قربانی :حقائق اور غلط فہمیاں


قربانی :حقائق اور غلط فہمیاں

از: مفتی محمدشبیرانورقاسمی 

نائب قاضی شریعت 
واستاذ مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے

قربانی کے معنی ہیںاللہ کاقرب حاصل کرنے کی چیز۔ لفظ قربانی ’’قربان ‘‘سے اور لفظ قربان ’’قرب ‘‘سے نکلاہے ؛ اس لیے’’رضائے الہی کی نیت سے قربانی کے ایام (۱۰؍۱۱؍۱۲؍ذوالحجہ )میںخاص قسم کا حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں‘‘ ۔قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار،جذبہ ایثار نفس اور عشق الہی کامظہر ہے۔قربانی کی تاریخ باباآدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوتی ہے ،یہ سب سے پہلی قربانی تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:’’ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ  اِذْ قَرَّبَا قُرْْبَاناََفَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلمْ یُتَقَبّلْ مِنَ الْاٰخََرِ۔‘‘(المائدہ:۱۸۳)  ترجمہ:’’اورآپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طورپر پڑھ کر سنادیجئے ،جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیںکی گئی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوارمیں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی،اس زمانے کے دستورکے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا،قابیل کی قربانی کو چھوڑدیا ۔(تفسیرابن کثیر۲؍۵۱۸) اور یہ عمل تقریباہرانبیاکی شریعت میں رہا۔ جس کاطریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی دعامانگتے اور آسمان سے آگ اترتی ،اسے کھاجاتی اور یہ قبولیت کی علامت ہوتی۔یہ تسلسل حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے۔ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی اور اسی کی یادگارکے طورپر امت محمدیہ پر قربانی کو واجب قراردیاگیا۔

قربانی کی حقیقت :

قربانی سنت ابراہیمی کی یادگارہے ۔حضرت ابراہیم کو حکم ملا(اورحکم بھی صراحتانہیں ملابلکہ خواب میں اشارۃ بتایاگیا) کہ اپنابیٹا ذبح کرو،توباپ نے حکم کی اتباع میں ایک لمحے کے لیے بھی رک کرتامل نہیں کیا۔پلٹ کراللہ سے یہ نہیں پوچھاکہ یااللہ !یہ حکم آخرکیوں،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے ؟البتہ بیٹے سے امتحان اور آزمائش کے لیے سوال کیاکہ’’اے بیٹے میں نے توخواب میں یہ دیکھاہے کہ تمہیں ذبح کررہاہوں،اب بتاو تمہاری کیارائے ہے‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۲)بیٹا بھی ابراہیم خلیل اللہ کابیٹا تھا،وہ بیٹا جن کے صلب سے خاتم المرسلین دنیامیں تشریف لانے والے تھے،اس بیٹے نے بھی پلٹ کریہ نہیں پوچھاکہ اباجان!مجھ سے کیاجرم ہوا،میراقصورکیاہے کہ مجھے موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے۔بلکہ بیٹے کی زبان پر تواضع وانقیاد سے لبریزایک ہی جواب تھا :’’آباجان !آپ کے پاس جوحکم آیا ہے ،اس کوکرگزریئے اور جہاں تک میرامعاملہ ہے توآپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(ایضا)دونوں اس حکم پرعمل کے لیے تیارہوگئے اورباپ نے بیٹے کوزمین پرلٹادیا۔اس وقت بیٹے نے کہاکہ اباجاں!آپ مجھے پیشانی کے بل لٹائیں،اس لیے کہ اگر سیدھالٹائیں گے تومیراچہرہ سامنے ہوگااور کہیں ایسانہ ہوکہ آپ کے دل میں بیٹے کی محبت کاجوش آجائے اور آپ چھری نہ چلاسکیں۔اللہ کویہ ادائیں اتنی پسندآئیں کہ اللہ نے ان اداؤں کاذکرقرآن کریم میں بھی فرمایاکہ:’’اے ابراہیم !تم نے اس خواب کوسچاکردکھایا۔‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۴۔۱۰۵)اب ہماری قدرت کاتماشہ دیکھوچنانچہ جب آنکھیں کھولیں تودیکھاکہ حضرت اسماعیل ایک جگہ بیٹھے ہوئے مسکرارہے ہیں اور وہاں ایک دنبہ ذبح کیاہواہے۔اللہ کوان کایہ عمل اتناپسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کوجاری کردیاچنانچہ فرمایا:’’ہم نے آنے والے مسلمانوں کواس عمل کی نقل اتارنے کاپابندکردیا۔‘‘یہ پوراواقعہ جودرحقیقت قربانی کے عمل کی بنیادہے۔روزاول سے بتارہاہے کہ قربانی اس لیے مشروع کی گئی ہے تاکہ انسانوں کے دلوں میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہوکہ دین درحقیقت اتباع کانام ہے ۔جب اللہ کاکوئی حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے ہم اللہ کے حکم کی پیروی کریں ،اس کے حکم کے سامنے اپناسرتسلیم خم کریں ۔اسی کی طرف اللہ نے حضرت ابراہیم کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ’’ فلمااسلما‘‘جب انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔قربانی کی ادائیگی کے ذریعہ اسی ایثارنفس کاجذبہ پیداکرنامقصود ہے کہ جیسے اللہ کے حکم کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کیا،کوئی عقلی دلیل نہیں مانگی،کوئی حکمت طلب نہیں کی اور اللہ کے حکم کے آگے سرجھکادیا۔اب ہمیں بھی اپنی زندگی کواس کے مطابق ڈھالناہے اور یہی اس کی روح ہے۔ دراصل قربانی کی حقیقت تویہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ کے حضورپیش کرتامگرخداکی رحمت دیکھئے ،ان کو یہ گوارانہ ہوا اس لیے حکم دیاکہ تم جانورکوذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔

قربانی کی اہمیت وفضیلت:

قربانی کی اہمیت وفضیلت کاثبوت قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔سورہ حج میں ارشاد ربانی ہے:’’اورہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹوں کو عبادت الہی کی نشانی اور یادگار مقررکیاہے،ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں ،سوتم ان کو نحرکرتے وقت قطارمیں کھڑاکرکے ان پر اللہ کانام لیاکروپھرجب وہ اپنے پہلوپرگرپڑیں توان کے گوشت میں سے تم خودبھی کھاناچاہوتوکھاو اور فقیرکوبھی کھلاو، خوہ وہ صبرسے بیٹھنے والا ہویاسوال کرتاپھرتاہوجس طرح ہم نے ان جانور وں کی قربانی کاحال بیان کیا، اسی طرح ان کوتمہاراتابع دار بنایاتاکہ تم شکربجالاو۔ اللہ کے پاس ان قربانیوںںکاگوشت اور خون ہرگزنہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاراتقوی پہنچتاہے ۔اللہ تعالی نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخرکردیاہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالی کی بڑائی کروکہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح رہنمائی کی اور اے پیغمبر!مخلصین کو خوش خبری سنادیجئے۔‘‘(الحج:۳۶،۳۷)سورہ حج ہی میں دوسری جگہ اسے شعائر اللہ قراردیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کودل میں پائے جانے والے تقوی خداوندی کامظہرقراردیاہے۔ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب(الحج:۳۲) ااورجوشخص اللہ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام کے دوران ایک باربھی قربانی کرناترک نہیں کیا،جب کہ آپ کے گھر میں کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰؍تاریخ کوکوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک (قربانی کا)خون بہانے سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ۔اور قیامت کے دن وہ ذبح کیاہواجانوراپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااورقربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے یہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتاہے۔ لہذاتم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۹۳،ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۶) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقرعید کے دن ارشاد فرمایا:آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا،ہاں اگرکسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہوتوہو(الترغیب والترہیب:۲؍۷۷۲) حضرت زیدبن ارقم راوی ہیں کہ صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ !یہ قربانی کیاہے؟(یعنی اس کی حیثیت کیاہے)آپ نے ارشادفرمایا:تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے؟صحابہ نے عرض کیا!ہمیں قربانی سے کیافائدہ ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہربال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہ! اون کے بدلے کیاملے گا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہراون کے بدلے بھی ایک نیکی (ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۷، حاکم ،مشکوۃ:۱۲۹)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تووہ عیدالاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔(سنن دارقطنی وبیہقی) حضرت ابوسعیدسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ اٹھواور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجودرہو) کیوں کہ اس کے خون کاپہلاقطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیایارسول اللہ !یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یاعام مسلمانوں کے لیے بھی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے) فرمایا:اے فاطمہ ! اٹھواور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجودرہو ، اس لیے کہ اس کے خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔یہ قربانی کاجانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور تمہارے ترازومیں سترگنا کرکے رکھا جائے گا ۔حضرت ابوسعید نے عرض کیا یارسول اللہ !یہ مذکورہ ثواب کیاخاص آل محمد کے لیے ہے کیوں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ خاص کئے جائیں یاتمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آل محمد کے لیے ایک طرح سے خاص بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام بھی ہے۔ (اصبہانی،الترغیب:۲؍۲۷۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امیدرکھواس لیے کہ خون اگرچہ زمین پرگرتاہے لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔(الترغیب:۲؍۲۷۸) حضرت حسین بن علی سے مردی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص خوش دلی کے ساتھ اجروثواب کی امیدرکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔

قربانی کاحکم:

قربانی ایک اہم عبادت اور شعائراسلام میں سے ہے ،اس پراجماع ہے ،البتہ اس کی شرعی حیثیت اورحکم کے بارے میں ائمہ مجتہدین میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالکؒ،امام احمدبن حنبل ؒ صاحب نصاب کے لیے قربانی کو واجب کہتے ہیں ،جب کہ امام شافعی ؒ اور دیگر علماء سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ہندوپاک کے جمہورعلماکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے کیوں کہ یہ قول احتیاط پرمبنی ہے۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے:’’ فصل لربک وانحر‘‘(سورۃا لکوثر)آپ اپنے رب کے لیے نمازپڑھئے اور قربانی کیجئے۔اس آیت میں قربانی کرنے کاحکم دیاجارہاہے اور امروجوب کے لیے ہوتاہے۔ علامہ ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت ’’فصل لربک ‘‘میں نمازسے عید کی نمازمرادہے اور ’’وانحر‘‘سے قربانی مرادہے۔علامہ جصاص فرماتے ہیں اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں:(۱) عیدکی نماز واجب ہے (۲) قربانی واجب ہے۔( احکام القرآن للجصاص :۳؍۴۱۹) مفسرقرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: ’’حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء اور حضرت قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیںکہ ’’فصل لربک ‘‘میں فصل سے مراد عید کی نماز اور ’’وانحر‘‘ سے مراد قربانی ہے۔(تفسیرمظہری :۱۰؍۳۵۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اوروہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳، مسنداحمدحدیث نمبر:۸۲۷۳) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ احدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس طرح کی وعید غیرواجب کو چھوڑنے پرنہیں ہوتی بلکہ ترک واجب پر ہوتی ہے۔(تبیین الحقائق للزیلعی :۶؍۲کتاب الاضحیہ )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکرفرمایا:اے لوگو!ہرسال ہرگھروالے(صاحب نصاب) پرقربانی کرنا ضروری ہے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۵،نسائی حدیث نمبر:۴۲۲۴)حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میںآپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۷)مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کاکوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا۔یہ اہتمام و پابندی بھی وجوب کوبتایا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے قبل جانورذبح کردینے پر دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا۔(صحیح بخاری حدیث :۵۵۴۶،۵۵۶۰،ابن ماجہ حدیث:۳۱۵۱)حالاں کہ اس زمانہ میں صحابہ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی ،یہ بھی قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔

قربانی کے وجوب کی شرطیں: 

قربانی واجب ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں ۔اگران میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے توقربانی واجب نہیں رہے گی:
۱۔عاقل ہونا۔لہذاکسی پاگل ،مجنوں پرقربانی واجب نہیں۔
۲۔ بالغ ہونا ۔ لہذانابالغ پرقربانی نہیں خواہ مالدارہی ہو۔ہاں کوئی ایام قربانی میں بالغ ہوااور مالدارہے تواس پرقربانی واجب ہے۔
۳۔ آزاد ہونا۔ لہذاغلام پرقربانی نہیں۔کیوں کہ غلام کسی چیز کامالک نہیںہوتا۔(البحرالرائق :۲؍۲۷۱)
۴۔ مقیم ہونا۔ لہذامسافرپرقربانی واجب نہیں۔حضرت علی ؓ  فرماتے ہیں :مسافرپرقربانی واجب نہیں(المحلی لابن حزم:۶؍۳۷،مسئلہ: ۹۷۹)
۵۔ مسلمان ہونا۔اس لیے کہ قربانی عبادت ہے اور کافر عبادت کااہل نہیں۔(بدائع :۴؍۱۹۵)
 لہذاغیرمسلم پرخواہ کسی مذہب کاہوقربانی واجب نہیں۔ہاں اگرکوئی غیرمسلم ایام قربانی میں مسلمان ہوگیااورمالدارہے تو اس پرقربانی واجب ہوگی۔
۶۔مالدار ہونا۔امام ابن ماجہ قزوینی ؒ نقل کرتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کووسعت ہواس کے باوجود قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(ابن ماجہ حدیث:۳۱۲۳،باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا)لہذافقیرپرقربانی واجب نہیں ،اگراپنی خوشی سے قربانی کرے تو ثواب ملے گا۔اور اگر کوئی فقیر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہوگیا تواس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ اگرکسی کے پاس بقدرنصاب رقم موجودہومگراس پر قرض اتناہوکہ اگراسے اداکرے تووہ مالک نصاب نہ رہے توایسے شخص پربھی قربانی واجب نہیں۔

وجوب قربانی کانصاب :

جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی(612.36گرام)یا ساڑھے سات تولہ سونا (87.48گرام )موجود ہوخواہ جس شکل میں ہو جیسے زیورات، آرائشی سامان ،سکے وغیرہ یا سونا چاندی مذکورہ مقدار سے کم ہو لیکن اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،مال تجارت ،نقدی اور بنیادی ضرورت سے زائد سامان موجود ہو یاان میں سے بعض موجود ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612.36ملی گرام ) کے برابر ہو تو اس پر  قربانی واجب ہے، قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگارہوگا۔

مال تجارت سے مراد:

اگرکسی چیز کوخریدتے وقت نیت یہ تھی کہ اسے بعد میں فروخت کردیں گے اور یہ نیت تاحال باقی بھی ہو تواب یہ چیز ’’مال تجارت‘‘ میں شمار ہوگی؛ لیکن اگرکوئی چیز خریدتے وقت اسے آگے فروخت کرنے نیت نہ ہویایااس وقت تو فروخت کرنے کی نیت تھی مگربعدمیں نیت بدل گئی توایسی چیز مال تجارت میں شمار نہ ہوگی۔قربانی میں نصاب کے مال کاتجارت کے لیے ہونا یااس پر سال گزرناضروری نہیں۔

بنیادی ضرورت سے زائدسامان:

بنیادی ضرورت سے مراد وہ ضرورت ہے جوانسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو،اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یاہتک عزت و آبرو کااندیشہ ہو ۔کسی شخص کے پاس موجود ایساسامان جواس کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو ’’زائدازضرورت سامان ‘‘کہلائے گا۔ کھانا،پینا، رہائشی مکان ، کرایہ پر دیا ہوامکان، استعمال کی گاڑی، استعمال کے کپڑے، دکان کافرنیچر، اہل صنعت وحرفت کے اوزاروغیرہ ضرورت کاسامان شمار ہوگا۔ایسے برتن ،کپڑے جوسال بھرمیں ایک بار بھی استعمال نہ ہوئے ہوں وہ زائد ازضرورت سامان شمارہوں گے۔
٭  جس طرح زکوۃ صاحب نصاب مسلمان پرالگ الگ لازم ہوتی ہے اسی طرح قربانی بھی ہرصاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی ؛کیوں کہ قربانی اس کے اپنے نفس اورذات پرواجب ہوتی ہے اس لیے پورے گھر،خاندان یاکنبہ کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی ۔ ہرصاحب نصاب پرالگ الگ قربانی لازم ہوگی ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ ہاں ! ایصال ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
٭  اگرعورت صاحب نصاب ہوتو اس پربھی قربانی واجب ہے۔بیوی کی قربانی شوہر پرلازم نہیں ،اگر بیوی کی اجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔بعض لوگ نام بدل کرقربانی کرتے رہتے ہیں ،حالاں کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں ،مثلا ایک سال شوہر کے نام سے ،دوسرے سال بیوی کے نام سے تو اس سے قربانی ادانہیں ہوتی بلکہ میاںبیوی دونوں کی الگ الگ قربانی ہوگی۔
٭  اگربیوی کامہرمؤجل ہے جوشوہرنے ابھی تک نہیں دیا اور وہ نصاب کے برابرہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے اور اگر مہرمعجل ہے اور بقدرنصاب یااس سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭  اگرمشترک کاروبارکی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرنصاب ہوتوسب پر واجب ہوگی ۔
٭  اگرکاشت کارکسان کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت سے زائد اتنے جانورہوں جوبقدرنصاب ہوں تواس پر قربانی ہوگی ۔
٭  :اگرکسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کیلئے کتابیں رکھی ہیں تواگروہ خودتعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت بقدرنصاب ہے تواس پرقربانی واجب ہے اور اگروہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی واجب نہیںہوگی۔

قربانی نہ کرنے والوں پروعید:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلایقربن مصلانا‘‘ ترجمہ:’’جوشخص وسعت کے باوجودقربانی نہ کرے ،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳) آپ کے اس فرمان سے کس قدر ناراضگی ٹپکتی ہے۔ کیاکوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سہارسکتا ہے ؟اوریہ ناراضگی اسی سے ہے جوگنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قربانی کے ایام میں جانور ہی ذبح کرناضروری ہے۔قربانی کے بجائے اس کی رقم کاصدقہ کرنااس کابدل اورکافی نہیں۔ایساکرنے پرذمہ سے واجب ساقط نہ ہوگا۔

قربانی کئے جانے والے جانور:

بھیڑ،بکری ،گائے ،بھینس اور اونٹ قربانی کے لیے ذبح کئے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتاہے:آٹھ جانورہیں دوبھیڑوں میں سے اوردوبکریوں میں سے ،دو اونٹوں میں سے اور دوگائیوں میں سے (سورہ انعام:۱۴۳)بھینس گائے کے درجہ میں ہے اس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔(کتاب الاجماع لابن منذرص:۳۷)حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث:۱۰۸۴۸) اسی طرح سفیان ثوری کاقول ہے:بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیاجائے گا۔(مصنف عبدالرزاق حدیث:۶۸۸۱) امام مالک بن انس فرماتے ہیں:یہ بھینس گائے ہی کے حکم میں ہے۔(مؤطاامام مالک،باب ماجاء فی صدقۃ البقر،ص:۲۹۴)
غیرمقلدین کاموقف ہے کہ بھینس کی قربانی کرناصحیح نہیں ،اس لیے کہ یہ عرب میں نہیںپائی جاتی تھی۔(فقہ الحدیث ازافاداتناصرالدین البانی:۲؍۴۷۵)مگریہ بات صحیح نہیں ہے ؛اس لیے کہ بھینس اگرچہ موجودنہ تھی لیکن باجماع امت اسے گائے کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے گائے والا حکم دے دیا گیا جیساکہ زکوۃ کے مسئلہ میں اسے گائے کے ساتھ شامل کردیاگیاہے۔نیزیہ کہ اگربھینس کی قربانی نہ کرنے کی یہی دلیل ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں نہیں پائی جاتی تھی تو اس دلیل کے مطابق اس کاگوشت،دودھ، مکھن ،کھال وغیرہ کااستعمال بھی جائز نہیں ہوناچاہئے کیوں کہ یہ دور نبوت میں عرب ممالک میں نہیں پائی جاتی تھی،حالاں کہ غیرمقلدین بھی ایسانہیں کہتے ہیں توپھراس کی قربانی کیوں کرجائز نہیں ہوگی۔
غیرمقلدین کے یہاں گھوڑے کی قربانی بھی جائز ہے ۔(فتاوی ستاریہ:۱؍۱۴۹)وہ حضرت اسماء بنت ابوبکرکی روایت کو دلیل بناتے ہیں کہ روایت میں لفظ’’نحرنا‘‘ہے جوقربانی کے معنی میں ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓنے فرمایا:’’ نحرنا علی عھد  النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرساً فأکلناہ۔‘‘ ترجمہ: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑے کو ذبح کیا اور اس کاگوشت کھایا۔(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید؛باب النحروالذبح) حالاں کہ یہ دلیل تب بنے گی جب ’’نحرنا‘‘ بمعنی ’’نسکنا‘‘ ہو جبکہ حدیث میںنحرنا ’’ذبحنافرسا‘‘ کے معنی میں ہے جس کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں ’’ذبحنا‘‘ کالفظ صراحتا موجود ہے۔چنانچہ صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۱۱ کے الفاظ ہیں:عن اسماء قالت ذبحنا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرسا ونحن بالمدینۃ فأکلناہ۔یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ہم نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر:۳۰۲کی روایت ہے:عن اسماء بنت ابی بکرقالت ذبحنا فرسا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأکلناہ یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ فرماتی ہیں :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑاذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح کنزالعمال کی روایت میں بھی ذبحنا کالفظ ہے۔دوسری بات یہ کہ جن احادیث سے گھوڑے کاگوشت کھانے کاجواز معلوم ہوتا ہے وہ سبھی احادیث منسوخ ہیں ۔اس لیے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اکل لحوم الخیل والبغال والحمیر۔زاد حَیْوَۃُ۔ و کل ذی ناب من السباغ۔ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچراور گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا۔حیوہ(راوی) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں کاگوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔(سنن ابوداود:کتاب الاطعمۃ ؛باب فی اکل لحوم الخیل) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خیبرکے دن لوگوں کو بھوک نے ستایاتوانہوں نے گھریلوگدھوں کو پکڑا اور ذبح کیا اور ان سے ہانڈیوں کو بھردیا جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی توآپؐ نے ہمیں حکم دیا توہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو گرادیا ۔آپؐ نے فرمایا :اللہ تعالی اس سے زیادہ حلال اور پاکیزہ رزق عطافرمائیں گے ،چنانچہ ہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو جوش مارنے کی حالت میں گرادیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں، گھوڑوں، خچروں کے گوشت، کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں ،پنجوں کے ساتھ کھانے والے پرندوں، باندھ کر نشانہ بنائے گئے جانور، درندے کے ہاتھوں چھڑائے گئے جانور جو ذبح سے پہلے ہی مرجائے اور (کسی درندے کے ہاتھوں ) اچکے ہوئے جانور کے گوشت کوحرام قراردیا۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی :۸؍۶۹، المعجم الاوسط لطبرانی :۴؍۹۳،رقم:۳۶۹۲)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گھوڑے کے گوشت کو مکروہ (اور ناجائز) کہتے تھے اور دلیل میں قرآن پاک کی یہ آیت ’’والخیل والبغال والحمیرلترکبوھاوزینۃ‘‘ پیش کرتے تھے۔(احکام القرآن للجصاص :۳؍۲۷۰من سورۃ النحل)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کودلیل بناتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ان تین چیزوں (گھوڑا،خچراور گدھا) کاذکراللہ تعالی کی نعمتوں کے ضمن میں ہوا ہے ،کسی جانور کاسب سے بڑا فائدہ اس کاگوشت کھاناہے ۔حکیم ذات احسان کاذکر کرتے ہوئے کبھی بھی اعلی نعمتوں کوچھوڑ کر ادنی نعمت کاتذکرہ نہیں کرتی۔(اور یہاں اعلی فائدہ ’گوشت کھانا‘ چھوڑ کر ادنی فائدہ ’سواری کرنا‘ کاذکر ہے جودلیل ہے کہ اگر گھوڑے کاگوشت کھاناجائز ہوتا تو اللہ تعالی ضرور ذکر فرماتے )اسی لیے فقہائے کرام نے بھی گھوڑے کے گوشت کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔چنانچہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام اوزاعی گھوڑے کے گوشت کو مکروہ جانتے تھے ۔یہی قول امام مجاہد، امام ابوبکر الاصم اور امام حسن بصری سے بھی منقول ہے۔توجب گھوڑا کوذبح کرکے اس کاگوشت کھانا جائز ہی نہیں ہے تو گھوڑے کی قربانی کیسے جائز ہوگی۔’’نیزثمانیۃ ازواج‘‘ کی وضاحت قرآن نے جن جانوروں سے کی ہے ان میں گھوڑاشامل نہیں ہے۔

قربانی کے جانور کی عمر:

اونٹ کی عمرکم ازکم پانچ سال ۔گائے ،بیل ،بھینس کی عمرکم ازکم دوسال۔بکری، بکرا،بھیڑ،دنبہ کی عمرکم ازکم ایک سال ۔البتہ چھ ماہ کا دنبہ اتنافربہ ہو کہ ایک سال کالگتاہوتوسال سے کم ہونے کے باوجود اس کی قربانی جائز ہے ۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قربانی کے لیے عمروالاجانورذبح کرو،ہاں اگرایساجانور میسرنہ ہوتو پھر چھ ماہ کادنبہ ذبح کروجوسال کالگتاہو۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:۱۹۶۳،باب سن الاضحیۃ،ابوداودحدیث :۲۷۹۷،اعلاء السنن) حدیث میں دوباتیں قابل غورہیں:پہلی بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانورکے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایاہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’علماء  فرماتے ہیں کہ  ’’مسنہ ‘‘ سے مراد  اونٹ، گائے اور بکری میں ’’الثنی ‘‘ ہے۔ (شرح مسلم للنوی:۲؍۱۵۵) اور فقہائے کرام کے یہاں ثنی سے مراد یہ ہے کہ بھیڑ بکری،ایک سال کی ہو، گائے اور بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کاہو۔(فتاوی عالمگیری:۵؍۲۹۷، کتاب الاضحیۃ ؛الباب الخامس) دوسری بات یہ کہ حدیث میں مسنہ کے متبادل ’’ جذعۃ من الضأن ‘‘ کاحکم فرمایااس سے مراد وہ دنبہ ہے جوچھ ماہ کاہو مگردیکھنے میں ایک سال کالگتاہو۔چنانچہ علامہ نجیم فرماتے ہیں:’’ حضرات فقہاء فرماتے ہیں اس سے مراد وہ دنبہ ہے جواتنابڑا اگراس کو سال والے دنبوں میں ملادیاجائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ ) وہ ہے جوچھ ماہ مکمل کرچکا ہو۔(البحرالرائق:۸؍۲۰۲،کتاب الاضحیۃ)یہ حکم صرف بھیڑاور دنبہ میں ہے ،بکری یاگائے ،بھینس اور اونٹ کے لیے نہیں کیوں کہ حدیث پاک میں صرف اسی کی اجازت ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ عمرکے مکمل ہونے کااطمینان ضروری ہے ،دانتوں کاہوناضروری نہیں۔ (احسن الفتاوی:۷؍۵۲۰)غیرمقلدین کے یہاں مدارعمرنہیں بلکہ دانتا ہوناشرط ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ازعبداللہ غیرمقلد:۲؍۳۹۲)غیرمقلدین کاکہناہے کہ حدیث میں مسنہ لفظ آیاہے جوثنی سے ہے اور لغت میں ثنی کے معنی دو دانتوں کے ہیں،لہذاایساجانورجس کے دو دانت گرگئے ہوں مراد ہے ۔حالاں کہ مسنہ کامعنی لغت میں دو دانتابھی ہے اور عمروالابھی۔اور یہ مسئلہ چوں کہ شریعت کاہے اس لیے لغت کاوہ معنی مرادلیں گے جواصحاب شرع نے لیاہے اوروہ فقہاء ہیں۔امام ترمذی فرماتے ہیں: و کذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی،کتاب الجنائزباب غسل المیت:۱؍۱۹۳)ترجمہ:اورفقہاء حدیث کامعنی زیادہ جانتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جذع سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمروالاجانور ہے۔ مسنہ کے متبادل عمر کے اعتبار سے جانور کاتعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ کی بنیاد عمرہے نہ کہ دانت گرنا۔

قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:

بکرا،بکری ،بھیڑ یادنبہ کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیاکہ مجھ پر ایک بڑ اجانور (اونٹ یاگائے) واجب ہوچکا ہے اورمیں مالدار ہوں اور مجھے بڑا جانور نہیں مل رہا ہے کہ میں اسے خرید لوں (لہذا اب کیاکروں؟) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سات بکریاں خرید لو اور انہیں ذبح کرلو۔اس حدیث میں آپ نے بڑے جانور کو سات بکریوں کے برابر شمار کیا اور بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیںاس سے زیادہ نہیں ۔معلوم ہواکہ ایک بکری یاایک دنبہ کی قربانی ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے جائز نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے(اعلاء السنن:باب ان البدنۃ عن سبعۃ)اور اونٹ ،گائے یا بھینس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کااحرام باندھ کر نکلے تو آپ نے حکم دیاکہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں۔(مسلم حدیث :۱۳۱۸باب: الاشتراک فی الھدی)نیز حضرت جابررضٓی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی،چنانچہ اونٹ ۷ آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی ۷ آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔(مسلم  حدیث نمبر:۱۳۱۸،ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۲،ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۳۲)
ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے کافی نہیں:
غیرمقلدین کامانناہے کہ ایک بکری میں سارے گھروالے شریک ہوسکتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ توآپ ؓ نے جواب دیا: آدمی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کیاکرتا تھا ،پھر سارے گھروالے اسے کھاتے تھے اور (دوسروں کوبھی) کھلاتے تھے،یہاں تک کہ لوگ دکھاوے اور فخر میں مبتلاہوگئے اور وہ کچھ ہونے لگا جوتم دیکھ رہے ہو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۵،باب ماجاء ان الشاۃ تجزی عن اھل البیت) حالاں کہ حدیث میں مراد اشتراک فی اللحم ہے یعنی ذبح توایک آدمی کرتاتھاجس پر قربانی واجب ہوتی تھی اور اس کاگوشت سارے گھروالے کھاتے تھے، چنانچہ امام محمد شیبانی ؒ فرماتے ہیں:’’ایک شخص محتاج ہوتا تھا توایک ہی بکری ذبح کرتا،قربانی تواپنی طرف سے کرتا لیکن کھانے میں اپنے ساتھ گھروالوں کوبھی شریک کرتاتھا۔جہاں تک ایک بکری کامعاملہ ہے تو وہ دویاتین آدمیوں کی طرف سے کفایت نہیں کرتی بلکہ صرف ایک شخص کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔‘‘(مؤطا الامام محمد:ص۲۸۲،باب مایجزی ٔ من الضحایا عن اکثرمن واجد)مولاناعبدالحی لکھنوی اس ذیل میں لکھتے ہیں:’’اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو گوشت کی ضرورت ہوتی یاوہ فقیر ہوتا اور قربانی اس پرواجب نہیں ہوتی تو وہ اپنی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اپنے گھروالوں کو گوشت کھلاتا یاگھروالوں کو ثواب میں شریک کرتا اور یہ جائز ہے۔باقی رہا واجب قربانی کی صورت میں ایک بکری میں اشتراک تویہ جائز نہیں۔‘‘(التعلیق الممجدعلی موطاالامام محمد:ص۲۸۲)جبکہ مولاناظفراحمدعثمانی تھانوی ؒ تفصیل سے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ جہاں تک حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے فرمان کہ’’ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بکری اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرتا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے فخر کرناشروع کردیا۔‘‘ اور ابوسریحہ کے فرمان کہ ’’گھروالے ایک یادو بکریاں ذبح کرتے تھے اور اب اپنے پڑوسیوں سے بھی بخل کرتے ہیں‘‘ کاتعلق ہے تویہ ہماری دلیلیں ہیں ،ہمارے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالدار پراپنی اولاد اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے بلکہ (ہمارادعوی ہے کہ) اس پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے اور یہی ابوایوب انصاری ؓ اور ابوسریحہ کی مراد ہے کہ مالدار آدمی اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے قربانی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اپنے گھروالوں کی طرف سے کرتا تھا حتی کہ لوگوں نے فخرکرناشروع کردیا ۔اسی وجہ سے تو ابوسریحہ نے کہاکہ ایک گھروالے ایک یادوبکریاں ذبح کرتے تھے۔اگریہ بات مشترک قربانی کے لیے ہوتی توایک بکری سے زیادہ ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں (کیوں کہ اس صورت میں ایک بکری کفایت کرجاتی) لیکن مالدار تو صرف گھرکاسربراہ ہوتاہے ۔اس وقت چوں کہ گھرکے سربراہ ایک یادوہوتے تھے اسی وجہ سے گھروالے ایک یادوبکریوں کی قربانی کرتے تھے اور وہ اپنے چھوٹوں اور بڑے فقراء کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگ اس میں فخر کرنے لگے ۔تو اس صورت میں ایک بکری کے پورے گھروالوں کی طرف سے کافی ہونے پرکوئی دلیل نہیں جب کہ سارے گھروالے مالدار ہوں۔خوب سمجھ لو۔(اعلاء السنن:۱۷؍۲۱۱)مولاناالیاس گھمن فرماتے ہیں: یہ ایسے ہے جیسے ایک گھرانے میں ایک آدمی نے قربانی کی ہوتی ہے اور ہمارے عرف میں کہہ دیاجاتا ہے کہ ’’فلاں گھرانے نے قربانی کی ہے‘‘ تو پورے گھر کی طرف نسبت کرناعرف کے اعتبارسے ہے نہ کہ ایک بکری کے گھرانے کی طرف سے کفایت کرنے کے اعتبارسے۔ اس پر قرائن یہ ہیں:(الف) اہل بیت میں تو نابالغ بچے بھی شامل ہیں جن پر قربانی واجب نہیں ہوتی۔ (ب) بیوی بھی اگرصاحب نصاب ہوتواس پر زکوۃ الگ سے فرض ہوتی ہے جودلیل ہے کہ ایک کافرض دوسرے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا یہی حال گھرمیں موجود بالغ بیٹوں اور بیٹیوں کاہے۔(ج) گائے اور اونٹ میں سات افراد کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بکری ایک فرد کی طرف سے ہی کفایت کرتی ہے توجس طرح بڑے جانور میں ساتواں حصہ ایک کی جانب سے ہوتا ہے اس طرح ایک بکری ایک ہی طرف سے ہوتی ہے۔(د) خود اس روایت میں ذبح کے بعد ’’یاکلون‘‘کہنابھی اس بات کاقرینہ ہے کہ صحابی کی مراد اشتراک سے اشتراک فی اکل ہے نہ کہ اشتراک فی اداء الواجب۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کادوسراجواب یہ ہے کہ اس سے مراد نفلی قربانی ہے ۔نفلی قربانی انسان اپنی طرف سے کرتا ہے لیکن ثواب میں دوسروں کوشریک کرتا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی قربانی میں امت کو شریک کیاہے۔عبدالرحمن بن سابط سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوموٹے تازے مینڈھے ذبح کیے،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ہر اس شخص کی جانب سے جس نے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھاہو۔(کتاب الآثار بروایت محمدحدیث نمبر:۷۹۰،باب الاضحیۃ)علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ واماماروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بشاۃ عن امتہ فانما کانت تطوعا۔‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جومروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری امت کی طرف سے ذبح کی تھی تویہ نفلی قربانی تھی۔(عمدۃ القاری ،کتاب الحج:۷؍۲۸۷)  مولاناخلیل احمدسہارنپوری فرماتے ہیں:’’انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انما فعل ذلک لأجل الثواب وھو انہ جعل ثواب تضحیۃ بشاۃ واحدۃ لامتہ لا للاجزاء وسقوط التعبد عنھم۔ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقربانی کی تھی وہ ثواب کے لیے کی تھی ،اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک بکری کاثواب امت کوپہنچایا تھا ایسانہیں تھا کہ ان کی طرف سے قربانی کی کفایت اوران سے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کی تھی۔(بذل المجہودشرح ابوداودکتاب الضحایا ،باب فی الشاۃ یضحی بھاعن جماعۃ:۴؍۷۶)
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں کیوں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کاموقع آگیا ،توہم نے گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمیوں کے حساب سے شرکت کی۔ حالاں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث متروک ہے اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث معمول بہ ہے جو پہلے بیان کی جاچکی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم‘‘۔ یعنی اسی پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کاعمل ہے۔(ترمذی:۱؍۲۷۶) باب ماجاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت) اوریہ ضابطہ ہے کہ :’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو حدیثیں مروی ہوں اور دونوں میںاختلاف ہو تو دیکھاجائے گا کہ جس پر صحابہ نے عمل کیاہواسے لیا جائے گا۔(سنن ابوداود،باب لحم الصیدللمحرم،باب من لایقطع الصلوۃ شیء)نیزمحدثین کی عادت ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کو لاتے ہیں جوان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں پھرناسخ ۔امام نووی نے یہ بات ذکرکی ہے (شرح نووی:۱؍۱۵۶باب الوضوع ممامست النار) اس لحاظ سے دیکھاجائے تو امام ترمذی نے پہلے عبداللہ بن عباس کی حدیث نقل کی ہے اور اس کے بعد حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث نقل کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کی حدیث منسوخ ہے۔نیز یہ کہ ابن عباسؓ کی حدیث فعلی اور حضرت جابرؓکی حدیث قولی ہے اور حدیث قولی کو حدیث فعلی پر ترجیح ہوتی ہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’انہ تعارض القول والفعل ،و الصحیح حینئذ عند الاصولیین ترجیح القول‘‘یعنی یہاں قول اورفعل میں تعارض ہے اور اصولین کے نزدیک اس وقت ترجیح قول کوہوتی ہے۔(شرح مسلم للنووی:باب تحریم نکاح المحرم)
قربانی کاوقت:
قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے نمازعید اداکرنے کے بعد اوردیہات والوں کے لیے جن پر نمازجمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہترہے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ہمارے اس عید کے دن سب سے پہلاکام یہ ہے کہ ہم نمازپڑھیں پھرواپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پرعمل کیا یعنی عید کے بعدقربانی کی تو اس نے ہمارے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تووہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھروالوں کے لیے تیارکیاہے ،اس کاقربانی سے کوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری حدیث:۵۵۶۰،کتاب الاضاحی باب :الذبح بعدالصلوٰۃ،مسنداحمد حدیث نمبر:۱۸۴۸۱،۱۸۶۹۳)اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایاہے ۔دیہات میں چوں کہ عید کی نماز کا حکم نہیں ہے اس لیے وہاں اس شرط کاوجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا ۔وہاں قربانی کے وقت کاشروع ہوناہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہوجاتاہے۔
قربانی کے ایام :
قربانی کے تین دن ہیں :۱۰،۱۱،۱۲؍ذی الحجہ۔
حضرت عبداللہ بن عبا س ؓفرماتے ہیں کہ قربانی کے دن دس ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دودن ہیں البتہ یوم النحر(دس ذی الحجہ )کو قربانی کرنا  افضل ہے۔(احکام القرآن لابی جعفرالطحاوی۲؍۲۰۵)٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ قرآن کی آیت :’’ویذکروااسم اللہ فی ایام معلومات ‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ ’’ایام معلومات‘‘ سے مرادیوم نحراور اس کے بعددودن ہیں۔(تفسیرابن ابی حاتم الرازی:۶؍۲۶۱)٭قال علی رضی اللہ عنہ :النحر ثلاثۃ ایام ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تین ہیں۔(احکام القرآن للطحاوی :۲؍۲۰۵،موطامالک:ص ۴۹۷،کتاب الضحایا) ٭حضرت سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ضحی منکم ،فلایصبحن بعد ثالثۃ وفی بیتہ منہ شی ء‘‘ یعنی جوشخص قربانی کرے توتیسرے دن کے بعد اس کے گھرمیں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۶۹،باب مایوکل من لحوم الاضاحی)اس حدیث سے بھی معلوم ہواکہ قربانی کے دن تین ہی ہیں کیوں کہ جب چوتھے دن قربانی کابچاہواگوشت رکھنے کی اجازت نہیں توپوراجانورقربان کرنے کی اجازت کیوں کرہوگی؟
یہاں یہ بات یادرہے کہ تین دن کے بعد قربانی کاگوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ۔(مستدرک حاکم:۲؍۲۵۹) تاہم اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی توتین دن بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھاجاسکتاہے توکیاقربانی کی بھی اجازت پورے سال ہوگی ؟ہرگزنہیں،توتین دن بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اورنہ اب ہے۔
حضورؐ یاکسی صحابی سے۱۳؍ذی الحجہ کوقربانی کرناثابت نہیں:
بعض علماء اورغیرمقلدین نے مسنداحمد کی حدیث :’’کل ایام التشریق ذبح‘‘ کی بنیاد پر فرمایاکہ ۱۳ذوالحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے؛لیکن ائمہ ثلاثہ حضرت امام ابوحنیفہؒ،حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میںفرمایاہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔امام احمد بن حنبل ؒ نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے سلسلے میں وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،نیز اس  طرح کی دیگر روایتیں بھی ضعیف ہیںاور اصول ہے کہ ضعیف حدیث سے حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔احتیاط کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی صرف تین دن تک ہی محدود رکھاجائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳؍ذوالحجہ کو قربانی کرناثابت نہیں ہے۔
یہاں پر ایک اشکال یہ رہ جاتا ہے کہ اگرتیرہ ذی الحجہ قربانی کادن نہیں توپھر اس میں روزہ رکھناجائز کیوںنہیں ؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ روزہ جائز ہوناچاہئے کیوں کہ وہ قربانی کادن نہیں ہے ؛لیکن ہم نے عقل کوحدیث پاک کی وجہ سے چھوڑدیا ۔کیوں کہ احادیث مبارکہ میں ایام تشریق کو کھانے ،پینے اور جماع کے ایام فرمایاگیا نہ کہ ذبح اورقربانی کے۔
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایام تشریق کھانے اور پینے کے ہیں۔(مسلم حدیث:۱۱۴۱، باب: تحریم صوم ایام التشریق)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کادن،قربانی کادن اور ایام تشریق اہل اسلام کی عید کے دن اور کھانے پینے کے دن ہیں۔(ترمذی حدیث:۷۷۳، باب ماجاء فی کراھیۃ الصوم فی ایام التشریق)حضرت زیدبن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں ایک صحابی کوحکم فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کرو ،سنو! یہ دن کھانے ،پینے اور ہمبستری کرنے کے ہیں۔(اتحاف الخیرۃ لامام بوصیری،باب النھی عن صوم ایام التشریق)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے دنوں میں حکم فرمایا کہ میں لوگوں میں اعلان کروں :کہ ایام تشریق کھانے،پینے اور جماع کے دن ہیں ؛اس لیے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھنا۔(شرح معانی الآثارللطحاوی ،باب المتمتع الذی لایجدھدیاولایصوم فی العشر)
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے کہ ہم (قربانی کے جانورکے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیاہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یاپچھلی طرف سے کٹاہواہواورنہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔(سنن ترمذی،ابوداو،نسائی)ان جیسی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
۱۔ لنگڑاجانورجس کالنگڑاپن اتناظاہرہوکہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔۲۔ اندھایاایساکانا جس کاکاناپن ظاہر ہو۔۳۔ ایسا بیمارجس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔۴۔ ایسادبلا اورمریل جانورجس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو ۵۔ جس کی پیدائشی دم نہ ہو ۶۔جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔۷۔ جس کادم یاکان کاایک تہائی یااس سے زیادہ حصہ کٹاہو۸۔ جس کوپیدائشی طورپرتھن نہ ہو۔۹۔ دنبہ ،بکری ، بھیڑ کاایک تھن نہ ہو یامرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یاکسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو ۔۱۰۔ گائے، بھینس ، اونٹنی کے دوتھن نہ ہو ں یاخشک ہوگئے ہوں یاکسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں۔۱۱۔ آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی چلی گئی ہو ۔۱۲۔ جس کے دانت بالکل نہ ہوںیااکثرگرگئے ہوں یاایسے گھس گئے ہوں کہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۳۔ جس کاایک یادونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائے۔۱۴۔ جسے جنون کامرض اس حدتک ہوکہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۵۔ خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزورہو۔ ۱۶۔ جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔  ۱۷۔ جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یاایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔  ۱۸۔ جس کے تھن کا تہائی یااس سے زیادہ حصہ کاٹ دیاگیاہو۔ ۱۹۔ بھیڑ بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔  ۲۰۔ جس اونٹنی یاگائے بھینس کی دو گھنڈیا جاتی رہی ہوں۔ ۲۱۔ جس گائے یابھینس کی پوری زبان یاتہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۲۔ جلالہ یعنی جس کی غذانجاست وگندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔ ۲۳۔ جس کا ایک پاوں کٹ گیاہو۔ ۲۴۔ خنثی جانور جس میں نراور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ ۲۵۔ کسی جانور کے اعضا زائد ہوں مثلا چارکے بجائے پانچ ٹانگیں یاچارکے بجائے آٹھ تھن توچوں کہ یہ عیب ہے اس لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ البتہ جس جانور کاپیدائشی طورپر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ (قربانی کے فضائل ومسائل  :مفتی احمدممتاز)
جن جانوروں کی قربانی بہترنہیں:
۱۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔ ۲۔ جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کااثر جڑ تک نہیں پہنچاہو۔ ۳۔ وہ جانور جوجفتی پرقادرنہ ہو۔ ۴۔ جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔ ۵۔ بچے والی ہو۔ ۶۔ جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔ ۷۔ جسے داغا گیاہو۔ ۸۔ وہ بھیڑبکری جس کی دم پیدائشی طورپر بہت چھوٹی ہو۔ ۹۔ جس کے تھنوں میں بغیرکسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتاہو۔ ۱۰۔ ایسا کانا جس کاکاناپن پوری طرح واضح نہ ہو۔ ۱۱۔ ایسا لنگڑا جوچلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پاوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مددلیتاہو۔ ۱۲۔ جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔ ۱۳۔ جس کاکان یادم یاآنکھ کی روشنی کاتہائی سے کم حصہ جاتارہاہو۔ ۱۴۔ جس کے کچھ دانت نہ ہوں مگر وہ چاراکھاسکتاہو۔ ۱۵۔ جس کاجنون اس حدتک نہ پہنچاہو کہ چارانہ کھاسکے۔ ۱۶۔ ایسا خارشی جانور جوفربہ اور موٹاتازہ ہو۔ ۱۷۔ جس کاکان چیردیاگیاہو یاتہائی سے کم کاٹ دیاگیا ہو۔اگردونوں کانوں کاکچھ حصہ کاٹ لیاگیا ہو تو اگرمجموعہ تہائی کان کے مساوی یااس سے زیادہ ہوجائے توقربانی جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔ ۱۸۔ بھینگاجانور، ۱۹۔ وہ بھیڑ دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۰۔ وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارا آسانی سے کھاسکے۔ ۲۱۔ جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چاراکھلایاجائے ۔۲۲۔ وہ دبلا اور کمزور جانور جوبہت کمزور اور لاغرنہ ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:قال القھستانی واعلم ان الکل لایخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرۃ فما جوز ھھنا مع الکراھۃ کما فی المضمرات۔(ردالمحتار:۶؍۳۲۳)یاد رہے کہ گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلاکراہت جائز ہے ۔اور خصی کی قربانی جائزہی نہیں بلکہ افضل ہے۔ (فتاوی ہندیہ۔اعلاء السنن)
خصی جانورکی قربانی:
خصی جانورکی قربانی کرناجائز ہے بلکہ فقہاء توفرماتے ہیں کہ افضل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دو سینگوں والے،موٹے تازے خصی مینڈھوں کوذبح فرمایا۔(سنن ابی داود،باب مایستحب من الضحایا) اس کی وجہ یہ ہے کہ خصی جانور کاگوشت لذیذ اور صاف ہوتا ہے۔ فقیہ عبدالرحمن بن محمد بن سلیمان ؒ لکھتے ہیں:’’ وعن الامام أن الخصی أولی لأن لحمہ ألذ وأطیب‘‘ ترجمہ: امام ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرناافضل ہے ،اس لیے کہ خصی کاگوشت لذیذ اور اچھا ہوتاہے۔(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر:۴؍۱۷۱کتاب الاضحیۃ)
قربانی کے ساتھ عقیقہ کاحصہ :
قربانی کے جانورمیں عقیقہ کاحصہ رکھناجائز ہے۔علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:’’شرکاء میں سے بعض کا ارادہ اپنے بچوں کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ہو تو یہ جائز ہے۔(بدائع الصنائع:۴؍۲۰۹) اس لیے کہ عقیقہ بھی ایک مشروع قربانی ہے البتہ واجب نہیں ۔ حدیث پاک میںقربانی کی طرح عقیقہ کے لیے بھی ’’نسک ‘‘اور ’’اہراق دم ‘‘کالفظ استعمال ہوا ہے ۔ سنن ابوداود (کتاب الضحایا ،باب فی العقیقہ )میں روایت ہے:’’من ولد لہ ولد فاحب ان ینسک عنہ فلینسک‘‘ ترجمہ: جس کابچہ پیداہواور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرناچاہے توذبح کرلے۔اورصحیح بخاری کی روایت ہے :’’مع الغلام عقیقۃ فأھریقوا عنہ دما وامیطوا عنہ الأذی‘‘(بخاری رقم الحدیث:۵۴۷۱،عن سلمان بن عامر)
اس مشابہت سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کی صفات،عمر،مقدار،شرائط اوراحکام کے متعلق جوحکم قربانی کاہے وہی حکم عقیقہ کاہے۔اوربڑے جانور میں سات حصے ہوسکتے ہیں اس لیے ایک بڑے جانور میں عقیقہ کے حصے بھی ہوسکتے ہیں۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیداہو تو وہ اس کی جانب سے اونٹ،گائے یابکری ذبح کرے۔(معجم صغیرطبرانی:۱؍۱۵۰)یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک صحیح السند موقوف روایت سے بھی ہوتی ہے۔حضرت قیادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کی طرف سے بڑا جانور ذبح کرتے تھے۔(معجم کبیرطبرانی:۱؍۱۸۷) البتہ گائے ،بھینس اوراونٹ کی بجائے بکری بکرابہتراورافضل ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقیقہ میں گائے اور اونٹ کافی نہیں ،اس لیے کہ عبدالرحمن بن ابوبکرکے یہاں بچہ پیداہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا:یاام المومنین عقی علیہ اوقال عنہ جزورا فقالت : معاذ اللہ ولکن ّ ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاتان مکافأتان۔(سنن بیہقی :۹؍۳۰۱)یعنی ام المومنین ہم اس کی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں۔اس پر انہوں نے کہا:معاذ اللہ (ہم وہ ذبح کریں گے ) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے (لڑکے کی طرف سے ) ایک جیسی دوبکریاں۔مگریہ کم فہمی کانتیجہ ہے۔ اس میں معاذ اللہ کہنے سے مراد بڑے جانور کی نفی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ بکری ذبح کرنا افضل ہے۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ: نذرت امرأۃ من آل عبدالرحمن بن أبی بکر ان ولدت امرأۃ ُ عبدالرحمن نحرناجزوراً فقالت عائشۃرضی اللہ عنھا لا بل السنۃ افضل عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاہ۔(مستدرک حاکم رقم الحدیث:۷۶۶۹) ترجمہ: عبدالرحمن بن ابوبکر کے گھروالوں نے نذرمانی کہ اگربچہ پیدا ہواتو اس کے عقیقہ کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کریں گے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ نہیں سنت (پرعمل کرنا) افضل ہے اور یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جاتی ہے۔
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہواکہ عقیقہ بڑے جانور کاکرناجائز ہے اگرچہ افضل بکرایابکری کاعقیقہ کرناہے۔
کیاقربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے؟
اللہ کایہ نظام ہے کہ انسانوں یاجانوروں کوجس چیزکی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے ،اس کی پیداواراتنی بڑھادیتے ہیںاورجس چیزکی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداواربھی اتنی ہی کم ہوجاتی ہے۔آپ پوری دنیاکاسروے کریں اورجائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم حکم پرعمل کیاجاتاہے ،کیاان ممالک میں قربانی والے جانورناپیدہوچکے ہیں ؟آپ کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیاسے حلال جانور ختم ہوگئے ہیں یااتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کوقربانی کرنے کے لیے جانورہی میسرنہیں آئے ،جب کہ اس کے برعکس کتے اور بلیوں کودیکھ لیں ،ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے ؟ان کی تعدادبمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظرآتی ہے،حالاں کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت(وماانفقتم من شیء فھویخلفہ) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:’’اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جوچیز خرچ کرتے ہواللہ تعالی اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کابدل دے دیتے ہیں؛کبھی دنیامیں کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں،کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کامشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ،انسان اور جانوراس کوبے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کوسیراب کرتے ہیں ،وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہوجاتاہے،اسی طرح زمین سے کنواں کھود کرجوپانی نکالاجاتا ہے ،اس کو جتنانکال کرخرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہوجاتاہے۔انسان غذاکھاکر بظاہر ختم کرلیتا ہے ؛مگراللہ تعالی اس کی جگہ دوسری غذا مہیاکردیتے ہیں،بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جواجزا تحلیل ہوجاتے ہیں ،ان کی جگہ دوسرے اجزا بدل بن جاتے ہیں ۔غرض انسان دنیا میں جوخرچ کرتا ہے اللہ تعالی کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں،کبھی سزادینے کے لیے یاکسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہوجانا اس ضابطہ الہیہ کے منافی نہیں ۔اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جواشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدافرمائی ہیں ،جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ،ان کابدل منجانب اللہ پیداہوتارہتا ہے ،جس چیزکاخرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی پیداواربھی بڑھادیتے ہیں ۔جانوروں میں بکرے اور گائے کاسب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کرکے گوشت کھایاجاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیاجاتا ہے ،وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ،اللہ تعالی اتنی ہی زیادہ اس کی پیداواربڑھادیتے ہیں،جس کاہرجگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہروقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ،کتے بلی کی تعداداتنی نہیں۔حالا ں کہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چارپانچ بچے تک پیداکرتے ہیں ،گائے بکری زیادہ سے زیادہ دوبچے دیتی ہے۔گائے بکری ہروقت ذبح ہوتی ہے،کتے بلی کوکوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛مگرپھربھی یہ مشاہدہ ناقابل انکارہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعدادبہ نسب کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ،اس وقت سے یہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے،ورنہ ہربستی اور ہرگھرگایوں سے بھراہوتاجوذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لیناکم کردیا ،وہاں اونٹوں کی پیداواربھی گھٹ گئی ،اس سے اس ملحدانہ شبہ کاازالہ ہوگیا ،جواحکام قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کااندیشہ پیش کرکے کیاجاتاہے۔‘‘ (معارف القرآن:سورۃ السباء:۳۹،۳۰۳؍۷)
حضرت مولاناسرفرازخاں صفدرصاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’منکرین قربانی نے اپنی عقل نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعم خود قربانی کے نقصانات اور ترک قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں،مثلا یہ کہاہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور لوگوںکی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ،اگریہ رقوم رفاہ عامہ کے کسی مفید کاموں میں صرف کی جائیں تو کیاہی اچھاہو،وغیرہ وغیرہ ،مگریہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی کے حکم کو محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کرردکیاجاسکتا ہے ؟ کیااس کوقربانی کاحکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟رب تعالی کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون ساایمان ہے ؟اور پھر جناب خاتم الانبیاحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قول وفعل اور امت مسلمہ کے عمل کو جوتواترسے ثابت ہوا ہے ،خلاف عقل یامضربتاناکون سادین ہے؟‘‘( مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی)
پوری دنیاخصوصامسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟
پوری دنیامیں خصوصا مسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں ،آئیے! ایک رپورٹ کے مطابق اس کابھی جائزہ لیتے ہیں:
 مسلم دنیاکاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک انڈونیشیاہے ،اس کی ساڑھے ۲۵کروڑآبادی میں سے ۱کروڑ۸لاکھ ۴۰ ہزار لوگ ہرسال قربانی کرتے ہیں۔پاکستان کی تقریبا۲۰کروڑآبادی میں سے ہرسال ۱کروڑ۲۲لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔بنگلہ دیش کی آبادی ۱۵کروڑ۱۴لاکھ میں سے ۸۰لاکھ ۷۲ہزاربنگالی ہرسال قربانی کرتے ہیں۔مصرکی آبادی ۸کروڑ۵لاکھ۲۴ہزارآبادی میں سے ۶۲لاکھ ۲۳ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ترکی کی آبادی ۷کروڑ۴۶لاکھ میںسے ۴۸لاکھ ۲۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ایران کی آبادی ۷کروڑ۳۸لاکھ اور۲۱لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔مراکو۳کروڑ۲۳لاکھ آبادی اور۸لاکھ ۴۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔عراق ۳کروڑ۱۱لاکھ آبادی اور ۴لاکھ ۷۲ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔الجیریا۳کروڑ۴۸لاکھ آبادی اور۴لاکھ۲۱ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سوڈان ۳کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۵۴ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سعودی عرب کی آبادی ۲کروڑ۵۴لاکھ ہے مگریہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے،تقریباایک کروڑ۵۰لاکھ ۳۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں ،البتہ سال رواں کروناوباکی وجہ کر فریضہ حج کی ادائیگی کومحدودکردیاہے ۔افغانستان ۲کروڑ۹۰لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۱۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ازبکستان ۲کروڑ۶۸لاکھ آبادی اور ایک لاکھ ۶۰ ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔شام ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اورایک لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔کویت کی ۵لاکھ آبادی اور۹۸ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ملائیشیاایک کروڑ۷۰لاکھ آبادی اور۹۵ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔تونیسیا ایک کروڑ۳۴لاکھ آبادی اور۸۷ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یمن ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۸۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یہ وہ بڑے بڑے مسلم ممالک ہیں جن میں قربانیوں کی تعداددوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے تاہم دیگرمسلم ممالک جیسے فلسطین،لیبیا،اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبا،تاجکستان، آذر بائجان،ترکمانستان،قارقستان،کرغستان،قطر،بحرین،عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں قربانی ہوتی ہے اسی طرح بھارت کے ۱۷کروڑمسلمانوں میں سے ایک کروڑسے زائدلوگ قربانی کرتے ہیں۔اب آپ درج بالاممالک میں قربانیوں کے اعدادوشمار کامجموعہ ملاحظہ کیجئے ۔یہ ۶کروڑ۲۰لاکھ ۹۳ہزار قربانی کرنے والے افرادبن جاتے ہیں ،اگراسدیگر تمام مسلم ممالک کے صرف ۵۰لاکھ اور بھارت کے مسلمانوں کو شامل کرلیاجائے تویہ مجموعہ ۷کروڑ۷۰لاکھ۹۳ہزار بن جاتا ہے۔ہم فرض کریں کہ یہ پونے ۸ کروڑ لوگ مل کر ۳کروڑجانورذبح کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں کسی ملک سے یہ خبرنہیں ملتی کہ حلال جانورختم ہوگئے یالوگوں کو قربانی کے جانورہی میسرنہیں آئے۔
قربانی سے معیشت تباہ نہیں بلکہ مستحکم ہوتی ہے:
قربانی پرایک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بقرعیدمیں کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں اس سے معیشت متاثر اور بربادہوتی ہے۔شریعت تومعیشت کو مضبوط کرتی ہے ،خراب نہیں کرتی ۔یہ کیساحکم شرعی ہے کہ جس سے معیشت خراب ہوتی ہے۔لہذاقربانی نہیں ہونی چاہئے۔توایسے افراد یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں جانور ذبح ہونے سے معیشت تباہ نہیں ہوتی بلکہ مستحکم ہوتی ہے۔ایک دن کونہ دیکھیں،ذرااس سے پیچھے جائیں ،پس منظراور احوال کودیکھیں،اندازاہوگا کہ صرف قربانی کی وجہ سے معیشت کتنی مستحکم ہوتی ہے۔٭ جانور پالنے ہوں گے۔بکرابکری ،بھیڑیادنبہ ہے تو ایک سال ،اونٹ ہے توپانچ سال اورگائے بھینس ہے تو دوسال، تومویشی پروری میں کتنے لوگ مصروف ہوں  گے۔٭چاراکاشت کرنایاخریدناہے توچارامنڈی میں آئے گا ،ٹرانسپورٹ استعمال ہوگا ،اس میں کتنے لوگ لگیں گے۔٭مویشی پروری کے لئے ملازم بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔٭ بڑے جانور کی قربانی سے پہلے اس کادودھ بھی ہے اور پھراس کی مصنوعات گھی، مکھن وغیرہ ۔٭ قربانی کے موقع پر جانورکامنڈی آنایادیہات سے شہرآنا ،اس میں بھی ٹرانسپورٹ اور افراد کاکام ہوگا۔ ٭جانور بیچنے کے نتیجے میں کس قدر زرمبادلہ ہوگا۔٭قربانی کاگوشت بنانے پر قصائی کواجرت ملے گی اور آلات کی بھی خریدوفروخت ہوگی۔٭قربانی کی کھال غریبوں یامدارس کو دیں تو انہیں بھی فائدہ ہوگا۔٭جانورکی کھال سے چمڑے کی مصنوعات تیارہوں گی ،اس سے کارخانے اور فیکٹریاں چلیں گی اوربزنس کے لئے لوگ میدان میں آئیں گے۔خلاصہ یہ کہ قربانی معاشی تباہی کاذریعہ نہیں ہے۔
فلاحی کام یاصدقہ قربانی کابدل نہیں :
بعض لوگ جواحکام شریعت کی فقہی حیثیت سے واقف نہیں یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ قربانی پرجووسائل خرچ ہوتے ہیں وہ کسی فلاحی کام، اسپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کئے جائیں تومعاشرہ کے غریب ومفلس طبقے کابھلاہوجائے ۔اس وقت مسلم طبقہ کو فلا حی کاموں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہمیں سمجھناچاہئے کہ یہ بات شریعت کی روح اور شارع کے فرمان کے خلاف ہے ۔حقیقی فلاح اللہ کاحکم پوراکرنے سے ملتی ہے ۔اوراللہ کے نزدیک ایام نحرمیں جانورکانذرانہ دینے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کاہی رہا۔آپ مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران ہرسال قربانی کرتے رہے ۔آپ ؐ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کایہی عمل رہا اور پھرپوری امت اس پر تواترکے ساتھ عمل کرتی رہی ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بقرعیدکے موقع پر جانور کی قربانی ہی واجب ہے۔اگرقربانی کے مقابلے فلاحی کاموں ،ا سپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبودپرخرچ موزوں اور ضروری ہوتا توعہدنبوی میں قربانی کے بجائے غریب ااور بدحال انسانیت پر خرچ کرنا ضروری قراردیاجاتاکیوں کہ عہدنبوی میں بھی غریب طبقے تھے اور امت پرآپ کی شفقت ومہربانی عیاں ہے؛ لیکن آپؐ نے تمام صورت حال کے باوجود اس موقع پر اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کاحکم دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس دن میں اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کاخون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کاکوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ (ترمذی ) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تو وہ بقرعید کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔(سنن دارقطنی:کتاب الاشربہ،باب الصیدوالذبائح)امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :قربانی کے ایام میں صدقہ کرنے کی بہ نسبت قربانی کرناافضل ہے۔امام ابوداود، امام ربیعہ وغیرہ کایہی مسلک ہے۔(المغنی لابن قدامہ:۹۶؍۱۱)امام نووی بھی فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں قربانی کرناہی افضل ہے نہ کہ صدقہ کرنااس لیے کہ اس دن قربانی کرناشعاراسلام ہے ،یہی مسلک سلف صالحین کاہے۔نیزقربانی کی روح فلاحی کاموں اور صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی کہ قربانی کی روح توجان دیناہے اور صدقہ کی روح مال دیناہے۔صدقہ کیلئے کوئی دن مقررنہیں اورقربانی کے لیے خاص دن مقررکیاگیاہے اور اس کانام بھی یوم االنحراور یوم الاضحی رکھاگیاہے۔
انہیں بنیادوں پر صاحب مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن قربانی کرنا یعنی خون بہانا متعین ہے ،اس عمل کو چھوڑکر جانورکی قیمت صدقہ کردینا کافی نہیں ہوگا،اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کاترک لازم آتا ہے ؛چنانچہ اہل ثروت پر قربانی کرناہی لازم ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح:۵؍۷۳)
فلاحی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے:
میری اس بحث کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے محتاجوں ،غریبوں اور ناداروں پرخرچ نہیں کرناچاہئے؛بلکہ ہمارامقصودبس اتناہے کہ ایام قربانی :۱۰ذوالحجہ سے لیکر۱۲ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑکر اس رقم کاصدقہ کرنا درست نہیں ہے۔ہاں جس شخص پر قربانی واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب نصاب کے لیے قربانی کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں یاسال کے دیگرایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا ایک مستحسن قدم اور بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے کہ غریب ومسکین کی خبرگیری اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے ؛لیکن قربانی ترک کرکے محض صدقہ وخیرات کو اس کابدل سمجھنادرست نہیں ہے۔فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر، انسانیت کی فلاح وبہبود کی خاطر خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوۃ،صدقہ فطر، عشر، کفارہ، نذر، میراث، ہدیے تحفے اور دیگر وجوبی صدقات وغیرہ کے نظام وضع کئے ہیں۔ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہناکرمطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نہ یہ کہ اسلام کے عظیم الشان حکم قربانی کے حکم کو مسخ کرکے اس کی روح کوفناکردیاجائے۔ہوناتویہ چاہئے تھا کہ معاشرے میں مروج طرح طرح کی رسومات وخرافات میں ضائع ہونے والی اربوں کھربوں کی مالیت کو کنٹرول کیاجائے ،نہ کے ایک فریضہ عبادت میں خرچ کرنے والے لوگوں کوبھی بہکاکراس سے روک دیاجائے۔
صاحب استطاعت کے لیے ہرحال میں قربانی لازم ہے:
قربانی ایک اہم عبادت اور اسلامی شعائر میں سے ہے۔اس کاثبوت قرآن وحدیث میں ہے جوپہلے بیان کیاجاچکاہے۔جوشخص ا قربانی کی گنجائش رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے متعلق حدیث میںسخت وعید بھی وارد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(حاکم،الترغیب:۲۵۶)نیزارشادرسول ہے کہ قربانی کے ایام میں کوئی عمل اللہ تعالی کوخون بہانے(قربانی) سے زیادہ پسندنہیںہے(ابن ماجہ ،ترمذی) لہذاہرعاقل ،بالغ ،مقیم ،صاحب نصاب مسلمان مردو عورت پر ایام قربانی میں جانورذبح کرنا واجب ہے۔اس لئے جب تک مقررہ وقت کے اندر قربانی کرنے کی قدرت اورامکان باقی ہو کوئی دوسراعمل قربانی کے بدلہ کافی نہیں۔قربانی کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔
جن لوگوں پر قربانی واجب ہواوروہاں قربانی کرنے میںکوئی قانونی رکاوٹ نہیںہوتووہاں جانورکی قربانی کرناہی واجب ہے۔اگر اپنے مقام پر قربانی نہیں کرسکتا؛لیکن دیہات یاکسی اورمقام پرقربانی کرسکتاہوتوضروری ہے کہ وہاں قربانی کرلے ۔اوراگراپنے شہریاصوبہ میں قربانی کرنے میں دشواری ہوتودوسری جگہ پرمعتبرافرادیااداروں کے ذریعہ قربانی کی ادائیگی کی فکرلازم ہے۔اگربالفرض قربانی کے ایام گزرگئے اور قربانی کی کوئی صورت اصالۃ یاوکالۃ ممکن نہ ہوسکی تواب اگر پہلے سے جانورخریدرکھاہے تواب اس زندہ جانور کوصدقہ کردیناواجب ہے ۔اوراگرناواقفیت کی وجہ سے اسے ذبح کردیاتودوباتوں کاخیال رکھناچاہئے ،پہلایہ کہ اس کاگوشت اور چمڑا یعنی پوراسامان غریبوں پر صدقہ کردیاجائے ،نہ اس میں خود کھاناجائز ہے اور نہ مالدارلوگوں کو کھلاناجائز ہے۔دوسرے زندہ جانورکی قیمت کے مقابلہ اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہوتو اس کمی کے بقدر بھی صدقہ کرناضروری ہے ۔اگرجانور خریدا نہ ہو اور قربانی کے ایام گزرگئے تواب جانورکی قیمت صدقہ کرناواجب ہے۔اور اگرنفل قربانی کاارادہ ہویعنی قربانی واجب نہ ہواورقربانی کرناچاہتے ہوں یا دوسرے رشتہ داروں جیسے والدین اولاد وغیرہ کی طرف سے قربانی کرنے کااراد ہ رکھتے ہوں حالاں کہ ان پرقربانی واجب نہیں یاایصال ثوا ب کے لیے قربانی کررہے ہوں تویہ سب نفل قربانی کی صورتیں ہیں ،ان صورتوں میں اس بات کی گنجائش ہے کہ موجودہ حالات اور مہاماری کودیکھتے ہوئے قربانی کرنے کے بجائے قیمت صدقہ کردی جائے،جیساکہ امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں نفل حج کی جگہ اس کے اخراجات کو صدقہ کردینا نہ صرف جائز بلکہ ضرورت کے لحاظ سے بعض حالات میں مستحب بھی ہے اس لئے دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھناچاہئے۔
کیاذبح حیوان خلاف عقل اور بے رحمی ہے؟
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک یہ اعتراض بھی سامنے آتاہے کہ ذبح حیوان عقل کے خلاف ہے ۔یہ عمل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتاہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کوذبح کرنانہ عقل سلیم کے خلاف ہے اور نہ اس سے بے رحمی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جانوروں کاذبح کرناایک فطری ضرورت ہے ،انسانی غذاکے لحاظ سے بھی اور معاشی مفادات کے لحاظ سے بھی۔اس سے صرف نظرکرناقطعی انصاف پسندی نہیں ہے۔
 حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے،اور ذبح حیوان رحم کے خلاف نہیں ؛بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہوکر مرنابہترہے؛کیوں کہ خودمرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ رہایہ سوال کہ پھرانسان کو ذبح کردیاجایاکرے؛تاکہ آسانی سے مرجایاکرے۔اس کاجواب یہ ہے کہ حالت یاس سے پہلے ذبح کرناتودیدہ ودانستہ قتل کرناہے اور حالت یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیوں کہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہوگئے تھے ،پھراچھے ہوگئے اور شبہ حیوانات میں کیاجائے کہ ان کی تو یاس کابھی انتظار نہیں کیاجاتا ،جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو ابقا مقصود ہے ،کیوں کہ خلق عالم سے وہی مقصود ہے ،اس لئے ملائکہ کے موجودہوتے ہوئے اس کو پیداکیاگیا؛بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ؛کیوں کہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدماتے کے بعد موجودہواکرتاہے ؛اس لیے انسانکے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ،ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کردیئے جائیں گے جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امیدتھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھااور جانور کاابقاء مقصود نہیں ؛اس لئے اس کے ذبح کی اجازت اس بناپردے دی گئی کہ ذبح ہوجانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہوجانے کے بعد ان کاگوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے جس کاابقاء مقصود ہے۔ اس کواگرذبح نہ کیاجائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیاجائے تووہ مردہ ہوکر اس کے گوشت میں سمیت کااثر پھیل جائے گا اور اس کااستعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہوگا توابقائے انسان کاوسیلہ نہ بنے گا۔(اشرف الجواب :انیسواں اعتراض اوراس کاجواب)
گوشت خوری کادستورانتہائی قدیم :
ملحدین اور مشرکین کے ذریعہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتاہے ،اس سے تشدد اور ہنسا کامزاج بنتاہے۔ اس لئے اس پرروک لگنی چاہئے ۔مگریہ بات ہمارے دل دماغ میں ہونی چاہئے کہ انسان اس دنیا میں ضرورتوں اور حاجتوں کے ساتھ پیداکیاگیاہے۔اس کے وجود کاکوئی حصہ نہیں جواپنی حیات و بقا اور حفظ و صیانت میں احتیاج سے فارغ ہو ۔ہوا اور پانی کے بعد اس کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے ۔اوریہی ضرورت ہے جس نے زندگی کومتحرک اور رواں دواں رکھا ہے ۔اورایک اہم انسانی غذا تسلیم کرتے ہوئے گوشت خوری کادستور انتہائی قدیم ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے۔ہندستانی مذاہب میں بھی جین دھرم کے علاوہ سبھی مذاہب میں گوشت خوری کاجواز موجود ہے۔ غیرمسلموںکے بیچ آج کل گوشت خوری منع ہونے کی جوبات مشہور ہے وہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے،پکانے اور قربانی کاتذکرہ موجودہے ۔رگ وید(:۷:۱۱:۱۷) میں ہے :’’اے اندرتمھارے لئے پسان اور وشنوایک سوبھینس پکائیں۔‘‘ یجروید (ادھیائے:۲۰:۸۷) میں گھوڑے،سانڈ،بیل، بانجھ گائے اور بھینس کودیوتاکی نذرکرنے کاذکرملتاہے۔ منوسمرتی(ادھیائے: ۳:۲۶۸) میں کہاگیاہے :’’مچھلی کے گوشت سے دوماہ تک،ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک اور پرند کے گوشت سے پانچ ماہ تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔‘‘ خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندوسماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کاعمل عام تھا۔ ڈاکٹر تاراچندکے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔
افراط وتفریط کے شکارقانون فطرت کے باغی:
دنیا کے مذاہب اور قوموںمیں جانوروں کے بارے میں ایک خاص قسم کا افراط وتفریط ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوحیوان کے غذائی استعمال کو بے رحمی اورجیوہتیا تصورکرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوہرجانورکوانسانی خوراک قرار دیتے ہیں ااور اس باب میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اورقانون فطرت کے باغی ہیں۔ خدانے اس کائنات میں جونظام ربوبیت قائم کیا ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ اعلی مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامان بقا ہے ۔غور کریں کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں ،چوپائے نباتات کھاتے ہیں اوراسی پر ان کی حیات کادارومدارہے ،حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوغ کی حیات موجود ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کوغذابناتی ہے اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو ۔زمین پر رہنے والے جانوروں کی خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں ۔چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کے ۔ خداکی کائنات پر جس قدر غورکیاجائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے جولوگ اس اصول کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کاکوئی جواز نہیں کہ پانی کاکوئی قطرہ اور ہواکی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اترنہیں سکتی جب تک کہ سیکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغام اجل نہ سن لے ۔
جیوہیتاکے وسیع تصورکے لحاظ سے نباتاتی غذاسے بھی بچناہوگاکیوں کہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اورنباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندونظریہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قراردیئے ہیں:انسان۔حیوان اورنباتات۔یہ نباتات میں زندگی کاکھلا اقرارہے ۔تواگرجیوہتیاسے بچناہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچناہوگا ۔
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہرحیوان کو غذاکے لئے درست سمجھاجائے ۔یہ مسلمہ حقیقت میں سے ہے کہ انسان پر غذاکااثر ہوتا ہے ۔یہ اثر جسمانی و روحانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔حیوانات میں شیروببردرندے ہیں ،سانپ اوربچھوکی کینہ پروری وریشہ زنی کی خومعروف ہے ،گدھے میں حمق ضرب المثل ہے ،خنزیرمیں جنسی بے اعتدالی وہوسناکی کااثر ان قوموں میں صاف ظاہر ہے جو اس کااستعمال کرتی ہیں ،کتے کی حرص اورقناعت سے محرومی نوک زباں ہے ،چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سرچشمہ ہیں ،بندرکی بے شرمی ،لومڑی کی چال بازی،گیدڑ کی بزدلی اظہارکامحتاج نہیں ۔مقام فکرہے کہ اگرانسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیا یہی اوصاف اس کے وجود میں رچ بس نہ جائیں گے؟
اسی لئے اسلام نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ۔ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ۔دوسری طرف مردارکاگوشت حرام کیا جوانسان کی جسمانی وروحانی صحتوں کو بربادکرنے والاہے، ان جانوروں کو حرام قراردیاجن کے گوشت سے اخلاق انسانی مسموم ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ایک قاعدہ مقررکر دیاکہ طیبات اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک اور بدخوجانور جن کو قرآن کی زبان میں خبائث کہاگیا ہے حرام ہیں (الاعراف:۱۵۷) لیکن اس فیصلہ کو ہرانسان کے ذوق و مزاج پر منحصرکردیاجانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب۔چنانچہ شریعت نے اس کی جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کاشمارطیبات میں ہے اور کن کاخبائث میں ۔ پھر جن جانوروں کو حلال کیا ان کاگوشت کھانے میں بھی ایساپاکیزہ طریقہ ذبح بتایا جس سے ناپاک خون زیادہ سے زیادہ نکل جائے اور جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔طبی اصول پرانسانی صحت اورغذائی اعتدال میں اس سے بہترکوئی طریقہ ذبح نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جانورکاگوشت کھانے میں انسان کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح درختوں کے پھل اور ترکاریاں وغیرہ کو جیسے چاہیں کاٹین اور کھالیں اسی طرح جانورکوجس طرح چاہیں کھاجائیں۔(حلال وحرام ،جواہرالفقہ)
حیوان حلال ہونے کی حکمت اورارکان وشرائط:
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ الاسلام میں اسلامی ذبیحہ کی حکمت اور اس کے آداب وشرائط پر بصیرت افروز تحقیقات فرمائی ہیں یہاں ان کو پورانقل کرنے کا موقع نہیں ،ان میں سے ایک بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جانوروں کامعاملہ عام نباتاتی مخلوق جیسانہیں ۔کیوں کہ ان میںانسان کی ہی طرح روح ہے ،انسان کی طرح دیکھنے ،سننے ،سونگھنے اورچلنے پھرنے کے آلات واعضا ہیں ،انسان کی طرح ان میں احساس وارادہ اور ایک حدتک ادراک بھی موجودہے۔ اس کاسرسری تقاضایہ تھا کہ جانورکاکھانامطلقا حلال نہ ہوتا ،لیکن حکمت الہی کاتقاضاتھا کہ اس نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا،جانوروں سے خدمت لینا، ان کا دودھ پینااوربوقت ضرورت ذبح کرکے ان کا گوشت کھالینا بھی انسان کے لئے حلال کردیامگرساتھ ہی اس کے حلال ہونے کے لئے چندارکان اور شرائط بتائے جن کے بغیر جانور حلال نہیں ہوتا۔پہلی شرط یہ ہے کہ ہرذبح کے وقت اللہ کے اس انعام کاشکر ادا کیا جائے کہ روح حیوانی میں مساوات کے باوجود اس نے کچھ جانوروں کو حلال کیا اور اس شکرکا طریقہ قرآن وسنت نے بتایاکہ ذبح کے وقت اللہ کانام لیں ۔اگراللہ کانام قصدا چھوڑدیاتو وہ حلال نہیں ،مردارہے۔دوسری شرط جانور کو شریعت کے پاکیزہ طریقہ سے ذبح کرنا یعنی شرعی طریقہ پر حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دینا ۔تیسری شرط ذابح کامسلمان ہونا یاصحیح اہل کتاب ہوناہے۔ اسلام سے قبل جانوروں کا گوشت کھانے کے عجیب عجیب طریقے بغیرکسی پابندی کے رائج تھے۔ مردار کاگوشت کھایاجاتاتھا ۔زندہ جانورکے کچھ اعضا کاٹ کر کھالئے جاتے تھے ۔جانورکی جان لینے کے لئے بھی انتہائی بے رحمانہ سلوک کیاجاتاتھا،کہیں لاٹھیوں سے مارکرکہیں تیروں کی بوچھارکرکے جانور کی جان لی جاتی تھی۔
ذبح کرنے والے کاحکم:
ذبح کرنے والے کے لیے مسلمان یاصحیح اہل کتاب ہوناضروری ہے۔سورہ مائدہ میں ارشادباری تعالی ہے:’’الیوم احل لکم الطیبات وطعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم۔‘‘ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:’’مسلمان اور کتابی کاذبیحہ حلال ہے کیوں کہ اللہ تعالی کافرمان ہے:’’اورجن لوگوں کو (تم سے پہلے )کتاب دی گئی تھی ،ان کاکھانابھی تمہارے لیے حلال ہے ‘‘یہاں کھانے سے مراد اہل کتاب کاذبیحہ ہے۔(البحرالرائق:۸؍۳۰۶)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی’’ طعام ‘‘کی تفسیر’’ذبیحہ‘‘ منقول ہے۔(صحیح بخاری :باب ذبائح اہل الکتاب)
آج کل یورپ کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبارسے یہودی یانصرانی کہلاتے ہیں مگردرحقیقت وہ خداکے وجودکے منکرہوتے ہیں،کسی مذہب کے قائل نہیں ہوتے،نہ توریت، نہ انجیل کو خداکی کتاب مانتے ہیں اور نہ حضرت موسی اور حضرت عیسی کواللہ کانبی اور پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔(معارف القرآن :۳؍۴۸)مفسرقرآن مولانامحمدادریس کاندھلوی ؒ فرماتے ہیں:’’ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جومذہبا اہل کتاب ہوںنہ کہ وہ جو صرف قومیت کے لحاظ سے یہودی یانصرانی ہوں خواہ عقیدۃً وہ دہریے ہوں۔ اس زمانے کے نصاریٰ عموما برائے نام نصاریٰ ہیں ،ان میں بکثرت ایسے ہیںجونہ خداکے قائل ہیں اور نہ مذہب کے قائل ہیں،ایسے لوگوں پر اہل کتاب کااطلاق نہیں ہوگا۔( معارف القرآن :۲؍۴۴۶) مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہواکہ اہل کتاب وہ کہلاتے ہیں جواللہ تعالی، کسی پیغمبراور کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور آج کل جویہود ونصاری کہلاتے ہیں وہ اکثردہریے ہیں۔اب بھی اگرکوئی ایساشخص ہو جوکسی پیغمبرپرایمان رکھتاہو اور کسی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھتاہو توآج بھی وہ اہل کتاب شمارہوگا۔مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ لکھتے ہیں: ’’ موجودہ زمانے کے یہودونصاری جوحضرت موسی علیہ السلام یاحضرت عیسی علیہ السلام کوپیغمبر اور تورات یاانجیل کو آسمانی کتاب مانتے ہوں ‘اہل کتاب ہیںخواہ تثلیث کے قائل ہوں۔‘‘ (کفایت المفتی :۱؍۷۰)
ان سب دلائل سے ہٹ کر غیرمقلدین کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب کے علاوہ کوئی اور کافر بھی ذبح کرے تو جائز ہے۔علامہ وحید الزماں غیرمقلد لکھتے ہیں:وذبیحۃ الکافر حلال اذا ذبح للہ وذکراسم اللہ عند الذبح ۔ترجمہ: کافرکاذبیحہ حلال ہے اگروہ اللہ کے لیے ذبح کرے اور ذبح کے وقت اللہ کانام لے۔(کنزالحقائق:۱۸۲)اسی طرح نواب نورالحسن خان غیرمقلد کی تحریرہے:’’ ذبائح اہل کتاب ودیگر کفار نزد وجود ذبح بسملہ یا نزد اکل آں حلال است ،حرام ونجس نیست‘‘یعنی اہل کتاب اور دیگر کفار ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھ لیں یااس مذبوحہ کوکھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لیاجائے تووہ حلال ہے ،حرام اور نجس نہیں ۔(عرف الجادی:ص ۱۰)
تشدداور ہنساکاتعلق محض غذاؤں سے سمجھنابیوقوفی:
رہایہ اعتراض کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتا ہے ،اس سے تشدداور ہنساکامزاج بنتاہے ۔تودنیاکی تاریخ اور خودہمارے ملک کاموجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے ۔آج بھارت میں جہاںکہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ات ہورہے ہیں اور ظلم وستم کاننگاناچ ہورہاہے ،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہاہے جوسبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔دنیاکے رہنماوں سسمیں گوتم بدھ اور حضرت مسیح کوعدم تشدداور رحم دلی کاسب سے بڑاداعی اور نقیب تصورکیاجاتاہے لیکن کیایہ ہستیاں گوشت نہیں کھاتی تھیں ،یہ سبھی گوشت خورتھے۔اور ہٹلرسے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ،ظلم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا لیکن ہٹلر گوشت خورنہیں تھا صرف سبزی کواپنی غذابناتاتھا۔ اس لئے یہ سمجھناکہ ہنسا اور اہنسا کاتعلق محض غذاوں سے ہے بے وقوفی اور جہالت ہی کہی جاسکتی ہے ۔جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کااحساس نہ ہو تو محض غذائیں انسانی مذاق و مزاج کو تبدیل نہیںکرسکتی۔ بعض فتنہ پردازوں کاکہناہے کہ گاوکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظرسے نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے ۔جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ہمیں دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے مگریہ ایک واہمہ ہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں بھارت سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی طرح کی پابندی نہیں وہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں دودھ اور گھی سستے بھی ہیں اور فراوانی بھی ہے۔اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں ۔ہمارے ملک میں گوشت خوری کم ہونے کے باوجود مذکورہ اشیاء مہنگے ہیں ۔نیزقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ جانورایک عمرکوپہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں ،اگرانہیں غذابنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی پرورکسانوں کے لئے ایسے جانورباربن جائیں گے اورغریب کسان جوخود آسودہ نہیں وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرپائیں گے۔۲۰۱۴ء سے مرکزمیں بھاجپا کی حکومت ہے ۔اس نے گاوکشی قانون کوسختی سے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔اس کاحشر کیاہے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ سرکاری گاوشالوں میں ایسے سیکڑوں ہزاروں مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ کربھوک سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے ،ہورہے ہیں ، جوبہرحال گھاٹے کاسودہ ہے۔
گوشت کے فوائد ونقصانات:
گوشت انسانی خوراک کاایک اہم جزوہے ۔ اس سے انسانی صحت پرکئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گوشت سے جسم کو پروٹین، لحمیات ،آئرن ،وٹامن بی وغیرہ حاصل ہوتی ہیںجوایک صحت مندجسم کے لئے ضروری ہیں تاہم گوشت کی حدسے زیادہ مقدارکااستعمال کسی بھی انسان کے لئے سودمندکے بجائے مصیبت بن جاتاہے ۔کیوں کہ ہرقسم کی غذاکے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اس لئے عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھاناچاہئے اور ایک مخصو ص حدسے زیادہ استعمال نہیں کرناچاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بالغ افراد کویومیہ 70گرام جب کہ ہفتے میں 500گرام یعنی سات دنوں میں صرف نصف کیلو گوشت کھانا چاہئے جسے  برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کے لئے تجویز کیا۔
امریکہ کی یونیورسیٹی البامامیں امریکی تحقیقی ماہرین نے گوشت خوری اور سبزی خوری کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقی مطالعہ کیا،جس میں لوگوں کی غذائی عادتوں کی نگرانی اور ان کے صحت پرپڑنے والے اثرات کامعائنہ کیا۔ ماہرین نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کاڈیٹاجمع کیا۔ اس کی روشنی میں رپورٹ مرتب کی اور بتایاکہ صرف سبزی خوری کے بہت زیادہ نقصان ہیں ۔سبزی کامستقل استعمال انسان کوڈپریشن بنادیتاہے جس کی وجہ سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جو خوراک میں گوشت استعمال کرتے ہیں ،ان کی ذہنی صحت بہتررہتی ہے اور وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈآرجرکاکہناہے:ہم لوگوں کو نصیحت کریں گے کہ اگرآپ ڈپریشن ،ذہنی خلفشار اور خودکونقصان پہنچانے کے خطرناک رویے سے بچناچاہتے ہیں تو خوراک میں سبزی کے ساتھ گوشت کابھی استعمال کریں۔(نوائے وقت پورٹل یکم مئی۲۰ء)
گوشت بھی اپنی اقسام کے اعتبار سے لذت اور تاثیر میں مختلف ہوتاہے۔مچھلی اور مرغی کے گوشت سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہے اس میں کلوریزاور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاکم ہوتی ہے۔مٹن میں چکنائی کی مقدار چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔بیف میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے البتہ اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلا پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ پوری ہوتی ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کاکہناہے کہ ایک نارمل انسانی جسم کومتوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں لحمیات پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیںجوگوشت اوردیگرچیزوں سے حاصل ہوتی ہیں،تاہم ضروری ہے کہ ہرچیزکواعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیاجائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کاسامنانہ کرناپڑے۔
مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوگئی کہ انسان کے لئے اللہ تعالی کی پیداکی گئی مختلف تاثیروالی بے شمار غذاؤں میں عمدہ غذاگوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کودنیاو آخرت کی عمدہ غذا فرمایاہے۔ سورہ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے مہمانوں کی فربہ بچھڑا کوبنابھون کرضیافت کرنے کا تذکرہ ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل ایمان گوشت کو مرغوب رکھتے ہیں ۔ آج بھی عرب میں خاص طورپر اناج سے زیادہ گوشت بطورغذا استعمال ہوتاہے۔ اورمہمانوں کی آمدپر اکثراہل عرب آج بھی پورادنبہ یابکرا تیارکرکے ضیافت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ الحاصل گوشت انسانی غذاکااہم حصہ ہے ۔گوشت خوری کی مخالفت فرقہ پرست طاقتیں جتنی بھی کریں اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتااور اس غذائی ضرورت سے انسان دست بردارنہیں ہوسکتا۔ذبح حیوان اور گوشت خوری پرپابندی کافتنہ کھڑا کرنے والے افراد قدرتی نظام کے باغی اور انسان کے فطری ضرورت کی تکمیل کے مخالف ہیں ۔
حلال جانور کی سات چیزیں کھاناحرام ہیں:
حلال جانور کی سات چیزیں حرام ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’ کرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الشاۃ سبعا:المرارۃ و المثانۃ و الغدۃ و الحیا و الذکر والانثیین و الدم ، و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب من الشاۃ مقدمھا۔‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری میں سات چیزوں کو ناپسند کیا ہے : (۱) پتا (۲) مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۳) غدود (۴) حیا یعنی مادہ کی شرمگاہ (۵) ذکر یعنی نرکی شرمگاہ (۶) خصیتین یعنی کپورے (۷) خون ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے سامنے کاحصہ پسند تھا۔( کتاب الآثار:۱۷۹، سنن بیہقی :۱۰؍۷، معجم اوسط لطبرانی:۹؍۱۸۱، مصنف عبدالرزاق :۴؍۴۰۹) اس حدیث سے ائمہ کرام نے استدلال کرتے ہوئے تمام حلا ل جانورکی مذکورہ سات چیزوں کایہی حکم بیان کیا ہے ۔علامہ شامی فرماتے ہیں:’’ بکری کاذکر اتفاقی ہے ،اس لیے کہ دوسرے حلال جانوروں کاحکم اس سے مختلف نہیں ہے۔‘‘(رد المحتار :۶؍۷۴۹)مچھلی کی ان سات چیزوں کے بارے میں قدیم فقہاء کی کوئی تصریح نہیں ملتی  البتہ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: ’’ جواجزاء دموی حیوان میں حرام ومکروہ ہیں وہ سمک (مچھلی ) میں بھی حرام ومکروہ ہیں یا نہیں ؟ پس جب کہ میتۃ ہونا مچھلی کا حرمت وکراہت کاسبب نہیں ہے تو یہ مقتضی اس کو ہے کہ اس کے اجزاء مثانہ وغیرہ حرام ونجس نہیں ہیں۔‘‘( عزیزالفتاوی: ۷۵۹) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اجزاء صرف دموی حیوانات کے حرام ہیں اور غیردموی جیسے مچھلی کے یہ اجزاء حرام نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ دم سے مراد جمہورعلماء کے نزدیک دم مسفوح یعنی بہنے والا خون ہے اور اس کی حرمت خود قرآن میں بھی صراحتا موجود ہے۔نہ بہنے والا خون حرام نہیں بلکہ جائز اور حلال ہے ۔کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان ، فاما المیتتان فالحوت و الجراد ، واما الدمان فالکبد والطحال ۔‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مردار اور دو خون کو حلال کیا گیا ہے ، دو مردار تووہ مچھلی اورٹڈی ہیں اوردو خون تو وہ جگر اور تلی ہیں۔ (ابن ماجہ :۲۳۱۴،مسنداحمد:۵۴۲۳، بیہقی:۱؍۲۵۴،الشافعی:۱؍۳۴۰،دارقطنی:۴؍۲۷۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ بہنے والا جماہوا خون جیسے تلی اورجگرجائز ہے ۔یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حدیث میں مذکورلفظ ’’مکروہ‘‘ اپنے عام معنی میں مستعمل ہے جس میں حرام وناجائز بھی داخل ہے ۔اس کاثبو ت یہ ہے کہ خود حدیث میں خون کو مکروہ بتایا ہے جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے ،لہذا یہاں مکروہ کے عام معنی مراد ہیں جس میں حرام بھی داخل ہے۔ فقہی اصطلاح کے مطابق ان چیزوں میں سے جن کاحرام ہونا قرآن وحدیث کی نص قطعی سے ثابت ہو ان کو حرام اور جن کی حرمت نص ظنی سے ثابت ہو ان کو مکروہ کہاجائے گا ۔اس اصول پر خون تو حرام ہوگا اور باقی چھ چیزیں مکروہ کہلائیں گی۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایاکہ خون حرام ہے اور باقی چھ اجزا ء کومیں مکروہ قراردیتا ہوں۔‘‘(ردالمحتار:۶؍۷۴۹)اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی ؒ نے (بدائع الصنائع:۵؍۶۱)نے لکھا ہے اور صاحب درمختار علامہ حصکفی ؒ نے اسی کوترجیح دی ہے:’’ کرہ تحریما و قیل تنزیھا ، فالأول اوجہ۔‘‘( الدرعلی الرد:۶؍۷۴۹)
یہاں یہ بھی واضح کردیناضروری ہے کہ علماء نے حرام اور مکروہ کی اصطلاح اس لیے نہیں بنائی ہے کہ حرام سے اجتناب ہواور مکروہ سے اجتناب کی ضرورت نہیں ؛بلکہ ان اصطلاحات کومقررکرنے کی وجہ یہ ہے کہ دلائل شرعیہ بعض قطعی ہیں اور بعض غیرقطعی تو جوممنوعات دلائل غیرقطعیہ سے ثابت ہوئے ان کو احتیاط کے طورپر مکروہ کہاگیا ورنہ بچنے کے حکم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں ،اس لیے دونوں سے بچنا چاہئے ۔ علامہ ابن قیم درست فرمایاکہ ؛’’ حرام چیز پر مکروہ بولنے سے بعد میں آنے والے بہت سے لوگ غلطی میں پڑگئے، ائمہ نے تو احتیاط کرتے ہوئے حرام کے بجائے لفظ مکروہ استعمال فرمایا ،پھربعد والوں نے ان چیزوں سے حرمت ہی کی نفی کردی ،جن پرائمہ نے مکروہ کالفظ استعمال فرمایاتھا،پھران پر یہ لفظ بہت آسان ہوگیا۔(اعلام الموقعین:۱؍۳۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکروہ کالفظ فقہاء وائمہ نے صرف احتیاط کے طورپر استعمال فرمایاتھا ورنہ گناہ ہونے میں وہ حرام کی طرح ہے ،اس لیے امام محمد ؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور دیگر علماء کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔الدرالمختاراور البحرالرائق میں ہے کہ :’’ کل مکروہ حرام عند محمد وعندھما الی الحرام أقرب۔‘‘ترجمہ: امام محمدؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒ کے نزدیک حرام کے قریب ہے۔(الدرمع الرد:۶؍۳۳۷،البحر:۸؍۱۸۰)حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ سے پوچھاگیا کہ مکروہ تنزیہی سے گناہ ہوتا ہے یانہیں؟ توآپ نے فرمایاکہ مکروہ تنزیہی سے بھی گناہ ہوتاہے۔(کفایت المفتی:۹؍۱۳۱) اس سے واضح ہوگیاکہ مکروہ کاارتکاب بھی ناجائز ہے اور اس سے بھی گناہ ہوتا ہے لہذامذکورہ اشیاء سے بھی بچنا چاہئے۔ تفصیل سے یہ بھی واضح ہواکہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے چنانچہ علامہ ابن نجیم نے بحرالرائق میں فرمایا:’’ ویصح اطلاق اسم الحرام علیہ‘‘ کہ مکروہ تحریمی پرحرام کااطلاق کرناصحیح ہے۔علامہ حصکفی نے فرمایا:وافاد فی البحرصحۃ اطلاق الحرمۃ علی المکروہ تحریما‘‘ترجمہ: بحرالرائق میں اس بات کا افادہ کیا ہے کہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے۔(الدرالمختار:۲؍۱۶۱)اسی طرح تحفۃ الملوک میں ہے کہ:’’ کتاب الکراہیہ میں جوبھی مکروہ کہاجائے وہ امام محمد ؒ کے نزدیک حرام ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک وہ حرام کے قریب ہے ،لہذا ہم نے اکثر مکروہ کو حرام سے تعبیر کیاہے۔‘‘ تحفۃ الملوک :۱؍۲۲۳)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے یہاں اکثر جگہوں پر مکروہ کوحرام سے بھی تعبیر کردیاجاتا ہے ۔ اسی لیے علامہ کاسانی اور علامہ شامی وغیرہ نے ان سات چیزوں کو حرام سے تعبیر کیا ہے ۔بہرحال ان چیزوں سے پرہیز حرام کی طرح کرناچاہئے ،مکروہ کہہ کر ان کو معمولی نہ سمجھناچاہئے۔
حرام مغزکاحکم:
حلال جانور کی سات چیزیں علمائے احناف کے یہاں بالاتفاق ناجائز ہیں ۔ان کے علاوہ بعض علماء نے حرام مغز کو بھی حرام کہا ہے ،چنانچہ علامہ نسفیؒ کی ہندوستان میں مطبوعہ کنزالدقائق میں’’نخاع الصلب‘‘ (حرام مغز)کوبھی مکروہات میں شمارکیا ہے  اورعلامہ طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں اس کو مکروہ بتایاہے(طحطاوی علی الدر:۵؍۳۶)حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی ؒ نے اپنے فتاوی میں اس کو حرام لکھاہے (فتاوی رشیدیہ:۲؍۶۷) نیزحضرت مولانامفتی شفیع صاحب ؒ نے بھی آخرمیں اس کے حرام ہونے کافتوی دیا ہے اور اس کی وجہ بقول حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کے یہ ہے کہ ’’ اللہ تعالی کا قول ہے :’’ ویحرم علیھم الخبائث ‘‘ترجمہ: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ضب کی حرمت میں حنفیہ نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حرام مغز ایک ایسی چیز ہے کہ طبیعت سلیمہ کو اس سے نفرت واستقذار لازم ہے۔(حاشیہ امدادالمفتین :۹۷۱ط:کراچی)(ماخوذاز: مکروہ اجزاء )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین یامرحومین کی طرف سے قربانی:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین ؒیامرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست اور باعث اجروثواب ہے ،بلکہ کسی بھی نیک عمل کااجر تمام امت محمدیہ کوپہنچانادرست ہے۔خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے قربانی کے علاوہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تھی۔اس قربانی میں زندہ یامردہ کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔’’عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امربکبشین اقرن یطأ فی سواد ویبرک فی سواد وینظرفی سواد،فاتی بہ لیضحی بہ ،قال:یاعائشۃھلمی المدیۃ ثم قال :اشحذ یھا بحجر،ففعلت،ثم اخذھا واخذ الکبش فأضجعہ ،ثم ذبحہ ،ثم قال: بسم اللہ اللھم تقبل من محمدوآل محمدومن امۃ محمد،ثم ضحی بہ ۔رواہ مسلم (مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الاول ،ص:۱۲۷)ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایاجس کے کھر،گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے۔چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایاگیا توآپ نے فرمایا:اے عائشہ ! چھری لے آو ٔ ،پھرفرمایا:اسے پتھرپرتیزکرلو،چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ)نے چھری تیز کرلی،پھرآپ نے چھری لی اور مینڈھے کوپکڑا اوراسے پہلوکے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا:اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں) ،اے اللہ اسے محمداورآل محمداورامت محمدکی طرف سے قبول فرمالیجئے۔‘‘اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اور حضرت ابوحذیفہ ؓ کی بھی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے قربان کیے۔ایک اپنی طرف سے اور دوسراامت کی طرف سے ۔(متفق علیہ)
دامادِرسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ دوقربانیاں کیاکرتے تھے۔ایک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔جب ان سے سوال کیاگیا توانہوں نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کاحکم دیاہے ،میں اس کوکبھی نہیں چھوڑوں گا۔(مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الثانی ص:۱۲۸،ترمذی حدیث :۱۴۹۵،ابوداودحدیث :۲۷۶۹،مسنداحمد:۲؍۱۸۲،۳۱۶۔صحیح حاکم) معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قربانی اتنی پسندتھی کہ آپ ؐ نے حضرت علی کو ایساکرنے کی وصیت بھی کی اور حضرت علی ہرسال بلاناغہ دوقربانیاں کرتے رہے۔
اس باب کی تمام حدیثیں اس مسئلے میں صریح ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سلف صالحین اور مرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے ۔ امام ابوداودوغیرہ نے میت کی طرف سے قربانی کیے جانے کاباضابطہ باب قائم کیا ہے اور انہیں احادیث سے استدلال کیاہے۔ علمائے احناف ، مالکیہ اور امام احمدبن حنبل کایہی مسلک ہے اور یہی قول زیادہ مستندوقوی ہے ؛کیوں کہ میت کی جانب سے قربانی کرناایک صدقہ ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، عمرہ ،صدقہ اور خیرات جیسی عبادتیں کی جاسکتی ہیں توقربانی کیوں نہیں؟ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناپر کہاجائے کہ دیگراعمال تومیت کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں لیکن میت کی جانب سے قربانی نہیں کی جاسکتی۔علامہ شامی لکھتے ہیں:’’قال فی البدائع :لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت، بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ، وقد صح ’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبشین احدھماعن نفسہ والاٰخر عمن لم یذبح من امتہ ‘‘وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح،(ردالمحتار:۶؍۳۲۶) فدل ان المیت یجوزان یتقرب عنہ فاذاذبح عنہ صارنصیبہ للقربۃ فلایمنع جوازالباقین(بدائع:۴؍۲۱۰)
دلائل کی روشنی میں اصل یہی ہے کہ کسی بھی عبادت کاثواب کسی دوسرے کوپہونچایاجاسکتاہے، اگرچہ بوقت عمل نیت اپنے لیے ہو۔عبادت خواہ نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت، ذکروتسبیح،طواف ،حج، عمرہ کے علاوہ انبیاء وصالحین کے قبروں کی زیارت یاتکفین ہو،ہرقسم کے نیک اعمال اور عبادتیں شامل ہیں۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نفلی صدقہ میں پوری امت مسلمہ کے ایصال ثواب کی نیت کرناافضل ہے؛کیوں ایساکرنے میں سبھی کوثواب بھی مل جائے گا اور اس کے اجرمیں سے کچھ کم بھی نہ ہوگا۔ اورقرآن کی آیت:’’وان لیس للانسان الاماسعی‘‘(سورۃ النجم:۳۹) ان باتوں کے منافی نہیں ہے۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: الأصل اَن کل من أتی بعبادۃ ما،لہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عند الفعل لنفسہ ؛لظاھرالادلۃ۔واماقولہ تعالی :وأن لیس للانسان الاماسعی(النجم:۳۹)أی الا اذا وھبہ لہ ، کماحققہ الکمال،أو اللام بمعنی علی کمافی ’’ولھم اللعنۃ‘‘(غافر:۵۲)ولقد افصح الزاھدی عن اعتزالہ ھنا  واللہ الموفق۔(قولہ:بعبادۃ ما)أی سواء کانت صلاۃً،أو صوماً، أوصدقۃً، أو قراء ۃً، أو ذکراً، أو طوافاً،أو حجاً، أو عمرۃً،أو غیرذٰلک من زیارۃ قبور الأنبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام ،والشھداء والأولیاء والصالحین ، وتکفین الموتی ،وجمیع انواع البر،کمافی الھندیۃ،وقدمنافی الزکوٰۃ عن التٰتارخانیۃ عن المحیط: الأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤ منات ؛لأنھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شیء۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار:۲؍۵۹۵)
مسئلہ:میت کی جانب سے قربانی کی دوصورتیں ہیں۔اول یہ کہ میت نے وصیت کررکھی ہو اوراس کے لیے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تومیت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کاپوراگوشت صدقہ کیاجائے گا ۔دوسری یہ کہ وصیت توکی ہو مگرمال نہ چھوڑا ہو یارشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچاناچاہے توان دونوں صورتوں میں قربانی کاگوشت خودبھی کھاسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی بتادینامناسب ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد مرحومین کوثواب میں شامل کیاجاسکتا ہے ؛لیکن میت ہی کے نام سے قربانی کرناچاہیں تو ایک میت کی طرف سے پوراایک حصہ ضروری ہے،تاہم کئی آدمی مل کر مشترک طورپر حضورصلی اللہ علیہ وسلم یامیت کے نام سے قرانی کریں توشرعاجائز ہے ۔وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ :اذبحوعنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل۔ (الدرالمختارکتاب الاضحیہ:۹؍۴۷۱،البحرالرائق :۸؍۳۲۵)
غورکرنے کی بات ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میںامت کویادرکھا تو افسوس ہے کہ امتی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یادنہ رکھیں اور ایک جانور آپ کی طرف سے نہ دیاکریں۔لہذاجس شخص کے پاس گنجائش ہووہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرے ،اجرعظیم کامستحق ہوگا۔
جانور ذبح کرنے کے چند آداب:
٭ جانور کونرمی اور اچھے طریقہ سے ذبح کی جگہ لے جانا۔  ٭ذبح کے وقت جانور بھوکاپیاسانہ ہو۔  ٭گائے،بھینس بکراوغیرہ کونرمی سے بائیں پہلوپرلٹاکر اس کامنہ قبلہ کی طرف کیا جائے اس طرح سے کہ اس کاسرجنوب کی طرف اور دھڑ شمال کی طرف ہو۔  ٭اونٹ کو کھڑے ہونے کی حالت میں نحرکرنا سنت ہے اور بٹھاکریالٹاکر ذبح کرناسنت نہیں ہے ۔  ٭بڑے جانور کے ہاتھ پاوں باندھ دینا چاہئے ۔  ٭باوضوہوکر دائیں ہاتھ سے ذبح کرنا۔  ٭تیزدھاروالی چھری سے تیزی سے ذبح کرنا۔  ٭ذبح کرتے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہنا  ٭چاررگوں حلقوم (سانس کی نلی) مرئی (کھانے کی نلی ) ودجین (خون کی دورگیں جو شہ رگ کہاجاتاہے) کاکاٹنا لازم ہے ۔اگر تین رگیں کٹ جائیں توبھی کافی ہے۔لیکن صرف دورگیں کٹ جائیں تو مذبوحہ حرام ہوگا۔
جانورذبح کرنے کے چند مکروہ کام:
٭ ذبح کے آلات کو جانور کے سامنے لہرانا یا ان کے سامنے تیز کرنا۔  ٭ اس قدر کندچھری سے ذبح کرنا کہ ذابح کو زور لگاناپڑے۔  ٭ایک جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنا۔  ٭ ذبح میں چار رگوں کے علاوہ چھری کی نوک سے حرام مغز کی نالی کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کے دوران جانور کا سینہ کھول کر اس کے دل کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن توڑنا۔  ٭ جانور کی روح نکلنے اور ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا اعضا کو کاٹنا۔  ٭ رات کے وقت ذبح کرنا جبکہ روشنی کاصحیح انتظام نہ ہو کیوں اس بات کااندیشہ ہے کہ کوئی رگ کٹنے سے رہ جائے ۔ اور اگر روشنی کا اچھا انتظام ہوتو مکروہ نہیں۔   ٭ اونٹ کے علاوہ دوسرے جانوروں کو کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا ۔  ٭اونٹ کے زمین پر گرنے کے بعد اس کی گردن کو تین جگہ سے کاٹنا اس لیے کہ یہ بلاوجہ تکلیف دیناہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی :حقائق اور غلط فہمیاں

از  :  مفتی محمدشبیرانورقاسمی 
نائب قاضی شریعت واستاذمدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے

قربانی کے معنی ہیںاللہ کاقرب حاصل کرنے کی چیز۔ لفظ قربانی ’’قربان ‘‘سے اور لفظ قربان ’’قرب ‘‘سے نکلاہے ؛ اس لیے’’رضائے الہی کی نیت سے قربانی کے ایام (۱۰؍۱۱؍۱۲؍ذوالحجہ )میںخاص قسم کا حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں‘‘ ۔قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار،جذبہ ایثار نفس اور عشق الہی کامظہر ہے۔قربانی کی تاریخ باباآدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوتی ہے ،یہ سب سے پہلی قربانی تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:’’ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ  اِذْ قَرَّبَا قُرْْبَاناََفَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلمْ یُتَقَبّلْ مِنَ الْاٰخََرِ۔‘‘(المائدہ:۱۸۳)  ترجمہ:’’اورآپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طورپر پڑھ کر سنادیجئے ،جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیںکی گئی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوارمیں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی،اس زمانے کے دستورکے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا،قابیل کی قربانی کو چھوڑدیا ۔(تفسیرابن کثیر۲؍۵۱۸) اور یہ عمل تقریباہرانبیاکی شریعت میں رہا۔ جس کاطریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی دعامانگتے اور آسمان سے آگ اترتی ،اسے کھاجاتی اور یہ قبولیت کی علامت ہوتی۔یہ تسلسل حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے۔ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی اور اسی کی یادگارکے طورپر امت محمدیہ پر قربانی کو واجب قراردیاگیا۔
قربانی کی حقیقت :
قربانی سنت ابراہیمی کی یادگارہے ۔حضرت ابراہیم کو حکم ملا(اورحکم بھی صراحتانہیں ملابلکہ خواب میں اشارۃ بتایاگیا) کہ اپنابیٹا ذبح کرو،توباپ نے حکم کی اتباع میں ایک لمحے کے لیے بھی رک کرتامل نہیں کیا۔پلٹ کراللہ سے یہ نہیں پوچھاکہ یااللہ !یہ حکم آخرکیوں،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے ؟البتہ بیٹے سے امتحان اور آزمائش کے لیے سوال کیاکہ’’اے بیٹے میں نے توخواب میں یہ دیکھاہے کہ تمہیں ذبح کررہاہوں،اب بتاو تمہاری کیارائے ہے‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۲)بیٹا بھی ابراہیم خلیل اللہ کابیٹا تھا،وہ بیٹا جن کے صلب سے خاتم المرسلین دنیامیں تشریف لانے والے تھے،اس بیٹے نے بھی پلٹ کریہ نہیں پوچھاکہ اباجان!مجھ سے کیاجرم ہوا،میراقصورکیاہے کہ مجھے موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے۔بلکہ بیٹے کی زبان پر تواضع وانقیاد سے لبریزایک ہی جواب تھا :’’آباجان !آپ کے پاس جوحکم آیا ہے ،اس کوکرگزریئے اور جہاں تک میرامعاملہ ہے توآپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(ایضا)دونوں اس حکم پرعمل کے لیے تیارہوگئے اورباپ نے بیٹے کوزمین پرلٹادیا۔اس وقت بیٹے نے کہاکہ اباجاں!آپ مجھے پیشانی کے بل لٹائیں،اس لیے کہ اگر سیدھالٹائیں گے تومیراچہرہ سامنے ہوگااور کہیں ایسانہ ہوکہ آپ کے دل میں بیٹے کی محبت کاجوش آجائے اور آپ چھری نہ چلاسکیں۔اللہ کویہ ادائیں اتنی پسندآئیں کہ اللہ نے ان اداؤں کاذکرقرآن کریم میں بھی فرمایاکہ:’’اے ابراہیم !تم نے اس خواب کوسچاکردکھایا۔‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۴۔۱۰۵)اب ہماری قدرت کاتماشہ دیکھوچنانچہ جب آنکھیں کھولیں تودیکھاکہ حضرت اسماعیل ایک جگہ بیٹھے ہوئے مسکرارہے ہیں اور وہاں ایک دنبہ ذبح کیاہواہے۔اللہ کوان کایہ عمل اتناپسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کوجاری کردیاچنانچہ فرمایا:’’ہم نے آنے والے مسلمانوں کواس عمل کی نقل اتارنے کاپابندکردیا۔‘‘یہ پوراواقعہ جودرحقیقت قربانی کے عمل کی بنیادہے۔روزاول سے بتارہاہے کہ قربانی اس لیے مشروع کی گئی ہے تاکہ انسانوں کے دلوں میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہوکہ دین درحقیقت اتباع کانام ہے ۔جب اللہ کاکوئی حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے ہم اللہ کے حکم کی پیروی کریں ،اس کے حکم کے سامنے اپناسرتسلیم خم کریں ۔اسی کی طرف اللہ نے حضرت ابراہیم کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ’’ فلمااسلما‘‘جب انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔قربانی کی ادائیگی کے ذریعہ اسی ایثارنفس کاجذبہ پیداکرنامقصود ہے کہ جیسے اللہ کے حکم کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کیا،کوئی عقلی دلیل نہیں مانگی،کوئی حکمت طلب نہیں کی اور اللہ کے حکم کے آگے سرجھکادیا۔اب ہمیں بھی اپنی زندگی کواس کے مطابق ڈھالناہے اور یہی اس کی روح ہے۔ دراصل قربانی کی حقیقت تویہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ کے حضورپیش کرتامگرخداکی رحمت دیکھئے ،ان کو یہ گوارانہ ہوا اس لیے حکم دیاکہ تم جانورکوذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔ 
قربانی کی اہمیت وفضیلت:
قربانی کی اہمیت وفضیلت کاثبوت قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔سورہ حج میں ارشاد ربانی ہے:’’اورہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹوں کو عبادت الہی کی نشانی اور یادگار مقررکیاہے،ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں ،سوتم ان کو نحرکرتے وقت قطارمیں کھڑاکرکے ان پر اللہ کانام لیاکروپھرجب وہ اپنے پہلوپرگرپڑیں توان کے گوشت میں سے تم خودبھی کھاناچاہوتوکھاو اور فقیرکوبھی کھلاو، خوہ وہ صبرسے بیٹھنے والا ہویاسوال کرتاپھرتاہوجس طرح ہم نے ان جانور وں کی قربانی کاحال بیان کیا، اسی طرح ان کوتمہاراتابع دار بنایاتاکہ تم شکربجالاو۔ اللہ کے پاس ان قربانیوںںکاگوشت اور خون ہرگزنہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاراتقوی پہنچتاہے ۔اللہ تعالی نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخرکردیاہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالی کی بڑائی کروکہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح رہنمائی کی اور اے پیغمبر!مخلصین کو خوش خبری سنادیجئے۔‘‘(الحج:۳۶،۳۷)سورہ حج ہی میں دوسری جگہ اسے شعائر اللہ قراردیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کودل میں پائے جانے والے تقوی خداوندی کامظہرقراردیاہے۔ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب(الحج:۳۲) ااورجوشخص اللہ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام کے دوران ایک باربھی قربانی کرناترک نہیں کیا،جب کہ آپ کے گھر میں کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰؍تاریخ کوکوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک (قربانی کا)خون بہانے سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ۔اور قیامت کے دن وہ ذبح کیاہواجانوراپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااورقربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے یہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتاہے۔ لہذاتم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۹۳،ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۶) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقرعید کے دن ارشاد فرمایا:آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا،ہاں اگرکسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہوتوہو(الترغیب والترہیب:۲؍۷۷۲) حضرت زیدبن ارقم راوی ہیں کہ صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ !یہ قربانی کیاہے؟(یعنی اس کی حیثیت کیاہے)آپ نے ارشادفرمایا:تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے؟صحابہ نے عرض کیا!ہمیں قربانی سے کیافائدہ ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہربال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہ! اون کے بدلے کیاملے گا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہراون کے بدلے بھی ایک نیکی (ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۷، حاکم ،مشکوۃ:۱۲۹)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تووہ عیدالاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔(سنن دارقطنی وبیہقی) حضرت ابوسعیدسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ اٹھواور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجودرہو) کیوں کہ اس کے خون کاپہلاقطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیایارسول اللہ !یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یاعام مسلمانوں کے لیے بھی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے) فرمایا:اے فاطمہ ! اٹھواور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجودرہو ، اس لیے کہ اس کے خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔یہ قربانی کاجانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور تمہارے ترازومیں سترگنا کرکے رکھا جائے گا ۔حضرت ابوسعید نے عرض کیا یارسول اللہ !یہ مذکورہ ثواب کیاخاص آل محمد کے لیے ہے کیوں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ خاص کئے جائیں یاتمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آل محمد کے لیے ایک طرح سے خاص بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام بھی ہے۔ (اصبہانی،الترغیب:۲؍۲۷۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امیدرکھواس لیے کہ خون اگرچہ زمین پرگرتاہے لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔(الترغیب:۲؍۲۷۸) حضرت حسین بن علی سے مردی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص خوش دلی کے ساتھ اجروثواب کی امیدرکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔
قربانی کاحکم:
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائراسلام میں سے ہے ،اس پراجماع ہے ،البتہ اس کی شرعی حیثیت اورحکم کے بارے میں ائمہ مجتہدین میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالکؒ،امام احمدبن حنبل ؒ صاحب نصاب کے لیے قربانی کو واجب کہتے ہیں ،جب کہ امام شافعی ؒ اور دیگر علماء سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ہندوپاک کے جمہورعلماکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے کیوں کہ یہ قول احتیاط پرمبنی ہے۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے:’’ فصل لربک وانحر‘‘(سورۃا لکوثر)آپ اپنے رب کے لیے نمازپڑھئے اور قربانی کیجئے۔اس آیت میں قربانی کرنے کاحکم دیاجارہاہے اور امروجوب کے لیے ہوتاہے۔ علامہ ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت ’’فصل لربک ‘‘میں نمازسے عید کی نمازمرادہے اور ’’وانحر‘‘سے قربانی مرادہے۔علامہ جصاص فرماتے ہیں اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں:(۱) عیدکی نماز واجب ہے (۲) قربانی واجب ہے۔( احکام القرآن للجصاص :۳؍۴۱۹) مفسرقرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: ’’حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء اور حضرت قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیںکہ ’’فصل لربک ‘‘میں فصل سے مراد عید کی نماز اور ’’وانحر‘‘ سے مراد قربانی ہے۔(تفسیرمظہری :۱۰؍۳۵۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اوروہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳، مسنداحمدحدیث نمبر:۸۲۷۳) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ احدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس طرح کی وعید غیرواجب کو چھوڑنے پرنہیں ہوتی بلکہ ترک واجب پر ہوتی ہے۔(تبیین الحقائق للزیلعی :۶؍۲کتاب الاضحیہ )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکرفرمایا:اے لوگو!ہرسال ہرگھروالے(صاحب نصاب) پرقربانی کرنا ضروری ہے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۵،نسائی حدیث نمبر:۴۲۲۴)حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میںآپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۷)مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کاکوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا۔یہ اہتمام و پابندی بھی وجوب کوبتایا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے قبل جانورذبح کردینے پر دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا۔(صحیح بخاری حدیث :۵۵۴۶،۵۵۶۰،ابن ماجہ حدیث:۳۱۵۱)حالاں کہ اس زمانہ میں صحابہ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی ،یہ بھی قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ 
قربانی کے وجوب کی شرطیں: 
قربانی واجب ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں ۔اگران میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے توقربانی واجب نہیں رہے گی:
۱۔عاقل ہونا۔لہذاکسی پاگل ،مجنوں پرقربانی واجب نہیں۔
۲۔ بالغ ہونا ۔ لہذانابالغ پرقربانی نہیں خواہ مالدارہی ہو۔ہاں کوئی ایام قربانی میں بالغ ہوااور مالدارہے تواس پرقربانی واجب ہے۔
۳۔ آزاد ہونا۔ لہذاغلام پرقربانی نہیں۔کیوں کہ غلام کسی چیز کامالک نہیںہوتا۔(البحرالرائق :۲؍۲۷۱)
۴۔ مقیم ہونا۔ لہذامسافرپرقربانی واجب نہیں۔حضرت علی ؓ  فرماتے ہیں :مسافرپرقربانی واجب نہیں(المحلی لابن حزم:۶؍۳۷،مسئلہ: ۹۷۹)
۵۔ مسلمان ہونا۔اس لیے کہ قربانی عبادت ہے اور کافر عبادت کااہل نہیں۔(بدائع :۴؍۱۹۵)
 لہذاغیرمسلم پرخواہ کسی مذہب کاہوقربانی واجب نہیں۔ہاں اگرکوئی غیرمسلم ایام قربانی میں مسلمان ہوگیااورمالدارہے تو اس پرقربانی واجب ہوگی۔
۶۔مالدار ہونا۔امام ابن ماجہ قزوینی ؒ نقل کرتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کووسعت ہواس کے باوجود قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(ابن ماجہ حدیث:۳۱۲۳،باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا)لہذافقیرپرقربانی واجب نہیں ،اگراپنی خوشی سے قربانی کرے تو ثواب ملے گا۔اور اگر کوئی فقیر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہوگیا تواس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ اگرکسی کے پاس بقدرنصاب رقم موجودہومگراس پر قرض اتناہوکہ اگراسے اداکرے تووہ مالک نصاب نہ رہے توایسے شخص پربھی قربانی واجب نہیں۔
وجوب قربانی کانصاب :
جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی(612.36گرام)یا ساڑھے سات تولہ سونا (87.48گرام )موجود ہوخواہ جس شکل میں ہو جیسے زیورات، آرائشی سامان ،سکے وغیرہ یا سونا چاندی مذکورہ مقدار سے کم ہو لیکن اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،مال تجارت ،نقدی اور بنیادی ضرورت سے زائد سامان موجود ہو یاان میں سے بعض موجود ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612.36ملی گرام ) کے برابر ہو تو اس پر  قربانی واجب ہے، قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگارہوگا۔
مال تجارت سے مراد:
اگرکسی چیز کوخریدتے وقت نیت یہ تھی کہ اسے بعد میں فروخت کردیں گے اور یہ نیت تاحال باقی بھی ہو تواب یہ چیز ’’مال تجارت‘‘ میں شمار ہوگی؛ لیکن اگرکوئی چیز خریدتے وقت اسے آگے فروخت کرنے نیت نہ ہویایااس وقت تو فروخت کرنے کی نیت تھی مگربعدمیں نیت بدل گئی توایسی چیز مال تجارت میں شمار نہ ہوگی۔قربانی میں نصاب کے مال کاتجارت کے لیے ہونا یااس پر سال گزرناضروری نہیں۔
بنیادی ضرورت سے زائدسامان:
بنیادی ضرورت سے مراد وہ ضرورت ہے جوانسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو،اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یاہتک عزت و آبرو کااندیشہ ہو ۔کسی شخص کے پاس موجود ایساسامان جواس کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو ’’زائدازضرورت سامان ‘‘کہلائے گا۔ کھانا،پینا، رہائشی مکان ، کرایہ پر دیا ہوامکان، استعمال کی گاڑی، استعمال کے کپڑے، دکان کافرنیچر، اہل صنعت وحرفت کے اوزاروغیرہ ضرورت کاسامان شمار ہوگا۔ایسے برتن ،کپڑے جوسال بھرمیں ایک بار بھی استعمال نہ ہوئے ہوں وہ زائد ازضرورت سامان شمارہوں گے۔
٭  جس طرح زکوۃ صاحب نصاب مسلمان پرالگ الگ لازم ہوتی ہے اسی طرح قربانی بھی ہرصاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی ؛کیوں کہ قربانی اس کے اپنے نفس اورذات پرواجب ہوتی ہے اس لیے پورے گھر،خاندان یاکنبہ کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی ۔ ہرصاحب نصاب پرالگ الگ قربانی لازم ہوگی ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ ہاں ! ایصال ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
٭  اگرعورت صاحب نصاب ہوتو اس پربھی قربانی واجب ہے۔بیوی کی قربانی شوہر پرلازم نہیں ،اگر بیوی کی اجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔بعض لوگ نام بدل کرقربانی کرتے رہتے ہیں ،حالاں کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں ،مثلا ایک سال شوہر کے نام سے ،دوسرے سال بیوی کے نام سے تو اس سے قربانی ادانہیں ہوتی بلکہ میاںبیوی دونوں کی الگ الگ قربانی ہوگی۔
٭  اگربیوی کامہرمؤجل ہے جوشوہرنے ابھی تک نہیں دیا اور وہ نصاب کے برابرہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے اور اگر مہرمعجل ہے اور بقدرنصاب یااس سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭  اگرمشترک کاروبارکی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرنصاب ہوتوسب پر واجب ہوگی ۔
٭  اگرکاشت کارکسان کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت سے زائد اتنے جانورہوں جوبقدرنصاب ہوں تواس پر قربانی ہوگی ۔
٭  :اگرکسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کیلئے کتابیں رکھی ہیں تواگروہ خودتعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت بقدرنصاب ہے تواس پرقربانی واجب ہے اور اگروہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی واجب نہیںہوگی۔ 
قربانی نہ کرنے والوں پروعید:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلایقربن مصلانا‘‘ ترجمہ:’’جوشخص وسعت کے باوجودقربانی نہ کرے ،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳) آپ کے اس فرمان سے کس قدر ناراضگی ٹپکتی ہے۔ کیاکوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سہارسکتا ہے ؟اوریہ ناراضگی اسی سے ہے جوگنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قربانی کے ایام میں جانور ہی ذبح کرناضروری ہے۔قربانی کے بجائے اس کی رقم کاصدقہ کرنااس کابدل اورکافی نہیں۔ایساکرنے پرذمہ سے واجب ساقط نہ ہوگا۔
قربانی کئے جانے والے جانور:
بھیڑ،بکری ،گائے ،بھینس اور اونٹ قربانی کے لیے ذبح کئے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتاہے:آٹھ جانورہیں دوبھیڑوں میں سے اوردوبکریوں میں سے ،دو اونٹوں میں سے اور دوگائیوں میں سے (سورہ انعام:۱۴۳)بھینس گائے کے درجہ میں ہے اس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔(کتاب الاجماع لابن منذرص:۳۷)حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث:۱۰۸۴۸) اسی طرح سفیان ثوری کاقول ہے:بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیاجائے گا۔(مصنف عبدالرزاق حدیث:۶۸۸۱) امام مالک بن انس فرماتے ہیں:یہ بھینس گائے ہی کے حکم میں ہے۔(مؤطاامام مالک،باب ماجاء فی صدقۃ البقر،ص:۲۹۴) 
غیرمقلدین کاموقف ہے کہ بھینس کی قربانی کرناصحیح نہیں ،اس لیے کہ یہ عرب میں نہیںپائی جاتی تھی۔(فقہ الحدیث ازافاداتناصرالدین البانی:۲؍۴۷۵)مگریہ بات صحیح نہیں ہے ؛اس لیے کہ بھینس اگرچہ موجودنہ تھی لیکن باجماع امت اسے گائے کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے گائے والا حکم دے دیا گیا جیساکہ زکوۃ کے مسئلہ میں اسے گائے کے ساتھ شامل کردیاگیاہے۔نیزیہ کہ اگربھینس کی قربانی نہ کرنے کی یہی دلیل ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں نہیں پائی جاتی تھی تو اس دلیل کے مطابق اس کاگوشت،دودھ، مکھن ،کھال وغیرہ کااستعمال بھی جائز نہیں ہوناچاہئے کیوں کہ یہ دور نبوت میں عرب ممالک میں نہیں پائی جاتی تھی،حالاں کہ غیرمقلدین بھی ایسانہیں کہتے ہیں توپھراس کی قربانی کیوں کرجائز نہیں ہوگی۔
غیرمقلدین کے یہاں گھوڑے کی قربانی بھی جائز ہے ۔(فتاوی ستاریہ:۱؍۱۴۹)وہ حضرت اسماء بنت ابوبکرکی روایت کو دلیل بناتے ہیں کہ روایت میں لفظ’’نحرنا‘‘ہے جوقربانی کے معنی میں ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓنے فرمایا:’’ نحرنا علی عھد  النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرساً فأکلناہ۔‘‘ ترجمہ: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑے کو ذبح کیا اور اس کاگوشت کھایا۔(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید؛باب النحروالذبح) حالاں کہ یہ دلیل تب بنے گی جب ’’نحرنا‘‘ بمعنی ’’نسکنا‘‘ ہو جبکہ حدیث میںنحرنا ’’ذبحنافرسا‘‘ کے معنی میں ہے جس کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں ’’ذبحنا‘‘ کالفظ صراحتا موجود ہے۔چنانچہ صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۱۱ کے الفاظ ہیں:عن اسماء قالت ذبحنا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرسا ونحن بالمدینۃ فأکلناہ۔یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ہم نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر:۳۰۲کی روایت ہے:عن اسماء بنت ابی بکرقالت ذبحنا فرسا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأکلناہ یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ فرماتی ہیں :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑاذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح کنزالعمال کی روایت میں بھی ذبحنا کالفظ ہے۔دوسری بات یہ کہ جن احادیث سے گھوڑے کاگوشت کھانے کاجواز معلوم ہوتا ہے وہ سبھی احادیث منسوخ ہیں ۔اس لیے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اکل لحوم الخیل والبغال والحمیر۔زاد حَیْوَۃُ۔ و کل ذی ناب من السباغ۔ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچراور گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا۔حیوہ(راوی) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں کاگوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔(سنن ابوداود:کتاب الاطعمۃ ؛باب فی اکل لحوم الخیل) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خیبرکے دن لوگوں کو بھوک نے ستایاتوانہوں نے گھریلوگدھوں کو پکڑا اور ذبح کیا اور ان سے ہانڈیوں کو بھردیا جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی توآپؐ نے ہمیں حکم دیا توہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو گرادیا ۔آپؐ نے فرمایا :اللہ تعالی اس سے زیادہ حلال اور پاکیزہ رزق عطافرمائیں گے ،چنانچہ ہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو جوش مارنے کی حالت میں گرادیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں، گھوڑوں، خچروں کے گوشت، کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں ،پنجوں کے ساتھ کھانے والے پرندوں، باندھ کر نشانہ بنائے گئے جانور، درندے کے ہاتھوں چھڑائے گئے جانور جو ذبح سے پہلے ہی مرجائے اور (کسی درندے کے ہاتھوں ) اچکے ہوئے جانور کے گوشت کوحرام قراردیا۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی :۸؍۶۹، المعجم الاوسط لطبرانی :۴؍۹۳،رقم:۳۶۹۲)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گھوڑے کے گوشت کو مکروہ (اور ناجائز) کہتے تھے اور دلیل میں قرآن پاک کی یہ آیت ’’والخیل والبغال والحمیرلترکبوھاوزینۃ‘‘ پیش کرتے تھے۔(احکام القرآن للجصاص :۳؍۲۷۰من سورۃ النحل)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کودلیل بناتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ان تین چیزوں (گھوڑا،خچراور گدھا) کاذکراللہ تعالی کی نعمتوں کے ضمن میں ہوا ہے ،کسی جانور کاسب سے بڑا فائدہ اس کاگوشت کھاناہے ۔حکیم ذات احسان کاذکر کرتے ہوئے کبھی بھی اعلی نعمتوں کوچھوڑ کر ادنی نعمت کاتذکرہ نہیں کرتی۔(اور یہاں اعلی فائدہ ’گوشت کھانا‘ چھوڑ کر ادنی فائدہ ’سواری کرنا‘ کاذکر ہے جودلیل ہے کہ اگر گھوڑے کاگوشت کھاناجائز ہوتا تو اللہ تعالی ضرور ذکر فرماتے )اسی لیے فقہائے کرام نے بھی گھوڑے کے گوشت کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔چنانچہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام اوزاعی گھوڑے کے گوشت کو مکروہ جانتے تھے ۔یہی قول امام مجاہد، امام ابوبکر الاصم اور امام حسن بصری سے بھی منقول ہے۔توجب گھوڑا کوذبح کرکے اس کاگوشت کھانا جائز ہی نہیں ہے تو گھوڑے کی قربانی کیسے جائز ہوگی۔’’نیزثمانیۃ ازواج‘‘ کی وضاحت قرآن نے جن جانوروں سے کی ہے ان میں گھوڑاشامل نہیں ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر:
اونٹ کی عمرکم ازکم پانچ سال ۔گائے ،بیل ،بھینس کی عمرکم ازکم دوسال۔بکری، بکرا،بھیڑ،دنبہ کی عمرکم ازکم ایک سال ۔البتہ چھ ماہ کا دنبہ اتنافربہ ہو کہ ایک سال کالگتاہوتوسال سے کم ہونے کے باوجود اس کی قربانی جائز ہے ۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قربانی کے لیے عمروالاجانورذبح کرو،ہاں اگرایساجانور میسرنہ ہوتو پھر چھ ماہ کادنبہ ذبح کروجوسال کالگتاہو۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:۱۹۶۳،باب سن الاضحیۃ،ابوداودحدیث :۲۷۹۷،اعلاء السنن) حدیث میں دوباتیں قابل غورہیں:پہلی بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانورکے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایاہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’علماء  فرماتے ہیں کہ  ’’مسنہ ‘‘ سے مراد  اونٹ، گائے اور بکری میں ’’الثنی ‘‘ ہے۔ (شرح مسلم للنوی:۲؍۱۵۵) اور فقہائے کرام کے یہاں ثنی سے مراد یہ ہے کہ بھیڑ بکری،ایک سال کی ہو، گائے اور بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کاہو۔(فتاوی عالمگیری:۵؍۲۹۷، کتاب الاضحیۃ ؛الباب الخامس) دوسری بات یہ کہ حدیث میں مسنہ کے متبادل ’’ جذعۃ من الضأن ‘‘ کاحکم فرمایااس سے مراد وہ دنبہ ہے جوچھ ماہ کاہو مگردیکھنے میں ایک سال کالگتاہو۔چنانچہ علامہ نجیم فرماتے ہیں:’’ حضرات فقہاء فرماتے ہیں اس سے مراد وہ دنبہ ہے جواتنابڑا اگراس کو سال والے دنبوں میں ملادیاجائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ ) وہ ہے جوچھ ماہ مکمل کرچکا ہو۔(البحرالرائق:۸؍۲۰۲،کتاب الاضحیۃ)یہ حکم صرف بھیڑاور دنبہ میں ہے ،بکری یاگائے ،بھینس اور اونٹ کے لیے نہیں کیوں کہ حدیث پاک میں صرف اسی کی اجازت ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ عمرکے مکمل ہونے کااطمینان ضروری ہے ،دانتوں کاہوناضروری نہیں۔ (احسن الفتاوی:۷؍۵۲۰)غیرمقلدین کے یہاں مدارعمرنہیں بلکہ دانتا ہوناشرط ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ازعبداللہ غیرمقلد:۲؍۳۹۲)غیرمقلدین کاکہناہے کہ حدیث میں مسنہ لفظ آیاہے جوثنی سے ہے اور لغت میں ثنی کے معنی دو دانتوں کے ہیں،لہذاایساجانورجس کے دو دانت گرگئے ہوں مراد ہے ۔حالاں کہ مسنہ کامعنی لغت میں دو دانتابھی ہے اور عمروالابھی۔اور یہ مسئلہ چوں کہ شریعت کاہے اس لیے لغت کاوہ معنی مرادلیں گے جواصحاب شرع نے لیاہے اوروہ فقہاء ہیں۔امام ترمذی فرماتے ہیں: و کذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی،کتاب الجنائزباب غسل المیت:۱؍۱۹۳)ترجمہ:اورفقہاء حدیث کامعنی زیادہ جانتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جذع سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمروالاجانور ہے۔ مسنہ کے متبادل عمر کے اعتبار سے جانور کاتعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ کی بنیاد عمرہے نہ کہ دانت گرنا۔
قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
بکرا،بکری ،بھیڑ یادنبہ کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیاکہ مجھ پر ایک بڑ اجانور (اونٹ یاگائے) واجب ہوچکا ہے اورمیں مالدار ہوں اور مجھے بڑا جانور نہیں مل رہا ہے کہ میں اسے خرید لوں (لہذا اب کیاکروں؟) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سات بکریاں خرید لو اور انہیں ذبح کرلو۔اس حدیث میں آپ نے بڑے جانور کو سات بکریوں کے برابر شمار کیا اور بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیںاس سے زیادہ نہیں ۔معلوم ہواکہ ایک بکری یاایک دنبہ کی قربانی ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے جائز نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے(اعلاء السنن:باب ان البدنۃ عن سبعۃ)اور اونٹ ،گائے یا بھینس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کااحرام باندھ کر نکلے تو آپ نے حکم دیاکہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں۔(مسلم حدیث :۱۳۱۸باب: الاشتراک فی الھدی)نیز حضرت جابررضٓی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی،چنانچہ اونٹ ۷ آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی ۷ آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔(مسلم  حدیث نمبر:۱۳۱۸،ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۲،ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۳۲)
ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے کافی نہیں:
غیرمقلدین کامانناہے کہ ایک بکری میں سارے گھروالے شریک ہوسکتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ توآپ ؓ نے جواب دیا: آدمی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کیاکرتا تھا ،پھر سارے گھروالے اسے کھاتے تھے اور (دوسروں کوبھی) کھلاتے تھے،یہاں تک کہ لوگ دکھاوے اور فخر میں مبتلاہوگئے اور وہ کچھ ہونے لگا جوتم دیکھ رہے ہو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۵،باب ماجاء ان الشاۃ تجزی عن اھل البیت) حالاں کہ حدیث میں مراد اشتراک فی اللحم ہے یعنی ذبح توایک آدمی کرتاتھاجس پر قربانی واجب ہوتی تھی اور اس کاگوشت سارے گھروالے کھاتے تھے، چنانچہ امام محمد شیبانی ؒ فرماتے ہیں:’’ایک شخص محتاج ہوتا تھا توایک ہی بکری ذبح کرتا،قربانی تواپنی طرف سے کرتا لیکن کھانے میں اپنے ساتھ گھروالوں کوبھی شریک کرتاتھا۔جہاں تک ایک بکری کامعاملہ ہے تو وہ دویاتین آدمیوں کی طرف سے کفایت نہیں کرتی بلکہ صرف ایک شخص کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔‘‘(مؤطا الامام محمد:ص۲۸۲،باب مایجزی ٔ من الضحایا عن اکثرمن واجد)مولاناعبدالحی لکھنوی اس ذیل میں لکھتے ہیں:’’اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو گوشت کی ضرورت ہوتی یاوہ فقیر ہوتا اور قربانی اس پرواجب نہیں ہوتی تو وہ اپنی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اپنے گھروالوں کو گوشت کھلاتا یاگھروالوں کو ثواب میں شریک کرتا اور یہ جائز ہے۔باقی رہا واجب قربانی کی صورت میں ایک بکری میں اشتراک تویہ جائز نہیں۔‘‘(التعلیق الممجدعلی موطاالامام محمد:ص۲۸۲)جبکہ مولاناظفراحمدعثمانی تھانوی ؒ تفصیل سے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ جہاں تک حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے فرمان کہ’’ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بکری اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرتا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے فخر کرناشروع کردیا۔‘‘ اور ابوسریحہ کے فرمان کہ ’’گھروالے ایک یادو بکریاں ذبح کرتے تھے اور اب اپنے پڑوسیوں سے بھی بخل کرتے ہیں‘‘ کاتعلق ہے تویہ ہماری دلیلیں ہیں ،ہمارے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالدار پراپنی اولاد اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے بلکہ (ہمارادعوی ہے کہ) اس پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے اور یہی ابوایوب انصاری ؓ اور ابوسریحہ کی مراد ہے کہ مالدار آدمی اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے قربانی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اپنے گھروالوں کی طرف سے کرتا تھا حتی کہ لوگوں نے فخرکرناشروع کردیا ۔اسی وجہ سے تو ابوسریحہ نے کہاکہ ایک گھروالے ایک یادوبکریاں ذبح کرتے تھے۔اگریہ بات مشترک قربانی کے لیے ہوتی توایک بکری سے زیادہ ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں (کیوں کہ اس صورت میں ایک بکری کفایت کرجاتی) لیکن مالدار تو صرف گھرکاسربراہ ہوتاہے ۔اس وقت چوں کہ گھرکے سربراہ ایک یادوہوتے تھے اسی وجہ سے گھروالے ایک یادوبکریوں کی قربانی کرتے تھے اور وہ اپنے چھوٹوں اور بڑے فقراء کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگ اس میں فخر کرنے لگے ۔تو اس صورت میں ایک بکری کے پورے گھروالوں کی طرف سے کافی ہونے پرکوئی دلیل نہیں جب کہ سارے گھروالے مالدار ہوں۔خوب سمجھ لو۔(اعلاء السنن:۱۷؍۲۱۱)مولاناالیاس گھمن فرماتے ہیں: یہ ایسے ہے جیسے ایک گھرانے میں ایک آدمی نے قربانی کی ہوتی ہے اور ہمارے عرف میں کہہ دیاجاتا ہے کہ ’’فلاں گھرانے نے قربانی کی ہے‘‘ تو پورے گھر کی طرف نسبت کرناعرف کے اعتبارسے ہے نہ کہ ایک بکری کے گھرانے کی طرف سے کفایت کرنے کے اعتبارسے۔ اس پر قرائن یہ ہیں:(الف) اہل بیت میں تو نابالغ بچے بھی شامل ہیں جن پر قربانی واجب نہیں ہوتی۔ (ب) بیوی بھی اگرصاحب نصاب ہوتواس پر زکوۃ الگ سے فرض ہوتی ہے جودلیل ہے کہ ایک کافرض دوسرے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا یہی حال گھرمیں موجود بالغ بیٹوں اور بیٹیوں کاہے۔(ج) گائے اور اونٹ میں سات افراد کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بکری ایک فرد کی طرف سے ہی کفایت کرتی ہے توجس طرح بڑے جانور میں ساتواں حصہ ایک کی جانب سے ہوتا ہے اس طرح ایک بکری ایک ہی طرف سے ہوتی ہے۔(د) خود اس روایت میں ذبح کے بعد ’’یاکلون‘‘کہنابھی اس بات کاقرینہ ہے کہ صحابی کی مراد اشتراک سے اشتراک فی اکل ہے نہ کہ اشتراک فی اداء الواجب۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کادوسراجواب یہ ہے کہ اس سے مراد نفلی قربانی ہے ۔نفلی قربانی انسان اپنی طرف سے کرتا ہے لیکن ثواب میں دوسروں کوشریک کرتا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی قربانی میں امت کو شریک کیاہے۔عبدالرحمن بن سابط سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوموٹے تازے مینڈھے ذبح کیے،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ہر اس شخص کی جانب سے جس نے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھاہو۔(کتاب الآثار بروایت محمدحدیث نمبر:۷۹۰،باب الاضحیۃ)علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ واماماروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بشاۃ عن امتہ فانما کانت تطوعا۔‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جومروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری امت کی طرف سے ذبح کی تھی تویہ نفلی قربانی تھی۔(عمدۃ القاری ،کتاب الحج:۷؍۲۸۷)  مولاناخلیل احمدسہارنپوری فرماتے ہیں:’’انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انما فعل ذلک لأجل الثواب وھو انہ جعل ثواب تضحیۃ بشاۃ واحدۃ لامتہ لا للاجزاء وسقوط التعبد عنھم۔ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقربانی کی تھی وہ ثواب کے لیے کی تھی ،اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک بکری کاثواب امت کوپہنچایا تھا ایسانہیں تھا کہ ان کی طرف سے قربانی کی کفایت اوران سے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کی تھی۔(بذل المجہودشرح ابوداودکتاب الضحایا ،باب فی الشاۃ یضحی بھاعن جماعۃ:۴؍۷۶)
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں کیوں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کاموقع آگیا ،توہم نے گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمیوں کے حساب سے شرکت کی۔ حالاں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث متروک ہے اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث معمول بہ ہے جو پہلے بیان کی جاچکی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم‘‘۔ یعنی اسی پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کاعمل ہے۔(ترمذی:۱؍۲۷۶) باب ماجاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت) اوریہ ضابطہ ہے کہ :’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو حدیثیں مروی ہوں اور دونوں میںاختلاف ہو تو دیکھاجائے گا کہ جس پر صحابہ نے عمل کیاہواسے لیا جائے گا۔(سنن ابوداود،باب لحم الصیدللمحرم،باب من لایقطع الصلوۃ شیء)نیزمحدثین کی عادت ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کو لاتے ہیں جوان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں پھرناسخ ۔امام نووی نے یہ بات ذکرکی ہے (شرح نووی:۱؍۱۵۶باب الوضوع ممامست النار) اس لحاظ سے دیکھاجائے تو امام ترمذی نے پہلے عبداللہ بن عباس کی حدیث نقل کی ہے اور اس کے بعد حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث نقل کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کی حدیث منسوخ ہے۔نیز یہ کہ ابن عباسؓ کی حدیث فعلی اور حضرت جابرؓکی حدیث قولی ہے اور حدیث قولی کو حدیث فعلی پر ترجیح ہوتی ہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’انہ تعارض القول والفعل ،و الصحیح حینئذ عند الاصولیین ترجیح القول‘‘یعنی یہاں قول اورفعل میں تعارض ہے اور اصولین کے نزدیک اس وقت ترجیح قول کوہوتی ہے۔(شرح مسلم للنووی:باب تحریم نکاح المحرم)
قربانی کاوقت:
قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے نمازعید اداکرنے کے بعد اوردیہات والوں کے لیے جن پر نمازجمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہترہے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ہمارے اس عید کے دن سب سے پہلاکام یہ ہے کہ ہم نمازپڑھیں پھرواپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پرعمل کیا یعنی عید کے بعدقربانی کی تو اس نے ہمارے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تووہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھروالوں کے لیے تیارکیاہے ،اس کاقربانی سے کوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری حدیث:۵۵۶۰،کتاب الاضاحی باب :الذبح بعدالصلوٰۃ،مسنداحمد حدیث نمبر:۱۸۴۸۱،۱۸۶۹۳)اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایاہے ۔دیہات میں چوں کہ عید کی نماز کا حکم نہیں ہے اس لیے وہاں اس شرط کاوجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا ۔وہاں قربانی کے وقت کاشروع ہوناہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہوجاتاہے۔
قربانی کے ایام :
قربانی کے تین دن ہیں :۱۰،۱۱،۱۲؍ذی الحجہ۔
حضرت عبداللہ بن عبا س ؓفرماتے ہیں کہ قربانی کے دن دس ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دودن ہیں البتہ یوم النحر(دس ذی الحجہ )کو قربانی کرنا  افضل ہے۔(احکام القرآن لابی جعفرالطحاوی۲؍۲۰۵)٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ قرآن کی آیت :’’ویذکروااسم اللہ فی ایام معلومات ‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ ’’ایام معلومات‘‘ سے مرادیوم نحراور اس کے بعددودن ہیں۔(تفسیرابن ابی حاتم الرازی:۶؍۲۶۱)٭قال علی رضی اللہ عنہ :النحر ثلاثۃ ایام ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تین ہیں۔(احکام القرآن للطحاوی :۲؍۲۰۵،موطامالک:ص ۴۹۷،کتاب الضحایا) ٭حضرت سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ضحی منکم ،فلایصبحن بعد ثالثۃ وفی بیتہ منہ شی ء‘‘ یعنی جوشخص قربانی کرے توتیسرے دن کے بعد اس کے گھرمیں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۶۹،باب مایوکل من لحوم الاضاحی)اس حدیث سے بھی معلوم ہواکہ قربانی کے دن تین ہی ہیں کیوں کہ جب چوتھے دن قربانی کابچاہواگوشت رکھنے کی اجازت نہیں توپوراجانورقربان کرنے کی اجازت کیوں کرہوگی؟
یہاں یہ بات یادرہے کہ تین دن کے بعد قربانی کاگوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ۔(مستدرک حاکم:۲؍۲۵۹) تاہم اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی توتین دن بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھاجاسکتاہے توکیاقربانی کی بھی اجازت پورے سال ہوگی ؟ہرگزنہیں،توتین دن بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اورنہ اب ہے۔
حضورؐ یاکسی صحابی سے۱۳؍ذی الحجہ کوقربانی کرناثابت نہیں:
بعض علماء اورغیرمقلدین نے مسنداحمد کی حدیث :’’کل ایام التشریق ذبح‘‘ کی بنیاد پر فرمایاکہ ۱۳ذوالحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے؛لیکن ائمہ ثلاثہ حضرت امام ابوحنیفہؒ،حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میںفرمایاہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔امام احمد بن حنبل ؒ نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے سلسلے میں وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،نیز اس  طرح کی دیگر روایتیں بھی ضعیف ہیںاور اصول ہے کہ ضعیف حدیث سے حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔احتیاط کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی صرف تین دن تک ہی محدود رکھاجائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳؍ذوالحجہ کو قربانی کرناثابت نہیں ہے۔
یہاں پر ایک اشکال یہ رہ جاتا ہے کہ اگرتیرہ ذی الحجہ قربانی کادن نہیں توپھر اس میں روزہ رکھناجائز کیوںنہیں ؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ روزہ جائز ہوناچاہئے کیوں کہ وہ قربانی کادن نہیں ہے ؛لیکن ہم نے عقل کوحدیث پاک کی وجہ سے چھوڑدیا ۔کیوں کہ احادیث مبارکہ میں ایام تشریق کو کھانے ،پینے اور جماع کے ایام فرمایاگیا نہ کہ ذبح اورقربانی کے۔
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایام تشریق کھانے اور پینے کے ہیں۔(مسلم حدیث:۱۱۴۱، باب: تحریم صوم ایام التشریق)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کادن،قربانی کادن اور ایام تشریق اہل اسلام کی عید کے دن اور کھانے پینے کے دن ہیں۔(ترمذی حدیث:۷۷۳، باب ماجاء فی کراھیۃ الصوم فی ایام التشریق)حضرت زیدبن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں ایک صحابی کوحکم فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کرو ،سنو! یہ دن کھانے ،پینے اور ہمبستری کرنے کے ہیں۔(اتحاف الخیرۃ لامام بوصیری،باب النھی عن صوم ایام التشریق)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے دنوں میں حکم فرمایا کہ میں لوگوں میں اعلان کروں :کہ ایام تشریق کھانے،پینے اور جماع کے دن ہیں ؛اس لیے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھنا۔(شرح معانی الآثارللطحاوی ،باب المتمتع الذی لایجدھدیاولایصوم فی العشر)
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے کہ ہم (قربانی کے جانورکے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیاہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یاپچھلی طرف سے کٹاہواہواورنہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔(سنن ترمذی،ابوداو،نسائی)ان جیسی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
۱۔ لنگڑاجانورجس کالنگڑاپن اتناظاہرہوکہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔۲۔ اندھایاایساکانا جس کاکاناپن ظاہر ہو۔۳۔ ایسا بیمارجس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔۴۔ ایسادبلا اورمریل جانورجس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو ۵۔ جس کی پیدائشی دم نہ ہو ۶۔جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔۷۔ جس کادم یاکان کاایک تہائی یااس سے زیادہ حصہ کٹاہو۸۔ جس کوپیدائشی طورپرتھن نہ ہو۔۹۔ دنبہ ،بکری ، بھیڑ کاایک تھن نہ ہو یامرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یاکسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو ۔۱۰۔ گائے، بھینس ، اونٹنی کے دوتھن نہ ہو ں یاخشک ہوگئے ہوں یاکسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں۔۱۱۔ آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی چلی گئی ہو ۔۱۲۔ جس کے دانت بالکل نہ ہوںیااکثرگرگئے ہوں یاایسے گھس گئے ہوں کہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۳۔ جس کاایک یادونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائے۔۱۴۔ جسے جنون کامرض اس حدتک ہوکہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۵۔ خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزورہو۔ ۱۶۔ جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔  ۱۷۔ جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یاایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔  ۱۸۔ جس کے تھن کا تہائی یااس سے زیادہ حصہ کاٹ دیاگیاہو۔ ۱۹۔ بھیڑ بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔  ۲۰۔ جس اونٹنی یاگائے بھینس کی دو گھنڈیا جاتی رہی ہوں۔ ۲۱۔ جس گائے یابھینس کی پوری زبان یاتہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۲۔ جلالہ یعنی جس کی غذانجاست وگندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔ ۲۳۔ جس کا ایک پاوں کٹ گیاہو۔ ۲۴۔ خنثی جانور جس میں نراور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ ۲۵۔ کسی جانور کے اعضا زائد ہوں مثلا چارکے بجائے پانچ ٹانگیں یاچارکے بجائے آٹھ تھن توچوں کہ یہ عیب ہے اس لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ البتہ جس جانور کاپیدائشی طورپر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ (قربانی کے فضائل ومسائل  :مفتی احمدممتاز)
جن جانوروں کی قربانی بہترنہیں:
۱۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔ ۲۔ جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کااثر جڑ تک نہیں پہنچاہو۔ ۳۔ وہ جانور جوجفتی پرقادرنہ ہو۔ ۴۔ جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔ ۵۔ بچے والی ہو۔ ۶۔ جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔ ۷۔ جسے داغا گیاہو۔ ۸۔ وہ بھیڑبکری جس کی دم پیدائشی طورپر بہت چھوٹی ہو۔ ۹۔ جس کے تھنوں میں بغیرکسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتاہو۔ ۱۰۔ ایسا کانا جس کاکاناپن پوری طرح واضح نہ ہو۔ ۱۱۔ ایسا لنگڑا جوچلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پاوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مددلیتاہو۔ ۱۲۔ جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔ ۱۳۔ جس کاکان یادم یاآنکھ کی روشنی کاتہائی سے کم حصہ جاتارہاہو۔ ۱۴۔ جس کے کچھ دانت نہ ہوں مگر وہ چاراکھاسکتاہو۔ ۱۵۔ جس کاجنون اس حدتک نہ پہنچاہو کہ چارانہ کھاسکے۔ ۱۶۔ ایسا خارشی جانور جوفربہ اور موٹاتازہ ہو۔ ۱۷۔ جس کاکان چیردیاگیاہو یاتہائی سے کم کاٹ دیاگیا ہو۔اگردونوں کانوں کاکچھ حصہ کاٹ لیاگیا ہو تو اگرمجموعہ تہائی کان کے مساوی یااس سے زیادہ ہوجائے توقربانی جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔ ۱۸۔ بھینگاجانور، ۱۹۔ وہ بھیڑ دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۰۔ وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارا آسانی سے کھاسکے۔ ۲۱۔ جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چاراکھلایاجائے ۔۲۲۔ وہ دبلا اور کمزور جانور جوبہت کمزور اور لاغرنہ ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:قال القھستانی واعلم ان الکل لایخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرۃ فما جوز ھھنا مع الکراھۃ کما فی المضمرات۔(ردالمحتار:۶؍۳۲۳)یاد رہے کہ گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلاکراہت جائز ہے ۔اور خصی کی قربانی جائزہی نہیں بلکہ افضل ہے۔ (فتاوی ہندیہ۔اعلاء السنن)
خصی جانورکی قربانی:
خصی جانورکی قربانی کرناجائز ہے بلکہ فقہاء توفرماتے ہیں کہ افضل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دو سینگوں والے،موٹے تازے خصی مینڈھوں کوذبح فرمایا۔(سنن ابی داود،باب مایستحب من الضحایا) اس کی وجہ یہ ہے کہ خصی جانور کاگوشت لذیذ اور صاف ہوتا ہے۔ فقیہ عبدالرحمن بن محمد بن سلیمان ؒ لکھتے ہیں:’’ وعن الامام أن الخصی أولی لأن لحمہ ألذ وأطیب‘‘ ترجمہ: امام ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرناافضل ہے ،اس لیے کہ خصی کاگوشت لذیذ اور اچھا ہوتاہے۔(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر:۴؍۱۷۱کتاب الاضحیۃ)
قربانی کے ساتھ عقیقہ کاحصہ :
قربانی کے جانورمیں عقیقہ کاحصہ رکھناجائز ہے۔علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:’’شرکاء میں سے بعض کا ارادہ اپنے بچوں کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ہو تو یہ جائز ہے۔(بدائع الصنائع:۴؍۲۰۹) اس لیے کہ عقیقہ بھی ایک مشروع قربانی ہے البتہ واجب نہیں ۔ حدیث پاک میںقربانی کی طرح عقیقہ کے لیے بھی ’’نسک ‘‘اور ’’اہراق دم ‘‘کالفظ استعمال ہوا ہے ۔ سنن ابوداود (کتاب الضحایا ،باب فی العقیقہ )میں روایت ہے:’’من ولد لہ ولد فاحب ان ینسک عنہ فلینسک‘‘ ترجمہ: جس کابچہ پیداہواور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرناچاہے توذبح کرلے۔اورصحیح بخاری کی روایت ہے :’’مع الغلام عقیقۃ فأھریقوا عنہ دما وامیطوا عنہ الأذی‘‘(بخاری رقم الحدیث:۵۴۷۱،عن سلمان بن عامر)
اس مشابہت سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کی صفات،عمر،مقدار،شرائط اوراحکام کے متعلق جوحکم قربانی کاہے وہی حکم عقیقہ کاہے۔اوربڑے جانور میں سات حصے ہوسکتے ہیں اس لیے ایک بڑے جانور میں عقیقہ کے حصے بھی ہوسکتے ہیں۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیداہو تو وہ اس کی جانب سے اونٹ،گائے یابکری ذبح کرے۔(معجم صغیرطبرانی:۱؍۱۵۰)یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک صحیح السند موقوف روایت سے بھی ہوتی ہے۔حضرت قیادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کی طرف سے بڑا جانور ذبح کرتے تھے۔(معجم کبیرطبرانی:۱؍۱۸۷) البتہ گائے ،بھینس اوراونٹ کی بجائے بکری بکرابہتراورافضل ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقیقہ میں گائے اور اونٹ کافی نہیں ،اس لیے کہ عبدالرحمن بن ابوبکرکے یہاں بچہ پیداہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا:یاام المومنین عقی علیہ اوقال عنہ جزورا فقالت : معاذ اللہ ولکن ّ ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاتان مکافأتان۔(سنن بیہقی :۹؍۳۰۱)یعنی ام المومنین ہم اس کی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں۔اس پر انہوں نے کہا:معاذ اللہ (ہم وہ ذبح کریں گے ) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے (لڑکے کی طرف سے ) ایک جیسی دوبکریاں۔مگریہ کم فہمی کانتیجہ ہے۔ اس میں معاذ اللہ کہنے سے مراد بڑے جانور کی نفی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ بکری ذبح کرنا افضل ہے۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ: نذرت امرأۃ من آل عبدالرحمن بن أبی بکر ان ولدت امرأۃ ُ عبدالرحمن نحرناجزوراً فقالت عائشۃرضی اللہ عنھا لا بل السنۃ افضل عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاہ۔(مستدرک حاکم رقم الحدیث:۷۶۶۹) ترجمہ: عبدالرحمن بن ابوبکر کے گھروالوں نے نذرمانی کہ اگربچہ پیدا ہواتو اس کے عقیقہ کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کریں گے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ نہیں سنت (پرعمل کرنا) افضل ہے اور یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جاتی ہے۔
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہواکہ عقیقہ بڑے جانور کاکرناجائز ہے اگرچہ افضل بکرایابکری کاعقیقہ کرناہے۔
کیاقربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے؟
اللہ کایہ نظام ہے کہ انسانوں یاجانوروں کوجس چیزکی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے ،اس کی پیداواراتنی بڑھادیتے ہیںاورجس چیزکی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداواربھی اتنی ہی کم ہوجاتی ہے۔آپ پوری دنیاکاسروے کریں اورجائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم حکم پرعمل کیاجاتاہے ،کیاان ممالک میں قربانی والے جانورناپیدہوچکے ہیں ؟آپ کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیاسے حلال جانور ختم ہوگئے ہیں یااتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کوقربانی کرنے کے لیے جانورہی میسرنہیں آئے ،جب کہ اس کے برعکس کتے اور بلیوں کودیکھ لیں ،ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے ؟ان کی تعدادبمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظرآتی ہے،حالاں کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت(وماانفقتم من شیء فھویخلفہ) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:’’اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جوچیز خرچ کرتے ہواللہ تعالی اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کابدل دے دیتے ہیں؛کبھی دنیامیں کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں،کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کامشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ،انسان اور جانوراس کوبے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کوسیراب کرتے ہیں ،وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہوجاتاہے،اسی طرح زمین سے کنواں کھود کرجوپانی نکالاجاتا ہے ،اس کو جتنانکال کرخرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہوجاتاہے۔انسان غذاکھاکر بظاہر ختم کرلیتا ہے ؛مگراللہ تعالی اس کی جگہ دوسری غذا مہیاکردیتے ہیں،بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جواجزا تحلیل ہوجاتے ہیں ،ان کی جگہ دوسرے اجزا بدل بن جاتے ہیں ۔غرض انسان دنیا میں جوخرچ کرتا ہے اللہ تعالی کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں،کبھی سزادینے کے لیے یاکسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہوجانا اس ضابطہ الہیہ کے منافی نہیں ۔اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جواشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدافرمائی ہیں ،جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ،ان کابدل منجانب اللہ پیداہوتارہتا ہے ،جس چیزکاخرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی پیداواربھی بڑھادیتے ہیں ۔جانوروں میں بکرے اور گائے کاسب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کرکے گوشت کھایاجاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیاجاتا ہے ،وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ،اللہ تعالی اتنی ہی زیادہ اس کی پیداواربڑھادیتے ہیں،جس کاہرجگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہروقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ،کتے بلی کی تعداداتنی نہیں۔حالا ں کہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چارپانچ بچے تک پیداکرتے ہیں ،گائے بکری زیادہ سے زیادہ دوبچے دیتی ہے۔گائے بکری ہروقت ذبح ہوتی ہے،کتے بلی کوکوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛مگرپھربھی یہ مشاہدہ ناقابل انکارہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعدادبہ نسب کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ،اس وقت سے یہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے،ورنہ ہربستی اور ہرگھرگایوں سے بھراہوتاجوذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لیناکم کردیا ،وہاں اونٹوں کی پیداواربھی گھٹ گئی ،اس سے اس ملحدانہ شبہ کاازالہ ہوگیا ،جواحکام قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کااندیشہ پیش کرکے کیاجاتاہے۔‘‘ (معارف القرآن:سورۃ السباء:۳۹،۳۰۳؍۷)
حضرت مولاناسرفرازخاں صفدرصاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’منکرین قربانی نے اپنی عقل نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعم خود قربانی کے نقصانات اور ترک قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں،مثلا یہ کہاہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور لوگوںکی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ،اگریہ رقوم رفاہ عامہ کے کسی مفید کاموں میں صرف کی جائیں تو کیاہی اچھاہو،وغیرہ وغیرہ ،مگریہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی کے حکم کو محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کرردکیاجاسکتا ہے ؟ کیااس کوقربانی کاحکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟رب تعالی کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون ساایمان ہے ؟اور پھر جناب خاتم الانبیاحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قول وفعل اور امت مسلمہ کے عمل کو جوتواترسے ثابت ہوا ہے ،خلاف عقل یامضربتاناکون سادین ہے؟‘‘( مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی)
پوری دنیاخصوصامسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟
پوری دنیامیں خصوصا مسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں ،آئیے! ایک رپورٹ کے مطابق اس کابھی جائزہ لیتے ہیں:
 مسلم دنیاکاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک انڈونیشیاہے ،اس کی ساڑھے ۲۵کروڑآبادی میں سے ۱کروڑ۸لاکھ ۴۰ ہزار لوگ ہرسال قربانی کرتے ہیں۔پاکستان کی تقریبا۲۰کروڑآبادی میں سے ہرسال ۱کروڑ۲۲لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔بنگلہ دیش کی آبادی ۱۵کروڑ۱۴لاکھ میں سے ۸۰لاکھ ۷۲ہزاربنگالی ہرسال قربانی کرتے ہیں۔مصرکی آبادی ۸کروڑ۵لاکھ۲۴ہزارآبادی میں سے ۶۲لاکھ ۲۳ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ترکی کی آبادی ۷کروڑ۴۶لاکھ میںسے ۴۸لاکھ ۲۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ایران کی آبادی ۷کروڑ۳۸لاکھ اور۲۱لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔مراکو۳کروڑ۲۳لاکھ آبادی اور۸لاکھ ۴۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔عراق ۳کروڑ۱۱لاکھ آبادی اور ۴لاکھ ۷۲ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔الجیریا۳کروڑ۴۸لاکھ آبادی اور۴لاکھ۲۱ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سوڈان ۳کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۵۴ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سعودی عرب کی آبادی ۲کروڑ۵۴لاکھ ہے مگریہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے،تقریباایک کروڑ۵۰لاکھ ۳۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں ،البتہ سال رواں کروناوباکی وجہ کر فریضہ حج کی ادائیگی کومحدودکردیاہے ۔افغانستان ۲کروڑ۹۰لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۱۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ازبکستان ۲کروڑ۶۸لاکھ آبادی اور ایک لاکھ ۶۰ ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔شام ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اورایک لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔کویت کی ۵لاکھ آبادی اور۹۸ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ملائیشیاایک کروڑ۷۰لاکھ آبادی اور۹۵ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔تونیسیا ایک کروڑ۳۴لاکھ آبادی اور۸۷ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یمن ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۸۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یہ وہ بڑے بڑے مسلم ممالک ہیں جن میں قربانیوں کی تعداددوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے تاہم دیگرمسلم ممالک جیسے فلسطین،لیبیا،اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبا،تاجکستان، آذر بائجان،ترکمانستان،قارقستان،کرغستان،قطر،بحرین،عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں قربانی ہوتی ہے اسی طرح بھارت کے ۱۷کروڑمسلمانوں میں سے ایک کروڑسے زائدلوگ قربانی کرتے ہیں۔اب آپ درج بالاممالک میں قربانیوں کے اعدادوشمار کامجموعہ ملاحظہ کیجئے ۔یہ ۶کروڑ۲۰لاکھ ۹۳ہزار قربانی کرنے والے افرادبن جاتے ہیں ،اگراسدیگر تمام مسلم ممالک کے صرف ۵۰لاکھ اور بھارت کے مسلمانوں کو شامل کرلیاجائے تویہ مجموعہ ۷کروڑ۷۰لاکھ۹۳ہزار بن جاتا ہے۔ہم فرض کریں کہ یہ پونے ۸ کروڑ لوگ مل کر ۳کروڑجانورذبح کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں کسی ملک سے یہ خبرنہیں ملتی کہ حلال جانورختم ہوگئے یالوگوں کو قربانی کے جانورہی میسرنہیں آئے۔
قربانی سے معیشت تباہ نہیں بلکہ مستحکم ہوتی ہے:
قربانی پرایک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بقرعیدمیں کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں اس سے معیشت متاثر اور بربادہوتی ہے۔شریعت تومعیشت کو مضبوط کرتی ہے ،خراب نہیں کرتی ۔یہ کیساحکم شرعی ہے کہ جس سے معیشت خراب ہوتی ہے۔لہذاقربانی نہیں ہونی چاہئے۔توایسے افراد یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں جانور ذبح ہونے سے معیشت تباہ نہیں ہوتی بلکہ مستحکم ہوتی ہے۔ایک دن کونہ دیکھیں،ذرااس سے پیچھے جائیں ،پس منظراور احوال کودیکھیں،اندازاہوگا کہ صرف قربانی کی وجہ سے معیشت کتنی مستحکم ہوتی ہے۔٭ جانور پالنے ہوں گے۔بکرابکری ،بھیڑیادنبہ ہے تو ایک سال ،اونٹ ہے توپانچ سال اورگائے بھینس ہے تو دوسال، تومویشی پروری میں کتنے لوگ مصروف ہوں  گے۔٭چاراکاشت کرنایاخریدناہے توچارامنڈی میں آئے گا ،ٹرانسپورٹ استعمال ہوگا ،اس میں کتنے لوگ لگیں گے۔٭مویشی پروری کے لئے ملازم بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔٭ بڑے جانور کی قربانی سے پہلے اس کادودھ بھی ہے اور پھراس کی مصنوعات گھی، مکھن وغیرہ ۔٭ قربانی کے موقع پر جانورکامنڈی آنایادیہات سے شہرآنا ،اس میں بھی ٹرانسپورٹ اور افراد کاکام ہوگا۔ ٭جانور بیچنے کے نتیجے میں کس قدر زرمبادلہ ہوگا۔٭قربانی کاگوشت بنانے پر قصائی کواجرت ملے گی اور آلات کی بھی خریدوفروخت ہوگی۔٭قربانی کی کھال غریبوں یامدارس کو دیں تو انہیں بھی فائدہ ہوگا۔٭جانورکی کھال سے چمڑے کی مصنوعات تیارہوں گی ،اس سے کارخانے اور فیکٹریاں چلیں گی اوربزنس کے لئے لوگ میدان میں آئیں گے۔خلاصہ یہ کہ قربانی معاشی تباہی کاذریعہ نہیں ہے۔
فلاحی کام یاصدقہ قربانی کابدل نہیں :
بعض لوگ جواحکام شریعت کی فقہی حیثیت سے واقف نہیں یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ قربانی پرجووسائل خرچ ہوتے ہیں وہ کسی فلاحی کام، اسپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کئے جائیں تومعاشرہ کے غریب ومفلس طبقے کابھلاہوجائے ۔اس وقت مسلم طبقہ کو فلا حی کاموں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہمیں سمجھناچاہئے کہ یہ بات شریعت کی روح اور شارع کے فرمان کے خلاف ہے ۔حقیقی فلاح اللہ کاحکم پوراکرنے سے ملتی ہے ۔اوراللہ کے نزدیک ایام نحرمیں جانورکانذرانہ دینے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کاہی رہا۔آپ مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران ہرسال قربانی کرتے رہے ۔آپ ؐ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کایہی عمل رہا اور پھرپوری امت اس پر تواترکے ساتھ عمل کرتی رہی ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بقرعیدکے موقع پر جانور کی قربانی ہی واجب ہے۔اگرقربانی کے مقابلے فلاحی کاموں ،ا سپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبودپرخرچ موزوں اور ضروری ہوتا توعہدنبوی میں قربانی کے بجائے غریب ااور بدحال انسانیت پر خرچ کرنا ضروری قراردیاجاتاکیوں کہ عہدنبوی میں بھی غریب طبقے تھے اور امت پرآپ کی شفقت ومہربانی عیاں ہے؛ لیکن آپؐ نے تمام صورت حال کے باوجود اس موقع پر اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کاحکم دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس دن میں اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کاخون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کاکوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ (ترمذی ) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تو وہ بقرعید کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔(سنن دارقطنی:کتاب الاشربہ،باب الصیدوالذبائح)امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :قربانی کے ایام میں صدقہ کرنے کی بہ نسبت قربانی کرناافضل ہے۔امام ابوداود، امام ربیعہ وغیرہ کایہی مسلک ہے۔(المغنی لابن قدامہ:۹۶؍۱۱)امام نووی بھی فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں قربانی کرناہی افضل ہے نہ کہ صدقہ کرنااس لیے کہ اس دن قربانی کرناشعاراسلام ہے ،یہی مسلک سلف صالحین کاہے۔نیزقربانی کی روح فلاحی کاموں اور صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی کہ قربانی کی روح توجان دیناہے اور صدقہ کی روح مال دیناہے۔صدقہ کیلئے کوئی دن مقررنہیں اورقربانی کے لیے خاص دن مقررکیاگیاہے اور اس کانام بھی یوم االنحراور یوم الاضحی رکھاگیاہے۔
انہیں بنیادوں پر صاحب مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن قربانی کرنا یعنی خون بہانا متعین ہے ،اس عمل کو چھوڑکر جانورکی قیمت صدقہ کردینا کافی نہیں ہوگا،اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کاترک لازم آتا ہے ؛چنانچہ اہل ثروت پر قربانی کرناہی لازم ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح:۵؍۷۳)
فلاحی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے:
میری اس بحث کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے محتاجوں ،غریبوں اور ناداروں پرخرچ نہیں کرناچاہئے؛بلکہ ہمارامقصودبس اتناہے کہ ایام قربانی :۱۰ذوالحجہ سے لیکر۱۲ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑکر اس رقم کاصدقہ کرنا درست نہیں ہے۔ہاں جس شخص پر قربانی واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب نصاب کے لیے قربانی کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں یاسال کے دیگرایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا ایک مستحسن قدم اور بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے کہ غریب ومسکین کی خبرگیری اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے ؛لیکن قربانی ترک کرکے محض صدقہ وخیرات کو اس کابدل سمجھنادرست نہیں ہے۔فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر، انسانیت کی فلاح وبہبود کی خاطر خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوۃ،صدقہ فطر، عشر، کفارہ، نذر، میراث، ہدیے تحفے اور دیگر وجوبی صدقات وغیرہ کے نظام وضع کئے ہیں۔ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہناکرمطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نہ یہ کہ اسلام کے عظیم الشان حکم قربانی کے حکم کو مسخ کرکے اس کی روح کوفناکردیاجائے۔ہوناتویہ چاہئے تھا کہ معاشرے میں مروج طرح طرح کی رسومات وخرافات میں ضائع ہونے والی اربوں کھربوں کی مالیت کو کنٹرول کیاجائے ،نہ کے ایک فریضہ عبادت میں خرچ کرنے والے لوگوں کوبھی بہکاکراس سے روک دیاجائے۔
صاحب استطاعت کے لیے ہرحال میں قربانی لازم ہے:
قربانی ایک اہم عبادت اور اسلامی شعائر میں سے ہے۔اس کاثبوت قرآن وحدیث میں ہے جوپہلے بیان کیاجاچکاہے۔جوشخص ا قربانی کی گنجائش رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے متعلق حدیث میںسخت وعید بھی وارد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(حاکم،الترغیب:۲۵۶)نیزارشادرسول ہے کہ قربانی کے ایام میں کوئی عمل اللہ تعالی کوخون بہانے(قربانی) سے زیادہ پسندنہیںہے(ابن ماجہ ،ترمذی) لہذاہرعاقل ،بالغ ،مقیم ،صاحب نصاب مسلمان مردو عورت پر ایام قربانی میں جانورذبح کرنا واجب ہے۔اس لئے جب تک مقررہ وقت کے اندر قربانی کرنے کی قدرت اورامکان باقی ہو کوئی دوسراعمل قربانی کے بدلہ کافی نہیں۔قربانی کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔ 
جن لوگوں پر قربانی واجب ہواوروہاں قربانی کرنے میںکوئی قانونی رکاوٹ نہیںہوتووہاں جانورکی قربانی کرناہی واجب ہے۔اگر اپنے مقام پر قربانی نہیں کرسکتا؛لیکن دیہات یاکسی اورمقام پرقربانی کرسکتاہوتوضروری ہے کہ وہاں قربانی کرلے ۔اوراگراپنے شہریاصوبہ میں قربانی کرنے میں دشواری ہوتودوسری جگہ پرمعتبرافرادیااداروں کے ذریعہ قربانی کی ادائیگی کی فکرلازم ہے۔اگربالفرض قربانی کے ایام گزرگئے اور قربانی کی کوئی صورت اصالۃ یاوکالۃ ممکن نہ ہوسکی تواب اگر پہلے سے جانورخریدرکھاہے تواب اس زندہ جانور کوصدقہ کردیناواجب ہے ۔اوراگرناواقفیت کی وجہ سے اسے ذبح کردیاتودوباتوں کاخیال رکھناچاہئے ،پہلایہ کہ اس کاگوشت اور چمڑا یعنی پوراسامان غریبوں پر صدقہ کردیاجائے ،نہ اس میں خود کھاناجائز ہے اور نہ مالدارلوگوں کو کھلاناجائز ہے۔دوسرے زندہ جانورکی قیمت کے مقابلہ اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہوتو اس کمی کے بقدر بھی صدقہ کرناضروری ہے ۔اگرجانور خریدا نہ ہو اور قربانی کے ایام گزرگئے تواب جانورکی قیمت صدقہ کرناواجب ہے۔اور اگرنفل قربانی کاارادہ ہویعنی قربانی واجب نہ ہواورقربانی کرناچاہتے ہوں یا دوسرے رشتہ داروں جیسے والدین اولاد وغیرہ کی طرف سے قربانی کرنے کااراد ہ رکھتے ہوں حالاں کہ ان پرقربانی واجب نہیں یاایصال ثوا ب کے لیے قربانی کررہے ہوں تویہ سب نفل قربانی کی صورتیں ہیں ،ان صورتوں میں اس بات کی گنجائش ہے کہ موجودہ حالات اور مہاماری کودیکھتے ہوئے قربانی کرنے کے بجائے قیمت صدقہ کردی جائے،جیساکہ امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں نفل حج کی جگہ اس کے اخراجات کو صدقہ کردینا نہ صرف جائز بلکہ ضرورت کے لحاظ سے بعض حالات میں مستحب بھی ہے اس لئے دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھناچاہئے۔
کیاذبح حیوان خلاف عقل اور بے رحمی ہے؟
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک یہ اعتراض بھی سامنے آتاہے کہ ذبح حیوان عقل کے خلاف ہے ۔یہ عمل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتاہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کوذبح کرنانہ عقل سلیم کے خلاف ہے اور نہ اس سے بے رحمی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جانوروں کاذبح کرناایک فطری ضرورت ہے ،انسانی غذاکے لحاظ سے بھی اور معاشی مفادات کے لحاظ سے بھی۔اس سے صرف نظرکرناقطعی انصاف پسندی نہیں ہے۔ 
 حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے،اور ذبح حیوان رحم کے خلاف نہیں ؛بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہوکر مرنابہترہے؛کیوں کہ خودمرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ رہایہ سوال کہ پھرانسان کو ذبح کردیاجایاکرے؛تاکہ آسانی سے مرجایاکرے۔اس کاجواب یہ ہے کہ حالت یاس سے پہلے ذبح کرناتودیدہ ودانستہ قتل کرناہے اور حالت یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیوں کہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہوگئے تھے ،پھراچھے ہوگئے اور شبہ حیوانات میں کیاجائے کہ ان کی تو یاس کابھی انتظار نہیں کیاجاتا ،جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو ابقا مقصود ہے ،کیوں کہ خلق عالم سے وہی مقصود ہے ،اس لئے ملائکہ کے موجودہوتے ہوئے اس کو پیداکیاگیا؛بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ؛کیوں کہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدماتے کے بعد موجودہواکرتاہے ؛اس لیے انسانکے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ،ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کردیئے جائیں گے جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امیدتھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھااور جانور کاابقاء مقصود نہیں ؛اس لئے اس کے ذبح کی اجازت اس بناپردے دی گئی کہ ذبح ہوجانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہوجانے کے بعد ان کاگوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے جس کاابقاء مقصود ہے۔ اس کواگرذبح نہ کیاجائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیاجائے تووہ مردہ ہوکر اس کے گوشت میں سمیت کااثر پھیل جائے گا اور اس کااستعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہوگا توابقائے انسان کاوسیلہ نہ بنے گا۔(اشرف الجواب :انیسواں اعتراض اوراس کاجواب)
گوشت خوری کادستورانتہائی قدیم :
ملحدین اور مشرکین کے ذریعہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتاہے ،اس سے تشدد اور ہنسا کامزاج بنتاہے۔ اس لئے اس پرروک لگنی چاہئے ۔مگریہ بات ہمارے دل دماغ میں ہونی چاہئے کہ انسان اس دنیا میں ضرورتوں اور حاجتوں کے ساتھ پیداکیاگیاہے۔اس کے وجود کاکوئی حصہ نہیں جواپنی حیات و بقا اور حفظ و صیانت میں احتیاج سے فارغ ہو ۔ہوا اور پانی کے بعد اس کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے ۔اوریہی ضرورت ہے جس نے زندگی کومتحرک اور رواں دواں رکھا ہے ۔اورایک اہم انسانی غذا تسلیم کرتے ہوئے گوشت خوری کادستور انتہائی قدیم ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے۔ہندستانی مذاہب میں بھی جین دھرم کے علاوہ سبھی مذاہب میں گوشت خوری کاجواز موجود ہے۔ غیرمسلموںکے بیچ آج کل گوشت خوری منع ہونے کی جوبات مشہور ہے وہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے،پکانے اور قربانی کاتذکرہ موجودہے ۔رگ وید(:۷:۱۱:۱۷) میں ہے :’’اے اندرتمھارے لئے پسان اور وشنوایک سوبھینس پکائیں۔‘‘ یجروید (ادھیائے:۲۰:۸۷) میں گھوڑے،سانڈ،بیل، بانجھ گائے اور بھینس کودیوتاکی نذرکرنے کاذکرملتاہے۔ منوسمرتی(ادھیائے: ۳:۲۶۸) میں کہاگیاہے :’’مچھلی کے گوشت سے دوماہ تک،ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک اور پرند کے گوشت سے پانچ ماہ تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔‘‘ خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندوسماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کاعمل عام تھا۔ ڈاکٹر تاراچندکے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔ 
افراط وتفریط کے شکارقانون فطرت کے باغی:
دنیا کے مذاہب اور قوموںمیں جانوروں کے بارے میں ایک خاص قسم کا افراط وتفریط ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوحیوان کے غذائی استعمال کو بے رحمی اورجیوہتیا تصورکرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوہرجانورکوانسانی خوراک قرار دیتے ہیں ااور اس باب میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اورقانون فطرت کے باغی ہیں۔ خدانے اس کائنات میں جونظام ربوبیت قائم کیا ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ اعلی مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامان بقا ہے ۔غور کریں کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں ،چوپائے نباتات کھاتے ہیں اوراسی پر ان کی حیات کادارومدارہے ،حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوغ کی حیات موجود ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کوغذابناتی ہے اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو ۔زمین پر رہنے والے جانوروں کی خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں ۔چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کے ۔ خداکی کائنات پر جس قدر غورکیاجائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے جولوگ اس اصول کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کاکوئی جواز نہیں کہ پانی کاکوئی قطرہ اور ہواکی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اترنہیں سکتی جب تک کہ سیکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغام اجل نہ سن لے ۔
جیوہیتاکے وسیع تصورکے لحاظ سے نباتاتی غذاسے بھی بچناہوگاکیوں کہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اورنباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندونظریہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قراردیئے ہیں:انسان۔حیوان اورنباتات۔یہ نباتات میں زندگی کاکھلا اقرارہے ۔تواگرجیوہتیاسے بچناہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچناہوگا ۔
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہرحیوان کو غذاکے لئے درست سمجھاجائے ۔یہ مسلمہ حقیقت میں سے ہے کہ انسان پر غذاکااثر ہوتا ہے ۔یہ اثر جسمانی و روحانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔حیوانات میں شیروببردرندے ہیں ،سانپ اوربچھوکی کینہ پروری وریشہ زنی کی خومعروف ہے ،گدھے میں حمق ضرب المثل ہے ،خنزیرمیں جنسی بے اعتدالی وہوسناکی کااثر ان قوموں میں صاف ظاہر ہے جو اس کااستعمال کرتی ہیں ،کتے کی حرص اورقناعت سے محرومی نوک زباں ہے ،چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سرچشمہ ہیں ،بندرکی بے شرمی ،لومڑی کی چال بازی،گیدڑ کی بزدلی اظہارکامحتاج نہیں ۔مقام فکرہے کہ اگرانسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیا یہی اوصاف اس کے وجود میں رچ بس نہ جائیں گے؟
اسی لئے اسلام نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ۔ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ۔دوسری طرف مردارکاگوشت حرام کیا جوانسان کی جسمانی وروحانی صحتوں کو بربادکرنے والاہے، ان جانوروں کو حرام قراردیاجن کے گوشت سے اخلاق انسانی مسموم ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ایک قاعدہ مقررکر دیاکہ طیبات اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک اور بدخوجانور جن کو قرآن کی زبان میں خبائث کہاگیا ہے حرام ہیں (الاعراف:۱۵۷) لیکن اس فیصلہ کو ہرانسان کے ذوق و مزاج پر منحصرکردیاجانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب۔چنانچہ شریعت نے اس کی جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کاشمارطیبات میں ہے اور کن کاخبائث میں ۔ پھر جن جانوروں کو حلال کیا ان کاگوشت کھانے میں بھی ایساپاکیزہ طریقہ ذبح بتایا جس سے ناپاک خون زیادہ سے زیادہ نکل جائے اور جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔طبی اصول پرانسانی صحت اورغذائی اعتدال میں اس سے بہترکوئی طریقہ ذبح نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جانورکاگوشت کھانے میں انسان کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح درختوں کے پھل اور ترکاریاں وغیرہ کو جیسے چاہیں کاٹین اور کھالیں اسی طرح جانورکوجس طرح چاہیں کھاجائیں۔(حلال وحرام ،جواہرالفقہ)
حیوان حلال ہونے کی حکمت اورارکان وشرائط:
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ الاسلام میں اسلامی ذبیحہ کی حکمت اور اس کے آداب وشرائط پر بصیرت افروز تحقیقات فرمائی ہیں یہاں ان کو پورانقل کرنے کا موقع نہیں ،ان میں سے ایک بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جانوروں کامعاملہ عام نباتاتی مخلوق جیسانہیں ۔کیوں کہ ان میںانسان کی ہی طرح روح ہے ،انسان کی طرح دیکھنے ،سننے ،سونگھنے اورچلنے پھرنے کے آلات واعضا ہیں ،انسان کی طرح ان میں احساس وارادہ اور ایک حدتک ادراک بھی موجودہے۔ اس کاسرسری تقاضایہ تھا کہ جانورکاکھانامطلقا حلال نہ ہوتا ،لیکن حکمت الہی کاتقاضاتھا کہ اس نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا،جانوروں سے خدمت لینا، ان کا دودھ پینااوربوقت ضرورت ذبح کرکے ان کا گوشت کھالینا بھی انسان کے لئے حلال کردیامگرساتھ ہی اس کے حلال ہونے کے لئے چندارکان اور شرائط بتائے جن کے بغیر جانور حلال نہیں ہوتا۔پہلی شرط یہ ہے کہ ہرذبح کے وقت اللہ کے اس انعام کاشکر ادا کیا جائے کہ روح حیوانی میں مساوات کے باوجود اس نے کچھ جانوروں کو حلال کیا اور اس شکرکا طریقہ قرآن وسنت نے بتایاکہ ذبح کے وقت اللہ کانام لیں ۔اگراللہ کانام قصدا چھوڑدیاتو وہ حلال نہیں ،مردارہے۔دوسری شرط جانور کو شریعت کے پاکیزہ طریقہ سے ذبح کرنا یعنی شرعی طریقہ پر حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دینا ۔تیسری شرط ذابح کامسلمان ہونا یاصحیح اہل کتاب ہوناہے۔ اسلام سے قبل جانوروں کا گوشت کھانے کے عجیب عجیب طریقے بغیرکسی پابندی کے رائج تھے۔ مردار کاگوشت کھایاجاتاتھا ۔زندہ جانورکے کچھ اعضا کاٹ کر کھالئے جاتے تھے ۔جانورکی جان لینے کے لئے بھی انتہائی بے رحمانہ سلوک کیاجاتاتھا،کہیں لاٹھیوں سے مارکرکہیں تیروں کی بوچھارکرکے جانور کی جان لی جاتی تھی۔
ذبح کرنے والے کاحکم:
ذبح کرنے والے کے لیے مسلمان یاصحیح اہل کتاب ہوناضروری ہے۔سورہ مائدہ میں ارشادباری تعالی ہے:’’الیوم احل لکم الطیبات وطعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم۔‘‘ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:’’مسلمان اور کتابی کاذبیحہ حلال ہے کیوں کہ اللہ تعالی کافرمان ہے:’’اورجن لوگوں کو (تم سے پہلے )کتاب دی گئی تھی ،ان کاکھانابھی تمہارے لیے حلال ہے ‘‘یہاں کھانے سے مراد اہل کتاب کاذبیحہ ہے۔(البحرالرائق:۸؍۳۰۶)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی’’ طعام ‘‘کی تفسیر’’ذبیحہ‘‘ منقول ہے۔(صحیح بخاری :باب ذبائح اہل الکتاب)
آج کل یورپ کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبارسے یہودی یانصرانی کہلاتے ہیں مگردرحقیقت وہ خداکے وجودکے منکرہوتے ہیں،کسی مذہب کے قائل نہیں ہوتے،نہ توریت، نہ انجیل کو خداکی کتاب مانتے ہیں اور نہ حضرت موسی اور حضرت عیسی کواللہ کانبی اور پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔(معارف القرآن :۳؍۴۸)مفسرقرآن مولانامحمدادریس کاندھلوی ؒ فرماتے ہیں:’’ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جومذہبا اہل کتاب ہوںنہ کہ وہ جو صرف قومیت کے لحاظ سے یہودی یانصرانی ہوں خواہ عقیدۃً وہ دہریے ہوں۔ اس زمانے کے نصاریٰ عموما برائے نام نصاریٰ ہیں ،ان میں بکثرت ایسے ہیںجونہ خداکے قائل ہیں اور نہ مذہب کے قائل ہیں،ایسے لوگوں پر اہل کتاب کااطلاق نہیں ہوگا۔( معارف القرآن :۲؍۴۴۶) مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہواکہ اہل کتاب وہ کہلاتے ہیں جواللہ تعالی، کسی پیغمبراور کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور آج کل جویہود ونصاری کہلاتے ہیں وہ اکثردہریے ہیں۔اب بھی اگرکوئی ایساشخص ہو جوکسی پیغمبرپرایمان رکھتاہو اور کسی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھتاہو توآج بھی وہ اہل کتاب شمارہوگا۔مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ لکھتے ہیں: ’’ موجودہ زمانے کے یہودونصاری جوحضرت موسی علیہ السلام یاحضرت عیسی علیہ السلام کوپیغمبر اور تورات یاانجیل کو آسمانی کتاب مانتے ہوں ‘اہل کتاب ہیںخواہ تثلیث کے قائل ہوں۔‘‘ (کفایت المفتی :۱؍۷۰)
ان سب دلائل سے ہٹ کر غیرمقلدین کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب کے علاوہ کوئی اور کافر بھی ذبح کرے تو جائز ہے۔علامہ وحید الزماں غیرمقلد لکھتے ہیں:وذبیحۃ الکافر حلال اذا ذبح للہ وذکراسم اللہ عند الذبح ۔ترجمہ: کافرکاذبیحہ حلال ہے اگروہ اللہ کے لیے ذبح کرے اور ذبح کے وقت اللہ کانام لے۔(کنزالحقائق:۱۸۲)اسی طرح نواب نورالحسن خان غیرمقلد کی تحریرہے:’’ ذبائح اہل کتاب ودیگر کفار نزد وجود ذبح بسملہ یا نزد اکل آں حلال است ،حرام ونجس نیست‘‘یعنی اہل کتاب اور دیگر کفار ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھ لیں یااس مذبوحہ کوکھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لیاجائے تووہ حلال ہے ،حرام اور نجس نہیں ۔(عرف الجادی:ص ۱۰)
تشدداور ہنساکاتعلق محض غذاؤں سے سمجھنابیوقوفی:
رہایہ اعتراض کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتا ہے ،اس سے تشدداور ہنساکامزاج بنتاہے ۔تودنیاکی تاریخ اور خودہمارے ملک کاموجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے ۔آج بھارت میں جہاںکہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ات ہورہے ہیں اور ظلم وستم کاننگاناچ ہورہاہے ،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہاہے جوسبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔دنیاکے رہنماوں سسمیں گوتم بدھ اور حضرت مسیح کوعدم تشدداور رحم دلی کاسب سے بڑاداعی اور نقیب تصورکیاجاتاہے لیکن کیایہ ہستیاں گوشت نہیں کھاتی تھیں ،یہ سبھی گوشت خورتھے۔اور ہٹلرسے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ،ظلم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا لیکن ہٹلر گوشت خورنہیں تھا صرف سبزی کواپنی غذابناتاتھا۔ اس لئے یہ سمجھناکہ ہنسا اور اہنسا کاتعلق محض غذاوں سے ہے بے وقوفی اور جہالت ہی کہی جاسکتی ہے ۔جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کااحساس نہ ہو تو محض غذائیں انسانی مذاق و مزاج کو تبدیل نہیںکرسکتی۔ بعض فتنہ پردازوں کاکہناہے کہ گاوکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظرسے نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے ۔جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ہمیں دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے مگریہ ایک واہمہ ہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں بھارت سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی طرح کی پابندی نہیں وہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں دودھ اور گھی سستے بھی ہیں اور فراوانی بھی ہے۔اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں ۔ہمارے ملک میں گوشت خوری کم ہونے کے باوجود مذکورہ اشیاء مہنگے ہیں ۔نیزقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ جانورایک عمرکوپہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں ،اگرانہیں غذابنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی پرورکسانوں کے لئے ایسے جانورباربن جائیں گے اورغریب کسان جوخود آسودہ نہیں وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرپائیں گے۔۲۰۱۴ء سے مرکزمیں بھاجپا کی حکومت ہے ۔اس نے گاوکشی قانون کوسختی سے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔اس کاحشر کیاہے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ سرکاری گاوشالوں میں ایسے سیکڑوں ہزاروں مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ کربھوک سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے ،ہورہے ہیں ، جوبہرحال گھاٹے کاسودہ ہے۔
گوشت کے فوائد ونقصانات:
گوشت انسانی خوراک کاایک اہم جزوہے ۔ اس سے انسانی صحت پرکئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گوشت سے جسم کو پروٹین، لحمیات ،آئرن ،وٹامن بی وغیرہ حاصل ہوتی ہیںجوایک صحت مندجسم کے لئے ضروری ہیں تاہم گوشت کی حدسے زیادہ مقدارکااستعمال کسی بھی انسان کے لئے سودمندکے بجائے مصیبت بن جاتاہے ۔کیوں کہ ہرقسم کی غذاکے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اس لئے عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھاناچاہئے اور ایک مخصو ص حدسے زیادہ استعمال نہیں کرناچاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بالغ افراد کویومیہ 70گرام جب کہ ہفتے میں 500گرام یعنی سات دنوں میں صرف نصف کیلو گوشت کھانا چاہئے جسے  برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کے لئے تجویز کیا۔
امریکہ کی یونیورسیٹی البامامیں امریکی تحقیقی ماہرین نے گوشت خوری اور سبزی خوری کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقی مطالعہ کیا،جس میں لوگوں کی غذائی عادتوں کی نگرانی اور ان کے صحت پرپڑنے والے اثرات کامعائنہ کیا۔ ماہرین نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کاڈیٹاجمع کیا۔ اس کی روشنی میں رپورٹ مرتب کی اور بتایاکہ صرف سبزی خوری کے بہت زیادہ نقصان ہیں ۔سبزی کامستقل استعمال انسان کوڈپریشن بنادیتاہے جس کی وجہ سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جو خوراک میں گوشت استعمال کرتے ہیں ،ان کی ذہنی صحت بہتررہتی ہے اور وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈآرجرکاکہناہے:ہم لوگوں کو نصیحت کریں گے کہ اگرآپ ڈپریشن ،ذہنی خلفشار اور خودکونقصان پہنچانے کے خطرناک رویے سے بچناچاہتے ہیں تو خوراک میں سبزی کے ساتھ گوشت کابھی استعمال کریں۔(نوائے وقت پورٹل یکم مئی۲۰ء)
گوشت بھی اپنی اقسام کے اعتبار سے لذت اور تاثیر میں مختلف ہوتاہے۔مچھلی اور مرغی کے گوشت سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہے اس میں کلوریزاور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاکم ہوتی ہے۔مٹن میں چکنائی کی مقدار چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔بیف میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے البتہ اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلا پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ پوری ہوتی ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کاکہناہے کہ ایک نارمل انسانی جسم کومتوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں لحمیات پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیںجوگوشت اوردیگرچیزوں سے حاصل ہوتی ہیں،تاہم ضروری ہے کہ ہرچیزکواعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیاجائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کاسامنانہ کرناپڑے۔
مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوگئی کہ انسان کے لئے اللہ تعالی کی پیداکی گئی مختلف تاثیروالی بے شمار غذاؤں میں عمدہ غذاگوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کودنیاو آخرت کی عمدہ غذا فرمایاہے۔ سورہ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے مہمانوں کی فربہ بچھڑا کوبنابھون کرضیافت کرنے کا تذکرہ ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل ایمان گوشت کو مرغوب رکھتے ہیں ۔ آج بھی عرب میں خاص طورپر اناج سے زیادہ گوشت بطورغذا استعمال ہوتاہے۔ اورمہمانوں کی آمدپر اکثراہل عرب آج بھی پورادنبہ یابکرا تیارکرکے ضیافت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ الحاصل گوشت انسانی غذاکااہم حصہ ہے ۔گوشت خوری کی مخالفت فرقہ پرست طاقتیں جتنی بھی کریں اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتااور اس غذائی ضرورت سے انسان دست بردارنہیں ہوسکتا۔ذبح حیوان اور گوشت خوری پرپابندی کافتنہ کھڑا کرنے والے افراد قدرتی نظام کے باغی اور انسان کے فطری ضرورت کی تکمیل کے مخالف ہیں ۔
حلال جانور کی سات چیزیں کھاناحرام ہیں:
حلال جانور کی سات چیزیں حرام ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’ کرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الشاۃ سبعا:المرارۃ و المثانۃ و الغدۃ و الحیا و الذکر والانثیین و الدم ، و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب من الشاۃ مقدمھا۔‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری میں سات چیزوں کو ناپسند کیا ہے : (۱) پتا (۲) مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۳) غدود (۴) حیا یعنی مادہ کی شرمگاہ (۵) ذکر یعنی نرکی شرمگاہ (۶) خصیتین یعنی کپورے (۷) خون ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے سامنے کاحصہ پسند تھا۔( کتاب الآثار:۱۷۹، سنن بیہقی :۱۰؍۷، معجم اوسط لطبرانی:۹؍۱۸۱، مصنف عبدالرزاق :۴؍۴۰۹) اس حدیث سے ائمہ کرام نے استدلال کرتے ہوئے تمام حلا ل جانورکی مذکورہ سات چیزوں کایہی حکم بیان کیا ہے ۔علامہ شامی فرماتے ہیں:’’ بکری کاذکر اتفاقی ہے ،اس لیے کہ دوسرے حلال جانوروں کاحکم اس سے مختلف نہیں ہے۔‘‘(رد المحتار :۶؍۷۴۹)مچھلی کی ان سات چیزوں کے بارے میں قدیم فقہاء کی کوئی تصریح نہیں ملتی  البتہ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: ’’ جواجزاء دموی حیوان میں حرام ومکروہ ہیں وہ سمک (مچھلی ) میں بھی حرام ومکروہ ہیں یا نہیں ؟ پس جب کہ میتۃ ہونا مچھلی کا حرمت وکراہت کاسبب نہیں ہے تو یہ مقتضی اس کو ہے کہ اس کے اجزاء مثانہ وغیرہ حرام ونجس نہیں ہیں۔‘‘( عزیزالفتاوی: ۷۵۹) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اجزاء صرف دموی حیوانات کے حرام ہیں اور غیردموی جیسے مچھلی کے یہ اجزاء حرام نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ دم سے مراد جمہورعلماء کے نزدیک دم مسفوح یعنی بہنے والا خون ہے اور اس کی حرمت خود قرآن میں بھی صراحتا موجود ہے۔نہ بہنے والا خون حرام نہیں بلکہ جائز اور حلال ہے ۔کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان ، فاما المیتتان فالحوت و الجراد ، واما الدمان فالکبد والطحال ۔‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مردار اور دو خون کو حلال کیا گیا ہے ، دو مردار تووہ مچھلی اورٹڈی ہیں اوردو خون تو وہ جگر اور تلی ہیں۔ (ابن ماجہ :۲۳۱۴،مسنداحمد:۵۴۲۳، بیہقی:۱؍۲۵۴،الشافعی:۱؍۳۴۰،دارقطنی:۴؍۲۷۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ بہنے والا جماہوا خون جیسے تلی اورجگرجائز ہے ۔یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حدیث میں مذکورلفظ ’’مکروہ‘‘ اپنے عام معنی میں مستعمل ہے جس میں حرام وناجائز بھی داخل ہے ۔اس کاثبو ت یہ ہے کہ خود حدیث میں خون کو مکروہ بتایا ہے جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے ،لہذا یہاں مکروہ کے عام معنی مراد ہیں جس میں حرام بھی داخل ہے۔ فقہی اصطلاح کے مطابق ان چیزوں میں سے جن کاحرام ہونا قرآن وحدیث کی نص قطعی سے ثابت ہو ان کو حرام اور جن کی حرمت نص ظنی سے ثابت ہو ان کو مکروہ کہاجائے گا ۔اس اصول پر خون تو حرام ہوگا اور باقی چھ چیزیں مکروہ کہلائیں گی۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایاکہ خون حرام ہے اور باقی چھ اجزا ء کومیں مکروہ قراردیتا ہوں۔‘‘(ردالمحتار:۶؍۷۴۹)اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی ؒ نے (بدائع الصنائع:۵؍۶۱)نے لکھا ہے اور صاحب درمختار علامہ حصکفی ؒ نے اسی کوترجیح دی ہے:’’ کرہ تحریما و قیل تنزیھا ، فالأول اوجہ۔‘‘( الدرعلی الرد:۶؍۷۴۹)
یہاں یہ بھی واضح کردیناضروری ہے کہ علماء نے حرام اور مکروہ کی اصطلاح اس لیے نہیں بنائی ہے کہ حرام سے اجتناب ہواور مکروہ سے اجتناب کی ضرورت نہیں ؛بلکہ ان اصطلاحات کومقررکرنے کی وجہ یہ ہے کہ دلائل شرعیہ بعض قطعی ہیں اور بعض غیرقطعی تو جوممنوعات دلائل غیرقطعیہ سے ثابت ہوئے ان کو احتیاط کے طورپر مکروہ کہاگیا ورنہ بچنے کے حکم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں ،اس لیے دونوں سے بچنا چاہئے ۔ علامہ ابن قیم درست فرمایاکہ ؛’’ حرام چیز پر مکروہ بولنے سے بعد میں آنے والے بہت سے لوگ غلطی میں پڑگئے، ائمہ نے تو احتیاط کرتے ہوئے حرام کے بجائے لفظ مکروہ استعمال فرمایا ،پھربعد والوں نے ان چیزوں سے حرمت ہی کی نفی کردی ،جن پرائمہ نے مکروہ کالفظ استعمال فرمایاتھا،پھران پر یہ لفظ بہت آسان ہوگیا۔(اعلام الموقعین:۱؍۳۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکروہ کالفظ فقہاء وائمہ نے صرف احتیاط کے طورپر استعمال فرمایاتھا ورنہ گناہ ہونے میں وہ حرام کی طرح ہے ،اس لیے امام محمد ؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور دیگر علماء کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔الدرالمختاراور البحرالرائق میں ہے کہ :’’ کل مکروہ حرام عند محمد وعندھما الی الحرام أقرب۔‘‘ترجمہ: امام محمدؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒ کے نزدیک حرام کے قریب ہے۔(الدرمع الرد:۶؍۳۳۷،البحر:۸؍۱۸۰)حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ سے پوچھاگیا کہ مکروہ تنزیہی سے گناہ ہوتا ہے یانہیں؟ توآپ نے فرمایاکہ مکروہ تنزیہی سے بھی گناہ ہوتاہے۔(کفایت المفتی:۹؍۱۳۱) اس سے واضح ہوگیاکہ مکروہ کاارتکاب بھی ناجائز ہے اور اس سے بھی گناہ ہوتا ہے لہذامذکورہ اشیاء سے بھی بچنا چاہئے۔ تفصیل سے یہ بھی واضح ہواکہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے چنانچہ علامہ ابن نجیم نے بحرالرائق میں فرمایا:’’ ویصح اطلاق اسم الحرام علیہ‘‘ کہ مکروہ تحریمی پرحرام کااطلاق کرناصحیح ہے۔علامہ حصکفی نے فرمایا:وافاد فی البحرصحۃ اطلاق الحرمۃ علی المکروہ تحریما‘‘ترجمہ: بحرالرائق میں اس بات کا افادہ کیا ہے کہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے۔(الدرالمختار:۲؍۱۶۱)اسی طرح تحفۃ الملوک میں ہے کہ:’’ کتاب الکراہیہ میں جوبھی مکروہ کہاجائے وہ امام محمد ؒ کے نزدیک حرام ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک وہ حرام کے قریب ہے ،لہذا ہم نے اکثر مکروہ کو حرام سے تعبیر کیاہے۔‘‘ تحفۃ الملوک :۱؍۲۲۳)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے یہاں اکثر جگہوں پر مکروہ کوحرام سے بھی تعبیر کردیاجاتا ہے ۔ اسی لیے علامہ کاسانی اور علامہ شامی وغیرہ نے ان سات چیزوں کو حرام سے تعبیر کیا ہے ۔بہرحال ان چیزوں سے پرہیز حرام کی طرح کرناچاہئے ،مکروہ کہہ کر ان کو معمولی نہ سمجھناچاہئے۔
حرام مغزکاحکم:
حلال جانور کی سات چیزیں علمائے احناف کے یہاں بالاتفاق ناجائز ہیں ۔ان کے علاوہ بعض علماء نے حرام مغز کو بھی حرام کہا ہے ،چنانچہ علامہ نسفیؒ کی ہندوستان میں مطبوعہ کنزالدقائق میں’’نخاع الصلب‘‘ (حرام مغز)کوبھی مکروہات میں شمارکیا ہے  اورعلامہ طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں اس کو مکروہ بتایاہے(طحطاوی علی الدر:۵؍۳۶)حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی ؒ نے اپنے فتاوی میں اس کو حرام لکھاہے (فتاوی رشیدیہ:۲؍۶۷) نیزحضرت مولانامفتی شفیع صاحب ؒ نے بھی آخرمیں اس کے حرام ہونے کافتوی دیا ہے اور اس کی وجہ بقول حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کے یہ ہے کہ ’’ اللہ تعالی کا قول ہے :’’ ویحرم علیھم الخبائث ‘‘ترجمہ: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ضب کی حرمت میں حنفیہ نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حرام مغز ایک ایسی چیز ہے کہ طبیعت سلیمہ کو اس سے نفرت واستقذار لازم ہے۔(حاشیہ امدادالمفتین :۹۷۱ط:کراچی)(ماخوذاز: مکروہ اجزاء )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین یامرحومین کی طرف سے قربانی:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین ؒیامرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست اور باعث اجروثواب ہے ،بلکہ کسی بھی نیک عمل کااجر تمام امت محمدیہ کوپہنچانادرست ہے۔خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے قربانی کے علاوہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تھی۔اس قربانی میں زندہ یامردہ کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔’’عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امربکبشین اقرن یطأ فی سواد ویبرک فی سواد وینظرفی سواد،فاتی بہ لیضحی بہ ،قال:یاعائشۃھلمی المدیۃ ثم قال :اشحذ یھا بحجر،ففعلت،ثم اخذھا واخذ الکبش فأضجعہ ،ثم ذبحہ ،ثم قال: بسم اللہ اللھم تقبل من محمدوآل محمدومن امۃ محمد،ثم ضحی بہ ۔رواہ مسلم (مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الاول ،ص:۱۲۷)ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایاجس کے کھر،گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے۔چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایاگیا توآپ نے فرمایا:اے عائشہ ! چھری لے آو ٔ ،پھرفرمایا:اسے پتھرپرتیزکرلو،چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ)نے چھری تیز کرلی،پھرآپ نے چھری لی اور مینڈھے کوپکڑا اوراسے پہلوکے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا:اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں) ،اے اللہ اسے محمداورآل محمداورامت محمدکی طرف سے قبول فرمالیجئے۔‘‘اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اور حضرت ابوحذیفہ ؓ کی بھی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے قربان کیے۔ایک اپنی طرف سے اور دوسراامت کی طرف سے ۔(متفق علیہ)
دامادِرسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ دوقربانیاں کیاکرتے تھے۔ایک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔جب ان سے سوال کیاگیا توانہوں نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کاحکم دیاہے ،میں اس کوکبھی نہیں چھوڑوں گا۔(مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الثانی ص:۱۲۸،ترمذی حدیث :۱۴۹۵،ابوداودحدیث :۲۷۶۹،مسنداحمد:۲؍۱۸۲،۳۱۶۔صحیح حاکم) معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قربانی اتنی پسندتھی کہ آپ ؐ نے حضرت علی کو ایساکرنے کی وصیت بھی کی اور حضرت علی ہرسال بلاناغہ دوقربانیاں کرتے رہے۔
اس باب کی تمام حدیثیں اس مسئلے میں صریح ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سلف صالحین اور مرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے ۔ امام ابوداودوغیرہ نے میت کی طرف سے قربانی کیے جانے کاباضابطہ باب قائم کیا ہے اور انہیں احادیث سے استدلال کیاہے۔ علمائے احناف ، مالکیہ اور امام احمدبن حنبل کایہی مسلک ہے اور یہی قول زیادہ مستندوقوی ہے ؛کیوں کہ میت کی جانب سے قربانی کرناایک صدقہ ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، عمرہ ،صدقہ اور خیرات جیسی عبادتیں کی جاسکتی ہیں توقربانی کیوں نہیں؟ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناپر کہاجائے کہ دیگراعمال تومیت کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں لیکن میت کی جانب سے قربانی نہیں کی جاسکتی۔علامہ شامی لکھتے ہیں:’’قال فی البدائع :لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت، بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ، وقد صح ’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبشین احدھماعن نفسہ والاٰخر عمن لم یذبح من امتہ ‘‘وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح،(ردالمحتار:۶؍۳۲۶) فدل ان المیت یجوزان یتقرب عنہ فاذاذبح عنہ صارنصیبہ للقربۃ فلایمنع جوازالباقین(بدائع:۴؍۲۱۰)
دلائل کی روشنی میں اصل یہی ہے کہ کسی بھی عبادت کاثواب کسی دوسرے کوپہونچایاجاسکتاہے، اگرچہ بوقت عمل نیت اپنے لیے ہو۔عبادت خواہ نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت، ذکروتسبیح،طواف ،حج، عمرہ کے علاوہ انبیاء وصالحین کے قبروں کی زیارت یاتکفین ہو،ہرقسم کے نیک اعمال اور عبادتیں شامل ہیں۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نفلی صدقہ میں پوری امت مسلمہ کے ایصال ثواب کی نیت کرناافضل ہے؛کیوں ایساکرنے میں سبھی کوثواب بھی مل جائے گا اور اس کے اجرمیں سے کچھ کم بھی نہ ہوگا۔ اورقرآن کی آیت:’’وان لیس للانسان الاماسعی‘‘(سورۃ النجم:۳۹) ان باتوں کے منافی نہیں ہے۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: الأصل اَن کل من أتی بعبادۃ ما،لہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عند الفعل لنفسہ ؛لظاھرالادلۃ۔واماقولہ تعالی :وأن لیس للانسان الاماسعی(النجم:۳۹)أی الا اذا وھبہ لہ ، کماحققہ الکمال،أو اللام بمعنی علی کمافی ’’ولھم اللعنۃ‘‘(غافر:۵۲)ولقد افصح الزاھدی عن اعتزالہ ھنا  واللہ الموفق۔(قولہ:بعبادۃ ما)أی سواء کانت صلاۃً،أو صوماً، أوصدقۃً، أو قراء ۃً، أو ذکراً، أو طوافاً،أو حجاً، أو عمرۃً،أو غیرذٰلک من زیارۃ قبور الأنبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام ،والشھداء والأولیاء والصالحین ، وتکفین الموتی ،وجمیع انواع البر،کمافی الھندیۃ،وقدمنافی الزکوٰۃ عن التٰتارخانیۃ عن المحیط: الأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤ منات ؛لأنھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شیء۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار:۲؍۵۹۵)
مسئلہ:میت کی جانب سے قربانی کی دوصورتیں ہیں۔اول یہ کہ میت نے وصیت کررکھی ہو اوراس کے لیے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تومیت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کاپوراگوشت صدقہ کیاجائے گا ۔دوسری یہ کہ وصیت توکی ہو مگرمال نہ چھوڑا ہو یارشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچاناچاہے توان دونوں صورتوں میں قربانی کاگوشت خودبھی کھاسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی بتادینامناسب ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد مرحومین کوثواب میں شامل کیاجاسکتا ہے ؛لیکن میت ہی کے نام سے قربانی کرناچاہیں تو ایک میت کی طرف سے پوراایک حصہ ضروری ہے،تاہم کئی آدمی مل کر مشترک طورپر حضورصلی اللہ علیہ وسلم یامیت کے نام سے قرانی کریں توشرعاجائز ہے ۔وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ :اذبحوعنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل۔ (الدرالمختارکتاب الاضحیہ:۹؍۴۷۱،البحرالرائق :۸؍۳۲۵)
غورکرنے کی بات ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میںامت کویادرکھا تو افسوس ہے کہ امتی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یادنہ رکھیں اور ایک جانور آپ کی طرف سے نہ دیاکریں۔لہذاجس شخص کے پاس گنجائش ہووہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرے ،اجرعظیم کامستحق ہوگا۔ 
جانور ذبح کرنے کے چند آداب:
٭ جانور کونرمی اور اچھے طریقہ سے ذبح کی جگہ لے جانا۔  ٭ذبح کے وقت جانور بھوکاپیاسانہ ہو۔  ٭گائے،بھینس بکراوغیرہ کونرمی سے بائیں پہلوپرلٹاکر اس کامنہ قبلہ کی طرف کیا جائے اس طرح سے کہ اس کاسرجنوب کی طرف اور دھڑ شمال کی طرف ہو۔  ٭اونٹ کو کھڑے ہونے کی حالت میں نحرکرنا سنت ہے اور بٹھاکریالٹاکر ذبح کرناسنت نہیں ہے ۔  ٭بڑے جانور کے ہاتھ پاوں باندھ دینا چاہئے ۔  ٭باوضوہوکر دائیں ہاتھ سے ذبح کرنا۔  ٭تیزدھاروالی چھری سے تیزی سے ذبح کرنا۔  ٭ذبح کرتے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہنا  ٭چاررگوں حلقوم (سانس کی نلی) مرئی (کھانے کی نلی ) ودجین (خون کی دورگیں جو شہ رگ کہاجاتاہے) کاکاٹنا لازم ہے ۔اگر تین رگیں کٹ جائیں توبھی کافی ہے۔لیکن صرف دورگیں کٹ جائیں تو مذبوحہ حرام ہوگا۔
جانورذبح کرنے کے چند مکروہ کام:
٭ ذبح کے آلات کو جانور کے سامنے لہرانا یا ان کے سامنے تیز کرنا۔  ٭ اس قدر کندچھری سے ذبح کرنا کہ ذابح کو زور لگاناپڑے۔  ٭ایک جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنا۔  ٭ ذبح میں چار رگوں کے علاوہ چھری کی نوک سے حرام مغز کی نالی کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کے دوران جانور کا سینہ کھول کر اس کے دل کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن توڑنا۔  ٭ جانور کی روح نکلنے اور ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا اعضا کو کاٹنا۔  ٭ رات کے وقت ذبح کرنا جبکہ روشنی کاصحیح انتظام نہ ہو کیوں اس بات کااندیشہ ہے کہ کوئی رگ کٹنے سے رہ جائے ۔ اور اگر روشنی کا اچھا انتظام ہوتو مکروہ نہیں۔   ٭ اونٹ کے علاوہ دوسرے جانوروں کو کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا ۔  ٭اونٹ کے زمین پر گرنے کے بعد اس کی گردن کو تین جگہ سے کاٹنا اس لیے کہ یہ بلاوجہ تکلیف دیناہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی :حقائق اور غلط فہمیاں

از  :  مفتی محمدشبیرانورقاسمی 
نائب قاضی شریعت واستاذمدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے

قربانی کے معنی ہیںاللہ کاقرب حاصل کرنے کی چیز۔ لفظ قربانی ’’قربان ‘‘سے اور لفظ قربان ’’قرب ‘‘سے نکلاہے ؛ اس لیے’’رضائے الہی کی نیت سے قربانی کے ایام (۱۰؍۱۱؍۱۲؍ذوالحجہ )میںخاص قسم کا حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں‘‘ ۔قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار،جذبہ ایثار نفس اور عشق الہی کامظہر ہے۔قربانی کی تاریخ باباآدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوتی ہے ،یہ سب سے پہلی قربانی تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:’’ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ  اِذْ قَرَّبَا قُرْْبَاناََفَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلمْ یُتَقَبّلْ مِنَ الْاٰخََرِ۔‘‘(المائدہ:۱۸۳)  ترجمہ:’’اورآپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طورپر پڑھ کر سنادیجئے ،جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیںکی گئی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوارمیں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی،اس زمانے کے دستورکے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا،قابیل کی قربانی کو چھوڑدیا ۔(تفسیرابن کثیر۲؍۵۱۸) اور یہ عمل تقریباہرانبیاکی شریعت میں رہا۔ جس کاطریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی دعامانگتے اور آسمان سے آگ اترتی ،اسے کھاجاتی اور یہ قبولیت کی علامت ہوتی۔یہ تسلسل حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے۔ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی اور اسی کی یادگارکے طورپر امت محمدیہ پر قربانی کو واجب قراردیاگیا۔
قربانی کی حقیقت :
قربانی سنت ابراہیمی کی یادگارہے ۔حضرت ابراہیم کو حکم ملا(اورحکم بھی صراحتانہیں ملابلکہ خواب میں اشارۃ بتایاگیا) کہ اپنابیٹا ذبح کرو،توباپ نے حکم کی اتباع میں ایک لمحے کے لیے بھی رک کرتامل نہیں کیا۔پلٹ کراللہ سے یہ نہیں پوچھاکہ یااللہ !یہ حکم آخرکیوں،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے ؟البتہ بیٹے سے امتحان اور آزمائش کے لیے سوال کیاکہ’’اے بیٹے میں نے توخواب میں یہ دیکھاہے کہ تمہیں ذبح کررہاہوں،اب بتاو تمہاری کیارائے ہے‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۲)بیٹا بھی ابراہیم خلیل اللہ کابیٹا تھا،وہ بیٹا جن کے صلب سے خاتم المرسلین دنیامیں تشریف لانے والے تھے،اس بیٹے نے بھی پلٹ کریہ نہیں پوچھاکہ اباجان!مجھ سے کیاجرم ہوا،میراقصورکیاہے کہ مجھے موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے۔بلکہ بیٹے کی زبان پر تواضع وانقیاد سے لبریزایک ہی جواب تھا :’’آباجان !آپ کے پاس جوحکم آیا ہے ،اس کوکرگزریئے اور جہاں تک میرامعاملہ ہے توآپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(ایضا)دونوں اس حکم پرعمل کے لیے تیارہوگئے اورباپ نے بیٹے کوزمین پرلٹادیا۔اس وقت بیٹے نے کہاکہ اباجاں!آپ مجھے پیشانی کے بل لٹائیں،اس لیے کہ اگر سیدھالٹائیں گے تومیراچہرہ سامنے ہوگااور کہیں ایسانہ ہوکہ آپ کے دل میں بیٹے کی محبت کاجوش آجائے اور آپ چھری نہ چلاسکیں۔اللہ کویہ ادائیں اتنی پسندآئیں کہ اللہ نے ان اداؤں کاذکرقرآن کریم میں بھی فرمایاکہ:’’اے ابراہیم !تم نے اس خواب کوسچاکردکھایا۔‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۴۔۱۰۵)اب ہماری قدرت کاتماشہ دیکھوچنانچہ جب آنکھیں کھولیں تودیکھاکہ حضرت اسماعیل ایک جگہ بیٹھے ہوئے مسکرارہے ہیں اور وہاں ایک دنبہ ذبح کیاہواہے۔اللہ کوان کایہ عمل اتناپسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کوجاری کردیاچنانچہ فرمایا:’’ہم نے آنے والے مسلمانوں کواس عمل کی نقل اتارنے کاپابندکردیا۔‘‘یہ پوراواقعہ جودرحقیقت قربانی کے عمل کی بنیادہے۔روزاول سے بتارہاہے کہ قربانی اس لیے مشروع کی گئی ہے تاکہ انسانوں کے دلوں میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہوکہ دین درحقیقت اتباع کانام ہے ۔جب اللہ کاکوئی حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے ہم اللہ کے حکم کی پیروی کریں ،اس کے حکم کے سامنے اپناسرتسلیم خم کریں ۔اسی کی طرف اللہ نے حضرت ابراہیم کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ’’ فلمااسلما‘‘جب انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔قربانی کی ادائیگی کے ذریعہ اسی ایثارنفس کاجذبہ پیداکرنامقصود ہے کہ جیسے اللہ کے حکم کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کیا،کوئی عقلی دلیل نہیں مانگی،کوئی حکمت طلب نہیں کی اور اللہ کے حکم کے آگے سرجھکادیا۔اب ہمیں بھی اپنی زندگی کواس کے مطابق ڈھالناہے اور یہی اس کی روح ہے۔ دراصل قربانی کی حقیقت تویہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ کے حضورپیش کرتامگرخداکی رحمت دیکھئے ،ان کو یہ گوارانہ ہوا اس لیے حکم دیاکہ تم جانورکوذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔ 
قربانی کی اہمیت وفضیلت:
قربانی کی اہمیت وفضیلت کاثبوت قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔سورہ حج میں ارشاد ربانی ہے:’’اورہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹوں کو عبادت الہی کی نشانی اور یادگار مقررکیاہے،ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں ،سوتم ان کو نحرکرتے وقت قطارمیں کھڑاکرکے ان پر اللہ کانام لیاکروپھرجب وہ اپنے پہلوپرگرپڑیں توان کے گوشت میں سے تم خودبھی کھاناچاہوتوکھاو اور فقیرکوبھی کھلاو، خوہ وہ صبرسے بیٹھنے والا ہویاسوال کرتاپھرتاہوجس طرح ہم نے ان جانور وں کی قربانی کاحال بیان کیا، اسی طرح ان کوتمہاراتابع دار بنایاتاکہ تم شکربجالاو۔ اللہ کے پاس ان قربانیوںںکاگوشت اور خون ہرگزنہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاراتقوی پہنچتاہے ۔اللہ تعالی نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخرکردیاہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالی کی بڑائی کروکہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح رہنمائی کی اور اے پیغمبر!مخلصین کو خوش خبری سنادیجئے۔‘‘(الحج:۳۶،۳۷)سورہ حج ہی میں دوسری جگہ اسے شعائر اللہ قراردیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کودل میں پائے جانے والے تقوی خداوندی کامظہرقراردیاہے۔ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب(الحج:۳۲) ااورجوشخص اللہ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام کے دوران ایک باربھی قربانی کرناترک نہیں کیا،جب کہ آپ کے گھر میں کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰؍تاریخ کوکوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک (قربانی کا)خون بہانے سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ۔اور قیامت کے دن وہ ذبح کیاہواجانوراپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااورقربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے یہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتاہے۔ لہذاتم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۹۳،ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۶) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقرعید کے دن ارشاد فرمایا:آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا،ہاں اگرکسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہوتوہو(الترغیب والترہیب:۲؍۷۷۲) حضرت زیدبن ارقم راوی ہیں کہ صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ !یہ قربانی کیاہے؟(یعنی اس کی حیثیت کیاہے)آپ نے ارشادفرمایا:تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے؟صحابہ نے عرض کیا!ہمیں قربانی سے کیافائدہ ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہربال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہ! اون کے بدلے کیاملے گا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہراون کے بدلے بھی ایک نیکی (ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۷، حاکم ،مشکوۃ:۱۲۹)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تووہ عیدالاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔(سنن دارقطنی وبیہقی) حضرت ابوسعیدسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ اٹھواور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجودرہو) کیوں کہ اس کے خون کاپہلاقطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیایارسول اللہ !یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یاعام مسلمانوں کے لیے بھی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے) فرمایا:اے فاطمہ ! اٹھواور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجودرہو ، اس لیے کہ اس کے خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔یہ قربانی کاجانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور تمہارے ترازومیں سترگنا کرکے رکھا جائے گا ۔حضرت ابوسعید نے عرض کیا یارسول اللہ !یہ مذکورہ ثواب کیاخاص آل محمد کے لیے ہے کیوں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ خاص کئے جائیں یاتمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آل محمد کے لیے ایک طرح سے خاص بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام بھی ہے۔ (اصبہانی،الترغیب:۲؍۲۷۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امیدرکھواس لیے کہ خون اگرچہ زمین پرگرتاہے لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔(الترغیب:۲؍۲۷۸) حضرت حسین بن علی سے مردی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص خوش دلی کے ساتھ اجروثواب کی امیدرکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔
قربانی کاحکم:
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائراسلام میں سے ہے ،اس پراجماع ہے ،البتہ اس کی شرعی حیثیت اورحکم کے بارے میں ائمہ مجتہدین میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالکؒ،امام احمدبن حنبل ؒ صاحب نصاب کے لیے قربانی کو واجب کہتے ہیں ،جب کہ امام شافعی ؒ اور دیگر علماء سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ہندوپاک کے جمہورعلماکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے کیوں کہ یہ قول احتیاط پرمبنی ہے۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے:’’ فصل لربک وانحر‘‘(سورۃا لکوثر)آپ اپنے رب کے لیے نمازپڑھئے اور قربانی کیجئے۔اس آیت میں قربانی کرنے کاحکم دیاجارہاہے اور امروجوب کے لیے ہوتاہے۔ علامہ ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت ’’فصل لربک ‘‘میں نمازسے عید کی نمازمرادہے اور ’’وانحر‘‘سے قربانی مرادہے۔علامہ جصاص فرماتے ہیں اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں:(۱) عیدکی نماز واجب ہے (۲) قربانی واجب ہے۔( احکام القرآن للجصاص :۳؍۴۱۹) مفسرقرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: ’’حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء اور حضرت قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیںکہ ’’فصل لربک ‘‘میں فصل سے مراد عید کی نماز اور ’’وانحر‘‘ سے مراد قربانی ہے۔(تفسیرمظہری :۱۰؍۳۵۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اوروہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳، مسنداحمدحدیث نمبر:۸۲۷۳) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ احدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس طرح کی وعید غیرواجب کو چھوڑنے پرنہیں ہوتی بلکہ ترک واجب پر ہوتی ہے۔(تبیین الحقائق للزیلعی :۶؍۲کتاب الاضحیہ )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکرفرمایا:اے لوگو!ہرسال ہرگھروالے(صاحب نصاب) پرقربانی کرنا ضروری ہے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۵،نسائی حدیث نمبر:۴۲۲۴)حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میںآپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۷)مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کاکوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا۔یہ اہتمام و پابندی بھی وجوب کوبتایا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے قبل جانورذبح کردینے پر دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا۔(صحیح بخاری حدیث :۵۵۴۶،۵۵۶۰،ابن ماجہ حدیث:۳۱۵۱)حالاں کہ اس زمانہ میں صحابہ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی ،یہ بھی قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ 
قربانی کے وجوب کی شرطیں: 
قربانی واجب ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں ۔اگران میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے توقربانی واجب نہیں رہے گی:
۱۔عاقل ہونا۔لہذاکسی پاگل ،مجنوں پرقربانی واجب نہیں۔
۲۔ بالغ ہونا ۔ لہذانابالغ پرقربانی نہیں خواہ مالدارہی ہو۔ہاں کوئی ایام قربانی میں بالغ ہوااور مالدارہے تواس پرقربانی واجب ہے۔
۳۔ آزاد ہونا۔ لہذاغلام پرقربانی نہیں۔کیوں کہ غلام کسی چیز کامالک نہیںہوتا۔(البحرالرائق :۲؍۲۷۱)
۴۔ مقیم ہونا۔ لہذامسافرپرقربانی واجب نہیں۔حضرت علی ؓ  فرماتے ہیں :مسافرپرقربانی واجب نہیں(المحلی لابن حزم:۶؍۳۷،مسئلہ: ۹۷۹)
۵۔ مسلمان ہونا۔اس لیے کہ قربانی عبادت ہے اور کافر عبادت کااہل نہیں۔(بدائع :۴؍۱۹۵)
 لہذاغیرمسلم پرخواہ کسی مذہب کاہوقربانی واجب نہیں۔ہاں اگرکوئی غیرمسلم ایام قربانی میں مسلمان ہوگیااورمالدارہے تو اس پرقربانی واجب ہوگی۔
۶۔مالدار ہونا۔امام ابن ماجہ قزوینی ؒ نقل کرتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کووسعت ہواس کے باوجود قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(ابن ماجہ حدیث:۳۱۲۳،باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا)لہذافقیرپرقربانی واجب نہیں ،اگراپنی خوشی سے قربانی کرے تو ثواب ملے گا۔اور اگر کوئی فقیر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہوگیا تواس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ اگرکسی کے پاس بقدرنصاب رقم موجودہومگراس پر قرض اتناہوکہ اگراسے اداکرے تووہ مالک نصاب نہ رہے توایسے شخص پربھی قربانی واجب نہیں۔
وجوب قربانی کانصاب :
جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی(612.36گرام)یا ساڑھے سات تولہ سونا (87.48گرام )موجود ہوخواہ جس شکل میں ہو جیسے زیورات، آرائشی سامان ،سکے وغیرہ یا سونا چاندی مذکورہ مقدار سے کم ہو لیکن اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،مال تجارت ،نقدی اور بنیادی ضرورت سے زائد سامان موجود ہو یاان میں سے بعض موجود ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612.36ملی گرام ) کے برابر ہو تو اس پر  قربانی واجب ہے، قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگارہوگا۔
مال تجارت سے مراد:
اگرکسی چیز کوخریدتے وقت نیت یہ تھی کہ اسے بعد میں فروخت کردیں گے اور یہ نیت تاحال باقی بھی ہو تواب یہ چیز ’’مال تجارت‘‘ میں شمار ہوگی؛ لیکن اگرکوئی چیز خریدتے وقت اسے آگے فروخت کرنے نیت نہ ہویایااس وقت تو فروخت کرنے کی نیت تھی مگربعدمیں نیت بدل گئی توایسی چیز مال تجارت میں شمار نہ ہوگی۔قربانی میں نصاب کے مال کاتجارت کے لیے ہونا یااس پر سال گزرناضروری نہیں۔
بنیادی ضرورت سے زائدسامان:
بنیادی ضرورت سے مراد وہ ضرورت ہے جوانسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو،اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یاہتک عزت و آبرو کااندیشہ ہو ۔کسی شخص کے پاس موجود ایساسامان جواس کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو ’’زائدازضرورت سامان ‘‘کہلائے گا۔ کھانا،پینا، رہائشی مکان ، کرایہ پر دیا ہوامکان، استعمال کی گاڑی، استعمال کے کپڑے، دکان کافرنیچر، اہل صنعت وحرفت کے اوزاروغیرہ ضرورت کاسامان شمار ہوگا۔ایسے برتن ،کپڑے جوسال بھرمیں ایک بار بھی استعمال نہ ہوئے ہوں وہ زائد ازضرورت سامان شمارہوں گے۔
٭  جس طرح زکوۃ صاحب نصاب مسلمان پرالگ الگ لازم ہوتی ہے اسی طرح قربانی بھی ہرصاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی ؛کیوں کہ قربانی اس کے اپنے نفس اورذات پرواجب ہوتی ہے اس لیے پورے گھر،خاندان یاکنبہ کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی ۔ ہرصاحب نصاب پرالگ الگ قربانی لازم ہوگی ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ ہاں ! ایصال ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
٭  اگرعورت صاحب نصاب ہوتو اس پربھی قربانی واجب ہے۔بیوی کی قربانی شوہر پرلازم نہیں ،اگر بیوی کی اجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔بعض لوگ نام بدل کرقربانی کرتے رہتے ہیں ،حالاں کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں ،مثلا ایک سال شوہر کے نام سے ،دوسرے سال بیوی کے نام سے تو اس سے قربانی ادانہیں ہوتی بلکہ میاںبیوی دونوں کی الگ الگ قربانی ہوگی۔
٭  اگربیوی کامہرمؤجل ہے جوشوہرنے ابھی تک نہیں دیا اور وہ نصاب کے برابرہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے اور اگر مہرمعجل ہے اور بقدرنصاب یااس سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭  اگرمشترک کاروبارکی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرنصاب ہوتوسب پر واجب ہوگی ۔
٭  اگرکاشت کارکسان کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت سے زائد اتنے جانورہوں جوبقدرنصاب ہوں تواس پر قربانی ہوگی ۔
٭  :اگرکسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کیلئے کتابیں رکھی ہیں تواگروہ خودتعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت بقدرنصاب ہے تواس پرقربانی واجب ہے اور اگروہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی واجب نہیںہوگی۔ 
قربانی نہ کرنے والوں پروعید:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلایقربن مصلانا‘‘ ترجمہ:’’جوشخص وسعت کے باوجودقربانی نہ کرے ،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳) آپ کے اس فرمان سے کس قدر ناراضگی ٹپکتی ہے۔ کیاکوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سہارسکتا ہے ؟اوریہ ناراضگی اسی سے ہے جوگنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قربانی کے ایام میں جانور ہی ذبح کرناضروری ہے۔قربانی کے بجائے اس کی رقم کاصدقہ کرنااس کابدل اورکافی نہیں۔ایساکرنے پرذمہ سے واجب ساقط نہ ہوگا۔
قربانی کئے جانے والے جانور:
بھیڑ،بکری ،گائے ،بھینس اور اونٹ قربانی کے لیے ذبح کئے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتاہے:آٹھ جانورہیں دوبھیڑوں میں سے اوردوبکریوں میں سے ،دو اونٹوں میں سے اور دوگائیوں میں سے (سورہ انعام:۱۴۳)بھینس گائے کے درجہ میں ہے اس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔(کتاب الاجماع لابن منذرص:۳۷)حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث:۱۰۸۴۸) اسی طرح سفیان ثوری کاقول ہے:بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیاجائے گا۔(مصنف عبدالرزاق حدیث:۶۸۸۱) امام مالک بن انس فرماتے ہیں:یہ بھینس گائے ہی کے حکم میں ہے۔(مؤطاامام مالک،باب ماجاء فی صدقۃ البقر،ص:۲۹۴) 
غیرمقلدین کاموقف ہے کہ بھینس کی قربانی کرناصحیح نہیں ،اس لیے کہ یہ عرب میں نہیںپائی جاتی تھی۔(فقہ الحدیث ازافاداتناصرالدین البانی:۲؍۴۷۵)مگریہ بات صحیح نہیں ہے ؛اس لیے کہ بھینس اگرچہ موجودنہ تھی لیکن باجماع امت اسے گائے کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے گائے والا حکم دے دیا گیا جیساکہ زکوۃ کے مسئلہ میں اسے گائے کے ساتھ شامل کردیاگیاہے۔نیزیہ کہ اگربھینس کی قربانی نہ کرنے کی یہی دلیل ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں نہیں پائی جاتی تھی تو اس دلیل کے مطابق اس کاگوشت،دودھ، مکھن ،کھال وغیرہ کااستعمال بھی جائز نہیں ہوناچاہئے کیوں کہ یہ دور نبوت میں عرب ممالک میں نہیں پائی جاتی تھی،حالاں کہ غیرمقلدین بھی ایسانہیں کہتے ہیں توپھراس کی قربانی کیوں کرجائز نہیں ہوگی۔
غیرمقلدین کے یہاں گھوڑے کی قربانی بھی جائز ہے ۔(فتاوی ستاریہ:۱؍۱۴۹)وہ حضرت اسماء بنت ابوبکرکی روایت کو دلیل بناتے ہیں کہ روایت میں لفظ’’نحرنا‘‘ہے جوقربانی کے معنی میں ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓنے فرمایا:’’ نحرنا علی عھد  النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرساً فأکلناہ۔‘‘ ترجمہ: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑے کو ذبح کیا اور اس کاگوشت کھایا۔(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید؛باب النحروالذبح) حالاں کہ یہ دلیل تب بنے گی جب ’’نحرنا‘‘ بمعنی ’’نسکنا‘‘ ہو جبکہ حدیث میںنحرنا ’’ذبحنافرسا‘‘ کے معنی میں ہے جس کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں ’’ذبحنا‘‘ کالفظ صراحتا موجود ہے۔چنانچہ صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۱۱ کے الفاظ ہیں:عن اسماء قالت ذبحنا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرسا ونحن بالمدینۃ فأکلناہ۔یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ہم نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر:۳۰۲کی روایت ہے:عن اسماء بنت ابی بکرقالت ذبحنا فرسا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأکلناہ یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ فرماتی ہیں :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑاذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح کنزالعمال کی روایت میں بھی ذبحنا کالفظ ہے۔دوسری بات یہ کہ جن احادیث سے گھوڑے کاگوشت کھانے کاجواز معلوم ہوتا ہے وہ سبھی احادیث منسوخ ہیں ۔اس لیے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اکل لحوم الخیل والبغال والحمیر۔زاد حَیْوَۃُ۔ و کل ذی ناب من السباغ۔ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچراور گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا۔حیوہ(راوی) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں کاگوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔(سنن ابوداود:کتاب الاطعمۃ ؛باب فی اکل لحوم الخیل) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خیبرکے دن لوگوں کو بھوک نے ستایاتوانہوں نے گھریلوگدھوں کو پکڑا اور ذبح کیا اور ان سے ہانڈیوں کو بھردیا جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی توآپؐ نے ہمیں حکم دیا توہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو گرادیا ۔آپؐ نے فرمایا :اللہ تعالی اس سے زیادہ حلال اور پاکیزہ رزق عطافرمائیں گے ،چنانچہ ہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو جوش مارنے کی حالت میں گرادیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں، گھوڑوں، خچروں کے گوشت، کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں ،پنجوں کے ساتھ کھانے والے پرندوں، باندھ کر نشانہ بنائے گئے جانور، درندے کے ہاتھوں چھڑائے گئے جانور جو ذبح سے پہلے ہی مرجائے اور (کسی درندے کے ہاتھوں ) اچکے ہوئے جانور کے گوشت کوحرام قراردیا۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی :۸؍۶۹، المعجم الاوسط لطبرانی :۴؍۹۳،رقم:۳۶۹۲)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گھوڑے کے گوشت کو مکروہ (اور ناجائز) کہتے تھے اور دلیل میں قرآن پاک کی یہ آیت ’’والخیل والبغال والحمیرلترکبوھاوزینۃ‘‘ پیش کرتے تھے۔(احکام القرآن للجصاص :۳؍۲۷۰من سورۃ النحل)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کودلیل بناتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ان تین چیزوں (گھوڑا،خچراور گدھا) کاذکراللہ تعالی کی نعمتوں کے ضمن میں ہوا ہے ،کسی جانور کاسب سے بڑا فائدہ اس کاگوشت کھاناہے ۔حکیم ذات احسان کاذکر کرتے ہوئے کبھی بھی اعلی نعمتوں کوچھوڑ کر ادنی نعمت کاتذکرہ نہیں کرتی۔(اور یہاں اعلی فائدہ ’گوشت کھانا‘ چھوڑ کر ادنی فائدہ ’سواری کرنا‘ کاذکر ہے جودلیل ہے کہ اگر گھوڑے کاگوشت کھاناجائز ہوتا تو اللہ تعالی ضرور ذکر فرماتے )اسی لیے فقہائے کرام نے بھی گھوڑے کے گوشت کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔چنانچہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام اوزاعی گھوڑے کے گوشت کو مکروہ جانتے تھے ۔یہی قول امام مجاہد، امام ابوبکر الاصم اور امام حسن بصری سے بھی منقول ہے۔توجب گھوڑا کوذبح کرکے اس کاگوشت کھانا جائز ہی نہیں ہے تو گھوڑے کی قربانی کیسے جائز ہوگی۔’’نیزثمانیۃ ازواج‘‘ کی وضاحت قرآن نے جن جانوروں سے کی ہے ان میں گھوڑاشامل نہیں ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر:
اونٹ کی عمرکم ازکم پانچ سال ۔گائے ،بیل ،بھینس کی عمرکم ازکم دوسال۔بکری، بکرا،بھیڑ،دنبہ کی عمرکم ازکم ایک سال ۔البتہ چھ ماہ کا دنبہ اتنافربہ ہو کہ ایک سال کالگتاہوتوسال سے کم ہونے کے باوجود اس کی قربانی جائز ہے ۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قربانی کے لیے عمروالاجانورذبح کرو،ہاں اگرایساجانور میسرنہ ہوتو پھر چھ ماہ کادنبہ ذبح کروجوسال کالگتاہو۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:۱۹۶۳،باب سن الاضحیۃ،ابوداودحدیث :۲۷۹۷،اعلاء السنن) حدیث میں دوباتیں قابل غورہیں:پہلی بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانورکے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایاہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’علماء  فرماتے ہیں کہ  ’’مسنہ ‘‘ سے مراد  اونٹ، گائے اور بکری میں ’’الثنی ‘‘ ہے۔ (شرح مسلم للنوی:۲؍۱۵۵) اور فقہائے کرام کے یہاں ثنی سے مراد یہ ہے کہ بھیڑ بکری،ایک سال کی ہو، گائے اور بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کاہو۔(فتاوی عالمگیری:۵؍۲۹۷، کتاب الاضحیۃ ؛الباب الخامس) دوسری بات یہ کہ حدیث میں مسنہ کے متبادل ’’ جذعۃ من الضأن ‘‘ کاحکم فرمایااس سے مراد وہ دنبہ ہے جوچھ ماہ کاہو مگردیکھنے میں ایک سال کالگتاہو۔چنانچہ علامہ نجیم فرماتے ہیں:’’ حضرات فقہاء فرماتے ہیں اس سے مراد وہ دنبہ ہے جواتنابڑا اگراس کو سال والے دنبوں میں ملادیاجائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ ) وہ ہے جوچھ ماہ مکمل کرچکا ہو۔(البحرالرائق:۸؍۲۰۲،کتاب الاضحیۃ)یہ حکم صرف بھیڑاور دنبہ میں ہے ،بکری یاگائے ،بھینس اور اونٹ کے لیے نہیں کیوں کہ حدیث پاک میں صرف اسی کی اجازت ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ عمرکے مکمل ہونے کااطمینان ضروری ہے ،دانتوں کاہوناضروری نہیں۔ (احسن الفتاوی:۷؍۵۲۰)غیرمقلدین کے یہاں مدارعمرنہیں بلکہ دانتا ہوناشرط ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ازعبداللہ غیرمقلد:۲؍۳۹۲)غیرمقلدین کاکہناہے کہ حدیث میں مسنہ لفظ آیاہے جوثنی سے ہے اور لغت میں ثنی کے معنی دو دانتوں کے ہیں،لہذاایساجانورجس کے دو دانت گرگئے ہوں مراد ہے ۔حالاں کہ مسنہ کامعنی لغت میں دو دانتابھی ہے اور عمروالابھی۔اور یہ مسئلہ چوں کہ شریعت کاہے اس لیے لغت کاوہ معنی مرادلیں گے جواصحاب شرع نے لیاہے اوروہ فقہاء ہیں۔امام ترمذی فرماتے ہیں: و کذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی،کتاب الجنائزباب غسل المیت:۱؍۱۹۳)ترجمہ:اورفقہاء حدیث کامعنی زیادہ جانتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جذع سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمروالاجانور ہے۔ مسنہ کے متبادل عمر کے اعتبار سے جانور کاتعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ کی بنیاد عمرہے نہ کہ دانت گرنا۔
قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
بکرا،بکری ،بھیڑ یادنبہ کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیاکہ مجھ پر ایک بڑ اجانور (اونٹ یاگائے) واجب ہوچکا ہے اورمیں مالدار ہوں اور مجھے بڑا جانور نہیں مل رہا ہے کہ میں اسے خرید لوں (لہذا اب کیاکروں؟) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سات بکریاں خرید لو اور انہیں ذبح کرلو۔اس حدیث میں آپ نے بڑے جانور کو سات بکریوں کے برابر شمار کیا اور بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیںاس سے زیادہ نہیں ۔معلوم ہواکہ ایک بکری یاایک دنبہ کی قربانی ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے جائز نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے(اعلاء السنن:باب ان البدنۃ عن سبعۃ)اور اونٹ ،گائے یا بھینس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کااحرام باندھ کر نکلے تو آپ نے حکم دیاکہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں۔(مسلم حدیث :۱۳۱۸باب: الاشتراک فی الھدی)نیز حضرت جابررضٓی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی،چنانچہ اونٹ ۷ آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی ۷ آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔(مسلم  حدیث نمبر:۱۳۱۸،ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۲،ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۳۲)
ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے کافی نہیں:
غیرمقلدین کامانناہے کہ ایک بکری میں سارے گھروالے شریک ہوسکتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ توآپ ؓ نے جواب دیا: آدمی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کیاکرتا تھا ،پھر سارے گھروالے اسے کھاتے تھے اور (دوسروں کوبھی) کھلاتے تھے،یہاں تک کہ لوگ دکھاوے اور فخر میں مبتلاہوگئے اور وہ کچھ ہونے لگا جوتم دیکھ رہے ہو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۵،باب ماجاء ان الشاۃ تجزی عن اھل البیت) حالاں کہ حدیث میں مراد اشتراک فی اللحم ہے یعنی ذبح توایک آدمی کرتاتھاجس پر قربانی واجب ہوتی تھی اور اس کاگوشت سارے گھروالے کھاتے تھے، چنانچہ امام محمد شیبانی ؒ فرماتے ہیں:’’ایک شخص محتاج ہوتا تھا توایک ہی بکری ذبح کرتا،قربانی تواپنی طرف سے کرتا لیکن کھانے میں اپنے ساتھ گھروالوں کوبھی شریک کرتاتھا۔جہاں تک ایک بکری کامعاملہ ہے تو وہ دویاتین آدمیوں کی طرف سے کفایت نہیں کرتی بلکہ صرف ایک شخص کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔‘‘(مؤطا الامام محمد:ص۲۸۲،باب مایجزی ٔ من الضحایا عن اکثرمن واجد)مولاناعبدالحی لکھنوی اس ذیل میں لکھتے ہیں:’’اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو گوشت کی ضرورت ہوتی یاوہ فقیر ہوتا اور قربانی اس پرواجب نہیں ہوتی تو وہ اپنی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اپنے گھروالوں کو گوشت کھلاتا یاگھروالوں کو ثواب میں شریک کرتا اور یہ جائز ہے۔باقی رہا واجب قربانی کی صورت میں ایک بکری میں اشتراک تویہ جائز نہیں۔‘‘(التعلیق الممجدعلی موطاالامام محمد:ص۲۸۲)جبکہ مولاناظفراحمدعثمانی تھانوی ؒ تفصیل سے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ جہاں تک حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے فرمان کہ’’ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بکری اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرتا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے فخر کرناشروع کردیا۔‘‘ اور ابوسریحہ کے فرمان کہ ’’گھروالے ایک یادو بکریاں ذبح کرتے تھے اور اب اپنے پڑوسیوں سے بھی بخل کرتے ہیں‘‘ کاتعلق ہے تویہ ہماری دلیلیں ہیں ،ہمارے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالدار پراپنی اولاد اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے بلکہ (ہمارادعوی ہے کہ) اس پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے اور یہی ابوایوب انصاری ؓ اور ابوسریحہ کی مراد ہے کہ مالدار آدمی اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے قربانی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اپنے گھروالوں کی طرف سے کرتا تھا حتی کہ لوگوں نے فخرکرناشروع کردیا ۔اسی وجہ سے تو ابوسریحہ نے کہاکہ ایک گھروالے ایک یادوبکریاں ذبح کرتے تھے۔اگریہ بات مشترک قربانی کے لیے ہوتی توایک بکری سے زیادہ ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں (کیوں کہ اس صورت میں ایک بکری کفایت کرجاتی) لیکن مالدار تو صرف گھرکاسربراہ ہوتاہے ۔اس وقت چوں کہ گھرکے سربراہ ایک یادوہوتے تھے اسی وجہ سے گھروالے ایک یادوبکریوں کی قربانی کرتے تھے اور وہ اپنے چھوٹوں اور بڑے فقراء کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگ اس میں فخر کرنے لگے ۔تو اس صورت میں ایک بکری کے پورے گھروالوں کی طرف سے کافی ہونے پرکوئی دلیل نہیں جب کہ سارے گھروالے مالدار ہوں۔خوب سمجھ لو۔(اعلاء السنن:۱۷؍۲۱۱)مولاناالیاس گھمن فرماتے ہیں: یہ ایسے ہے جیسے ایک گھرانے میں ایک آدمی نے قربانی کی ہوتی ہے اور ہمارے عرف میں کہہ دیاجاتا ہے کہ ’’فلاں گھرانے نے قربانی کی ہے‘‘ تو پورے گھر کی طرف نسبت کرناعرف کے اعتبارسے ہے نہ کہ ایک بکری کے گھرانے کی طرف سے کفایت کرنے کے اعتبارسے۔ اس پر قرائن یہ ہیں:(الف) اہل بیت میں تو نابالغ بچے بھی شامل ہیں جن پر قربانی واجب نہیں ہوتی۔ (ب) بیوی بھی اگرصاحب نصاب ہوتواس پر زکوۃ الگ سے فرض ہوتی ہے جودلیل ہے کہ ایک کافرض دوسرے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا یہی حال گھرمیں موجود بالغ بیٹوں اور بیٹیوں کاہے۔(ج) گائے اور اونٹ میں سات افراد کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بکری ایک فرد کی طرف سے ہی کفایت کرتی ہے توجس طرح بڑے جانور میں ساتواں حصہ ایک کی جانب سے ہوتا ہے اس طرح ایک بکری ایک ہی طرف سے ہوتی ہے۔(د) خود اس روایت میں ذبح کے بعد ’’یاکلون‘‘کہنابھی اس بات کاقرینہ ہے کہ صحابی کی مراد اشتراک سے اشتراک فی اکل ہے نہ کہ اشتراک فی اداء الواجب۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کادوسراجواب یہ ہے کہ اس سے مراد نفلی قربانی ہے ۔نفلی قربانی انسان اپنی طرف سے کرتا ہے لیکن ثواب میں دوسروں کوشریک کرتا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی قربانی میں امت کو شریک کیاہے۔عبدالرحمن بن سابط سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوموٹے تازے مینڈھے ذبح کیے،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ہر اس شخص کی جانب سے جس نے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھاہو۔(کتاب الآثار بروایت محمدحدیث نمبر:۷۹۰،باب الاضحیۃ)علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ واماماروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بشاۃ عن امتہ فانما کانت تطوعا۔‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جومروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری امت کی طرف سے ذبح کی تھی تویہ نفلی قربانی تھی۔(عمدۃ القاری ،کتاب الحج:۷؍۲۸۷)  مولاناخلیل احمدسہارنپوری فرماتے ہیں:’’انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انما فعل ذلک لأجل الثواب وھو انہ جعل ثواب تضحیۃ بشاۃ واحدۃ لامتہ لا للاجزاء وسقوط التعبد عنھم۔ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقربانی کی تھی وہ ثواب کے لیے کی تھی ،اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک بکری کاثواب امت کوپہنچایا تھا ایسانہیں تھا کہ ان کی طرف سے قربانی کی کفایت اوران سے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کی تھی۔(بذل المجہودشرح ابوداودکتاب الضحایا ،باب فی الشاۃ یضحی بھاعن جماعۃ:۴؍۷۶)
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں کیوں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کاموقع آگیا ،توہم نے گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمیوں کے حساب سے شرکت کی۔ حالاں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث متروک ہے اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث معمول بہ ہے جو پہلے بیان کی جاچکی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم‘‘۔ یعنی اسی پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کاعمل ہے۔(ترمذی:۱؍۲۷۶) باب ماجاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت) اوریہ ضابطہ ہے کہ :’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو حدیثیں مروی ہوں اور دونوں میںاختلاف ہو تو دیکھاجائے گا کہ جس پر صحابہ نے عمل کیاہواسے لیا جائے گا۔(سنن ابوداود،باب لحم الصیدللمحرم،باب من لایقطع الصلوۃ شیء)نیزمحدثین کی عادت ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کو لاتے ہیں جوان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں پھرناسخ ۔امام نووی نے یہ بات ذکرکی ہے (شرح نووی:۱؍۱۵۶باب الوضوع ممامست النار) اس لحاظ سے دیکھاجائے تو امام ترمذی نے پہلے عبداللہ بن عباس کی حدیث نقل کی ہے اور اس کے بعد حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث نقل کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کی حدیث منسوخ ہے۔نیز یہ کہ ابن عباسؓ کی حدیث فعلی اور حضرت جابرؓکی حدیث قولی ہے اور حدیث قولی کو حدیث فعلی پر ترجیح ہوتی ہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’انہ تعارض القول والفعل ،و الصحیح حینئذ عند الاصولیین ترجیح القول‘‘یعنی یہاں قول اورفعل میں تعارض ہے اور اصولین کے نزدیک اس وقت ترجیح قول کوہوتی ہے۔(شرح مسلم للنووی:باب تحریم نکاح المحرم)
قربانی کاوقت:
قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے نمازعید اداکرنے کے بعد اوردیہات والوں کے لیے جن پر نمازجمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہترہے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ہمارے اس عید کے دن سب سے پہلاکام یہ ہے کہ ہم نمازپڑھیں پھرواپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پرعمل کیا یعنی عید کے بعدقربانی کی تو اس نے ہمارے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تووہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھروالوں کے لیے تیارکیاہے ،اس کاقربانی سے کوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری حدیث:۵۵۶۰،کتاب الاضاحی باب :الذبح بعدالصلوٰۃ،مسنداحمد حدیث نمبر:۱۸۴۸۱،۱۸۶۹۳)اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایاہے ۔دیہات میں چوں کہ عید کی نماز کا حکم نہیں ہے اس لیے وہاں اس شرط کاوجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا ۔وہاں قربانی کے وقت کاشروع ہوناہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہوجاتاہے۔
قربانی کے ایام :
قربانی کے تین دن ہیں :۱۰،۱۱،۱۲؍ذی الحجہ۔
حضرت عبداللہ بن عبا س ؓفرماتے ہیں کہ قربانی کے دن دس ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دودن ہیں البتہ یوم النحر(دس ذی الحجہ )کو قربانی کرنا  افضل ہے۔(احکام القرآن لابی جعفرالطحاوی۲؍۲۰۵)٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ قرآن کی آیت :’’ویذکروااسم اللہ فی ایام معلومات ‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ ’’ایام معلومات‘‘ سے مرادیوم نحراور اس کے بعددودن ہیں۔(تفسیرابن ابی حاتم الرازی:۶؍۲۶۱)٭قال علی رضی اللہ عنہ :النحر ثلاثۃ ایام ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تین ہیں۔(احکام القرآن للطحاوی :۲؍۲۰۵،موطامالک:ص ۴۹۷،کتاب الضحایا) ٭حضرت سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ضحی منکم ،فلایصبحن بعد ثالثۃ وفی بیتہ منہ شی ء‘‘ یعنی جوشخص قربانی کرے توتیسرے دن کے بعد اس کے گھرمیں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۶۹،باب مایوکل من لحوم الاضاحی)اس حدیث سے بھی معلوم ہواکہ قربانی کے دن تین ہی ہیں کیوں کہ جب چوتھے دن قربانی کابچاہواگوشت رکھنے کی اجازت نہیں توپوراجانورقربان کرنے کی اجازت کیوں کرہوگی؟
یہاں یہ بات یادرہے کہ تین دن کے بعد قربانی کاگوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ۔(مستدرک حاکم:۲؍۲۵۹) تاہم اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی توتین دن بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھاجاسکتاہے توکیاقربانی کی بھی اجازت پورے سال ہوگی ؟ہرگزنہیں،توتین دن بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اورنہ اب ہے۔
حضورؐ یاکسی صحابی سے۱۳؍ذی الحجہ کوقربانی کرناثابت نہیں:
بعض علماء اورغیرمقلدین نے مسنداحمد کی حدیث :’’کل ایام التشریق ذبح‘‘ کی بنیاد پر فرمایاکہ ۱۳ذوالحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے؛لیکن ائمہ ثلاثہ حضرت امام ابوحنیفہؒ،حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میںفرمایاہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔امام احمد بن حنبل ؒ نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے سلسلے میں وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،نیز اس  طرح کی دیگر روایتیں بھی ضعیف ہیںاور اصول ہے کہ ضعیف حدیث سے حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔احتیاط کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی صرف تین دن تک ہی محدود رکھاجائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳؍ذوالحجہ کو قربانی کرناثابت نہیں ہے۔
یہاں پر ایک اشکال یہ رہ جاتا ہے کہ اگرتیرہ ذی الحجہ قربانی کادن نہیں توپھر اس میں روزہ رکھناجائز کیوںنہیں ؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ روزہ جائز ہوناچاہئے کیوں کہ وہ قربانی کادن نہیں ہے ؛لیکن ہم نے عقل کوحدیث پاک کی وجہ سے چھوڑدیا ۔کیوں کہ احادیث مبارکہ میں ایام تشریق کو کھانے ،پینے اور جماع کے ایام فرمایاگیا نہ کہ ذبح اورقربانی کے۔
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایام تشریق کھانے اور پینے کے ہیں۔(مسلم حدیث:۱۱۴۱، باب: تحریم صوم ایام التشریق)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کادن،قربانی کادن اور ایام تشریق اہل اسلام کی عید کے دن اور کھانے پینے کے دن ہیں۔(ترمذی حدیث:۷۷۳، باب ماجاء فی کراھیۃ الصوم فی ایام التشریق)حضرت زیدبن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں ایک صحابی کوحکم فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کرو ،سنو! یہ دن کھانے ،پینے اور ہمبستری کرنے کے ہیں۔(اتحاف الخیرۃ لامام بوصیری،باب النھی عن صوم ایام التشریق)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے دنوں میں حکم فرمایا کہ میں لوگوں میں اعلان کروں :کہ ایام تشریق کھانے،پینے اور جماع کے دن ہیں ؛اس لیے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھنا۔(شرح معانی الآثارللطحاوی ،باب المتمتع الذی لایجدھدیاولایصوم فی العشر)
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے کہ ہم (قربانی کے جانورکے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیاہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یاپچھلی طرف سے کٹاہواہواورنہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔(سنن ترمذی،ابوداو،نسائی)ان جیسی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
۱۔ لنگڑاجانورجس کالنگڑاپن اتناظاہرہوکہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔۲۔ اندھایاایساکانا جس کاکاناپن ظاہر ہو۔۳۔ ایسا بیمارجس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔۴۔ ایسادبلا اورمریل جانورجس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو ۵۔ جس کی پیدائشی دم نہ ہو ۶۔جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔۷۔ جس کادم یاکان کاایک تہائی یااس سے زیادہ حصہ کٹاہو۸۔ جس کوپیدائشی طورپرتھن نہ ہو۔۹۔ دنبہ ،بکری ، بھیڑ کاایک تھن نہ ہو یامرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یاکسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو ۔۱۰۔ گائے، بھینس ، اونٹنی کے دوتھن نہ ہو ں یاخشک ہوگئے ہوں یاکسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں۔۱۱۔ آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی چلی گئی ہو ۔۱۲۔ جس کے دانت بالکل نہ ہوںیااکثرگرگئے ہوں یاایسے گھس گئے ہوں کہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۳۔ جس کاایک یادونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائے۔۱۴۔ جسے جنون کامرض اس حدتک ہوکہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۵۔ خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزورہو۔ ۱۶۔ جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔  ۱۷۔ جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یاایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔  ۱۸۔ جس کے تھن کا تہائی یااس سے زیادہ حصہ کاٹ دیاگیاہو۔ ۱۹۔ بھیڑ بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔  ۲۰۔ جس اونٹنی یاگائے بھینس کی دو گھنڈیا جاتی رہی ہوں۔ ۲۱۔ جس گائے یابھینس کی پوری زبان یاتہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۲۔ جلالہ یعنی جس کی غذانجاست وگندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔ ۲۳۔ جس کا ایک پاوں کٹ گیاہو۔ ۲۴۔ خنثی جانور جس میں نراور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ ۲۵۔ کسی جانور کے اعضا زائد ہوں مثلا چارکے بجائے پانچ ٹانگیں یاچارکے بجائے آٹھ تھن توچوں کہ یہ عیب ہے اس لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ البتہ جس جانور کاپیدائشی طورپر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ (قربانی کے فضائل ومسائل  :مفتی احمدممتاز)
جن جانوروں کی قربانی بہترنہیں:
۱۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔ ۲۔ جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کااثر جڑ تک نہیں پہنچاہو۔ ۳۔ وہ جانور جوجفتی پرقادرنہ ہو۔ ۴۔ جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔ ۵۔ بچے والی ہو۔ ۶۔ جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔ ۷۔ جسے داغا گیاہو۔ ۸۔ وہ بھیڑبکری جس کی دم پیدائشی طورپر بہت چھوٹی ہو۔ ۹۔ جس کے تھنوں میں بغیرکسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتاہو۔ ۱۰۔ ایسا کانا جس کاکاناپن پوری طرح واضح نہ ہو۔ ۱۱۔ ایسا لنگڑا جوچلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پاوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مددلیتاہو۔ ۱۲۔ جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔ ۱۳۔ جس کاکان یادم یاآنکھ کی روشنی کاتہائی سے کم حصہ جاتارہاہو۔ ۱۴۔ جس کے کچھ دانت نہ ہوں مگر وہ چاراکھاسکتاہو۔ ۱۵۔ جس کاجنون اس حدتک نہ پہنچاہو کہ چارانہ کھاسکے۔ ۱۶۔ ایسا خارشی جانور جوفربہ اور موٹاتازہ ہو۔ ۱۷۔ جس کاکان چیردیاگیاہو یاتہائی سے کم کاٹ دیاگیا ہو۔اگردونوں کانوں کاکچھ حصہ کاٹ لیاگیا ہو تو اگرمجموعہ تہائی کان کے مساوی یااس سے زیادہ ہوجائے توقربانی جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔ ۱۸۔ بھینگاجانور، ۱۹۔ وہ بھیڑ دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۰۔ وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارا آسانی سے کھاسکے۔ ۲۱۔ جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چاراکھلایاجائے ۔۲۲۔ وہ دبلا اور کمزور جانور جوبہت کمزور اور لاغرنہ ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:قال القھستانی واعلم ان الکل لایخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرۃ فما جوز ھھنا مع الکراھۃ کما فی المضمرات۔(ردالمحتار:۶؍۳۲۳)یاد رہے کہ گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلاکراہت جائز ہے ۔اور خصی کی قربانی جائزہی نہیں بلکہ افضل ہے۔ (فتاوی ہندیہ۔اعلاء السنن)
خصی جانورکی قربانی:
خصی جانورکی قربانی کرناجائز ہے بلکہ فقہاء توفرماتے ہیں کہ افضل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دو سینگوں والے،موٹے تازے خصی مینڈھوں کوذبح فرمایا۔(سنن ابی داود،باب مایستحب من الضحایا) اس کی وجہ یہ ہے کہ خصی جانور کاگوشت لذیذ اور صاف ہوتا ہے۔ فقیہ عبدالرحمن بن محمد بن سلیمان ؒ لکھتے ہیں:’’ وعن الامام أن الخصی أولی لأن لحمہ ألذ وأطیب‘‘ ترجمہ: امام ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرناافضل ہے ،اس لیے کہ خصی کاگوشت لذیذ اور اچھا ہوتاہے۔(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر:۴؍۱۷۱کتاب الاضحیۃ)
قربانی کے ساتھ عقیقہ کاحصہ :
قربانی کے جانورمیں عقیقہ کاحصہ رکھناجائز ہے۔علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:’’شرکاء میں سے بعض کا ارادہ اپنے بچوں کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ہو تو یہ جائز ہے۔(بدائع الصنائع:۴؍۲۰۹) اس لیے کہ عقیقہ بھی ایک مشروع قربانی ہے البتہ واجب نہیں ۔ حدیث پاک میںقربانی کی طرح عقیقہ کے لیے بھی ’’نسک ‘‘اور ’’اہراق دم ‘‘کالفظ استعمال ہوا ہے ۔ سنن ابوداود (کتاب الضحایا ،باب فی العقیقہ )میں روایت ہے:’’من ولد لہ ولد فاحب ان ینسک عنہ فلینسک‘‘ ترجمہ: جس کابچہ پیداہواور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرناچاہے توذبح کرلے۔اورصحیح بخاری کی روایت ہے :’’مع الغلام عقیقۃ فأھریقوا عنہ دما وامیطوا عنہ الأذی‘‘(بخاری رقم الحدیث:۵۴۷۱،عن سلمان بن عامر)
اس مشابہت سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کی صفات،عمر،مقدار،شرائط اوراحکام کے متعلق جوحکم قربانی کاہے وہی حکم عقیقہ کاہے۔اوربڑے جانور میں سات حصے ہوسکتے ہیں اس لیے ایک بڑے جانور میں عقیقہ کے حصے بھی ہوسکتے ہیں۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیداہو تو وہ اس کی جانب سے اونٹ،گائے یابکری ذبح کرے۔(معجم صغیرطبرانی:۱؍۱۵۰)یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک صحیح السند موقوف روایت سے بھی ہوتی ہے۔حضرت قیادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کی طرف سے بڑا جانور ذبح کرتے تھے۔(معجم کبیرطبرانی:۱؍۱۸۷) البتہ گائے ،بھینس اوراونٹ کی بجائے بکری بکرابہتراورافضل ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقیقہ میں گائے اور اونٹ کافی نہیں ،اس لیے کہ عبدالرحمن بن ابوبکرکے یہاں بچہ پیداہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا:یاام المومنین عقی علیہ اوقال عنہ جزورا فقالت : معاذ اللہ ولکن ّ ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاتان مکافأتان۔(سنن بیہقی :۹؍۳۰۱)یعنی ام المومنین ہم اس کی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں۔اس پر انہوں نے کہا:معاذ اللہ (ہم وہ ذبح کریں گے ) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے (لڑکے کی طرف سے ) ایک جیسی دوبکریاں۔مگریہ کم فہمی کانتیجہ ہے۔ اس میں معاذ اللہ کہنے سے مراد بڑے جانور کی نفی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ بکری ذبح کرنا افضل ہے۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ: نذرت امرأۃ من آل عبدالرحمن بن أبی بکر ان ولدت امرأۃ ُ عبدالرحمن نحرناجزوراً فقالت عائشۃرضی اللہ عنھا لا بل السنۃ افضل عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاہ۔(مستدرک حاکم رقم الحدیث:۷۶۶۹) ترجمہ: عبدالرحمن بن ابوبکر کے گھروالوں نے نذرمانی کہ اگربچہ پیدا ہواتو اس کے عقیقہ کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کریں گے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ نہیں سنت (پرعمل کرنا) افضل ہے اور یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جاتی ہے۔
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہواکہ عقیقہ بڑے جانور کاکرناجائز ہے اگرچہ افضل بکرایابکری کاعقیقہ کرناہے۔
کیاقربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے؟
اللہ کایہ نظام ہے کہ انسانوں یاجانوروں کوجس چیزکی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے ،اس کی پیداواراتنی بڑھادیتے ہیںاورجس چیزکی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداواربھی اتنی ہی کم ہوجاتی ہے۔آپ پوری دنیاکاسروے کریں اورجائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم حکم پرعمل کیاجاتاہے ،کیاان ممالک میں قربانی والے جانورناپیدہوچکے ہیں ؟آپ کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیاسے حلال جانور ختم ہوگئے ہیں یااتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کوقربانی کرنے کے لیے جانورہی میسرنہیں آئے ،جب کہ اس کے برعکس کتے اور بلیوں کودیکھ لیں ،ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے ؟ان کی تعدادبمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظرآتی ہے،حالاں کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت(وماانفقتم من شیء فھویخلفہ) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:’’اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جوچیز خرچ کرتے ہواللہ تعالی اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کابدل دے دیتے ہیں؛کبھی دنیامیں کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں،کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کامشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ،انسان اور جانوراس کوبے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کوسیراب کرتے ہیں ،وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہوجاتاہے،اسی طرح زمین سے کنواں کھود کرجوپانی نکالاجاتا ہے ،اس کو جتنانکال کرخرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہوجاتاہے۔انسان غذاکھاکر بظاہر ختم کرلیتا ہے ؛مگراللہ تعالی اس کی جگہ دوسری غذا مہیاکردیتے ہیں،بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جواجزا تحلیل ہوجاتے ہیں ،ان کی جگہ دوسرے اجزا بدل بن جاتے ہیں ۔غرض انسان دنیا میں جوخرچ کرتا ہے اللہ تعالی کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں،کبھی سزادینے کے لیے یاکسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہوجانا اس ضابطہ الہیہ کے منافی نہیں ۔اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جواشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدافرمائی ہیں ،جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ،ان کابدل منجانب اللہ پیداہوتارہتا ہے ،جس چیزکاخرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی پیداواربھی بڑھادیتے ہیں ۔جانوروں میں بکرے اور گائے کاسب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کرکے گوشت کھایاجاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیاجاتا ہے ،وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ،اللہ تعالی اتنی ہی زیادہ اس کی پیداواربڑھادیتے ہیں،جس کاہرجگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہروقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ،کتے بلی کی تعداداتنی نہیں۔حالا ں کہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چارپانچ بچے تک پیداکرتے ہیں ،گائے بکری زیادہ سے زیادہ دوبچے دیتی ہے۔گائے بکری ہروقت ذبح ہوتی ہے،کتے بلی کوکوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛مگرپھربھی یہ مشاہدہ ناقابل انکارہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعدادبہ نسب کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ،اس وقت سے یہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے،ورنہ ہربستی اور ہرگھرگایوں سے بھراہوتاجوذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لیناکم کردیا ،وہاں اونٹوں کی پیداواربھی گھٹ گئی ،اس سے اس ملحدانہ شبہ کاازالہ ہوگیا ،جواحکام قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کااندیشہ پیش کرکے کیاجاتاہے۔‘‘ (معارف القرآن:سورۃ السباء:۳۹،۳۰۳؍۷)
حضرت مولاناسرفرازخاں صفدرصاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’منکرین قربانی نے اپنی عقل نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعم خود قربانی کے نقصانات اور ترک قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں،مثلا یہ کہاہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور لوگوںکی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ،اگریہ رقوم رفاہ عامہ کے کسی مفید کاموں میں صرف کی جائیں تو کیاہی اچھاہو،وغیرہ وغیرہ ،مگریہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی کے حکم کو محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کرردکیاجاسکتا ہے ؟ کیااس کوقربانی کاحکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟رب تعالی کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون ساایمان ہے ؟اور پھر جناب خاتم الانبیاحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قول وفعل اور امت مسلمہ کے عمل کو جوتواترسے ثابت ہوا ہے ،خلاف عقل یامضربتاناکون سادین ہے؟‘‘( مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی)
پوری دنیاخصوصامسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟
پوری دنیامیں خصوصا مسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں ،آئیے! ایک رپورٹ کے مطابق اس کابھی جائزہ لیتے ہیں:
 مسلم دنیاکاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک انڈونیشیاہے ،اس کی ساڑھے ۲۵کروڑآبادی میں سے ۱کروڑ۸لاکھ ۴۰ ہزار لوگ ہرسال قربانی کرتے ہیں۔پاکستان کی تقریبا۲۰کروڑآبادی میں سے ہرسال ۱کروڑ۲۲لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔بنگلہ دیش کی آبادی ۱۵کروڑ۱۴لاکھ میں سے ۸۰لاکھ ۷۲ہزاربنگالی ہرسال قربانی کرتے ہیں۔مصرکی آبادی ۸کروڑ۵لاکھ۲۴ہزارآبادی میں سے ۶۲لاکھ ۲۳ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ترکی کی آبادی ۷کروڑ۴۶لاکھ میںسے ۴۸لاکھ ۲۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ایران کی آبادی ۷کروڑ۳۸لاکھ اور۲۱لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔مراکو۳کروڑ۲۳لاکھ آبادی اور۸لاکھ ۴۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔عراق ۳کروڑ۱۱لاکھ آبادی اور ۴لاکھ ۷۲ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔الجیریا۳کروڑ۴۸لاکھ آبادی اور۴لاکھ۲۱ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سوڈان ۳کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۵۴ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سعودی عرب کی آبادی ۲کروڑ۵۴لاکھ ہے مگریہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے،تقریباایک کروڑ۵۰لاکھ ۳۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں ،البتہ سال رواں کروناوباکی وجہ کر فریضہ حج کی ادائیگی کومحدودکردیاہے ۔افغانستان ۲کروڑ۹۰لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۱۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ازبکستان ۲کروڑ۶۸لاکھ آبادی اور ایک لاکھ ۶۰ ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔شام ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اورایک لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔کویت کی ۵لاکھ آبادی اور۹۸ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ملائیشیاایک کروڑ۷۰لاکھ آبادی اور۹۵ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔تونیسیا ایک کروڑ۳۴لاکھ آبادی اور۸۷ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یمن ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۸۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یہ وہ بڑے بڑے مسلم ممالک ہیں جن میں قربانیوں کی تعداددوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے تاہم دیگرمسلم ممالک جیسے فلسطین،لیبیا،اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبا،تاجکستان، آذر بائجان،ترکمانستان،قارقستان،کرغستان،قطر،بحرین،عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں قربانی ہوتی ہے اسی طرح بھارت کے ۱۷کروڑمسلمانوں میں سے ایک کروڑسے زائدلوگ قربانی کرتے ہیں۔اب آپ درج بالاممالک میں قربانیوں کے اعدادوشمار کامجموعہ ملاحظہ کیجئے ۔یہ ۶کروڑ۲۰لاکھ ۹۳ہزار قربانی کرنے والے افرادبن جاتے ہیں ،اگراسدیگر تمام مسلم ممالک کے صرف ۵۰لاکھ اور بھارت کے مسلمانوں کو شامل کرلیاجائے تویہ مجموعہ ۷کروڑ۷۰لاکھ۹۳ہزار بن جاتا ہے۔ہم فرض کریں کہ یہ پونے ۸ کروڑ لوگ مل کر ۳کروڑجانورذبح کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں کسی ملک سے یہ خبرنہیں ملتی کہ حلال جانورختم ہوگئے یالوگوں کو قربانی کے جانورہی میسرنہیں آئے۔
قربانی سے معیشت تباہ نہیں بلکہ مستحکم ہوتی ہے:
قربانی پرایک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بقرعیدمیں کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں اس سے معیشت متاثر اور بربادہوتی ہے۔شریعت تومعیشت کو مضبوط کرتی ہے ،خراب نہیں کرتی ۔یہ کیساحکم شرعی ہے کہ جس سے معیشت خراب ہوتی ہے۔لہذاقربانی نہیں ہونی چاہئے۔توایسے افراد یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں جانور ذبح ہونے سے معیشت تباہ نہیں ہوتی بلکہ مستحکم ہوتی ہے۔ایک دن کونہ دیکھیں،ذرااس سے پیچھے جائیں ،پس منظراور احوال کودیکھیں،اندازاہوگا کہ صرف قربانی کی وجہ سے معیشت کتنی مستحکم ہوتی ہے۔٭ جانور پالنے ہوں گے۔بکرابکری ،بھیڑیادنبہ ہے تو ایک سال ،اونٹ ہے توپانچ سال اورگائے بھینس ہے تو دوسال، تومویشی پروری میں کتنے لوگ مصروف ہوں  گے۔٭چاراکاشت کرنایاخریدناہے توچارامنڈی میں آئے گا ،ٹرانسپورٹ استعمال ہوگا ،اس میں کتنے لوگ لگیں گے۔٭مویشی پروری کے لئے ملازم بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔٭ بڑے جانور کی قربانی سے پہلے اس کادودھ بھی ہے اور پھراس کی مصنوعات گھی، مکھن وغیرہ ۔٭ قربانی کے موقع پر جانورکامنڈی آنایادیہات سے شہرآنا ،اس میں بھی ٹرانسپورٹ اور افراد کاکام ہوگا۔ ٭جانور بیچنے کے نتیجے میں کس قدر زرمبادلہ ہوگا۔٭قربانی کاگوشت بنانے پر قصائی کواجرت ملے گی اور آلات کی بھی خریدوفروخت ہوگی۔٭قربانی کی کھال غریبوں یامدارس کو دیں تو انہیں بھی فائدہ ہوگا۔٭جانورکی کھال سے چمڑے کی مصنوعات تیارہوں گی ،اس سے کارخانے اور فیکٹریاں چلیں گی اوربزنس کے لئے لوگ میدان میں آئیں گے۔خلاصہ یہ کہ قربانی معاشی تباہی کاذریعہ نہیں ہے۔
فلاحی کام یاصدقہ قربانی کابدل نہیں :
بعض لوگ جواحکام شریعت کی فقہی حیثیت سے واقف نہیں یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ قربانی پرجووسائل خرچ ہوتے ہیں وہ کسی فلاحی کام، اسپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کئے جائیں تومعاشرہ کے غریب ومفلس طبقے کابھلاہوجائے ۔اس وقت مسلم طبقہ کو فلا حی کاموں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہمیں سمجھناچاہئے کہ یہ بات شریعت کی روح اور شارع کے فرمان کے خلاف ہے ۔حقیقی فلاح اللہ کاحکم پوراکرنے سے ملتی ہے ۔اوراللہ کے نزدیک ایام نحرمیں جانورکانذرانہ دینے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کاہی رہا۔آپ مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران ہرسال قربانی کرتے رہے ۔آپ ؐ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کایہی عمل رہا اور پھرپوری امت اس پر تواترکے ساتھ عمل کرتی رہی ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بقرعیدکے موقع پر جانور کی قربانی ہی واجب ہے۔اگرقربانی کے مقابلے فلاحی کاموں ،ا سپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبودپرخرچ موزوں اور ضروری ہوتا توعہدنبوی میں قربانی کے بجائے غریب ااور بدحال انسانیت پر خرچ کرنا ضروری قراردیاجاتاکیوں کہ عہدنبوی میں بھی غریب طبقے تھے اور امت پرآپ کی شفقت ومہربانی عیاں ہے؛ لیکن آپؐ نے تمام صورت حال کے باوجود اس موقع پر اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کاحکم دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس دن میں اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کاخون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کاکوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ (ترمذی ) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تو وہ بقرعید کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔(سنن دارقطنی:کتاب الاشربہ،باب الصیدوالذبائح)امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :قربانی کے ایام میں صدقہ کرنے کی بہ نسبت قربانی کرناافضل ہے۔امام ابوداود، امام ربیعہ وغیرہ کایہی مسلک ہے۔(المغنی لابن قدامہ:۹۶؍۱۱)امام نووی بھی فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں قربانی کرناہی افضل ہے نہ کہ صدقہ کرنااس لیے کہ اس دن قربانی کرناشعاراسلام ہے ،یہی مسلک سلف صالحین کاہے۔نیزقربانی کی روح فلاحی کاموں اور صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی کہ قربانی کی روح توجان دیناہے اور صدقہ کی روح مال دیناہے۔صدقہ کیلئے کوئی دن مقررنہیں اورقربانی کے لیے خاص دن مقررکیاگیاہے اور اس کانام بھی یوم االنحراور یوم الاضحی رکھاگیاہے۔
انہیں بنیادوں پر صاحب مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن قربانی کرنا یعنی خون بہانا متعین ہے ،اس عمل کو چھوڑکر جانورکی قیمت صدقہ کردینا کافی نہیں ہوگا،اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کاترک لازم آتا ہے ؛چنانچہ اہل ثروت پر قربانی کرناہی لازم ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح:۵؍۷۳)
فلاحی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے:
میری اس بحث کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے محتاجوں ،غریبوں اور ناداروں پرخرچ نہیں کرناچاہئے؛بلکہ ہمارامقصودبس اتناہے کہ ایام قربانی :۱۰ذوالحجہ سے لیکر۱۲ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑکر اس رقم کاصدقہ کرنا درست نہیں ہے۔ہاں جس شخص پر قربانی واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب نصاب کے لیے قربانی کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں یاسال کے دیگرایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا ایک مستحسن قدم اور بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے کہ غریب ومسکین کی خبرگیری اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے ؛لیکن قربانی ترک کرکے محض صدقہ وخیرات کو اس کابدل سمجھنادرست نہیں ہے۔فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر، انسانیت کی فلاح وبہبود کی خاطر خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوۃ،صدقہ فطر، عشر، کفارہ، نذر، میراث، ہدیے تحفے اور دیگر وجوبی صدقات وغیرہ کے نظام وضع کئے ہیں۔ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہناکرمطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نہ یہ کہ اسلام کے عظیم الشان حکم قربانی کے حکم کو مسخ کرکے اس کی روح کوفناکردیاجائے۔ہوناتویہ چاہئے تھا کہ معاشرے میں مروج طرح طرح کی رسومات وخرافات میں ضائع ہونے والی اربوں کھربوں کی مالیت کو کنٹرول کیاجائے ،نہ کے ایک فریضہ عبادت میں خرچ کرنے والے لوگوں کوبھی بہکاکراس سے روک دیاجائے۔
صاحب استطاعت کے لیے ہرحال میں قربانی لازم ہے:
قربانی ایک اہم عبادت اور اسلامی شعائر میں سے ہے۔اس کاثبوت قرآن وحدیث میں ہے جوپہلے بیان کیاجاچکاہے۔جوشخص ا قربانی کی گنجائش رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے متعلق حدیث میںسخت وعید بھی وارد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(حاکم،الترغیب:۲۵۶)نیزارشادرسول ہے کہ قربانی کے ایام میں کوئی عمل اللہ تعالی کوخون بہانے(قربانی) سے زیادہ پسندنہیںہے(ابن ماجہ ،ترمذی) لہذاہرعاقل ،بالغ ،مقیم ،صاحب نصاب مسلمان مردو عورت پر ایام قربانی میں جانورذبح کرنا واجب ہے۔اس لئے جب تک مقررہ وقت کے اندر قربانی کرنے کی قدرت اورامکان باقی ہو کوئی دوسراعمل قربانی کے بدلہ کافی نہیں۔قربانی کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔ 
جن لوگوں پر قربانی واجب ہواوروہاں قربانی کرنے میںکوئی قانونی رکاوٹ نہیںہوتووہاں جانورکی قربانی کرناہی واجب ہے۔اگر اپنے مقام پر قربانی نہیں کرسکتا؛لیکن دیہات یاکسی اورمقام پرقربانی کرسکتاہوتوضروری ہے کہ وہاں قربانی کرلے ۔اوراگراپنے شہریاصوبہ میں قربانی کرنے میں دشواری ہوتودوسری جگہ پرمعتبرافرادیااداروں کے ذریعہ قربانی کی ادائیگی کی فکرلازم ہے۔اگربالفرض قربانی کے ایام گزرگئے اور قربانی کی کوئی صورت اصالۃ یاوکالۃ ممکن نہ ہوسکی تواب اگر پہلے سے جانورخریدرکھاہے تواب اس زندہ جانور کوصدقہ کردیناواجب ہے ۔اوراگرناواقفیت کی وجہ سے اسے ذبح کردیاتودوباتوں کاخیال رکھناچاہئے ،پہلایہ کہ اس کاگوشت اور چمڑا یعنی پوراسامان غریبوں پر صدقہ کردیاجائے ،نہ اس میں خود کھاناجائز ہے اور نہ مالدارلوگوں کو کھلاناجائز ہے۔دوسرے زندہ جانورکی قیمت کے مقابلہ اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہوتو اس کمی کے بقدر بھی صدقہ کرناضروری ہے ۔اگرجانور خریدا نہ ہو اور قربانی کے ایام گزرگئے تواب جانورکی قیمت صدقہ کرناواجب ہے۔اور اگرنفل قربانی کاارادہ ہویعنی قربانی واجب نہ ہواورقربانی کرناچاہتے ہوں یا دوسرے رشتہ داروں جیسے والدین اولاد وغیرہ کی طرف سے قربانی کرنے کااراد ہ رکھتے ہوں حالاں کہ ان پرقربانی واجب نہیں یاایصال ثوا ب کے لیے قربانی کررہے ہوں تویہ سب نفل قربانی کی صورتیں ہیں ،ان صورتوں میں اس بات کی گنجائش ہے کہ موجودہ حالات اور مہاماری کودیکھتے ہوئے قربانی کرنے کے بجائے قیمت صدقہ کردی جائے،جیساکہ امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں نفل حج کی جگہ اس کے اخراجات کو صدقہ کردینا نہ صرف جائز بلکہ ضرورت کے لحاظ سے بعض حالات میں مستحب بھی ہے اس لئے دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھناچاہئے۔
کیاذبح حیوان خلاف عقل اور بے رحمی ہے؟
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک یہ اعتراض بھی سامنے آتاہے کہ ذبح حیوان عقل کے خلاف ہے ۔یہ عمل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتاہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کوذبح کرنانہ عقل سلیم کے خلاف ہے اور نہ اس سے بے رحمی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جانوروں کاذبح کرناایک فطری ضرورت ہے ،انسانی غذاکے لحاظ سے بھی اور معاشی مفادات کے لحاظ سے بھی۔اس سے صرف نظرکرناقطعی انصاف پسندی نہیں ہے۔ 
 حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے،اور ذبح حیوان رحم کے خلاف نہیں ؛بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہوکر مرنابہترہے؛کیوں کہ خودمرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ رہایہ سوال کہ پھرانسان کو ذبح کردیاجایاکرے؛تاکہ آسانی سے مرجایاکرے۔اس کاجواب یہ ہے کہ حالت یاس سے پہلے ذبح کرناتودیدہ ودانستہ قتل کرناہے اور حالت یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیوں کہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہوگئے تھے ،پھراچھے ہوگئے اور شبہ حیوانات میں کیاجائے کہ ان کی تو یاس کابھی انتظار نہیں کیاجاتا ،جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو ابقا مقصود ہے ،کیوں کہ خلق عالم سے وہی مقصود ہے ،اس لئے ملائکہ کے موجودہوتے ہوئے اس کو پیداکیاگیا؛بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ؛کیوں کہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدماتے کے بعد موجودہواکرتاہے ؛اس لیے انسانکے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ،ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کردیئے جائیں گے جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امیدتھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھااور جانور کاابقاء مقصود نہیں ؛اس لئے اس کے ذبح کی اجازت اس بناپردے دی گئی کہ ذبح ہوجانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہوجانے کے بعد ان کاگوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے جس کاابقاء مقصود ہے۔ اس کواگرذبح نہ کیاجائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیاجائے تووہ مردہ ہوکر اس کے گوشت میں سمیت کااثر پھیل جائے گا اور اس کااستعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہوگا توابقائے انسان کاوسیلہ نہ بنے گا۔(اشرف الجواب :انیسواں اعتراض اوراس کاجواب)
گوشت خوری کادستورانتہائی قدیم :
ملحدین اور مشرکین کے ذریعہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتاہے ،اس سے تشدد اور ہنسا کامزاج بنتاہے۔ اس لئے اس پرروک لگنی چاہئے ۔مگریہ بات ہمارے دل دماغ میں ہونی چاہئے کہ انسان اس دنیا میں ضرورتوں اور حاجتوں کے ساتھ پیداکیاگیاہے۔اس کے وجود کاکوئی حصہ نہیں جواپنی حیات و بقا اور حفظ و صیانت میں احتیاج سے فارغ ہو ۔ہوا اور پانی کے بعد اس کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے ۔اوریہی ضرورت ہے جس نے زندگی کومتحرک اور رواں دواں رکھا ہے ۔اورایک اہم انسانی غذا تسلیم کرتے ہوئے گوشت خوری کادستور انتہائی قدیم ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے۔ہندستانی مذاہب میں بھی جین دھرم کے علاوہ سبھی مذاہب میں گوشت خوری کاجواز موجود ہے۔ غیرمسلموںکے بیچ آج کل گوشت خوری منع ہونے کی جوبات مشہور ہے وہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے،پکانے اور قربانی کاتذکرہ موجودہے ۔رگ وید(:۷:۱۱:۱۷) میں ہے :’’اے اندرتمھارے لئے پسان اور وشنوایک سوبھینس پکائیں۔‘‘ یجروید (ادھیائے:۲۰:۸۷) میں گھوڑے،سانڈ،بیل، بانجھ گائے اور بھینس کودیوتاکی نذرکرنے کاذکرملتاہے۔ منوسمرتی(ادھیائے: ۳:۲۶۸) میں کہاگیاہے :’’مچھلی کے گوشت سے دوماہ تک،ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک اور پرند کے گوشت سے پانچ ماہ تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔‘‘ خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندوسماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کاعمل عام تھا۔ ڈاکٹر تاراچندکے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔ 
افراط وتفریط کے شکارقانون فطرت کے باغی:
دنیا کے مذاہب اور قوموںمیں جانوروں کے بارے میں ایک خاص قسم کا افراط وتفریط ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوحیوان کے غذائی استعمال کو بے رحمی اورجیوہتیا تصورکرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوہرجانورکوانسانی خوراک قرار دیتے ہیں ااور اس باب میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اورقانون فطرت کے باغی ہیں۔ خدانے اس کائنات میں جونظام ربوبیت قائم کیا ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ اعلی مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامان بقا ہے ۔غور کریں کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں ،چوپائے نباتات کھاتے ہیں اوراسی پر ان کی حیات کادارومدارہے ،حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوغ کی حیات موجود ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کوغذابناتی ہے اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو ۔زمین پر رہنے والے جانوروں کی خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں ۔چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کے ۔ خداکی کائنات پر جس قدر غورکیاجائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے جولوگ اس اصول کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کاکوئی جواز نہیں کہ پانی کاکوئی قطرہ اور ہواکی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اترنہیں سکتی جب تک کہ سیکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغام اجل نہ سن لے ۔
جیوہیتاکے وسیع تصورکے لحاظ سے نباتاتی غذاسے بھی بچناہوگاکیوں کہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اورنباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندونظریہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قراردیئے ہیں:انسان۔حیوان اورنباتات۔یہ نباتات میں زندگی کاکھلا اقرارہے ۔تواگرجیوہتیاسے بچناہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچناہوگا ۔
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہرحیوان کو غذاکے لئے درست سمجھاجائے ۔یہ مسلمہ حقیقت میں سے ہے کہ انسان پر غذاکااثر ہوتا ہے ۔یہ اثر جسمانی و روحانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔حیوانات میں شیروببردرندے ہیں ،سانپ اوربچھوکی کینہ پروری وریشہ زنی کی خومعروف ہے ،گدھے میں حمق ضرب المثل ہے ،خنزیرمیں جنسی بے اعتدالی وہوسناکی کااثر ان قوموں میں صاف ظاہر ہے جو اس کااستعمال کرتی ہیں ،کتے کی حرص اورقناعت سے محرومی نوک زباں ہے ،چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سرچشمہ ہیں ،بندرکی بے شرمی ،لومڑی کی چال بازی،گیدڑ کی بزدلی اظہارکامحتاج نہیں ۔مقام فکرہے کہ اگرانسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیا یہی اوصاف اس کے وجود میں رچ بس نہ جائیں گے؟
اسی لئے اسلام نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ۔ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ۔دوسری طرف مردارکاگوشت حرام کیا جوانسان کی جسمانی وروحانی صحتوں کو بربادکرنے والاہے، ان جانوروں کو حرام قراردیاجن کے گوشت سے اخلاق انسانی مسموم ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ایک قاعدہ مقررکر دیاکہ طیبات اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک اور بدخوجانور جن کو قرآن کی زبان میں خبائث کہاگیا ہے حرام ہیں (الاعراف:۱۵۷) لیکن اس فیصلہ کو ہرانسان کے ذوق و مزاج پر منحصرکردیاجانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب۔چنانچہ شریعت نے اس کی جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کاشمارطیبات میں ہے اور کن کاخبائث میں ۔ پھر جن جانوروں کو حلال کیا ان کاگوشت کھانے میں بھی ایساپاکیزہ طریقہ ذبح بتایا جس سے ناپاک خون زیادہ سے زیادہ نکل جائے اور جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔طبی اصول پرانسانی صحت اورغذائی اعتدال میں اس سے بہترکوئی طریقہ ذبح نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جانورکاگوشت کھانے میں انسان کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح درختوں کے پھل اور ترکاریاں وغیرہ کو جیسے چاہیں کاٹین اور کھالیں اسی طرح جانورکوجس طرح چاہیں کھاجائیں۔(حلال وحرام ،جواہرالفقہ)
حیوان حلال ہونے کی حکمت اورارکان وشرائط:
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ الاسلام میں اسلامی ذبیحہ کی حکمت اور اس کے آداب وشرائط پر بصیرت افروز تحقیقات فرمائی ہیں یہاں ان کو پورانقل کرنے کا موقع نہیں ،ان میں سے ایک بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جانوروں کامعاملہ عام نباتاتی مخلوق جیسانہیں ۔کیوں کہ ان میںانسان کی ہی طرح روح ہے ،انسان کی طرح دیکھنے ،سننے ،سونگھنے اورچلنے پھرنے کے آلات واعضا ہیں ،انسان کی طرح ان میں احساس وارادہ اور ایک حدتک ادراک بھی موجودہے۔ اس کاسرسری تقاضایہ تھا کہ جانورکاکھانامطلقا حلال نہ ہوتا ،لیکن حکمت الہی کاتقاضاتھا کہ اس نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا،جانوروں سے خدمت لینا، ان کا دودھ پینااوربوقت ضرورت ذبح کرکے ان کا گوشت کھالینا بھی انسان کے لئے حلال کردیامگرساتھ ہی اس کے حلال ہونے کے لئے چندارکان اور شرائط بتائے جن کے بغیر جانور حلال نہیں ہوتا۔پہلی شرط یہ ہے کہ ہرذبح کے وقت اللہ کے اس انعام کاشکر ادا کیا جائے کہ روح حیوانی میں مساوات کے باوجود اس نے کچھ جانوروں کو حلال کیا اور اس شکرکا طریقہ قرآن وسنت نے بتایاکہ ذبح کے وقت اللہ کانام لیں ۔اگراللہ کانام قصدا چھوڑدیاتو وہ حلال نہیں ،مردارہے۔دوسری شرط جانور کو شریعت کے پاکیزہ طریقہ سے ذبح کرنا یعنی شرعی طریقہ پر حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دینا ۔تیسری شرط ذابح کامسلمان ہونا یاصحیح اہل کتاب ہوناہے۔ اسلام سے قبل جانوروں کا گوشت کھانے کے عجیب عجیب طریقے بغیرکسی پابندی کے رائج تھے۔ مردار کاگوشت کھایاجاتاتھا ۔زندہ جانورکے کچھ اعضا کاٹ کر کھالئے جاتے تھے ۔جانورکی جان لینے کے لئے بھی انتہائی بے رحمانہ سلوک کیاجاتاتھا،کہیں لاٹھیوں سے مارکرکہیں تیروں کی بوچھارکرکے جانور کی جان لی جاتی تھی۔
ذبح کرنے والے کاحکم:
ذبح کرنے والے کے لیے مسلمان یاصحیح اہل کتاب ہوناضروری ہے۔سورہ مائدہ میں ارشادباری تعالی ہے:’’الیوم احل لکم الطیبات وطعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم۔‘‘ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:’’مسلمان اور کتابی کاذبیحہ حلال ہے کیوں کہ اللہ تعالی کافرمان ہے:’’اورجن لوگوں کو (تم سے پہلے )کتاب دی گئی تھی ،ان کاکھانابھی تمہارے لیے حلال ہے ‘‘یہاں کھانے سے مراد اہل کتاب کاذبیحہ ہے۔(البحرالرائق:۸؍۳۰۶)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی’’ طعام ‘‘کی تفسیر’’ذبیحہ‘‘ منقول ہے۔(صحیح بخاری :باب ذبائح اہل الکتاب)
آج کل یورپ کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبارسے یہودی یانصرانی کہلاتے ہیں مگردرحقیقت وہ خداکے وجودکے منکرہوتے ہیں،کسی مذہب کے قائل نہیں ہوتے،نہ توریت، نہ انجیل کو خداکی کتاب مانتے ہیں اور نہ حضرت موسی اور حضرت عیسی کواللہ کانبی اور پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔(معارف القرآن :۳؍۴۸)مفسرقرآن مولانامحمدادریس کاندھلوی ؒ فرماتے ہیں:’’ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جومذہبا اہل کتاب ہوںنہ کہ وہ جو صرف قومیت کے لحاظ سے یہودی یانصرانی ہوں خواہ عقیدۃً وہ دہریے ہوں۔ اس زمانے کے نصاریٰ عموما برائے نام نصاریٰ ہیں ،ان میں بکثرت ایسے ہیںجونہ خداکے قائل ہیں اور نہ مذہب کے قائل ہیں،ایسے لوگوں پر اہل کتاب کااطلاق نہیں ہوگا۔( معارف القرآن :۲؍۴۴۶) مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہواکہ اہل کتاب وہ کہلاتے ہیں جواللہ تعالی، کسی پیغمبراور کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور آج کل جویہود ونصاری کہلاتے ہیں وہ اکثردہریے ہیں۔اب بھی اگرکوئی ایساشخص ہو جوکسی پیغمبرپرایمان رکھتاہو اور کسی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھتاہو توآج بھی وہ اہل کتاب شمارہوگا۔مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ لکھتے ہیں: ’’ موجودہ زمانے کے یہودونصاری جوحضرت موسی علیہ السلام یاحضرت عیسی علیہ السلام کوپیغمبر اور تورات یاانجیل کو آسمانی کتاب مانتے ہوں ‘اہل کتاب ہیںخواہ تثلیث کے قائل ہوں۔‘‘ (کفایت المفتی :۱؍۷۰)
ان سب دلائل سے ہٹ کر غیرمقلدین کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب کے علاوہ کوئی اور کافر بھی ذبح کرے تو جائز ہے۔علامہ وحید الزماں غیرمقلد لکھتے ہیں:وذبیحۃ الکافر حلال اذا ذبح للہ وذکراسم اللہ عند الذبح ۔ترجمہ: کافرکاذبیحہ حلال ہے اگروہ اللہ کے لیے ذبح کرے اور ذبح کے وقت اللہ کانام لے۔(کنزالحقائق:۱۸۲)اسی طرح نواب نورالحسن خان غیرمقلد کی تحریرہے:’’ ذبائح اہل کتاب ودیگر کفار نزد وجود ذبح بسملہ یا نزد اکل آں حلال است ،حرام ونجس نیست‘‘یعنی اہل کتاب اور دیگر کفار ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھ لیں یااس مذبوحہ کوکھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لیاجائے تووہ حلال ہے ،حرام اور نجس نہیں ۔(عرف الجادی:ص ۱۰)
تشدداور ہنساکاتعلق محض غذاؤں سے سمجھنابیوقوفی:
رہایہ اعتراض کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتا ہے ،اس سے تشدداور ہنساکامزاج بنتاہے ۔تودنیاکی تاریخ اور خودہمارے ملک کاموجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے ۔آج بھارت میں جہاںکہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ات ہورہے ہیں اور ظلم وستم کاننگاناچ ہورہاہے ،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہاہے جوسبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔دنیاکے رہنماوں سسمیں گوتم بدھ اور حضرت مسیح کوعدم تشدداور رحم دلی کاسب سے بڑاداعی اور نقیب تصورکیاجاتاہے لیکن کیایہ ہستیاں گوشت نہیں کھاتی تھیں ،یہ سبھی گوشت خورتھے۔اور ہٹلرسے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ،ظلم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا لیکن ہٹلر گوشت خورنہیں تھا صرف سبزی کواپنی غذابناتاتھا۔ اس لئے یہ سمجھناکہ ہنسا اور اہنسا کاتعلق محض غذاوں سے ہے بے وقوفی اور جہالت ہی کہی جاسکتی ہے ۔جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کااحساس نہ ہو تو محض غذائیں انسانی مذاق و مزاج کو تبدیل نہیںکرسکتی۔ بعض فتنہ پردازوں کاکہناہے کہ گاوکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظرسے نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے ۔جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ہمیں دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے مگریہ ایک واہمہ ہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں بھارت سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی طرح کی پابندی نہیں وہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں دودھ اور گھی سستے بھی ہیں اور فراوانی بھی ہے۔اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں ۔ہمارے ملک میں گوشت خوری کم ہونے کے باوجود مذکورہ اشیاء مہنگے ہیں ۔نیزقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ جانورایک عمرکوپہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں ،اگرانہیں غذابنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی پرورکسانوں کے لئے ایسے جانورباربن جائیں گے اورغریب کسان جوخود آسودہ نہیں وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرپائیں گے۔۲۰۱۴ء سے مرکزمیں بھاجپا کی حکومت ہے ۔اس نے گاوکشی قانون کوسختی سے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔اس کاحشر کیاہے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ سرکاری گاوشالوں میں ایسے سیکڑوں ہزاروں مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ کربھوک سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے ،ہورہے ہیں ، جوبہرحال گھاٹے کاسودہ ہے۔
گوشت کے فوائد ونقصانات:
گوشت انسانی خوراک کاایک اہم جزوہے ۔ اس سے انسانی صحت پرکئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گوشت سے جسم کو پروٹین، لحمیات ،آئرن ،وٹامن بی وغیرہ حاصل ہوتی ہیںجوایک صحت مندجسم کے لئے ضروری ہیں تاہم گوشت کی حدسے زیادہ مقدارکااستعمال کسی بھی انسان کے لئے سودمندکے بجائے مصیبت بن جاتاہے ۔کیوں کہ ہرقسم کی غذاکے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اس لئے عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھاناچاہئے اور ایک مخصو ص حدسے زیادہ استعمال نہیں کرناچاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بالغ افراد کویومیہ 70گرام جب کہ ہفتے میں 500گرام یعنی سات دنوں میں صرف نصف کیلو گوشت کھانا چاہئے جسے  برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کے لئے تجویز کیا۔
امریکہ کی یونیورسیٹی البامامیں امریکی تحقیقی ماہرین نے گوشت خوری اور سبزی خوری کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقی مطالعہ کیا،جس میں لوگوں کی غذائی عادتوں کی نگرانی اور ان کے صحت پرپڑنے والے اثرات کامعائنہ کیا۔ ماہرین نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کاڈیٹاجمع کیا۔ اس کی روشنی میں رپورٹ مرتب کی اور بتایاکہ صرف سبزی خوری کے بہت زیادہ نقصان ہیں ۔سبزی کامستقل استعمال انسان کوڈپریشن بنادیتاہے جس کی وجہ سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جو خوراک میں گوشت استعمال کرتے ہیں ،ان کی ذہنی صحت بہتررہتی ہے اور وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈآرجرکاکہناہے:ہم لوگوں کو نصیحت کریں گے کہ اگرآپ ڈپریشن ،ذہنی خلفشار اور خودکونقصان پہنچانے کے خطرناک رویے سے بچناچاہتے ہیں تو خوراک میں سبزی کے ساتھ گوشت کابھی استعمال کریں۔(نوائے وقت پورٹل یکم مئی۲۰ء)
گوشت بھی اپنی اقسام کے اعتبار سے لذت اور تاثیر میں مختلف ہوتاہے۔مچھلی اور مرغی کے گوشت سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہے اس میں کلوریزاور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاکم ہوتی ہے۔مٹن میں چکنائی کی مقدار چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔بیف میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے البتہ اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلا پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ پوری ہوتی ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کاکہناہے کہ ایک نارمل انسانی جسم کومتوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں لحمیات پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیںجوگوشت اوردیگرچیزوں سے حاصل ہوتی ہیں،تاہم ضروری ہے کہ ہرچیزکواعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیاجائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کاسامنانہ کرناپڑے۔
مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوگئی کہ انسان کے لئے اللہ تعالی کی پیداکی گئی مختلف تاثیروالی بے شمار غذاؤں میں عمدہ غذاگوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کودنیاو آخرت کی عمدہ غذا فرمایاہے۔ سورہ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے مہمانوں کی فربہ بچھڑا کوبنابھون کرضیافت کرنے کا تذکرہ ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل ایمان گوشت کو مرغوب رکھتے ہیں ۔ آج بھی عرب میں خاص طورپر اناج سے زیادہ گوشت بطورغذا استعمال ہوتاہے۔ اورمہمانوں کی آمدپر اکثراہل عرب آج بھی پورادنبہ یابکرا تیارکرکے ضیافت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ الحاصل گوشت انسانی غذاکااہم حصہ ہے ۔گوشت خوری کی مخالفت فرقہ پرست طاقتیں جتنی بھی کریں اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتااور اس غذائی ضرورت سے انسان دست بردارنہیں ہوسکتا۔ذبح حیوان اور گوشت خوری پرپابندی کافتنہ کھڑا کرنے والے افراد قدرتی نظام کے باغی اور انسان کے فطری ضرورت کی تکمیل کے مخالف ہیں ۔
حلال جانور کی سات چیزیں کھاناحرام ہیں:
حلال جانور کی سات چیزیں حرام ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’ کرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الشاۃ سبعا:المرارۃ و المثانۃ و الغدۃ و الحیا و الذکر والانثیین و الدم ، و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب من الشاۃ مقدمھا۔‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری میں سات چیزوں کو ناپسند کیا ہے : (۱) پتا (۲) مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۳) غدود (۴) حیا یعنی مادہ کی شرمگاہ (۵) ذکر یعنی نرکی شرمگاہ (۶) خصیتین یعنی کپورے (۷) خون ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے سامنے کاحصہ پسند تھا۔( کتاب الآثار:۱۷۹، سنن بیہقی :۱۰؍۷، معجم اوسط لطبرانی:۹؍۱۸۱، مصنف عبدالرزاق :۴؍۴۰۹) اس حدیث سے ائمہ کرام نے استدلال کرتے ہوئے تمام حلا ل جانورکی مذکورہ سات چیزوں کایہی حکم بیان کیا ہے ۔علامہ شامی فرماتے ہیں:’’ بکری کاذکر اتفاقی ہے ،اس لیے کہ دوسرے حلال جانوروں کاحکم اس سے مختلف نہیں ہے۔‘‘(رد المحتار :۶؍۷۴۹)مچھلی کی ان سات چیزوں کے بارے میں قدیم فقہاء کی کوئی تصریح نہیں ملتی  البتہ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: ’’ جواجزاء دموی حیوان میں حرام ومکروہ ہیں وہ سمک (مچھلی ) میں بھی حرام ومکروہ ہیں یا نہیں ؟ پس جب کہ میتۃ ہونا مچھلی کا حرمت وکراہت کاسبب نہیں ہے تو یہ مقتضی اس کو ہے کہ اس کے اجزاء مثانہ وغیرہ حرام ونجس نہیں ہیں۔‘‘( عزیزالفتاوی: ۷۵۹) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اجزاء صرف دموی حیوانات کے حرام ہیں اور غیردموی جیسے مچھلی کے یہ اجزاء حرام نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ دم سے مراد جمہورعلماء کے نزدیک دم مسفوح یعنی بہنے والا خون ہے اور اس کی حرمت خود قرآن میں بھی صراحتا موجود ہے۔نہ بہنے والا خون حرام نہیں بلکہ جائز اور حلال ہے ۔کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان ، فاما المیتتان فالحوت و الجراد ، واما الدمان فالکبد والطحال ۔‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مردار اور دو خون کو حلال کیا گیا ہے ، دو مردار تووہ مچھلی اورٹڈی ہیں اوردو خون تو وہ جگر اور تلی ہیں۔ (ابن ماجہ :۲۳۱۴،مسنداحمد:۵۴۲۳، بیہقی:۱؍۲۵۴،الشافعی:۱؍۳۴۰،دارقطنی:۴؍۲۷۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ بہنے والا جماہوا خون جیسے تلی اورجگرجائز ہے ۔یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حدیث میں مذکورلفظ ’’مکروہ‘‘ اپنے عام معنی میں مستعمل ہے جس میں حرام وناجائز بھی داخل ہے ۔اس کاثبو ت یہ ہے کہ خود حدیث میں خون کو مکروہ بتایا ہے جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے ،لہذا یہاں مکروہ کے عام معنی مراد ہیں جس میں حرام بھی داخل ہے۔ فقہی اصطلاح کے مطابق ان چیزوں میں سے جن کاحرام ہونا قرآن وحدیث کی نص قطعی سے ثابت ہو ان کو حرام اور جن کی حرمت نص ظنی سے ثابت ہو ان کو مکروہ کہاجائے گا ۔اس اصول پر خون تو حرام ہوگا اور باقی چھ چیزیں مکروہ کہلائیں گی۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایاکہ خون حرام ہے اور باقی چھ اجزا ء کومیں مکروہ قراردیتا ہوں۔‘‘(ردالمحتار:۶؍۷۴۹)اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی ؒ نے (بدائع الصنائع:۵؍۶۱)نے لکھا ہے اور صاحب درمختار علامہ حصکفی ؒ نے اسی کوترجیح دی ہے:’’ کرہ تحریما و قیل تنزیھا ، فالأول اوجہ۔‘‘( الدرعلی الرد:۶؍۷۴۹)
یہاں یہ بھی واضح کردیناضروری ہے کہ علماء نے حرام اور مکروہ کی اصطلاح اس لیے نہیں بنائی ہے کہ حرام سے اجتناب ہواور مکروہ سے اجتناب کی ضرورت نہیں ؛بلکہ ان اصطلاحات کومقررکرنے کی وجہ یہ ہے کہ دلائل شرعیہ بعض قطعی ہیں اور بعض غیرقطعی تو جوممنوعات دلائل غیرقطعیہ سے ثابت ہوئے ان کو احتیاط کے طورپر مکروہ کہاگیا ورنہ بچنے کے حکم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں ،اس لیے دونوں سے بچنا چاہئے ۔ علامہ ابن قیم درست فرمایاکہ ؛’’ حرام چیز پر مکروہ بولنے سے بعد میں آنے والے بہت سے لوگ غلطی میں پڑگئے، ائمہ نے تو احتیاط کرتے ہوئے حرام کے بجائے لفظ مکروہ استعمال فرمایا ،پھربعد والوں نے ان چیزوں سے حرمت ہی کی نفی کردی ،جن پرائمہ نے مکروہ کالفظ استعمال فرمایاتھا،پھران پر یہ لفظ بہت آسان ہوگیا۔(اعلام الموقعین:۱؍۳۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکروہ کالفظ فقہاء وائمہ نے صرف احتیاط کے طورپر استعمال فرمایاتھا ورنہ گناہ ہونے میں وہ حرام کی طرح ہے ،اس لیے امام محمد ؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور دیگر علماء کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔الدرالمختاراور البحرالرائق میں ہے کہ :’’ کل مکروہ حرام عند محمد وعندھما الی الحرام أقرب۔‘‘ترجمہ: امام محمدؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒ کے نزدیک حرام کے قریب ہے۔(الدرمع الرد:۶؍۳۳۷،البحر:۸؍۱۸۰)حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ سے پوچھاگیا کہ مکروہ تنزیہی سے گناہ ہوتا ہے یانہیں؟ توآپ نے فرمایاکہ مکروہ تنزیہی سے بھی گناہ ہوتاہے۔(کفایت المفتی:۹؍۱۳۱) اس سے واضح ہوگیاکہ مکروہ کاارتکاب بھی ناجائز ہے اور اس سے بھی گناہ ہوتا ہے لہذامذکورہ اشیاء سے بھی بچنا چاہئے۔ تفصیل سے یہ بھی واضح ہواکہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے چنانچہ علامہ ابن نجیم نے بحرالرائق میں فرمایا:’’ ویصح اطلاق اسم الحرام علیہ‘‘ کہ مکروہ تحریمی پرحرام کااطلاق کرناصحیح ہے۔علامہ حصکفی نے فرمایا:وافاد فی البحرصحۃ اطلاق الحرمۃ علی المکروہ تحریما‘‘ترجمہ: بحرالرائق میں اس بات کا افادہ کیا ہے کہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے۔(الدرالمختار:۲؍۱۶۱)اسی طرح تحفۃ الملوک میں ہے کہ:’’ کتاب الکراہیہ میں جوبھی مکروہ کہاجائے وہ امام محمد ؒ کے نزدیک حرام ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک وہ حرام کے قریب ہے ،لہذا ہم نے اکثر مکروہ کو حرام سے تعبیر کیاہے۔‘‘ تحفۃ الملوک :۱؍۲۲۳)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے یہاں اکثر جگہوں پر مکروہ کوحرام سے بھی تعبیر کردیاجاتا ہے ۔ اسی لیے علامہ کاسانی اور علامہ شامی وغیرہ نے ان سات چیزوں کو حرام سے تعبیر کیا ہے ۔بہرحال ان چیزوں سے پرہیز حرام کی طرح کرناچاہئے ،مکروہ کہہ کر ان کو معمولی نہ سمجھناچاہئے۔
حرام مغزکاحکم:
حلال جانور کی سات چیزیں علمائے احناف کے یہاں بالاتفاق ناجائز ہیں ۔ان کے علاوہ بعض علماء نے حرام مغز کو بھی حرام کہا ہے ،چنانچہ علامہ نسفیؒ کی ہندوستان میں مطبوعہ کنزالدقائق میں’’نخاع الصلب‘‘ (حرام مغز)کوبھی مکروہات میں شمارکیا ہے  اورعلامہ طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں اس کو مکروہ بتایاہے(طحطاوی علی الدر:۵؍۳۶)حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی ؒ نے اپنے فتاوی میں اس کو حرام لکھاہے (فتاوی رشیدیہ:۲؍۶۷) نیزحضرت مولانامفتی شفیع صاحب ؒ نے بھی آخرمیں اس کے حرام ہونے کافتوی دیا ہے اور اس کی وجہ بقول حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کے یہ ہے کہ ’’ اللہ تعالی کا قول ہے :’’ ویحرم علیھم الخبائث ‘‘ترجمہ: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ضب کی حرمت میں حنفیہ نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حرام مغز ایک ایسی چیز ہے کہ طبیعت سلیمہ کو اس سے نفرت واستقذار لازم ہے۔(حاشیہ امدادالمفتین :۹۷۱ط:کراچی)(ماخوذاز: مکروہ اجزاء )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین یامرحومین کی طرف سے قربانی:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین ؒیامرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست اور باعث اجروثواب ہے ،بلکہ کسی بھی نیک عمل کااجر تمام امت محمدیہ کوپہنچانادرست ہے۔خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے قربانی کے علاوہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تھی۔اس قربانی میں زندہ یامردہ کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔’’عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امربکبشین اقرن یطأ فی سواد ویبرک فی سواد وینظرفی سواد،فاتی بہ لیضحی بہ ،قال:یاعائشۃھلمی المدیۃ ثم قال :اشحذ یھا بحجر،ففعلت،ثم اخذھا واخذ الکبش فأضجعہ ،ثم ذبحہ ،ثم قال: بسم اللہ اللھم تقبل من محمدوآل محمدومن امۃ محمد،ثم ضحی بہ ۔رواہ مسلم (مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الاول ،ص:۱۲۷)ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایاجس کے کھر،گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے۔چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایاگیا توآپ نے فرمایا:اے عائشہ ! چھری لے آو ٔ ،پھرفرمایا:اسے پتھرپرتیزکرلو،چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ)نے چھری تیز کرلی،پھرآپ نے چھری لی اور مینڈھے کوپکڑا اوراسے پہلوکے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا:اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں) ،اے اللہ اسے محمداورآل محمداورامت محمدکی طرف سے قبول فرمالیجئے۔‘‘اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اور حضرت ابوحذیفہ ؓ کی بھی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے قربان کیے۔ایک اپنی طرف سے اور دوسراامت کی طرف سے ۔(متفق علیہ)
دامادِرسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ دوقربانیاں کیاکرتے تھے۔ایک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔جب ان سے سوال کیاگیا توانہوں نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کاحکم دیاہے ،میں اس کوکبھی نہیں چھوڑوں گا۔(مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الثانی ص:۱۲۸،ترمذی حدیث :۱۴۹۵،ابوداودحدیث :۲۷۶۹،مسنداحمد:۲؍۱۸۲،۳۱۶۔صحیح حاکم) معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قربانی اتنی پسندتھی کہ آپ ؐ نے حضرت علی کو ایساکرنے کی وصیت بھی کی اور حضرت علی ہرسال بلاناغہ دوقربانیاں کرتے رہے۔
اس باب کی تمام حدیثیں اس مسئلے میں صریح ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سلف صالحین اور مرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے ۔ امام ابوداودوغیرہ نے میت کی طرف سے قربانی کیے جانے کاباضابطہ باب قائم کیا ہے اور انہیں احادیث سے استدلال کیاہے۔ علمائے احناف ، مالکیہ اور امام احمدبن حنبل کایہی مسلک ہے اور یہی قول زیادہ مستندوقوی ہے ؛کیوں کہ میت کی جانب سے قربانی کرناایک صدقہ ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، عمرہ ،صدقہ اور خیرات جیسی عبادتیں کی جاسکتی ہیں توقربانی کیوں نہیں؟ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناپر کہاجائے کہ دیگراعمال تومیت کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں لیکن میت کی جانب سے قربانی نہیں کی جاسکتی۔علامہ شامی لکھتے ہیں:’’قال فی البدائع :لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت، بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ، وقد صح ’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبشین احدھماعن نفسہ والاٰخر عمن لم یذبح من امتہ ‘‘وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح،(ردالمحتار:۶؍۳۲۶) فدل ان المیت یجوزان یتقرب عنہ فاذاذبح عنہ صارنصیبہ للقربۃ فلایمنع جوازالباقین(بدائع:۴؍۲۱۰)
دلائل کی روشنی میں اصل یہی ہے کہ کسی بھی عبادت کاثواب کسی دوسرے کوپہونچایاجاسکتاہے، اگرچہ بوقت عمل نیت اپنے لیے ہو۔عبادت خواہ نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت، ذکروتسبیح،طواف ،حج، عمرہ کے علاوہ انبیاء وصالحین کے قبروں کی زیارت یاتکفین ہو،ہرقسم کے نیک اعمال اور عبادتیں شامل ہیں۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نفلی صدقہ میں پوری امت مسلمہ کے ایصال ثواب کی نیت کرناافضل ہے؛کیوں ایساکرنے میں سبھی کوثواب بھی مل جائے گا اور اس کے اجرمیں سے کچھ کم بھی نہ ہوگا۔ اورقرآن کی آیت:’’وان لیس للانسان الاماسعی‘‘(سورۃ النجم:۳۹) ان باتوں کے منافی نہیں ہے۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: الأصل اَن کل من أتی بعبادۃ ما،لہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عند الفعل لنفسہ ؛لظاھرالادلۃ۔واماقولہ تعالی :وأن لیس للانسان الاماسعی(النجم:۳۹)أی الا اذا وھبہ لہ ، کماحققہ الکمال،أو اللام بمعنی علی کمافی ’’ولھم اللعنۃ‘‘(غافر:۵۲)ولقد افصح الزاھدی عن اعتزالہ ھنا  واللہ الموفق۔(قولہ:بعبادۃ ما)أی سواء کانت صلاۃً،أو صوماً، أوصدقۃً، أو قراء ۃً، أو ذکراً، أو طوافاً،أو حجاً، أو عمرۃً،أو غیرذٰلک من زیارۃ قبور الأنبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام ،والشھداء والأولیاء والصالحین ، وتکفین الموتی ،وجمیع انواع البر،کمافی الھندیۃ،وقدمنافی الزکوٰۃ عن التٰتارخانیۃ عن المحیط: الأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤ منات ؛لأنھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شیء۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار:۲؍۵۹۵)
مسئلہ:میت کی جانب سے قربانی کی دوصورتیں ہیں۔اول یہ کہ میت نے وصیت کررکھی ہو اوراس کے لیے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تومیت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کاپوراگوشت صدقہ کیاجائے گا ۔دوسری یہ کہ وصیت توکی ہو مگرمال نہ چھوڑا ہو یارشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچاناچاہے توان دونوں صورتوں میں قربانی کاگوشت خودبھی کھاسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی بتادینامناسب ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد مرحومین کوثواب میں شامل کیاجاسکتا ہے ؛لیکن میت ہی کے نام سے قربانی کرناچاہیں تو ایک میت کی طرف سے پوراایک حصہ ضروری ہے،تاہم کئی آدمی مل کر مشترک طورپر حضورصلی اللہ علیہ وسلم یامیت کے نام سے قرانی کریں توشرعاجائز ہے ۔وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ :اذبحوعنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل۔ (الدرالمختارکتاب الاضحیہ:۹؍۴۷۱،البحرالرائق :۸؍۳۲۵)
غورکرنے کی بات ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میںامت کویادرکھا تو افسوس ہے کہ امتی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یادنہ رکھیں اور ایک جانور آپ کی طرف سے نہ دیاکریں۔لہذاجس شخص کے پاس گنجائش ہووہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرے ،اجرعظیم کامستحق ہوگا۔ 
جانور ذبح کرنے کے چند آداب:
٭ جانور کونرمی اور اچھے طریقہ سے ذبح کی جگہ لے جانا۔  ٭ذبح کے وقت جانور بھوکاپیاسانہ ہو۔  ٭گائے،بھینس بکراوغیرہ کونرمی سے بائیں پہلوپرلٹاکر اس کامنہ قبلہ کی طرف کیا جائے اس طرح سے کہ اس کاسرجنوب کی طرف اور دھڑ شمال کی طرف ہو۔  ٭اونٹ کو کھڑے ہونے کی حالت میں نحرکرنا سنت ہے اور بٹھاکریالٹاکر ذبح کرناسنت نہیں ہے ۔  ٭بڑے جانور کے ہاتھ پاوں باندھ دینا چاہئے ۔  ٭باوضوہوکر دائیں ہاتھ سے ذبح کرنا۔  ٭تیزدھاروالی چھری سے تیزی سے ذبح کرنا۔  ٭ذبح کرتے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہنا  ٭چاررگوں حلقوم (سانس کی نلی) مرئی (کھانے کی نلی ) ودجین (خون کی دورگیں جو شہ رگ کہاجاتاہے) کاکاٹنا لازم ہے ۔اگر تین رگیں کٹ جائیں توبھی کافی ہے۔لیکن صرف دورگیں کٹ جائیں تو مذبوحہ حرام ہوگا۔
جانورذبح کرنے کے چند مکروہ کام:
٭ ذبح کے آلات کو جانور کے سامنے لہرانا یا ان کے سامنے تیز کرنا۔  ٭ اس قدر کندچھری سے ذبح کرنا کہ ذابح کو زور لگاناپڑے۔  ٭ایک جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنا۔  ٭ ذبح میں چار رگوں کے علاوہ چھری کی نوک سے حرام مغز کی نالی کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کے دوران جانور کا سینہ کھول کر اس کے دل کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن توڑنا۔  ٭ جانور کی روح نکلنے اور ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا اعضا کو کاٹنا۔  ٭ رات کے وقت ذبح کرنا جبکہ روشنی کاصحیح انتظام نہ ہو کیوں اس بات کااندیشہ ہے کہ کوئی رگ کٹنے سے رہ جائے ۔ اور اگر روشنی کا اچھا انتظام ہوتو مکروہ نہیں۔   ٭ اونٹ کے علاوہ دوسرے جانوروں کو کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا ۔  ٭اونٹ کے زمین پر گرنے کے بعد اس کی گردن کو تین جگہ سے کاٹنا اس لیے کہ یہ بلاوجہ تکلیف دیناہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی :حقائق اور غلط فہمیاں

از  :  مفتی محمدشبیرانورقاسمی 
نائب قاضی شریعت واستاذمدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے

قربانی کے معنی ہیںاللہ کاقرب حاصل کرنے کی چیز۔ لفظ قربانی ’’قربان ‘‘سے اور لفظ قربان ’’قرب ‘‘سے نکلاہے ؛ اس لیے’’رضائے الہی کی نیت سے قربانی کے ایام (۱۰؍۱۱؍۱۲؍ذوالحجہ )میںخاص قسم کا حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں‘‘ ۔قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار،جذبہ ایثار نفس اور عشق الہی کامظہر ہے۔قربانی کی تاریخ باباآدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوتی ہے ،یہ سب سے پہلی قربانی تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:’’ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ  اِذْ قَرَّبَا قُرْْبَاناََفَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلمْ یُتَقَبّلْ مِنَ الْاٰخََرِ۔‘‘(المائدہ:۱۸۳)  ترجمہ:’’اورآپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طورپر پڑھ کر سنادیجئے ،جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیںکی گئی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوارمیں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی،اس زمانے کے دستورکے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا،قابیل کی قربانی کو چھوڑدیا ۔(تفسیرابن کثیر۲؍۵۱۸) اور یہ عمل تقریباہرانبیاکی شریعت میں رہا۔ جس کاطریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی دعامانگتے اور آسمان سے آگ اترتی ،اسے کھاجاتی اور یہ قبولیت کی علامت ہوتی۔یہ تسلسل حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے۔ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی اور اسی کی یادگارکے طورپر امت محمدیہ پر قربانی کو واجب قراردیاگیا۔
قربانی کی حقیقت :
قربانی سنت ابراہیمی کی یادگارہے ۔حضرت ابراہیم کو حکم ملا(اورحکم بھی صراحتانہیں ملابلکہ خواب میں اشارۃ بتایاگیا) کہ اپنابیٹا ذبح کرو،توباپ نے حکم کی اتباع میں ایک لمحے کے لیے بھی رک کرتامل نہیں کیا۔پلٹ کراللہ سے یہ نہیں پوچھاکہ یااللہ !یہ حکم آخرکیوں،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے ؟البتہ بیٹے سے امتحان اور آزمائش کے لیے سوال کیاکہ’’اے بیٹے میں نے توخواب میں یہ دیکھاہے کہ تمہیں ذبح کررہاہوں،اب بتاو تمہاری کیارائے ہے‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۲)بیٹا بھی ابراہیم خلیل اللہ کابیٹا تھا،وہ بیٹا جن کے صلب سے خاتم المرسلین دنیامیں تشریف لانے والے تھے،اس بیٹے نے بھی پلٹ کریہ نہیں پوچھاکہ اباجان!مجھ سے کیاجرم ہوا،میراقصورکیاہے کہ مجھے موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے۔بلکہ بیٹے کی زبان پر تواضع وانقیاد سے لبریزایک ہی جواب تھا :’’آباجان !آپ کے پاس جوحکم آیا ہے ،اس کوکرگزریئے اور جہاں تک میرامعاملہ ہے توآپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(ایضا)دونوں اس حکم پرعمل کے لیے تیارہوگئے اورباپ نے بیٹے کوزمین پرلٹادیا۔اس وقت بیٹے نے کہاکہ اباجاں!آپ مجھے پیشانی کے بل لٹائیں،اس لیے کہ اگر سیدھالٹائیں گے تومیراچہرہ سامنے ہوگااور کہیں ایسانہ ہوکہ آپ کے دل میں بیٹے کی محبت کاجوش آجائے اور آپ چھری نہ چلاسکیں۔اللہ کویہ ادائیں اتنی پسندآئیں کہ اللہ نے ان اداؤں کاذکرقرآن کریم میں بھی فرمایاکہ:’’اے ابراہیم !تم نے اس خواب کوسچاکردکھایا۔‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۴۔۱۰۵)اب ہماری قدرت کاتماشہ دیکھوچنانچہ جب آنکھیں کھولیں تودیکھاکہ حضرت اسماعیل ایک جگہ بیٹھے ہوئے مسکرارہے ہیں اور وہاں ایک دنبہ ذبح کیاہواہے۔اللہ کوان کایہ عمل اتناپسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کوجاری کردیاچنانچہ فرمایا:’’ہم نے آنے والے مسلمانوں کواس عمل کی نقل اتارنے کاپابندکردیا۔‘‘یہ پوراواقعہ جودرحقیقت قربانی کے عمل کی بنیادہے۔روزاول سے بتارہاہے کہ قربانی اس لیے مشروع کی گئی ہے تاکہ انسانوں کے دلوں میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہوکہ دین درحقیقت اتباع کانام ہے ۔جب اللہ کاکوئی حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے ہم اللہ کے حکم کی پیروی کریں ،اس کے حکم کے سامنے اپناسرتسلیم خم کریں ۔اسی کی طرف اللہ نے حضرت ابراہیم کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ’’ فلمااسلما‘‘جب انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔قربانی کی ادائیگی کے ذریعہ اسی ایثارنفس کاجذبہ پیداکرنامقصود ہے کہ جیسے اللہ کے حکم کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کیا،کوئی عقلی دلیل نہیں مانگی،کوئی حکمت طلب نہیں کی اور اللہ کے حکم کے آگے سرجھکادیا۔اب ہمیں بھی اپنی زندگی کواس کے مطابق ڈھالناہے اور یہی اس کی روح ہے۔ دراصل قربانی کی حقیقت تویہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ کے حضورپیش کرتامگرخداکی رحمت دیکھئے ،ان کو یہ گوارانہ ہوا اس لیے حکم دیاکہ تم جانورکوذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔ 
قربانی کی اہمیت وفضیلت:
قربانی کی اہمیت وفضیلت کاثبوت قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔سورہ حج میں ارشاد ربانی ہے:’’اورہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹوں کو عبادت الہی کی نشانی اور یادگار مقررکیاہے،ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں ،سوتم ان کو نحرکرتے وقت قطارمیں کھڑاکرکے ان پر اللہ کانام لیاکروپھرجب وہ اپنے پہلوپرگرپڑیں توان کے گوشت میں سے تم خودبھی کھاناچاہوتوکھاو اور فقیرکوبھی کھلاو، خوہ وہ صبرسے بیٹھنے والا ہویاسوال کرتاپھرتاہوجس طرح ہم نے ان جانور وں کی قربانی کاحال بیان کیا، اسی طرح ان کوتمہاراتابع دار بنایاتاکہ تم شکربجالاو۔ اللہ کے پاس ان قربانیوںںکاگوشت اور خون ہرگزنہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاراتقوی پہنچتاہے ۔اللہ تعالی نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخرکردیاہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالی کی بڑائی کروکہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح رہنمائی کی اور اے پیغمبر!مخلصین کو خوش خبری سنادیجئے۔‘‘(الحج:۳۶،۳۷)سورہ حج ہی میں دوسری جگہ اسے شعائر اللہ قراردیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کودل میں پائے جانے والے تقوی خداوندی کامظہرقراردیاہے۔ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب(الحج:۳۲) ااورجوشخص اللہ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام کے دوران ایک باربھی قربانی کرناترک نہیں کیا،جب کہ آپ کے گھر میں کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰؍تاریخ کوکوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک (قربانی کا)خون بہانے سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ۔اور قیامت کے دن وہ ذبح کیاہواجانوراپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااورقربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے یہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتاہے۔ لہذاتم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۹۳،ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۶) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقرعید کے دن ارشاد فرمایا:آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا،ہاں اگرکسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہوتوہو(الترغیب والترہیب:۲؍۷۷۲) حضرت زیدبن ارقم راوی ہیں کہ صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ !یہ قربانی کیاہے؟(یعنی اس کی حیثیت کیاہے)آپ نے ارشادفرمایا:تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے؟صحابہ نے عرض کیا!ہمیں قربانی سے کیافائدہ ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہربال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہ! اون کے بدلے کیاملے گا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہراون کے بدلے بھی ایک نیکی (ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۷، حاکم ،مشکوۃ:۱۲۹)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تووہ عیدالاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔(سنن دارقطنی وبیہقی) حضرت ابوسعیدسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ اٹھواور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجودرہو) کیوں کہ اس کے خون کاپہلاقطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیایارسول اللہ !یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یاعام مسلمانوں کے لیے بھی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے) فرمایا:اے فاطمہ ! اٹھواور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجودرہو ، اس لیے کہ اس کے خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔یہ قربانی کاجانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور تمہارے ترازومیں سترگنا کرکے رکھا جائے گا ۔حضرت ابوسعید نے عرض کیا یارسول اللہ !یہ مذکورہ ثواب کیاخاص آل محمد کے لیے ہے کیوں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ خاص کئے جائیں یاتمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آل محمد کے لیے ایک طرح سے خاص بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام بھی ہے۔ (اصبہانی،الترغیب:۲؍۲۷۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امیدرکھواس لیے کہ خون اگرچہ زمین پرگرتاہے لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔(الترغیب:۲؍۲۷۸) حضرت حسین بن علی سے مردی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص خوش دلی کے ساتھ اجروثواب کی امیدرکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔
قربانی کاحکم:
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائراسلام میں سے ہے ،اس پراجماع ہے ،البتہ اس کی شرعی حیثیت اورحکم کے بارے میں ائمہ مجتہدین میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالکؒ،امام احمدبن حنبل ؒ صاحب نصاب کے لیے قربانی کو واجب کہتے ہیں ،جب کہ امام شافعی ؒ اور دیگر علماء سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ہندوپاک کے جمہورعلماکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے کیوں کہ یہ قول احتیاط پرمبنی ہے۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے:’’ فصل لربک وانحر‘‘(سورۃا لکوثر)آپ اپنے رب کے لیے نمازپڑھئے اور قربانی کیجئے۔اس آیت میں قربانی کرنے کاحکم دیاجارہاہے اور امروجوب کے لیے ہوتاہے۔ علامہ ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت ’’فصل لربک ‘‘میں نمازسے عید کی نمازمرادہے اور ’’وانحر‘‘سے قربانی مرادہے۔علامہ جصاص فرماتے ہیں اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں:(۱) عیدکی نماز واجب ہے (۲) قربانی واجب ہے۔( احکام القرآن للجصاص :۳؍۴۱۹) مفسرقرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: ’’حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء اور حضرت قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیںکہ ’’فصل لربک ‘‘میں فصل سے مراد عید کی نماز اور ’’وانحر‘‘ سے مراد قربانی ہے۔(تفسیرمظہری :۱۰؍۳۵۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اوروہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳، مسنداحمدحدیث نمبر:۸۲۷۳) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ احدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس طرح کی وعید غیرواجب کو چھوڑنے پرنہیں ہوتی بلکہ ترک واجب پر ہوتی ہے۔(تبیین الحقائق للزیلعی :۶؍۲کتاب الاضحیہ )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکرفرمایا:اے لوگو!ہرسال ہرگھروالے(صاحب نصاب) پرقربانی کرنا ضروری ہے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۵،نسائی حدیث نمبر:۴۲۲۴)حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میںآپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۷)مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کاکوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا۔یہ اہتمام و پابندی بھی وجوب کوبتایا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے قبل جانورذبح کردینے پر دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا۔(صحیح بخاری حدیث :۵۵۴۶،۵۵۶۰،ابن ماجہ حدیث:۳۱۵۱)حالاں کہ اس زمانہ میں صحابہ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی ،یہ بھی قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ 
قربانی کے وجوب کی شرطیں: 
قربانی واجب ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں ۔اگران میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے توقربانی واجب نہیں رہے گی:
۱۔عاقل ہونا۔لہذاکسی پاگل ،مجنوں پرقربانی واجب نہیں۔
۲۔ بالغ ہونا ۔ لہذانابالغ پرقربانی نہیں خواہ مالدارہی ہو۔ہاں کوئی ایام قربانی میں بالغ ہوااور مالدارہے تواس پرقربانی واجب ہے۔
۳۔ آزاد ہونا۔ لہذاغلام پرقربانی نہیں۔کیوں کہ غلام کسی چیز کامالک نہیںہوتا۔(البحرالرائق :۲؍۲۷۱)
۴۔ مقیم ہونا۔ لہذامسافرپرقربانی واجب نہیں۔حضرت علی ؓ  فرماتے ہیں :مسافرپرقربانی واجب نہیں(المحلی لابن حزم:۶؍۳۷،مسئلہ: ۹۷۹)
۵۔ مسلمان ہونا۔اس لیے کہ قربانی عبادت ہے اور کافر عبادت کااہل نہیں۔(بدائع :۴؍۱۹۵)
 لہذاغیرمسلم پرخواہ کسی مذہب کاہوقربانی واجب نہیں۔ہاں اگرکوئی غیرمسلم ایام قربانی میں مسلمان ہوگیااورمالدارہے تو اس پرقربانی واجب ہوگی۔
۶۔مالدار ہونا۔امام ابن ماجہ قزوینی ؒ نقل کرتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کووسعت ہواس کے باوجود قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(ابن ماجہ حدیث:۳۱۲۳،باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا)لہذافقیرپرقربانی واجب نہیں ،اگراپنی خوشی سے قربانی کرے تو ثواب ملے گا۔اور اگر کوئی فقیر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہوگیا تواس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ اگرکسی کے پاس بقدرنصاب رقم موجودہومگراس پر قرض اتناہوکہ اگراسے اداکرے تووہ مالک نصاب نہ رہے توایسے شخص پربھی قربانی واجب نہیں۔
وجوب قربانی کانصاب :
جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی(612.36گرام)یا ساڑھے سات تولہ سونا (87.48گرام )موجود ہوخواہ جس شکل میں ہو جیسے زیورات، آرائشی سامان ،سکے وغیرہ یا سونا چاندی مذکورہ مقدار سے کم ہو لیکن اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،مال تجارت ،نقدی اور بنیادی ضرورت سے زائد سامان موجود ہو یاان میں سے بعض موجود ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612.36ملی گرام ) کے برابر ہو تو اس پر  قربانی واجب ہے، قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگارہوگا۔
مال تجارت سے مراد:
اگرکسی چیز کوخریدتے وقت نیت یہ تھی کہ اسے بعد میں فروخت کردیں گے اور یہ نیت تاحال باقی بھی ہو تواب یہ چیز ’’مال تجارت‘‘ میں شمار ہوگی؛ لیکن اگرکوئی چیز خریدتے وقت اسے آگے فروخت کرنے نیت نہ ہویایااس وقت تو فروخت کرنے کی نیت تھی مگربعدمیں نیت بدل گئی توایسی چیز مال تجارت میں شمار نہ ہوگی۔قربانی میں نصاب کے مال کاتجارت کے لیے ہونا یااس پر سال گزرناضروری نہیں۔
بنیادی ضرورت سے زائدسامان:
بنیادی ضرورت سے مراد وہ ضرورت ہے جوانسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو،اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یاہتک عزت و آبرو کااندیشہ ہو ۔کسی شخص کے پاس موجود ایساسامان جواس کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو ’’زائدازضرورت سامان ‘‘کہلائے گا۔ کھانا،پینا، رہائشی مکان ، کرایہ پر دیا ہوامکان، استعمال کی گاڑی، استعمال کے کپڑے، دکان کافرنیچر، اہل صنعت وحرفت کے اوزاروغیرہ ضرورت کاسامان شمار ہوگا۔ایسے برتن ،کپڑے جوسال بھرمیں ایک بار بھی استعمال نہ ہوئے ہوں وہ زائد ازضرورت سامان شمارہوں گے۔
٭  جس طرح زکوۃ صاحب نصاب مسلمان پرالگ الگ لازم ہوتی ہے اسی طرح قربانی بھی ہرصاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی ؛کیوں کہ قربانی اس کے اپنے نفس اورذات پرواجب ہوتی ہے اس لیے پورے گھر،خاندان یاکنبہ کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی ۔ ہرصاحب نصاب پرالگ الگ قربانی لازم ہوگی ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ ہاں ! ایصال ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
٭  اگرعورت صاحب نصاب ہوتو اس پربھی قربانی واجب ہے۔بیوی کی قربانی شوہر پرلازم نہیں ،اگر بیوی کی اجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔بعض لوگ نام بدل کرقربانی کرتے رہتے ہیں ،حالاں کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں ،مثلا ایک سال شوہر کے نام سے ،دوسرے سال بیوی کے نام سے تو اس سے قربانی ادانہیں ہوتی بلکہ میاںبیوی دونوں کی الگ الگ قربانی ہوگی۔
٭  اگربیوی کامہرمؤجل ہے جوشوہرنے ابھی تک نہیں دیا اور وہ نصاب کے برابرہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے اور اگر مہرمعجل ہے اور بقدرنصاب یااس سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭  اگرمشترک کاروبارکی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرنصاب ہوتوسب پر واجب ہوگی ۔
٭  اگرکاشت کارکسان کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت سے زائد اتنے جانورہوں جوبقدرنصاب ہوں تواس پر قربانی ہوگی ۔
٭  :اگرکسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کیلئے کتابیں رکھی ہیں تواگروہ خودتعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت بقدرنصاب ہے تواس پرقربانی واجب ہے اور اگروہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی واجب نہیںہوگی۔ 
قربانی نہ کرنے والوں پروعید:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلایقربن مصلانا‘‘ ترجمہ:’’جوشخص وسعت کے باوجودقربانی نہ کرے ،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳) آپ کے اس فرمان سے کس قدر ناراضگی ٹپکتی ہے۔ کیاکوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سہارسکتا ہے ؟اوریہ ناراضگی اسی سے ہے جوگنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قربانی کے ایام میں جانور ہی ذبح کرناضروری ہے۔قربانی کے بجائے اس کی رقم کاصدقہ کرنااس کابدل اورکافی نہیں۔ایساکرنے پرذمہ سے واجب ساقط نہ ہوگا۔
قربانی کئے جانے والے جانور:
بھیڑ،بکری ،گائے ،بھینس اور اونٹ قربانی کے لیے ذبح کئے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتاہے:آٹھ جانورہیں دوبھیڑوں میں سے اوردوبکریوں میں سے ،دو اونٹوں میں سے اور دوگائیوں میں سے (سورہ انعام:۱۴۳)بھینس گائے کے درجہ میں ہے اس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔(کتاب الاجماع لابن منذرص:۳۷)حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث:۱۰۸۴۸) اسی طرح سفیان ثوری کاقول ہے:بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیاجائے گا۔(مصنف عبدالرزاق حدیث:۶۸۸۱) امام مالک بن انس فرماتے ہیں:یہ بھینس گائے ہی کے حکم میں ہے۔(مؤطاامام مالک،باب ماجاء فی صدقۃ البقر،ص:۲۹۴) 
غیرمقلدین کاموقف ہے کہ بھینس کی قربانی کرناصحیح نہیں ،اس لیے کہ یہ عرب میں نہیںپائی جاتی تھی۔(فقہ الحدیث ازافاداتناصرالدین البانی:۲؍۴۷۵)مگریہ بات صحیح نہیں ہے ؛اس لیے کہ بھینس اگرچہ موجودنہ تھی لیکن باجماع امت اسے گائے کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے گائے والا حکم دے دیا گیا جیساکہ زکوۃ کے مسئلہ میں اسے گائے کے ساتھ شامل کردیاگیاہے۔نیزیہ کہ اگربھینس کی قربانی نہ کرنے کی یہی دلیل ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں نہیں پائی جاتی تھی تو اس دلیل کے مطابق اس کاگوشت،دودھ، مکھن ،کھال وغیرہ کااستعمال بھی جائز نہیں ہوناچاہئے کیوں کہ یہ دور نبوت میں عرب ممالک میں نہیں پائی جاتی تھی،حالاں کہ غیرمقلدین بھی ایسانہیں کہتے ہیں توپھراس کی قربانی کیوں کرجائز نہیں ہوگی۔
غیرمقلدین کے یہاں گھوڑے کی قربانی بھی جائز ہے ۔(فتاوی ستاریہ:۱؍۱۴۹)وہ حضرت اسماء بنت ابوبکرکی روایت کو دلیل بناتے ہیں کہ روایت میں لفظ’’نحرنا‘‘ہے جوقربانی کے معنی میں ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓنے فرمایا:’’ نحرنا علی عھد  النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرساً فأکلناہ۔‘‘ ترجمہ: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑے کو ذبح کیا اور اس کاگوشت کھایا۔(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید؛باب النحروالذبح) حالاں کہ یہ دلیل تب بنے گی جب ’’نحرنا‘‘ بمعنی ’’نسکنا‘‘ ہو جبکہ حدیث میںنحرنا ’’ذبحنافرسا‘‘ کے معنی میں ہے جس کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں ’’ذبحنا‘‘ کالفظ صراحتا موجود ہے۔چنانچہ صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۱۱ کے الفاظ ہیں:عن اسماء قالت ذبحنا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرسا ونحن بالمدینۃ فأکلناہ۔یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ہم نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر:۳۰۲کی روایت ہے:عن اسماء بنت ابی بکرقالت ذبحنا فرسا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأکلناہ یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ فرماتی ہیں :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑاذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح کنزالعمال کی روایت میں بھی ذبحنا کالفظ ہے۔دوسری بات یہ کہ جن احادیث سے گھوڑے کاگوشت کھانے کاجواز معلوم ہوتا ہے وہ سبھی احادیث منسوخ ہیں ۔اس لیے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اکل لحوم الخیل والبغال والحمیر۔زاد حَیْوَۃُ۔ و کل ذی ناب من السباغ۔ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچراور گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا۔حیوہ(راوی) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں کاگوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔(سنن ابوداود:کتاب الاطعمۃ ؛باب فی اکل لحوم الخیل) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خیبرکے دن لوگوں کو بھوک نے ستایاتوانہوں نے گھریلوگدھوں کو پکڑا اور ذبح کیا اور ان سے ہانڈیوں کو بھردیا جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی توآپؐ نے ہمیں حکم دیا توہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو گرادیا ۔آپؐ نے فرمایا :اللہ تعالی اس سے زیادہ حلال اور پاکیزہ رزق عطافرمائیں گے ،چنانچہ ہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو جوش مارنے کی حالت میں گرادیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں، گھوڑوں، خچروں کے گوشت، کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں ،پنجوں کے ساتھ کھانے والے پرندوں، باندھ کر نشانہ بنائے گئے جانور، درندے کے ہاتھوں چھڑائے گئے جانور جو ذبح سے پہلے ہی مرجائے اور (کسی درندے کے ہاتھوں ) اچکے ہوئے جانور کے گوشت کوحرام قراردیا۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی :۸؍۶۹، المعجم الاوسط لطبرانی :۴؍۹۳،رقم:۳۶۹۲)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گھوڑے کے گوشت کو مکروہ (اور ناجائز) کہتے تھے اور دلیل میں قرآن پاک کی یہ آیت ’’والخیل والبغال والحمیرلترکبوھاوزینۃ‘‘ پیش کرتے تھے۔(احکام القرآن للجصاص :۳؍۲۷۰من سورۃ النحل)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کودلیل بناتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ان تین چیزوں (گھوڑا،خچراور گدھا) کاذکراللہ تعالی کی نعمتوں کے ضمن میں ہوا ہے ،کسی جانور کاسب سے بڑا فائدہ اس کاگوشت کھاناہے ۔حکیم ذات احسان کاذکر کرتے ہوئے کبھی بھی اعلی نعمتوں کوچھوڑ کر ادنی نعمت کاتذکرہ نہیں کرتی۔(اور یہاں اعلی فائدہ ’گوشت کھانا‘ چھوڑ کر ادنی فائدہ ’سواری کرنا‘ کاذکر ہے جودلیل ہے کہ اگر گھوڑے کاگوشت کھاناجائز ہوتا تو اللہ تعالی ضرور ذکر فرماتے )اسی لیے فقہائے کرام نے بھی گھوڑے کے گوشت کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔چنانچہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام اوزاعی گھوڑے کے گوشت کو مکروہ جانتے تھے ۔یہی قول امام مجاہد، امام ابوبکر الاصم اور امام حسن بصری سے بھی منقول ہے۔توجب گھوڑا کوذبح کرکے اس کاگوشت کھانا جائز ہی نہیں ہے تو گھوڑے کی قربانی کیسے جائز ہوگی۔’’نیزثمانیۃ ازواج‘‘ کی وضاحت قرآن نے جن جانوروں سے کی ہے ان میں گھوڑاشامل نہیں ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر:
اونٹ کی عمرکم ازکم پانچ سال ۔گائے ،بیل ،بھینس کی عمرکم ازکم دوسال۔بکری، بکرا،بھیڑ،دنبہ کی عمرکم ازکم ایک سال ۔البتہ چھ ماہ کا دنبہ اتنافربہ ہو کہ ایک سال کالگتاہوتوسال سے کم ہونے کے باوجود اس کی قربانی جائز ہے ۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قربانی کے لیے عمروالاجانورذبح کرو،ہاں اگرایساجانور میسرنہ ہوتو پھر چھ ماہ کادنبہ ذبح کروجوسال کالگتاہو۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:۱۹۶۳،باب سن الاضحیۃ،ابوداودحدیث :۲۷۹۷،اعلاء السنن) حدیث میں دوباتیں قابل غورہیں:پہلی بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانورکے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایاہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’علماء  فرماتے ہیں کہ  ’’مسنہ ‘‘ سے مراد  اونٹ، گائے اور بکری میں ’’الثنی ‘‘ ہے۔ (شرح مسلم للنوی:۲؍۱۵۵) اور فقہائے کرام کے یہاں ثنی سے مراد یہ ہے کہ بھیڑ بکری،ایک سال کی ہو، گائے اور بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کاہو۔(فتاوی عالمگیری:۵؍۲۹۷، کتاب الاضحیۃ ؛الباب الخامس) دوسری بات یہ کہ حدیث میں مسنہ کے متبادل ’’ جذعۃ من الضأن ‘‘ کاحکم فرمایااس سے مراد وہ دنبہ ہے جوچھ ماہ کاہو مگردیکھنے میں ایک سال کالگتاہو۔چنانچہ علامہ نجیم فرماتے ہیں:’’ حضرات فقہاء فرماتے ہیں اس سے مراد وہ دنبہ ہے جواتنابڑا اگراس کو سال والے دنبوں میں ملادیاجائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ ) وہ ہے جوچھ ماہ مکمل کرچکا ہو۔(البحرالرائق:۸؍۲۰۲،کتاب الاضحیۃ)یہ حکم صرف بھیڑاور دنبہ میں ہے ،بکری یاگائے ،بھینس اور اونٹ کے لیے نہیں کیوں کہ حدیث پاک میں صرف اسی کی اجازت ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ عمرکے مکمل ہونے کااطمینان ضروری ہے ،دانتوں کاہوناضروری نہیں۔ (احسن الفتاوی:۷؍۵۲۰)غیرمقلدین کے یہاں مدارعمرنہیں بلکہ دانتا ہوناشرط ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ازعبداللہ غیرمقلد:۲؍۳۹۲)غیرمقلدین کاکہناہے کہ حدیث میں مسنہ لفظ آیاہے جوثنی سے ہے اور لغت میں ثنی کے معنی دو دانتوں کے ہیں،لہذاایساجانورجس کے دو دانت گرگئے ہوں مراد ہے ۔حالاں کہ مسنہ کامعنی لغت میں دو دانتابھی ہے اور عمروالابھی۔اور یہ مسئلہ چوں کہ شریعت کاہے اس لیے لغت کاوہ معنی مرادلیں گے جواصحاب شرع نے لیاہے اوروہ فقہاء ہیں۔امام ترمذی فرماتے ہیں: و کذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی،کتاب الجنائزباب غسل المیت:۱؍۱۹۳)ترجمہ:اورفقہاء حدیث کامعنی زیادہ جانتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جذع سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمروالاجانور ہے۔ مسنہ کے متبادل عمر کے اعتبار سے جانور کاتعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ کی بنیاد عمرہے نہ کہ دانت گرنا۔
قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
بکرا،بکری ،بھیڑ یادنبہ کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیاکہ مجھ پر ایک بڑ اجانور (اونٹ یاگائے) واجب ہوچکا ہے اورمیں مالدار ہوں اور مجھے بڑا جانور نہیں مل رہا ہے کہ میں اسے خرید لوں (لہذا اب کیاکروں؟) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سات بکریاں خرید لو اور انہیں ذبح کرلو۔اس حدیث میں آپ نے بڑے جانور کو سات بکریوں کے برابر شمار کیا اور بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیںاس سے زیادہ نہیں ۔معلوم ہواکہ ایک بکری یاایک دنبہ کی قربانی ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے جائز نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے(اعلاء السنن:باب ان البدنۃ عن سبعۃ)اور اونٹ ،گائے یا بھینس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کااحرام باندھ کر نکلے تو آپ نے حکم دیاکہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں۔(مسلم حدیث :۱۳۱۸باب: الاشتراک فی الھدی)نیز حضرت جابررضٓی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی،چنانچہ اونٹ ۷ آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی ۷ آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔(مسلم  حدیث نمبر:۱۳۱۸،ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۲،ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۳۲)
ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے کافی نہیں:
غیرمقلدین کامانناہے کہ ایک بکری میں سارے گھروالے شریک ہوسکتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ توآپ ؓ نے جواب دیا: آدمی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کیاکرتا تھا ،پھر سارے گھروالے اسے کھاتے تھے اور (دوسروں کوبھی) کھلاتے تھے،یہاں تک کہ لوگ دکھاوے اور فخر میں مبتلاہوگئے اور وہ کچھ ہونے لگا جوتم دیکھ رہے ہو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۵،باب ماجاء ان الشاۃ تجزی عن اھل البیت) حالاں کہ حدیث میں مراد اشتراک فی اللحم ہے یعنی ذبح توایک آدمی کرتاتھاجس پر قربانی واجب ہوتی تھی اور اس کاگوشت سارے گھروالے کھاتے تھے، چنانچہ امام محمد شیبانی ؒ فرماتے ہیں:’’ایک شخص محتاج ہوتا تھا توایک ہی بکری ذبح کرتا،قربانی تواپنی طرف سے کرتا لیکن کھانے میں اپنے ساتھ گھروالوں کوبھی شریک کرتاتھا۔جہاں تک ایک بکری کامعاملہ ہے تو وہ دویاتین آدمیوں کی طرف سے کفایت نہیں کرتی بلکہ صرف ایک شخص کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔‘‘(مؤطا الامام محمد:ص۲۸۲،باب مایجزی ٔ من الضحایا عن اکثرمن واجد)مولاناعبدالحی لکھنوی اس ذیل میں لکھتے ہیں:’’اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو گوشت کی ضرورت ہوتی یاوہ فقیر ہوتا اور قربانی اس پرواجب نہیں ہوتی تو وہ اپنی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اپنے گھروالوں کو گوشت کھلاتا یاگھروالوں کو ثواب میں شریک کرتا اور یہ جائز ہے۔باقی رہا واجب قربانی کی صورت میں ایک بکری میں اشتراک تویہ جائز نہیں۔‘‘(التعلیق الممجدعلی موطاالامام محمد:ص۲۸۲)جبکہ مولاناظفراحمدعثمانی تھانوی ؒ تفصیل سے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ جہاں تک حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے فرمان کہ’’ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بکری اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرتا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے فخر کرناشروع کردیا۔‘‘ اور ابوسریحہ کے فرمان کہ ’’گھروالے ایک یادو بکریاں ذبح کرتے تھے اور اب اپنے پڑوسیوں سے بھی بخل کرتے ہیں‘‘ کاتعلق ہے تویہ ہماری دلیلیں ہیں ،ہمارے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالدار پراپنی اولاد اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے بلکہ (ہمارادعوی ہے کہ) اس پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے اور یہی ابوایوب انصاری ؓ اور ابوسریحہ کی مراد ہے کہ مالدار آدمی اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے قربانی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اپنے گھروالوں کی طرف سے کرتا تھا حتی کہ لوگوں نے فخرکرناشروع کردیا ۔اسی وجہ سے تو ابوسریحہ نے کہاکہ ایک گھروالے ایک یادوبکریاں ذبح کرتے تھے۔اگریہ بات مشترک قربانی کے لیے ہوتی توایک بکری سے زیادہ ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں (کیوں کہ اس صورت میں ایک بکری کفایت کرجاتی) لیکن مالدار تو صرف گھرکاسربراہ ہوتاہے ۔اس وقت چوں کہ گھرکے سربراہ ایک یادوہوتے تھے اسی وجہ سے گھروالے ایک یادوبکریوں کی قربانی کرتے تھے اور وہ اپنے چھوٹوں اور بڑے فقراء کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگ اس میں فخر کرنے لگے ۔تو اس صورت میں ایک بکری کے پورے گھروالوں کی طرف سے کافی ہونے پرکوئی دلیل نہیں جب کہ سارے گھروالے مالدار ہوں۔خوب سمجھ لو۔(اعلاء السنن:۱۷؍۲۱۱)مولاناالیاس گھمن فرماتے ہیں: یہ ایسے ہے جیسے ایک گھرانے میں ایک آدمی نے قربانی کی ہوتی ہے اور ہمارے عرف میں کہہ دیاجاتا ہے کہ ’’فلاں گھرانے نے قربانی کی ہے‘‘ تو پورے گھر کی طرف نسبت کرناعرف کے اعتبارسے ہے نہ کہ ایک بکری کے گھرانے کی طرف سے کفایت کرنے کے اعتبارسے۔ اس پر قرائن یہ ہیں:(الف) اہل بیت میں تو نابالغ بچے بھی شامل ہیں جن پر قربانی واجب نہیں ہوتی۔ (ب) بیوی بھی اگرصاحب نصاب ہوتواس پر زکوۃ الگ سے فرض ہوتی ہے جودلیل ہے کہ ایک کافرض دوسرے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا یہی حال گھرمیں موجود بالغ بیٹوں اور بیٹیوں کاہے۔(ج) گائے اور اونٹ میں سات افراد کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بکری ایک فرد کی طرف سے ہی کفایت کرتی ہے توجس طرح بڑے جانور میں ساتواں حصہ ایک کی جانب سے ہوتا ہے اس طرح ایک بکری ایک ہی طرف سے ہوتی ہے۔(د) خود اس روایت میں ذبح کے بعد ’’یاکلون‘‘کہنابھی اس بات کاقرینہ ہے کہ صحابی کی مراد اشتراک سے اشتراک فی اکل ہے نہ کہ اشتراک فی اداء الواجب۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کادوسراجواب یہ ہے کہ اس سے مراد نفلی قربانی ہے ۔نفلی قربانی انسان اپنی طرف سے کرتا ہے لیکن ثواب میں دوسروں کوشریک کرتا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی قربانی میں امت کو شریک کیاہے۔عبدالرحمن بن سابط سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوموٹے تازے مینڈھے ذبح کیے،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ہر اس شخص کی جانب سے جس نے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھاہو۔(کتاب الآثار بروایت محمدحدیث نمبر:۷۹۰،باب الاضحیۃ)علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ واماماروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بشاۃ عن امتہ فانما کانت تطوعا۔‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جومروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری امت کی طرف سے ذبح کی تھی تویہ نفلی قربانی تھی۔(عمدۃ القاری ،کتاب الحج:۷؍۲۸۷)  مولاناخلیل احمدسہارنپوری فرماتے ہیں:’’انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انما فعل ذلک لأجل الثواب وھو انہ جعل ثواب تضحیۃ بشاۃ واحدۃ لامتہ لا للاجزاء وسقوط التعبد عنھم۔ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقربانی کی تھی وہ ثواب کے لیے کی تھی ،اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک بکری کاثواب امت کوپہنچایا تھا ایسانہیں تھا کہ ان کی طرف سے قربانی کی کفایت اوران سے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کی تھی۔(بذل المجہودشرح ابوداودکتاب الضحایا ،باب فی الشاۃ یضحی بھاعن جماعۃ:۴؍۷۶)
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں کیوں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کاموقع آگیا ،توہم نے گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمیوں کے حساب سے شرکت کی۔ حالاں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث متروک ہے اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث معمول بہ ہے جو پہلے بیان کی جاچکی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم‘‘۔ یعنی اسی پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کاعمل ہے۔(ترمذی:۱؍۲۷۶) باب ماجاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت) اوریہ ضابطہ ہے کہ :’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو حدیثیں مروی ہوں اور دونوں میںاختلاف ہو تو دیکھاجائے گا کہ جس پر صحابہ نے عمل کیاہواسے لیا جائے گا۔(سنن ابوداود،باب لحم الصیدللمحرم،باب من لایقطع الصلوۃ شیء)نیزمحدثین کی عادت ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کو لاتے ہیں جوان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں پھرناسخ ۔امام نووی نے یہ بات ذکرکی ہے (شرح نووی:۱؍۱۵۶باب الوضوع ممامست النار) اس لحاظ سے دیکھاجائے تو امام ترمذی نے پہلے عبداللہ بن عباس کی حدیث نقل کی ہے اور اس کے بعد حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث نقل کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کی حدیث منسوخ ہے۔نیز یہ کہ ابن عباسؓ کی حدیث فعلی اور حضرت جابرؓکی حدیث قولی ہے اور حدیث قولی کو حدیث فعلی پر ترجیح ہوتی ہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’انہ تعارض القول والفعل ،و الصحیح حینئذ عند الاصولیین ترجیح القول‘‘یعنی یہاں قول اورفعل میں تعارض ہے اور اصولین کے نزدیک اس وقت ترجیح قول کوہوتی ہے۔(شرح مسلم للنووی:باب تحریم نکاح المحرم)
قربانی کاوقت:
قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے نمازعید اداکرنے کے بعد اوردیہات والوں کے لیے جن پر نمازجمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہترہے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ہمارے اس عید کے دن سب سے پہلاکام یہ ہے کہ ہم نمازپڑھیں پھرواپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پرعمل کیا یعنی عید کے بعدقربانی کی تو اس نے ہمارے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تووہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھروالوں کے لیے تیارکیاہے ،اس کاقربانی سے کوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری حدیث:۵۵۶۰،کتاب الاضاحی باب :الذبح بعدالصلوٰۃ،مسنداحمد حدیث نمبر:۱۸۴۸۱،۱۸۶۹۳)اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایاہے ۔دیہات میں چوں کہ عید کی نماز کا حکم نہیں ہے اس لیے وہاں اس شرط کاوجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا ۔وہاں قربانی کے وقت کاشروع ہوناہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہوجاتاہے۔
قربانی کے ایام :
قربانی کے تین دن ہیں :۱۰،۱۱،۱۲؍ذی الحجہ۔
حضرت عبداللہ بن عبا س ؓفرماتے ہیں کہ قربانی کے دن دس ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دودن ہیں البتہ یوم النحر(دس ذی الحجہ )کو قربانی کرنا  افضل ہے۔(احکام القرآن لابی جعفرالطحاوی۲؍۲۰۵)٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ قرآن کی آیت :’’ویذکروااسم اللہ فی ایام معلومات ‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ ’’ایام معلومات‘‘ سے مرادیوم نحراور اس کے بعددودن ہیں۔(تفسیرابن ابی حاتم الرازی:۶؍۲۶۱)٭قال علی رضی اللہ عنہ :النحر ثلاثۃ ایام ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تین ہیں۔(احکام القرآن للطحاوی :۲؍۲۰۵،موطامالک:ص ۴۹۷،کتاب الضحایا) ٭حضرت سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ضحی منکم ،فلایصبحن بعد ثالثۃ وفی بیتہ منہ شی ء‘‘ یعنی جوشخص قربانی کرے توتیسرے دن کے بعد اس کے گھرمیں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۶۹،باب مایوکل من لحوم الاضاحی)اس حدیث سے بھی معلوم ہواکہ قربانی کے دن تین ہی ہیں کیوں کہ جب چوتھے دن قربانی کابچاہواگوشت رکھنے کی اجازت نہیں توپوراجانورقربان کرنے کی اجازت کیوں کرہوگی؟
یہاں یہ بات یادرہے کہ تین دن کے بعد قربانی کاگوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ۔(مستدرک حاکم:۲؍۲۵۹) تاہم اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی توتین دن بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھاجاسکتاہے توکیاقربانی کی بھی اجازت پورے سال ہوگی ؟ہرگزنہیں،توتین دن بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اورنہ اب ہے۔
حضورؐ یاکسی صحابی سے۱۳؍ذی الحجہ کوقربانی کرناثابت نہیں:
بعض علماء اورغیرمقلدین نے مسنداحمد کی حدیث :’’کل ایام التشریق ذبح‘‘ کی بنیاد پر فرمایاکہ ۱۳ذوالحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے؛لیکن ائمہ ثلاثہ حضرت امام ابوحنیفہؒ،حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میںفرمایاہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔امام احمد بن حنبل ؒ نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے سلسلے میں وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،نیز اس  طرح کی دیگر روایتیں بھی ضعیف ہیںاور اصول ہے کہ ضعیف حدیث سے حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔احتیاط کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی صرف تین دن تک ہی محدود رکھاجائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳؍ذوالحجہ کو قربانی کرناثابت نہیں ہے۔
یہاں پر ایک اشکال یہ رہ جاتا ہے کہ اگرتیرہ ذی الحجہ قربانی کادن نہیں توپھر اس میں روزہ رکھناجائز کیوںنہیں ؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ روزہ جائز ہوناچاہئے کیوں کہ وہ قربانی کادن نہیں ہے ؛لیکن ہم نے عقل کوحدیث پاک کی وجہ سے چھوڑدیا ۔کیوں کہ احادیث مبارکہ میں ایام تشریق کو کھانے ،پینے اور جماع کے ایام فرمایاگیا نہ کہ ذبح اورقربانی کے۔
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایام تشریق کھانے اور پینے کے ہیں۔(مسلم حدیث:۱۱۴۱، باب: تحریم صوم ایام التشریق)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کادن،قربانی کادن اور ایام تشریق اہل اسلام کی عید کے دن اور کھانے پینے کے دن ہیں۔(ترمذی حدیث:۷۷۳، باب ماجاء فی کراھیۃ الصوم فی ایام التشریق)حضرت زیدبن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں ایک صحابی کوحکم فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کرو ،سنو! یہ دن کھانے ،پینے اور ہمبستری کرنے کے ہیں۔(اتحاف الخیرۃ لامام بوصیری،باب النھی عن صوم ایام التشریق)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے دنوں میں حکم فرمایا کہ میں لوگوں میں اعلان کروں :کہ ایام تشریق کھانے،پینے اور جماع کے دن ہیں ؛اس لیے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھنا۔(شرح معانی الآثارللطحاوی ،باب المتمتع الذی لایجدھدیاولایصوم فی العشر)
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے کہ ہم (قربانی کے جانورکے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیاہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یاپچھلی طرف سے کٹاہواہواورنہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔(سنن ترمذی،ابوداو،نسائی)ان جیسی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
۱۔ لنگڑاجانورجس کالنگڑاپن اتناظاہرہوکہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔۲۔ اندھایاایساکانا جس کاکاناپن ظاہر ہو۔۳۔ ایسا بیمارجس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔۴۔ ایسادبلا اورمریل جانورجس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو ۵۔ جس کی پیدائشی دم نہ ہو ۶۔جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔۷۔ جس کادم یاکان کاایک تہائی یااس سے زیادہ حصہ کٹاہو۸۔ جس کوپیدائشی طورپرتھن نہ ہو۔۹۔ دنبہ ،بکری ، بھیڑ کاایک تھن نہ ہو یامرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یاکسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو ۔۱۰۔ گائے، بھینس ، اونٹنی کے دوتھن نہ ہو ں یاخشک ہوگئے ہوں یاکسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں۔۱۱۔ آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی چلی گئی ہو ۔۱۲۔ جس کے دانت بالکل نہ ہوںیااکثرگرگئے ہوں یاایسے گھس گئے ہوں کہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۳۔ جس کاایک یادونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائے۔۱۴۔ جسے جنون کامرض اس حدتک ہوکہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۵۔ خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزورہو۔ ۱۶۔ جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔  ۱۷۔ جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یاایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔  ۱۸۔ جس کے تھن کا تہائی یااس سے زیادہ حصہ کاٹ دیاگیاہو۔ ۱۹۔ بھیڑ بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔  ۲۰۔ جس اونٹنی یاگائے بھینس کی دو گھنڈیا جاتی رہی ہوں۔ ۲۱۔ جس گائے یابھینس کی پوری زبان یاتہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۲۔ جلالہ یعنی جس کی غذانجاست وگندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔ ۲۳۔ جس کا ایک پاوں کٹ گیاہو۔ ۲۴۔ خنثی جانور جس میں نراور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ ۲۵۔ کسی جانور کے اعضا زائد ہوں مثلا چارکے بجائے پانچ ٹانگیں یاچارکے بجائے آٹھ تھن توچوں کہ یہ عیب ہے اس لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ البتہ جس جانور کاپیدائشی طورپر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ (قربانی کے فضائل ومسائل  :مفتی احمدممتاز)
جن جانوروں کی قربانی بہترنہیں:
۱۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔ ۲۔ جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کااثر جڑ تک نہیں پہنچاہو۔ ۳۔ وہ جانور جوجفتی پرقادرنہ ہو۔ ۴۔ جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔ ۵۔ بچے والی ہو۔ ۶۔ جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔ ۷۔ جسے داغا گیاہو۔ ۸۔ وہ بھیڑبکری جس کی دم پیدائشی طورپر بہت چھوٹی ہو۔ ۹۔ جس کے تھنوں میں بغیرکسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتاہو۔ ۱۰۔ ایسا کانا جس کاکاناپن پوری طرح واضح نہ ہو۔ ۱۱۔ ایسا لنگڑا جوچلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پاوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مددلیتاہو۔ ۱۲۔ جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔ ۱۳۔ جس کاکان یادم یاآنکھ کی روشنی کاتہائی سے کم حصہ جاتارہاہو۔ ۱۴۔ جس کے کچھ دانت نہ ہوں مگر وہ چاراکھاسکتاہو۔ ۱۵۔ جس کاجنون اس حدتک نہ پہنچاہو کہ چارانہ کھاسکے۔ ۱۶۔ ایسا خارشی جانور جوفربہ اور موٹاتازہ ہو۔ ۱۷۔ جس کاکان چیردیاگیاہو یاتہائی سے کم کاٹ دیاگیا ہو۔اگردونوں کانوں کاکچھ حصہ کاٹ لیاگیا ہو تو اگرمجموعہ تہائی کان کے مساوی یااس سے زیادہ ہوجائے توقربانی جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔ ۱۸۔ بھینگاجانور، ۱۹۔ وہ بھیڑ دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۰۔ وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارا آسانی سے کھاسکے۔ ۲۱۔ جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چاراکھلایاجائے ۔۲۲۔ وہ دبلا اور کمزور جانور جوبہت کمزور اور لاغرنہ ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:قال القھستانی واعلم ان الکل لایخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرۃ فما جوز ھھنا مع الکراھۃ کما فی المضمرات۔(ردالمحتار:۶؍۳۲۳)یاد رہے کہ گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلاکراہت جائز ہے ۔اور خصی کی قربانی جائزہی نہیں بلکہ افضل ہے۔ (فتاوی ہندیہ۔اعلاء السنن)
خصی جانورکی قربانی:
خصی جانورکی قربانی کرناجائز ہے بلکہ فقہاء توفرماتے ہیں کہ افضل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دو سینگوں والے،موٹے تازے خصی مینڈھوں کوذبح فرمایا۔(سنن ابی داود،باب مایستحب من الضحایا) اس کی وجہ یہ ہے کہ خصی جانور کاگوشت لذیذ اور صاف ہوتا ہے۔ فقیہ عبدالرحمن بن محمد بن سلیمان ؒ لکھتے ہیں:’’ وعن الامام أن الخصی أولی لأن لحمہ ألذ وأطیب‘‘ ترجمہ: امام ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرناافضل ہے ،اس لیے کہ خصی کاگوشت لذیذ اور اچھا ہوتاہے۔(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر:۴؍۱۷۱کتاب الاضحیۃ)
قربانی کے ساتھ عقیقہ کاحصہ :
قربانی کے جانورمیں عقیقہ کاحصہ رکھناجائز ہے۔علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:’’شرکاء میں سے بعض کا ارادہ اپنے بچوں کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ہو تو یہ جائز ہے۔(بدائع الصنائع:۴؍۲۰۹) اس لیے کہ عقیقہ بھی ایک مشروع قربانی ہے البتہ واجب نہیں ۔ حدیث پاک میںقربانی کی طرح عقیقہ کے لیے بھی ’’نسک ‘‘اور ’’اہراق دم ‘‘کالفظ استعمال ہوا ہے ۔ سنن ابوداود (کتاب الضحایا ،باب فی العقیقہ )میں روایت ہے:’’من ولد لہ ولد فاحب ان ینسک عنہ فلینسک‘‘ ترجمہ: جس کابچہ پیداہواور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرناچاہے توذبح کرلے۔اورصحیح بخاری کی روایت ہے :’’مع الغلام عقیقۃ فأھریقوا عنہ دما وامیطوا عنہ الأذی‘‘(بخاری رقم الحدیث:۵۴۷۱،عن سلمان بن عامر)
اس مشابہت سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کی صفات،عمر،مقدار،شرائط اوراحکام کے متعلق جوحکم قربانی کاہے وہی حکم عقیقہ کاہے۔اوربڑے جانور میں سات حصے ہوسکتے ہیں اس لیے ایک بڑے جانور میں عقیقہ کے حصے بھی ہوسکتے ہیں۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیداہو تو وہ اس کی جانب سے اونٹ،گائے یابکری ذبح کرے۔(معجم صغیرطبرانی:۱؍۱۵۰)یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک صحیح السند موقوف روایت سے بھی ہوتی ہے۔حضرت قیادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کی طرف سے بڑا جانور ذبح کرتے تھے۔(معجم کبیرطبرانی:۱؍۱۸۷) البتہ گائے ،بھینس اوراونٹ کی بجائے بکری بکرابہتراورافضل ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقیقہ میں گائے اور اونٹ کافی نہیں ،اس لیے کہ عبدالرحمن بن ابوبکرکے یہاں بچہ پیداہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا:یاام المومنین عقی علیہ اوقال عنہ جزورا فقالت : معاذ اللہ ولکن ّ ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاتان مکافأتان۔(سنن بیہقی :۹؍۳۰۱)یعنی ام المومنین ہم اس کی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں۔اس پر انہوں نے کہا:معاذ اللہ (ہم وہ ذبح کریں گے ) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے (لڑکے کی طرف سے ) ایک جیسی دوبکریاں۔مگریہ کم فہمی کانتیجہ ہے۔ اس میں معاذ اللہ کہنے سے مراد بڑے جانور کی نفی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ بکری ذبح کرنا افضل ہے۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ: نذرت امرأۃ من آل عبدالرحمن بن أبی بکر ان ولدت امرأۃ ُ عبدالرحمن نحرناجزوراً فقالت عائشۃرضی اللہ عنھا لا بل السنۃ افضل عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاہ۔(مستدرک حاکم رقم الحدیث:۷۶۶۹) ترجمہ: عبدالرحمن بن ابوبکر کے گھروالوں نے نذرمانی کہ اگربچہ پیدا ہواتو اس کے عقیقہ کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کریں گے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ نہیں سنت (پرعمل کرنا) افضل ہے اور یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جاتی ہے۔
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہواکہ عقیقہ بڑے جانور کاکرناجائز ہے اگرچہ افضل بکرایابکری کاعقیقہ کرناہے۔
کیاقربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے؟
اللہ کایہ نظام ہے کہ انسانوں یاجانوروں کوجس چیزکی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے ،اس کی پیداواراتنی بڑھادیتے ہیںاورجس چیزکی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداواربھی اتنی ہی کم ہوجاتی ہے۔آپ پوری دنیاکاسروے کریں اورجائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم حکم پرعمل کیاجاتاہے ،کیاان ممالک میں قربانی والے جانورناپیدہوچکے ہیں ؟آپ کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیاسے حلال جانور ختم ہوگئے ہیں یااتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کوقربانی کرنے کے لیے جانورہی میسرنہیں آئے ،جب کہ اس کے برعکس کتے اور بلیوں کودیکھ لیں ،ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے ؟ان کی تعدادبمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظرآتی ہے،حالاں کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت(وماانفقتم من شیء فھویخلفہ) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:’’اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جوچیز خرچ کرتے ہواللہ تعالی اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کابدل دے دیتے ہیں؛کبھی دنیامیں کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں،کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کامشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ،انسان اور جانوراس کوبے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کوسیراب کرتے ہیں ،وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہوجاتاہے،اسی طرح زمین سے کنواں کھود کرجوپانی نکالاجاتا ہے ،اس کو جتنانکال کرخرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہوجاتاہے۔انسان غذاکھاکر بظاہر ختم کرلیتا ہے ؛مگراللہ تعالی اس کی جگہ دوسری غذا مہیاکردیتے ہیں،بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جواجزا تحلیل ہوجاتے ہیں ،ان کی جگہ دوسرے اجزا بدل بن جاتے ہیں ۔غرض انسان دنیا میں جوخرچ کرتا ہے اللہ تعالی کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں،کبھی سزادینے کے لیے یاکسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہوجانا اس ضابطہ الہیہ کے منافی نہیں ۔اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جواشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدافرمائی ہیں ،جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ،ان کابدل منجانب اللہ پیداہوتارہتا ہے ،جس چیزکاخرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی پیداواربھی بڑھادیتے ہیں ۔جانوروں میں بکرے اور گائے کاسب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کرکے گوشت کھایاجاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیاجاتا ہے ،وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ،اللہ تعالی اتنی ہی زیادہ اس کی پیداواربڑھادیتے ہیں،جس کاہرجگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہروقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ،کتے بلی کی تعداداتنی نہیں۔حالا ں کہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چارپانچ بچے تک پیداکرتے ہیں ،گائے بکری زیادہ سے زیادہ دوبچے دیتی ہے۔گائے بکری ہروقت ذبح ہوتی ہے،کتے بلی کوکوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛مگرپھربھی یہ مشاہدہ ناقابل انکارہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعدادبہ نسب کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ،اس وقت سے یہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے،ورنہ ہربستی اور ہرگھرگایوں سے بھراہوتاجوذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لیناکم کردیا ،وہاں اونٹوں کی پیداواربھی گھٹ گئی ،اس سے اس ملحدانہ شبہ کاازالہ ہوگیا ،جواحکام قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کااندیشہ پیش کرکے کیاجاتاہے۔‘‘ (معارف القرآن:سورۃ السباء:۳۹،۳۰۳؍۷)
حضرت مولاناسرفرازخاں صفدرصاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’منکرین قربانی نے اپنی عقل نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعم خود قربانی کے نقصانات اور ترک قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں،مثلا یہ کہاہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور لوگوںکی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ،اگریہ رقوم رفاہ عامہ کے کسی مفید کاموں میں صرف کی جائیں تو کیاہی اچھاہو،وغیرہ وغیرہ ،مگریہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی کے حکم کو محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کرردکیاجاسکتا ہے ؟ کیااس کوقربانی کاحکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟رب تعالی کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون ساایمان ہے ؟اور پھر جناب خاتم الانبیاحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قول وفعل اور امت مسلمہ کے عمل کو جوتواترسے ثابت ہوا ہے ،خلاف عقل یامضربتاناکون سادین ہے؟‘‘( مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی)
پوری دنیاخصوصامسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟
پوری دنیامیں خصوصا مسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں ،آئیے! ایک رپورٹ کے مطابق اس کابھی جائزہ لیتے ہیں:
 مسلم دنیاکاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک انڈونیشیاہے ،اس کی ساڑھے ۲۵کروڑآبادی میں سے ۱کروڑ۸لاکھ ۴۰ ہزار لوگ ہرسال قربانی کرتے ہیں۔پاکستان کی تقریبا۲۰کروڑآبادی میں سے ہرسال ۱کروڑ۲۲لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔بنگلہ دیش کی آبادی ۱۵کروڑ۱۴لاکھ میں سے ۸۰لاکھ ۷۲ہزاربنگالی ہرسال قربانی کرتے ہیں۔مصرکی آبادی ۸کروڑ۵لاکھ۲۴ہزارآبادی میں سے ۶۲لاکھ ۲۳ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ترکی کی آبادی ۷کروڑ۴۶لاکھ میںسے ۴۸لاکھ ۲۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ایران کی آبادی ۷کروڑ۳۸لاکھ اور۲۱لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔مراکو۳کروڑ۲۳لاکھ آبادی اور۸لاکھ ۴۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔عراق ۳کروڑ۱۱لاکھ آبادی اور ۴لاکھ ۷۲ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔الجیریا۳کروڑ۴۸لاکھ آبادی اور۴لاکھ۲۱ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سوڈان ۳کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۵۴ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سعودی عرب کی آبادی ۲کروڑ۵۴لاکھ ہے مگریہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے،تقریباایک کروڑ۵۰لاکھ ۳۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں ،البتہ سال رواں کروناوباکی وجہ کر فریضہ حج کی ادائیگی کومحدودکردیاہے ۔افغانستان ۲کروڑ۹۰لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۱۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ازبکستان ۲کروڑ۶۸لاکھ آبادی اور ایک لاکھ ۶۰ ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔شام ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اورایک لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔کویت کی ۵لاکھ آبادی اور۹۸ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ملائیشیاایک کروڑ۷۰لاکھ آبادی اور۹۵ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔تونیسیا ایک کروڑ۳۴لاکھ آبادی اور۸۷ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یمن ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۸۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یہ وہ بڑے بڑے مسلم ممالک ہیں جن میں قربانیوں کی تعداددوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے تاہم دیگرمسلم ممالک جیسے فلسطین،لیبیا،اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبا،تاجکستان، آذر بائجان،ترکمانستان،قارقستان،کرغستان،قطر،بحرین،عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں قربانی ہوتی ہے اسی طرح بھارت کے ۱۷کروڑمسلمانوں میں سے ایک کروڑسے زائدلوگ قربانی کرتے ہیں۔اب آپ درج بالاممالک میں قربانیوں کے اعدادوشمار کامجموعہ ملاحظہ کیجئے ۔یہ ۶کروڑ۲۰لاکھ ۹۳ہزار قربانی کرنے والے افرادبن جاتے ہیں ،اگراسدیگر تمام مسلم ممالک کے صرف ۵۰لاکھ اور بھارت کے مسلمانوں کو شامل کرلیاجائے تویہ مجموعہ ۷کروڑ۷۰لاکھ۹۳ہزار بن جاتا ہے۔ہم فرض کریں کہ یہ پونے ۸ کروڑ لوگ مل کر ۳کروڑجانورذبح کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں کسی ملک سے یہ خبرنہیں ملتی کہ حلال جانورختم ہوگئے یالوگوں کو قربانی کے جانورہی میسرنہیں آئے۔
قربانی سے معیشت تباہ نہیں بلکہ مستحکم ہوتی ہے:
قربانی پرایک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بقرعیدمیں کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں اس سے معیشت متاثر اور بربادہوتی ہے۔شریعت تومعیشت کو مضبوط کرتی ہے ،خراب نہیں کرتی ۔یہ کیساحکم شرعی ہے کہ جس سے معیشت خراب ہوتی ہے۔لہذاقربانی نہیں ہونی چاہئے۔توایسے افراد یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں جانور ذبح ہونے سے معیشت تباہ نہیں ہوتی بلکہ مستحکم ہوتی ہے۔ایک دن کونہ دیکھیں،ذرااس سے پیچھے جائیں ،پس منظراور احوال کودیکھیں،اندازاہوگا کہ صرف قربانی کی وجہ سے معیشت کتنی مستحکم ہوتی ہے۔٭ جانور پالنے ہوں گے۔بکرابکری ،بھیڑیادنبہ ہے تو ایک سال ،اونٹ ہے توپانچ سال اورگائے بھینس ہے تو دوسال، تومویشی پروری میں کتنے لوگ مصروف ہوں  گے۔٭چاراکاشت کرنایاخریدناہے توچارامنڈی میں آئے گا ،ٹرانسپورٹ استعمال ہوگا ،اس میں کتنے لوگ لگیں گے۔٭مویشی پروری کے لئے ملازم بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔٭ بڑے جانور کی قربانی سے پہلے اس کادودھ بھی ہے اور پھراس کی مصنوعات گھی، مکھن وغیرہ ۔٭ قربانی کے موقع پر جانورکامنڈی آنایادیہات سے شہرآنا ،اس میں بھی ٹرانسپورٹ اور افراد کاکام ہوگا۔ ٭جانور بیچنے کے نتیجے میں کس قدر زرمبادلہ ہوگا۔٭قربانی کاگوشت بنانے پر قصائی کواجرت ملے گی اور آلات کی بھی خریدوفروخت ہوگی۔٭قربانی کی کھال غریبوں یامدارس کو دیں تو انہیں بھی فائدہ ہوگا۔٭جانورکی کھال سے چمڑے کی مصنوعات تیارہوں گی ،اس سے کارخانے اور فیکٹریاں چلیں گی اوربزنس کے لئے لوگ میدان میں آئیں گے۔خلاصہ یہ کہ قربانی معاشی تباہی کاذریعہ نہیں ہے۔
فلاحی کام یاصدقہ قربانی کابدل نہیں :
بعض لوگ جواحکام شریعت کی فقہی حیثیت سے واقف نہیں یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ قربانی پرجووسائل خرچ ہوتے ہیں وہ کسی فلاحی کام، اسپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کئے جائیں تومعاشرہ کے غریب ومفلس طبقے کابھلاہوجائے ۔اس وقت مسلم طبقہ کو فلا حی کاموں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہمیں سمجھناچاہئے کہ یہ بات شریعت کی روح اور شارع کے فرمان کے خلاف ہے ۔حقیقی فلاح اللہ کاحکم پوراکرنے سے ملتی ہے ۔اوراللہ کے نزدیک ایام نحرمیں جانورکانذرانہ دینے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کاہی رہا۔آپ مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران ہرسال قربانی کرتے رہے ۔آپ ؐ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کایہی عمل رہا اور پھرپوری امت اس پر تواترکے ساتھ عمل کرتی رہی ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بقرعیدکے موقع پر جانور کی قربانی ہی واجب ہے۔اگرقربانی کے مقابلے فلاحی کاموں ،ا سپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبودپرخرچ موزوں اور ضروری ہوتا توعہدنبوی میں قربانی کے بجائے غریب ااور بدحال انسانیت پر خرچ کرنا ضروری قراردیاجاتاکیوں کہ عہدنبوی میں بھی غریب طبقے تھے اور امت پرآپ کی شفقت ومہربانی عیاں ہے؛ لیکن آپؐ نے تمام صورت حال کے باوجود اس موقع پر اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کاحکم دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس دن میں اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کاخون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کاکوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ (ترمذی ) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تو وہ بقرعید کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔(سنن دارقطنی:کتاب الاشربہ،باب الصیدوالذبائح)امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :قربانی کے ایام میں صدقہ کرنے کی بہ نسبت قربانی کرناافضل ہے۔امام ابوداود، امام ربیعہ وغیرہ کایہی مسلک ہے۔(المغنی لابن قدامہ:۹۶؍۱۱)امام نووی بھی فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں قربانی کرناہی افضل ہے نہ کہ صدقہ کرنااس لیے کہ اس دن قربانی کرناشعاراسلام ہے ،یہی مسلک سلف صالحین کاہے۔نیزقربانی کی روح فلاحی کاموں اور صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی کہ قربانی کی روح توجان دیناہے اور صدقہ کی روح مال دیناہے۔صدقہ کیلئے کوئی دن مقررنہیں اورقربانی کے لیے خاص دن مقررکیاگیاہے اور اس کانام بھی یوم االنحراور یوم الاضحی رکھاگیاہے۔
انہیں بنیادوں پر صاحب مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن قربانی کرنا یعنی خون بہانا متعین ہے ،اس عمل کو چھوڑکر جانورکی قیمت صدقہ کردینا کافی نہیں ہوگا،اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کاترک لازم آتا ہے ؛چنانچہ اہل ثروت پر قربانی کرناہی لازم ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح:۵؍۷۳)
فلاحی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے:
میری اس بحث کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے محتاجوں ،غریبوں اور ناداروں پرخرچ نہیں کرناچاہئے؛بلکہ ہمارامقصودبس اتناہے کہ ایام قربانی :۱۰ذوالحجہ سے لیکر۱۲ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑکر اس رقم کاصدقہ کرنا درست نہیں ہے۔ہاں جس شخص پر قربانی واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب نصاب کے لیے قربانی کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں یاسال کے دیگرایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا ایک مستحسن قدم اور بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے کہ غریب ومسکین کی خبرگیری اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے ؛لیکن قربانی ترک کرکے محض صدقہ وخیرات کو اس کابدل سمجھنادرست نہیں ہے۔فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر، انسانیت کی فلاح وبہبود کی خاطر خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوۃ،صدقہ فطر، عشر، کفارہ، نذر، میراث، ہدیے تحفے اور دیگر وجوبی صدقات وغیرہ کے نظام وضع کئے ہیں۔ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہناکرمطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نہ یہ کہ اسلام کے عظیم الشان حکم قربانی کے حکم کو مسخ کرکے اس کی روح کوفناکردیاجائے۔ہوناتویہ چاہئے تھا کہ معاشرے میں مروج طرح طرح کی رسومات وخرافات میں ضائع ہونے والی اربوں کھربوں کی مالیت کو کنٹرول کیاجائے ،نہ کے ایک فریضہ عبادت میں خرچ کرنے والے لوگوں کوبھی بہکاکراس سے روک دیاجائے۔
صاحب استطاعت کے لیے ہرحال میں قربانی لازم ہے:
قربانی ایک اہم عبادت اور اسلامی شعائر میں سے ہے۔اس کاثبوت قرآن وحدیث میں ہے جوپہلے بیان کیاجاچکاہے۔جوشخص ا قربانی کی گنجائش رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے متعلق حدیث میںسخت وعید بھی وارد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(حاکم،الترغیب:۲۵۶)نیزارشادرسول ہے کہ قربانی کے ایام میں کوئی عمل اللہ تعالی کوخون بہانے(قربانی) سے زیادہ پسندنہیںہے(ابن ماجہ ،ترمذی) لہذاہرعاقل ،بالغ ،مقیم ،صاحب نصاب مسلمان مردو عورت پر ایام قربانی میں جانورذبح کرنا واجب ہے۔اس لئے جب تک مقررہ وقت کے اندر قربانی کرنے کی قدرت اورامکان باقی ہو کوئی دوسراعمل قربانی کے بدلہ کافی نہیں۔قربانی کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔ 
جن لوگوں پر قربانی واجب ہواوروہاں قربانی کرنے میںکوئی قانونی رکاوٹ نہیںہوتووہاں جانورکی قربانی کرناہی واجب ہے۔اگر اپنے مقام پر قربانی نہیں کرسکتا؛لیکن دیہات یاکسی اورمقام پرقربانی کرسکتاہوتوضروری ہے کہ وہاں قربانی کرلے ۔اوراگراپنے شہریاصوبہ میں قربانی کرنے میں دشواری ہوتودوسری جگہ پرمعتبرافرادیااداروں کے ذریعہ قربانی کی ادائیگی کی فکرلازم ہے۔اگربالفرض قربانی کے ایام گزرگئے اور قربانی کی کوئی صورت اصالۃ یاوکالۃ ممکن نہ ہوسکی تواب اگر پہلے سے جانورخریدرکھاہے تواب اس زندہ جانور کوصدقہ کردیناواجب ہے ۔اوراگرناواقفیت کی وجہ سے اسے ذبح کردیاتودوباتوں کاخیال رکھناچاہئے ،پہلایہ کہ اس کاگوشت اور چمڑا یعنی پوراسامان غریبوں پر صدقہ کردیاجائے ،نہ اس میں خود کھاناجائز ہے اور نہ مالدارلوگوں کو کھلاناجائز ہے۔دوسرے زندہ جانورکی قیمت کے مقابلہ اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہوتو اس کمی کے بقدر بھی صدقہ کرناضروری ہے ۔اگرجانور خریدا نہ ہو اور قربانی کے ایام گزرگئے تواب جانورکی قیمت صدقہ کرناواجب ہے۔اور اگرنفل قربانی کاارادہ ہویعنی قربانی واجب نہ ہواورقربانی کرناچاہتے ہوں یا دوسرے رشتہ داروں جیسے والدین اولاد وغیرہ کی طرف سے قربانی کرنے کااراد ہ رکھتے ہوں حالاں کہ ان پرقربانی واجب نہیں یاایصال ثوا ب کے لیے قربانی کررہے ہوں تویہ سب نفل قربانی کی صورتیں ہیں ،ان صورتوں میں اس بات کی گنجائش ہے کہ موجودہ حالات اور مہاماری کودیکھتے ہوئے قربانی کرنے کے بجائے قیمت صدقہ کردی جائے،جیساکہ امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں نفل حج کی جگہ اس کے اخراجات کو صدقہ کردینا نہ صرف جائز بلکہ ضرورت کے لحاظ سے بعض حالات میں مستحب بھی ہے اس لئے دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھناچاہئے۔
کیاذبح حیوان خلاف عقل اور بے رحمی ہے؟
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک یہ اعتراض بھی سامنے آتاہے کہ ذبح حیوان عقل کے خلاف ہے ۔یہ عمل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتاہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کوذبح کرنانہ عقل سلیم کے خلاف ہے اور نہ اس سے بے رحمی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جانوروں کاذبح کرناایک فطری ضرورت ہے ،انسانی غذاکے لحاظ سے بھی اور معاشی مفادات کے لحاظ سے بھی۔اس سے صرف نظرکرناقطعی انصاف پسندی نہیں ہے۔ 
 حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے،اور ذبح حیوان رحم کے خلاف نہیں ؛بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہوکر مرنابہترہے؛کیوں کہ خودمرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ رہایہ سوال کہ پھرانسان کو ذبح کردیاجایاکرے؛تاکہ آسانی سے مرجایاکرے۔اس کاجواب یہ ہے کہ حالت یاس سے پہلے ذبح کرناتودیدہ ودانستہ قتل کرناہے اور حالت یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیوں کہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہوگئے تھے ،پھراچھے ہوگئے اور شبہ حیوانات میں کیاجائے کہ ان کی تو یاس کابھی انتظار نہیں کیاجاتا ،جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو ابقا مقصود ہے ،کیوں کہ خلق عالم سے وہی مقصود ہے ،اس لئے ملائکہ کے موجودہوتے ہوئے اس کو پیداکیاگیا؛بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ؛کیوں کہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدماتے کے بعد موجودہواکرتاہے ؛اس لیے انسانکے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ،ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کردیئے جائیں گے جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امیدتھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھااور جانور کاابقاء مقصود نہیں ؛اس لئے اس کے ذبح کی اجازت اس بناپردے دی گئی کہ ذبح ہوجانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہوجانے کے بعد ان کاگوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے جس کاابقاء مقصود ہے۔ اس کواگرذبح نہ کیاجائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیاجائے تووہ مردہ ہوکر اس کے گوشت میں سمیت کااثر پھیل جائے گا اور اس کااستعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہوگا توابقائے انسان کاوسیلہ نہ بنے گا۔(اشرف الجواب :انیسواں اعتراض اوراس کاجواب)
گوشت خوری کادستورانتہائی قدیم :
ملحدین اور مشرکین کے ذریعہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتاہے ،اس سے تشدد اور ہنسا کامزاج بنتاہے۔ اس لئے اس پرروک لگنی چاہئے ۔مگریہ بات ہمارے دل دماغ میں ہونی چاہئے کہ انسان اس دنیا میں ضرورتوں اور حاجتوں کے ساتھ پیداکیاگیاہے۔اس کے وجود کاکوئی حصہ نہیں جواپنی حیات و بقا اور حفظ و صیانت میں احتیاج سے فارغ ہو ۔ہوا اور پانی کے بعد اس کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے ۔اوریہی ضرورت ہے جس نے زندگی کومتحرک اور رواں دواں رکھا ہے ۔اورایک اہم انسانی غذا تسلیم کرتے ہوئے گوشت خوری کادستور انتہائی قدیم ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے۔ہندستانی مذاہب میں بھی جین دھرم کے علاوہ سبھی مذاہب میں گوشت خوری کاجواز موجود ہے۔ غیرمسلموںکے بیچ آج کل گوشت خوری منع ہونے کی جوبات مشہور ہے وہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے،پکانے اور قربانی کاتذکرہ موجودہے ۔رگ وید(:۷:۱۱:۱۷) میں ہے :’’اے اندرتمھارے لئے پسان اور وشنوایک سوبھینس پکائیں۔‘‘ یجروید (ادھیائے:۲۰:۸۷) میں گھوڑے،سانڈ،بیل، بانجھ گائے اور بھینس کودیوتاکی نذرکرنے کاذکرملتاہے۔ منوسمرتی(ادھیائے: ۳:۲۶۸) میں کہاگیاہے :’’مچھلی کے گوشت سے دوماہ تک،ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک اور پرند کے گوشت سے پانچ ماہ تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔‘‘ خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندوسماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کاعمل عام تھا۔ ڈاکٹر تاراچندکے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔ 
افراط وتفریط کے شکارقانون فطرت کے باغی:
دنیا کے مذاہب اور قوموںمیں جانوروں کے بارے میں ایک خاص قسم کا افراط وتفریط ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوحیوان کے غذائی استعمال کو بے رحمی اورجیوہتیا تصورکرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوہرجانورکوانسانی خوراک قرار دیتے ہیں ااور اس باب میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اورقانون فطرت کے باغی ہیں۔ خدانے اس کائنات میں جونظام ربوبیت قائم کیا ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ اعلی مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامان بقا ہے ۔غور کریں کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں ،چوپائے نباتات کھاتے ہیں اوراسی پر ان کی حیات کادارومدارہے ،حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوغ کی حیات موجود ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کوغذابناتی ہے اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو ۔زمین پر رہنے والے جانوروں کی خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں ۔چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کے ۔ خداکی کائنات پر جس قدر غورکیاجائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے جولوگ اس اصول کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کاکوئی جواز نہیں کہ پانی کاکوئی قطرہ اور ہواکی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اترنہیں سکتی جب تک کہ سیکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغام اجل نہ سن لے ۔
جیوہیتاکے وسیع تصورکے لحاظ سے نباتاتی غذاسے بھی بچناہوگاکیوں کہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اورنباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندونظریہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قراردیئے ہیں:انسان۔حیوان اورنباتات۔یہ نباتات میں زندگی کاکھلا اقرارہے ۔تواگرجیوہتیاسے بچناہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچناہوگا ۔
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہرحیوان کو غذاکے لئے درست سمجھاجائے ۔یہ مسلمہ حقیقت میں سے ہے کہ انسان پر غذاکااثر ہوتا ہے ۔یہ اثر جسمانی و روحانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔حیوانات میں شیروببردرندے ہیں ،سانپ اوربچھوکی کینہ پروری وریشہ زنی کی خومعروف ہے ،گدھے میں حمق ضرب المثل ہے ،خنزیرمیں جنسی بے اعتدالی وہوسناکی کااثر ان قوموں میں صاف ظاہر ہے جو اس کااستعمال کرتی ہیں ،کتے کی حرص اورقناعت سے محرومی نوک زباں ہے ،چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سرچشمہ ہیں ،بندرکی بے شرمی ،لومڑی کی چال بازی،گیدڑ کی بزدلی اظہارکامحتاج نہیں ۔مقام فکرہے کہ اگرانسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیا یہی اوصاف اس کے وجود میں رچ بس نہ جائیں گے؟
اسی لئے اسلام نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ۔ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ۔دوسری طرف مردارکاگوشت حرام کیا جوانسان کی جسمانی وروحانی صحتوں کو بربادکرنے والاہے، ان جانوروں کو حرام قراردیاجن کے گوشت سے اخلاق انسانی مسموم ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ایک قاعدہ مقررکر دیاکہ طیبات اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک اور بدخوجانور جن کو قرآن کی زبان میں خبائث کہاگیا ہے حرام ہیں (الاعراف:۱۵۷) لیکن اس فیصلہ کو ہرانسان کے ذوق و مزاج پر منحصرکردیاجانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب۔چنانچہ شریعت نے اس کی جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کاشمارطیبات میں ہے اور کن کاخبائث میں ۔ پھر جن جانوروں کو حلال کیا ان کاگوشت کھانے میں بھی ایساپاکیزہ طریقہ ذبح بتایا جس سے ناپاک خون زیادہ سے زیادہ نکل جائے اور جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔طبی اصول پرانسانی صحت اورغذائی اعتدال میں اس سے بہترکوئی طریقہ ذبح نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جانورکاگوشت کھانے میں انسان کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح درختوں کے پھل اور ترکاریاں وغیرہ کو جیسے چاہیں کاٹین اور کھالیں اسی طرح جانورکوجس طرح چاہیں کھاجائیں۔(حلال وحرام ،جواہرالفقہ)
حیوان حلال ہونے کی حکمت اورارکان وشرائط:
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ الاسلام میں اسلامی ذبیحہ کی حکمت اور اس کے آداب وشرائط پر بصیرت افروز تحقیقات فرمائی ہیں یہاں ان کو پورانقل کرنے کا موقع نہیں ،ان میں سے ایک بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جانوروں کامعاملہ عام نباتاتی مخلوق جیسانہیں ۔کیوں کہ ان میںانسان کی ہی طرح روح ہے ،انسان کی طرح دیکھنے ،سننے ،سونگھنے اورچلنے پھرنے کے آلات واعضا ہیں ،انسان کی طرح ان میں احساس وارادہ اور ایک حدتک ادراک بھی موجودہے۔ اس کاسرسری تقاضایہ تھا کہ جانورکاکھانامطلقا حلال نہ ہوتا ،لیکن حکمت الہی کاتقاضاتھا کہ اس نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا،جانوروں سے خدمت لینا، ان کا دودھ پینااوربوقت ضرورت ذبح کرکے ان کا گوشت کھالینا بھی انسان کے لئے حلال کردیامگرساتھ ہی اس کے حلال ہونے کے لئے چندارکان اور شرائط بتائے جن کے بغیر جانور حلال نہیں ہوتا۔پہلی شرط یہ ہے کہ ہرذبح کے وقت اللہ کے اس انعام کاشکر ادا کیا جائے کہ روح حیوانی میں مساوات کے باوجود اس نے کچھ جانوروں کو حلال کیا اور اس شکرکا طریقہ قرآن وسنت نے بتایاکہ ذبح کے وقت اللہ کانام لیں ۔اگراللہ کانام قصدا چھوڑدیاتو وہ حلال نہیں ،مردارہے۔دوسری شرط جانور کو شریعت کے پاکیزہ طریقہ سے ذبح کرنا یعنی شرعی طریقہ پر حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دینا ۔تیسری شرط ذابح کامسلمان ہونا یاصحیح اہل کتاب ہوناہے۔ اسلام سے قبل جانوروں کا گوشت کھانے کے عجیب عجیب طریقے بغیرکسی پابندی کے رائج تھے۔ مردار کاگوشت کھایاجاتاتھا ۔زندہ جانورکے کچھ اعضا کاٹ کر کھالئے جاتے تھے ۔جانورکی جان لینے کے لئے بھی انتہائی بے رحمانہ سلوک کیاجاتاتھا،کہیں لاٹھیوں سے مارکرکہیں تیروں کی بوچھارکرکے جانور کی جان لی جاتی تھی۔
ذبح کرنے والے کاحکم:
ذبح کرنے والے کے لیے مسلمان یاصحیح اہل کتاب ہوناضروری ہے۔سورہ مائدہ میں ارشادباری تعالی ہے:’’الیوم احل لکم الطیبات وطعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم۔‘‘ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:’’مسلمان اور کتابی کاذبیحہ حلال ہے کیوں کہ اللہ تعالی کافرمان ہے:’’اورجن لوگوں کو (تم سے پہلے )کتاب دی گئی تھی ،ان کاکھانابھی تمہارے لیے حلال ہے ‘‘یہاں کھانے سے مراد اہل کتاب کاذبیحہ ہے۔(البحرالرائق:۸؍۳۰۶)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی’’ طعام ‘‘کی تفسیر’’ذبیحہ‘‘ منقول ہے۔(صحیح بخاری :باب ذبائح اہل الکتاب)
آج کل یورپ کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبارسے یہودی یانصرانی کہلاتے ہیں مگردرحقیقت وہ خداکے وجودکے منکرہوتے ہیں،کسی مذہب کے قائل نہیں ہوتے،نہ توریت، نہ انجیل کو خداکی کتاب مانتے ہیں اور نہ حضرت موسی اور حضرت عیسی کواللہ کانبی اور پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔(معارف القرآن :۳؍۴۸)مفسرقرآن مولانامحمدادریس کاندھلوی ؒ فرماتے ہیں:’’ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جومذہبا اہل کتاب ہوںنہ کہ وہ جو صرف قومیت کے لحاظ سے یہودی یانصرانی ہوں خواہ عقیدۃً وہ دہریے ہوں۔ اس زمانے کے نصاریٰ عموما برائے نام نصاریٰ ہیں ،ان میں بکثرت ایسے ہیںجونہ خداکے قائل ہیں اور نہ مذہب کے قائل ہیں،ایسے لوگوں پر اہل کتاب کااطلاق نہیں ہوگا۔( معارف القرآن :۲؍۴۴۶) مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہواکہ اہل کتاب وہ کہلاتے ہیں جواللہ تعالی، کسی پیغمبراور کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور آج کل جویہود ونصاری کہلاتے ہیں وہ اکثردہریے ہیں۔اب بھی اگرکوئی ایساشخص ہو جوکسی پیغمبرپرایمان رکھتاہو اور کسی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھتاہو توآج بھی وہ اہل کتاب شمارہوگا۔مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ لکھتے ہیں: ’’ موجودہ زمانے کے یہودونصاری جوحضرت موسی علیہ السلام یاحضرت عیسی علیہ السلام کوپیغمبر اور تورات یاانجیل کو آسمانی کتاب مانتے ہوں ‘اہل کتاب ہیںخواہ تثلیث کے قائل ہوں۔‘‘ (کفایت المفتی :۱؍۷۰)
ان سب دلائل سے ہٹ کر غیرمقلدین کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب کے علاوہ کوئی اور کافر بھی ذبح کرے تو جائز ہے۔علامہ وحید الزماں غیرمقلد لکھتے ہیں:وذبیحۃ الکافر حلال اذا ذبح للہ وذکراسم اللہ عند الذبح ۔ترجمہ: کافرکاذبیحہ حلال ہے اگروہ اللہ کے لیے ذبح کرے اور ذبح کے وقت اللہ کانام لے۔(کنزالحقائق:۱۸۲)اسی طرح نواب نورالحسن خان غیرمقلد کی تحریرہے:’’ ذبائح اہل کتاب ودیگر کفار نزد وجود ذبح بسملہ یا نزد اکل آں حلال است ،حرام ونجس نیست‘‘یعنی اہل کتاب اور دیگر کفار ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھ لیں یااس مذبوحہ کوکھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لیاجائے تووہ حلال ہے ،حرام اور نجس نہیں ۔(عرف الجادی:ص ۱۰)
تشدداور ہنساکاتعلق محض غذاؤں سے سمجھنابیوقوفی:
رہایہ اعتراض کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتا ہے ،اس سے تشدداور ہنساکامزاج بنتاہے ۔تودنیاکی تاریخ اور خودہمارے ملک کاموجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے ۔آج بھارت میں جہاںکہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ات ہورہے ہیں اور ظلم وستم کاننگاناچ ہورہاہے ،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہاہے جوسبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔دنیاکے رہنماوں سسمیں گوتم بدھ اور حضرت مسیح کوعدم تشدداور رحم دلی کاسب سے بڑاداعی اور نقیب تصورکیاجاتاہے لیکن کیایہ ہستیاں گوشت نہیں کھاتی تھیں ،یہ سبھی گوشت خورتھے۔اور ہٹلرسے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ،ظلم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا لیکن ہٹلر گوشت خورنہیں تھا صرف سبزی کواپنی غذابناتاتھا۔ اس لئے یہ سمجھناکہ ہنسا اور اہنسا کاتعلق محض غذاوں سے ہے بے وقوفی اور جہالت ہی کہی جاسکتی ہے ۔جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کااحساس نہ ہو تو محض غذائیں انسانی مذاق و مزاج کو تبدیل نہیںکرسکتی۔ بعض فتنہ پردازوں کاکہناہے کہ گاوکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظرسے نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے ۔جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ہمیں دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے مگریہ ایک واہمہ ہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں بھارت سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی طرح کی پابندی نہیں وہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں دودھ اور گھی سستے بھی ہیں اور فراوانی بھی ہے۔اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں ۔ہمارے ملک میں گوشت خوری کم ہونے کے باوجود مذکورہ اشیاء مہنگے ہیں ۔نیزقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ جانورایک عمرکوپہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں ،اگرانہیں غذابنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی پرورکسانوں کے لئے ایسے جانورباربن جائیں گے اورغریب کسان جوخود آسودہ نہیں وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرپائیں گے۔۲۰۱۴ء سے مرکزمیں بھاجپا کی حکومت ہے ۔اس نے گاوکشی قانون کوسختی سے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔اس کاحشر کیاہے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ سرکاری گاوشالوں میں ایسے سیکڑوں ہزاروں مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ کربھوک سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے ،ہورہے ہیں ، جوبہرحال گھاٹے کاسودہ ہے۔
گوشت کے فوائد ونقصانات:
گوشت انسانی خوراک کاایک اہم جزوہے ۔ اس سے انسانی صحت پرکئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گوشت سے جسم کو پروٹین، لحمیات ،آئرن ،وٹامن بی وغیرہ حاصل ہوتی ہیںجوایک صحت مندجسم کے لئے ضروری ہیں تاہم گوشت کی حدسے زیادہ مقدارکااستعمال کسی بھی انسان کے لئے سودمندکے بجائے مصیبت بن جاتاہے ۔کیوں کہ ہرقسم کی غذاکے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اس لئے عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھاناچاہئے اور ایک مخصو ص حدسے زیادہ استعمال نہیں کرناچاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بالغ افراد کویومیہ 70گرام جب کہ ہفتے میں 500گرام یعنی سات دنوں میں صرف نصف کیلو گوشت کھانا چاہئے جسے  برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کے لئے تجویز کیا۔
امریکہ کی یونیورسیٹی البامامیں امریکی تحقیقی ماہرین نے گوشت خوری اور سبزی خوری کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقی مطالعہ کیا،جس میں لوگوں کی غذائی عادتوں کی نگرانی اور ان کے صحت پرپڑنے والے اثرات کامعائنہ کیا۔ ماہرین نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کاڈیٹاجمع کیا۔ اس کی روشنی میں رپورٹ مرتب کی اور بتایاکہ صرف سبزی خوری کے بہت زیادہ نقصان ہیں ۔سبزی کامستقل استعمال انسان کوڈپریشن بنادیتاہے جس کی وجہ سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جو خوراک میں گوشت استعمال کرتے ہیں ،ان کی ذہنی صحت بہتررہتی ہے اور وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈآرجرکاکہناہے:ہم لوگوں کو نصیحت کریں گے کہ اگرآپ ڈپریشن ،ذہنی خلفشار اور خودکونقصان پہنچانے کے خطرناک رویے سے بچناچاہتے ہیں تو خوراک میں سبزی کے ساتھ گوشت کابھی استعمال کریں۔(نوائے وقت پورٹل یکم مئی۲۰ء)
گوشت بھی اپنی اقسام کے اعتبار سے لذت اور تاثیر میں مختلف ہوتاہے۔مچھلی اور مرغی کے گوشت سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہے اس میں کلوریزاور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاکم ہوتی ہے۔مٹن میں چکنائی کی مقدار چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔بیف میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے البتہ اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلا پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ پوری ہوتی ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کاکہناہے کہ ایک نارمل انسانی جسم کومتوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں لحمیات پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیںجوگوشت اوردیگرچیزوں سے حاصل ہوتی ہیں،تاہم ضروری ہے کہ ہرچیزکواعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیاجائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کاسامنانہ کرناپڑے۔
مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوگئی کہ انسان کے لئے اللہ تعالی کی پیداکی گئی مختلف تاثیروالی بے شمار غذاؤں میں عمدہ غذاگوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کودنیاو آخرت کی عمدہ غذا فرمایاہے۔ سورہ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے مہمانوں کی فربہ بچھڑا کوبنابھون کرضیافت کرنے کا تذکرہ ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل ایمان گوشت کو مرغوب رکھتے ہیں ۔ آج بھی عرب میں خاص طورپر اناج سے زیادہ گوشت بطورغذا استعمال ہوتاہے۔ اورمہمانوں کی آمدپر اکثراہل عرب آج بھی پورادنبہ یابکرا تیارکرکے ضیافت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ الحاصل گوشت انسانی غذاکااہم حصہ ہے ۔گوشت خوری کی مخالفت فرقہ پرست طاقتیں جتنی بھی کریں اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتااور اس غذائی ضرورت سے انسان دست بردارنہیں ہوسکتا۔ذبح حیوان اور گوشت خوری پرپابندی کافتنہ کھڑا کرنے والے افراد قدرتی نظام کے باغی اور انسان کے فطری ضرورت کی تکمیل کے مخالف ہیں ۔
حلال جانور کی سات چیزیں کھاناحرام ہیں:
حلال جانور کی سات چیزیں حرام ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’ کرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الشاۃ سبعا:المرارۃ و المثانۃ و الغدۃ و الحیا و الذکر والانثیین و الدم ، و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب من الشاۃ مقدمھا۔‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری میں سات چیزوں کو ناپسند کیا ہے : (۱) پتا (۲) مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۳) غدود (۴) حیا یعنی مادہ کی شرمگاہ (۵) ذکر یعنی نرکی شرمگاہ (۶) خصیتین یعنی کپورے (۷) خون ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے سامنے کاحصہ پسند تھا۔( کتاب الآثار:۱۷۹، سنن بیہقی :۱۰؍۷، معجم اوسط لطبرانی:۹؍۱۸۱، مصنف عبدالرزاق :۴؍۴۰۹) اس حدیث سے ائمہ کرام نے استدلال کرتے ہوئے تمام حلا ل جانورکی مذکورہ سات چیزوں کایہی حکم بیان کیا ہے ۔علامہ شامی فرماتے ہیں:’’ بکری کاذکر اتفاقی ہے ،اس لیے کہ دوسرے حلال جانوروں کاحکم اس سے مختلف نہیں ہے۔‘‘(رد المحتار :۶؍۷۴۹)مچھلی کی ان سات چیزوں کے بارے میں قدیم فقہاء کی کوئی تصریح نہیں ملتی  البتہ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: ’’ جواجزاء دموی حیوان میں حرام ومکروہ ہیں وہ سمک (مچھلی ) میں بھی حرام ومکروہ ہیں یا نہیں ؟ پس جب کہ میتۃ ہونا مچھلی کا حرمت وکراہت کاسبب نہیں ہے تو یہ مقتضی اس کو ہے کہ اس کے اجزاء مثانہ وغیرہ حرام ونجس نہیں ہیں۔‘‘( عزیزالفتاوی: ۷۵۹) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اجزاء صرف دموی حیوانات کے حرام ہیں اور غیردموی جیسے مچھلی کے یہ اجزاء حرام نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ دم سے مراد جمہورعلماء کے نزدیک دم مسفوح یعنی بہنے والا خون ہے اور اس کی حرمت خود قرآن میں بھی صراحتا موجود ہے۔نہ بہنے والا خون حرام نہیں بلکہ جائز اور حلال ہے ۔کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان ، فاما المیتتان فالحوت و الجراد ، واما الدمان فالکبد والطحال ۔‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مردار اور دو خون کو حلال کیا گیا ہے ، دو مردار تووہ مچھلی اورٹڈی ہیں اوردو خون تو وہ جگر اور تلی ہیں۔ (ابن ماجہ :۲۳۱۴،مسنداحمد:۵۴۲۳، بیہقی:۱؍۲۵۴،الشافعی:۱؍۳۴۰،دارقطنی:۴؍۲۷۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ بہنے والا جماہوا خون جیسے تلی اورجگرجائز ہے ۔یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حدیث میں مذکورلفظ ’’مکروہ‘‘ اپنے عام معنی میں مستعمل ہے جس میں حرام وناجائز بھی داخل ہے ۔اس کاثبو ت یہ ہے کہ خود حدیث میں خون کو مکروہ بتایا ہے جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے ،لہذا یہاں مکروہ کے عام معنی مراد ہیں جس میں حرام بھی داخل ہے۔ فقہی اصطلاح کے مطابق ان چیزوں میں سے جن کاحرام ہونا قرآن وحدیث کی نص قطعی سے ثابت ہو ان کو حرام اور جن کی حرمت نص ظنی سے ثابت ہو ان کو مکروہ کہاجائے گا ۔اس اصول پر خون تو حرام ہوگا اور باقی چھ چیزیں مکروہ کہلائیں گی۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایاکہ خون حرام ہے اور باقی چھ اجزا ء کومیں مکروہ قراردیتا ہوں۔‘‘(ردالمحتار:۶؍۷۴۹)اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی ؒ نے (بدائع الصنائع:۵؍۶۱)نے لکھا ہے اور صاحب درمختار علامہ حصکفی ؒ نے اسی کوترجیح دی ہے:’’ کرہ تحریما و قیل تنزیھا ، فالأول اوجہ۔‘‘( الدرعلی الرد:۶؍۷۴۹)
یہاں یہ بھی واضح کردیناضروری ہے کہ علماء نے حرام اور مکروہ کی اصطلاح اس لیے نہیں بنائی ہے کہ حرام سے اجتناب ہواور مکروہ سے اجتناب کی ضرورت نہیں ؛بلکہ ان اصطلاحات کومقررکرنے کی وجہ یہ ہے کہ دلائل شرعیہ بعض قطعی ہیں اور بعض غیرقطعی تو جوممنوعات دلائل غیرقطعیہ سے ثابت ہوئے ان کو احتیاط کے طورپر مکروہ کہاگیا ورنہ بچنے کے حکم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں ،اس لیے دونوں سے بچنا چاہئے ۔ علامہ ابن قیم درست فرمایاکہ ؛’’ حرام چیز پر مکروہ بولنے سے بعد میں آنے والے بہت سے لوگ غلطی میں پڑگئے، ائمہ نے تو احتیاط کرتے ہوئے حرام کے بجائے لفظ مکروہ استعمال فرمایا ،پھربعد والوں نے ان چیزوں سے حرمت ہی کی نفی کردی ،جن پرائمہ نے مکروہ کالفظ استعمال فرمایاتھا،پھران پر یہ لفظ بہت آسان ہوگیا۔(اعلام الموقعین:۱؍۳۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکروہ کالفظ فقہاء وائمہ نے صرف احتیاط کے طورپر استعمال فرمایاتھا ورنہ گناہ ہونے میں وہ حرام کی طرح ہے ،اس لیے امام محمد ؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور دیگر علماء کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔الدرالمختاراور البحرالرائق میں ہے کہ :’’ کل مکروہ حرام عند محمد وعندھما الی الحرام أقرب۔‘‘ترجمہ: امام محمدؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒ کے نزدیک حرام کے قریب ہے۔(الدرمع الرد:۶؍۳۳۷،البحر:۸؍۱۸۰)حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ سے پوچھاگیا کہ مکروہ تنزیہی سے گناہ ہوتا ہے یانہیں؟ توآپ نے فرمایاکہ مکروہ تنزیہی سے بھی گناہ ہوتاہے۔(کفایت المفتی:۹؍۱۳۱) اس سے واضح ہوگیاکہ مکروہ کاارتکاب بھی ناجائز ہے اور اس سے بھی گناہ ہوتا ہے لہذامذکورہ اشیاء سے بھی بچنا چاہئے۔ تفصیل سے یہ بھی واضح ہواکہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے چنانچہ علامہ ابن نجیم نے بحرالرائق میں فرمایا:’’ ویصح اطلاق اسم الحرام علیہ‘‘ کہ مکروہ تحریمی پرحرام کااطلاق کرناصحیح ہے۔علامہ حصکفی نے فرمایا:وافاد فی البحرصحۃ اطلاق الحرمۃ علی المکروہ تحریما‘‘ترجمہ: بحرالرائق میں اس بات کا افادہ کیا ہے کہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے۔(الدرالمختار:۲؍۱۶۱)اسی طرح تحفۃ الملوک میں ہے کہ:’’ کتاب الکراہیہ میں جوبھی مکروہ کہاجائے وہ امام محمد ؒ کے نزدیک حرام ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک وہ حرام کے قریب ہے ،لہذا ہم نے اکثر مکروہ کو حرام سے تعبیر کیاہے۔‘‘ تحفۃ الملوک :۱؍۲۲۳)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے یہاں اکثر جگہوں پر مکروہ کوحرام سے بھی تعبیر کردیاجاتا ہے ۔ اسی لیے علامہ کاسانی اور علامہ شامی وغیرہ نے ان سات چیزوں کو حرام سے تعبیر کیا ہے ۔بہرحال ان چیزوں سے پرہیز حرام کی طرح کرناچاہئے ،مکروہ کہہ کر ان کو معمولی نہ سمجھناچاہئے۔
حرام مغزکاحکم:
حلال جانور کی سات چیزیں علمائے احناف کے یہاں بالاتفاق ناجائز ہیں ۔ان کے علاوہ بعض علماء نے حرام مغز کو بھی حرام کہا ہے ،چنانچہ علامہ نسفیؒ کی ہندوستان میں مطبوعہ کنزالدقائق میں’’نخاع الصلب‘‘ (حرام مغز)کوبھی مکروہات میں شمارکیا ہے  اورعلامہ طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں اس کو مکروہ بتایاہے(طحطاوی علی الدر:۵؍۳۶)حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی ؒ نے اپنے فتاوی میں اس کو حرام لکھاہے (فتاوی رشیدیہ:۲؍۶۷) نیزحضرت مولانامفتی شفیع صاحب ؒ نے بھی آخرمیں اس کے حرام ہونے کافتوی دیا ہے اور اس کی وجہ بقول حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کے یہ ہے کہ ’’ اللہ تعالی کا قول ہے :’’ ویحرم علیھم الخبائث ‘‘ترجمہ: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ضب کی حرمت میں حنفیہ نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حرام مغز ایک ایسی چیز ہے کہ طبیعت سلیمہ کو اس سے نفرت واستقذار لازم ہے۔(حاشیہ امدادالمفتین :۹۷۱ط:کراچی)(ماخوذاز: مکروہ اجزاء )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین یامرحومین کی طرف سے قربانی:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین ؒیامرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست اور باعث اجروثواب ہے ،بلکہ کسی بھی نیک عمل کااجر تمام امت محمدیہ کوپہنچانادرست ہے۔خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے قربانی کے علاوہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تھی۔اس قربانی میں زندہ یامردہ کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔’’عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امربکبشین اقرن یطأ فی سواد ویبرک فی سواد وینظرفی سواد،فاتی بہ لیضحی بہ ،قال:یاعائشۃھلمی المدیۃ ثم قال :اشحذ یھا بحجر،ففعلت،ثم اخذھا واخذ الکبش فأضجعہ ،ثم ذبحہ ،ثم قال: بسم اللہ اللھم تقبل من محمدوآل محمدومن امۃ محمد،ثم ضحی بہ ۔رواہ مسلم (مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الاول ،ص:۱۲۷)ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایاجس کے کھر،گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے۔چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایاگیا توآپ نے فرمایا:اے عائشہ ! چھری لے آو ٔ ،پھرفرمایا:اسے پتھرپرتیزکرلو،چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ)نے چھری تیز کرلی،پھرآپ نے چھری لی اور مینڈھے کوپکڑا اوراسے پہلوکے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا:اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں) ،اے اللہ اسے محمداورآل محمداورامت محمدکی طرف سے قبول فرمالیجئے۔‘‘اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اور حضرت ابوحذیفہ ؓ کی بھی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے قربان کیے۔ایک اپنی طرف سے اور دوسراامت کی طرف سے ۔(متفق علیہ)
دامادِرسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ دوقربانیاں کیاکرتے تھے۔ایک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔جب ان سے سوال کیاگیا توانہوں نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کاحکم دیاہے ،میں اس کوکبھی نہیں چھوڑوں گا۔(مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الثانی ص:۱۲۸،ترمذی حدیث :۱۴۹۵،ابوداودحدیث :۲۷۶۹،مسنداحمد:۲؍۱۸۲،۳۱۶۔صحیح حاکم) معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قربانی اتنی پسندتھی کہ آپ ؐ نے حضرت علی کو ایساکرنے کی وصیت بھی کی اور حضرت علی ہرسال بلاناغہ دوقربانیاں کرتے رہے۔
اس باب کی تمام حدیثیں اس مسئلے میں صریح ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سلف صالحین اور مرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے ۔ امام ابوداودوغیرہ نے میت کی طرف سے قربانی کیے جانے کاباضابطہ باب قائم کیا ہے اور انہیں احادیث سے استدلال کیاہے۔ علمائے احناف ، مالکیہ اور امام احمدبن حنبل کایہی مسلک ہے اور یہی قول زیادہ مستندوقوی ہے ؛کیوں کہ میت کی جانب سے قربانی کرناایک صدقہ ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، عمرہ ،صدقہ اور خیرات جیسی عبادتیں کی جاسکتی ہیں توقربانی کیوں نہیں؟ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناپر کہاجائے کہ دیگراعمال تومیت کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں لیکن میت کی جانب سے قربانی نہیں کی جاسکتی۔علامہ شامی لکھتے ہیں:’’قال فی البدائع :لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت، بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ، وقد صح ’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبشین احدھماعن نفسہ والاٰخر عمن لم یذبح من امتہ ‘‘وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح،(ردالمحتار:۶؍۳۲۶) فدل ان المیت یجوزان یتقرب عنہ فاذاذبح عنہ صارنصیبہ للقربۃ فلایمنع جوازالباقین(بدائع:۴؍۲۱۰)
دلائل کی روشنی میں اصل یہی ہے کہ کسی بھی عبادت کاثواب کسی دوسرے کوپہونچایاجاسکتاہے، اگرچہ بوقت عمل نیت اپنے لیے ہو۔عبادت خواہ نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت، ذکروتسبیح،طواف ،حج، عمرہ کے علاوہ انبیاء وصالحین کے قبروں کی زیارت یاتکفین ہو،ہرقسم کے نیک اعمال اور عبادتیں شامل ہیں۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نفلی صدقہ میں پوری امت مسلمہ کے ایصال ثواب کی نیت کرناافضل ہے؛کیوں ایساکرنے میں سبھی کوثواب بھی مل جائے گا اور اس کے اجرمیں سے کچھ کم بھی نہ ہوگا۔ اورقرآن کی آیت:’’وان لیس للانسان الاماسعی‘‘(سورۃ النجم:۳۹) ان باتوں کے منافی نہیں ہے۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: الأصل اَن کل من أتی بعبادۃ ما،لہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عند الفعل لنفسہ ؛لظاھرالادلۃ۔واماقولہ تعالی :وأن لیس للانسان الاماسعی(النجم:۳۹)أی الا اذا وھبہ لہ ، کماحققہ الکمال،أو اللام بمعنی علی کمافی ’’ولھم اللعنۃ‘‘(غافر:۵۲)ولقد افصح الزاھدی عن اعتزالہ ھنا  واللہ الموفق۔(قولہ:بعبادۃ ما)أی سواء کانت صلاۃً،أو صوماً، أوصدقۃً، أو قراء ۃً، أو ذکراً، أو طوافاً،أو حجاً، أو عمرۃً،أو غیرذٰلک من زیارۃ قبور الأنبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام ،والشھداء والأولیاء والصالحین ، وتکفین الموتی ،وجمیع انواع البر،کمافی الھندیۃ،وقدمنافی الزکوٰۃ عن التٰتارخانیۃ عن المحیط: الأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤ منات ؛لأنھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شیء۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار:۲؍۵۹۵)
مسئلہ:میت کی جانب سے قربانی کی دوصورتیں ہیں۔اول یہ کہ میت نے وصیت کررکھی ہو اوراس کے لیے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تومیت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کاپوراگوشت صدقہ کیاجائے گا ۔دوسری یہ کہ وصیت توکی ہو مگرمال نہ چھوڑا ہو یارشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچاناچاہے توان دونوں صورتوں میں قربانی کاگوشت خودبھی کھاسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی بتادینامناسب ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد مرحومین کوثواب میں شامل کیاجاسکتا ہے ؛لیکن میت ہی کے نام سے قربانی کرناچاہیں تو ایک میت کی طرف سے پوراایک حصہ ضروری ہے،تاہم کئی آدمی مل کر مشترک طورپر حضورصلی اللہ علیہ وسلم یامیت کے نام سے قرانی کریں توشرعاجائز ہے ۔وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ :اذبحوعنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل۔ (الدرالمختارکتاب الاضحیہ:۹؍۴۷۱،البحرالرائق :۸؍۳۲۵)
غورکرنے کی بات ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میںامت کویادرکھا تو افسوس ہے کہ امتی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یادنہ رکھیں اور ایک جانور آپ کی طرف سے نہ دیاکریں۔لہذاجس شخص کے پاس گنجائش ہووہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرے ،اجرعظیم کامستحق ہوگا۔ 
جانور ذبح کرنے کے چند آداب:
٭ جانور کونرمی اور اچھے طریقہ سے ذبح کی جگہ لے جانا۔  ٭ذبح کے وقت جانور بھوکاپیاسانہ ہو۔  ٭گائے،بھینس بکراوغیرہ کونرمی سے بائیں پہلوپرلٹاکر اس کامنہ قبلہ کی طرف کیا جائے اس طرح سے کہ اس کاسرجنوب کی طرف اور دھڑ شمال کی طرف ہو۔  ٭اونٹ کو کھڑے ہونے کی حالت میں نحرکرنا سنت ہے اور بٹھاکریالٹاکر ذبح کرناسنت نہیں ہے ۔  ٭بڑے جانور کے ہاتھ پاوں باندھ دینا چاہئے ۔  ٭باوضوہوکر دائیں ہاتھ سے ذبح کرنا۔  ٭تیزدھاروالی چھری سے تیزی سے ذبح کرنا۔  ٭ذبح کرتے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہنا  ٭چاررگوں حلقوم (سانس کی نلی) مرئی (کھانے کی نلی ) ودجین (خون کی دورگیں جو شہ رگ کہاجاتاہے) کاکاٹنا لازم ہے ۔اگر تین رگیں کٹ جائیں توبھی کافی ہے۔لیکن صرف دورگیں کٹ جائیں تو مذبوحہ حرام ہوگا۔
جانورذبح کرنے کے چند مکروہ کام:
٭ ذبح کے آلات کو جانور کے سامنے لہرانا یا ان کے سامنے تیز کرنا۔  ٭ اس قدر کندچھری سے ذبح کرنا کہ ذابح کو زور لگاناپڑے۔  ٭ایک جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنا۔  ٭ ذبح میں چار رگوں کے علاوہ چھری کی نوک سے حرام مغز کی نالی کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کے دوران جانور کا سینہ کھول کر اس کے دل کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن توڑنا۔  ٭ جانور کی روح نکلنے اور ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا اعضا کو کاٹنا۔  ٭ رات کے وقت ذبح کرنا جبکہ روشنی کاصحیح انتظام نہ ہو کیوں اس بات کااندیشہ ہے کہ کوئی رگ کٹنے سے رہ جائے ۔ اور اگر روشنی کا اچھا انتظام ہوتو مکروہ نہیں۔   ٭ اونٹ کے علاوہ دوسرے جانوروں کو کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا ۔  ٭اونٹ کے زمین پر گرنے کے بعد اس کی گردن کو تین جگہ سے کاٹنا اس لیے کہ یہ بلاوجہ تکلیف دیناہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
قربانی :حقائق اور غلط فہمیاں

از  :  مفتی محمدشبیرانورقاسمی 
نائب قاضی شریعت واستاذمدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے

قربانی کے معنی ہیںاللہ کاقرب حاصل کرنے کی چیز۔ لفظ قربانی ’’قربان ‘‘سے اور لفظ قربان ’’قرب ‘‘سے نکلاہے ؛ اس لیے’’رضائے الہی کی نیت سے قربانی کے ایام (۱۰؍۱۱؍۱۲؍ذوالحجہ )میںخاص قسم کا حلال جانور ذبح کرنے کو قربانی کہتے ہیں‘‘ ۔قربانی سنت ابراہیمی کی یادگار،جذبہ ایثار نفس اور عشق الہی کامظہر ہے۔قربانی کی تاریخ باباآدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی سے ہی شروع ہوتی ہے ،یہ سب سے پہلی قربانی تھی ۔ارشاد باری تعالی ہے:’’ وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ  اِذْ قَرَّبَا قُرْْبَاناََفَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلمْ یُتَقَبّلْ مِنَ الْاٰخََرِ۔‘‘(المائدہ:۱۸۳)  ترجمہ:’’اورآپ اہل کتاب کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ صحیح طورپر پڑھ کر سنادیجئے ،جب ان میں سے ہرایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو ان میں سے ایک کی نیاز مقبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیںکی گئی۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے بموجب ہابیل نے مینڈھے کی قربانی کی اور قابیل نے کھیت کی پیداوارمیں سے کچھ غلہ صدقہ کرکے قربانی پیش کی،اس زمانے کے دستورکے موافق آسمانی آگ نازل ہوئی اور ہابیل کے مینڈھے کو کھالیا،قابیل کی قربانی کو چھوڑدیا ۔(تفسیرابن کثیر۲؍۵۱۸) اور یہ عمل تقریباہرانبیاکی شریعت میں رہا۔ جس کاطریقہ یہ تھا کہ قربانی ذبح کی جاتی اور وقت کے نبی دعامانگتے اور آسمان سے آگ اترتی ،اسے کھاجاتی اور یہ قبولیت کی علامت ہوتی۔یہ تسلسل حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت تک پہنچتاہے۔ ہاں! اس کی خاص شان اور پہچان حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے واقعہ سے ہوئی اور اسی کی یادگارکے طورپر امت محمدیہ پر قربانی کو واجب قراردیاگیا۔
قربانی کی حقیقت :
قربانی سنت ابراہیمی کی یادگارہے ۔حضرت ابراہیم کو حکم ملا(اورحکم بھی صراحتانہیں ملابلکہ خواب میں اشارۃ بتایاگیا) کہ اپنابیٹا ذبح کرو،توباپ نے حکم کی اتباع میں ایک لمحے کے لیے بھی رک کرتامل نہیں کیا۔پلٹ کراللہ سے یہ نہیں پوچھاکہ یااللہ !یہ حکم آخرکیوں،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے ؟البتہ بیٹے سے امتحان اور آزمائش کے لیے سوال کیاکہ’’اے بیٹے میں نے توخواب میں یہ دیکھاہے کہ تمہیں ذبح کررہاہوں،اب بتاو تمہاری کیارائے ہے‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۲)بیٹا بھی ابراہیم خلیل اللہ کابیٹا تھا،وہ بیٹا جن کے صلب سے خاتم المرسلین دنیامیں تشریف لانے والے تھے،اس بیٹے نے بھی پلٹ کریہ نہیں پوچھاکہ اباجان!مجھ سے کیاجرم ہوا،میراقصورکیاہے کہ مجھے موت کے گھاٹ اتاراجارہاہے،اس میں کیاحکمت اور مصلحت ہے۔بلکہ بیٹے کی زبان پر تواضع وانقیاد سے لبریزایک ہی جواب تھا :’’آباجان !آپ کے پاس جوحکم آیا ہے ،اس کوکرگزریئے اور جہاں تک میرامعاملہ ہے توآپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘(ایضا)دونوں اس حکم پرعمل کے لیے تیارہوگئے اورباپ نے بیٹے کوزمین پرلٹادیا۔اس وقت بیٹے نے کہاکہ اباجاں!آپ مجھے پیشانی کے بل لٹائیں،اس لیے کہ اگر سیدھالٹائیں گے تومیراچہرہ سامنے ہوگااور کہیں ایسانہ ہوکہ آپ کے دل میں بیٹے کی محبت کاجوش آجائے اور آپ چھری نہ چلاسکیں۔اللہ کویہ ادائیں اتنی پسندآئیں کہ اللہ نے ان اداؤں کاذکرقرآن کریم میں بھی فرمایاکہ:’’اے ابراہیم !تم نے اس خواب کوسچاکردکھایا۔‘‘(سورۃ الصافات:۱۰۴۔۱۰۵)اب ہماری قدرت کاتماشہ دیکھوچنانچہ جب آنکھیں کھولیں تودیکھاکہ حضرت اسماعیل ایک جگہ بیٹھے ہوئے مسکرارہے ہیں اور وہاں ایک دنبہ ذبح کیاہواہے۔اللہ کوان کایہ عمل اتناپسند آیا کہ قیامت تک کے لیے اس کوجاری کردیاچنانچہ فرمایا:’’ہم نے آنے والے مسلمانوں کواس عمل کی نقل اتارنے کاپابندکردیا۔‘‘یہ پوراواقعہ جودرحقیقت قربانی کے عمل کی بنیادہے۔روزاول سے بتارہاہے کہ قربانی اس لیے مشروع کی گئی ہے تاکہ انسانوں کے دلوں میں یہ احساس، یہ علم اور یہ معرفت پیداہوکہ دین درحقیقت اتباع کانام ہے ۔جب اللہ کاکوئی حکم آجائے تو عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے ہم اللہ کے حکم کی پیروی کریں ،اس کے حکم کے سامنے اپناسرتسلیم خم کریں ۔اسی کی طرف اللہ نے حضرت ابراہیم کے عمل میں اشارہ کیا ہے کہ’’ فلمااسلما‘‘جب انہوں نے سرتسلیم خم کردیا۔قربانی کی ادائیگی کے ذریعہ اسی ایثارنفس کاجذبہ پیداکرنامقصود ہے کہ جیسے اللہ کے حکم کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کیا،کوئی عقلی دلیل نہیں مانگی،کوئی حکمت طلب نہیں کی اور اللہ کے حکم کے آگے سرجھکادیا۔اب ہمیں بھی اپنی زندگی کواس کے مطابق ڈھالناہے اور یہی اس کی روح ہے۔ دراصل قربانی کی حقیقت تویہ تھی کہ عاشق خود اپنی جان کو اللہ کے حضورپیش کرتامگرخداکی رحمت دیکھئے ،ان کو یہ گوارانہ ہوا اس لیے حکم دیاکہ تم جانورکوذبح کرو ہم یہی سمجھیں گے کہ تم نے خود اپنے آپ کو قربان کردیا۔ 
قربانی کی اہمیت وفضیلت:
قربانی کی اہمیت وفضیلت کاثبوت قرآن میں بھی ہے اور حدیث میں بھی۔سورہ حج میں ارشاد ربانی ہے:’’اورہم نے تمہارے لیے قربانی کے اونٹوں کو عبادت الہی کی نشانی اور یادگار مقررکیاہے،ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں ،سوتم ان کو نحرکرتے وقت قطارمیں کھڑاکرکے ان پر اللہ کانام لیاکروپھرجب وہ اپنے پہلوپرگرپڑیں توان کے گوشت میں سے تم خودبھی کھاناچاہوتوکھاو اور فقیرکوبھی کھلاو، خوہ وہ صبرسے بیٹھنے والا ہویاسوال کرتاپھرتاہوجس طرح ہم نے ان جانور وں کی قربانی کاحال بیان کیا، اسی طرح ان کوتمہاراتابع دار بنایاتاکہ تم شکربجالاو۔ اللہ کے پاس ان قربانیوںںکاگوشت اور خون ہرگزنہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تمہاراتقوی پہنچتاہے ۔اللہ تعالی نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح مسخرکردیاہے تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالی کی بڑائی کروکہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح رہنمائی کی اور اے پیغمبر!مخلصین کو خوش خبری سنادیجئے۔‘‘(الحج:۳۶،۳۷)سورہ حج ہی میں دوسری جگہ اسے شعائر اللہ قراردیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کودل میں پائے جانے والے تقوی خداوندی کامظہرقراردیاہے۔ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب(الحج:۳۲) ااورجوشخص اللہ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہواکرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام کے دوران ایک باربھی قربانی کرناترک نہیں کیا،جب کہ آپ کے گھر میں کئی کئی مہینے چولہا نہیں جلتاتھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰؍تاریخ کوکوئی نیک عمل اللہ تعالی کے نزدیک (قربانی کا)خون بہانے سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں ۔اور قیامت کے دن وہ ذبح کیاہواجانوراپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گااورقربانی کاخون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالی کے یہاں شرف قبولیت حاصل کرلیتاہے۔ لہذاتم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیاکرو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۴۹۳،ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۶) حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقرعید کے دن ارشاد فرمایا:آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا،ہاں اگرکسی رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک اس سے بڑھ کر ہوتوہو(الترغیب والترہیب:۲؍۷۷۲) حضرت زیدبن ارقم راوی ہیں کہ صحابہ کرام نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ !یہ قربانی کیاہے؟(یعنی اس کی حیثیت کیاہے)آپ نے ارشادفرمایا:تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے؟صحابہ نے عرض کیا!ہمیں قربانی سے کیافائدہ ہوگا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہربال کے بدلے ایک نیکی ملے گی۔صحابہ نے عرض کیا،یارسول اللہ! اون کے بدلے کیاملے گا؟آپ نے ارشاد فرمایا:ہراون کے بدلے بھی ایک نیکی (ابن ماجہ حدیث :۳۱۲۷، حاکم ،مشکوۃ:۱۲۹)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تووہ عیدالاضحی کے دن قربانی میں خرچ کئے جانے والے مال سے زیادہ فضیلت نہیں رکھتا۔(سنن دارقطنی وبیہقی) حضرت ابوسعیدسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:اے فاطمہ اٹھواور اپنی قربانی کے پاس رہو (یعنی اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجودرہو) کیوں کہ اس کے خون کاپہلاقطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ حضرت فاطمہ نے عرض کیایارسول اللہ !یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یاعام مسلمانوں کے لیے بھی ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہمارے لیے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔ اسی طرح حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے) فرمایا:اے فاطمہ ! اٹھواور اپنی قربانی کے پاس (ذبح کے وقت )موجودرہو ، اس لیے کہ اس کے خون کاپہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔یہ قربانی کاجانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایاجائے گا اور تمہارے ترازومیں سترگنا کرکے رکھا جائے گا ۔حضرت ابوسعید نے عرض کیا یارسول اللہ !یہ مذکورہ ثواب کیاخاص آل محمد کے لیے ہے کیوں کہ وہ اس کے لائق بھی ہیں کہ کسی چیز کے ساتھ خاص کئے جائیں یاتمام مسلمانوں کے لیے عام ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آل محمد کے لیے ایک طرح سے خاص بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام بھی ہے۔ (اصبہانی،الترغیب:۲؍۲۷۷) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!تم قربانی کرو اور ان قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امیدرکھواس لیے کہ خون اگرچہ زمین پرگرتاہے لیکن وہ اللہ کے حفظ وامان میں چلاجاتاہے۔(الترغیب:۲؍۲۷۸) حضرت حسین بن علی سے مردی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجوشخص خوش دلی کے ساتھ اجروثواب کی امیدرکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے رکاوٹ بن جائے گی۔
قربانی کاحکم:
قربانی ایک اہم عبادت اور شعائراسلام میں سے ہے ،اس پراجماع ہے ،البتہ اس کی شرعی حیثیت اورحکم کے بارے میں ائمہ مجتہدین میں اختلاف ہے۔حضرت امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالکؒ،امام احمدبن حنبل ؒ صاحب نصاب کے لیے قربانی کو واجب کہتے ہیں ،جب کہ امام شافعی ؒ اور دیگر علماء سنت مؤکدہ کے قائل ہیں۔ہندوپاک کے جمہورعلماکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ نے بھی وجوب کے قول کو اختیار کیا ہے کیوں کہ یہ قول احتیاط پرمبنی ہے۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے:’’ فصل لربک وانحر‘‘(سورۃا لکوثر)آپ اپنے رب کے لیے نمازپڑھئے اور قربانی کیجئے۔اس آیت میں قربانی کرنے کاحکم دیاجارہاہے اور امروجوب کے لیے ہوتاہے۔ علامہ ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت ’’فصل لربک ‘‘میں نمازسے عید کی نمازمرادہے اور ’’وانحر‘‘سے قربانی مرادہے۔علامہ جصاص فرماتے ہیں اس سے دوباتیں ثابت ہوتی ہیں:(۱) عیدکی نماز واجب ہے (۲) قربانی واجب ہے۔( احکام القرآن للجصاص :۳؍۴۱۹) مفسرقرآن قاضی ثناء اللہ پانی پتی اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں: ’’حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء اور حضرت قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیںکہ ’’فصل لربک ‘‘میں فصل سے مراد عید کی نماز اور ’’وانحر‘‘ سے مراد قربانی ہے۔(تفسیرمظہری :۱۰؍۳۵۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو اوروہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ پھٹکے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳، مسنداحمدحدیث نمبر:۸۲۷۳) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ احدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس طرح کی وعید غیرواجب کو چھوڑنے پرنہیں ہوتی بلکہ ترک واجب پر ہوتی ہے۔(تبیین الحقائق للزیلعی :۶؍۲کتاب الاضحیہ )نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکرفرمایا:اے لوگو!ہرسال ہرگھروالے(صاحب نصاب) پرقربانی کرنا ضروری ہے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۵،نسائی حدیث نمبر:۴۲۲۴)حضرت عبداللہ بن عمرسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصہ قیام میںآپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۷)مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کاکوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا۔یہ اہتمام و پابندی بھی وجوب کوبتایا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے قبل جانورذبح کردینے پر دوبارہ قربانی کرنے کاحکم دیا۔(صحیح بخاری حدیث :۵۵۴۶،۵۵۶۰،ابن ماجہ حدیث:۳۱۵۱)حالاں کہ اس زمانہ میں صحابہ کرام کے پاس مالی وسعت نہیں تھی ،یہ بھی قربانی کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ 
قربانی کے وجوب کی شرطیں: 
قربانی واجب ہونے کے لیے چھ شرائط ہیں ۔اگران میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے توقربانی واجب نہیں رہے گی:
۱۔عاقل ہونا۔لہذاکسی پاگل ،مجنوں پرقربانی واجب نہیں۔
۲۔ بالغ ہونا ۔ لہذانابالغ پرقربانی نہیں خواہ مالدارہی ہو۔ہاں کوئی ایام قربانی میں بالغ ہوااور مالدارہے تواس پرقربانی واجب ہے۔
۳۔ آزاد ہونا۔ لہذاغلام پرقربانی نہیں۔کیوں کہ غلام کسی چیز کامالک نہیںہوتا۔(البحرالرائق :۲؍۲۷۱)
۴۔ مقیم ہونا۔ لہذامسافرپرقربانی واجب نہیں۔حضرت علی ؓ  فرماتے ہیں :مسافرپرقربانی واجب نہیں(المحلی لابن حزم:۶؍۳۷،مسئلہ: ۹۷۹)
۵۔ مسلمان ہونا۔اس لیے کہ قربانی عبادت ہے اور کافر عبادت کااہل نہیں۔(بدائع :۴؍۱۹۵)
 لہذاغیرمسلم پرخواہ کسی مذہب کاہوقربانی واجب نہیں۔ہاں اگرکوئی غیرمسلم ایام قربانی میں مسلمان ہوگیااورمالدارہے تو اس پرقربانی واجب ہوگی۔
۶۔مالدار ہونا۔امام ابن ماجہ قزوینی ؒ نقل کرتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کووسعت ہواس کے باوجود قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(ابن ماجہ حدیث:۳۱۲۳،باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا)لہذافقیرپرقربانی واجب نہیں ،اگراپنی خوشی سے قربانی کرے تو ثواب ملے گا۔اور اگر کوئی فقیر قربانی کے ایام میں صاحب نصاب ہوگیا تواس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔ اگرکسی کے پاس بقدرنصاب رقم موجودہومگراس پر قرض اتناہوکہ اگراسے اداکرے تووہ مالک نصاب نہ رہے توایسے شخص پربھی قربانی واجب نہیں۔
وجوب قربانی کانصاب :
جس شخص کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی(612.36گرام)یا ساڑھے سات تولہ سونا (87.48گرام )موجود ہوخواہ جس شکل میں ہو جیسے زیورات، آرائشی سامان ،سکے وغیرہ یا سونا چاندی مذکورہ مقدار سے کم ہو لیکن اس کی ملکیت میں سونا،چاندی،مال تجارت ،نقدی اور بنیادی ضرورت سے زائد سامان موجود ہو یاان میں سے بعض موجود ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی ( 612.36ملی گرام ) کے برابر ہو تو اس پر  قربانی واجب ہے، قربانی نہ کرنے کی وجہ سے وہ گنہگارہوگا۔
مال تجارت سے مراد:
اگرکسی چیز کوخریدتے وقت نیت یہ تھی کہ اسے بعد میں فروخت کردیں گے اور یہ نیت تاحال باقی بھی ہو تواب یہ چیز ’’مال تجارت‘‘ میں شمار ہوگی؛ لیکن اگرکوئی چیز خریدتے وقت اسے آگے فروخت کرنے نیت نہ ہویایااس وقت تو فروخت کرنے کی نیت تھی مگربعدمیں نیت بدل گئی توایسی چیز مال تجارت میں شمار نہ ہوگی۔قربانی میں نصاب کے مال کاتجارت کے لیے ہونا یااس پر سال گزرناضروری نہیں۔
بنیادی ضرورت سے زائدسامان:
بنیادی ضرورت سے مراد وہ ضرورت ہے جوانسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے ضروری ہو،اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یاہتک عزت و آبرو کااندیشہ ہو ۔کسی شخص کے پاس موجود ایساسامان جواس کی بنیادی ضروریات سے زائد ہو ’’زائدازضرورت سامان ‘‘کہلائے گا۔ کھانا،پینا، رہائشی مکان ، کرایہ پر دیا ہوامکان، استعمال کی گاڑی، استعمال کے کپڑے، دکان کافرنیچر، اہل صنعت وحرفت کے اوزاروغیرہ ضرورت کاسامان شمار ہوگا۔ایسے برتن ،کپڑے جوسال بھرمیں ایک بار بھی استعمال نہ ہوئے ہوں وہ زائد ازضرورت سامان شمارہوں گے۔
٭  جس طرح زکوۃ صاحب نصاب مسلمان پرالگ الگ لازم ہوتی ہے اسی طرح قربانی بھی ہرصاحب نصاب پر الگ الگ لازم ہوگی ؛کیوں کہ قربانی اس کے اپنے نفس اورذات پرواجب ہوتی ہے اس لیے پورے گھر،خاندان یاکنبہ کی طرف سے ایک آدمی کی قربانی کافی نہیں ہوگی ۔ ہرصاحب نصاب پرالگ الگ قربانی لازم ہوگی ورنہ سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ ہاں ! ایصال ثواب کے لیے ایک قربانی کئی افراد کے ثواب کی نیت سے کرسکتے ہیں۔
٭  اگرعورت صاحب نصاب ہوتو اس پربھی قربانی واجب ہے۔بیوی کی قربانی شوہر پرلازم نہیں ،اگر بیوی کی اجازت سے کرلے تو ہوجائے گی۔بعض لوگ نام بدل کرقربانی کرتے رہتے ہیں ،حالاں کہ دونوں میاں بیوی صاحب نصاب ہوتے ہیں ،مثلا ایک سال شوہر کے نام سے ،دوسرے سال بیوی کے نام سے تو اس سے قربانی ادانہیں ہوتی بلکہ میاںبیوی دونوں کی الگ الگ قربانی ہوگی۔
٭  اگربیوی کامہرمؤجل ہے جوشوہرنے ابھی تک نہیں دیا اور وہ نصاب کے برابرہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے اور اگر مہرمعجل ہے اور بقدرنصاب یااس سے زیادہ ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ۔
٭  اگرمشترک کاروبارکی مالیت تقسیم کے بعد ہرایک کو بقدرنصاب ہوتوسب پر واجب ہوگی ۔
٭  اگرکاشت کارکسان کے پاس ہل چلانے اور دوسری ضرورت سے زائد اتنے جانورہوں جوبقدرنصاب ہوں تواس پر قربانی ہوگی ۔
٭  :اگرکسی کے پاس کتب خانہ ہے اور مطالعہ کیلئے کتابیں رکھی ہیں تواگروہ خودتعلیم یافتہ نہیں اور کتابوں کی قیمت بقدرنصاب ہے تواس پرقربانی واجب ہے اور اگروہ تعلیم یافتہ ہے تو قربانی واجب نہیںہوگی۔ 
قربانی نہ کرنے والوں پروعید:
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من کان لہ سعۃ ولم یضح فلایقربن مصلانا‘‘ ترجمہ:’’جوشخص وسعت کے باوجودقربانی نہ کرے ،وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ۔‘‘(ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۲۳) آپ کے اس فرمان سے کس قدر ناراضگی ٹپکتی ہے۔ کیاکوئی مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سہارسکتا ہے ؟اوریہ ناراضگی اسی سے ہے جوگنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے ۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ قربانی کے ایام میں جانور ہی ذبح کرناضروری ہے۔قربانی کے بجائے اس کی رقم کاصدقہ کرنااس کابدل اورکافی نہیں۔ایساکرنے پرذمہ سے واجب ساقط نہ ہوگا۔
قربانی کئے جانے والے جانور:
بھیڑ،بکری ،گائے ،بھینس اور اونٹ قربانی کے لیے ذبح کئے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی فرماتاہے:آٹھ جانورہیں دوبھیڑوں میں سے اوردوبکریوں میں سے ،دو اونٹوں میں سے اور دوگائیوں میں سے (سورہ انعام:۱۴۳)بھینس گائے کے درجہ میں ہے اس پر امت مسلمہ کااجماع ہے۔(کتاب الاجماع لابن منذرص:۳۷)حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث:۱۰۸۴۸) اسی طرح سفیان ثوری کاقول ہے:بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیاجائے گا۔(مصنف عبدالرزاق حدیث:۶۸۸۱) امام مالک بن انس فرماتے ہیں:یہ بھینس گائے ہی کے حکم میں ہے۔(مؤطاامام مالک،باب ماجاء فی صدقۃ البقر،ص:۲۹۴) 
غیرمقلدین کاموقف ہے کہ بھینس کی قربانی کرناصحیح نہیں ،اس لیے کہ یہ عرب میں نہیںپائی جاتی تھی۔(فقہ الحدیث ازافاداتناصرالدین البانی:۲؍۴۷۵)مگریہ بات صحیح نہیں ہے ؛اس لیے کہ بھینس اگرچہ موجودنہ تھی لیکن باجماع امت اسے گائے کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے گائے والا حکم دے دیا گیا جیساکہ زکوۃ کے مسئلہ میں اسے گائے کے ساتھ شامل کردیاگیاہے۔نیزیہ کہ اگربھینس کی قربانی نہ کرنے کی یہی دلیل ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عرب میں نہیں پائی جاتی تھی تو اس دلیل کے مطابق اس کاگوشت،دودھ، مکھن ،کھال وغیرہ کااستعمال بھی جائز نہیں ہوناچاہئے کیوں کہ یہ دور نبوت میں عرب ممالک میں نہیں پائی جاتی تھی،حالاں کہ غیرمقلدین بھی ایسانہیں کہتے ہیں توپھراس کی قربانی کیوں کرجائز نہیں ہوگی۔
غیرمقلدین کے یہاں گھوڑے کی قربانی بھی جائز ہے ۔(فتاوی ستاریہ:۱؍۱۴۹)وہ حضرت اسماء بنت ابوبکرکی روایت کو دلیل بناتے ہیں کہ روایت میں لفظ’’نحرنا‘‘ہے جوقربانی کے معنی میں ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓنے فرمایا:’’ نحرنا علی عھد  النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرساً فأکلناہ۔‘‘ ترجمہ: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑے کو ذبح کیا اور اس کاگوشت کھایا۔(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید؛باب النحروالذبح) حالاں کہ یہ دلیل تب بنے گی جب ’’نحرنا‘‘ بمعنی ’’نسکنا‘‘ ہو جبکہ حدیث میںنحرنا ’’ذبحنافرسا‘‘ کے معنی میں ہے جس کی دلیل وہ احادیث ہیں جس میں ’’ذبحنا‘‘ کالفظ صراحتا موجود ہے۔چنانچہ صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۱۱ کے الفاظ ہیں:عن اسماء قالت ذبحنا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرسا ونحن بالمدینۃ فأکلناہ۔یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکررضی اللہ عنہما فرماتی ہیں ہم نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑا ذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح معجم کبیر طبرانی حدیث نمبر:۳۰۲کی روایت ہے:عن اسماء بنت ابی بکرقالت ذبحنا فرسا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأکلناہ یعنی حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ فرماتی ہیں :ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑاذبح کیا پھراسے کھایا۔اسی طرح کنزالعمال کی روایت میں بھی ذبحنا کالفظ ہے۔دوسری بات یہ کہ جن احادیث سے گھوڑے کاگوشت کھانے کاجواز معلوم ہوتا ہے وہ سبھی احادیث منسوخ ہیں ۔اس لیے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :’’ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن اکل لحوم الخیل والبغال والحمیر۔زاد حَیْوَۃُ۔ و کل ذی ناب من السباغ۔ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے، خچراور گدھوں کے کھانے سے منع فرمایا۔حیوہ(راوی) نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں کاگوشت کھانے سے بھی منع فرمایا۔(سنن ابوداود:کتاب الاطعمۃ ؛باب فی اکل لحوم الخیل) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خیبرکے دن لوگوں کو بھوک نے ستایاتوانہوں نے گھریلوگدھوں کو پکڑا اور ذبح کیا اور ان سے ہانڈیوں کو بھردیا جب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعلوم ہوئی توآپؐ نے ہمیں حکم دیا توہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو گرادیا ۔آپؐ نے فرمایا :اللہ تعالی اس سے زیادہ حلال اور پاکیزہ رزق عطافرمائیں گے ،چنانچہ ہم نے اس دن ان ہانڈیوں کو جوش مارنے کی حالت میں گرادیا پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں، گھوڑوں، خچروں کے گوشت، کچلیوں کے ساتھ کھانے والے درندوں ،پنجوں کے ساتھ کھانے والے پرندوں، باندھ کر نشانہ بنائے گئے جانور، درندے کے ہاتھوں چھڑائے گئے جانور جو ذبح سے پہلے ہی مرجائے اور (کسی درندے کے ہاتھوں ) اچکے ہوئے جانور کے گوشت کوحرام قراردیا۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی :۸؍۶۹، المعجم الاوسط لطبرانی :۴؍۹۳،رقم:۳۶۹۲)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گھوڑے کے گوشت کو مکروہ (اور ناجائز) کہتے تھے اور دلیل میں قرآن پاک کی یہ آیت ’’والخیل والبغال والحمیرلترکبوھاوزینۃ‘‘ پیش کرتے تھے۔(احکام القرآن للجصاص :۳؍۲۷۰من سورۃ النحل)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ مذکورہ آیت کودلیل بناتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ان تین چیزوں (گھوڑا،خچراور گدھا) کاذکراللہ تعالی کی نعمتوں کے ضمن میں ہوا ہے ،کسی جانور کاسب سے بڑا فائدہ اس کاگوشت کھاناہے ۔حکیم ذات احسان کاذکر کرتے ہوئے کبھی بھی اعلی نعمتوں کوچھوڑ کر ادنی نعمت کاتذکرہ نہیں کرتی۔(اور یہاں اعلی فائدہ ’گوشت کھانا‘ چھوڑ کر ادنی فائدہ ’سواری کرنا‘ کاذکر ہے جودلیل ہے کہ اگر گھوڑے کاگوشت کھاناجائز ہوتا تو اللہ تعالی ضرور ذکر فرماتے )اسی لیے فقہائے کرام نے بھی گھوڑے کے گوشت کے ناجائز ہونے کی صراحت کی ہے۔چنانچہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام اوزاعی گھوڑے کے گوشت کو مکروہ جانتے تھے ۔یہی قول امام مجاہد، امام ابوبکر الاصم اور امام حسن بصری سے بھی منقول ہے۔توجب گھوڑا کوذبح کرکے اس کاگوشت کھانا جائز ہی نہیں ہے تو گھوڑے کی قربانی کیسے جائز ہوگی۔’’نیزثمانیۃ ازواج‘‘ کی وضاحت قرآن نے جن جانوروں سے کی ہے ان میں گھوڑاشامل نہیں ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر:
اونٹ کی عمرکم ازکم پانچ سال ۔گائے ،بیل ،بھینس کی عمرکم ازکم دوسال۔بکری، بکرا،بھیڑ،دنبہ کی عمرکم ازکم ایک سال ۔البتہ چھ ماہ کا دنبہ اتنافربہ ہو کہ ایک سال کالگتاہوتوسال سے کم ہونے کے باوجود اس کی قربانی جائز ہے ۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قربانی کے لیے عمروالاجانورذبح کرو،ہاں اگرایساجانور میسرنہ ہوتو پھر چھ ماہ کادنبہ ذبح کروجوسال کالگتاہو۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:۱۹۶۳،باب سن الاضحیۃ،ابوداودحدیث :۲۷۹۷،اعلاء السنن) حدیث میں دوباتیں قابل غورہیں:پہلی بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے جانورکے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایاہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’علماء  فرماتے ہیں کہ  ’’مسنہ ‘‘ سے مراد  اونٹ، گائے اور بکری میں ’’الثنی ‘‘ ہے۔ (شرح مسلم للنوی:۲؍۱۵۵) اور فقہائے کرام کے یہاں ثنی سے مراد یہ ہے کہ بھیڑ بکری،ایک سال کی ہو، گائے اور بھینس دوسال کی اور اونٹ پانچ سال کاہو۔(فتاوی عالمگیری:۵؍۲۹۷، کتاب الاضحیۃ ؛الباب الخامس) دوسری بات یہ کہ حدیث میں مسنہ کے متبادل ’’ جذعۃ من الضأن ‘‘ کاحکم فرمایااس سے مراد وہ دنبہ ہے جوچھ ماہ کاہو مگردیکھنے میں ایک سال کالگتاہو۔چنانچہ علامہ نجیم فرماتے ہیں:’’ حضرات فقہاء فرماتے ہیں اس سے مراد وہ دنبہ ہے جواتنابڑا اگراس کو سال والے دنبوں میں ملادیاجائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ ) وہ ہے جوچھ ماہ مکمل کرچکا ہو۔(البحرالرائق:۸؍۲۰۲،کتاب الاضحیۃ)یہ حکم صرف بھیڑاور دنبہ میں ہے ،بکری یاگائے ،بھینس اور اونٹ کے لیے نہیں کیوں کہ حدیث پاک میں صرف اسی کی اجازت ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ عمرکے مکمل ہونے کااطمینان ضروری ہے ،دانتوں کاہوناضروری نہیں۔ (احسن الفتاوی:۷؍۵۲۰)غیرمقلدین کے یہاں مدارعمرنہیں بلکہ دانتا ہوناشرط ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ازعبداللہ غیرمقلد:۲؍۳۹۲)غیرمقلدین کاکہناہے کہ حدیث میں مسنہ لفظ آیاہے جوثنی سے ہے اور لغت میں ثنی کے معنی دو دانتوں کے ہیں،لہذاایساجانورجس کے دو دانت گرگئے ہوں مراد ہے ۔حالاں کہ مسنہ کامعنی لغت میں دو دانتابھی ہے اور عمروالابھی۔اور یہ مسئلہ چوں کہ شریعت کاہے اس لیے لغت کاوہ معنی مرادلیں گے جواصحاب شرع نے لیاہے اوروہ فقہاء ہیں۔امام ترمذی فرماتے ہیں: و کذلک قال الفقہاء وھم اعلم بمعانی الحدیث(ترمذی،کتاب الجنائزباب غسل المیت:۱؍۱۹۳)ترجمہ:اورفقہاء حدیث کامعنی زیادہ جانتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ جذع سے مراد باتفاق امت دنبے اور بھیڑ میں چھ ماہ کی عمروالاجانور ہے۔ مسنہ کے متبادل عمر کے اعتبار سے جانور کاتعین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ کی بنیاد عمرہے نہ کہ دانت گرنا۔
قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
بکرا،بکری ،بھیڑ یادنبہ کی قربانی ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیاکہ مجھ پر ایک بڑ اجانور (اونٹ یاگائے) واجب ہوچکا ہے اورمیں مالدار ہوں اور مجھے بڑا جانور نہیں مل رہا ہے کہ میں اسے خرید لوں (لہذا اب کیاکروں؟) توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سات بکریاں خرید لو اور انہیں ذبح کرلو۔اس حدیث میں آپ نے بڑے جانور کو سات بکریوں کے برابر شمار کیا اور بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیںاس سے زیادہ نہیں ۔معلوم ہواکہ ایک بکری یاایک دنبہ کی قربانی ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے جائز نہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے(اعلاء السنن:باب ان البدنۃ عن سبعۃ)اور اونٹ ،گائے یا بھینس میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔حضرت جابررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کااحرام باندھ کر نکلے تو آپ نے حکم دیاکہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی شریک ہوجائیں۔(مسلم حدیث :۱۳۱۸باب: الاشتراک فی الھدی)نیز حضرت جابررضٓی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی کی،چنانچہ اونٹ ۷ آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی ۷ آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔(مسلم  حدیث نمبر:۱۳۱۸،ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۲،ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۱۳۲)
ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے کافی نہیں:
غیرمقلدین کامانناہے کہ ایک بکری میں سارے گھروالے شریک ہوسکتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قربانی کیسے ہوتی تھی؟ توآپ ؓ نے جواب دیا: آدمی اپنی جانب سے اور اپنے گھروالوں کی جانب سے ایک بکری ذبح کیاکرتا تھا ،پھر سارے گھروالے اسے کھاتے تھے اور (دوسروں کوبھی) کھلاتے تھے،یہاں تک کہ لوگ دکھاوے اور فخر میں مبتلاہوگئے اور وہ کچھ ہونے لگا جوتم دیکھ رہے ہو۔(ترمذی حدیث نمبر:۱۵۰۵،باب ماجاء ان الشاۃ تجزی عن اھل البیت) حالاں کہ حدیث میں مراد اشتراک فی اللحم ہے یعنی ذبح توایک آدمی کرتاتھاجس پر قربانی واجب ہوتی تھی اور اس کاگوشت سارے گھروالے کھاتے تھے، چنانچہ امام محمد شیبانی ؒ فرماتے ہیں:’’ایک شخص محتاج ہوتا تھا توایک ہی بکری ذبح کرتا،قربانی تواپنی طرف سے کرتا لیکن کھانے میں اپنے ساتھ گھروالوں کوبھی شریک کرتاتھا۔جہاں تک ایک بکری کامعاملہ ہے تو وہ دویاتین آدمیوں کی طرف سے کفایت نہیں کرتی بلکہ صرف ایک شخص کی طرف سے ہی ہوتی ہے۔‘‘(مؤطا الامام محمد:ص۲۸۲،باب مایجزی ٔ من الضحایا عن اکثرمن واجد)مولاناعبدالحی لکھنوی اس ذیل میں لکھتے ہیں:’’اس کامطلب یہ ہے کہ ایک شخص کو گوشت کی ضرورت ہوتی یاوہ فقیر ہوتا اور قربانی اس پرواجب نہیں ہوتی تو وہ اپنی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اپنے گھروالوں کو گوشت کھلاتا یاگھروالوں کو ثواب میں شریک کرتا اور یہ جائز ہے۔باقی رہا واجب قربانی کی صورت میں ایک بکری میں اشتراک تویہ جائز نہیں۔‘‘(التعلیق الممجدعلی موطاالامام محمد:ص۲۸۲)جبکہ مولاناظفراحمدعثمانی تھانوی ؒ تفصیل سے لکھتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ جہاں تک حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے فرمان کہ’’ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک بکری اپنے اور اپنے گھروالوں کی طرف سے ذبح کرتا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے فخر کرناشروع کردیا۔‘‘ اور ابوسریحہ کے فرمان کہ ’’گھروالے ایک یادو بکریاں ذبح کرتے تھے اور اب اپنے پڑوسیوں سے بھی بخل کرتے ہیں‘‘ کاتعلق ہے تویہ ہماری دلیلیں ہیں ،ہمارے خلاف نہیں ہیں، کیوں کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ مالدار پراپنی اولاد اور اپنی بیوی کی طرف سے بھی قربانی واجب ہے بلکہ (ہمارادعوی ہے کہ) اس پر صرف اپنی طرف سے قربانی واجب ہے اور یہی ابوایوب انصاری ؓ اور ابوسریحہ کی مراد ہے کہ مالدار آدمی اپنی چھوٹی اولاد کی طرف سے قربانی نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اپنے گھروالوں کی طرف سے کرتا تھا حتی کہ لوگوں نے فخرکرناشروع کردیا ۔اسی وجہ سے تو ابوسریحہ نے کہاکہ ایک گھروالے ایک یادوبکریاں ذبح کرتے تھے۔اگریہ بات مشترک قربانی کے لیے ہوتی توایک بکری سے زیادہ ذبح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں (کیوں کہ اس صورت میں ایک بکری کفایت کرجاتی) لیکن مالدار تو صرف گھرکاسربراہ ہوتاہے ۔اس وقت چوں کہ گھرکے سربراہ ایک یادوہوتے تھے اسی وجہ سے گھروالے ایک یادوبکریوں کی قربانی کرتے تھے اور وہ اپنے چھوٹوں اور بڑے فقراء کی طرف سے قربانی نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ لوگ اس میں فخر کرنے لگے ۔تو اس صورت میں ایک بکری کے پورے گھروالوں کی طرف سے کافی ہونے پرکوئی دلیل نہیں جب کہ سارے گھروالے مالدار ہوں۔خوب سمجھ لو۔(اعلاء السنن:۱۷؍۲۱۱)مولاناالیاس گھمن فرماتے ہیں: یہ ایسے ہے جیسے ایک گھرانے میں ایک آدمی نے قربانی کی ہوتی ہے اور ہمارے عرف میں کہہ دیاجاتا ہے کہ ’’فلاں گھرانے نے قربانی کی ہے‘‘ تو پورے گھر کی طرف نسبت کرناعرف کے اعتبارسے ہے نہ کہ ایک بکری کے گھرانے کی طرف سے کفایت کرنے کے اعتبارسے۔ اس پر قرائن یہ ہیں:(الف) اہل بیت میں تو نابالغ بچے بھی شامل ہیں جن پر قربانی واجب نہیں ہوتی۔ (ب) بیوی بھی اگرصاحب نصاب ہوتواس پر زکوۃ الگ سے فرض ہوتی ہے جودلیل ہے کہ ایک کافرض دوسرے کی طرف سے کفایت نہیں کرتا یہی حال گھرمیں موجود بالغ بیٹوں اور بیٹیوں کاہے۔(ج) گائے اور اونٹ میں سات افراد کی شرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بکری ایک فرد کی طرف سے ہی کفایت کرتی ہے توجس طرح بڑے جانور میں ساتواں حصہ ایک کی جانب سے ہوتا ہے اس طرح ایک بکری ایک ہی طرف سے ہوتی ہے۔(د) خود اس روایت میں ذبح کے بعد ’’یاکلون‘‘کہنابھی اس بات کاقرینہ ہے کہ صحابی کی مراد اشتراک سے اشتراک فی اکل ہے نہ کہ اشتراک فی اداء الواجب۔
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کادوسراجواب یہ ہے کہ اس سے مراد نفلی قربانی ہے ۔نفلی قربانی انسان اپنی طرف سے کرتا ہے لیکن ثواب میں دوسروں کوشریک کرتا ہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی قربانی میں امت کو شریک کیاہے۔عبدالرحمن بن سابط سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوموٹے تازے مینڈھے ذبح کیے،ایک اپنی طرف سے اور دوسرا ہر اس شخص کی جانب سے جس نے ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ پڑھاہو۔(کتاب الآثار بروایت محمدحدیث نمبر:۷۹۰،باب الاضحیۃ)علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں:’’ واماماروی انہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بشاۃ عن امتہ فانما کانت تطوعا۔‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جومروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری امت کی طرف سے ذبح کی تھی تویہ نفلی قربانی تھی۔(عمدۃ القاری ،کتاب الحج:۷؍۲۸۷)  مولاناخلیل احمدسہارنپوری فرماتے ہیں:’’انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام انما فعل ذلک لأجل الثواب وھو انہ جعل ثواب تضحیۃ بشاۃ واحدۃ لامتہ لا للاجزاء وسقوط التعبد عنھم۔ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوقربانی کی تھی وہ ثواب کے لیے کی تھی ،اس کامطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک بکری کاثواب امت کوپہنچایا تھا ایسانہیں تھا کہ ان کی طرف سے قربانی کی کفایت اوران سے فریضہ کی ادائیگی کے لیے کی تھی۔(بذل المجہودشرح ابوداودکتاب الضحایا ،باب فی الشاۃ یضحی بھاعن جماعۃ:۴؍۷۶)
غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں کیوں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کاموقع آگیا ،توہم نے گائے میں سات اور اونٹ میں دس آدمیوں کے حساب سے شرکت کی۔ حالاں کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی حدیث متروک ہے اور حضرت جابررضی اللہ عنہ کی حدیث معمول بہ ہے جو پہلے بیان کی جاچکی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی ؒ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’والعمل علی ھذا عند اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم‘‘۔ یعنی اسی پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہ کاعمل ہے۔(ترمذی:۱؍۲۷۶) باب ماجاء ان الشاۃ الواحدۃ تجزی عن اھل البیت) اوریہ ضابطہ ہے کہ :’’جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دو حدیثیں مروی ہوں اور دونوں میںاختلاف ہو تو دیکھاجائے گا کہ جس پر صحابہ نے عمل کیاہواسے لیا جائے گا۔(سنن ابوداود،باب لحم الصیدللمحرم،باب من لایقطع الصلوۃ شیء)نیزمحدثین کی عادت ہے کہ وہ پہلے ان احادیث کو لاتے ہیں جوان کے نزدیک منسوخ ہوتی ہیں پھرناسخ ۔امام نووی نے یہ بات ذکرکی ہے (شرح نووی:۱؍۱۵۶باب الوضوع ممامست النار) اس لحاظ سے دیکھاجائے تو امام ترمذی نے پہلے عبداللہ بن عباس کی حدیث نقل کی ہے اور اس کے بعد حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث نقل کی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کی حدیث منسوخ ہے۔نیز یہ کہ ابن عباسؓ کی حدیث فعلی اور حضرت جابرؓکی حدیث قولی ہے اور حدیث قولی کو حدیث فعلی پر ترجیح ہوتی ہے۔امام نووی فرماتے ہیں:’’انہ تعارض القول والفعل ،و الصحیح حینئذ عند الاصولیین ترجیح القول‘‘یعنی یہاں قول اورفعل میں تعارض ہے اور اصولین کے نزدیک اس وقت ترجیح قول کوہوتی ہے۔(شرح مسلم للنووی:باب تحریم نکاح المحرم)
قربانی کاوقت:
قربانی کاوقت شہروالوں کے لیے نمازعید اداکرنے کے بعد اوردیہات والوں کے لیے جن پر نمازجمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے۔لیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہترہے۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ،آپ خطبہ ارشادفرمارہے تھے کہ ہمارے اس عید کے دن سب سے پہلاکام یہ ہے کہ ہم نمازپڑھیں پھرواپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پرعمل کیا یعنی عید کے بعدقربانی کی تو اس نے ہمارے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تووہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھروالوں کے لیے تیارکیاہے ،اس کاقربانی سے کوئی تعلق نہیں۔(صحیح بخاری حدیث:۵۵۶۰،کتاب الاضاحی باب :الذبح بعدالصلوٰۃ،مسنداحمد حدیث نمبر:۱۸۴۸۱،۱۸۶۹۳)اس حدیث سے معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدکی نمازسے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایاہے ۔دیہات میں چوں کہ عید کی نماز کا حکم نہیں ہے اس لیے وہاں اس شرط کاوجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا ۔وہاں قربانی کے وقت کاشروع ہوناہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہوجاتاہے۔
قربانی کے ایام :
قربانی کے تین دن ہیں :۱۰،۱۱،۱۲؍ذی الحجہ۔
حضرت عبداللہ بن عبا س ؓفرماتے ہیں کہ قربانی کے دن دس ذی الحجہ اور اس کے بعد کے دودن ہیں البتہ یوم النحر(دس ذی الحجہ )کو قربانی کرنا  افضل ہے۔(احکام القرآن لابی جعفرالطحاوی۲؍۲۰۵)٭حضرت عبداللہ بن عمر ؓ قرآن کی آیت :’’ویذکروااسم اللہ فی ایام معلومات ‘‘کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ ’’ایام معلومات‘‘ سے مرادیوم نحراور اس کے بعددودن ہیں۔(تفسیرابن ابی حاتم الرازی:۶؍۲۶۱)٭قال علی رضی اللہ عنہ :النحر ثلاثۃ ایام ترجمہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن تین ہیں۔(احکام القرآن للطحاوی :۲؍۲۰۵،موطامالک:ص ۴۹۷،کتاب الضحایا) ٭حضرت سلمہ بن اکوع سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’من ضحی منکم ،فلایصبحن بعد ثالثۃ وفی بیتہ منہ شی ء‘‘ یعنی جوشخص قربانی کرے توتیسرے دن کے بعد اس کے گھرمیں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہیں بچنا چاہئے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر:۵۵۶۹،باب مایوکل من لحوم الاضاحی)اس حدیث سے بھی معلوم ہواکہ قربانی کے دن تین ہی ہیں کیوں کہ جب چوتھے دن قربانی کابچاہواگوشت رکھنے کی اجازت نہیں توپوراجانورقربان کرنے کی اجازت کیوں کرہوگی؟
یہاں یہ بات یادرہے کہ تین دن کے بعد قربانی کاگوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی ۔(مستدرک حاکم:۲؍۲۵۹) تاہم اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ تین دن کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی توتین دن بعد قربانی بھی کی جاسکتی ہے ،اس لئے کہ گوشت تو پورے سال بھی رکھاجاسکتاہے توکیاقربانی کی بھی اجازت پورے سال ہوگی ؟ہرگزنہیں،توتین دن بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اورنہ اب ہے۔
حضورؐ یاکسی صحابی سے۱۳؍ذی الحجہ کوقربانی کرناثابت نہیں:
بعض علماء اورغیرمقلدین نے مسنداحمد کی حدیث :’’کل ایام التشریق ذبح‘‘ کی بنیاد پر فرمایاکہ ۱۳ذوالحجہ کو بھی قربانی کی جاسکتی ہے؛لیکن ائمہ ثلاثہ حضرت امام ابوحنیفہؒ،حضرت امام مالکؒ اورحضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میںفرمایاہے کہ قربانی صرف تین دن کی جاسکتی ہے۔امام احمد بن حنبل ؒ نے خود اپنی کتاب میں وارد حدیث کے سلسلے میں وضاحت کردی ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے ،نیز اس  طرح کی دیگر روایتیں بھی ضعیف ہیںاور اصول ہے کہ ضعیف حدیث سے حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔احتیاط کاتقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی صرف تین دن تک ہی محدود رکھاجائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایک صحابی سے ۱۳؍ذوالحجہ کو قربانی کرناثابت نہیں ہے۔
یہاں پر ایک اشکال یہ رہ جاتا ہے کہ اگرتیرہ ذی الحجہ قربانی کادن نہیں توپھر اس میں روزہ رکھناجائز کیوںنہیں ؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ روزہ جائز ہوناچاہئے کیوں کہ وہ قربانی کادن نہیں ہے ؛لیکن ہم نے عقل کوحدیث پاک کی وجہ سے چھوڑدیا ۔کیوں کہ احادیث مبارکہ میں ایام تشریق کو کھانے ،پینے اور جماع کے ایام فرمایاگیا نہ کہ ذبح اورقربانی کے۔
حضرت نبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ایام تشریق کھانے اور پینے کے ہیں۔(مسلم حدیث:۱۱۴۱، باب: تحریم صوم ایام التشریق)حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عرفہ کادن،قربانی کادن اور ایام تشریق اہل اسلام کی عید کے دن اور کھانے پینے کے دن ہیں۔(ترمذی حدیث:۷۷۳، باب ماجاء فی کراھیۃ الصوم فی ایام التشریق)حضرت زیدبن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں ایک صحابی کوحکم فرمایا کہ لوگوں میں اعلان کرو ،سنو! یہ دن کھانے ،پینے اور ہمبستری کرنے کے ہیں۔(اتحاف الخیرۃ لامام بوصیری،باب النھی عن صوم ایام التشریق)حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی کے دنوں میں حکم فرمایا کہ میں لوگوں میں اعلان کروں :کہ ایام تشریق کھانے،پینے اور جماع کے دن ہیں ؛اس لیے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھنا۔(شرح معانی الآثارللطحاوی ،باب المتمتع الذی لایجدھدیاولایصوم فی العشر)
جن جانوروں کی قربانی درست نہیں:
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاہے کہ ہم (قربانی کے جانورکے) آنکھ اور کان کو خوب اچھی طرح دیکھ لیں (کہ کوئی ایسا عیب اور نقصان نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو اور یہ حکم بھی دیاہے کہ) ہم اس جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان اگلی طرف سے یاپچھلی طرف سے کٹاہواہواورنہ اس جانور کی جس کی لمبائی پر چرے ہوئے اور گولائی میں پھٹے ہوئے ہوں۔(سنن ترمذی،ابوداو،نسائی)ان جیسی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں درج ذیل جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے:
۱۔ لنگڑاجانورجس کالنگڑاپن اتناظاہرہوکہ ذبح کی جگہ تک نہ پہنچ سکے۔۲۔ اندھایاایساکانا جس کاکاناپن ظاہر ہو۔۳۔ ایسا بیمارجس کی بیماری بالکل ظاہر ہو۔۴۔ ایسادبلا اورمریل جانورجس کی ہڈیوں میں گودانہ ہو ۵۔ جس کی پیدائشی دم نہ ہو ۶۔جس کا پیدائشی ایک کان نہ ہو۔۷۔ جس کادم یاکان کاایک تہائی یااس سے زیادہ حصہ کٹاہو۸۔ جس کوپیدائشی طورپرتھن نہ ہو۔۹۔ دنبہ ،بکری ، بھیڑ کاایک تھن نہ ہو یامرض کی وجہ سے خشک ہوگیا ہو یاکسی وجہ سے ضائع ہوگیا ہو ۔۱۰۔ گائے، بھینس ، اونٹنی کے دوتھن نہ ہو ں یاخشک ہوگئے ہوں یاکسی وجہ سے ضائع ہوگئے ہوں۔۱۱۔ آنکھ کی تہائی یا اس سے زیادہ روشنی چلی گئی ہو ۔۱۲۔ جس کے دانت بالکل نہ ہوںیااکثرگرگئے ہوں یاایسے گھس گئے ہوں کہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۳۔ جس کاایک یادونوں سینگ جڑ سے اکھڑ جائے۔۱۴۔ جسے جنون کامرض اس حدتک ہوکہ چارابھی نہ کھاسکے۔ ۱۵۔ خارشی جانور جو بہت دبلا اور کمزورہو۔ ۱۶۔ جس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔  ۱۷۔ جس کے تھن کاٹ دیئے گئے ہوں یاایسے خشک ہوگئے ہوں کہ ان میں دودھ نہ اترے۔  ۱۸۔ جس کے تھن کا تہائی یااس سے زیادہ حصہ کاٹ دیاگیاہو۔ ۱۹۔ بھیڑ بکری کے ایک تھن کی گھنڈی جاتی رہی ہو۔  ۲۰۔ جس اونٹنی یاگائے بھینس کی دو گھنڈیا جاتی رہی ہوں۔ ۲۱۔ جس گائے یابھینس کی پوری زبان یاتہائی یا اس سے زیادہ کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۲۔ جلالہ یعنی جس کی غذانجاست وگندگی ہو اس کے علاوہ کچھ نہ کھائے۔ ۲۳۔ جس کا ایک پاوں کٹ گیاہو۔ ۲۴۔ خنثی جانور جس میں نراور مادہ دونوں کی علامتیں جمع ہوں۔ ۲۵۔ کسی جانور کے اعضا زائد ہوں مثلا چارکے بجائے پانچ ٹانگیں یاچارکے بجائے آٹھ تھن توچوں کہ یہ عیب ہے اس لیے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہوگی۔ البتہ جس جانور کاپیدائشی طورپر ایک خصیہ نہ ہو اس کی قربانی درست ہے۔ (قربانی کے فضائل ومسائل  :مفتی احمدممتاز)
جن جانوروں کی قربانی بہترنہیں:
۱۔ جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں۔ ۲۔ جس کے سینگ ٹوٹ گئے ہوں مگر ٹوٹنے کااثر جڑ تک نہیں پہنچاہو۔ ۳۔ وہ جانور جوجفتی پرقادرنہ ہو۔ ۴۔ جو بڑھاپے کے سبب بچے جننے سے عاجز ہو۔ ۵۔ بچے والی ہو۔ ۶۔ جس کو کھانسنے کی بیماری لاحق ہو۔ ۷۔ جسے داغا گیاہو۔ ۸۔ وہ بھیڑبکری جس کی دم پیدائشی طورپر بہت چھوٹی ہو۔ ۹۔ جس کے تھنوں میں بغیرکسی عیب اور بیماری کے دودھ نہ اترتاہو۔ ۱۰۔ ایسا کانا جس کاکاناپن پوری طرح واضح نہ ہو۔ ۱۱۔ ایسا لنگڑا جوچلنے پر قادر ہو یعنی چوتھا پاوں چلنے میں زمین پر رکھ کر چلنے میں اس سے مددلیتاہو۔ ۱۲۔ جس کی بیماری زیادہ ظاہر نہ ہو۔ ۱۳۔ جس کاکان یادم یاآنکھ کی روشنی کاتہائی سے کم حصہ جاتارہاہو۔ ۱۴۔ جس کے کچھ دانت نہ ہوں مگر وہ چاراکھاسکتاہو۔ ۱۵۔ جس کاجنون اس حدتک نہ پہنچاہو کہ چارانہ کھاسکے۔ ۱۶۔ ایسا خارشی جانور جوفربہ اور موٹاتازہ ہو۔ ۱۷۔ جس کاکان چیردیاگیاہو یاتہائی سے کم کاٹ دیاگیا ہو۔اگردونوں کانوں کاکچھ حصہ کاٹ لیاگیا ہو تو اگرمجموعہ تہائی کان کے مساوی یااس سے زیادہ ہوجائے توقربانی جائز نہیں ورنہ جائز ہے۔ ۱۸۔ بھینگاجانور، ۱۹۔ وہ بھیڑ دنبہ جس کی اون کاٹ دی گئی ہو۔ ۲۰۔ وہ بھیڑ ،بکری جس کی زبان کٹ گئی ہو بشرطیکہ چارا آسانی سے کھاسکے۔ ۲۱۔ جلالہ اونٹ جسے چالیس دن باندھ کر چاراکھلایاجائے ۔۲۲۔ وہ دبلا اور کمزور جانور جوبہت کمزور اور لاغرنہ ہو ۔ علامہ شامی فرماتے ہیں:قال القھستانی واعلم ان الکل لایخلو عن عیب والمستحب ان یکون سلیما عن العیوب الظاہرۃ فما جوز ھھنا مع الکراھۃ کما فی المضمرات۔(ردالمحتار:۶؍۳۲۳)یاد رہے کہ گابھن گائے وغیرہ کی قربانی بلاکراہت جائز ہے ۔اور خصی کی قربانی جائزہی نہیں بلکہ افضل ہے۔ (فتاوی ہندیہ۔اعلاء السنن)
خصی جانورکی قربانی:
خصی جانورکی قربانی کرناجائز ہے بلکہ فقہاء توفرماتے ہیں کہ افضل ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی والے دن دو سینگوں والے،موٹے تازے خصی مینڈھوں کوذبح فرمایا۔(سنن ابی داود،باب مایستحب من الضحایا) اس کی وجہ یہ ہے کہ خصی جانور کاگوشت لذیذ اور صاف ہوتا ہے۔ فقیہ عبدالرحمن بن محمد بن سلیمان ؒ لکھتے ہیں:’’ وعن الامام أن الخصی أولی لأن لحمہ ألذ وأطیب‘‘ ترجمہ: امام ابوحنیفہ ؒ سے منقول ہے کہ خصی جانور کی قربانی کرناافضل ہے ،اس لیے کہ خصی کاگوشت لذیذ اور اچھا ہوتاہے۔(مجمع الانہرشرح ملتقی الابحر:۴؍۱۷۱کتاب الاضحیۃ)
قربانی کے ساتھ عقیقہ کاحصہ :
قربانی کے جانورمیں عقیقہ کاحصہ رکھناجائز ہے۔علامہ کاسانی ؒ فرماتے ہیں:’’شرکاء میں سے بعض کا ارادہ اپنے بچوں کی طرف سے عقیقہ کرنے کا ہو تو یہ جائز ہے۔(بدائع الصنائع:۴؍۲۰۹) اس لیے کہ عقیقہ بھی ایک مشروع قربانی ہے البتہ واجب نہیں ۔ حدیث پاک میںقربانی کی طرح عقیقہ کے لیے بھی ’’نسک ‘‘اور ’’اہراق دم ‘‘کالفظ استعمال ہوا ہے ۔ سنن ابوداود (کتاب الضحایا ،باب فی العقیقہ )میں روایت ہے:’’من ولد لہ ولد فاحب ان ینسک عنہ فلینسک‘‘ ترجمہ: جس کابچہ پیداہواور وہ اس کی طرف سے جانور ذبح کرناچاہے توذبح کرلے۔اورصحیح بخاری کی روایت ہے :’’مع الغلام عقیقۃ فأھریقوا عنہ دما وامیطوا عنہ الأذی‘‘(بخاری رقم الحدیث:۵۴۷۱،عن سلمان بن عامر)
اس مشابہت سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کی صفات،عمر،مقدار،شرائط اوراحکام کے متعلق جوحکم قربانی کاہے وہی حکم عقیقہ کاہے۔اوربڑے جانور میں سات حصے ہوسکتے ہیں اس لیے ایک بڑے جانور میں عقیقہ کے حصے بھی ہوسکتے ہیں۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کے ہاں بچہ پیداہو تو وہ اس کی جانب سے اونٹ،گائے یابکری ذبح کرے۔(معجم صغیرطبرانی:۱؍۱۵۰)یہ روایت اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک صحیح السند موقوف روایت سے بھی ہوتی ہے۔حضرت قیادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کی طرف سے بڑا جانور ذبح کرتے تھے۔(معجم کبیرطبرانی:۱؍۱۸۷) البتہ گائے ،بھینس اوراونٹ کی بجائے بکری بکرابہتراورافضل ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقیقہ میں گائے اور اونٹ کافی نہیں ،اس لیے کہ عبدالرحمن بن ابوبکرکے یہاں بچہ پیداہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا:یاام المومنین عقی علیہ اوقال عنہ جزورا فقالت : معاذ اللہ ولکن ّ ما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شاتان مکافأتان۔(سنن بیہقی :۹؍۳۰۱)یعنی ام المومنین ہم اس کی طرف سے ایک اونٹ عقیقہ کریں۔اس پر انہوں نے کہا:معاذ اللہ (ہم وہ ذبح کریں گے ) جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے (لڑکے کی طرف سے ) ایک جیسی دوبکریاں۔مگریہ کم فہمی کانتیجہ ہے۔ اس میں معاذ اللہ کہنے سے مراد بڑے جانور کی نفی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ بکری ذبح کرنا افضل ہے۔ اس کی دلیل مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ: نذرت امرأۃ من آل عبدالرحمن بن أبی بکر ان ولدت امرأۃ ُ عبدالرحمن نحرناجزوراً فقالت عائشۃرضی اللہ عنھا لا بل السنۃ افضل عن الغلام شاتان مکافئتان وعن الجاریۃ شاہ۔(مستدرک حاکم رقم الحدیث:۷۶۶۹) ترجمہ: عبدالرحمن بن ابوبکر کے گھروالوں نے نذرمانی کہ اگربچہ پیدا ہواتو اس کے عقیقہ کے لیے ایک بڑا جانور ذبح کریں گے تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایاکہ نہیں سنت (پرعمل کرنا) افضل ہے اور یہ ہے کہ لڑکے کی طرف سے ایک جیسی دوبکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کی جاتی ہے۔
ان تمام تفصیلات سے معلوم ہواکہ عقیقہ بڑے جانور کاکرناجائز ہے اگرچہ افضل بکرایابکری کاعقیقہ کرناہے۔
کیاقربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے؟
اللہ کایہ نظام ہے کہ انسانوں یاجانوروں کوجس چیزکی ضرورت جتنی زیادہ ہوتی ہے ،اس کی پیداواراتنی بڑھادیتے ہیںاورجس چیزکی جتنی ضرورت کم ہوتی ہے تو اس کی پیداواربھی اتنی ہی کم ہوجاتی ہے۔آپ پوری دنیاکاسروے کریں اورجائزہ لیں کہ جن ممالک میں قربانی کے اس عظیم حکم پرعمل کیاجاتاہے ،کیاان ممالک میں قربانی والے جانورناپیدہوچکے ہیں ؟آپ کہیں سے بھی یہ نہیں سنیں گے کہ دنیاسے حلال جانور ختم ہوگئے ہیں یااتنے کم ہوگئے ہیں کہ لوگوں کوقربانی کرنے کے لیے جانورہی میسرنہیں آئے ،جب کہ اس کے برعکس کتے اور بلیوں کودیکھ لیں ،ان کی نسل ممالک میں کتنی ہے ؟ان کی تعدادبمقابل حلال جانوروں کے بہت کم نظرآتی ہے،حالاں کہ اسے کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ قرآن پاک کی آیت(وماانفقتم من شیء فھویخلفہ) کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:’’اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ تم جوچیز خرچ کرتے ہواللہ تعالی اپنے خزانہ غیب سے تمہیں اس کابدل دے دیتے ہیں؛کبھی دنیامیں کبھی آخرت میں اور کبھی دونوں میں،کائنات عالم کی تمام چیزوں میں اس کامشاہدہ ہوتا ہے کہ آسمان سے پانی نازل ہوتا ہے ،انسان اور جانوراس کوبے دھڑک خرچ کرتے ہیں، کھیتوں اور درختوں کوسیراب کرتے ہیں ،وہ پانی ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس کی جگہ اور نازل ہوجاتاہے،اسی طرح زمین سے کنواں کھود کرجوپانی نکالاجاتا ہے ،اس کو جتنانکال کرخرچ کرتے ہیں اس کی جگہ دوسرا پانی قدرت کی طرف سے جمع ہوجاتاہے۔انسان غذاکھاکر بظاہر ختم کرلیتا ہے ؛مگراللہ تعالی اس کی جگہ دوسری غذا مہیاکردیتے ہیں،بدن کی نقل وحرکت اور محنت سے جواجزا تحلیل ہوجاتے ہیں ،ان کی جگہ دوسرے اجزا بدل بن جاتے ہیں ۔غرض انسان دنیا میں جوخرچ کرتا ہے اللہ تعالی کی عام عادت یہ ہے کہ اس کے قائم مقام اس جیسی دوسری چیز دے دیتے ہیں،کبھی سزادینے کے لیے یاکسی دوسری تکوینی مصلحت سے اس کے خلاف ہوجانا اس ضابطہ الہیہ کے منافی نہیں ۔اس آیت کے اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے جواشیاء صرف انسان اور حیوانات کے لیے پیدافرمائی ہیں ،جب تک وہ خرچ ہوتی رہتی ہیں ،ان کابدل منجانب اللہ پیداہوتارہتا ہے ،جس چیزکاخرچ زیادہ ہوتا ہے اللہ تعالی اس کی پیداواربھی بڑھادیتے ہیں ۔جانوروں میں بکرے اور گائے کاسب سے زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ ان کو ذبح کرکے گوشت کھایاجاتا ہے اور شرعی قربانیوں اور کفارات وجنایات میں ان کو ذبح کیاجاتا ہے ،وہ جتنے زیادہ کام آتے ہیں ،اللہ تعالی اتنی ہی زیادہ اس کی پیداواربڑھادیتے ہیں،جس کاہرجگہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ بکروں کی تعداد ہروقت چھری کے نیچے رہنے کے باوجود دنیا میں زیادہ ہے ،کتے بلی کی تعداداتنی نہیں۔حالا ں کہ کتے بلی کی نسل بظاہر زیادہ ہونی چاہئے کہ وہ ایک ہی پیٹ سے چارپانچ بچے تک پیداکرتے ہیں ،گائے بکری زیادہ سے زیادہ دوبچے دیتی ہے۔گائے بکری ہروقت ذبح ہوتی ہے،کتے بلی کوکوئی ہاتھ نہیں لگاتا؛مگرپھربھی یہ مشاہدہ ناقابل انکارہے کہ دنیا میں گائے اور بکروں کی تعدادبہ نسب کتے بلی کے زیادہ ہے۔ جب سے ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگی ہے ،اس وقت سے یہاں گائے کی پیداوارگھٹ گئی ہے،ورنہ ہربستی اور ہرگھرگایوں سے بھراہوتاجوذبح نہ ہونے کے سبب بچی رہیں۔عرب سے جب سے سواری اور باربرداری میں اونٹوں سے کام لیناکم کردیا ،وہاں اونٹوں کی پیداواربھی گھٹ گئی ،اس سے اس ملحدانہ شبہ کاازالہ ہوگیا ،جواحکام قربانی کے مقابلہ میں اقتصادی اور معاشی تنگی کااندیشہ پیش کرکے کیاجاتاہے۔‘‘ (معارف القرآن:سورۃ السباء:۳۹،۳۰۳؍۷)
حضرت مولاناسرفرازخاں صفدرصاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’منکرین قربانی نے اپنی عقل نارسا سے کام لیتے ہوئے بزعم خود قربانی کے نقصانات اور ترک قربانی کے فوائد بیان کیے ہیں،مثلا یہ کہاہے کہ قربانی کی وجہ سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور لوگوںکی رقمیں بلاوجہ ضائع ہوتی ہیں ،اگریہ رقوم رفاہ عامہ کے کسی مفید کاموں میں صرف کی جائیں تو کیاہی اچھاہو،وغیرہ وغیرہ ،مگریہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی کے حکم کو محض ان طفل تسلیوں سے کیوں کرردکیاجاسکتا ہے ؟ کیااس کوقربانی کاحکم دیتے وقت یہ معلوم نہ تھا کہ قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے اور اس کے یہ نقصانات ہیں؟رب تعالی کے صریح احکام میں معاذ اللہ کیڑے نکالنا کون ساایمان ہے ؟اور پھر جناب خاتم الانبیاحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح قول وفعل اور امت مسلمہ کے عمل کو جوتواترسے ثابت ہوا ہے ،خلاف عقل یامضربتاناکون سادین ہے؟‘‘( مسئلہ قربانی مع رسالہ سیف یزدانی)
پوری دنیاخصوصامسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں؟
پوری دنیامیں خصوصا مسلم دنیامیں کتنی قربانیاں ہوتی ہیں ،آئیے! ایک رپورٹ کے مطابق اس کابھی جائزہ لیتے ہیں:
 مسلم دنیاکاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاملک انڈونیشیاہے ،اس کی ساڑھے ۲۵کروڑآبادی میں سے ۱کروڑ۸لاکھ ۴۰ ہزار لوگ ہرسال قربانی کرتے ہیں۔پاکستان کی تقریبا۲۰کروڑآبادی میں سے ہرسال ۱کروڑ۲۲لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔بنگلہ دیش کی آبادی ۱۵کروڑ۱۴لاکھ میں سے ۸۰لاکھ ۷۲ہزاربنگالی ہرسال قربانی کرتے ہیں۔مصرکی آبادی ۸کروڑ۵لاکھ۲۴ہزارآبادی میں سے ۶۲لاکھ ۲۳ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ترکی کی آبادی ۷کروڑ۴۶لاکھ میںسے ۴۸لاکھ ۲۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ایران کی آبادی ۷کروڑ۳۸لاکھ اور۲۱لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔مراکو۳کروڑ۲۳لاکھ آبادی اور۸لاکھ ۴۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔عراق ۳کروڑ۱۱لاکھ آبادی اور ۴لاکھ ۷۲ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔الجیریا۳کروڑ۴۸لاکھ آبادی اور۴لاکھ۲۱ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سوڈان ۳کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۵۴ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔سعودی عرب کی آبادی ۲کروڑ۵۴لاکھ ہے مگریہاں حج کی وجہ سے سب سے زیادہ قربانی ہوتی ہے،تقریباایک کروڑ۵۰لاکھ ۳۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں ،البتہ سال رواں کروناوباکی وجہ کر فریضہ حج کی ادائیگی کومحدودکردیاہے ۔افغانستان ۲کروڑ۹۰لاکھ آبادی اور ۲لاکھ ۱۰ہزار لوگ قربانی کرتے ہیں۔ازبکستان ۲کروڑ۶۸لاکھ آبادی اور ایک لاکھ ۶۰ ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔شام ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اورایک لاکھ لوگ قربانی کرتے ہیں۔کویت کی ۵لاکھ آبادی اور۹۸ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔ملائیشیاایک کروڑ۷۰لاکھ آبادی اور۹۵ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔تونیسیا ایک کروڑ۳۴لاکھ آبادی اور۸۷ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یمن ۲کروڑ۸لاکھ آبادی اور ۸۰ہزارلوگ قربانی کرتے ہیں۔یہ وہ بڑے بڑے مسلم ممالک ہیں جن میں قربانیوں کی تعداددوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہے تاہم دیگرمسلم ممالک جیسے فلسطین،لیبیا،اردن، جبوتی، موریطانیہ، گیمبا،تاجکستان، آذر بائجان،ترکمانستان،قارقستان،کرغستان،قطر،بحرین،عمان اور متحدہ عرب امارات جیسے درجنوں ممالک ہیں جن میں قربانی ہوتی ہے اسی طرح بھارت کے ۱۷کروڑمسلمانوں میں سے ایک کروڑسے زائدلوگ قربانی کرتے ہیں۔اب آپ درج بالاممالک میں قربانیوں کے اعدادوشمار کامجموعہ ملاحظہ کیجئے ۔یہ ۶کروڑ۲۰لاکھ ۹۳ہزار قربانی کرنے والے افرادبن جاتے ہیں ،اگراسدیگر تمام مسلم ممالک کے صرف ۵۰لاکھ اور بھارت کے مسلمانوں کو شامل کرلیاجائے تویہ مجموعہ ۷کروڑ۷۰لاکھ۹۳ہزار بن جاتا ہے۔ہم فرض کریں کہ یہ پونے ۸ کروڑ لوگ مل کر ۳کروڑجانورذبح کرتے ہیں ۔اس کے باوجود ہمیں کسی ملک سے یہ خبرنہیں ملتی کہ حلال جانورختم ہوگئے یالوگوں کو قربانی کے جانورہی میسرنہیں آئے۔
قربانی سے معیشت تباہ نہیں بلکہ مستحکم ہوتی ہے:
قربانی پرایک یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بقرعیدمیں کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں اس سے معیشت متاثر اور بربادہوتی ہے۔شریعت تومعیشت کو مضبوط کرتی ہے ،خراب نہیں کرتی ۔یہ کیساحکم شرعی ہے کہ جس سے معیشت خراب ہوتی ہے۔لہذاقربانی نہیں ہونی چاہئے۔توایسے افراد یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ایک دن میں لاکھوں کروڑوں جانور ذبح ہونے سے معیشت تباہ نہیں ہوتی بلکہ مستحکم ہوتی ہے۔ایک دن کونہ دیکھیں،ذرااس سے پیچھے جائیں ،پس منظراور احوال کودیکھیں،اندازاہوگا کہ صرف قربانی کی وجہ سے معیشت کتنی مستحکم ہوتی ہے۔٭ جانور پالنے ہوں گے۔بکرابکری ،بھیڑیادنبہ ہے تو ایک سال ،اونٹ ہے توپانچ سال اورگائے بھینس ہے تو دوسال، تومویشی پروری میں کتنے لوگ مصروف ہوں  گے۔٭چاراکاشت کرنایاخریدناہے توچارامنڈی میں آئے گا ،ٹرانسپورٹ استعمال ہوگا ،اس میں کتنے لوگ لگیں گے۔٭مویشی پروری کے لئے ملازم بھی رکھے جاسکتے ہیں ۔٭ بڑے جانور کی قربانی سے پہلے اس کادودھ بھی ہے اور پھراس کی مصنوعات گھی، مکھن وغیرہ ۔٭ قربانی کے موقع پر جانورکامنڈی آنایادیہات سے شہرآنا ،اس میں بھی ٹرانسپورٹ اور افراد کاکام ہوگا۔ ٭جانور بیچنے کے نتیجے میں کس قدر زرمبادلہ ہوگا۔٭قربانی کاگوشت بنانے پر قصائی کواجرت ملے گی اور آلات کی بھی خریدوفروخت ہوگی۔٭قربانی کی کھال غریبوں یامدارس کو دیں تو انہیں بھی فائدہ ہوگا۔٭جانورکی کھال سے چمڑے کی مصنوعات تیارہوں گی ،اس سے کارخانے اور فیکٹریاں چلیں گی اوربزنس کے لئے لوگ میدان میں آئیں گے۔خلاصہ یہ کہ قربانی معاشی تباہی کاذریعہ نہیں ہے۔
فلاحی کام یاصدقہ قربانی کابدل نہیں :
بعض لوگ جواحکام شریعت کی فقہی حیثیت سے واقف نہیں یہ کہتے نظرآتے ہیں کہ قربانی پرجووسائل خرچ ہوتے ہیں وہ کسی فلاحی کام، اسپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبود کیلئے خرچ کئے جائیں تومعاشرہ کے غریب ومفلس طبقے کابھلاہوجائے ۔اس وقت مسلم طبقہ کو فلا حی کاموں کی ضرورت ہے۔۔۔۔ ہمیں سمجھناچاہئے کہ یہ بات شریعت کی روح اور شارع کے فرمان کے خلاف ہے ۔حقیقی فلاح اللہ کاحکم پوراکرنے سے ملتی ہے ۔اوراللہ کے نزدیک ایام نحرمیں جانورکانذرانہ دینے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادائمی عمل ان دنوں میں قربانی کرنے کاہی رہا۔آپ مدینہ منورہ کے دس سالہ قیام کے دوران ہرسال قربانی کرتے رہے ۔آپ ؐ کے بعد خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کایہی عمل رہا اور پھرپوری امت اس پر تواترکے ساتھ عمل کرتی رہی ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بقرعیدکے موقع پر جانور کی قربانی ہی واجب ہے۔اگرقربانی کے مقابلے فلاحی کاموں ،ا سپتالوں کی تعمیراور انسانیت کی فلاح وبہبودپرخرچ موزوں اور ضروری ہوتا توعہدنبوی میں قربانی کے بجائے غریب ااور بدحال انسانیت پر خرچ کرنا ضروری قراردیاجاتاکیوں کہ عہدنبوی میں بھی غریب طبقے تھے اور امت پرآپ کی شفقت ومہربانی عیاں ہے؛ لیکن آپؐ نے تمام صورت حال کے باوجود اس موقع پر اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کاحکم دیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اس دن میں اللہ کے نزدیک قربانی کے جانور کاخون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کاکوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ (ترمذی ) اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کسی کام میں مال خرچ کیاجائے تو وہ بقرعید کے دن قربانی میں خرچ کیے جانے والے مال سے افضل نہیں ۔(سنن دارقطنی:کتاب الاشربہ،باب الصیدوالذبائح)امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں :قربانی کے ایام میں صدقہ کرنے کی بہ نسبت قربانی کرناافضل ہے۔امام ابوداود، امام ربیعہ وغیرہ کایہی مسلک ہے۔(المغنی لابن قدامہ:۹۶؍۱۱)امام نووی بھی فرماتے ہیں کہ ان دنوں میں قربانی کرناہی افضل ہے نہ کہ صدقہ کرنااس لیے کہ اس دن قربانی کرناشعاراسلام ہے ،یہی مسلک سلف صالحین کاہے۔نیزقربانی کی روح فلاحی کاموں اور صدقہ سے کیسے حاصل ہوگی کہ قربانی کی روح توجان دیناہے اور صدقہ کی روح مال دیناہے۔صدقہ کیلئے کوئی دن مقررنہیں اورقربانی کے لیے خاص دن مقررکیاگیاہے اور اس کانام بھی یوم االنحراور یوم الاضحی رکھاگیاہے۔
انہیں بنیادوں پر صاحب مرقاۃ المفاتیح لکھتے ہیں:’’بعض فقہاء کے نزدیک قربانی واجب ہے اور بعض کے نزدیک سنت موکدہ ؛لیکن بہرصورت اس دن قربانی کرنا یعنی خون بہانا متعین ہے ،اس عمل کو چھوڑکر جانورکی قیمت صدقہ کردینا کافی نہیں ہوگا،اس لیے کہ صدقہ کرنے میں شعائر اسلام میں سے ایک بہت بڑے شعار کاترک لازم آتا ہے ؛چنانچہ اہل ثروت پر قربانی کرناہی لازم ہے۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح:۵؍۷۳)
فلاحی کاموں کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے:
میری اس بحث کایہ مطلب ہرگزنہیں کہ فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے محتاجوں ،غریبوں اور ناداروں پرخرچ نہیں کرناچاہئے؛بلکہ ہمارامقصودبس اتناہے کہ ایام قربانی :۱۰ذوالحجہ سے لیکر۱۲ذوالحجہ کی شام تک جس شخص پر قربانی واجب ہے اس کے لیے قربانی چھوڑکر اس رقم کاصدقہ کرنا درست نہیں ہے۔ہاں جس شخص پر قربانی واجب نہیں ہے اس کے لیے ان دنوں میں یا صاحب نصاب کے لیے قربانی کے ساتھ ساتھ ان دنوں میں یاسال کے دیگرایام میں مالی صدقہ کرنا یقینا ایک مستحسن قدم اور بہت زیادہ ثواب کی چیز ہے کہ غریب ومسکین کی خبرگیری اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے ؛لیکن قربانی ترک کرکے محض صدقہ وخیرات کو اس کابدل سمجھنادرست نہیں ہے۔فلاحی کاموں ،اسپتالوں کی تعمیر، انسانیت کی فلاح وبہبود کی خاطر خرچ کرنے کے لیے اسلام نے زکوۃ،صدقہ فطر، عشر، کفارہ، نذر، میراث، ہدیے تحفے اور دیگر وجوبی صدقات وغیرہ کے نظام وضع کئے ہیں۔ان احکامات کو پوری طرح عملی جامہ پہناکرمطلوبہ نتائج اور مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ نہ یہ کہ اسلام کے عظیم الشان حکم قربانی کے حکم کو مسخ کرکے اس کی روح کوفناکردیاجائے۔ہوناتویہ چاہئے تھا کہ معاشرے میں مروج طرح طرح کی رسومات وخرافات میں ضائع ہونے والی اربوں کھربوں کی مالیت کو کنٹرول کیاجائے ،نہ کے ایک فریضہ عبادت میں خرچ کرنے والے لوگوں کوبھی بہکاکراس سے روک دیاجائے۔
صاحب استطاعت کے لیے ہرحال میں قربانی لازم ہے:
قربانی ایک اہم عبادت اور اسلامی شعائر میں سے ہے۔اس کاثبوت قرآن وحدیث میں ہے جوپہلے بیان کیاجاچکاہے۔جوشخص ا قربانی کی گنجائش رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے اس کے متعلق حدیث میںسخت وعید بھی وارد ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔(حاکم،الترغیب:۲۵۶)نیزارشادرسول ہے کہ قربانی کے ایام میں کوئی عمل اللہ تعالی کوخون بہانے(قربانی) سے زیادہ پسندنہیںہے(ابن ماجہ ،ترمذی) لہذاہرعاقل ،بالغ ،مقیم ،صاحب نصاب مسلمان مردو عورت پر ایام قربانی میں جانورذبح کرنا واجب ہے۔اس لئے جب تک مقررہ وقت کے اندر قربانی کرنے کی قدرت اورامکان باقی ہو کوئی دوسراعمل قربانی کے بدلہ کافی نہیں۔قربانی کے بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔ 
جن لوگوں پر قربانی واجب ہواوروہاں قربانی کرنے میںکوئی قانونی رکاوٹ نہیںہوتووہاں جانورکی قربانی کرناہی واجب ہے۔اگر اپنے مقام پر قربانی نہیں کرسکتا؛لیکن دیہات یاکسی اورمقام پرقربانی کرسکتاہوتوضروری ہے کہ وہاں قربانی کرلے ۔اوراگراپنے شہریاصوبہ میں قربانی کرنے میں دشواری ہوتودوسری جگہ پرمعتبرافرادیااداروں کے ذریعہ قربانی کی ادائیگی کی فکرلازم ہے۔اگربالفرض قربانی کے ایام گزرگئے اور قربانی کی کوئی صورت اصالۃ یاوکالۃ ممکن نہ ہوسکی تواب اگر پہلے سے جانورخریدرکھاہے تواب اس زندہ جانور کوصدقہ کردیناواجب ہے ۔اوراگرناواقفیت کی وجہ سے اسے ذبح کردیاتودوباتوں کاخیال رکھناچاہئے ،پہلایہ کہ اس کاگوشت اور چمڑا یعنی پوراسامان غریبوں پر صدقہ کردیاجائے ،نہ اس میں خود کھاناجائز ہے اور نہ مالدارلوگوں کو کھلاناجائز ہے۔دوسرے زندہ جانورکی قیمت کے مقابلہ اگر ذبح کئے ہوئے جانور کی قیمت کم ہوجاتی ہوتو اس کمی کے بقدر بھی صدقہ کرناضروری ہے ۔اگرجانور خریدا نہ ہو اور قربانی کے ایام گزرگئے تواب جانورکی قیمت صدقہ کرناواجب ہے۔اور اگرنفل قربانی کاارادہ ہویعنی قربانی واجب نہ ہواورقربانی کرناچاہتے ہوں یا دوسرے رشتہ داروں جیسے والدین اولاد وغیرہ کی طرف سے قربانی کرنے کااراد ہ رکھتے ہوں حالاں کہ ان پرقربانی واجب نہیں یاایصال ثوا ب کے لیے قربانی کررہے ہوں تویہ سب نفل قربانی کی صورتیں ہیں ،ان صورتوں میں اس بات کی گنجائش ہے کہ موجودہ حالات اور مہاماری کودیکھتے ہوئے قربانی کرنے کے بجائے قیمت صدقہ کردی جائے،جیساکہ امام ابوحنیفہ ؒ کے یہاں نفل حج کی جگہ اس کے اخراجات کو صدقہ کردینا نہ صرف جائز بلکہ ضرورت کے لحاظ سے بعض حالات میں مستحب بھی ہے اس لئے دونوں پہلووں کو پیش نظر رکھناچاہئے۔
کیاذبح حیوان خلاف عقل اور بے رحمی ہے؟
منکرین اور ملحدین کی طرف سے ایک یہ اعتراض بھی سامنے آتاہے کہ ذبح حیوان عقل کے خلاف ہے ۔یہ عمل مسلمانوں کی بے رحمی پر دلالت کرتاہے۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کوذبح کرنانہ عقل سلیم کے خلاف ہے اور نہ اس سے بے رحمی ثابت ہوتی ہے کیوں کہ جانوروں کاذبح کرناایک فطری ضرورت ہے ،انسانی غذاکے لحاظ سے بھی اور معاشی مفادات کے لحاظ سے بھی۔اس سے صرف نظرکرناقطعی انصاف پسندی نہیں ہے۔ 
 حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانویؒ اس اعتراض کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ رحم کسی مذہب میں نہیں ہے،اور ذبح حیوان رحم کے خلاف نہیں ؛بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہوکر مرنابہترہے؛کیوں کہ خودمرنے میں قتل وذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ رہایہ سوال کہ پھرانسان کو ذبح کردیاجایاکرے؛تاکہ آسانی سے مرجایاکرے۔اس کاجواب یہ ہے کہ حالت یاس سے پہلے ذبح کرناتودیدہ ودانستہ قتل کرناہے اور حالت یاس پتہ نہیں چل سکتی؛کیوں کہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہوگئے تھے ،پھراچھے ہوگئے اور شبہ حیوانات میں کیاجائے کہ ان کی تو یاس کابھی انتظار نہیں کیاجاتا ،جواب یہ ہے کہ بہائم اور انسان میں فرق ہے ، وہ یہ کہ انسان کا تو ابقا مقصود ہے ،کیوں کہ خلق عالم سے وہی مقصود ہے ،اس لئے ملائکہ کے موجودہوتے ہوئے اس کو پیداکیاگیا؛بلکہ تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد اس کو پیدا کیا گیا ؛کیوں کہ نتیجہ اور مقصود تمام مقدماتے کے بعد موجودہواکرتاہے ؛اس لیے انسانکے قتل اور ذبح کی اجازت نہیں دی گئی ،ورنہ بہت سے لوگ ایسی حالت میں ذبح کردیئے جائیں گے جس کے بعد ان کے تندرست ہونے کی امیدتھی اور ذبح کرنے والوں کے نزدیک وہ یاس کی حالت میں تھااور جانور کاابقاء مقصود نہیں ؛اس لئے اس کے ذبح کی اجازت اس بناپردے دی گئی کہ ذبح ہوجانے میں ان کو راحت ہے اور ذبح ہوجانے کے بعد ان کاگوشت وغیرہ بقائے انسانی میں مفید ہے جس کاابقاء مقصود ہے۔ اس کواگرذبح نہ کیاجائے اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیاجائے تووہ مردہ ہوکر اس کے گوشت میں سمیت کااثر پھیل جائے گا اور اس کااستعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہوگا توابقائے انسان کاوسیلہ نہ بنے گا۔(اشرف الجواب :انیسواں اعتراض اوراس کاجواب)
گوشت خوری کادستورانتہائی قدیم :
ملحدین اور مشرکین کے ذریعہ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتاہے ،اس سے تشدد اور ہنسا کامزاج بنتاہے۔ اس لئے اس پرروک لگنی چاہئے ۔مگریہ بات ہمارے دل دماغ میں ہونی چاہئے کہ انسان اس دنیا میں ضرورتوں اور حاجتوں کے ساتھ پیداکیاگیاہے۔اس کے وجود کاکوئی حصہ نہیں جواپنی حیات و بقا اور حفظ و صیانت میں احتیاج سے فارغ ہو ۔ہوا اور پانی کے بعد اس کی سب سے بڑی ضرورت خوراک ہے ۔اوریہی ضرورت ہے جس نے زندگی کومتحرک اور رواں دواں رکھا ہے ۔اورایک اہم انسانی غذا تسلیم کرتے ہوئے گوشت خوری کادستور انتہائی قدیم ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں گوشت خوری کی اجازت دی گئی ہے۔ہندستانی مذاہب میں بھی جین دھرم کے علاوہ سبھی مذاہب میں گوشت خوری کاجواز موجود ہے۔ غیرمسلموںکے بیچ آج کل گوشت خوری منع ہونے کی جوبات مشہور ہے وہ محض اپنے مذہب اور اپنی تاریخ سے ناواقفیت پرمبنی ہے۔ خود ویدوں میں جانوروں کے کھانے،پکانے اور قربانی کاتذکرہ موجودہے ۔رگ وید(:۷:۱۱:۱۷) میں ہے :’’اے اندرتمھارے لئے پسان اور وشنوایک سوبھینس پکائیں۔‘‘ یجروید (ادھیائے:۲۰:۸۷) میں گھوڑے،سانڈ،بیل، بانجھ گائے اور بھینس کودیوتاکی نذرکرنے کاذکرملتاہے۔ منوسمرتی(ادھیائے: ۳:۲۶۸) میں کہاگیاہے :’’مچھلی کے گوشت سے دوماہ تک،ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک اور پرند کے گوشت سے پانچ ماہ تک پتر آسودہ رہتے ہیں۔‘‘ خود گاندھی جی نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ایک زمانے تک ہندوسماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کاعمل عام تھا۔ ڈاکٹر تاراچندکے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے بھی ہوا کرتے تھے۔ 
افراط وتفریط کے شکارقانون فطرت کے باغی:
دنیا کے مذاہب اور قوموںمیں جانوروں کے بارے میں ایک خاص قسم کا افراط وتفریط ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوحیوان کے غذائی استعمال کو بے رحمی اورجیوہتیا تصورکرتے ہیں اور اس کو مطلق منع کرتے ہیں ۔دوسری طرف وہ لوگ ہیں جوہرجانورکوانسانی خوراک قرار دیتے ہیں ااور اس باب میں کوئی امتیاز روانہیں رکھتے۔ یہ دونوں ہی اعتدال سے دور اورقانون فطرت کے باغی ہیں۔ خدانے اس کائنات میں جونظام ربوبیت قائم کیا ہے وہ اس پر مبنی ہے کہ اعلی مخلوق اپنے سے کمتر مخلوق کے لئے سامان بقا ہے ۔غور کریں کہ درندے اپنے سے کمزور حیوان سے پیٹ بھرتے ہیں ،چوپائے نباتات کھاتے ہیں اوراسی پر ان کی حیات کادارومدارہے ،حالاں کہ نباتات میں بھی ایک نوغ کی حیات موجود ہے ۔بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کوغذابناتی ہے اور چھوٹی مچھلیاں آبی حشرات کو ۔زمین پر رہنے والے جانوروں کی خوراک زمین پر چلنے والے حشرات الارض ہیں ۔چھوٹے پرندے بڑے پرندوں کی خوراک ہیں اور کیڑے مکوڑے چھوٹے پرندوں کے ۔ خداکی کائنات پر جس قدر غورکیاجائے اس کے نظام و انتظام کی اساس یہی ہے جولوگ اس اصول کے بغیر دنیا میں زندہ رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے کم سے کم خدا کی اس بستی میں رہنے کاکوئی جواز نہیں کہ پانی کاکوئی قطرہ اور ہواکی کوئی سانس اس وقت تک حلق سے اترنہیں سکتی جب تک کہ سیکڑوں نادیدہ جراثیم اپنے لئے پیغام اجل نہ سن لے ۔
جیوہیتاکے وسیع تصورکے لحاظ سے نباتاتی غذاسے بھی بچناہوگاکیوں کہ آج کی سائنس نے اس بات کو ثابت کردیاہے کہ جس طرح حیوانات میں زندگی اور روح موجود ہے اسی طرح پودوں میں بھی زندگی پائی جاتی ہے اورنباتات بھی احساسات رکھتے ہیں۔ خود ہندونظریہ میں بھی پودوں میں زندگی مانی گئی ہے ۔سوامی دیانندجی نے ’’آواگمن‘‘ میں روح منتقل ہونے کے تین قالب قراردیئے ہیں:انسان۔حیوان اورنباتات۔یہ نباتات میں زندگی کاکھلا اقرارہے ۔تواگرجیوہتیاسے بچناہے تو نباتاتی غذا سے بھی بچناہوگا ۔
یہی بے اعتدالی اس سمت میں بھی ہے کہ ہرحیوان کو غذاکے لئے درست سمجھاجائے ۔یہ مسلمہ حقیقت میں سے ہے کہ انسان پر غذاکااثر ہوتا ہے ۔یہ اثر جسمانی و روحانی بھی ہوتا ہے اور اخلاقی بھی۔حیوانات میں شیروببردرندے ہیں ،سانپ اوربچھوکی کینہ پروری وریشہ زنی کی خومعروف ہے ،گدھے میں حمق ضرب المثل ہے ،خنزیرمیں جنسی بے اعتدالی وہوسناکی کااثر ان قوموں میں صاف ظاہر ہے جو اس کااستعمال کرتی ہیں ،کتے کی حرص اورقناعت سے محرومی نوک زباں ہے ،چھپکلی اور بعض حشرات الارض بیماریوں کا سرچشمہ ہیں ،بندرکی بے شرمی ،لومڑی کی چال بازی،گیدڑ کی بزدلی اظہارکامحتاج نہیں ۔مقام فکرہے کہ اگرانسان کو ان جانوروں کے خوراک بنانے کی اجازت دیدی جائے تو کیا یہی اوصاف اس کے وجود میں رچ بس نہ جائیں گے؟
اسی لئے اسلام نے ان دونوں کے درمیان اعتدال کی راہ نکالی ۔ایک طرف بہت سے جانوروں کو حلال قراردیا ۔دوسری طرف مردارکاگوشت حرام کیا جوانسان کی جسمانی وروحانی صحتوں کو بربادکرنے والاہے، ان جانوروں کو حرام قراردیاجن کے گوشت سے اخلاق انسانی مسموم ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید نے ایک قاعدہ مقررکر دیاکہ طیبات اور پاک مویشی حلال ہیں اور ناپاک اور بدخوجانور جن کو قرآن کی زبان میں خبائث کہاگیا ہے حرام ہیں (الاعراف:۱۵۷) لیکن اس فیصلہ کو ہرانسان کے ذوق و مزاج پر منحصرکردیاجانا نہ ممکن تھا اور نہ مناسب۔چنانچہ شریعت نے اس کی جزوی تفصیلات بھی متعین کردی کہ کن کاشمارطیبات میں ہے اور کن کاخبائث میں ۔ پھر جن جانوروں کو حلال کیا ان کاگوشت کھانے میں بھی ایساپاکیزہ طریقہ ذبح بتایا جس سے ناپاک خون زیادہ سے زیادہ نکل جائے اور جانور کو تکلیف کم سے کم ہو۔طبی اصول پرانسانی صحت اورغذائی اعتدال میں اس سے بہترکوئی طریقہ ذبح نہیں ہوسکتا۔ بہرحال جانورکاگوشت کھانے میں انسان کو آزاد نہیں چھوڑا کہ جس طرح درختوں کے پھل اور ترکاریاں وغیرہ کو جیسے چاہیں کاٹین اور کھالیں اسی طرح جانورکوجس طرح چاہیں کھاجائیں۔(حلال وحرام ،جواہرالفقہ)
حیوان حلال ہونے کی حکمت اورارکان وشرائط:
حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ البالغہ اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے حجۃ الاسلام میں اسلامی ذبیحہ کی حکمت اور اس کے آداب وشرائط پر بصیرت افروز تحقیقات فرمائی ہیں یہاں ان کو پورانقل کرنے کا موقع نہیں ،ان میں سے ایک بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے کہ جانوروں کامعاملہ عام نباتاتی مخلوق جیسانہیں ۔کیوں کہ ان میںانسان کی ہی طرح روح ہے ،انسان کی طرح دیکھنے ،سننے ،سونگھنے اورچلنے پھرنے کے آلات واعضا ہیں ،انسان کی طرح ان میں احساس وارادہ اور ایک حدتک ادراک بھی موجودہے۔ اس کاسرسری تقاضایہ تھا کہ جانورکاکھانامطلقا حلال نہ ہوتا ،لیکن حکمت الہی کاتقاضاتھا کہ اس نے انسان کو مخدوم کائنات بنایا،جانوروں سے خدمت لینا، ان کا دودھ پینااوربوقت ضرورت ذبح کرکے ان کا گوشت کھالینا بھی انسان کے لئے حلال کردیامگرساتھ ہی اس کے حلال ہونے کے لئے چندارکان اور شرائط بتائے جن کے بغیر جانور حلال نہیں ہوتا۔پہلی شرط یہ ہے کہ ہرذبح کے وقت اللہ کے اس انعام کاشکر ادا کیا جائے کہ روح حیوانی میں مساوات کے باوجود اس نے کچھ جانوروں کو حلال کیا اور اس شکرکا طریقہ قرآن وسنت نے بتایاکہ ذبح کے وقت اللہ کانام لیں ۔اگراللہ کانام قصدا چھوڑدیاتو وہ حلال نہیں ،مردارہے۔دوسری شرط جانور کو شریعت کے پاکیزہ طریقہ سے ذبح کرنا یعنی شرعی طریقہ پر حلقوم اور سانس کی نالی اور خون کی رگیں کاٹ دینا ۔تیسری شرط ذابح کامسلمان ہونا یاصحیح اہل کتاب ہوناہے۔ اسلام سے قبل جانوروں کا گوشت کھانے کے عجیب عجیب طریقے بغیرکسی پابندی کے رائج تھے۔ مردار کاگوشت کھایاجاتاتھا ۔زندہ جانورکے کچھ اعضا کاٹ کر کھالئے جاتے تھے ۔جانورکی جان لینے کے لئے بھی انتہائی بے رحمانہ سلوک کیاجاتاتھا،کہیں لاٹھیوں سے مارکرکہیں تیروں کی بوچھارکرکے جانور کی جان لی جاتی تھی۔
ذبح کرنے والے کاحکم:
ذبح کرنے والے کے لیے مسلمان یاصحیح اہل کتاب ہوناضروری ہے۔سورہ مائدہ میں ارشادباری تعالی ہے:’’الیوم احل لکم الطیبات وطعام الذین اوتواالکتاب حل لکم وطعامکم حل لھم۔‘‘ علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں:’’مسلمان اور کتابی کاذبیحہ حلال ہے کیوں کہ اللہ تعالی کافرمان ہے:’’اورجن لوگوں کو (تم سے پہلے )کتاب دی گئی تھی ،ان کاکھانابھی تمہارے لیے حلال ہے ‘‘یہاں کھانے سے مراد اہل کتاب کاذبیحہ ہے۔(البحرالرائق:۸؍۳۰۶)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی’’ طعام ‘‘کی تفسیر’’ذبیحہ‘‘ منقول ہے۔(صحیح بخاری :باب ذبائح اہل الکتاب)
آج کل یورپ کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اپنی مردم شماری کے اعتبارسے یہودی یانصرانی کہلاتے ہیں مگردرحقیقت وہ خداکے وجودکے منکرہوتے ہیں،کسی مذہب کے قائل نہیں ہوتے،نہ توریت، نہ انجیل کو خداکی کتاب مانتے ہیں اور نہ حضرت موسی اور حضرت عیسی کواللہ کانبی اور پیغمبرتسلیم کرتے ہیں۔(معارف القرآن :۳؍۴۸)مفسرقرآن مولانامحمدادریس کاندھلوی ؒ فرماتے ہیں:’’ اہل کتاب سے وہ لوگ مراد ہیں جومذہبا اہل کتاب ہوںنہ کہ وہ جو صرف قومیت کے لحاظ سے یہودی یانصرانی ہوں خواہ عقیدۃً وہ دہریے ہوں۔ اس زمانے کے نصاریٰ عموما برائے نام نصاریٰ ہیں ،ان میں بکثرت ایسے ہیںجونہ خداکے قائل ہیں اور نہ مذہب کے قائل ہیں،ایسے لوگوں پر اہل کتاب کااطلاق نہیں ہوگا۔( معارف القرآن :۲؍۴۴۶) مندرجہ بالا حوالوں سے ثابت ہواکہ اہل کتاب وہ کہلاتے ہیں جواللہ تعالی، کسی پیغمبراور کسی آسمانی کتاب کے قائل ہوں اور آج کل جویہود ونصاری کہلاتے ہیں وہ اکثردہریے ہیں۔اب بھی اگرکوئی ایساشخص ہو جوکسی پیغمبرپرایمان رکھتاہو اور کسی آسمانی کتاب پر اعتقاد رکھتاہو توآج بھی وہ اہل کتاب شمارہوگا۔مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ لکھتے ہیں: ’’ موجودہ زمانے کے یہودونصاری جوحضرت موسی علیہ السلام یاحضرت عیسی علیہ السلام کوپیغمبر اور تورات یاانجیل کو آسمانی کتاب مانتے ہوں ‘اہل کتاب ہیںخواہ تثلیث کے قائل ہوں۔‘‘ (کفایت المفتی :۱؍۷۰)
ان سب دلائل سے ہٹ کر غیرمقلدین کہتے ہیں کہ مسلمان اور اہل کتاب کے علاوہ کوئی اور کافر بھی ذبح کرے تو جائز ہے۔علامہ وحید الزماں غیرمقلد لکھتے ہیں:وذبیحۃ الکافر حلال اذا ذبح للہ وذکراسم اللہ عند الذبح ۔ترجمہ: کافرکاذبیحہ حلال ہے اگروہ اللہ کے لیے ذبح کرے اور ذبح کے وقت اللہ کانام لے۔(کنزالحقائق:۱۸۲)اسی طرح نواب نورالحسن خان غیرمقلد کی تحریرہے:’’ ذبائح اہل کتاب ودیگر کفار نزد وجود ذبح بسملہ یا نزد اکل آں حلال است ،حرام ونجس نیست‘‘یعنی اہل کتاب اور دیگر کفار ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھ لیں یااس مذبوحہ کوکھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لیاجائے تووہ حلال ہے ،حرام اور نجس نہیں ۔(عرف الجادی:ص ۱۰)
تشدداور ہنساکاتعلق محض غذاؤں سے سمجھنابیوقوفی:
رہایہ اعتراض کہ گوشت خوری انسان پرمنفی اثرڈالتا ہے ،اس سے تشدداور ہنساکامزاج بنتاہے ۔تودنیاکی تاریخ اور خودہمارے ملک کاموجودہ ماحول اس کی تردید کرتا ہے ۔آج بھارت میں جہاںکہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ات ہورہے ہیں اور ظلم وستم کاننگاناچ ہورہاہے ،یہ سب کچھ ان لوگوں کے ہاتھوں اور اشاروں سے ہورہاہے جوسبزی خور ہیں اور گوشت خوری کے مخالف ہیں ۔دنیاکے رہنماوں سسمیں گوتم بدھ اور حضرت مسیح کوعدم تشدداور رحم دلی کاسب سے بڑاداعی اور نقیب تصورکیاجاتاہے لیکن کیایہ ہستیاں گوشت نہیں کھاتی تھیں ،یہ سبھی گوشت خورتھے۔اور ہٹلرسے بھی بڑھ کر کوئی تشدد ،ظلم اور بے رحمی کا نقیب ہوگا لیکن ہٹلر گوشت خورنہیں تھا صرف سبزی کواپنی غذابناتاتھا۔ اس لئے یہ سمجھناکہ ہنسا اور اہنسا کاتعلق محض غذاوں سے ہے بے وقوفی اور جہالت ہی کہی جاسکتی ہے ۔جب تک دلوں کی دنیا تبدیل نہ ہو اور آخرت میں جواب دہی کااحساس نہ ہو تو محض غذائیں انسانی مذاق و مزاج کو تبدیل نہیںکرسکتی۔ بعض فتنہ پردازوں کاکہناہے کہ گاوکشی وغیرہ کی ممانعت ہم مذہبی نقطہ نظرسے نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت ہے ۔جانور اگر ذبح نہ کئے جائیں تو ہمیں دودھ اور گھی سستے داموں میں فراہم ہوں گے مگریہ ایک واہمہ ہی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن ملکوں میں بھارت سے زیادہ جانور ذبح ہوتے ہیں اور جہاں جانوروں کے ذبح پر کسی طرح کی پابندی نہیں وہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں دودھ اور گھی سستے بھی ہیں اور فراوانی بھی ہے۔اس کی مثال امریکہ اور یورپ ہیں ۔ہمارے ملک میں گوشت خوری کم ہونے کے باوجود مذکورہ اشیاء مہنگے ہیں ۔نیزقابل غورپہلویہ بھی ہے کہ جانورایک عمرکوپہنچ کر ناکارہ ہوجاتے ہیں ،اگرانہیں غذابنانے کی اجازت نہ دی جائے تو مویشی پرورکسانوں کے لئے ایسے جانورباربن جائیں گے اورغریب کسان جوخود آسودہ نہیں وہ کیوں کر اس بوجھ کو برداشت کرپائیں گے۔۲۰۱۴ء سے مرکزمیں بھاجپا کی حکومت ہے ۔اس نے گاوکشی قانون کوسختی سے نافذ کرنے کی ٹھانی ہے۔اس کاحشر کیاہے ہم اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے ہیں۔ سرکاری گاوشالوں میں ایسے سیکڑوں ہزاروں مویشی چارہ نہ ملنے کی وجہ کربھوک سے تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے ،ہورہے ہیں ، جوبہرحال گھاٹے کاسودہ ہے۔
گوشت کے فوائد ونقصانات:
گوشت انسانی خوراک کاایک اہم جزوہے ۔ اس سے انسانی صحت پرکئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔گوشت سے جسم کو پروٹین، لحمیات ،آئرن ،وٹامن بی وغیرہ حاصل ہوتی ہیںجوایک صحت مندجسم کے لئے ضروری ہیں تاہم گوشت کی حدسے زیادہ مقدارکااستعمال کسی بھی انسان کے لئے سودمندکے بجائے مصیبت بن جاتاہے ۔کیوں کہ ہرقسم کی غذاکے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں اس لئے عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھاناچاہئے اور ایک مخصو ص حدسے زیادہ استعمال نہیں کرناچاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق بالغ افراد کویومیہ 70گرام جب کہ ہفتے میں 500گرام یعنی سات دنوں میں صرف نصف کیلو گوشت کھانا چاہئے جسے  برطانیہ کے صحت کے حوالے سے قائم کردہ سائنٹفک ایڈوائزری کمیشن نے اپنے شہریوں کے لئے تجویز کیا۔
امریکہ کی یونیورسیٹی البامامیں امریکی تحقیقی ماہرین نے گوشت خوری اور سبزی خوری کے فوائد اور نقصانات پر تحقیقی مطالعہ کیا،جس میں لوگوں کی غذائی عادتوں کی نگرانی اور ان کے صحت پرپڑنے والے اثرات کامعائنہ کیا۔ ماہرین نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار لوگوں کاڈیٹاجمع کیا۔ اس کی روشنی میں رپورٹ مرتب کی اور بتایاکہ صرف سبزی خوری کے بہت زیادہ نقصان ہیں ۔سبزی کامستقل استعمال انسان کوڈپریشن بنادیتاہے جس کی وجہ سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جو خوراک میں گوشت استعمال کرتے ہیں ،ان کی ذہنی صحت بہتررہتی ہے اور وہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایڈورڈآرجرکاکہناہے:ہم لوگوں کو نصیحت کریں گے کہ اگرآپ ڈپریشن ،ذہنی خلفشار اور خودکونقصان پہنچانے کے خطرناک رویے سے بچناچاہتے ہیں تو خوراک میں سبزی کے ساتھ گوشت کابھی استعمال کریں۔(نوائے وقت پورٹل یکم مئی۲۰ء)
گوشت بھی اپنی اقسام کے اعتبار سے لذت اور تاثیر میں مختلف ہوتاہے۔مچھلی اور مرغی کے گوشت سے انسانی جسم کو پروٹین وغیرہ حاصل ہوتی ہے اس میں کلوریزاور چکنائی کی مقدار بھی نسبتاکم ہوتی ہے۔مٹن میں چکنائی کی مقدار چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ۔بیف میں چکنائی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے البتہ اس سے دوسری غذائی ضروریات مثلا پروٹین، زنک، فاسفورس، آئرن اور وٹامن بی وغیرہ پوری ہوتی ہے۔ ایک ماہر ڈاکٹر کاکہناہے کہ ایک نارمل انسانی جسم کومتوازن غذا کی ضرورت ہوتی ہے جس میں لحمیات پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیںجوگوشت اوردیگرچیزوں سے حاصل ہوتی ہیں،تاہم ضروری ہے کہ ہرچیزکواعتدال میں اور ایک مخصوص حد تک استعمال کیاجائے تاکہ بے احتیاطی اور بدپرہیزی کی وجہ سے لوگوں کو صحت کے حوالے سے مختلف مسائل کاسامنانہ کرناپڑے۔
مذکورہ تحقیقات کی روشنی میں یہ بات ظاہرہوگئی کہ انسان کے لئے اللہ تعالی کی پیداکی گئی مختلف تاثیروالی بے شمار غذاؤں میں عمدہ غذاگوشت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کودنیاو آخرت کی عمدہ غذا فرمایاہے۔ سورہ ذاریات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کااپنے مہمانوں کی فربہ بچھڑا کوبنابھون کرضیافت کرنے کا تذکرہ ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اہل ایمان گوشت کو مرغوب رکھتے ہیں ۔ آج بھی عرب میں خاص طورپر اناج سے زیادہ گوشت بطورغذا استعمال ہوتاہے۔ اورمہمانوں کی آمدپر اکثراہل عرب آج بھی پورادنبہ یابکرا تیارکرکے ضیافت کے لئے پیش کرتے ہیں۔ الحاصل گوشت انسانی غذاکااہم حصہ ہے ۔گوشت خوری کی مخالفت فرقہ پرست طاقتیں جتنی بھی کریں اس کی افادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتااور اس غذائی ضرورت سے انسان دست بردارنہیں ہوسکتا۔ذبح حیوان اور گوشت خوری پرپابندی کافتنہ کھڑا کرنے والے افراد قدرتی نظام کے باغی اور انسان کے فطری ضرورت کی تکمیل کے مخالف ہیں ۔
حلال جانور کی سات چیزیں کھاناحرام ہیں:
حلال جانور کی سات چیزیں حرام ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :’’ کرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الشاۃ سبعا:المرارۃ و المثانۃ و الغدۃ و الحیا و الذکر والانثیین و الدم ، و کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحب من الشاۃ مقدمھا۔‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری میں سات چیزوں کو ناپسند کیا ہے : (۱) پتا (۲) مثانہ یعنی پیشاب کی تھیلی (۳) غدود (۴) حیا یعنی مادہ کی شرمگاہ (۵) ذکر یعنی نرکی شرمگاہ (۶) خصیتین یعنی کپورے (۷) خون ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بکری کے سامنے کاحصہ پسند تھا۔( کتاب الآثار:۱۷۹، سنن بیہقی :۱۰؍۷، معجم اوسط لطبرانی:۹؍۱۸۱، مصنف عبدالرزاق :۴؍۴۰۹) اس حدیث سے ائمہ کرام نے استدلال کرتے ہوئے تمام حلا ل جانورکی مذکورہ سات چیزوں کایہی حکم بیان کیا ہے ۔علامہ شامی فرماتے ہیں:’’ بکری کاذکر اتفاقی ہے ،اس لیے کہ دوسرے حلال جانوروں کاحکم اس سے مختلف نہیں ہے۔‘‘(رد المحتار :۶؍۷۴۹)مچھلی کی ان سات چیزوں کے بارے میں قدیم فقہاء کی کوئی تصریح نہیں ملتی  البتہ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمن صاحب رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ: ’’ جواجزاء دموی حیوان میں حرام ومکروہ ہیں وہ سمک (مچھلی ) میں بھی حرام ومکروہ ہیں یا نہیں ؟ پس جب کہ میتۃ ہونا مچھلی کا حرمت وکراہت کاسبب نہیں ہے تو یہ مقتضی اس کو ہے کہ اس کے اجزاء مثانہ وغیرہ حرام ونجس نہیں ہیں۔‘‘( عزیزالفتاوی: ۷۵۹) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اجزاء صرف دموی حیوانات کے حرام ہیں اور غیردموی جیسے مچھلی کے یہ اجزاء حرام نہیں ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ حدیث میں مذکورہ دم سے مراد جمہورعلماء کے نزدیک دم مسفوح یعنی بہنے والا خون ہے اور اس کی حرمت خود قرآن میں بھی صراحتا موجود ہے۔نہ بہنے والا خون حرام نہیں بلکہ جائز اور حلال ہے ۔کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’احلت لنا میتتان و دمان ، فاما المیتتان فالحوت و الجراد ، واما الدمان فالکبد والطحال ۔‘‘ ترجمہ: ہمارے لیے دو مردار اور دو خون کو حلال کیا گیا ہے ، دو مردار تووہ مچھلی اورٹڈی ہیں اوردو خون تو وہ جگر اور تلی ہیں۔ (ابن ماجہ :۲۳۱۴،مسنداحمد:۵۴۲۳، بیہقی:۱؍۲۵۴،الشافعی:۱؍۳۴۰،دارقطنی:۴؍۲۷۱) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نہ بہنے والا جماہوا خون جیسے تلی اورجگرجائز ہے ۔یہ بات ذہن نشیں رہے کہ حدیث میں مذکورلفظ ’’مکروہ‘‘ اپنے عام معنی میں مستعمل ہے جس میں حرام وناجائز بھی داخل ہے ۔اس کاثبو ت یہ ہے کہ خود حدیث میں خون کو مکروہ بتایا ہے جس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے ،لہذا یہاں مکروہ کے عام معنی مراد ہیں جس میں حرام بھی داخل ہے۔ فقہی اصطلاح کے مطابق ان چیزوں میں سے جن کاحرام ہونا قرآن وحدیث کی نص قطعی سے ثابت ہو ان کو حرام اور جن کی حرمت نص ظنی سے ثابت ہو ان کو مکروہ کہاجائے گا ۔اس اصول پر خون تو حرام ہوگا اور باقی چھ چیزیں مکروہ کہلائیں گی۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہیں:’’امام ابوحنیفہ ؒ نے فرمایاکہ خون حرام ہے اور باقی چھ اجزا ء کومیں مکروہ قراردیتا ہوں۔‘‘(ردالمحتار:۶؍۷۴۹)اور اس مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی ؒ نے (بدائع الصنائع:۵؍۶۱)نے لکھا ہے اور صاحب درمختار علامہ حصکفی ؒ نے اسی کوترجیح دی ہے:’’ کرہ تحریما و قیل تنزیھا ، فالأول اوجہ۔‘‘( الدرعلی الرد:۶؍۷۴۹)
یہاں یہ بھی واضح کردیناضروری ہے کہ علماء نے حرام اور مکروہ کی اصطلاح اس لیے نہیں بنائی ہے کہ حرام سے اجتناب ہواور مکروہ سے اجتناب کی ضرورت نہیں ؛بلکہ ان اصطلاحات کومقررکرنے کی وجہ یہ ہے کہ دلائل شرعیہ بعض قطعی ہیں اور بعض غیرقطعی تو جوممنوعات دلائل غیرقطعیہ سے ثابت ہوئے ان کو احتیاط کے طورپر مکروہ کہاگیا ورنہ بچنے کے حکم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں ،اس لیے دونوں سے بچنا چاہئے ۔ علامہ ابن قیم درست فرمایاکہ ؛’’ حرام چیز پر مکروہ بولنے سے بعد میں آنے والے بہت سے لوگ غلطی میں پڑگئے، ائمہ نے تو احتیاط کرتے ہوئے حرام کے بجائے لفظ مکروہ استعمال فرمایا ،پھربعد والوں نے ان چیزوں سے حرمت ہی کی نفی کردی ،جن پرائمہ نے مکروہ کالفظ استعمال فرمایاتھا،پھران پر یہ لفظ بہت آسان ہوگیا۔(اعلام الموقعین:۱؍۳۹) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکروہ کالفظ فقہاء وائمہ نے صرف احتیاط کے طورپر استعمال فرمایاتھا ورنہ گناہ ہونے میں وہ حرام کی طرح ہے ،اس لیے امام محمد ؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور دیگر علماء کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔الدرالمختاراور البحرالرائق میں ہے کہ :’’ کل مکروہ حرام عند محمد وعندھما الی الحرام أقرب۔‘‘ترجمہ: امام محمدؒ کے نزدیک ہرمکروہ حرام ہے اور امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒ کے نزدیک حرام کے قریب ہے۔(الدرمع الرد:۶؍۳۳۷،البحر:۸؍۱۸۰)حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ سے پوچھاگیا کہ مکروہ تنزیہی سے گناہ ہوتا ہے یانہیں؟ توآپ نے فرمایاکہ مکروہ تنزیہی سے بھی گناہ ہوتاہے۔(کفایت المفتی:۹؍۱۳۱) اس سے واضح ہوگیاکہ مکروہ کاارتکاب بھی ناجائز ہے اور اس سے بھی گناہ ہوتا ہے لہذامذکورہ اشیاء سے بھی بچنا چاہئے۔ تفصیل سے یہ بھی واضح ہواکہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے چنانچہ علامہ ابن نجیم نے بحرالرائق میں فرمایا:’’ ویصح اطلاق اسم الحرام علیہ‘‘ کہ مکروہ تحریمی پرحرام کااطلاق کرناصحیح ہے۔علامہ حصکفی نے فرمایا:وافاد فی البحرصحۃ اطلاق الحرمۃ علی المکروہ تحریما‘‘ترجمہ: بحرالرائق میں اس بات کا افادہ کیا ہے کہ مکروہ تحریمی کوحرام کہناصحیح ہے۔(الدرالمختار:۲؍۱۶۱)اسی طرح تحفۃ الملوک میں ہے کہ:’’ کتاب الکراہیہ میں جوبھی مکروہ کہاجائے وہ امام محمد ؒ کے نزدیک حرام ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ کے نزدیک وہ حرام کے قریب ہے ،لہذا ہم نے اکثر مکروہ کو حرام سے تعبیر کیاہے۔‘‘ تحفۃ الملوک :۱؍۲۲۳)اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فقہاء کے یہاں اکثر جگہوں پر مکروہ کوحرام سے بھی تعبیر کردیاجاتا ہے ۔ اسی لیے علامہ کاسانی اور علامہ شامی وغیرہ نے ان سات چیزوں کو حرام سے تعبیر کیا ہے ۔بہرحال ان چیزوں سے پرہیز حرام کی طرح کرناچاہئے ،مکروہ کہہ کر ان کو معمولی نہ سمجھناچاہئے۔
حرام مغزکاحکم:
حلال جانور کی سات چیزیں علمائے احناف کے یہاں بالاتفاق ناجائز ہیں ۔ان کے علاوہ بعض علماء نے حرام مغز کو بھی حرام کہا ہے ،چنانچہ علامہ نسفیؒ کی ہندوستان میں مطبوعہ کنزالدقائق میں’’نخاع الصلب‘‘ (حرام مغز)کوبھی مکروہات میں شمارکیا ہے  اورعلامہ طحطاوی نے حاشیہ درمختار میں اس کو مکروہ بتایاہے(طحطاوی علی الدر:۵؍۳۶)حضرت مولانارشیداحمدگنگوہی ؒ نے اپنے فتاوی میں اس کو حرام لکھاہے (فتاوی رشیدیہ:۲؍۶۷) نیزحضرت مولانامفتی شفیع صاحب ؒ نے بھی آخرمیں اس کے حرام ہونے کافتوی دیا ہے اور اس کی وجہ بقول حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ کے یہ ہے کہ ’’ اللہ تعالی کا قول ہے :’’ ویحرم علیھم الخبائث ‘‘ترجمہ: وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خبیث چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ضب کی حرمت میں حنفیہ نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حرام مغز ایک ایسی چیز ہے کہ طبیعت سلیمہ کو اس سے نفرت واستقذار لازم ہے۔(حاشیہ امدادالمفتین :۹۷۱ط:کراچی)(ماخوذاز: مکروہ اجزاء )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین یامرحومین کی طرف سے قربانی:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم ،سلف صالحین ؒیامرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست اور باعث اجروثواب ہے ،بلکہ کسی بھی نیک عمل کااجر تمام امت محمدیہ کوپہنچانادرست ہے۔خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی طرف سے قربانی کے علاوہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کی تھی۔اس قربانی میں زندہ یامردہ کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔’’عن عائشۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امربکبشین اقرن یطأ فی سواد ویبرک فی سواد وینظرفی سواد،فاتی بہ لیضحی بہ ،قال:یاعائشۃھلمی المدیۃ ثم قال :اشحذ یھا بحجر،ففعلت،ثم اخذھا واخذ الکبش فأضجعہ ،ثم ذبحہ ،ثم قال: بسم اللہ اللھم تقبل من محمدوآل محمدومن امۃ محمد،ثم ضحی بہ ۔رواہ مسلم (مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الاول ،ص:۱۲۷)ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے مینڈھے کے متعلق قربانی کاحکم فرمایاجس کے کھر،گھٹنے اور آنکھوں کے حلقے سیاہ تھے۔چنانچہ جب وہ آپ کے پاس قربانی کے لیے لایاگیا توآپ نے فرمایا:اے عائشہ ! چھری لے آو ٔ ،پھرفرمایا:اسے پتھرپرتیزکرلو،چنانچہ میں (حضرت عائشہؓ)نے چھری تیز کرلی،پھرآپ نے چھری لی اور مینڈھے کوپکڑا اوراسے پہلوکے بل لٹاکر یہ فرماتے ہوئے ذبح کیا:اللہ کے نام سے (ذبح کررہاہوں) ،اے اللہ اسے محمداورآل محمداورامت محمدکی طرف سے قبول فرمالیجئے۔‘‘اس کے علاوہ حضرت ابوہریرہؓ، حضرت جابرؓ، حضرت ابورافع ؓ، حضرت ابوطلحہ انصاریؓ اور حضرت ابوحذیفہ ؓ کی بھی متفقہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومینڈھے قربان کیے۔ایک اپنی طرف سے اور دوسراامت کی طرف سے ۔(متفق علیہ)
دامادِرسول حضرت علی کرم اللہ وجہہ دوقربانیاں کیاکرتے تھے۔ایک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اور ایک اپنی طرف سے۔جب ان سے سوال کیاگیا توانہوں نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کاحکم دیاہے ،میں اس کوکبھی نہیں چھوڑوں گا۔(مشکوۃ المصابیح باب فی الاضحیۃ ‘الفصل الثانی ص:۱۲۸،ترمذی حدیث :۱۴۹۵،ابوداودحدیث :۲۷۶۹،مسنداحمد:۲؍۱۸۲،۳۱۶۔صحیح حاکم) معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ قربانی اتنی پسندتھی کہ آپ ؐ نے حضرت علی کو ایساکرنے کی وصیت بھی کی اور حضرت علی ہرسال بلاناغہ دوقربانیاں کرتے رہے۔
اس باب کی تمام حدیثیں اس مسئلے میں صریح ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سلف صالحین اور مرحوم رشتہ داروں کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے ۔ امام ابوداودوغیرہ نے میت کی طرف سے قربانی کیے جانے کاباضابطہ باب قائم کیا ہے اور انہیں احادیث سے استدلال کیاہے۔ علمائے احناف ، مالکیہ اور امام احمدبن حنبل کایہی مسلک ہے اور یہی قول زیادہ مستندوقوی ہے ؛کیوں کہ میت کی جانب سے قربانی کرناایک صدقہ ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، عمرہ ،صدقہ اور خیرات جیسی عبادتیں کی جاسکتی ہیں توقربانی کیوں نہیں؟ قرآن وحدیث میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس کی بناپر کہاجائے کہ دیگراعمال تومیت کی طرف سے کیے جاسکتے ہیں لیکن میت کی جانب سے قربانی نہیں کی جاسکتی۔علامہ شامی لکھتے ہیں:’’قال فی البدائع :لأن الموت لایمنع التقرب عن المیت، بدلیل انہ یجوز ان یتصدق عنہ ویحج عنہ، وقد صح ’’ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضحی بکبشین احدھماعن نفسہ والاٰخر عمن لم یذبح من امتہ ‘‘وان کان منھم من قد مات قبل ان یذبح،(ردالمحتار:۶؍۳۲۶) فدل ان المیت یجوزان یتقرب عنہ فاذاذبح عنہ صارنصیبہ للقربۃ فلایمنع جوازالباقین(بدائع:۴؍۲۱۰)
دلائل کی روشنی میں اصل یہی ہے کہ کسی بھی عبادت کاثواب کسی دوسرے کوپہونچایاجاسکتاہے، اگرچہ بوقت عمل نیت اپنے لیے ہو۔عبادت خواہ نماز، روزہ، صدقہ، تلاوت، ذکروتسبیح،طواف ،حج، عمرہ کے علاوہ انبیاء وصالحین کے قبروں کی زیارت یاتکفین ہو،ہرقسم کے نیک اعمال اور عبادتیں شامل ہیں۔علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نفلی صدقہ میں پوری امت مسلمہ کے ایصال ثواب کی نیت کرناافضل ہے؛کیوں ایساکرنے میں سبھی کوثواب بھی مل جائے گا اور اس کے اجرمیں سے کچھ کم بھی نہ ہوگا۔ اورقرآن کی آیت:’’وان لیس للانسان الاماسعی‘‘(سورۃ النجم:۳۹) ان باتوں کے منافی نہیں ہے۔چنانچہ علامہ شامی فرماتے ہوئے لکھتے ہیں: الأصل اَن کل من أتی بعبادۃ ما،لہ جعل ثوابھا لغیرہ وان نواھا عند الفعل لنفسہ ؛لظاھرالادلۃ۔واماقولہ تعالی :وأن لیس للانسان الاماسعی(النجم:۳۹)أی الا اذا وھبہ لہ ، کماحققہ الکمال،أو اللام بمعنی علی کمافی ’’ولھم اللعنۃ‘‘(غافر:۵۲)ولقد افصح الزاھدی عن اعتزالہ ھنا  واللہ الموفق۔(قولہ:بعبادۃ ما)أی سواء کانت صلاۃً،أو صوماً، أوصدقۃً، أو قراء ۃً، أو ذکراً، أو طوافاً،أو حجاً، أو عمرۃً،أو غیرذٰلک من زیارۃ قبور الأنبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام ،والشھداء والأولیاء والصالحین ، وتکفین الموتی ،وجمیع انواع البر،کمافی الھندیۃ،وقدمنافی الزکوٰۃ عن التٰتارخانیۃ عن المحیط: الأفضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤ منات ؛لأنھا تصل الیھم ولاینقص من اجرہ شیء۔(ردالمحتارعلی الدرالمختار:۲؍۵۹۵)
مسئلہ:میت کی جانب سے قربانی کی دوصورتیں ہیں۔اول یہ کہ میت نے وصیت کررکھی ہو اوراس کے لیے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تومیت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کاپوراگوشت صدقہ کیاجائے گا ۔دوسری یہ کہ وصیت توکی ہو مگرمال نہ چھوڑا ہو یارشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچاناچاہے توان دونوں صورتوں میں قربانی کاگوشت خودبھی کھاسکتا ہے۔یہاں یہ بات بھی بتادینامناسب ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد مرحومین کوثواب میں شامل کیاجاسکتا ہے ؛لیکن میت ہی کے نام سے قربانی کرناچاہیں تو ایک میت کی طرف سے پوراایک حصہ ضروری ہے،تاہم کئی آدمی مل کر مشترک طورپر حضورصلی اللہ علیہ وسلم یامیت کے نام سے قرانی کریں توشرعاجائز ہے ۔وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ :اذبحوعنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل۔ (الدرالمختارکتاب الاضحیہ:۹؍۴۷۱،البحرالرائق :۸؍۳۲۵)
غورکرنے کی بات ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میںامت کویادرکھا تو افسوس ہے کہ امتی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یادنہ رکھیں اور ایک جانور آپ کی طرف سے نہ دیاکریں۔لہذاجس شخص کے پاس گنجائش ہووہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرے ،اجرعظیم کامستحق ہوگا۔ 
جانور ذبح کرنے کے چند آداب:
٭ جانور کونرمی اور اچھے طریقہ سے ذبح کی جگہ لے جانا۔  ٭ذبح کے وقت جانور بھوکاپیاسانہ ہو۔  ٭گائے،بھینس بکراوغیرہ کونرمی سے بائیں پہلوپرلٹاکر اس کامنہ قبلہ کی طرف کیا جائے اس طرح سے کہ اس کاسرجنوب کی طرف اور دھڑ شمال کی طرف ہو۔  ٭اونٹ کو کھڑے ہونے کی حالت میں نحرکرنا سنت ہے اور بٹھاکریالٹاکر ذبح کرناسنت نہیں ہے ۔  ٭بڑے جانور کے ہاتھ پاوں باندھ دینا چاہئے ۔  ٭باوضوہوکر دائیں ہاتھ سے ذبح کرنا۔  ٭تیزدھاروالی چھری سے تیزی سے ذبح کرنا۔  ٭ذبح کرتے وقت زبان سے بسم اللہ اللہ اکبر کہنا  ٭چاررگوں حلقوم (سانس کی نلی) مرئی (کھانے کی نلی ) ودجین (خون کی دورگیں جو شہ رگ کہاجاتاہے) کاکاٹنا لازم ہے ۔اگر تین رگیں کٹ جائیں توبھی کافی ہے۔لیکن صرف دورگیں کٹ جائیں تو مذبوحہ حرام ہوگا۔
جانورذبح کرنے کے چند مکروہ کام:
٭ ذبح کے آلات کو جانور کے سامنے لہرانا یا ان کے سامنے تیز کرنا۔  ٭ اس قدر کندچھری سے ذبح کرنا کہ ذابح کو زور لگاناپڑے۔  ٭ایک جانور کو دوسرے جانوروں کے سامنے ذبح کرنا۔  ٭ ذبح میں چار رگوں کے علاوہ چھری کی نوک سے حرام مغز کی نالی کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کے دوران جانور کا سینہ کھول کر اس کے دل کو کاٹنا۔  ٭ ذبح کرتے ہوئے جانور کی گردن توڑنا۔  ٭ جانور کی روح نکلنے اور ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کی کھال اتارنا یا اعضا کو کاٹنا۔  ٭ رات کے وقت ذبح کرنا جبکہ روشنی کاصحیح انتظام نہ ہو کیوں اس بات کااندیشہ ہے کہ کوئی رگ کٹنے سے رہ جائے ۔ اور اگر روشنی کا اچھا انتظام ہوتو مکروہ نہیں۔   ٭ اونٹ کے علاوہ دوسرے جانوروں کو کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا ۔  ٭اونٹ کے زمین پر گرنے کے بعد اس کی گردن کو تین جگہ سے کاٹنا اس لیے کہ یہ بلاوجہ تکلیف دیناہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے