افق علم فضل کا ایک اور ستارہ ٹوٹا


افق علم فضل کا ایک اور ستارہ ٹوٹا

شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

قیامت کی نشانیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ وارثین انبیاء اور علماء اسلام کو روئے زمین سے اٹھالیا جائے گا،اساطین امت کی بہت تیز ی سے اور مسلسل اس جہان عارضی سے رحلت ذہن کو دماغ کو بے ساختہ اس علامت کی طرف لے جاتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ دنیا کی مدت اب بہت ہی کم رہ گئی ہے، اور قیامت کی منزل بہت قریب ہوچکی ہے۔

شوشل میڈیا کے واٹس ایپ پر ایک سروے ،جو  اس حوالے سے برصغیر کے علماء و صلحاء اور محققین کے متعلق گردش کررہا ہے'اس کی روشنی میں تقریباً صرف ایک سال کے عرصے میں سو علماء وصالحین کی رحلت ہوچکی ہے، ابھی تو چند ہی روز ہوئے ہیں کہ ملت اسلامیہ ہند کا عظیم سپوت اور ملی وقومی خدمات سے لیکر علمی و اصلاحی کارناموں کی ایک تاریخ رکھنے والی ذات مولانا متین الحق اسامہ قاسمی کانپوری نے ہمیشہ کے لیے آخرت کے سفر پر روانہ ہوئے ہیں،ابھی تو ان کی رحلت سے فضا کی سوگواری کا رنگ بھی نہیں بدلا، ابھی ملت ان کے غم کے حصار سے باہر بھی نہیں آئی،غضب یہ ہے کہ ابھی ان کی شخصیت اور خدمات کے حوالے سے تغزیتی اور تاثراتی تحریروں کا سلسلہ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ علم وفضل کے آسمان کا ایک اور ستارہ ٹوٹ کر گر گیا، اور سہارنپور نہیں بلکہ ملک کی دینی،علمی شخصیت مولانا سلمان صاحب ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارنپور اس جہان بے ثبات سے رخصت ہو گئے،اور ملک کی سوگوار فضا کو مزید ماتمی کیفیت دے گئے، امت ابھی ایک غم سے سنبھلنے نہیں پائی تھی دوسرے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔۔

،،ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے،،

حضرت مولانا سلمان صاحب ایک جید عالم دین بھی تھے اور علماء ومشائخ کے علوم ومعارف کے امین بھی، وہ ایک باصلاحیت مدرس بھی تھے اور فقہ وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے محقق اسلام بھی، فیاض ازل نے انہیں ذہانت و فطانت،اور واقعات ونتائج کی تہ تک رسائی حاصل کرنے والی زبردست فراست سے نوازا تھا ، انھوں نے ان صلاحیتوں کو استعمال کیا اور مکمل شوق وتڑپ اور جنون کی حد تک جذبہ علم کے تحت تعلیمی مراحل میں اسلامی علم کے تمام مروجہ فنون پر توجہ کی اور مکمل دسترس حاصل کی، ان کی علمی و تحقیقی صلاحیتوں کے متعلق ان کے ہمعصر اور ہندوستان کے جلیل القدر عالم اور اہل سنت والجماعت کے ترجمان مولانا عبدالعلیم فاروقی کہتے ہیں کہ،، مولانا سلمان صاحب اپنی ذہانت وصلاحیت اور جد وجہد کی بنیاد پر اس وقت کے اساتذہ کرام خصوصآ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی علیہ الرحمہ کے نہایت منظور نظر تھے، اسباق میں عبارت اکثر یہی پڑھتے اور مسلسلات جو حدیث کی مخصوص کتاب کا درس ہے اس میں تو مرحوم نے پانچ گھنٹے تک عبارت خوانی کی اور کمال یہ ہے کہ ریڈنگ کے سفر میں نہ کہیں زبان کی رفتار میں کمی آئی اور نہ ہی کہیں کسی قسم کی کوئی غلطی ظاہر ہوئی، انہیں عربی اور اردو دونوں زبانوں پر قدرت تھی،حضرت شیخ نے آخری وقت میں فن حدیث میں اپنی شہرہ آفاق اور عظیم المرتبت کتاب،،الابواب والتراجم،، تعلیقات بذل المجہود،،جزء حجۃالوداع،،وغیرہ کی تکمیل مولانا عاقل صاحب کے ساتھ انہیں بھی سونپی تھی، اس تحقیقی کام کے لئے وقت کے جلیل القدر محدث کے انتخاب سے آپ کی علمی گہرائی،فن حدیث پر دسترس اور تحقیقی قوت کا اندازہ ہوتا ہے، اب تک ہمارے ذہن میں آپ کی تصویر محض ایک بصیرت مند اور صائب الرائے اور انتظامی صلاحیتوں کے حامل ایک قائد کی تھی،لیکن نگاہوں کے سامنے آپ کے سوانحی خاکے کی رونمائی کے بعد آپ کی علمی جلالت اور تحقیقی آفتاب کی روشنی کا اندازہ ہوا، جو نظامت اور اہتمام کی ذمہ داریوں کے گہرے بادلوں میں روپوش ہوگئی، یقیناً آپ کی زندگی کے تنوعاتی جہانوں کا یہ ایک تابناک پہلو ہے'، جو عام طور سے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہے، مولانا سلمان صاحب ایک بہترین اور کامیاب منتظم بھی تھے دنیا نے اسی حوالے سے آپ کو جانا اور اسی پہلو کی طویل خدمات کی وجہ سے پہچانا ہے'،آپ کی نظامت میں تعلیمی وتربیتی شعبوں کے علاوہ مدرسہ مادی ترقی میں بھی تیز رفتاری سے رواں دواں رہا ہے'،آپ کی نگرانی میں شیخ زکریا نامی منزل کی خوبصورت اور جدید تعمیراتی ساخت میں وجود میں آئی، مرکزی عمارت کی توسیع وتزئین ہوئی،تعلمی اعتبار سے شعبہ تخصص فی الحدیث کا قیام ہوا، طلباء کی تعداد میں خاصی مقدار میں اضافہ ہوا، تدریسی معیار میں اور طلباء کی رہائش گاہوں اور درس گاہوں میں وقت کے مطابق سہولیات عمل میں آئیں، غرض ہر لحاظ سے مدرسہ نے ظاہری اور روحانی ارتقاء کے مدارج طے کئے، ماہ صفر 1413/ھ مطابق اگست 1992/مظاہر علوم کی مجلس شوریٰ نے آپ کو باقاعدہ نائب ناظم مقرر کیا اور آپ کی فراست،بصیرت اور  حسن کارکردگی کی بنیاد پر 13/ربیع الاول 1417/مطابق 30جولائی1996/ میں باضابطہ ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا،اس کے بعد سے تاحال  مکمل خلوص اور انتھک جد وجہد سے مدرسہ کی تعمیر وترقی میں کوشاں رہے،اور اس ادارے کو بام عروج پر پہونچانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں اور پوری قوتیں جھونک دیں، یہاں تک کہ مالک کون ومکاں کی طرف سے وقت موعود آیا اور 28/ذی قعدہ 1441ھ مطابق 20/جولائی 2020ءبروز دوشنبہ پانچ بجے شام کو مختصر علالت کے بعد جہد مسلسل کی راہوں پر ترقی کی بے شمار منزلوں کو عبور کرتے ہوئے اس دارفانی سے ہمیشہ کیلیے   آپ رخصت ہوگئے، اور مظاہر علوم کے دروبام کے علاوہ علم وتحقیق کی فضاؤں کو سوگوار کرگئے ۔
خدا رحمت کند ایں پاک طینت عاشقان را
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی
8767438283

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے