتا ہے۔ یہ مدنی دارالمطالعہ کی خوش نصیبی ہے کہ حضرت قاری صاحب دامت برکاتہم العالیہ جیسا سرپرست ملا، اللہ رب العزت اس سایہ عاطفت کو عافیت کے ساتھ دراز فرمائے آمین۔ 
یوں تو مادرعلمی دارالعلوم اور مدنی دارالمطالعہ کو خیر باد کہے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا؛ مگر یادو ں کی کسک سے خانہ دل ہمیشہ آباد رہتا ہے، اس میکدہ سے مے نوشی کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دہر میں صفت جام پھر رہا ہوں۔ کوئی بزم ہو یا انجمن جہاں جہاں روشنی کی کمی دیکھی چراغ دل جلا کر ما حول کو منور کر نے کا جو حوصلہ مجھے ملاہے بلا شبہ وہ مادر علمی کے مؤقر اساتذہ کا فیضان نظر اور مدنی دارالمطالعہ کی کرامت ہے۔  
خدا کرے کہ تری زندگی کے گلشن میں
خزاں نہ آئے سدا موسم بہار رہے   

  ساجد سدھارتھ نگر ی
 سابق رکن مدنی دارالمطالعہ 
۹۲۸۶۱۹۵۳۹۸

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے