قربانی جیسی عظیم عبادت کو رسم اور دنیاوی تہوار نہ بنائیے !

قربانی جیسی عظیم عبادت کو رسم اور دنیاوی تہوار نہ بنائیے !

نائب قاضی شریعت واستاذ مدرسہ بدرالاسلام بیگوسرائے

    عظیم الشان عبادت قربانی کے اندر ایک عظیم مقصد پنہا ہے اور وہ ہے احکام الہی کے آگے سرتسلیم خم کرنا کہ بندہ اپنے رب کی اطاعت وفرماں برداری کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ۔اللہ کے لیے اپنی جان،مال، اولاد اور خواہشات سمیت ہرچیز کوقربان کرنے سے دریغ نہ کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں شریعت کی پیروی کرے ۔یہی قربانی کی حقیقت اور فلسقہ ہے۔یہی ہرسال قربانی کرنے کاسبق ہے کہ ہمیں رضائے الہی کے لیے سب کچھ قربان کرناآجائے ۔سنت ابراہیمی سے سب سے بڑا درس بھی یہی ملتا ہے کہ اللہ کاحکم پورا کرنے کے لیے والد نے بیٹے کو قربان کرنے میں ذرہ برابر بھی تامل نہیں کیا اور اللہ کاحکم بذریعہ خواب ملتے ہی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور سعادت مند بیٹا نے بھی اللہ کے حکم کی تعمیل میں کوئی پس وپیش کئے بنا ہامی بھردی بلکہ بوقت ذبح والد کواپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لینے کی نصیحت بھی کی جوا دا رب کائنات کو بے حد پسند آیا ااور اسے ہمیشہ کے لیے زندہ وتابندہ بنادیا ۔الحاصل حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کیا۔ قرآن پاک کے سورہ الصافا ت میں اس عظیم واقعہ کاتفصیلی ذکر ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کرنے کو محض ایک عمل نہ سمجھاجائے بلکہ اس کامقصد اور فلسفہ سمجھ کر اس سے سبق حاصل کیا جائے۔
    قربانی کی عظیم عبادت کاحاصل اللہ کی رضا اور خوشنودی ہے بس! اس کاتقاضا یہ ہے کہ قربانی کی عبادت کی انجام دہی میں قدم قدم پر یہی فکر اور خیال مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ خالص عبادت ہے اور اس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہے ؛اس لیے قربانی کاجانور خریدنے، اس کی دیکھ بھال کرنے، اس کو ذبح کرنے، اس کاگوشت تقسیم کرنے اور اس کے حصے بناکر غریبوں اور رشتہ داروں میں بانٹنے تک کے تمام مراحل میں یہ تصور دل ودماغ سے اوجھل نہ ہونے پائے کہ یہ قربانی عبادت ہے اور اسے عبادت کی طرح عبادت کی نیت سے انجام دنیاہے تاکہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوسکے۔
جب قربانی کے تمام مراحل میں اس کے عبادت اوردینی شعار ہونے کاخیال اپنی نگاہوں میں رکھاجائے گا تو اس کے بہترنتائج ظاہر ہوں گے ۔چنانچہ اس کی وجہ کر ہمیں قربانی بوجھ اور مالی نقصان محسوس نہیں ہوگا بلکہ ہم خوشی خوشی اللہ کاحکم سمجھ کرقربانی کریں گے۔ قربانی کاجانور خریدنے سے لیکر اس کے گوشت کی تقسیم کے معاملے تک ہم اس کے شرعی احکام معلوم کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر ہرقدم پر ہم شریعت کے احکام کوبجالائیں گے۔ ہماری نیت میں اخلاص وللہیت ہوگی اور ریاکاری اور نام ونمود سے گریز کریں گے۔ اورکسی قسم کے گناہ کے ارتکاب سے بھی بچیں گے ۔اورپھران باتوں کانتیجہ یہ ہوگا کہ قربانی عبادت ہی برقرار رہے گی اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگی۔
    جب کہ قربانی کے موقع پر عبادت کاتصور دل ودماغ میں برقرارنہیں رکھنے کی صورت میں اس کے برے نتائج سامنے آئیں گے۔چنانچہ ہم قربانی کوایک بوجھ سمجھ کر بے دلی کے ساتھ اداکریں گے۔ اس سے متعلق شرعی احکام کونہ سیکھنے کی کوشش کریں گے اور نہ ہی شریعت کے ان احکامات کی پاسداری کی فکر ہوگی ۔ریاکاری اور نام ونمود کاجذبہ ہوگا اور ہم گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔ اورپھر ان باتوں کا نتیجہ ہوگا کہ قربانی میں عبادت کی روح برقرارنہیں رہتی بلکہ یہ ایک دنیاوی تہوار اور محض رسم بن جاتا ہے ۔ایسی صورت حال میں ہماری قربانی اللہ کی بارگاہ میں کیسے قبول ہوسکے گی۔موجودہ زمانے میں جوصورت حال نظر آرہی ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے ۔اگرہم نے اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کی اور خود کو ان برائیوں سے نہیں بچایا تو رفتہ رفتہ قربانی عبادت کی بجائے ایک دنیاوی رسم بن جائے گی اور نئی نسلیں اس کی حقیقت سے محروم رہ جائیں گی۔ اللہ تعالی ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے ۔آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے