حضرت خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری قسط ٣


حضرت خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری قسط ٣
حضرت خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری قسط ٣ 

شیخ ! تمام حکیم و طبیب  عاجز آگئے اور ساری تدبیریں رائیگاں  گئیں ۔ مغل شہنشاہ نے حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اپنی ناطاقتی اور بے سروسامانی کا اعتراف کر لیا ۔

"پھر میں کیا کروں؟ ؛حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ 
مجھے تخت ہندوستان کا وارث جائے مغل شہنشاہ گریا و زاری کرنے لگا۔ 
واللہ خیر الوارثین (اللہ بہتر وارث دینے والا ہے) حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے آیت مقدسہ کی تلاوت فرمائے مگر تو نے تو اللہ کو فراموش کر دیا ہے فل تجھے تیرا وارث کوں دے گا ؟
شیخ میں آپ کی دعا کا طلب گار ہوں۔ مغل شہنشاہ بہت دیر تک فریاد کرتا رہا۔ 
حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ استغراب کی حالت میں بیٹھے رہے پھر آنکھیں کھول کو مغل شہنشاہ سے فرمایا ۔ تو بظاہر ہندوستان کا حکمران ہے مگر حقیقتا  سلطان ہند کوئی اور ہے۔
اکبر نے شدید حیرت کے عالم میں حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھا۔دراصل اقلیم ہند پر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی حکومت ہے حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔اور میں بھی اسی آستانے کا غلام ہوں۔ اب تو اس فقیر کے دروازے تک آ گیا ہے تو میں بس اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تجھے بھی سلطان ہند کے حوالے کردوں۔

کچھ بھی کیجیے شیخ ! مغل شہنشاہ نے حضرت سلیم چشتی کے پیروں پر سر رکھ دیا ۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر حاضری دے اور فقیروں کی طرح اپنا دامن پھیلا دے۔ پھر دیکھ کہ پردہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تجھے نامراد نہیں لوٹائے گا ۔
مغل شہنشاہ حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں کو بوسہ دے کر واپس چلا گیا۔
پھر دیکھنے والوں نے عجیب منظر دیکھا۔ مغل شہنشاہ اجمیر شریف کی طرف جا رہا تھا جہاں سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ آرام فرما ہیں۔
فتنہ گروں کی جماعت میں ہلچل مچ گئی۔مفسدوں کے اس گروہ نے مغل شہنشاہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔اگر آپ اجمیر شریف لے گئے تو رعایا کے ذہن منتشر ہو جائیں گے۔لوگ تو آپ سے مرادیں مانگتے ہیں۔ پھر آپ کسی کے دروازے پر ہاتھ پھیلانے جا رہے ہیں؟جب ہم اپنے آپ کو کچھ نہیں دے سکتے تو پھر دوسرے کو کیا دیں گے؟مغل شہنشاہ نے فتنہ گروں کی بات کو جھٹلا دیا۔یہ سب فریب ہے ؛ جب ہمارے تخت کا وارث اس دنیا میں نہیں آ سکتا تو پھر ہم کیسے مشکل کشا ہیں؟؛ فتنہ گروں نے مغل شہنشاہ کو باز رکھنے کے لیے آخری دلیل پیش کی "جہاں ظل الہی تشریف لے جا رہے ہیں وہ جگہ اینٹوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر ہے۔ایک بے جان قبر کسی زندہ انسان کو کیا دے سکتی ہے ,؟

دربار اکبری کے فتنہ گر پوری طاقت سے منطق کی زبان میں گفتگو کر رہے تھے مگر  مغل شہنشاہ ان کی دلیل سے متاثر نہیں ہوا۔ اس نے اعلان کر دیا کہ وہ فتح پور سیکری سے اجمیر شریف تک پیدل سفر کرے گا۔ بورگیری
ہوا۔فتنہ گر بادشاہ کا منہ دیکھتے رہ گئے اور ،دین الٰہی، کا موجد، رعایا کا ان داتا، مخلوق کا مشکل کشا اور دستگیر اپنی درخواست لے کر اجمیر شریف روانہ ہوگیا۔
مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا یہ سفر کوئی افسانہ نہیں، ایک زندہ حقیقت ہے۔ کسی اور نے نہیں خود اکبر کے بیٹے شہنشاہ جہانگیر نے اس تاریخی واقعے پر گواہی دی ہے۔ جہانگیر نے اپنی تزک (خودنوشت) میں واضح طور پر کیا ہے۔ میرے والد بزرگوار نے میری ولادت کے لئے پورے فتح پور سے اجمیر تک پیدل سفر کیا تھا۔ یہ فاصلہ اکی سوبیسں کوس ہے۔“
جب مغل شہنشاہ اجمیر شریف پہنچا تو اس کے پیروں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ سفر کے آغاز میں خدمت گاروں نے اکبر کو سمجھایا تھا کہ یہ انتہائی دشوار گزار راستہ ہے۔ اگر ظل الٰہی سواری استعمال فرمائیں تو اس میں کوئی نہیں ہے۔
ہم سلطان الہندکے دربار میں حاضر ہورہے ہیں۔ نیاز مندی کے اظہار کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ پیادہ پا سفر اختیار کیا جائے۔ اکبر نے واضح جواب دے کر اپنے خدمت گاروں کی زبانیں بند کردی تھیں۔
پھر جب مغل شہنشاہ یہ طویل سفر طے کر کے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار مبارک پر حاضر ہوا تو اس کے پاؤں زخمی تھے اور راستے کے گردوغبار سے سرخ و سفید چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا۔
پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ جلال الدین اکبر حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے قدموں میں دست بستہ کھڑا ہے۔ اس نے کسی گداگر کے مانند اپنی دامن مراد پھیلا دیا اور دعامانگنے لگا۔
"بے شک! آپ سلطان الہند ہیں اور میں آپ کی عظیم الشان سلطنت کا ایک ادنی کو چہ گرد۔ میری حالت زار پرتوجہ فرمائے۔
جلال الدین اکبر بہت دیر تک زاروقطار روتا رہا۔ اس نے جوش اضطراب میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار مبارک کی چادر اپنے سر پر ڈال لی۔ مغل شہنشاہ کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کے دل مضطرب کوقرار آ گیا ہو۔
پھر فرمانروائے ہند نے اجمیر شریف کے باشندوں میں زرنقد تقسیم کیا اور واپس لوٹ گیا۔ فتنہ گر مصاحب آپس میں باتیں کرتے اور در پردہ اکبر کا مذاق اڑاتے۔  
ایک قبر سے ہندوستان کا وارث مانگنے گیا تھا۔ پتھروں کے ڈھیر نے کیا دیا اسے؟‘‘فتنہ گر
 سرگوشیاں کرتے اور  خاموشی سے مغل شہنشاہ کی ناکامی و نامرادی کا تماشا دیکھتے۔ 
 آخر ایک دن قصر شاہی خوشی کے شادیانوں اور نقّاروں کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ خواصوں نےمغل شہنشاہ کو ولی عہد سلطنت کی پیدائش کی خبر سنائی ۔دارالحکومت آگرہ کے دروبام چراغوں اور قندیلوں سے جگمگا اٹھے۔
اکبر نومود فرزند کو لے کر حضرت سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ 
صاحب اقتدار ہو گیا اور رہتی دنیا تک اس کے نام کی گونج سنائی دے گی ۔ حضرت شیخ نے فرمایا۔
 جلال الدین اکبر نے حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ سے اظہار عقیدت کے لئے بیٹے کا نام بھی سلیم رکھ دیا فری ہیں۔  پھر یہی سلیم نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشیں ہوا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے