اسلامی ‏مکاتب : ‏موجودہ ‏صورت ‏حال، ‏چیلینجز ‏اور‏مستقبل ‏کے ‏خاکے قسط۶


اسلامی ‏مکاتب : ‏موجودہ ‏صورت ‏حال، ‏چیلینجز ‏اور ‏مستقبل ‏کے ‏خاکے قسط ‏ششم
اسلامی ‏مکاتب : ‏موجودہ ‏صورت ‏حال، ‏چیلینجز ‏اور ‏مستقبل ‏کے ‏خاکے قسط ‏ششم

ڈاکٹر فخرالدین وحید قاسمی
ڈائریکٹر الفاروق اکیڈمی, عمران گنج, صبرحد, جونپور
+91 9838368441
انسانی ذہن کا تیسرا ارتقائی مرحلہ سات سال سے دس سال کی عمر تک چلتا ہے. یہ دور مکمل طور پر پرائمری سطح کے نظام تعلیم میں ہی گذرتا ہے. اسلامیات اور شخصیت سازی کے حوالے سے یہ دور کافی اہم ہوتا ہے. اس دور میں بچوں میں دلیل کی طلب ہوتی ہے. لہذا اسلامی عقائد واحکام ہوں یا سنتیں اور آداب, انہیں کچھ واضح اور معقول دلیلوں سے سمجھانا چاہیے. اس دور میں ان کی فہم کو بھرپور خوراک ملنی چاہیے اور انہیں "رَٹُّو کے ٹَٹُّو" بننے سے محفوظ رکھنا چاہیے. یاد کرنے والی چیزیں ہی یاد کرائی جائیں, سمجھائی جانے والی چیزیں بالکل یاد نہ کرائی جائیں. یہی دور ہے جب بچے غلط عادتوں کی طرف بھی لپکتے ہیں, اس لیے مزاج وعمل کے تربیتی پہلوؤں پر خاص توجہ کی ضرورت ہے. اس دور میں تھوڑی بڑی سورتیں, احادیث اور دعائیں یاد کرائی جائیں تاکہ قوت حافظہ مزید وسیع اور مستحکم ہوجائے. 
سات سال کی عمر کی اہمیت حدیث نبوی ص سے بھی ملتی ہے. ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ آپ ص نے فرمایا "مروا أولادکم بالصلاة و هم أبناء سبع سنين، و اضربوهم عليها و هم أبناء عشر سنين...." اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی ہو جائے، اور جب وہ دس سال کی ہو جائے تو (نماز نہ پڑھنے پر) اُسے مارو." سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت میں جملہ عبادات کے لیے بلوغت کی شرط ہے. چنانچہ نماز کے علاوہ کسی اور عبادت کی ادائیگی کا بچپن میں حکم نہیں دیا گیا. آخر سات سال کی عمر سے ہی بچوں کو نماز کا عادی بنانے کی وجہ کیا ہے؟
بچوں کے ذہنی ارتقاء, شخصیت سازی اور مثبت مزاج کی تشکیل میں نماز کا ایسا زبردست کردار ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے. میرے پیشِ نظر اس وقت نماز کے صرف انہی روشن پہلوؤں پر روشنی ڈالنی ہے. 
سات سال کی عمر میں آپ ص نے نماز کے حکم کرنے کی تاکید سے بچے کو عمل کے میدان میں لاکھڑا کیا ہے چنانچہ یہ بچہ جو ابھی تک صرف بات کرتا یا سنتا تھا, کھیلتا یا ٹہلتا تھا, اب نماز کے ذریعے اس میں اہم کاموں کے لیے دل چسپی پیدا ہونی شروع ہوگی. نماز ایک مکمل اور پیچیدہ عمل ہے. اس کی صحیح طریقے سے پابندی کے ساتھ ادائیگی عملی مزاج پیدا کرنے میں معاون ہے اور یہ عمر کام میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے بہت اہم ہوتی ہے. عموما والدین اس عمر میں اپنے لاڈلوں سے کام لینا پسند نہیں کرتے. نتیجتاً بچوں میں کام چوری کا مزاج پروان چڑھنے لگتا ہے جو بعد میں ناکامی کا ایک اہم سبب بنتا ہے. 
سات سال کی عمر سے نماز کی عادت کا یہ فائدہ بھی ہے کہ بچہ وقت کی پابندی کا عادی ہوجاتا ہے. زندگی میں Punctuality کامیابی کی شاہ کلید ہے. فرمان باری ہے. "إن الصلاة كانت على المؤمنين كتاباً موقوتا" یقیناً نماز ایمان والوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے. مذکورہ بالا آیت اس تعلق سے بالکل واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ نماز اہل ایمان کو خدا کے تعلق میں مضبوطی کے ساتھ وقت کی پابندی, اس کی اہمیت اور بہتر استعمال کی صفت پیدا کرتی ہے. 
اسی طرح نماز کے جملہ ارکان کی ادائیگی میں ذہن خدا کی یاد میں ڈوبا ہونے کے ساتھ قراءت, رکوع اور سجدے وغیرہ کے حالات میں متعینہ چیزوں کے پڑھنے کے ساتھ اعضاء بدن کو متعینہ مقامات پر رکھنا حد درجہ ذہن کے مرکوز ہونے کی علامت ہے. واللہ نماز سے بہتر ذہن کے مرکوز رکھنے کی کوئی مثال اس دنیا میں نہیں ملتی. حضرت علی رض کے نماز کی حالت میں تیر نکالنے کا واقعہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے. چنانچہ بچوں کو Focussed  بنانے میں نماز اہم رول ادا کرتی ہے. تعلیمی میدان میں Concentration کے بغیر کسی منزل یا کامیابی کا حصول ناممکن ہے. 
نماز کے حکم کا مطلب نماز سے جڑی بے شمار چیزوں کا علم اور ان پر عمل بھی ہے. جیسے وضو, تیمم اور غسل کے طریقے اور صف بندی وغیرہ. لہذا بچپن سے بچوں میں نظافت اور طہارت کے حصول کی فکر پیدا ہوتی ہے. اسی طرح جب بچہ نماز پڑھنا شروع کردے گا تو کبھی کبھی مسجد بھی جانے کی شروعات ہوگی جس سے بچہ کی ملاقات مسجد میں آنے والے بچوں سے ہونی شروع ہوگی. اس طرح سماج کے بہتر عناصر سے اس کے رابطے بچپن میں ہوجائیں گے اور پھر بچہ برے دوستوں کے بجائے نیک اور مثبت مزاج دوستوں کا ساتھی ہوگا جو اس کے اخلاقی بہتری کے لیے خوش کن ہوگا.
نماز کا سب سے اہم فائدہ ذہنی ارتقاء ہے. نماز کی ہر رکعت میں بچہ دوبار سجدے کی حالت میں جاتا ہے. سجدے کی پوزیشن واحد وہ پوزیشن ہے جب بندے کا دل اوپر اور سر نیچے ہوتا ہے. سجدے کی حالت میں دماغ کے خلیوں میں خون کا دوران یعنی Blood Circulation مکمل اور بہتر طور پر ہوتا ہے جس سے دماغی Cells توانا ہوتے ہیں جو بچے کے تعلیمی سفر میں ذہن پر پڑنے والے بوجھ کو اٹھانے کے لائق بنتے ہیں. بچپن کے یہ معصوم سجدے ذہنی ارتقاء میں بہت معاون ہیں. سات سال کی عمر سے نماز پڑھنے کی تاکید سے شاید بچوں کا یہی ذہنی وشخصی ارتقاء مقصود ہو کیونکہ یہی وہ عمر ہے جہاں سے بچہ ایک کامیاب اور ذہین انسان بننے کی طرف سفر شروع کرتا ہے.
خلاصہ یہ ہے کہ دوم سے پنجم تک کے اسلامیات کی کلاس میں مزید سورتیں, احادیث اور دعائیں یاد کرانے کے ساتھ ساتھ عقائد وعبادات واضح اور معقول دلیلوں کے ساتھ سمجھائی جائیں. نیز انہیں نماز اور دیگر اسلامی چیزیں سکھانے کے ساتھ, ان میں عمل کی طرف رغبت پیدا کرنے, ان کے ذہن کے Concentration کو بہتر بنانے, نظام الاوقات کی پابندی کرانے اور سماج کے بہتر بچوں سے رابطے رکھنے, نیز ان رابطوں, کھیلوں اور ملاقاتوں میں اخوت, ہمدردی, مساوات, احسان, شکر, پیار ومحبت کے جذبوں کو پروان چڑھانے میں معاون ہوں. کیونکہ اسلامیات کی رسمی تعلیم اور چند کلموں اور دعاؤں کے صرف رٹ لینے سے ہمارا مزاج اسلامی نہیں بن سکتا. اور مزاج بننے کی عمر میں اگر لا پرواہی برتی گئی تو پھر دین دار گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچے بھی نہ صرف غیر اسلامی مزاج کے حامل ہوں گے بل کہ منفی اور معاندانہ سوچ کے ساتھ بڑے ہوں گے اور پھر اصلاح کی بڑی بڑی کوششیں بار آور ثابت نہ ہوں گی. ہر کام اپنے وقت پر ہوتا ہے. لہذا ان معصوم بچوں کی تعلیم وتربیت کا خاص اہتمام کیا جائے. اسلامیات کی بہتر تعلیم وتربیت ان بچوں کی علمی اڑانوں کے لیے مطلوبہ مزاج, صلاحیت اور ذہنی ارتقاء عطا کریں گی.ان صفات سے معمور بچے زندگی کی بلند وبالا منزلوں کی طرف سفر کے لیے بے چین ہوں گے.

پرِ پرواز پہ یہ راز کھلا
پستیوں سے تھا بلندی کا بھرم

آسماں غازہ پائے جولاں 
کہکشاں جادہ ابنِ آدم

جاری......

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے