انتہائی گہرے صدمے کی خبر

انتہائی گہرے صدمے کی خبر

 منجانب مفتی شبیر احمد قاسمی مرادآباد
آج بتاریخ 28 ذیقعدہ 1441ھجری بروز پیر مطابق 20 جولائی 2020 عیسوی پانچ اور ساڑھے پانچ  بجے کے درمیان اچانک اطلاع ملی کہ حضرت مولانا سیدمحمد سلمان صاحب ناظم مظاہر علوم سہارنپور کی وفات کی المناک خبر پہنچی۔
اننا للہ و انا الیہ راجعون۔ عصر کی نماز پڑھتے ہی حضرت مولانا محمد شاہد صاحب سہارنپوری مدظلہٗ کے صاحبزادے مفتی محمد صالح کے فون کے ذریعے سے مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد عثمان صاحب سے حادثے کی تفصیلی خبر موصول ہوئی۔
ان سے معلوم ہوا کہ حضرت مولانا مرحوم بالکل ٹھیک ٹھاک اور صحیح سلامت تھے بس آج ہی صبح سے طبیعت بگڑی ڈاکٹروں سے رابطہ قائم کرکے علاج شروع کیا گیا مگر طبیعت زیادہ بگڑنے کی وجہ سے دہلی لے جانے کا ارادہ ہوا  چنانچہ گاڑی سے روانگی ہوچکی اور ابھی سہارنپور شہر سے باہر نہیں نکلے تھے کہ راستے ہی میں شہر کے اندر ہی حضرت کی روح پرواز ہوگئی ۔انا للہ وانا الیہ راجعون
 حضرت مولانا محمد سلمان صاحب ناظم مظاہر علوم سہارنپور رحمتہ اللہ علیہ وہ شخصیت ہیں جو حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے انتہائی درجہ کے نور نظر رہے ہیں ہیں لگ بھگ 47 سال سے احقر کا تعلق حضرت مولانا سلمان صاحب اور ان کے گھرانے سے رہا ہے
 چنانچہ احقرکا حضرت شیخ مولانا زکریا صاحب نوراللہ مرقدہٗ سے اصلاحی تعلق رہا ہے اس لئے بار بار وہاں حاضری کی نوبت آتی رہی چنانچے دارالعلوم دیوبند میں نو سال تک احقر کا قیام رہا ہے اس دوران حضرت شیخ الحدیث صاحب نوراللہ مرقدہٗ کے زمانے میں ہر جمعرات کو سہارنپور حاضری ہوتی رہی حتی کہ بہت سے احباب احقر کو یہ سمجھتے تھے کہ مظاہر کا فارغ ہے اور وہاں کا تعلیم یافتہ ہے حالانکہ احقر مظاہرعلوم میں ایک سال بھی نہیں پڑھا
 اور حضرت شیخ رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بھی وہاں کی آمدورفت کا سلسلہ مستقل جاری رہا ہے اس لیے احقر حضرت مولانا محمد سلمان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو اچھی طرح جانتا ہے بلکہ مولانا کو قریب سے دور سے اور انفرادی و اجتماعی مجالس اور ان کے گھرانے ہر اعتبار سے جانتا ہے۔
 مولانا تقوی طہارت کی ایک مجسم شخصیت تھی اور علماءمظاہر میں بہت ہی قابل اور باصلاحیت شخصیت تھے ۔ اور ان کا درس بھی طلبہ میں مقبول رہا ہے 
اللہ نے ان کو حسن صورت کے ساتھ ساتھ حسن سیرت کا بھی اعلی درجے کا ملکہ عطا فرمایا تھا۔
 حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنی جگر گوشہ چھوٹی صاحبزادی محترمہ خدیجہ ادام اللہ ظلہا کو حضرت مولانا مرحوم کے نکاح میں دیا تھا جس سےشیخ کی توجہ حضرت مولانا مرحوم پر بہت ہی گہری رہی ہے۔ احقر کو وہ زمانہ بھی یاد ہے کہ رمضان المبارک میں اعتکاف کے موقع پر تراویح کے بعد مولانا سلمان صاحب اور ان کے خاندان کے لوگ حضرت شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں پردے کے اندر روزانہ خصوصی ملاقات کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ الحمدللہ احقر کو حضرت شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ تین سال رمضان گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ اور حضرت کے یہاں رمضان میں تین ختم ہوا کرتے تھے ہر عشرے میں ایک ختم ہوتا تھا پہلے عشرے میں کوئی بھی سنا دیتا تھا دوسرے عشرے میں مولانا سلمان صاحب کے چھوٹے بھائی مولانا محمد خالد صاحب مدظلہ پابندی کے ساتھ سنایا کرتے تھے اور تیسرے عشرے میں پابندی کے ساتھ حضرت مولانا سلمان صاحب مرحوم سنایا کرتے تھےاور سب سے بہتر خوش الحان حسن آواز اور صاف الفاظ کے ساتھ مولانا سلمان صاحب ہی کا قرآن ہوا کرتا تھا جس سے حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمتہ اللہ علیہ بہت زیادہ خوش رہتے تھے۔
اور آخری عشرے میں کبھی کبھی مسلسلات بھی پڑھی جاتی تھی
اور ختم قرآن کے بعد مسلسلات ختم کر کے بھی دعافرمایا کرتے تھے اور کبھی حضرت مولانا محمد یونس صاحب شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور خاص طور پر پڑھتے تھے اور حضرت مولانا سلمان صاحب کی عبارت انتہائی خوبصورت اور رواں دواں ہوا کرتی تھی اور مسلسلات پڑھنے کے بعد بعض دفعہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی دعا فرمائی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد مظاہرعلوم میں سالوں تک حالات میں تبدیلیاں آتی رہیں نظامت کا مسئلہ اور پھر مظاہر علوم کے قضیہ کا مسئلہ  یہ سارے بحرانی حالات کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی رہیں آخر میں جب سے حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مظاہری نوراللہ مرقدہٗ کو ناظم اعلی بنایا گیا اس وقت سے مظاہر کے حالات بہتر سے بہتر ہوتے گئے چنانچہ ان کے زمانہ اہتمام میں مظاہرعلوم نے بے مثال ترقی کی ہے
 اور حضرت مولانا اہتمام اور نظامت کے فریضے کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ دورہ حدیث شریف کے اسباق بھی پابندی کے ساتھ پڑھاتے رہے۔ شروع میں نسائی شریف پڑھاتے تھے اور مکمل پڑھاتے تھے آخر میں مسلم شریف کی دونوں جلد آپ سے متعلق رہی ہیں اور دونوں جلد ہر سال مکمل پڑھایا کرتے تھے۔
اور آخر میں صاحبزادہ محترم حضرت مولانا طلحہ صاحب نور اللہ مرقدہ نے بیماری کے زمانے میں حضرت مولانا محمد سلمان صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو اپنا جانشین بنایا تھا
چنانچہ مولانا نے جانشینی کا مکمل حق ادا فرمایا اور شیخ الحدیث صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا قدیم مکان جس کو شیخ رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے سے کچا مکان کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس میں فجر کے بعد ذکر کی مجلس اور عصر کے بعد ملفوظات کی مجلس اکابر و مشائخ اور خاص طور پر حضرت شیخ کے طریقے اور نہج پر تسلسل کے ساتھ ساتھ جاری رکھی آج انتہائی افسوس اور صدمے کے ساتھ مولانا داغ فراق دے کر کے دنیا سے رخصت ہو گئے اور اپنے مالک حقیقی سے مل گئے 
مولانا کے چار صاحبزادگان ھیں اور چاروں حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ عالم دین بھی ہیں مولانا محمد عثمان مولانا محمد نعمان مولانا مفتی محمد عمر مولانا محمد ثوبان اور تین صاحبزادیاں ہیں ان میں سے ایک صاحبزادی حضرت مولانا محمد سعد صاحب کاندھلوی امیر تبلیغ مرکز نظام الدین کے نکاح میں بھی ہے
جن سے تین بیٹے محمد یوسف محمد سعید محمد الیاس پیدا ہوئے اور تینوں حافظ اور عالم ہیں
 اورمولانا محمد عثمان اور  نعمان حضرت شیخ الحدیث صاحب کی زندگی میں پیدا ہو کر آنکھیں کھول چکے تھے۔ 
آج مولانا کی وفات نے پچھلی 47 سالہ زندگی کو بیدار کردیا اور احقر کو مجبور کر دیا ہے کہ شیخ الحدیث صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے سے آج تک کی پوری تاریخ کو لوٹ کر یاد کرے۔
اللہ تعالی حضرت مولانا مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے اور مظاہر علوم سہارنپور کو بہترین نعم البدل عطا فرمائے
 اور حضرت مولانا کے صاحبزادگان اور صاحبزادیاں اور حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی چہیتی صاحبزادی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ 
احقر انہی جملوں کے ساتھ حضرت مولانا مرحوم کے تمام پسماندگان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہے فقط والسلام
شبیر احمد قاسمی خادم جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد الہند
 28 ذی قعدہ1441ھجری بروز پیر مطابق 20 جولائی 2020 عیسوی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے