جیوہتیانہ مذہب کے خلاف اورنہ بے رحمی ہے بلکہ ایک فطری ضرورت ہے

جیوہتیانہ مذہب کے خلاف اورنہ بے رحمی ہے بلکہ ایک فطری ضرورت ہے
جیوہتیانہ مذہب کے خلاف اورنہ بے رحمی ہے بلکہ ایک فطری ضرورت ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم


جیوہتیانہ مذہب کے خلاف اورنہ بے رحمی ہے بلکہ ایک فطری ضرورت ہے
از:محمدشبیرانورقاسمی مدھے پوری 
استاذ مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے
سابق رکن : مدنی دارالمطالعہ 
مسلمانوں کا عظیم تہوار’’بقرعید‘‘ کے قریب آتے ہی پچھلے چند برسوں سے فرقہ پرست تنظیمیں حرکت میں آجاتی ہیں۔منصوبہ بندپوسٹربازی کرکے جیوہتیا(ذبح حیوان) بلکہ قربانی کے خلاف تشکیک اور ایک طبقہ کے جذبات کوبرانگیختہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ان دنوں بھی سوشل میڈیامیں ایک پوسٹ گردش میں ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ:  (۱)اسلام نے گوشت خوری کی اجازت دے کر بے رحمی کاثبوت دیا ہے ۔(۲) ذبح حیوان ایک زندہ وجود کوقتل کرنا یعنی جیوہتیاہے۔(۳) گوشت خوری سے انسان میں تشدد اور ہنسا کامزاج بنتااور یہ انسان پر منفی اثر ڈالتاہے اس لئے ذبح حیوان کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ انسانی غذا کے لئے جانوروں کو ذبح کرنا نہ مذہب کے خلاف ہے اور نہ ہی بے رحمی ہے بلکہ یہ ایک فطری ضروری ہے اور اس سے معاشی مفادات جڑے ہیں جس کو نظرانداز کرنا انصاف پسندی نہیں ہے۔ ضرورت ہے ہمارے برادران وطن جذبانی ہوئے بغیر ٹھنڈے دل سے اس پر غورکریں اور مسلم امت کابھی فرض ہے کہ اشتعال کے بجائے دلیل کی زبانی فرقہ پرست طاقتوں کو سمجھائیں ۔
یہ بات ذہن نشیں ہونی چاہئے کہ انسان اس دنیا میں ضرورتوں اور حاجتوں کے ساتھ پیداکیاگیاہے۔اس کے وجود کاکوئی حصہ نہیں جواپنی حیات و بقا اور حفظ و صیانت میں احتیاج سے فارغ ہو ۔ہوا اور پانی کے بعد اس کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے ۔اوریہی ضرورت ہے جس نے زندگی کومتحرک اور رواں دواں رکھا ہے ۔تمام ہنگامہ ہائے حیات کاحاصل سوائے غذائی ضرورت کی تکمیل کے اور کیاہے؟
گوشت خوری کادستورانتہائی قدیم ہے:
ایک اہم انسانی غذا کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے گوشت خوری کادستور انتہائی قدیم ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے۔ہندستانی مذاہب میں بھی جین دھرم کے علاوہ سبھی مذاہب میں گوشت خوری کاجواز موجود ہے۔ غیرمسلم بھائیوں کے بیچ آج کل گوشت خوری منع ہونے کی جوبات مشہور ہے وہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے،پکانے اور قربانی کاتذکرہ موجودہے ۔رگ وید(:۷:۱۱:۱۷) میں ہے :’’اے اندرتمھارے لئے پسان اور وشنوایک سوبھینس پکائیں۔‘‘ یجروید (ادھیائے:۲۰:۸۷) میں گھوڑے،سانڈ،بیل، بانجھ گائے اور بھینس کودیوتاکی نذرکرنے کاذکرملتاہے۔ منوسمرتی(ادھیائے: ۳:۲۶۸) میں کہاگیاہے :’’مچھلی کے گوشت سے دوماہ تک،ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک اور پرند کے گوشت سے پانچ ماہ تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔‘‘ خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندوسماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کاعمل عام تھا۔ ڈاکٹر تاراچندکے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔ دیوی دیوتاوں کے نام پر بلیدان کی روایت آج بھی ہندوسماج میں جاری ہے۔
افراط وتفریط کے شکارقانون فطرت کے باغی:
دنیا کے مذاہب واقوام میں جانوروں کے بارے میں ایک خاص قسم کا افراط وتفریط ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوحیوانی اجزا کے غذائی استعمال کو بے رحمی اور جیوہتیا تصورکرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوہرجانورکوانسانی خوراک قرار دیتے ہیں ااور اس باب میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اورقانون فطرت کے باغی ہیں۔ خدانے اس کائنات میں جونظام ربوبیت قائم کیا ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ اعلی مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامان بقا ہے ۔غور کریں کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں ،چوپائے نباتات کھاتے ہیں اوراسی پر ان کی حیات کادارومدارہے ،حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوغ کی حیات موجود ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کوغذابناتی ہے اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو ۔زمین پر رہنے والے جانوروں کی خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں ۔چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کے ۔ خداکی کائنات پر جس قدر غورکیاجائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے جولوگ اس اصول کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کاکوئی جواز نہیں کہ پانی کاکوئی قطرہ اور ہواکی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اترنہیں سکتی جب تک کہ سیکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغام اجل نہ سن لے۔ 
توغورکیجئے :جیوہتیاکے وسیع تصورکے ساتھ پانی کاایک قطرہ بھی نہیں پی سکتے ،ہواکی کوئی سانس نہیںلے سکتے اور نہ ہی دواوں کااستعمال رواہوسکتاہے جو جسم میں مضرصحت جراثیم کے خاتمہ کاسبب ہیں۔ نیز اگرجیوہتیاسے بچناہے تونباتاتی غذاسے بھی بچناہوگا کیوں کہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اورنباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندونظریہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قراردیئے ہیں:انسان۔حیوان اورنباتات۔یہ نباتات میں زندگی کاکھلااقرارہے ۔تواگرجیوہتیاسے بچناہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچناہوگا گویااس کائنات میں ایسے انسانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں جومکمل طورپرجیوہتیاسے بچ کر جیناچاہتے ہیں۔ 
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہرحیوان کو غذاکے لئے درست سمجھاجائے ۔یہ مسلمہ حقیقت میں سے ہے کہ انسان پر غذاکااثر ہوتا ہے ۔یہ اثر جسمانی و روحانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔حیوانات میں شیروببردرندے ہیں ،سانپ اوربچھوکی کینہ پروری وریشہ زنی کی خومعروف ہے ،گدھے میں حمق ضرب المثل ہے ،خنزیرمیں جنسی بے اعتدالی وہوسناکی کااثر ان قوموں میں صاف ظاہر ہے جو اس کااستعمال کرتی ہیں ،کتے کی حرص اورقناعت سے محرومی نوک زباں ہے ،چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سرچشمہ ہیں ،بندرکی بے شرمی ،لومڑی کی چال بازی،گیدڑ کی بزدلی اظہارکامحتاج نہیں ۔مقام فکرہے کہ اگرانسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیا یہی اوصاف اس کے وجود میں رچ بس نہ جائیں گے؟
جانوروںمیں حلال وحرام کی تفریق:
اسی لئے اسلام نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ۔ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ۔دوسری طرف مردارکاگوشت حرام کیا جوانسان کی جسمانی وروحانی صحتوں کو بربادکرنے والاہے، ان جانوروں کو حرام قراردیاجن کے گوشت سے اخلاق انسانی مسموم ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ایک قاعدہ مقررکر دیاکہ طیبات اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک اور بدخوجانور جن کو قرآن کی زبان میں خبائث کہاگیا ہے حرام ہیں (الاعراف:۱۵۷) لیکن اس فیصلہ کو ہرانسان کے ذوق و مزاج پر منحصرکردیاجانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب۔چنانچہ شریعت نے اس کی جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کاشمارطیبات میں ہے اور کن کاخبائث میں ۔ پھر جن جانوروں کو حلال کیا ان کاگوشت کھانے میں بھی ایساپاکیزہ طریقہ ذبح بتایا جس سے ناپاک خون زیادہ سے زیادہ نکل جائے اور جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔طبی اصول پرانسانی صحت اورغذائی اعتدال میں اس سے بہترکوئی طریقہ ذبح نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جانورکاگوشت کھانے میں انسان کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح درختوں کے پھل اور ترکاریاں وغیرہ کو جیسے چاہیں کاٹین اور کھالیں اسی طرح جانورکوجس طرح چاہیں کھاجائیں۔
حیوان حلال ہونے کی حکمت اورارکان وشرائط:
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ الاسلام میں اسلامی ذبیحہ کی حکمت اور اس کے آداب وشرائط پر بصیرت افروز تحقیقات فرمائی ہیں یہاں ان کو پورانقل کرنے کا موقع نہیں ،ان میں سے ایک بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جانوروں کامعاملہ عام نباتاتی مخلوق جیسانہیں ۔کیوں کہ ان میںانسان کی ہی طرح روح ہے ،انسان کی طرح دیکھنے ،سننے ،سونگھنے اورچلنے پھرنے کے آلات واعضا ہیں ،انسان کی طرح ان میں احساس وارادہ اور ایک حدتک ادراک بھی موجودہے۔ اس کاسرسری تقاضایہ تھا کہ جانورکاکھانامطلقا حلال نہ ہوتا ،لیکن حکمت الہی کاتقاضاتھا کہ اس نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا،جانوروں سے خدمت لینا، ان کا دودھ پینااوربوقت ضرورت ذبح کرکے ان کا گوشت کھالینا بھی انسان کے لئے حلال کردیامگرساتھ ہی اس کے حلال ہونے کے لئے چندارکان اور شرائط بتائے جن کے بغیر جانور حلال نہیں ہوتا۔پہلی شرط یہ ہے کہ ہرذبح کے وقت اللہ کے اس انعام کاشکر ادا کیا جائے کہ روح حیوانی میں مساوات کے باوجود اس نے کچھ جانوروں کو حلال کیا اور اس شکرکا طریقہ قرآن وسنت نے بتایاکہ ذبح کے وقت اللہ کانام لیں ۔اگراللہ کانام قصدا چھوڑدیاتو وہ حلال نہیں ،مردارہے۔دوسری شرط جانور کو شریعت کے پاکیزہ طریقہ سے ذبح کرنا یعنی شرعی طریقہ پر حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دینا ۔تیسری شرط ذابح کامسلمان ہونا یاکتابی ہوناہے۔ اسلام سے قبل جانوروں کی گوشت کھانے کے عجیب عجیب طریقے بغیرکسی پابندی کے رائج تھے۔ مردار کاگوشت کھایاجاتاتھا ۔زندہ جانورکے کچھ اعضا کاٹ کر کھالئے جاتے تھے ۔جانورکی جان لینے کے لئے بھی انتہائی بے رحمانہ سلوک کیاجاتاتھا،کہیں لاٹھیوں سے مارکرکہیں تیروں کی بوچھارکرکے جانور کی جان لی جاتی تھی۔
ہنسااوراہنساکاتعلق محض غذاؤں سے سمجھناجہالت:
رہایہ سوال کہ گوشت خوری سے انسان میں تشدداور ہنساکامزاج بنتاہے اور یہ انسان پر منفی اثرڈالتاہے ،تودنیاکی تاریخ اور خودہمارے ملک کاموجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے ۔آج بھارت میں جہاںکہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ات ہورہے ہیں اور ظلم وستم کاننگاناچ ہورہاہے ،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہاہے جوسبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔دنیاکے رہنماوں سسمیں گوتم بدھ اور حضرت مسیح کوعدم تشدداور رحم دلی کاسب سے بڑاداعی اور نقیب تصورکیاجاتاہے لیکن کیایہ ہستیاں گوشت نہیں کھاتی تھیں ،یہ سبھی گوشت خورتھے۔اور ہٹلرسے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ،ظلم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا لیکن ہٹلر گوشت خورنہیں تھا صرف سبزی کواپنی غذابناتاتھا۔ اس لئے یہ سمجھناکہ ہنسا اور اہنسا کاتعلق محض غذاوں سے ہے بے وقوفی اور جہالت ہی کہی جاسکتی ہے ۔جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کااحساس نہ ہو تو محض غذائیں انسانی مذاق و مزاج کو تبدیل نہیںکرسکتی۔ بعض فتنہ پردازوں کاکہناہے کہ گاوکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظرسے نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے ۔جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ہمیں دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے مگریہ ایک واہمہ ہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں بھارت سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی طرح کی پابندی نہیں وہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں دودھ اور گھی سستے بھی ہیں اور فراوانی بھی ہے۔اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں ۔ہمارے ملک میں گوشت خوری کم ہونے کے باوجود مذکورہ اشیاء مہنگے ہیں ۔نیزقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ جانورایک عمرکوپہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں ،اگرانہیں غذابنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی پرورکسانوں کے لئے ایسے جانورباربن جائیں گے اورغریب کسان جوخود آسودہ نہیں وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرپائیں گے۔۲۰۱۴ء سے مرکزمیں بھاجپا کی حکومت ہے ۔اس نے گاوکشی قانون کوسختی سے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔اس کاحشر کیاہے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ سرکاری گاوشالوں میں ایسے سیکڑوں ہزاروں مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ کربھوک سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے ،ہورہے ہیں اور ہوں گے بھی، جوبہرحال گھاٹے کاسودہ ہے۔
گوشت کے فوائد ونقصانات:
گوشت انسانی خوراک کاایک اہم جزوہے ۔ اس سے انسانی صحت پرکئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گوشت سے جسم کو پروٹین، لحمیات ،آئرن ،وٹامن بی وغیرہ حاصل ہوتی ہیںجوایک صحت مندجسم کے لئے ضروری ہیں تاہم گوشت کی حدسے زیادہ مقدارکااستعمال کسی بھی انسان کے لئے سودمندکے بجائے مصیبت بن جاتاہے ۔کیوں کہ ہرقسم کی غذاکے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اس لئے عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھاناچاہئے اور ایک مخصو ص حدسے زیادہ استعمال نہیں کرناچاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بالغ افراد کویومیہ 70گرام جب کہ ہفتے میں 500گرام یعنی سات دنوں میں صرف نصف کیلو گوشت کھانا چاہئے جسے برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کے لئے تجویز کیا۔
امریکہ کی یونیورسیٹی البامامیں امریکی تحقیقی ماہرین نے گوشت خوری اور سبزی خوری کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقی مطالعہ کیا،جس میں لوگوں کی غذائی عادتوں کی نگرانی اور ان کے صحت پرپڑنے والے اثرات کامعائنہ کیا۔ ماہرین نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کاڈیٹاجمع کیا۔ اس کی روشنی میں رپورٹ مرتب کی اور بتایاکہ صرف سبزی خوری کے بہت زیادہ نقصان ہیں ۔سبزی کامستقل استعمال انسان کوڈپریشن بنادیتاہے جس کی وجہ سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جو خوراک میں گوشت استعمال کرتے ہیں ،ان کی ذہنی صحت بہتررہتی ہے اور وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈآرجرکاکہناہے:ہم لوگوں کو نصیحت کریں گے کہ اگرآپ ڈپریشن ،ذہنی خلفشار اور خودکونقصان پہنچانے کے خطرناک رویے سے بچناچاہتے ہیں تو خوراک میں سبزی کے ساتھ گوشت کابھی استعمال کریں۔(نوائے وقت پورٹل یکم مئی۲۰ء)
گوشت بھی اپنی اقسام کے اعتبار سے لذت اور تاثیر میں مختلف ہوتاہے۔مچھلی اور مرغی کے گوشت سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہے اس میں کلوریزاور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاکم ہوتی ہے۔مٹن میں چکنائی کی مقدار چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔بیف میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے البتہ اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلا پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ پوری ہوتی ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کاکہناہے کہ ایک نارمل انسانی جسم کومتوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں لحمیات پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیںجوگوشت اوردیگرچیزوں سے حاصل ہوتی ہیں،تاہم ضروری ہے کہ ہرچیزکواعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیاجائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کاسامنانہ کرناپڑے۔
بہترین غذاہے گوشت:
مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوگئی کہ انسان کے لئے اللہ تعالی کی پیداکی گئی مختلف تاثیروالی بے شمار غذاؤں میں عمدہ غذاگوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کودنیاو آخرت کی عمدہ غذا فرمایاہے۔ سورہ طوراور سورہ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے مہمانوں کی فربہ بچھڑا کوبنابھون کرضیافت کرنے کا تذکرہ ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل ایمان گوشت کو مرغوب رکھتے ہیں ۔ آج بھی عرب میں خاص طورپر اناج سے زیادہ گوشت بطورغذا استعمال ہوتاہے۔ اورمہمانوں کی آمدپر اکثراہل عرب آج بھی پورادنبہ یابکرا تیارکرکے ضیافت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ گوشت خوری کی مخالفت فرقہ پرست طاقتیں جتنی بھی کریں اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتاہے ۔جیوہتیاکے واہمہ سے اس غذائی ضرورت سے انسان دست بردارنہیں ہوسکتا۔ 
سب سے زیادہ گوشت کہاں کھایاجاتاہے؟
گزشتہ پچاس برسوں میں دنیا میں گوشت کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۷ء میں گوشت کی پیداوارمیں پانچ گنااضافہ ہوا ۔ ۱۹۶۰ کی دہائی کی ابتداکے ۷کروڑٹن کے مقابلے ۳۳کروڑ ٹن ہوگیا۔ اس کی بنیادی وجہ جہاں آبادی کابڑھناہے وہیں آمدنی میں اضافہ بھی اہم وجہ ہے۔ لوگ جتنازیادہ امیرہوں اتناہی زیادہ گوشت استعمال کرتے ہیں۔ ۲۰۱۳ کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ گوشت خورممالک میں امریکہ اور آسٹریلیا سرفہرست رہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے اعدادو شمارکے مطابق گوشت کی کھپت میںکچھ سالوں میںدرحقیقت اضافہ ہوا ہے،۲۰۱۸میں گزشتہ چنددہائیوں کے مقابلے امریکہ میں گوشت کی کھیپ کافی زیادہ تھی۔یورپی یونین میں بھی تقریباکچھ ایساہی حال ہے۔ اس کے برعکس دنیاکے بیشترغریب ممالک میں نسبتابہت کم گوشت کھایاجاتاہے ۔متوسط ممالک گوشت کی مانگ میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ امیرترین ممالک سب سے زیادہ گوشت کھاتے ہیں جب کہ غریب ممالک میں گوشت کم کھایاجاتاہے۔ بھارت میں صورت حال مختلف ہے ،اگرچہ اوسط آمدنی میں ۱۹۹۰سے اب تک تین گنااضافہ دیکھاگیا ہے مگر گوشت کی کھپت میں ایسانہیںہوا ۔ایک سروے کے مطابق بھارت کے دوتہائی لوگ کسی نہ کسی قسم کاگوشت ضرور کھاتے ہیں اس کے باوجود یہاں گوشت بہت کم کھایاجاتاہے۔
 الحاصل گوشت انسانی غذا کااہم حصہ ہے۔گوشت خوری نہ مذہب کے خلاف ہے اور نہ ہی بے رحمی ہے ۔جیوہتیا کافتنہ کھڑا کرنے والے افراد قدرتی نظام کے باغی اور انسان کی فطری ضرورت کی تکمیل کے مخالف ہیں ایسے افراد کو اپنے غلط نظریہ اور حرکتوں سے بازآناچاہئے ۔فقط
 وماعلیناالاالبلاغ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے