ایک چراغ اور بجھا حضرت مولانا سید سلمان صاحب کی رحلت


ایک چراغ اور بجھا حضرت مولانا سید سلمان صاحب کی رحلت


 از:عبید اللہ شمیم قاسمی 
آج بتاریخ ٢٠/ جولائی ٢٠٢٠ء بروز دوشنبہ عصر کے وقت اچانک یہ اطلاع ملی کہ مظاہر علوم کے ناظم اور روح رواں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ کی روایات کے امین وپاسبان حضرت مولانا سید سلمان صاحب مظاہری کا انتقال ہوگیا، یہ روح فرسا خبر سن کر یقین ہی نہیں آرہا تھا، دیر تک إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھتا رہا۔
دنیا کی ہر شے فانی ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے، جو احکم الحاکمین ہے، وہ ذات حی لا یموت ہے۔
اس تیزی کے ساتھ علماء کا قافلہ اٹھ رہا ہے کہ طبیعت پر عجیب طرح کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی بڑی شخصیت کے انتقال کی خبر نہ آتی ہو، ابھی دو روز قبل مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کانپوری کے انتقال کی خبر نے ہلا کر رکھ دیا تھا، سوچ رہا تھا کہ تھوڑا اطمینان ہوگا تو  کچھ لکھنے کی کوشش کروں گا مگر حضرت مولانا سلمان صاحب کی وفات کی خبر نے مزید رنج و غم میں مبتلا کردیا۔
بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالی اس علم کو یکبارگی نہیں ختم کرے گا بلکہ علم کو علماء کے اٹھا لینے کے ذریعے ختم کردے گا، اور جب کوئی عالم نہیں بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے اور خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسرے بھی گمراہ ہوں گے۔ علماء جس تیزی کے ساتھ اٹھ رہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانہ آگیا ہے۔
حضرت مولانا سلمان صاحب نے علمی ماحول میں آنکھیں کھولیں، اور دینی وعلمی ماحول میں آپ کی نشو ونما ہوئی، آپ کے والد حضرت مولانا مفتی محمد یحیی صاحب رحمہ اللہ حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کے معتمد اور مظاہر علوم کے مفتی تھے، جب آپ پانچ سال کے ہوئے تو حضرت شیخ نے خاندانی رسم ورواج کے مطابق بسم اللہ کرائی، مولانا سلمان صاحب کو اللہ تعالی نے ذہانت وفطانت سے نوازا تھا، اور بچپن ہی صلاح وتقوی کے آثار نمایاں تھے، آپ اپنے ساتھیوں میں ہر اعتبار سے ممتاز تھے اور مظاہر علوم کے نمایاں طلبہ میں آپ کا شمار تھا، آپ کے درسی ساتھیوں میں مولانا یعقوب بلند شہری اور قاری رضوان نسیم صاحب وغیرہ ہیں۔
فراغت کے بعد آپ مظاہر علوم میں مدرس ہوگئے، آپ کا درس طلبہ میں بہت مقبول تھا، آپ کے درس سے منتظمین مدرسہ بھی بہت خوش تھے، آپ حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کے منظور نظر اور داماد تھے، حضرت شیخ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی آپ سے منسوب تھیں، اللہ تعالی انہیں صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور ان کا سایہ دراز فرمائے۔
 حضرت مولانا سلمان صاحب جید قاری اور حافظ قرآن تھے، حضرت شیخ کے رمضان المبارک میں اعتکاف کے زمانے میں آخری عشرہ میں یومیہ 3 پارہ تراویح سناتے تھے اور کہیں لقمہ دینے کی نوبت نہیں آتی تھی۔
آپ کے دور نظامت میں مظاہر علوم نے کافی ترقی کی، زکریا منزل کی 3 منزلہ عمارت اسی طرح دارالحدیث کی تعمیر اور دیگر کئی عمارتیں آپ کی نظامت کے زمانے کی یادگار ہیں۔
آپ نے جنوبی افریقہ کا سفر کیا، اور وہاں پر آپ کی قرات قرآن اور تقریر کی وجہ سے لوگ بہت خوش ہوئے اور مظاہر کا حلقہ بھی کافی بڑھا، آپ کے دور نظامت میں طلبہ کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا، اسی طرح کئی نئے شعبے وجود میں آئے جس میں تخصص فی الحدیث کا شعبہ قابل ذکر ہے۔
حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ اپنے آخری دور میں اپنے خطوط کی کتابت اکثر آپ سے کراتے تھے، اسی طرح بذل المجھود کے حواشی کی طباعت میں آپ مولانا عاقل صاحب کے ساتھ شریک رہے، اسی طرح الابواب والتراجم اور جزء حجة الوداع کی تالیف میں بھی حضرت شیخ کے معاون رہے۔
آپ نہایت معاملہ فہم، اصابت رائے اور اکابر کے طریق پر مضبوطی سے عمل پیرا رہے۔
اس ناچیز سے بہت زیادہ ملاقات نہیں رہی، جس کا افسوس ہے، ایک مرتبہ تخصص فی الحدیث کے سال 2005ء میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی عبد اللہ صاحب معروفی دامت برکاتہم کی قیادت میں ہم ساتھیوں نے سہارنپور مظاہر علوم کا سفر کیا تھا تاکہ وہاں کے شعبہ تخصص فی الحدیث کو قریب سے دیکھا اور سمجھا جائے، اس سفر میں آپ سے سلام ومصافحہ کی سعادت حاصل ہوئی تھی، اسی طرح 1999ء میں جب یہ ناچیز مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی میں طالب علم تھا اور 27/ اپریل 1999ء کو بانی مدرسہ حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب کا انتقال ہوا تو اس کے دو چار روز آپ کا تعزیت کے لیے سفر ہوا تھا، اور آپ نے فجر کی نماز کے بعد آیت کریمہ 《الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا》 پر بہت ہی جامع بیان فرمایا تھا۔
سال گذشتہ حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنا جانشین اور کچے گھر کی حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی خانقاہ کا ذمہ دار بنایا تھا، پھر ان کے انتقال کے بعد آپ یہ ذمہ داری بہت احسن طریقے سے انجام دے رہے تھے، فجر کے بعد ذاکرین کی مجلس ذکر، عصر کے بعد مجلس کا اہتمام، اسی طرح مہمانوں کی ضیافت وغیرہ بہت اچھے طریقے سے انجام دے رہے تھے مگر آپ کے انتقال سے آج وہ خانقاہ سونی ہوگئی، اللہ تعالی اس کو پھر اسی آباد وشاداب رکھے جیسے پہلے تھی۔
آپ نے اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک بہت بڑی جماعت چھوڑی ہے جو آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہوگی، اسی طرح آپ کے چاروں صاحبزادے عالم وحافظ قرآن ہیں جو ان شاء اللہ آپ کے کاموں کو اسی طرح باقی رکھیں گے اور مسلسل اس کا ثواب آپ کو پہنچتا رہے گا۔
اس طرح 10/ اکتوبر 1946ء کو سہارنپور کے افق پر جو ستارہ طلوع ہوا بالآخر 20/جولائی 2020ء کو بعمر 74 سال غروب ہوگیا، اسی رات کو عشاء کی نماز کے بعد آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جنازے میں اچھا خاصا مجمع تھا، لیکن انتظامیہ نے تدفین میں شرکت سے لوگوں کو منع کردیا،  صرف چند افراد ہی شرکت کر سکے۔
اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ آپ کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کے اعزہ واقرباء کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے